متفرق مضامین

چین میں اسلام – صحابہ کرامؓ کے ذریعہ اسلام کا نفوذ اور چینی مسلمانوں کی مختصر تاریخ

(انیس احمد ندیم۔ مبلغ انچارج جاپان)

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اور تربیت سے فیضیاب ہونے والے صحابہؓ نے آپؐ کی وفات کے بعد اسلام کی تبلیغ واشاعت کے جو کامیاب نقوش دنیا میں چھوڑے چین میں اسلام کا نفوذ اس کی ایک درخشاں مثال ہے۔ جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ اسلام دنیا میں تلوار یا طاقت کے زور سے پھیلا چینی قوم کا قبولِ اسلام اس اعتراض کا کافی و شافی جواب ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :

’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ بھی اشاعتِ اسلام کے واسطے دُور دراز ممالک میں جایا کرتے تھے۔ یہ جو چین کے ملک میں کروڑوں مسلمان ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں بھی صحابہ میں سے کوئی شخص پہنچا ہوگا‘‘

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 682، ایڈیشن1988ء)

تاریخی روایات کے مطابق مسلمانوں اور چین کے مابین اولین روابط (Tang Dynasty(618~907میں قائم ہوئے۔ اس سلسلہ میں دو تین مختلف روایات ملتی ہیں۔ ان تاریخی حوالوں کے مطابق:

تانگ عہد کے دسویں بادشاہ ’’شیو چونگ‘‘نے ہمسایہ ریاست خراسان کے مسلمان والی سے کسی معاملہ میں مدد کی درخواست کی۔ خراسان کے مسلمانوں کی مدد کے نتیجہ میں چین، میں استحکام پیدا ہوا اور بادشاہِ وقت نے غیر معمولی خوشی ومسرت سے مسلمانوں کو اپنے ہاں پناہ دی۔ اس حوالے سے تاریخی شواہد بتاتے ہیں کہ

’’شیو چونگ نے جب دیکھا کہ مسلم فوج آخر فتح یاب ہوئی، تو ان سے اس قدر خوش ہوا کہ فرط مسرت کی حالت میں ان کا خاص مہمان کی حیثیت سے اکرام واعزاز کیا اوراس نے ان کو یہ اجازت دی کہ مسلمان اپنی طبیعت کے مطابق دارالسلطنت میں سکونت اختیار کرسکتے ہیں اور چینی عورتوں سے شادی بھی کر سکتے ہیں۔‘‘

(چینی مسلمان از بدر الدین چینی صفحہ10مطبوعہ معارف پریس اعظم گڑھ 1935ء)

’’چین میں اشاعت اسلام کے متعلق ایک اور روایت ہے کہ ’’چونگ ‘‘کے زمانہ (841ءسے 847ء) میں ہزاروں مسلمان ماوراء النہر سے چین کی طرف ہجرت کرکے آئے اور بادشاہ چین سے درخواست کی کہ ان کو اپنی رعایا میں شامل کرلیا جائے۔ بادشاہ چین نے ان کی درخواست منظور کرلی اور KansuاورShensiدو صوبوں کو ان کی سکونت کے واسطے مقرر کر دیا۔ عمل اور کسب معاش میں وہ بالکل آزاد تھے۔ ان کو یہ بھی اجازت تھی کہ جہاں وہ رہیں وہاں شادی کر لیں۔ چینی عورتوں کے ساتھ شادی کرنے کی وجہ سے ان کی تعداد بہت بڑھ گئی ‘‘۔

(چینی مسلمان از بدر الدین چینی صفحہ 11مطبوعہ معارف پریس اعظم گڑھ 1935ء)

چین میں ابتدائے اسلام میں ہی مسلمانوں کی بودو باش سے متعلق ایک حوالہ اس طرح ملتا ہے :

’’ہزاروں مسلمان دارالسلطنت میں مہمان کی حیثیت سے رہتے ہیں، ان کے لباس اجنبیوں کے لباس ہیں، وہ دن رات چینیوں کے ساتھ مل جل کر رہتے ہیں۔ شہر جانگ ان میں مسلمان تاجروں کی تعداد مہمانوں کی تعداد سے دگنی ہے۔ بادشاہ چین نے ان کے لئے خاص سرائے تعمیر کر رکھی ہے اور وہ اس میں رہتے ہیں ‘‘(تاریخ دولت تانگ بحوالہ چینی مسلمان از بدر الدین چینی صفحہ 12 مطبوعہ معارف پریس اعظم گڑھ 1935ء)

مذکورہ بالا روایات کے علاوہ مزید تاریخی شواہداس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ خلفائے راشدین کے عہد مبارک میں ہی مسلمان مبلغین چین بھجوائے گئے۔ ان بزرگ صحابہ کی یادگاریں اور پاکیزہ نقوش آج بھی چین میں محفوظ ہیں۔ بحری راستوں سے تشریف لانے والے ان مبلغینِ اسلام کا ذکر ان الفاظ میں ملتا ہے :

’’بحری راستہ سے جولوگ آئے تھے وہ خلفائے راشدین کے زمانہ میں تھے اور خشکی کے راستہ جو لوگ آئے تھے وہ خلفائے بنی امیہ کے زمانہ میں جبکہ یہ چار مبلغ چین میں داخل ہوئے تو ان میں ایک نے شہر CANTONمیں سکونت اختیار کر لی، دوسرے نے شہر YANG CHOWاور تیسرے اور چوتھے نے شہر CHUANGCHOWمیں۔ آج ہم کوشہر ’’کنٹن‘‘ میں ایک پرانی مسجد جو ’’دائی شن زی‘‘کے نام سے موسوم ہے نظر آتی ہے اور اس میں ایک اونچا منارہ ہے جس میں اذان کی آواز آج تک گونجتی رہتی ہے، ان دونوں چیزوں میں عرب کے فن تعمیر کی جھلک نظر آتی ہے‘‘۔

(چینی مسلمان از بدر الدین چینی صفحہ 14مطبوعہ معارف پریس اعظم گڑھ 1935ء)

خلفائے راشدین کے دَور مبارک میں چین میں اسلام کی بنیاد پڑی۔ بلکہ بعض روایات کے مطابق حضرت سعد بن ابی اوقاص رضی اللہ عنہ تبلیغ اسلام کے لیے چین تشریف لے گئے اور بعض مقامات پر ان کی قبر چین میں ہونے کا بھی ذکر ملتا ہے۔ گو کہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی چین آمد والی روایات غیر مستند ہیں لیکن کم از کم اس بات پر شاہد ناطق ہیں کہ چین میں اسلام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کی کاوشوں کا مرہون منت ہے۔

صحابہ کی پاکیزہ حیات اور کردار سے چین میں اسلام کا جو بیج بویا گیا اس نے چین کی تاریخ پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ چین کی تاریخ پر کام کرنے والے محققین بر ملااس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ چین نے مسلمانوں کے علوم وفنون سے بھر پور استفادہ کیا ہے۔ خصوصا ًہلاکو خان کے ہاتھوں بغداد کی تباہی اور خلافت عباسیہ کے خاتمہ کے بعد جب اسلامی علوم و فنون کی روشنی ماند پڑنا شروع ہوئی تو جن ممالک اور خطوں میں یہ قیمتی ورثہ محفوظ و مامون رہا چین بھی ا ن میں سے ایک ہے۔

چینی بادشاہوں نے سپہ گری کے علاوہ شفاخانوں، تاریخ اور الہٰیات کے علم کی نگرانی مسلمانوں کے سپرد کر رکھی تھی۔ بلکہ چودھوی صدی عیسوی کی ایک تاریخی شہادت کے مطابق مسلمانوں کے لیے الگ سے قضاء یا افتاء کا شعبہ قائم تھا اور اس کے نگرا ن کا مرتبہ مفتی اعظم کی طرز کا تھا۔ ان کے فرائض کے متعلق یوں ذکر ملتا ہے کہ

’’شیخ الہادی کا کام یہ ہے کہ مذہبی رسوم قائم کر ے، دعا و صلوٰة میں مشغول رہے اور قرآن لوگوں کو سنائے اور مقدمات جو ہیں قاضی القضاة کا فرض ہے کہ ان کو فیصل کرے ‘‘۔

(چینی مسلمان از بدر الدین چینی صفحہ 27مطبوعہ معارف پریس اعظم گڑھ 1935ء)

چین کی مشہور اقوام خمسہ اور ان میں مسلمانوں کی حیثیت

چین میں 1911ء میں Xinhaiانقلاب برپا ہوا تو اس کی بنیاد Five Races Under One Union پر رکھی گئی۔ گوکہ چین میں 50 کے قریب نسلی گروہ آباد ہیں لیکن 1911ء کے اتحاد میں شامل پانچ چینی اقوام درج ذیل ہیں :

1۔ ہان، 2۔ مانچو، 3۔ منگول، 4۔ ہُوئی، 5۔ تبتی

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ چین ان پانچ مختلف اقوام کے متحدہ علاقہ کا نام ہے لیکن ان قوموں میں ’’ہان‘‘ قوم چین کے اصلی باشندے تصور ہوتے ہیں۔ بیرونی دنیا سے دیکھیں تو چین میں رہنے والا ہر شخص چینی کہلاتا ہے لیکن جب چین کی اندرونی تقسیم کی بات کی جائے تو ’’ ہاننی‘‘ چینی اپنے آپ کو ’’ ہان‘‘ قوم کا فرد کہہ کر متعارف کرواتے اور اس پر فخر محسوس کرتے ہیں۔

ہاننی قوم ملکِ چین میں سب سے زیادہ مہذب اور متمدن تصور کی جاتی ہے اور ان کی تہذیب، اخلاقیات اور علوم و فنون میں ایک خاص جذب اور کشش پائی جاتی ہے جس وجہ سے یہ قوم صدیوں سے اس خطہ میں ممتاز اور نمایاں حیثیت کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ ہاننی قوم کے اس قومی تفاخر کی وجہ سے بسا اوقات دیگر قوموں کی طرف سے حاسدانہ خیالات پیدا ہوتے اور تصادم کا بھی خدشہ اُبھرتا ہے۔ لیکن یہاں صرف اس بات کا اظہار مقصود ہے کہ ’’ ہان ‘‘ قوم ان اقوام خمسہ میں ایک خاص حیثیت اور امتیاز کی حامل تصور کی جاتی ہے۔ جس کے بعد Huiقوم چینی اقوام میں ایک ممتاز حیثیت کی حامل سمجھی جاتی ہے۔

زیادہ تر چینی مسلمان Huiقبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ’’ہوئی ‘‘قوم کا شمار چین کی اقوام خمسہ میں ہوتا ہے اور ’’ہوئی‘‘ مسلمان چین کے مختلف علاقوں میں بودو باش رکھتے ہیں۔ ’’ہوئی‘‘ مسلمان چین میں خاص عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ چینی اقوام میں مسلمانوں کومعتبر اور ممتاز سمجھنے کی وجوہات کا جائزہ لیں تو درج ذیل چند وجوہات سامنے آتی ہیں :

٭… چینیوں میں یہ خیال پایاجاتا ہے کہ بے شک Huiلوگوں کا مذہب ہم سے مختلف ہے مگر صرف مسلمانوں میں ہی شادی کرنے اور نکاح کے دستور کی وجہ سے Huiنسل خالص چینی خون پر مشتمل ہے۔

٭… ’’ ہُوئی ‘‘ مسلمان زیادہ تر چینی زبان بولتے ہیں، گوکہ عربی اور فارسی جاننے والے مسلمان علماء اور بزرگان بھی موجود ہیں مگریہ قوم عمومی طور پر خالص چینی زبان بولتی ہے۔

٭…اسلامی تعلیم کی برکت سے ان میں حب الوطنی کا ایک خاص جذبہ موجود ہے۔ اس وجہ سے اس گروہ کی طرف سے چینی حکومت کے خلاف کبھی باغیانہ روش سامنے نہیں آئی۔ بلکہ تاریخی حقائق اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ اکثر چینی بادشاہ اور حکومتیں مسلمان فوجی افسروں پر اعتبار کرتیں اور ان کی خدمات سے استفادہ کرتی چلی آرہی ہیں۔

٭…’’ہوئی ‘‘قوم اسلام قبول کرنے کے بعد بھی مقامی رسم و رواج کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی آئی ہے۔ حتیٰ کہ ’’ہوئی‘‘ مسلمان اپنی مساجد مقامی چینی معابد کے ڈیزائن کی طرز پر ہی تعمیر کرتے ہیں۔

٭…’’ہوئی ‘‘مسلمان قدیم چین مذاہب خصوصاً کنفیوشن مت کو اسلام کے قریب تر مذہب خیال کرتے ہوئے یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ کنفیوشن مت کی اخلاقی تعلیم اور اسلامی تعلیم میں ایک خاص ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ بلکہ بعض علماء کے نزدیک ایک سچا مسلمان ہی ہے جو حضرت کنفیوشس کی تعلیم اور اخلاقیات کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

چین کی دیگر مسلمان اقوام

’’ہوئی ‘‘مسلمانوں کے علاوہ چین میں ’’تبتی ‘‘مسلمان اور’’ایغور‘‘ مسلمان بڑے نسلی گروہ ہیں۔ ان کے علاوہ چینی نسل کے قزاق، تاجک، تاتار، بونان، سالار اور ازبک نسل کے مسلمان بھی آباد ہیں۔ ایغور مسلمان چین میں علیحدگی پسند تصورکیے جاتے ہیں، اس لیے عموماً اس گروہ اور چینی حکام کےمابین تصادم کی خبریں سامنے آتی رہتی ہیں۔ لیکن زیادہ تر مسلمان گروہ چین میں محب وطن اور مقامی زبان اور روایات کے امین سمجھے جاتے ہیں۔

حب الوطنی چینی مسلمانوں کا طرۂ امتیاز

کچھ عرصہ قبل چینی صدر کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں چینی صدر چین کی ایک مسجد کا دورہ کرتے ہوئے اور مسجد کے امام او ردیگر مسلمانوں سے باتیں کرتے ہوئے دیکھے جاسکتے ہیں۔ بعض مسلمان حلقوں نے اس ویڈیو کو کورونا وائرس سے منسوب کیا کہ گویاچینی صدر مسلمانوں سے دعا کی درخواست کرنے آئے ہیں۔ لیکن اصل میں یہ ویڈیو کئی سال پرانی ہے اور چین میں سیاستدانوں کا مسجد کا دورہ کرنا اور مقامی مسلمانوں سے میل ملاپ بالکل معمول متصور ہوتا ہے۔

ویڈیو دیکھنے والوں نے مسجد میں یہ بات نوٹ کی ہوگی کہ مسجد کے صدر دروازہ پر اور محراب کے اوپر بھی چینی اور عربی زبان میں ’’وطن سے محبت ‘‘کے بارے میں کلمات لکھے ہوئے تھے۔

اسی طرحMarshall Broomhallاپنی تصنیف Islam in Chinaمیں لکھتے ہیں کہ انہوں نے اپنے چین کے سفر کے دوران ایسی مساجد دیکھیں جن کے باہر بورڈ آویزاں تھے اور ان پر ’’بادشاہِ وقت زندہ باد‘‘ کے الفاظ تحریر تھے۔

(Islam in China by Marshall Broomhall page 290)

مسلمانوں کے اسی جذبہ حب الوطنی اور حکومت وقت کی اطاعت کی تعلیم کو دیکھتے ہوئے مسلمان چینی بادشاہوں اور حکومتوں کے مقرب رہے ہیں۔ چینی تاریخ پر محض سرسری نظر ڈالنے سے ہی یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ چین میں ہر دَور میں فوج میں سپاہیوں کے علاوہ مسلمان فوجی افسر چینی حکام کے شانہ بشانہ اپنے ملک و قوم کی حفاظت کرتے نظر آتے ہیں۔

محمدنام کے تین مشہور چینی جرنیل

گوکہ چین میں مسلمان ہمیشہ ہی علوم و فنون کے میدان میں نمایاں حیثیت کے حامل رہے ہیں لیکن Chiang Kai-shekکے دور میں فوجی خدمات میں جو عروج مسلمانوں کو نصیب ہوا اس کی مثال چین کی تاریخ میں نہیں ملتی۔

چیانگ چی شیک نے صدر کا عہدہ سنبھالتے ہی شمال مغرب میں واقع تین بڑے صوبوں کی گورنری تین مسلمان جرنیلوں کے سپرد کی۔ ان تین مسلمان جرنیلوں کے نام

Ma Hongkui, Ma Hongbinاور Ma Qi تھے۔ یہاں Maسے مراد چینی نام محمد ہے۔ اور یہ تینوں جرنیل چینی زبان میں Xibei San Maیعنی شمال مغرب کے تین محمد کے نام سے مشہور ہیں۔

چینی مسلمانوں کے نام

چینی مسلمان عام طور پر Chinese نام ہی رکھتے ہیں۔ بسا اوقات چینی نام کے ساتھ ساتھ عربی یا فارسی نام رکھنے کی روایت بھی موجود ہے، لیکن جس طرح برصغیر میں محمد، احمد، حسن اور حسین جیسے نام رکھنے کا رواج ہے بعینہٖ اسی طرح چینی اقوام بھی اپنے ناموں کے ساتھ مسلمان surname استعمال کرتی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کے لیے مخصوص چینی تلفظ ہے جس کی وجہ سے اس بات سے ناواقف شخص اندازہ نہیں لگا سکتا کہ آیا یہ کوئی چینی نام ہے یا اس کے کوئی اسلامی معنی ہیں۔ چینی مسلمانوں میں مستعمل بعض بہت commonاسماء درج ذیل ہیں :

Ma for Muhammad

Mu for Muhammad

Cai for Usman

Ha for Hasan

Hu for Hussain

Sai for Saeed

چین میں مسلمانوں کی تعداد

چین میں مسلمانوں کی تعداد کے حوالے سے کوئی معین اور حتمی اندازہ لگانا مشکل ہے۔ لیکن یہ بات یقینی ہے کہ چینی مسلمانوں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ حضرت چوہدری سر ظفراللہ خان صاحب رضی اللہ عنہ نے 1942ء میں اپنے چین میں قیام کے دوران چینی مسلمان رہ نماؤں سے ملاقات کا احوال لکھتے ہوئے بیان فرمایا ہے کہ

’’ مجھے معلوم ہوا کہ چین میں قریبا ًچار پانچ کروڑ مسلمان ہیں جو زیادہ تر شمال مغربی علاقوں میں آباد ہیں۔ ان دنوں ان علاقوں میں بنکنگ کا زیادہ تر کاروبار مسلمانوں کے ہاتھ میں تھا۔ تین صوبوں کے گورنر مسلمان تھے‘‘۔

(تحدیث نعمت صفحہ 454)

اسی طرح بعض اندازوں کے مطابق چین میں مسلمانوں کی مساجد کی تعداد 39,000کے قریب ہے۔ چین کے ’’ہوئی‘‘مسلمان اپنی مساجد چینی طرز تعمیر کے مطابق عام چینی معابد کی طرح تعمیر کرتے ہیں جبکہ بعض مسلمان عرب اور ترکی فن تعمیر سے متاثر ہونے کی وجہ سے اپنی مساجد عربی عمارات کی طرز پرتعمیر کرتے ہیں۔

چین میں اسلام کو سمجھنے کے لیے ’’ہان کتاب‘‘ کی تصنیف

اٹھارھویں صدی عیسوی میں Qing dynasty کے دوران چین کے مشہور مسلمان سکالرز نے ایک ضخیم کتاب تصنیف کی۔ اس کتاب کو Han Kitabکہا جاتا ہے۔ اس کتاب کا مرکزی خیال یہ ہے کہ کنفیوشن ازم اور اسلام کی تعلیمات میں بہت زیادہ ہم آہنگی پائی جاتی ہے اور اسلام ہی وہ مذہب ہے جس کے پیرو کنفیوشس کی تعلیم کو سمجھ سکتے ہیں۔ اسلام کے بارےمیں مشہور جرمن سکالر Gerhard Böweringلکھتے ہیں :

The most important achievement of the authors of Han Kitab, however, was their far-reaching and deeply rooted harmonization of Muslim thought with the Confucian vision and order of society. Now, Chinese Islam was established, firmly rooted in both the Islamic and the Confucian traditions

(PRELIMINARY OBSERVATIONS ON ISLAMIC ETHICS IN THE CHINESE CONTEXT by Gerhard Böwering of Yale University Journal of International Business Ethics Vol.5 No.2 2012 page 9)

چینی زبان میں تراجم قرآن کریم

چینی زبان میں سب سے پہلے مترجم قرآن کا اعزاز ایک چینی مسلمان Yusuf Ma Dexinصاحب کو حاصل ہوا جو1874ء میں فوت ہوئے۔ لیکن چین میں پہلا ترجمہ قرآن کریم منظر عام پر آنے میں کئی سال لگے اور 1927ءمیں چینی زبان میں پہلا ترجمہ شائع ہوا۔ اس وقت چینی زبان میں قرآن کریم کے متعدد تراجم موجود ہیں۔

جماعت احمدیہ کی طرف سے بھی خلافت رابعہ میں چینی زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ شائع ہوا ہے۔ یہ ترجمہ جماعت کے ایک بزرگ عالم اور خادم سلسلہ مکرم عثمان چُو صاحب کو کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔

چین میں اسلام،صحابہ کی مقدس یاد گار

چین کا شہرCantonوہ مقام ہے جہاں سے اسلام چین میں داخل ہوا۔ اس شہر میں اب بھی ایک مسجد حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے نام سے منسوب ہے اور اسے مسجدِ یادگار کہا جاتا ہے۔ چینی مسلمان اس مسجد کو خاص محبت اور عقیدت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ گوکہ اس بات کی تصدیق مشکل ہے کہ یہ مسجد حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے تعمیر کروائی، لیکن یہ بات یقینی ہے کہ چین میں اسلام کی آمد صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی پر امن تبلیغی کاوشوں اور پاکیزہ کردار کی مرہون منت ہے اور یہ مسجد صحابہ کے اسی پاکیزہ کردار کا منہ بولتا ثبوت ہے اور اللہ تعالیٰ کی منشاء کے نتیجہ میں صدیوں سے محفوظ چلی آرہی ہے۔

سورۃ عبس کی آیت16 بِاَیۡدِیۡ سَفَرَۃٍ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں :

’’ایک طرف چین کے انتہائی کناروں تک اور دوسری طرف الجزائر تک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی زندگی میں ہی قرآن پھیل گیا ‘‘۔

(تفسیر کبیر جلد 8صفحہ 172)

نیز آپؓ سورة اعلیٰ کی تفسیر میں فرماتے ہیں :

’’اسلام شروع میں ہی مختلف ممالک میں پھیل گیا۔ چنانچہ ابھی ہزاروں صحابہ زندہ تھے کہ اسلام شام میں بھی پہنچ گیا …یہاں تک کہ صحابہ چین تک گئے اور انہوں نے اسلام کی اشاعت کی‘‘۔

(تفسیر کبیر جلد8 صفحہ 426)

اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَصَحْبِہ اجمعین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button