حضرت مصلح موعود ؓ

ہمارا فرض ہے کہ ہم مظلوم قوم کی مدد کریں چاہے وہ ہمیں ماریں یا دکھ پہنچائیں (قسط دوم)

از: حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ

(گزشتہ سے پیوستہ)مسلمانوں کو ہمیشہ باوجود لائق ہونے کے نالائق قرار دیا جاتا رہا، ان کو با وجود اہل ہونے کے نا اہل کہا جاتا رہا اور ان کو باوجود قابل ہونے کے نا قابل کہا جاتا رہا، ہزاروں اور لاکھوں دفعہ ان کے جذبات کو مجروح کیا گیا، لاکھوں مرتبہ ان کے احساسات کو کچلا گیا اور متعدد مرتبہ ان کی امیدوں اور اُمنگوں کا خون کیا گیا۔ انہوں نے اپنی آنکھوں سے یہ سب کچھ دیکھا اور وہ چپ رہے، یہ سب کچھ ان پر بیتا اور وہ خاموش رہے، انہوں نے خاموشی کے ساتھ ظلم سہے اور صبر کیا، کیا اب بھی ان کے خاموش رہنے کا موقع تھا؟ یہ تھے وہ حالات جن کی وجہ سے وہ اپنا الگ اور بلا شرکتِ غیرے حق مانگنے پر مجبور نہیں ہوئے بلکہ مجبور کئے گئے یہ حق انہوں نے خود نہ مانگا بلکہ ان سے منگوایا گیا۔ یہ علیحدگی انہوں نے خود نہ چاہی بلکہ ان کو ایسا چاہنے کے لئے مجبور کیا گیا۔ اس معاملہ میں وہ بالکل معذور تھے جب انہوں نے دیکھا کہ باوجود لیاقت رکھنے کے، باوجود اہلیت کے اور باوجود قابلیت کے انہیں نالائق اور نا قابل کہا جا رہا ہے تو انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ اس نا انصافی کے انسداد کا سوائے اِس کے اَور کوئی طریق نہیں کہ وہ ان سے بالکل علیحدہ ہو جائیں۔ میں ہندوؤں سے پوچھتا ہوں کہ کیا مسلمان فی الواقعہ نالائق، نا قابل اور نا اہل تھے؟ ان کو جب کسی کام کا موقع ملا انہوں نے اسے باحسن سر انجام دیا۔ مثلاً سندھ اور بنگال میں ان کو حکومت کا موقع ملا ہے انہوں نے اس کو اچھی طرح سنبھال لیا ہے اور جہاں تک حکومت کا سوال ہے ہندوؤں نے ان سے بڑھ کر کونسا تیر مار لیا ہے جو انہوں نے نہیں مارا۔ مدراس،بمبئی، یوپی اور بہار وغیرہ میں ہندوؤں کی حکومت ہے۔ جس قسم کی گورنمنٹ ان کی ان علاقوں میں ہے اسی قسم کی گورنمنٹ سندھ اور بنگال میں بھی ہے۔ اگر لڑائی جھگڑے اور فساد وغیرہ کی وجہ سے کسی گورنمنٹ کو نا اہل قرار دینا جائز ہے تو لڑائی تو بمبئی میں بھی ہو رہی ہے، یوپی میں بھی ہو رہی ہے اور بہار میں بھی ہو رہی ہے۔ اگر نالائقی اور نا اہلی کی یہی دلیل ہو تو بمبئی،یوپی اور بہار وغیرہ کی گورنمنٹوں کو کس طرح لائق اور اہل کہا جا سکتا ہے؟ اور اگر کسی جگہ قتل و غارت کا ہونا ہی وہاں کی گورنمنٹ کو نا اہل قرار دینے کا موجب ہو سکتا ہے تو کیوں نہ سب سے پہلے بمبئی اور بہار کی گورنمنٹوں کو نا اہل کہا جائے۔ ایک ہی دلیل کو ایک جگہ استعمال کرنا اور دوسری جگہ نہ کرنا سخت نا انصافی اور بددیانتی ہے۔ اگر یہی قاعدہ کلیہ ہو تو سب جگہ یکساں چسپاں کیا جانا چاہئے نہ کہ جب اپنے گھر کی باری آئے تو اس کو نظرانداز کر دیا جائے۔ کسی علاقہ میں قتل و غارت اور فسادات کا ہونا ضروری نہیں کہ حاکم کی غلطی ہی سے ہو۔

مَیں پچھلے سال اکتوبر نومبر میں اس نیت سے دہلی گیا تھا کہ کوشش کر کے کانگرس اور مسلم لیگ کی صلح کرادوں۔ میں ہر لیڈر کے دروازہ پر خود پہنچا اور اس میں مَیں نے اپنی ذرا بھی ہتک محسوس نہ کی اور کسی کے پاس جانے کو عار نہ سمجھا صرف اس لئے کہ کانگرس اور مسلم لیگ میں مفاہمت کی کوئی صورت پیدا ہو جائے، ان کے درمیان انشقاق اور افتراق رہنے کی وجہ سے ملک کے اندر کسی قسم کا فتنہ و فساد ہونے نہ پائے۔ میں مسٹر گاندھی کے پاس گیا اور کہا کہ اس جھگڑے کو ختم کراؤ لیکن انہوں نے ہنس کر ٹال دیا اور کہا مَیں تو صرف ایک گاندھی ہوں، آپ لیڈر ہیں آپ کچھ کریں مگر مَیں کہتا ہوں کہ کیا واقعہ میں گاندھی ایک آدمی ہے اور اس کا اپنی قوم اور ملک کے اندر کچھ رُعب نہیں اگر وہ صرف ایک گاندھی ہے تو سیاسیات کے معاملات میں دخل ہی کیوں دیتا ہے۔ وہ صرف اس لئے دخل دیتا ہے کہ ملک کا اکثر حصہ اس کی بات کومانتا ہے مگر میری بات کو ہنس کر ٹلا دیا گیا اور کہہ دیا گیا میں تو صرف گاندھی ہوں اور ایک آدمی ہوں حالانکہ ہر شخص جانتا ہے کہ وہ تیس کروڑ کے لیڈر ہیں اور میں ہندوستان کے صرف پانچ لاکھ کا لیڈر ہوں کیا میرے کوئی بات کہنے اور 30کروڑ کے لیڈر کے کوئی بات کہنے میں کوئی فرق نہیں۔ بے شک میں 5 لاکھ کا لیڈر ہوں اور میری جماعت میں مخلصین بھی ہیں جو میری ہر بات پر عمل کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں اور مجھے واجب الاطاعت تسلیم کرتے ہیں لیکن بہرحال وہ پانچ لاکھ ہیں اور پانچ لاکھ کے لیڈراور تیس کروڑ کے لیڈر کی آواز ایک سی نہیں ہو سکتی۔ تیس کروڑ کے لیڈر کی آواز ضرور اثر رکھتی ہے اور ملک کے ایک معتدبہ حصہ پر رکھتی ہے لیکن افسوس کہ وہی گاندھی جو ہمیشہ سیاسیات میں حصہ لیتے رہتے ہیں میری بات سننے پر تیار نہ ہوئے۔ اسی طرح میں پنڈت نہرو کے دروازہ پر گیا اور کہا کا نگرس اور مسلم لیگ کے درمیان صلح نہایت ضروری ہے لیکن انہوں نے بھی صرف یہ کہہ دیا کہ یہ ٹھیک تو ہے، ہاں آپ ٹھیک کہتے ہیں مگر اب کیا ہو سکتا ہے کیا بن سکتا ہے۔ اسی طرح میں نے تمام لیڈروں سے ملاقاتیں کر کے سارا زورلگایا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان صلح ہو جائے مگر افسوس کہ کسی نے میری بات نہ سنی اور صرف اس لئے نہ سنی کہ میں پانچ لاکھ کا لیڈر تھا اور وہ کروڑوں کے لیڈر تھے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب ملک کے اندر جگہ جگہ فسادات ہو رہے ہیں اور قتل و غارت کا بازار گرم ہے۔ اگر یہ لوگ اُس وقت میری بات کو مان جاتے اور صلح صفائی کی کوشش کرتے تو آج یہ دن دیکھنا نصیب نہ ہوتا مگر میری بات کو نہ ماناگیا اور صلح سے پہلوتہی اختیار کی۔ اس کے تھوڑے عرصہ بعد بہار اور گڑھ مکتیسرکا واقعہ ہوا اور اب پنجاب میں ہو رہا ہے اگر اب بھی ان لوگوں کی ذہنیتیں نہ بدلیں تو یہ فسادات اَور بھی بڑھ جائیں گے اور ایسی صورت اختیار کر لیں گے کہ باوجود ہزار کوششوں کے بھی نہ رُک سکیں گے۔

اس وقت ضرورت صرف ذہنیتیں تبدیل کرنے کی ہے۔ اگر آج بھی ہندو اقرار کر لیں کہ ہم سے غلطی ہوئی تھی آؤ مسلمانو ہم سے زیادہ سے زیادہ حقوق لے لوتو آج ہی صلح ہو سکتی اوریہ تمام جھگڑے رفع دفع ہو سکتے ہیں مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ لوگ بُغض پر بُغض، بُغض پر بُغض کی بنیادیں رکھتے چلے جاتے ہیں اور انجام سے بالکل غافل بیٹھے ہیں۔ اگر وہ صلح کرنا چاہیں، اگر وہ پنپنا چاہیںاور اگر وہ گلے ملنا چاہیں تو یہ سب کچھ آج ہی ہو سکتا ہے مگر اس کا صرف اور صرف ایک ہی علاج ہے اور وہ ہے ذہنیتوں میں تبدیلی۔

پس آج یہ سوال نہیں رہا کہ ہمارے ساتھ پاکستان بن جانے کی صورت میں کیا ہوگا؟ سوال تو یہ ہے کہ اتنے لمبے تجربہ کے بعد جبکہ ہندو حاکم تھے گوہندو خودتو حاکم نہ تھے بلکہ انگریز حاکم تھے لیکن ہندو حکومت پر چھائے ہوئے تھے جب ہندو ایک ہندو کو اس لئے ملازمت دے دیتے تھے کہ وہ ہندو ہے، جب ہندو اس لئے ایک ہندو کو ٹھیکہ دے دیتے تھے کہ وہ ہندو ہے اور جب وہ مسلمانوں کے مقابلہ میں ہندوؤں کو صرف اس لئے قابل اور اہل قرار دیتے تھے کہ وہ ہندو ہیں اور جب ہندو انگریز کی نہیں بلکہ اپنی حکومت سمجھتے ہوئے ہندوؤں سے امتیازی سلوک کرتے تھے اور جب وہ نوکری میں ہندوکو ایک مسلمان پر صرف یہ دیکھتے ہوئے کہ وہ ہندو ہے فوقیت دیتے تھے اُس وقت کے ستائے ہوئے، دُکھائے ہوئے اورتنگ آئے ہوئے مسلمان اگر اپنے حقوق کا مطالبہ کریں تو کیا ان کا یہ مطالبہ ناجائز ہے؟ کیا یہ ایک روشن حقیقت نہیں کہ ان کے ساتھ ایسا سلوک کیا جاتا رہا جو نہایت نا واجب، نہایت ناروا اور نہایت نامنصفانہ تھا۔

حال کا ایک واقعہ ہے ہمارا ایک احمدی دوست فوج میں ملازم ہے۔ باوجود یکہ اس کے خلاف ایک بھی ریمارک نہ تھا اور دوسری طرف ایک سکھ کے خلاف چار ریمارکس تھے۔ اس سکھ کو اوپر کر دیا گیا اور احمدی کو گرا دیا گیا۔ جب وہ احمدی انگریز کمانڈر کے پاس پہنچا اور اپنا واقعہ بیان کیا تو اس نے کہا واقعی آپ کے ساتھ ظلم ہوا تم درخواست لکھ کر میرے پاس لاؤ لیکن جب وہ احمدی درخواست لے کر انگریز آفیسر کے پاس پہنچا تو اُس نے درخواست اپنے پاس رکھ لی اور اسے اوپر نہ بھجوایا۔ کئی دن کے بعد جب دفتر سے پتہ لیا گیا کہ آخر وجہ کیا ہے کہ درخواست کو اوپر بھجوایانہیں گیا تو دفتر والوں نے بتایا کہ اصل بات یہ ہے کہ شملہ سے آرڈر آگیا ہے کہ کوئی اپیل اس حکم کے خلاف اوپر نہ بھجوائی جائے۔ جس قوم کے ساتھ اتنا لمبا عرصہ یہ انصاف برتا گیا ہوکیا وہ اس امر کا مطالبہ نہ کرے گی کہ اسے الگ حکومت دے دی جائے؟ ان حالات کے پیش نظران کا حق ہے کہ وہ یہ مطالبہ کریں اور ہر دیانتدار کا فرض ہے کہ خواہ اس میں اس کا نقصان ہو مسلمانوں کے اس مطالبہ کی تائید کرے۔

پس ایک نقطۂ نگاہ تو یہ ہے جس سے ہم اس اخبار کے متعلقہ مضمون پر غور کر سکتے ہیں دوسرا نقطۂ نگاہ یہ ہے کہ بے شک ہمیں مسلمانوں کی طرف سے بھی بعض اوقات تکالیف پہنچ جاتی ہیں اور ہم تسلیم کر لیتے ہیں کہ شاید وہ ہمیں پھانسی پر چڑھا دیں گے لیکن میں ہندوؤں سے یہ پوچھتا ہوں کہ تم لوگوں نے ہمیں کب سُکھ دیا تھا ؟تم لوگوں نے ہمیں کب آرام پہنچایا تھااور تم لوگوں نے کب ہمارے ساتھ ہمدردی کی تھی؟ کیا بہار میں بے گناہ احمدی مارے گئے یا نہیں؟ کیا ان کی جائدادیں تم لوگوں نے تباہ کیں یا نہیں؟ کیا ان کو بیجا دُکھ پہنچایا یا نہیں؟ کیا گڑھ مکتیسر میں شیخ محمد یوسف صاحب ایڈیٹر نور کا لڑکا تمہارے مظالم کا شکار ہوا یا نہیں؟ حالانکہ وہ ہیلتھ آفیسرتھا اور وہ تمہارے میلے میں اس لئے گیا تھا کہ اگر کوئی تم میں سے بیمار ہو جائے تو اس کا علاج کرے، اگر تم میں سے کسی کو زخم لگ جائے تو اس پر مرہم پٹی کرے اور اگر تم میں سے کوئی بخار سے مر رہا ہو تو اسے کو نین کھلائے، وہ ایک ڈاکٹر تھا اور ڈاکٹری ایک ایساپیشہ ہے جس کو فرقہ وارانہ حیثیت نہیں دی جا سکتی وہ بےچارہ تمہارے علاج معالجہ کے لئے گیا تھا اُس کو تم نے کیوں قتل کر دیا؟ کیا اس سے بڑھ کر بھی شقاوتِ قلبی کی کوئی اَور مثال ہو سکتی ہے؟ کیا اس سے آگے بھی ظلم کی کوئی حد ہے؟ پھر اُس کی بیوی نے خود مجھے اپنے درد ناک حالات سنائے اُس نے بتایا کہ غنڈوں نے اُس کے منہ میں مٹی ڈالی، اُسے مار مار کر ادھ مؤا کر دیا، اُس کے کپڑے اُتار لئے اور اسے دریا میں پھینک دیا اور پھر اِسی پر بس نہیں بلکہ دریا میں پھینک کر سوٹیوں کے ساتھ دباتے رہے تاکہ اُس کے مرنے میں کوئی کسر باقی نہ رہ جائے۔ یہ اُس کی خوش قسمتی تھی کہ وہ تیرنا جانتی تھی اور وہ ہمت کر کے ہاتھ پاؤں مار کردریا سے نکل آئی اور پھر کسی کی مدد سے ہسپتال پہنچی۔ کیا اِس سے بڑھ کر بے دردی کی کوئی مثال ہو سکتی ہے کہ ایک ناکردہ گناہ شخص اور پھر عورت پر اس قسم کے مظالم توڑے جائیں؟ کیا اِس قسم کی حرکات سفاکانہ نہیں ہیں؟ان حالات کی موجودگی میں اگر ہمارے لئے دونوں طرف ہی موت ہے تو ہم ان لوگوں کے حق میں کیوں رائے نہ دیں جن کا دعویٰ حق پر ہے۔

(جاری ہے )

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button