متفرق مضامین

مضمون نویسی کا فن اور اس کی اہمیت

(درِ ثمین احمد۔ جرمنی)

دلوں کو متاثر اور مسحوروہی بات کرتی ہے جس میں دو خوبیاں پائی جاتی ہوں۔ حسنِ مضمون اور حسنِ بیان۔ قر آنِ کریم خدا تعالیٰ کا کلام ہے اور اس میں یہ دونوں خوبیاں باکمال درجہ پائی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کلام نے سنگ دلوں کو بھی موم کر کے رکھ دیا۔ اس کلام الٰہی کو اس کی اصل نفاست و سلاست اور اصل حکمت کے ساتھ بیان کیا جائے تویہ دلوں کو مسحور اور ذہنوں کو متاثرکرے گا۔ قرآنِ کریم میں اس بارے میں ارشاد ہے :

اَلرَّحۡمٰنُ ۙ۔ عَلَّمَ الۡقُرۡاٰنَ۔ خَلَقَ الۡاِنۡسَانَ۔ عَلَّمَہُ الۡبَیَانَ۔

’’وہ رحمان( خدا)ہی ہے جس نے قرآن کی تعلیم دی۔ انسان کو پیدا کیا۔ اسے بیا ن سکھایا۔ ‘‘

(سورۃ الرحمٰن 2تا5۔ ترجمہ ازتفسیرِصغیر)

’’عربی زبان کا مشہور مقولہ ہے کہ

’’خَیْرُ الْکَلَامِ مَا قَلَّ وَ دَلَّ‘‘

یعنی بہترین کلام وہ ہے جس کے الفاظ تھوڑے ہوں لیکن مفہوم میں کوئی کسر باقی نہ رہی…اسی مقولے کو انگریزی میں brevity is the soul of wit کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ قرآنِ کریم اپنے اسلوب بیان میں اس مقولہ کی صحیح تصویر ہے۔ روایات میں آتا ہے کہ ’’ایک مرتبہ ایک بدو ایک چشمہ کے کنارے کھڑا تھا کہ اتنی دیر میں ایک بدوی عورت آئی اور اُس نے چشمہ کے پانی سے اپنا گھڑا بھرااورپھراُس بدو کو مخاطب کرکے اپنے گھڑے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا

حَمِّلْنِیْ ھَذَاالظَّرْفَ بِمَا فِیْہِ فَلَا طَاقَۃَلِیْ بِمَا فِیْہِ

یعنی یہ پانی بھراگھڑا ذرامجھے اٹھوادو۔ کیونکہ میں اکیلی اِسے اُٹھا نہیں سکتی …وہ بدو اُس عورت کی فصاحت پر بڑا حیران ہوااور کہا فَصِیْحَۃٌ جِدًّا یعنی تو بڑی فصیح اللسان ہے…اس پر وہ عورت کہنے لگی

لَا بَلْ اَفْصَحُ مِنِّیْ صَاحِبُ الْقُرْآنِ اذْجَمَعَ بَیْنَ اَمْرَیْنِ وَ نَھْیَیْنِ وَخَبْرَیْنِ فِیْ اٰیَۃٍِ وَاحِدَۃٍ

یعنی مجھ سے زیادہ فصیح اللسان تو صاحب قرآن ہے جس نے ایک ہی آیت میں دو صیغے امر کے، دو صیغے نہی کے اور دو پیشگوئیاں جمع کردی ہیں اور پھر اس نے سورۃالقصص کی یہ آیت پڑھی

’’ وَ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰۤی اُمِّ مُوۡسٰۤی اَنۡ اَرۡضِعِیۡہِ ۚ فَاِذَا خِفۡتِ عَلَیۡہِ فَاَلۡقِیۡہِ فِی الۡیَمِّ وَ لَا تَخَافِیۡ وَ لَا تَحۡزَنِیۡ ۚ اِنَّا رَآدُّوۡہُ اِلَیۡکِ وَ جَاعِلُوۡہُ مِنَ الۡمُرۡسَلِیۡنََ‘‘( القصص :8)

ترجمہ:اور ہم نے موسیٰ کی ماں کو وحی کے ذریعہ سے حکم دیا کہ تُو اِس بچّہ کو دودھ پلا۔ کہ اگر تمہیں اِس بچہ کی جان کا خطرہ لاحق ہو جائے تو اسے دریا بردکر دو اورنہ ڈرنا اورنہ غم کھاناکیونکہ ہم یقیناً اسے تیرے پاس واپس لائیں گے اور نبی بنا کر چھوڑیں گے۔ …وہ بدو اس بدوی عورت کی ذہانت وفطانت پرانگشت بدنداں ہوگیا اور گھڑا اٹھا کر اس کے سر پر رکھ دیا۔ ‘‘

(عربی ادب کے شہ پارے مصنّفہ مکرم محمد اسحاق صاحب، صفحہ 72)

پس قرآنِ کریم کی فصاحت وبلاغت ہی اس کا معجزہ نہیں۔ بلکہ اس کاایجاز واختصاربھی اپنی ذات میں ایک بڑا معجزہ ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ کو خدا تعالیٰ نے سلطان القلم کے خطاب سے نوازا تھا۔ اور آپؑ کی پوری حیاتِ مبارکہ اس بات کی عملی تصویر ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں :

’’اللہ تعالیٰ نے اس عاجز کا نام سلطان القلم اور میرے قلم کوذوالفقارعلی فرمایا۔ اس میں یہی سرّہے کہ زمانہ جنگ وجدل کانہیں بلکہ قلم کا ہے۔ ‘‘

(ملفوظات جلد1صفحہ151، ایڈیشن1988ء)

’’… ہمارا فرض ہے کہ اپنی قوتوں کو بیکار نہ کریں اور خدا کے پاک دین اوراس کے برگزیدہ نبیﷺکی نبوت کے اثبات کے لیے اپنی قلموں کے نیزوں کو تیز کریں۔ ‘‘

(ملفوظات جلد1صفحہ 150، ایڈیشن1988ء)

آپؑ اپنی بعثت کی غرض بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’خدا تعالیٰ نے مجھے مبعوث فرمایا کہ میں ان خزائن مدفونہ کو دنیا پر ظاہر کروں …خدا تعالیٰ کی غیرت اس وقت بڑی جوش میں ہے کہ قرآن شریف کی عزت کو ہر ایک خبیث دشمن کے داغِ اعتراض سے منزہ ومقدّس کرے۔

الغرض ایسی صورت میں کہ مخالفین قلم سے ہم پروار کرنا چاہتے ہیں اور کرتے ہیں۔ کس قدر بیوقوفی ہوگی کہ ہم ان سے لٹھم لٹھا ہونے کو تیارہو جائیں ‘‘۔

(ملفوظات جلد1صفحہ38، ایڈیشن1988ء)

پھر آپؑ مزید فرماتے ہیں :

’’اس وقت جو ضرورت ہےوہ یقیناً سمجھوسیف کی نہیں قلم کی ہے…اُس نے (یعنی خدا تعالیٰ نے۔ ناقل)مجھے متوجہ کیا کہ میں قلمی اسلحہ پہن کراس سائنس اور علمی ترقی کے میدانِ کارزارمیں اتروں اور اسلام کی روحانی شجاعت اور باطنی قوت کا کرشمہ بھی دکھلائوں۔ ‘‘

(ملفوظات جلد 1صفحہ38، ایڈیشن1988ء)

یہی وجہ ہے کہ آپؑ نے اس زمانے کا مجاہدہ قلمی جہاد کو قرار دیا۔ ’’ایک دفعہ حضرت مولوی نورالدّین صاحبؓ نے حضرت اقدس مسیح موعودؑسے عرض کیا کہ…کوئی مجاہدہ مجھے بتلائیے۔ آپ ؑنے فرمایا :

’’عیسائیت کے رد میں کوئی کتاب لکھو۔‘‘

تب حضرت مولوی نورالدّین صاحبؓ نے کتاب ’فصل الخطاب لمقدمۃاہلِ الکتاب‘ کی دو جلدیں لکھیں۔ پھر ایک دفعہ مولوی صاحب نے ایسا ہی سوال کیا۔ حضرتؑ نے فرمایا:’’آریوں کے رد میں کتاب لکھو۔ ‘‘تب مولوی صاحب نے ’تصدیق براہینِ احمدیہ‘ لکھی اور فرمایا ان دو بڑے مجاہدوں سے مجھے بڑے بڑے فائدے ہوئے۔ ‘‘

(ملفوظات جلد 1صفحہ513، ایڈیشن1988ء)

حضرت مسیح موعودؑنے بارہا اپنی تحریرات میں اس بات کا ذکر بڑی کثرت سے فرمایا کہ آنحضرتﷺکی زندگی کے دو ہی مقاصد بیان ہوئے ہیں۔ اول تکمیلِ ہدایت اور دوسری تکمیلِ اشاعت ہدایت۔ اور اشاعتِ ہدایت کی تکمیل مسیح موعودؑ کے ذریعہ مقدر ہے۔

(ماخوذ ازملفوظات جلد 1صفحہ385)

اسی غرض کو پورا کرنے کے لیے آپؑ ایسے ذرائع کے استعمال کی جانب توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’…ہم چاہتے ہیں کہ ہماری جماعت کے لوگ ان دلائل سے باخبر ہوں …اور چند دوست ایسی کتابیں سوال وجواب کے طور پر تالیف کریں۔ جو ہمارے مقاصد کو لیے ہوئے ہوں اور مدرسہ میں رائج کی جاویں۔ ‘‘

(ملفوظات جلد 1صفحہ387، ایڈیشن1988ء)

آپؑ کی تحریرات کے بغور مطالعہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ آپؑ مضامین یا کتب کی تحریر وتالیف کو ہمدردئ خلائق کاذریعہ اوردماغ کی اچھی ورزش، اوردرازئ عمر کا کلیہ وراز قرار دیتے ہیں۔

(ماخوذازملفوظات جلد2صفحہ221)

آپؑ نے ہر دو قسم کی کتب کی اشاعت کی جانب توجہ کروائی، ایک وہ جو تعلیم کی تلاش میں ہیں۔ اور وہ جو ثبوت کے متلاشی ہیں۔ اور اس کی مثال آپؑ نے نزول ا لمسیح اور کشتی نوح سے دی۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد2صفحہ307، ایڈیشن1988ء)

’’پھر آپؑ ناول نویسی کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ

’’… اگر بعض واقعاتِ حقہ کو ناول کے پیرایہ میں بیان کیا جائے تو یہ امر معیوب نہیں۔ ‘‘

(ملفوظات جلد 2صفحہ517، ایڈیشن1988ء)

آپؑ کی سیرت کے مطالعہ سے یہ بھی علم ہوتا ہے کہ آپؑ مضامین لکھوایا کرتے تھے۔ ایک روایت میں بیان ہوتا ہے کہ ایک با ر آپؑ نے اپنے اصحاب ؓسے کہا کہ مذہب کے بارے میں مضمون لکھیں کہ مذ ہب کیا ہے اورکامل مذہب کیسا ہونا چاہیے …بہت مضامین آپ کو موصول ہوئے اور بہت دن تک آپؑ مضامین سنتے رہے… اور آخر میں فرمایا:

’’ہر ایک نے مذہب کے معنی راستہ کے کئے ہیں جبکہ مذہب کے معنی روش کے ہیں۔ پس مذہب وہ روش اور طریق رفتار ہے جو انسان اختیار کرے۔ ‘‘

(ماخوذاز سیرت المہدی جلد اول حصہ سوئم صفحہ 537، روایت546)

پھر ایک اور بات جو کہ آپؑ کی حیاتِ مبارکہ کے مطالعہ سے پتہ لگتی ہے کہ آپؑ اپنی کتابوں کی کاپی اور پروف خود دیکھا کرتے تھے۔ اور علماء کو بھی عربی کی کتب پروف کے لیے بھجوایا کرتے تھے۔ تاکہ ان کی نظر سے بھی آپؑ کی کتب گزر جائیں۔

(سیرت المہدی جلد اول حصہ سوئم صفحہ 570، روایت605)

آپؑ کے تصنیف کے طریق کار کے متعلق ایک روایت میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمد صاحبؓ فرماتے ہیں :

’’خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تصنیف کے بارے میں یہ طریق نہیں تھا کہ جو عبارت ایک دفعہ لکھی گئی اسی کو قائم رکھتے تھے بلکہ بار بار کی نظرِثانی سے اس میں اصلاح فرماتے رہتے تھے اور بسا اوقات پہلی عبارت کو کاٹ کر اس کی جگہ نئی عبارت لکھ دیتے تھے۔ اصلاح کا یہ سلسلہ کتابت اور طباعت کے مراحل میں بھی جاری رہتاتھا۔ مَیں نے حضرت صاحب کے مسودات اور پروفوں میں کثرت کے ساتھ ایسی اصلاح دیکھی ہے۔ ‘‘

(سیرت المہدی جلد اول حصہ سوئم صفحہ 796، روایت924)

اس مضمون میں خاکسار نے کوشش کی ہے کہ اس سلطان القلم کی سیرت سے اس بات کو ثابت کر ےکہ مضامین اور تحریرات کا بیان کس قدر اہمیت کا حامل ہے۔ اور ہمیں زیادہ سے زیادہ اس قلمی جہاد میں حصہ لینے کی کوشش کرنی چاہیے۔

اب میں مضمون نویسی کے فن کے حوالے سے بات کروں گی کہ کس طرح ہم اپنی تحریر کونفع بخش اور خوبصورت بنا سکتے ہیں۔

ایک بات ہمیشہ مدِّنظر رکھنی چاہیے کہ صرف وہی تحریریں زندہ جاویدہوتی ہیں جن میں صرف فصاحت اور بلاغت کا اعجاز ہی نہیں ہوتابلکہ خدا تعالیٰ کی خاص نصرت و تائید بھی شامل حال ہوتی ہے۔ اور خدا تعالیٰ کی خاص تائید اس کے ساتھ ہوتی ہے جو دعا کا سہارا لیتا ہے۔ کیونکہ خود خدا تعالیٰ فرماتا ہے:

وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ

اور تمہارے رب نے کہا مجھے پکارو میں تمہیں جواب دوں گا۔

(المومن :61۔ ترجمہ بیان فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ)

اس لیے اگر ہم کسی مو ضوع پہ ایک مضمون یا تقریر لکھنا چاہتے ہیں تو بہتر ہے کہ شروع کرنے سے قبل دعاؤں سے کام لیں کہ خدا تعالیٰ ہم پر اپنا فضل فرماتے ہوئے مضمون کا اصل متن ہم پر واضح کر دے۔

مضمون لکھتے ہوئے دعاؤں کے اثر کی ایک مثال حضرت مسیح موعودؑکے ایک صحابیؓ کی روایت سے ملتی ہے۔ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدصاحبؓ تحریر فرماتے ہیں :

’’میاں خیرالدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ’’ضرورت امام پر مضمون لکھو(جماعت ابھی تھوڑی تھی)اکثر احباب نے جو خواندہ تھے مضمون لکھے۔ میں نے بھی لکھا جب مضامین جمع ہو گئے توبعد ش حضور علیہ السلام شام و عشاء کے د رمیان سنا کرتے تھے جس روز میرا مضمون پڑھا گیا میں وہاں موجود نہ تھا۔ مولوی قطب الدین صاحب طبیب قادیان نے مجھ سے کہا کہ تمہارے مضمون کو سن کر حضرت صاحبؑ بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ’’ہے تو وہ جاٹ جیسالیکن مضمون بہت اچھا لکھا ہے‘‘مجھے یاد ہے کہ تحریر مضمون کے وقت مجھے دعا کی توفیق مل گئی تھی ورنہ علمی خوبی مجھ میں کو ئی نہ تھی نہ اب ہے۔ الحمدللہ۔

(سیرت المہدی جلد دوئم حصہ پنجم روایت نمبر 1292)

کوشش کرنی چاہیےکہ جب لکھنے بیٹھیں تو ذہن باقی باتوں سے مبرا ہو،مکمل سکون اور یک سوئی میسر ہو۔

اسی طرح بہترین اخلاق وکردار بھی تحریر کو لازوال بناسکتا ہے۔ کیونکہ جب مضمون نگار کی تحریر اس کے کردار کی تائید کرتی ہوتو اس کے الفاظ میں جان پڑ جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کی گفتگو اس کی شخصیت کی عکاس ہوتی ہے، اور اس کی گفتگو کے منفی یا مثبت اثرات دوسرے انسان کے دل پر اثر کرتے ہیں۔ اسی لیے قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے :

اُدۡعُ اِلٰی سَبِیۡلِ رَبِّکَ بِالۡحِکۡمَۃِ وَ الۡمَوۡعِظَۃِ الۡحَسَنَۃِ وَ جَادِلۡہُمۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ

اپنے ربّ کے راستہ کی طرف حکمت کے ساتھ اور اچھی نصیحت کے ساتھ دعوت دے اور ان سے ایسی دلیل کے ساتھ بحث کر جو بہترین ہو…

(النحل:126۔ ترجمہ بیان فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ)

پھر ایک اور جگہ فرمایا:

وَ لَا تَسۡتَوِی الۡحَسَنَۃُ وَ لَا السَّیِّئَۃُ ؕ اِدۡفَعۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ

نہ اچھائی برائی کے برابر ہو سکتی ہے اور نہ برائی اچھائی کے برابر، ایسی چیز سے دفاع کر جو بہترین ہو۔

(حٰم السجدۃ :35۔ ترجمہ بیان فرمودہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ)

اس لیے اس نکتہ کو پیشِ نظر رکھیں کہ اگر ہم چا ہتے ہیں کہ ہماری تحریر مؤ ثر ہو تو ہمارے قول وفعل میں تضاد نہیں ہونا چاہیے۔ اس کی مثال مَیں مربی اعظم اور انسانِ کاملﷺ کے اسوہ مبارکہ سے دینا چاہوں گی۔ آپﷺ وہ انسانِ کامل تھے جن کے اخلاق واطوار کی گواہی خود قرآنِ کریم میں موجود ہے۔ حضرت عائشہؓ سے مروی ہے :

’’آنحضرتﷺ کے اخلاق اور اطوارِ زندگی قرآن کریم کے عین مطابق تھے۔ ‘‘

(مستدرک للحاکم تفسیر سورۃالمومنون جلدنمبر2صفحہ392، دلائل النبوۃ للبیھقی باب الذکر اخبار رویت فی شمائلہ واخلاقہٖ جلدنمبر1صفحہ 309از حدیقہ الصالحین صفحہ 50حدیث نمبر26)

آپﷺ کی حیات طیبہ ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے آپﷺنے زندگی کے ہر پہلو کو بہت نمایاں کرکے ہماے سامنے اپنے قول و عمل سے ثابت کیا۔ اس لیے علم اور اس کے حصول کے ذرائع کی جانب عمومی نصیحت کرتے ہوئے آپﷺ فرماتے ہیں :

’’جس شخص کو اللہ تعالیٰ بھلائی اور ترقی دینا چاہتا ہے، اس کو دین کی سمجھ دے دیتا ہے ‘‘۔

(بخاری باب العلم۔ بحوالہ حدیقہ الصالحین صفحہ نمبر 205حدیث نمبر129)

اسی طرح ایک اور حدیث میں ذکر ملتا ہے کہ حضرت ابوقتادہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا:

’’بہترین چیزیں جو انسان اپنی موت کے بعد پیچھے چھوڑ جاتا ہے وہ تین ہیں۔ نیک اولاد جو اس کے لئے دُعا گو ہو، صدقۂ جاریہ جس کا ثواب اس کو پہنچتا رہے اور ایسا علم جس پر اس کے بعد والے عمل کرتے رہیں۔ ‘‘

(ا بنِ ماجہ باب ثواب معلم الناس۔ بحوالہ حدیقۃالصالحین صفحہ نمبر 209۔ حدیث نمبر136)

یہاں پر علم سے مراد ہر طرح کا علم ہے۔

دورحاضر میں اگر دیکھا جائے تو بظاہر حضرت مسیح موعودؑ کے پاس کوئی دنیوی علم نہ تھا مگر خدا تعالیٰ نے آپؑ کو اس زمانےمیں سلطان القلم کے خطاب سے نوازا۔ آپؑ نے جو کتابیں لکھیں وہ معجزانہ رنگ میں لکھیں اور آپؑ کو قرآن کریم کا فہم عطا ہوا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام قرآن مجید سے سچی محبت کی تلقین کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔

’’حقیقی اور کامل نجات کی راہیں قرآن نے کھولیں اور باقی سب اس کے ظلّ تھے سو تم قرآن کو تدبّر سے پڑھواوراس سے بہت ہی پیار کرو ایسا پیار کے تم نے کسی سے نہ کیا ہوکیونکہ جیسا کہ خدا نےمجھے مخاطب ہو کر فرمایا ہےکہ

اَلْخَیْرُ کُلُّہٗ فِیْ الْقُرْاٰنِ

کہ تمام قسم کی بھلائیاں قرآن میں ہیں …‘‘

( کشتی نوح، روحانی خزائن جلد19صفحہ26)

مضامین کےاقسام

مضامین کی کئی اقسام ہیں جن میں سے چند ایک کا ذکر کرتی ہوں۔

٭…مرتبہ مضامین:

اس قسم کے مضمون میں آپ ایک ہی جگہ سے یا مختلف جگہوں سے ایک عنوان سے متعلقہ حوالہ جات کو اکٹھا کرتے ہیں اور پھر ان کو ایک خاص ترتیب دیتے ہیں۔

٭…ماخوذ مضامین:

ماخوذمضامین سے مراد وہ مضامین ہیں جو کہ آپ کسی کتاب سے اخذ کرکے اپنے الفاظ میں بیان کرتے ہیں تاکہ عبارت کا مفہوم وہی رہے مگر الفاظ اپنے ہوں۔ اس کے آخر پر لکھا جاتا ہے کہ یہ مضمون فلاں کتاب سے ماخوذ ہے۔

اسی طرح بسا اوقات کسی حوالے کو اپنے الفاظ میں لکھا جائے تو اس کے آخر میں لکھا جاتا ہےمثلاً ماخوذ ازاصحاب احمد جلد نہم صفحہ 3تا4۔

٭…علمی مضامین : ان سے مراد وہ مضامین ہیں جو مصنف علمی پہلو سے کسی موضوع پراظہارِ خیال کے لیے تحریر کرتا ہے۔ اس میں موضوع یا اپنے نتائج کوتقویت دینے کے لیے حوالہ جات سے مدد لی جاتی ہے اور آخر پر اس سے ایک نتیجہ اخذ کیا جاتاہے۔

٭…معلوماتی مضامین: ان سے مراد ایسے مضامین ہیں، جن میں موضوع سے متعلقہ معلومات فراہم کی جائیں، مثال کے طور پرجغرافیہ، طب، سائنس وغیرہ۔

٭…تفریحی مضامین: ان مضامین میں معلومات کے ساتھ ساتھ مزاح کا اور ڈرامائی عنصر بھی شامل ہوتا ہے۔

یہ چند مثالیں تھیں جو میں نے مضمون نویسی کی اقسام کے حوالے سے بیان کیں۔

مضمون نویسی کے چند اصول

اب میں مضمون نویسی کے اصول بیان کرو ں گی۔

٭…جب بھی ہم کسی موضوع پر لکھنا شروع کریں تو سب سے پہلے قرآنی حوالہ دیں کہ قرآن کریم میں اس کے بارے میں کیا ارشاد ہوا ہے۔ یہ بات دعویٰ سے کہی جا سکتی ہے کہ قرآن مجید سے ہمیں دینی اوردنیاوی مضامین کے لیے بالواسطہ یا بلا واسطہ حوالہ مل سکتا ہے۔

اس سلسلہ میں حضرت مسیح موعودؑنے قرآن کریم کو زندہ کتاب کے طور پر پیش فرماتے ہوئے مسلمانوں میں مروجہ غلط عقائد کی اصلاح کی اور قرآنِ کریم سے متعلقہ تمام غلط فہمیوں کا ازالہ فرمایا۔آپؑ نے بیسیوں آیات سے ثابت فرمایا کہ قرآن کریم میں مختلف علوم کی طرف اشارہ ہے۔ جنہیں ایک ہی زمانے کے لوگ نہیں سمجھ سکتے بلکہ اپنے اپنے وقت پر ان کی پوری سمجھ آسکتی ہے۔ اسی طرح جو ں جوں زمانہ ترقی کرتا چلا جائے گا قرآن کریم میں سے نئے نئے علوم نکلتے چلے جائیں گے۔ چنانچہ آج آپؑ کے بتائے ہوئے ان اصولوں کے ماتحت خدا تعالیٰ نے ہمیں قرآن کریم کا ایسا علم دیا کہ کوئی اس کے مقابلے میں نہیں ٹھہر سکتا۔ آپؑ نے قرآن کریم سے ثابت کیا کہ ان میں مختلف علوم کا ذکر پایا جاتا ہے۔

٭…جماعتی کتب اور قرآن کریم کے تراجم و تفاسیر کے شروع یاآخر میں موضوعات اور مضامین کے حساب سے انڈیکس موجود ہوتا ہے۔ جس کی مدد سے ہمیں اپنے موضوع سے متعلق آیت یا حوالہ ڈھونڈنے میں آسانی ہو جاتی ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا طریق کار تھا کہ

’’…جب کوئی مضمون نکالنا ہوتا تو خود بتا کرحفاظ سے پوچھا کرتے تھے کہ اس معنی کی آیت کونسی ہے یا آیت کا ایک ٹکڑا پڑھ دیتے یا فرماتے جس آیت میں یہ لفظ آتا ہے وہ آیت کونسی ہے‘‘۔

(سیرت المہدی جلد او ل حصہ سوئم روایت553)

ایک اَور اہم بات جس کا میں ضمناً ذکر کرتی جائوں کہ بسااوقات ہم مضمون کے حوالے سے صرف آیت کا ایک حصہ بھی دے سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر ہم سچائی کے بارے میں مضمون لکھ رہے ہیں تو ہم صرف آیت کے اس حصہ کو بھی دے سکتے ہیں جہاں لکھا ہے کہ

اور تم ہمیشہ صاف اور سیدھی بات کیا کرو۔

(سورۃ الاحزاب :71)

٭…اگر علمی مضمون لکھا جا رہا ہو تو صرف حوالوں کا مجموعہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس میں اپنے جملے بھی ضرور شامل ہونے چاہئیں جس میں حوالوں سے نتائج اخذ کیے جائیں۔

٭…جماعتی مضامین میں ایک اہم بات یہ ہے کہ مضمون میں شامل ناموں کے ساتھ درست دعائیہ کلمات درج ہوں۔ اور جہاں ادب اور عزت کا تقاضا ہو وہاں ’حضرت‘ اور ’صاحب‘ کے الفاظ کااستعمال کیا جائے۔ اسی طرح جس نام کے ساتھ علیہ السلام، رضی اللہ تعالیٰ عنہ، عنہا، رحمہ اللہ تعالیٰ، مد ظلہا العالیٰ، سلمہا اللہ، سلمہ اللہ وغیرہ لکھنا ہو وہ صحیح جگہ اور صحیح نام کے ساتھ درج ہو۔

٭…بعض اوقات اپنے بیان میں جان ڈالنے کےلیے اور کسی بات کو سمجھانے کی غرض سے ہم اپنے مضمون سے متعلقہ کوئی دلچسپ واقعہ یا نصیحت آموز کہانی بیان کر سکتے ہیں۔ اس سے قاری کو بیان میں دلچسپی قائم رکھنے میں مدد ملتی ہے۔ واقعات کے ذریعہ بات کو سمجھانےکا انداز ہمیں قرآن کریم میں بھی ملتا ہے۔ اسی طرح بسا اوقات آنحضورﷺاپنے صحابہ پر کوئی امر واضح کرنے کے لیے کہانیوں کے ذریعہ بات سمجھاتے تھے۔

جماعتی لٹریچر میں اس کی کثرت سے مثالیں حضرت مصلح موعود ؓکے خطبات اور خطابات میں ملتی ہے۔ حضورؓ اپنی بات کو عام فہم اور واضح کرنے کے لیے بسااوقات واقعات یا مثالیں بیان فرمایا کرتے تھے۔

مثال کے طور پر اس بات کو سمجھانے کے لیے کہ اللہ نے جس چیز کو جس کام کے لیے پیدا کیا وہی اس کام کو بخوبی اور احسن طور سے انجام دے سکتی ہے یعنی’’جس کا کام اسی کو ساجھے‘‘ آپؓ نےایک مرتبہ یہ کہانی بیان فرمائی ہوئی ہےکہ

کسی کوے نے ہنسوں کی چال دیکھی تو وہ اسے پسند آئی۔ اس نے سمجھا کہ میری چال اچھی نہیں۔ آخر اس نے کچھ ہنسوں کے پَر اٹھائے اور اپنے پروں میں اُڑس لیے اور لگا ان کی سی چال چلنے۔ مگر وہ ان کی چال کب چل سکتا تھا۔ ہنسوں نے اسے اجنبی پرندہ سمجھ کر مارنا شروع کر دیا، یہ وہاں سے نکل کر اپنے کوّوں میں آشامل ہوامگر چونکہ یہ کچھ مدت ہنسوں کی چال چل کر اپنی بھول چکا تھا۔ اس لیے کوّوں نے بھی اسے چونچیں مارمار کر اپنے سے نکال باہر کیا۔ اب یہ اکیلا رہ گیا، نہ اِدھر کا رہا نہ اُدھر کا رہا، نہ ہنسوں نے اس کو ساتھ ملایا نہ کوّوں نے اس کو شامل کیا۔ اسے کہتے ہیں کہ نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم۔

اس مثال یا کہانی سے یہ بات اچھی طرح واضح اور سمجھنے میں آسان ہو گئی ہے۔

دعویٰ، دلیل اور حتمی نتیجہ

علمی مضمون کی خوبصورتی تین باتوں پر منتج ہوتی ہے۔ 1۔ دعویٰ 2۔ دلیل 3۔ حتمی نتیجہ۔

٭…دعویٰ:کسی بھی موضوع پر جو بات کہی جائے اس میں تردّد، تذبذب، حیرت اور درماندگی کی کیفیت نہیں ہونی چاہیے۔ اگر ایسا ہوگا تو اس سے انتشار اور بے اعتمادی کا فقدان نہیں ہوگا اس لیے اپنی بات پر یقین ہونا چاہیے کہ جو بات بیان کی جا رہی ہے وہ صرف اور صرف سچائی پر مبنی ہے۔ اس لیے یہ بھی لازم ہے کہ ہم اپنے علم و فہم میں اضافہ اور اصلاح کرتے چلے جائیں۔ ایک اَور ضروری امر یہ ہے کہ مضمون کو ایسے بیان کیا جائے کہ اس کے سارے پہلو اُجاگر ہوں اور ان میں ایک مسلسل ربط پایا جاتا ہو۔ ورنہ قاری پر تحریر کا اچھا تأثر نہیں پڑے گا۔

٭…دلیل: جو بھی موضوع بیان کر رہے ہیں جب اُس کو قرآن کریم کی روشنی میں بیان کریں گے تو یہ ہمارے دعویٰ پر ایک ٹھوس دلیل کا کام کرے گا۔

اسی طرح قرآن کریم میں ہم دیکھتے ہیں کہ علاوہ دیگر امور کے دلیل پیش کرتے وقت عقلی دلائل، منطقی نتیجہ، انسانی تاریخ اورمختلف مثالوں کےذریعہ بات کو واضح کیا جاتا ہے۔

مثالوں کا اور تشبیہات کودلیل کے طور پر استعمال کرنے کے متعلق پہلے بھی کچھ ذکر کیا گیا تھا کہ یہ طریق قرآن کریم و حدیث کی رو سے ثا بت ہے۔

یہاں بطور مثال ایک حدیث پیش ہے جس میں تلاوتِ قرآن کریم کے حو الے سے ایک مثال کے ذریعہ بات کو واضح کیا گیا ہے۔

حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ آنحضرتﷺ نے ایک مرتبہ فرمایا’’قرآن کریم پڑھنے والے مومن کی مثال نارنگی کی سی ہے کہ جس کا مزہ بھی اچھا ہوتا ہے اور خوشبو بھی عمدہ ہوتی ہے اور اس مومن کی مثال جو قرآن کریم کی تلاوت نہیں کرتاوہ کھجور کی طرح ہے کہ اس کا مزہ تو اچھا ہے لیکن اس کی خوشبو نہیں ہوتی اور اس فاجر کی مثال جو قرآن کریم کی تلاوت کا عادی ہے گلِ ریحان کی طرح ہے جس کی خوشبو تو اچھی ہو تی ہے لیکن اس کا مزہ کڑوا ہوتا ہے اور اس فاجر کی مثال جو قرآن کریم نہیں پڑھتا حنظل کی طرح ہے جس میں مہک اور خوشبو بھی نہیں ہوتی اور اس کامزہ بھی تلخ اور کڑوا ہوتا ہے۔ ‘‘

(ابو داؤد کتاب الادب باب من یؤمران یجالس۔ بحوالہ حدیقۃ الصالحین حدیث نمبر153۔ صفحہ نمبر221)

دلیل کو مضبوط کرنے کا ایک اور طریق احادیث ہیں۔ تاہم ایک بات کو مدّنظر رکھنا ضروری ہے کہ حدیث کامضمون قرآن کریم کےمخالف نہ ہو۔

اس کے بعد اپنی دلیل کو مزید مؤثر بنانے کے لیے امام الزمان علیہ السلام کی کتب سے کوئی حوالہ یا آپ کی سیرت سے اس حوالے سے کوئی مثال دی جا سکتی ہے۔

اسی طرح خلفائے اسلام دورِ اوّل و دورِ حاضر کے ارشادات یا واقعات میں سے بطور نمونہ کچھ پیش کیا جاسکتا ہے۔

ان تمام امور میں حتی المقدور حفظ مراتب کا خیال رکھا جائے۔ مثلاً مضمون کے شروع میں پہلے قرآن کریم کی آیت بیان ہو پھر حدیث پھر حضرت مسیح موعودؑکی کتب سے اقتباسات پھر خلفائے کرام کےارشادات۔

اللہ تعالیٰ کا جماعت احمدیہ پر بڑا احسان ہے کہ خلافت کے ذریعہ ہمیں وقت کی ضرورت کے مطابق رہ نمائی ملتی رہتی ہے۔ اس لیےاپنے مضمون میں کوشش کرنی چاہیے کہ خلیفۂ وقت کے ارشادات کو ضرور شامل کیا جائے کیونکہ جو انداز بیان، قوت، اثر اوربرکت خلیفۂ وقت کے الفاظ میں ہےوہ ہمارے اپنے الفاظ میں کبھی بھی نہیں ہو سکتی۔ اس لیے خلیفۂ وقت کی آواز کو زیادہ سے زیادہ پھیلانا بھی ہمارے فرائض میں شامل ہے اور اسی سے وحدت بھی پیدا ہوتی ہے۔

مضمون لکھتے وقت اس بات کا بھی ضرور خیال رکھنا چاہیے کہ مثلاً اگر کوئی واقعہ بیان کیا جا رہا ہے تو وہ مستند ہو اور جماعتی روایات کے خلاف نہ ہو۔ کوئی بات بغیر تحقیق کے بیان نہ کی جائے۔

٭…حتمی نتیجہ: آخر میں اپنے دعوے کو دلیل کی روشنی میں ثابت کرتے ہوئے اس سے منطقی نتیجہ اخذ کرکے محاکمہ کرتے ہوئے مضمون کو سمیٹنے کی کوشش کریں۔

اپنی تحریر میں مزید خوبصورتی پیدا کرنے کے لیے مضمون سے متعلقہ اشعار بھی شامل کر سکتے ہیں۔ کیونکہ شاعری بھی اظہار کا ایک ذریعہ ہےجس میں ہم اپنے خیالات وجذبات کو ایک منفرد اور دل کش انداز میں اس طرح بیان کرتے ہیں کہ بات بھی سمجھ میں آجاتی ہے اور طبیعت پر بار بھی محسوس نہیں ہوتا۔

کچھ شعر و شاعری سے اپنا نہیں تعلق

اس ڈھب سے کوئی سمجھے بس مدّعا یہی ہے

حوالہ جات

مضمون میں حوالہ جات کا درست طریق کے ساتھ درج ہونا بہت ضروری ہے۔ خاص طور پر اگر کوئی علمی مضمون لکھا جائے تو حوالہ جات میں غلطی یا کمی ایک بہت بڑا سقم ہوگا۔

٭…جب بھی ہم قرآنی حوالہ دیں تو ساتھ میں اس سورۃ کا نام اور آیت نمبر ضرور تحریر کریں۔ آیت کا ترجمہ لکھتے وقت اس بات کا بھی ذکر ہو کہ یہ ترجمہ کس کا بیان فرمودہ ہے۔ جماعتی روایات کے مطابق ہم حضرت مسیح موعودؑ یا خلفاءکے بیان فرمودہ تراجم باحوالہ استعمال کرتے ہیں۔

٭… حدیث کاحوالہ درج کرتے وقت اس امر کو مدّ نظر رکھنا چاہیے کہ حدیث کا مکمل حوالہ دیا جائےجس میں حدیث کی کتاب، باب، حدیث نمبرتحریر ہو۔

٭…حضرت مسیح موعودؑ کی کتب کا حوالہ دینے کا درست طریق یہ ہے کہ آپ کےکتب کے مجموعہ کو جو ُروحانی خزائن‘کے نام سے شائع شدہ ہے کا حوالہ دیں۔ مثلاً براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد1اور اس کے آگے صفحہ نمبر اور ایڈیشن درج ہو۔

٭…خلفائے احمدیت کے خطبات اور خطابات کا حوالہ دیتے وقت پہلے یہ لکھنا ضروری ہےکہ یہ خطبہ یاخطاب کس موقعے کا ہے۔ اس میں معین تاریخ اور سن ہو تو بہتر ہے۔ اس کےبعد یہ درج ہو کہ یہ کس جگہ طبع ہوا تھا۔ مثلاً اگر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے خطبہ جمعہ کا حوالہ دینا ہے تو اس طرح دیں گے کہ ’خطبہ جمعہ فرمودہ14؍اگست2020ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل4؍ستمبر2020ءصفحہ5تا10‘

٭…کسی اَور کتاب کا حوالہ دینا ہو تو کتاب کانام اورمصنف نیزایڈیشن نمبر؍سال، ناشرکا نام، مقام اور سن اشاعت بھی اگر شامل کیا جائے تواور بہتر ہو گا تاکہ اگر کوئی قاری خود متعلقہ حوالہ دیکھنا چاہے تو بآسانی وہاں تک پہنچ سکے۔

٭…اگرکسی جگہ سے حوالہ لفظ بلفظ لیا جارہا ہو تواس کے شروع میں کومے(’’)ہوں اور جب حوالہ ختم ہو تو آخر پر بھی کومے (‘‘) کا نشان ہو۔

٭… بسا اوقات ہم حوالہ جات میں سے پیراگراف یا مکمل جملہ تحریر نہیں کرتے بلکہ نفسِ مضمون میں سے اپنے مطلب کا حصہ درج کرتے ہیں۔ اس صورت میں چاہیے کہ بات شروع کرنے سے پہلے چند نقطے( …)ڈال کر اپنا حوالہ بیان کریں۔ اگر درمیان سے کچھ حصہ جھوڑ رہے ہیں تو بھی یہی طریق ہےکہ چند نقطے(…) ڈالے جائیں تا کہ قاری کو معلوم ہو کہ مسلسل تحریر نہیں لی گئی۔

مضمون نویسی کے متعلق حضرت مصلح موعودؓ کے ارشادات

حضرت مصلح موعود ؓنے مضمون نویسی اور تقریری مقابلوں کے بارے میں خدّام الاحمدیہ کو خصوصی ہدایت دیتے ہوئے فرمایا:

’’…میں نے کہا تم مشورہ بے شک لو مگر جو کچھ لکھو وہ تم ہی لکھو۔ تا تم کو اپنی ذمہ داری محسوس ہو۔ گو اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شروع میں وہ بہت گھبرائے۔ انہو ں نے اِدھر اُدھر سے کتابیں لیں اور پڑھیں۔ لو گو ں سے دریافت کیا کہ فلا ں بات کا کیا جواب دیں۔ مضمون لکھے اور بار بار کاٹے، مگر جب مضمون تیار ہو گئے اور انہو ں نے شائع کئے تو وہ نہایت اعلیٰ درجہ کے تھے اور میں سمجھتا ہو ں وہ دوسرے مضمو نو ں سے دوسرے نمبر پر نہیں ہیں۔ گو ان کو ایک ایک مضمون لکھنے میں بعض دفعہ مہینہ مہینہ لگ گیا اور ہمارے جیسا شخص جسے لکھنے کی مشق ہو، شاید ویسا مضمون گھنٹے دو گھنٹے میں لکھ لیتا۔ اور پھرکسی اور کی مدد کی ضرورت بھی نہ پڑتی مگر وہ دس بارہ آدمی ایک ایک مضمون کیلئے مہینہ مہینہ لگے رہے۔ لیکن اس کا فا ئدہ یہ ہوا کہ جو اسلامی لٹریچر ان کی نظروں سے پو شیدہ تھا وہ ان کے سامنے آگیا اور دس بارہ نوجوانوں کو پڑھنا پڑا۔ … دوسرا فا ئدہ جما عت کو …یہ پہنچے گا کہ اسے کئی نئے مصنف اور مؤلف مل جا ئیں گے۔ ‘‘

(مشعلِ راہ جلد اوّل صفحہ 19، اشاعت مئی 2004ء )

جب خدّام کی اس کام کے لیے کچھ ٹریننگ ہو گئی تو آپؓ نے فرمایا:

’’…انہیں یہ اختیار دیا جائے کہ وہ ضروری کتابیں دیکھ سکیں لیکن کسی سے مشورہ نہ لیں بہر حال انہیں یہ موقع دینا چاہئے کہ وہ مختلف کتابوں سے استنباط کر کے مضامین لکھیں۔ آخر ہم مضامین لکھتے ہیں۔ تو کیا فرشتے آکر ہمیں نوٹ لکھواتے ہیں ؟ ہم بھی دوسری کتابوں کا مطالعہ کر کے اوران سے مسائل اخذ کر کے مضامین لکھتے ہیں ۔‘‘

(مشعلِ راہ جلد اوّل صفحہ 584، اشاعت مئی 2004ء)

پھر ایک اور جگہ مختلف علوم کا ذکر کرتے ہوئے آپؓ نے مضمون نویسی کے حوالے سے فرمایا:

’’مضمون نویسی، اخبار نویسی کے علاوہ ایک علم ہے اس میں بعض کیفیتوں اور جذبات کا ذکر ہوتا ہے۔ مثلاً جب محبت پر مضمون لکھا جائے گا تو اس کی کیفیت اور حقیقت بیان کرنی ہوگی۔ اسی میں ان امور پر بحث ہوگی جو محبت کے اثر کو قوّی بناتے ہیں۔ اور پھر اس کے نتائج کو بیان کرنا ہوگا۔ اسی طرح اگر نفرت پر لکھنا ہے تو اس کی ساری کیفیت کا ایک نقشہ کھینچ کر سامنے رکھ دیا جائے۔ ‘‘

(اوڑھنی والیوں کے لئے پھول، صفحہ 86حصہ اوّل)

ایک مرتبہ خواتین کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:

’’…عورتیں جرأت سے کام لیں مضمون لکھنے اور تقریر کرنے کی کوشش کریں …‘‘

(اوڑھنی والیوں کے لئے پھول، صفحہ 190حصہ اوّل)

خد ا تعا لیٰ کا ہم پہ بے انتہا فضل ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ اور آپ کے خلفائےکرام نے نئے لکھنے والوں کی ہمیشہ حوصلہ افزائی فرمائی، اور خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ میں نئے لکھنے والے پیدا ہو تے رہے۔

نئے لکھنے والوں کے تجربہ میں کمی ہوتی ہے جس کی وجہ سے بسا اوقات غلطیاں بھی ہو جاتی ہیں۔ مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ ہمت نہ ہاریں اور تجربہ والے افراد ان کی حوصلہ افزائی کرتے رہیں اور ان کی رہ نمائی کریں۔

یہ دورمسیحِ محمدی کے ماننے والوں کے لیے علمی اور قلمی جہاد کا دور ہے کیونکہ آپؑ فرماتے ہیں :

’’قرآن کریم میں صاف حکم ہے کہ دین پھیلانے کے لئے تلوار مت اُٹھائو اور دین کی ذاتی خوبیوں کو پیش کرو اور نیک نمونوں سے اپنی طرف کھینچو۔ ‘‘

(ستارۂ قیصریہ روحانی خزائن جلد نمبر 15صفحہ نمبر120)

لہٰذا ہمیں اپنی ذہنی صلاحیتوں سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے کوشش کرنی چاہیے کہ ہم زیادہ سے ز یادہ اس قلمی جہاد میں حصہ لیں۔ حضرت مسیح موعودؑنے اسلام کی تا ئید کے لیے لکھنے والو ں کو بہت دعا ئیں دی ہیں۔ خدا کرے کہ ہم آپ ؑکی دعاؤں کے وارث بنیں۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button