حاصل مطالعہ

حاصل مطالعہ

اسلام کے دفاع کے لیے نئی نوجوان نسل کو صحافت میں آنے کی تحریک

٭…حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

’’پس میں احمدیوں کو اب یہ تلقین کرتا ہوں کہ صورتحال کے تجزیہ کے نتیجے میں وہ ایسی مؤثر اور دیر پا کارروائی کریں جو آئندہ نسلوں تک پھیل جائے۔ اگلی صدی، اس سے اگلی صدی، اُس سے اگلی صدی۔ اب یہ ایک صدی کا معاملہ نہیں ہے۔ محمد مصطفیٰﷺ کا سارا زمانہ غلام ہے۔ اپنے پہلے زمانے کے بھی وہ بادشاہ تھے اور آئندہ زمانوں کے بھی وہی بادشاہ ہیں اس لئے ہمیشہ کے لئے جماعت احمدیہ ایسی کوششوں میں وقف ہو جائے جس کے نتیجے میں دشمن کے ہر ناپاک حملے کو ناکام بنایا جائے۔

پس میں جماعت کی اُن نسلوں کو خصوصیت سے مخاطب ہوں جو ان ملکوں میں پیدا ہوئے ہیں جہاں اسلام پر حملے ہوتے ہیں کہ اگرچہ ہم ان حملوں کے لئے دفاع کا مضمون جہاں سمجھتے ہیں لیکن یہاں کی زبان کے اسرار ہمیں نہیں آتے۔ وہ لوگ جنہوں نے انگریزی تعلیم حاصل کی ہے ہندوستان میں یا پاکستان میں یا دیگر ممالک میں شاذ اُن میں سے ایسے ہیں جن کا بچپن کا ماحول وہی تھا جو اہل زبان انگریزی دانوں کا ماحول ہوا کرتا ہے۔ جیسے اعلیٰ، اعلیٰ تو نہیں کہنا چاہئے ایسے انگریزی سکولوں میں، Convent سکولوں میں پڑھے جس کے نتیجے میں دین کا بے شک کچھ نہ رہا ہو لیکن انگریزی زبان پر دسترس ہو گئی اور اس محاورے کے واقف ہو گئے جو ان کو پسند آتا ہے۔ اس لئے اپنی نئی نسلوں کو مقامی زبانوں میں ماہر بنائیں اور نئی نوجوان نسلوں میں سے کثرت کے ساتھ اخبار نویس پیدا کریں کیونکہ صرف زبان کا محاورہ کافی نہیں اخبار نویسی کی زبان کا محاورہ ضروری ہے اور اس نیت سے کریں کہ ساتھ ساتھ یہ اسلام کا گہرا مطالعہ بھی کریں گے تاکہ ان کی زبان دانی اسلام کے حق میں اور محمد مصطفیٰﷺ کے دفاع میں استعمال ہو۔ اس لئے امریکہ ہو یا افریقہ ہو یا چین ہو یا جاپان ہو یا یورپ کے متفرق ممالک ہوں یا ایشیا کے دیگر ممالک جہاں جہاں بھی احمدی خدا کے فضل کے ساتھ موجود ہیں اور مقامی طور پر ایسی پرورش انہوں نے پائی ہے اور ایسی تعلیم حاصل کی ہے کہ اس ملک کے اہل زبان شمار کئے جاسکتے ہیں ان کو محمد مصطفیٰﷺ کے دفاع کے لئے وقف ہو جانا چاہئے اور اس نیت سے ادب اور کلام پر دسترس حاصل کرنی چاہئے اور قادرالکلام بننا چاہئے کہ خود انہی کے ہتھیاروں سے انہی کے انداز سے ہم ان کے متعلق جوابی کارروائی کریں گے اور اسلام کا دفاع کریں گے اور حضرت اقدس محمد مصطفیﷺ کے تقدس کی حفاظت کریں گے اور یہ جنگ آج کی چند دنوں کی جنگ نہیں ہے یہ لوگ اس حملے کو بھول جائیں گے اور یہ تاریخ کی باتیں بن جائیں گی اور پھر ایک بدبخت اُٹھے گا اور پھر حملہ کرے گا اور پھر بدبخت ایک لائن میںاُٹھے گااور پھر حملہ کرے گا۔ اس لئے احمدیت کو چاہئے کہ وہ ہمیشہ کے لئے آنحضورﷺ کے سامنے سینے تان کے کھڑی ہو جائے۔ جس طرح حضرت طلحہؓ نے کیا تھا کہ جو تیر حضرت محمد مصطفیٰﷺ پر برسائے جارہے تھے اپنے ہاتھ پر لئے اور ہمیشہ کے لئے وہ ہاتھ بے کار ہو گیا اس طرح اپنا سینہ سامنے تان کر کھڑا ہوا جائے تمام تیر جو ہمارے آقا محمد رسول اﷲﷺ پر چلائے جارہے ہیں اپنے سینوں پر لیں یہ اسلام ہے یہ اسلام کی محبت ہے اس طرح اسلام کا دفاع ہونا چاہئے۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ24؍ فروری 1989ء مطبوعہ خطباتِ طاہر جلد 8صفحہ 130تا 131)

(مرسلہ:ذیشان محمود)

بھارتی مسلمان ہندو وکلاء کی مدد لینے پر مجبورکیوں؟

٭…مکرم نقی احمد ندوی صاحب، ریاض، (سعودی عرب) اخبار ’’چوتھی دنیا‘‘میں زیرعنوان ’’وکالت، مولوی اور مسلمان‘‘ لکھتے ہیں :

’’اس میں کوئی شک نہیں کہ وکالت سماج کا ایک معزز پیشہ ہے، ایک وکیل معاشرہ کے محروم طبقات کے حقوق کی جنگ لڑتا ہے، مظلوموں اور بیکسوں کی آواز بن کر انہیں انصاف دلاتا ہے اور ظلم وزیادتی کرنے والوں کو سزا دلا کر سماج کو صحت مند رکھنے میں حکومت کی مدد کرتا ہے، مگر عجیب بات ہے کہ یہ پیشہ بھی مسلم سماج میں معیوب سمجھا جاتا ہے، جہاں تک علماء اور فارغین مدارس کا تعلق ہے تو وہ اس پیشہ کو حرام نہیں تو کم ازکم مکروہ ضرور سمجھتے ہیں، آپ نے شاید ہی سنا ہو کہ ایک عالم وکیل اور جج ہے یا مدرسہ کا ایک فارغ وکالت کر رہا ہے، اس کی سب سے بڑی وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ عام طور پر یہ تصور کیا جاتاہے کہ وکلاء جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ قرار دیتے ہیں جو شریعت میں حرام ہے۔ اسی تصور نے علماء کرام اور فارغین مدرسہ کو اس پیشہ سے ہمیشہ دور رکھا ہے۔

اسی تصور اور سوچ کی وجہ سے ہندوستان میں عام طور پر مسلمان وکالت نہیں پڑھتے، جس کے نتائج اب ظاہر ہونے لگے ہیں، مسلمانوں کی آبادی ہندوستان میں پندرہ سے بیس کروڑ ہے مگر اس سے زیادہ شرم کی بات کیا ہو سکتی ہے کہ ہم نے بابری مسجد اور تین طلاق کا کیس لڑنے کیلئے ہندو وکلاء کا سہارا لیا ہے۔ مسلمانوں کی پوری آبادی مل کر بھی ایسے وکلاء نہیں پیدا کرسکی جو مسلمانوں کے کیس کا دفاع کر سکے۔

مسلم میرر نے 2016ء میں ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں لکھا گیا ہے کہ رپورٹ کے مطابق 2011ء میں مسلمانوں کی آبادی 14.2 فیصد ہے مگر ہندوستان کے ہائی کورٹوں میں آبادی کے تناسب سے مسلم ججوں کی تعداد کم ہے بلکہ اس تعداد میں روزافزوں کمی آتی جارہی ہے۔ ڈیپارٹمنٹ آف جسٹس کے مطابق چوبیس ہائی کورٹ میں 1044 جج کے پوسٹ ہیں جن میں 443جگہیں خالی ہیں۔ باقی رہ گئے 601 ججوں کی پوسٹ تو ان میں صرف 26؍ مسلم جج ہیں۔ اس حساب سے ہائی کورٹ میں مسلمانوں کا تناسب صرف 4.3 فیصد ہے، جبکہ آبادی کے تناسب سے کم سے کم مسلم ججوں کی تعداد 86 ہونی چاہیے تھی۔

اسی طرح اترپردیش میں مسلمانوں کی تعداد 19.3 فیصد ہے۔ اس لحاظ سے وہاں کے ہائی کورٹ میں پندرہ جج ہونے چاہئیں، مگر 2011ء میں 74 ججوں میں صرف چار مسلم جج تھے۔ جموں کشمیر کے ہائی کورٹ میں کل دس جج ہوتے ہیں، وہاں کی آبادی کے لحاظ سے سات مسلم جج ہونے چاہئیں، مگر صرف تین ہیں جن میں ایک کی ریٹائرمنٹ ہونے والی ہے اور تقریباً یہی تناسب ہندوستان کے دیگرصوبوں میں بھی ہے۔

صورت حال یہ ہے کہ ہر صوبہ میں نہ جانے کتنے کیس مسلمانوں کے خلاف چل رہے ہیں، دہشت گردی کے نام پر مسلم نوجوانوں کو سلاخوں کے پیچھے دھکیلا جا رہا ہے، قبرستانوں پر زبردستی قبضہ کیا جا رہا ہے، فسادات میں مسلمانوں کا قتلِ عام ہوتا ہے، ماب لنچنگ کے نام پر نوجوانوں کو سرعام مار دیا جاتا ہے، مگر ان سارے معاملات کا کیس لڑنے کے لیے امت ہندو وکلاء کا سہارا لینے پر مجبور ہے۔ سپریم کورٹ میں شاہ بانو کیس ہو یا بابری مسجد کا کیس یا طلاق کا نیا مسئلہ، مسلمانوں کو دفاع کے لیے غیر مسلم وکلاء کی خدمات لینی پڑتی ہیں اور دن بدن صورت حال بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے۔

شعبہ قانون میں مسلمانوں کے زوال اور پچھڑا پن کی وجہ وہ سوچ اور تصور ہے جو صدیوں سے سماج کے اندر چھائی ہوئی ہے کہ وکالت جھوٹ اور فریب کا پیشہ ہے، حالانکہ اس میں پوری طرح سچائی نہیں، وکالت قانون کی باریکیوں کو سمجھنے اور بات کو مؤثر انداز میں رکھنے کا نام ہے۔ آپ غلط کیس اگر نہیں لیتے تو میں نہیں سمجھتا کہ کوئی زبردستی آپ کو غلط کیس لڑنے پر مجبور کرے گا۔ سچ اور سچائی کا ساتھ دینے والوں کی دنیا میں کبھی کمی نہیں رہی ہے۔

خوش قسمتی سے ہمارے ملک میں اچھے اچھے مدارس کا جال پھیلا ہوا ہے۔ ہر سال ہزاروں کی تعداد میں فضلاء فقہ کی کتابیں پڑھ کر فارغ ہوتے ہیں، اگر اہل مدارس یہ طے کر لیں کہ شعبۂ قانون میں ہر سال کچھ نہ کچھ طلبہ کو تیار کر کے بھیجیں گے تو صرف چند سالوں میں یہ صورت حال بدل سکتی ہے۔ ‘‘

(http://urdu.chauthiduniya.com/advocacy-maulvi-and-muslim/)

نقی احمد ندوی صاحب نے بھارتی مسلمانوں کے حالات کے جس سلگتے پہلو کا ذکرکیا ہے وہ واقعی افسوس ناک ہے لیکن اس مسئلہ کے حل کے لیے انہوں نے جس طرح سے وہاں کے اہل مدارس سے درخواست کی ہے اسے پڑھ کر میرؔ کا شعریادآجاتا ہے کہ

میرؔ کیا سادہ ہیں، بیمارہوئے جس کے سبب

اسی عطّارکے لونڈے سے دوالیتے ہیں

(مرسلہ:طارق احمدمرزا۔ آسٹریلیا)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button