یادِ رفتگاں

محترم محمد شریف اشرف صاحب کی شخصیت اور خدمات

(م م طاہر)

حضرت مصلح موعودؓ کے پرائیویٹ سیکرٹری اور سابق ایڈیشنل وکیل المال لندن

محترم محمد شریف اشرف صاحب جنہیں حضرت مصلح موعود ؓکے پرائیویٹ سیکرٹری ہونے کا اعزاز حاصل تھااور پھر خلافت رابعہ میں آپ ایڈیشنل وکیل المال لندن کے طور پر بھی خدمات بجا لاتے رہے، 26؍ستمبر 1920ء کو ضلع امرتسر کے ایک گاؤں بلڑ وال نزد اجنالہ جو کہ قادیان سے تقریباً 40میل کے فاصلہ پر تھاایک دیندار گھرانہ میں پیدا ہوئے۔ آپ نے 11؍اگست 2003ء کو 83سال کی عمر میں لندن میں وفات پائی اور بروک وڈ قبرستان کے قطعہ موصیان میں سپردِ خاک کیے گئے۔

آپ کے والد محترم کا نام میاں فتح محمد صاحب ابن حضرت میاں عمر دین صاحب تھا۔ آپ کی والدہ کا نام مہربی بی صاحبہ تھا۔ آپ کے نیک اور بزرگ والدین بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہیں۔ آپ کے خاندان میں احمدیت آپ کے دادا کے بھائی حضرت میاں محمد الدین صاحبؓ کے ذریعہ آئی جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ کے بعد جلد ہی بیعت کر لی تھی اور وہ حافظ قرآن اور اپنے گاؤں کی مسجد کے امام تھے۔ انہوں نے بیعت کے بعد گاؤں کو چھوڑ دیا اور قادیان میں مستقل سکونت اختیار کر لی اور یہاں کریانہ کی دکان کیاکرتے تھے۔ مسجد اقصیٰ کے قریب ہی آپ کا گھر تھا۔ آپ کا شمار قادیان سکونت اختیار کرنے والے ابتدائی احمدیوں میں ہوتا ہے۔ آپ کے بعد آپ کے دیگر تینوں بھائیوں حضرت میاں عمر دین صاحبؓ، حضرت میاں نبی بخش صاحبؓ (مدفون بہشتی مقبرہ ربوہ )اور حضرت میاں احمددین صاحبؓ نے بھی بیعت کر کے صحابی ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ حضرت میاں محمد دین صاحبؓ نے نظام وصیت کے آغاز کے بعد جلد ہی اس میں شمولیت اختیار کر لی اور آپ کا وصیت نمبر312ہے۔ آپ 1917ء میں فوت ہوئے اور بہشتی مقبرہ قادیان میں مدفون ہیں۔ قادیان میں آپ کا گھر پورے خاندان کے لیے باعث برکت بنا اور حقیقی معنوں میں یہ خاندان احمدیت کے نور سے منور ہو گیا۔ حضرت میاں محمد دین صاحبؓ کے بھتیجے محترم میاں غلام محمد اختر صاحب جنہیں ناظر اعلیٰ رہنے کی سعادت حاصل رہی نےآپ کے ہاں رہ کر قادیان میں تعلیم پائی تھی۔ اس طرح اس خاندان میں جناب قمر اجنالوی صاحب جیسے شاعر، صحافی اور ناول نگار اور محترم محمد شریف اشرف صاحب جیسے خادم سلسلہ نے بھی جنم لیا۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کے فضل، احمدیت کے نور اور بزرگان کی دعاؤں سے ممکن ہوا۔

محترم محمد شریف اشرف صاحب نیک والدین کی اولاد تھے۔ آپ کے والد صاحب نے بھی دیگر خاندان کے افراد کی طرح اپنے گاؤں بلڑ وال کو ترک کر کے قادیان سکونت اختیار کر لی اور پھر ریلوے میں ملازم ہو گئے۔ والدین تہجد گزار اور مستجاب الدعوات تھے۔ آپ کی والدہ محترمہ کی کئی خوابیں آپ کے حق میں پوری ہوئیں۔ آپ کو پیدائش کے بعد محمد شریف نام دیا گیالیکن سکول داخلہ کے بعد پرائمری سکول ماسٹر نے آپ کے نام کے ساتھ اشرف کا اضافہ کر دیاکیونکہ آپ کی کلاس میں دو تین اور بھی محمد شریف تھے۔ آپ اپنے نام کی طرح شریف النفس اور اشرف کے اضافہ کے بعد باعث شرف واکرام بھی بنے اور معزز عہدوں پر خدمت کی توفیق پائی۔ آپ نے میٹرک کا امتحان قادیان سےپاس کیا اور یہاں کے مقدس ماحول سے اپنی شخصیت کو صیقل کیا۔ قادیان کی نیک تربیت اور پاکیزہ ماحول کا اثر آپ کی شخصیت پر منعکس ہوا۔

میٹرک کے بعد آپ فوری طور پر مزید آگے تعلیم جاری نہ رکھ سکے لیکن بعد میں آپ نے گریجوایشن بھی کی۔ میٹرک کے بعد آپ محکمہ ریلوے میں ملازم ہو گئے اور حمیرہ مقام پر اسٹیشن ماسٹر مقرر ہوئے۔ آپ کی شادی آپ کے تایا محترم میاں غلام محمد اختر صاحب کی بیٹی امۃ الحفیظ صاحبہ سے ہو گئی۔ وہ قوت گو یائی سے محروم تھیں لیکن نہایت پاک سیرت خاتون تھیں۔ دوسرے بیٹے کی ولادت کے بعد وہ انتقال کر گئیں آپ کے دونوں بچوں کی بھی وفات ہو گئی تھی۔

حضرت مصلح موعودؓ کی تحریک ِوقف پر آپ نے لبیک کہا اور ریلوے کی ایک اچھی ملازمت ترک کر کے وقف کے بعد قادیان میں خدمت کا آغاز کر دیا۔ ظاہری تعلیم تو میٹرک تھی اس لیے بطور محرر مختلف دفاتر میں کام کرتے رہے۔ آپ کی والدہ محترمہ نیک دعا گو خاتون تھیں اور حضرت مصلح موعودؓ سے ملاقاتوں کا سلسلہ بھی رہتا تھا۔ ایک ملاقات میں حضرت صاحب سے انہوں نے درخواست کی کہ میرے بیٹے کو کوئی اہم ذمہ داری سونپی جائے۔ حضورؓنے فرمایا کہ یہ تو اسی صورت میں ممکن تھا جب بہتر تعلیمی قابلیت ہوتی۔ آپ کی والدہ نے مزید تعلیم دلوانے کی درخواست بھی کی جسے حضورؓ نے منظور فرمایا۔ چنانچہ 1948ء میں جب آپ کی اہلیہ وفات پا گئیں جن کے ساتھ آپ کا تقریباً چار سال کا ساتھ رہا تھا۔ آپ نے حضرت صاحب ؓکی اجازت سے تعلیم الاسلام کالج لاہور میں ایف اے میں داخلہ لے لیا۔ ان دنوں لاہور ہی مرکز تھا۔ 1953ء میں آپ نے بی۔ اے کیا اور پھر اپنی خدمات جماعت کو پیش کر دیں۔ حضرت مصلح موعوؓد نے آپ کو اپنا اسسٹنٹ پرائیویٹ سیکرٹری مقرر فرمایا۔ آپ کی انگریزی زبان اور انگریزی لکھائی بہت اعلیٰ تھی چنانچہ دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں انٹرنیشنل ڈاک پر آپ کی ڈیوٹی لگ گئی۔ اس خدمت کے دوران آپ کو یہ اعزاز بھی ملا کہ 1955ء میں حضرت مصلح موعود ؓ انگلستان تشریف لائے تو آپ کو بھی اس سفر میں حضرت مصلح موعودؓ کی ہم راہی کا شرف حاصل ہوا۔

انگلستان آنے سے چند ماہ قبل ٹانگا نیکا (موجودہ تنزانیہ) کے ایک معروف احمدی ڈاکٹر مختار احمد ایاز صاحب (والدمحترم سر افتخار احمد صاحب ایاز) نے حضرت مصلح موعود ؓکی خدمت میں خط لکھا کہ ان کی خواہش ہے کہ وہ اپنی دختر نیک اختر مکرمہ ممتاز اختر صاحبہ کی شادی کسی واقف زندگی سے کریں جس سے حضرت مصلح موعودؓ پسند فرمائیں۔ روز مرہ کی ڈاک پیش کرنے کے دوران محترم محمد شریف اشرف صاحب نے اس تجویز پر رضا مندی ظاہر کی جس سے حضرت مصلح موعود ؓنے اتفاق فرمایااور خوشی کا اظہار بھی فرمایا۔ چنانچہ انگلستان روانگی سے قبل حضرت مصلح موعودؓ کی ایک حرم محترمہ نے مکرم شریف اشرف صاحب کو کہا کہ کچھ رقم دیں تا کہ ان کی ہونے والی دلہن کے لیے وہ لندن سے ان کی طرف سے تحائف خرید لیں۔ حضرت مصلح موعود ؓ کے اہل خانہ کی طرف سے محترم محمد شریف اشرف صاحب کو ہمیشہ عزت و احترام اور شفقتیں حاصل ہوتی رہیں۔

دورہ یورپ سے واپسی کے بعد 1956ء میں اشرف صاحب کی شادی مکرمہ ممتاز اختر صاحبہ سے ہوئی اور آپ نے ایک کامیاب عائلی زندگی گزاری۔ قیام لندن میں محترم شریف اشرف صاحب کے علاوہ آپ کی اہلیہ صاحبہ کو بھی جماعتی خدمت کی توفیق ملی۔ اور آپ لجنہ یو کے میں سیکرٹری ضیافت کے طور پر خدمات سرانجام دیتی رہیں۔ خاص طور پر جلسہ سالانہ کے مہمانوں کی مہمان نوازی کا بہت موقع ملا۔ آپ کھانے بنانے میں ماہر تھیں۔ جلسہ کے ایام میں آپ کچن میں ہی خدمت مہمانان کے لیے نظر آیا کرتی تھیں۔ جلسہ سالانہ پر آپ دونوں کے عزیز اور بعض دوسرے لوگ بھی کئی بار مہینوں آپ کے گھر ٹھہرا کرتے تھے۔ آپ کے بیٹے ڈاکٹر محمد افضل صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک بار ایک پاکستانی احمدی جوڑا جو اولاد سے محروم تھا اور علاج کی خاطر لندن آیا۔ انہوں نے والدین سے چھ ہفتے قیام کی اجازت لی لیکن وہ جوڑا تقریباً پورا سال ہمارے گھر قیام پذیر رہااور والدین نے فیملی ممبران جیسا خیال رکھا۔ آپ کی اہلیہ ممتاز اختر صاحبہ 12؍جولائی 2000ء کو وفات پاگئیں۔

محترم شریف اشرف صاحب جو 1953ء میں اسسٹنٹ پرائیویٹ سیکرٹری مقرر ہوئے تھے۔ 1959ء میں حضرت مصلح موعودؓ کے پرائیویٹ سیکرٹری مقرر ہوئے اور پھر جنوری 1962ء تک اس منصب پر فائز رہے۔ حضرت مصلح موعودؓ کی عظیم اور پہاڑ جیسی شخصیت کے ساتھ بطور پرائیویٹ سیکرٹری فرائض کی انجام دہی ایک غیر معمولی خدمت اور ایک باصلاحیت شخص ہونے کا ثبوت ہے۔ آپ بتایا کرتے تھے کہ اس دوران حضرت صاحب کی دل کی حلیمی کی بدولت آپ کی شفقتیں اور محبتیں بھی حاصل کیں اور حضرت صاحب کے جلال سے بھی حصہ پایا۔ لیکن بہت کچھ سیکھنے اور سنوارنے کا موقع ملا۔ قیام پاکستان کے زمانہ میں آپ کے صاحبزادہ مرزا مبارک احمدصاحب اور صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب سے دوستانہ مراسم تھے۔ قیام لندن کے دوران آپ کے قریبی دوستوں میں مکرم بشیر احمدخان رفیق صاحب، محترم بشیر دین صاحب اور محترم مبارک ساقی صاحب شامل تھے۔

1955ء کے دورہ انگلستان میں حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب بھی ساتھ تھے اس دورہ کے دوران آپ کی حضرت صاحبزادہ صاحب سے قربت کا تعلق قائم ہوا جو حضورؒ کے انتخاب خلافت کے بعد عقیدت میں ڈھل کر ہمیشہ خصوصاً حضورؒکی ہجرت برطانیہ کے بعد قائم رہا۔ اس امر کی گواہی آپ کے ساتھ وقت گزارنے والوں نے دی جن میں مکرم مبارک احمد ظفر صاحب، مکرم اخلاق انجم صاحب، مکرم میجر محمود احمد صاحب شامل ہیں۔ حضورؒازراہِ شفقت آپ سے ہلکے پھلکے، شگفتہ انداز سے بھی گفتگو فرما لیا کرتے۔ آپ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کی قرآن کلاس میں باقاعدہ شامل ہوتے تھے۔ اس موقع پر حضورؒ بعض اوقات آپ سے مخاطب ہوتے۔ آپ کے بیٹے ڈاکٹر محمد افضل صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی شگفتہ مزاجی کا ذکر کرتےہوئے بیان کیا کہ ایک بار حضورؒ نے ایک مجلس میں ابا جان کے بارے میں احباب کو فرمایا کہ اشرف صاحب جتنے جوان لگتے ہیں اتنے ہیں نہیں، ان کے سیاہ بالوں سے دھوکا نہ کھائیں انہوں نے بالوں کو رنگ کیا ہوا ہے۔ اسی طرح ایک دفعہ والد صاحب کے بارے میں پُرشفقت انداز میں حضورؒنے مجلس میں فرمایا کہ لوگ ان کو حافظ قرآن سمجھتے ہیں کیونکہ یہ تراویح پڑھاتے ہیں۔ یہ حافظ نہیں ہیں تھوڑا ہی یادہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ آپ سے بہت شفقت اور محبت کا سلوک فرمایا کرتے تھے۔

1959ء سے 1962ء جب آپ کو پرائیویٹ سیکرٹری کے طور پر خدمت کی توفیق ملی اور اس حیثیت سے آپ تین سال سیکرٹری مجلس شوریٰ بھی رہے۔ جنوری1962ء میں جب آپ کی تبدیلی ہوئی تو وہ وقت آپ کے لیے بہت مشکل تھا۔ حضرت صاحب کی بیماری کی وجہ سے ملاقات بھی آسان نہ تھی اور تبدیلی کی وجہ سے آپ کو حضرت صاحب سے سامنا کرنے کی جرأت بھی نہ تھی۔ ان حالات میں بعض بزرگان سے مشورے کے بعد آپ بیرون ملک چلے گئے۔ چنانچہ اپریل 1962ء میں آپ انگلستان آگئے۔ ایسے حالات میں انگلستان پہنچے کہ کل پونجی صرف پانچ پاؤنڈ اور آنسوؤں کے سیلِ رواں پر مشتمل تھی۔

لنڈن آکر آپ کی پہلی ملازمت محکمہ ڈاک میں تھی جو سات سال تک رہی۔ 1969ء میں آپ نے برٹش ریل میں ملازمت اختیار کر لی اور اسی ملازمت سے ریٹائر ہوئے۔ ریل میں آپ کی نوکری آسان نوعیت کی تھی۔ آپ کو ہر کچھ دیر بعد فرصت کے لمحات ملتے جن میں آپ اپنا مطالعہ کتب کا شوق پورا کرتے۔ جماعتی کتب کے ساتھ ساتھ آپ انگریزی ناول پڑھنے کے بھی شوقین تھے۔ آپ کے بیٹے محمد آصف صاحب بیان کرتے ہیں کہ والد صاحب کو بطور سیکرٹری تبلیغ بھی خدمت کی توفیق ملی اور آپ کا مطالعہ کتب کا شوق آپ کی تبلیغ کے لیے بہت کارآمد ثابت ہوا۔ آپ جماعتی عقائد کے بارے میں لوگوں سے دلیل کے ساتھ بات کرتے تھے۔ ملازمت محض روز مرہ ضروریات پوری کرنے کے لیے تھی۔ آپ کی اولین ترجیح جماعتی خدمت اور مسجد سے مضبوط تعلق تھا۔ آپ کا جماعت سے گہرا تعلق رہااور مختلف عہدوں پر خدمت کی توفیق ملی۔

لندن آنے کے بعد اپنی فیملی کو جو اس وقت بیوی اور تین بچوں پر مشتمل تھی لندن بلانا آپ کی ترجیح تھی۔ چنانچہ آپ کی کوشش تھی کہ اس کے لیے کوئی گھر خرید لیں تا فیملی آسکے۔ گھر کے بارے میں آپ کی صرف یہ خواہش تھی کہ ایسا گھر مل جائے جو مسجد فضل کے قریب ہو۔ 1965ء میں پارسنز گرین ٹیوب اسٹیشن کے بالکل پاس ایک مناسب گھر مہیا تھا اور اس کے لیے فوری طور پر 500پاؤنڈزکی ضرورت تھی جو ان دنوں ناممکن دکھائی دے رہے تھے۔ آپ اپنے مولیٰ کے حضور سربسجود ہو گئے۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ چند ہی دنوں کے بعد آپ کا 500پاؤنڈز کا انعامی بانڈ نکل آیا اور آپ کی ضرورت پوری ہو گئی اور آپ مسجد فضل کے پاس گھر لینے میں کامیاب ہو گئے۔ اپریل 1966ء میں آپ کی فیملی آپ کے پاس پہنچ گئی۔ لندن آ کر اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک بیٹی اور بیٹا اور عطا فرمایا۔ آپ نے اپنی زندگی میں تین گھر بدلے ہیں اور ہر دفعہ آپ کا گھر مسجد فضل کے قریب تر ہوتا گیا۔ چنانچہ آپ کا آخری گھر Granville Road پر تھا جو مسجد فضل سے چند قدم ہی دور تھا جس کی برکت سے آپ پانچ وقت نماز باجماعت مسجد فضل میں ادا کرتے۔ نماز باجماعت آپ کی زندگی کا لازمہ تھا۔ آپ خوش لحن بھی تھے۔ آپ کی تلاوت سن کر بھی بہت لطف آتا۔ روزوں میں باقاعدگی تھی۔ عمر کے آخری چند سالوں میں آپ کی فیملی آپ کی صحت کے حوالے سے فکر مند تھی کہ آپ نے دوائیں بھی لینی ہیں تو روزوں کی رخصت سے فائدہ اٹھائیں۔

آپ چونکہ خوش لحن تھے اور بہت خوبصورت مترنم آواز سے تلاوت کیا کرتے تھے اور آپ نے قرآن کریم کے کئی حصے حفظ کر رکھے تھے اس لیے لندن میں مکمل حافظ قرآن کے آنے تک آپ مسجد فضل میں رمضان المبارک میں نماز تراویح بھی پڑھاتے رہے۔ آپ کی مترنم نظم خوانی کی خوبی سے بھی جماعت نے فائدہ اٹھایا اور آپ ساٹھ ستر کی دہائی کے جماعتی جلسوں میں نظمیں بھی پڑھتے رہے۔ فجر کے بعد ساؤتھ فیلڈز کی گلیوں میں آپ کی خوبصورت تلاوت اور جماعتی نظموں کی گونج کے بہت سے لوگ شاہد ہیں۔ جماعتی تفریحی دوروں اور پکنکس کے دوران بھی آپ نظمیں سنایا کرتے تھے۔

آپ اچھی آواز سننے کا بھی شوق رکھتے تھے۔ آپ کے چھوٹے بھائی ونگ کمانڈر محمد حنیف شاد صاحب حال مقیم کینیڈا بیان کرتے ہیں کہ ایک بار آپ پاکستان ہمارے گھر آئے تو ہماری فیملی مجلس کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے جس میں ہم باتیں کرتے، شعر سناتے وغیرہ تو میری بیٹی جو خوش لحن تھی اس سے آپ نے ایک غزل مترنم سننے کی فرمائش کی۔ اس غزل میں اداسی کا مضمون بھی تھا۔ میری بیٹی غزل سنا رہی تھی اور بھائی اشرف کے آنسو رواں تھے۔ آپ واپس لندن گئے تو فون پر بیٹی سے فرمائش کر کے وہ غزل دوبارہ مترنم آواز میں سنی۔ ان دنوں فون کالز بہت مہنگی تھیں لیکن آپ نے وہ غزل سنی اور آبدیدہ رہے۔ آپ کی وفات(2003ء) پر لندن گیا تو آپ کے کمرے میں صوفیانہ کلام پر مشتمل ’’سیف الملوک‘‘ کی آڈیو کیسٹ پڑی دیکھی جس کو آپ تنہائی میں سنا کرتے تھے۔

برطانیہ میں ایک خوشگوار زندگی بسر کرنے کے باوجود آپ کے دل میں جماعت کی خدمت کے لیے شمع سلگتی رہی۔ آپ کی یہ خواہش تھی کہ میں مستقل جماعتی خدمت میں واپس آجاؤں۔ آپ کے بڑے بیٹے گروپ کیپٹن محمد افضل بتاتے ہیں کہ 1982ء میں خلافت رابعہ کے انتخاب کے وقت آپ نے پختہ عہد کرلیا کہ میں لندن سے ریٹائرمنٹ کے بعد واپس پاکستان چلا جاؤں گااور جماعتی خدمت کروں گا۔ اللہ کی تقدیر کہ حضرت صاحب کو 1984ء میں پاکستان سے انگلستان ہجرت کرنا پڑی۔ آپ نے حضورؒکی خدمت میں وقف کی درخواست دی جو حضورؒنے ازراہ شفقت قبول فرمائی۔ 86-1985ء میں برٹش ریل سے ریٹائر منٹ کے بعد آپ جماعتی خدمت میں آگئے اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے 1986ء میں آپ کو ایڈیشنل وکیل المال مقرر فرما دیا۔ جس پر آپ 1999ء تک فائز رہے۔ آپ کی بیماری اور بڑھاپے کی وجہ سے آپ کو ریٹائر کیاگیا۔ جماعتی خدمت میں واپسی آپ کے لیے بہت ہی خوشی کا باعث ہوئی گویا آپ کی دلی مراد پوری ہو گئی۔ اس خدمت کے دوران ایک خوشگوار اور ایمان افروز واقعہ بھی پیش آیا۔

1990ءکے لگ بھگ کی بات ہے جب پرائیویٹ سیکرٹری صاحب دو تین ہفتوں کے لیے رخصت پر چلے گئے تو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے ان ایام کے لیے آپ کو پرائیویٹ سیکرٹری کا چارج سنبھالنے کی ہدایت فرمائی۔ یوں آپ کو ایک بار پھر اسی خدمت کا موقع اللہ تعالیٰ نے فراہم کر دیا جو آپ پاکستان میں کیا کرتے تھے۔ تب آپ کو اپنی والدہ محترمہ کی وہ خواب یاد آئی جو انہوں نے آپ کے لندن آنے سے پہلے دیکھی تھی اور آپ کو کہا تھا کہ بیٹا ! تم ایک بار پھر پرائیویٹ سیکرٹری بنو گے۔ تقریباً تیس سال بعد ان کی والدہ کی رؤیا پوری ہو گئی۔ آپ کے بیٹے محمد افضل صاحب بتاتے ہیں کہ آپ کے قیام پاکستان کے وقت آپ کی والدہ نے آپ کے بارے میں ایک خواب دیکھی جو والد صاحب بیان کرتے تھے کہ انہوں نے خواب میں دیکھا اور بتایا کہ بیٹا میں نے تمہارے گھر کاریں دیکھی ہیں۔ اس زمانہ میں یہ کاریں دیکھنا بظاہر ناممکن بات تھی۔ اور پھر لندن آکر بھی کاروں کی طرف آپ کی رغبت اور استطاعت نہ تھی لیکن آپ کی لائق اولاد کے جوان ہونے کے بعد گھر میں کھڑی کاروں کے منظر نے آپ کی والدہ کا وہ خواب بھی پورا کر دیا۔

وکیل المال کی ذمہ داریوں کو آپ نے احسن رنگ میں نبھایا۔ محترم بشیر احمد خان رفیق صاحب سابق امام مسجد فضل لندن کے صاحبزادے منیر احمد خان رفیق صاحب جو پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں بیان کرتے ہیں کہ حضرت مصلح موعودؓ ایک عظیم شخصیت تھے اور آپ کے ساتھ پرائیویٹ سیکرٹری کا کام کرنے والا بھی غیر معمولی صلاحیتوں کا آدمی ہونا ضروری تھا جیساکہ محمد شریف اشرف صاحب تھے۔ آپ بہت ہی زیرک اور حاضر باش تھے۔ ایک مرتبہ کسی کی وکالت میں پیش ہونے والے ایک کیس کے سلسلہ میں جس کے معاملے کو آپ دیکھ رہے تھےمیں آپ کے پاس گیا تو اشرف صاحب نے بڑی باریک بینی اور تفصیلات کے ساتھ دلائل کی روشنی میں میرا کیس ختم کردیا۔ اس سے مجھے آپ کی ذہانت اور صلاحیتوں کا اندازہ ہوا۔

محترم مبارک احمد صاحب ظفر ایڈیشنل وکیل المال جن کو آپ کے ساتھ تقریباً آٹھ سال کام کرنے کا موقع ملا وہ محترم محمد شریف اشرف صاحب کے بارے میں اپنی یادوں کا تذکرہ کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ میں اکتوبر 1991ء میں پاکستان سے لندن پہنچا۔ جاتے ہی میری ملاقات اشرف صاحب سے ہوئی۔ آپ بڑی خندہ پیشانی سے ملےاور میری آمد پر بڑی خوشی کا اظہار کیا اور مجھے کہا کہ آپ کی رہائش اسلام آباد میں ہے آپ تین دن آرام کریں اور سفر کی تکان دور کریں۔ پہلی ملاقات پر یہ مجھ سے شفقت بھرا سلوک تھا جس کو میں آج بھی یاد رکھتا ہوں۔

مکان نمبر45 نزد مسجد فضل لندن میں وکالت مال کا دفتر تھا۔ میں نے جب دفتر آنا شروع کیاتو سردیوں کے ایام تھے۔ میں یہاں کی ہیٹنگ سسٹم سے ناواقف تھا۔ میں دفتر میں بیٹھا کام کر رہا تھا کہ شریف اشرف صاحب تشریف لائے اور کمرے کا یخ بستہ ماحول دیکھ کر سخت پریشان ہو گئے۔ آتے ہی انہوں نے ہیٹنگ آن کی۔ پریشان اس لیے ہوئے کہ یہ تو ہیٹنگ سے ناواقف تھا مجھے آتے ہی بتا نا چاہیے تھا۔ اس پریشانی سے کہ مجھے سخت سردی کا سامنا کرنا پڑا آپ کی طبیعت پر پورا دن اس کا اثر رہا۔ یہ آپ کی پُر شفقت اور رحم دل طبیعت کا منظر تھا جس کا میں مشاہدہ کررہا تھا۔

شریف اشرف صاحب نے آغاز میں ہی ایک بہت اہم بات اور بڑا سبق مجھے یہ دیا کہ حضرت خلیفۃ المسیح جو بات کہہ دیں وہی قاعدہ ہوتا ہے اس کے بعد اور قواعد و ضوابط کی ضرورت نہیں۔ یہ دراصل کامیابی اور برکت کی کلید تھی جو آپ نے مجھے بتائی۔ آپ مزید بیان کرتے ہیں کہ میرے لندن آنے کے بعد حضور ؒنے محترم اشر ف صاحب کو فرمایا کہ جب آپ خاص مالی معاملات پر رہ نمائی کی خاطر دفتر ی ملاقات کے لیے آیا کریں تو نئے لڑکے (یعنی خاکسار) کو بھی اپنے ساتھ لے آیا کریں۔ چنانچہ آپ جب بھی ان مالی معاملات کے لیے دفتری ملاقات پر جاتے تو بڑے اہتمام کے ساتھ اور کشادہ دلی سے آپ دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں اپنے ساتھ میرا نام لکھوایا کرتے تھے۔ آپ نے ہمارے ساتھ افسر ماتحت کا رویہ کبھی نہ رکھا بلکہ اس کا تصور بھی نہ تھا اس کے برعکس آپ نے بہت دوستانہ ماحول رکھ کر کام کرنے کا طریق اپنایا ہوا تھا۔ جس سے دفتری ماحول بہت خوشگوار تھا۔ اپنے شعبہ کے علاوہ دوسرے کارکنان کے مسائل حل کروانے کے لیے آپ ان کے معاملات حضور ؒ کی خدمت میں پیش کیا کرتے تھےاور آپ کی کوشش ہوتی کہ ان کے مسائل حل ہو جائیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک کارکن جو آپ کے پاس سےگذرتے تو یہ کہتےکہ 8سال کا عرصہ بہت عرصہ ہوتا ہے۔ میں نے اشرف صاحب سے پوچھا یہ کیا کہتے ہیں، اس کا کیا مطلب ہے ؟تو ہنس کربولے کہ اس کا مسئلہ بھی ان شاء اللہ حل کروا دوں گا۔ چنانچہ آپ نے حضور رحمہ اللہ کی منظوری سے اس کی راہ میں حائل رکاوٹ دور کروادی اور اس کا معاملہ بھی حل ہوگیا۔

آپ کی طبیعت میں رحمدلی کا وصف بھی تھا اور قدر دانی کی صفت بھی تھی۔ اللہ تعالیٰ کی خاطر قربانی کرنے والےمحترم رانا نعیم الدین صاحب مرحوم اسیر راہ مولیٰ ساہیوال کو دیکھ کر ان کے بارے میں آپ اکثر کہا کرتے تھے کہ میں ان کی قدر اور احترام اس لیے کرتا ہوں کہ وقت کے ڈکٹیٹر نے اس کی پھانسی پر دستخط کیے لیکن قادر مطلق نے ان کو بچا لیا اور جابر حکمران کو تباہ کر دیا۔ اس لیے رانا صاحب کو ئی معمولی انسان نہیں ہیں۔

آپ کو حضرت مصلح موعودؓ کے ساتھ لمبا عرصہ خدمت کی توفیق ملی تھی اس لیے اپنے تجربات کی روشنی میں اکثر قیمتی نصائح فرمایا کرتے تھے۔ ایک دفعہ یہ بات سمجھائی کہ جو خلفاء اور اللہ والے ہوتے ہیں وہ روحانی بادشاہ ہوتے ہیں۔ اس لیے ان سے ہمیشہ ڈر کر رہنا چاہیے۔ خاص طور پر جب وہ بے تکلف ہو کر کوئی بات کریں تو اس وقت بہت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ کوئی پتہ نہیں ہوتا کہ وہ خدا تعالیٰ کی کس صفت کا اظہار کردیں۔

مبارک ظفر صاحب بتاتے ہیں کہ آپ کو شعر و شاعری سے بھی بہت شغف تھا۔ اکثر ترنم کے ساتھ نظمیں پڑھا کرتے تھے۔ ایک دفعہ مجھے غالب کی ایک غزل کا مصرع دیا کہ اس پر غزل کہوں چنانچہ میں نے چند اشعار اس پر لکھے تو بہت خوش ہوئے اور مجھے جناب قمر اجنالوی صاحب کے معروف ناول چاہ بابل، جہانِ لوح و قلم اور جنگ مقدس پڑھنے کے لیے دیے۔ جناب قمراجنالوی صاحب اپنی وفات سے کچھ عرصہ پہلے لندن تشریف لائے تو ان کے ساتھ میرا تعارف کروایا اور مجھے بتایا کہ قمر اجنالوی صاحب میرے عزیز ہیں۔

آپ صاف دل اور نیک خو وجود تھے آپ مجھے اکثر کہا کرتے تھے کہ میں ربوہ میں پرائیویٹ سیکرٹری تھا اور مجھے بعض حالات کے پیش نظر لندن آنا پڑا لیکن میرا دل صاف اور نیت نیک تھی اور میری مجبوری کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ جانتے تھے تبھی آپ نے مجھ ناچیز کو خدمت کا موقع دیا۔ میری نیک نیتی کا پھل اللہ نے مجھے صالح اور خدمت کرنے والی اولاد کی صورت میں بھی دیا۔ میرا بیٹا افضل رائل ایئر فورس میں سکواڈرن لیڈر(بعد میں گروپ کیپٹن) ہے لیکن میرے جوتے مجھے پکڑانے میں اپنی سعادت سمجھتا ہے۔

آپ کو یہ سعادت بھی ملتی رہی کہ آپ کا گھر چونکہ مسجد فضل کے پاس تھا اس لیے شروع میں آپ شام کی ڈیوٹی دفترپرائیویٹ سیکرٹری میں کرتے اور حضورؒ سے ملاقاتوں کا انتظام و انصرام آپ کیا کرتے تھے۔ آپ کے ساتھ گذرے ہوئے وقت کی بہت سی حسین یادیں ہیں جو ذاتی نوعیت کی بھی ہیں۔ المختصر یہ ہے کہ آپ اسم بامسمیٰ اور ایک زندہ دل انسان تھے۔

محترم اخلاق احمد انجم صاحب دفتر ایڈیشنل وکالت تبشیر اسلام آباد ٹلفورڈ جن کو سالہا سال محترم محمد شریف اشرف صاحب کے قریب رہ کر خدمت کا موقع ملا وہ ان کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ آپ بہت مہربان اور محبت کرنے والے وجود تھے۔ 1986ء میں جب آپ ایڈیشنل وکیل المال لندن مقرر ہوئے تب سے آپ کے ساتھ ملاقات رہی۔ میں جب لندن آیا تو میری رہائش مسجد فضل کے ساتھ 45نمبر مکان میں رہی۔ اسی مکان میں وکالت تبشیر اور وکالت مال کے دفاتر تھے۔ شریف اشرف صاحب کے آفس میں ٹی وی موجود تھا۔ آپ نے اپنے دفتر کی چابی مجھے بھی دے رکھی تھی کہ اگر میں نے دفتری اوقات کے بعد ٹی وی دیکھنا ہو تو دیکھ لیا کروں۔ بلکہ آپ نے نصیحت کی کہ آپ انگریزی خبریں سنا کریں اس سے آپ کی انگریزی بہتر ہو جائے گی۔ آپ کی اس نصیحت کا میرے دل پر گہرا اثر ہے۔

آپ بہت مہمان نواز تھے اور آپ کی اہلیہ مکرمہ ممتاز اشرف صاحبہ بھی بہت مہمان نوازخاتون تھیں۔ آپ کا گھر چونکہ مسجد فضل کے بالکل قریب ہی تھا اس لیے کئی دفعہ ایسا ہوا کہ آپ دوپہر کے کھانے کے لیے مجھے اپنے گھر لے جایا کرتے تھے۔ آپ بہت منکسر المزاج تھے۔ اپنے دفتر کے عملہ کے ساتھ دوستانہ تعلق تھا۔ لوگوں کی ضروریات کا بہت خیال رکھتے۔ مالی مدد کی درخواستیں بڑے ادب کے ساتھ حضرت صاحب کی خدمت میںپیش کرتے اور آپ کی کوشش ہوتی کہ لوگوں کی مدد ہو جائے۔ آپ کو چونکہ حضرت مصلح موعود ؓ کے پرائیوٹ سیکرٹری ہونے کا بھی اعزاز حاصل تھا جو کہ آپ کی زندگی کے حسین لمحات تھے۔ آپ حضرت مصلح موعود ؓ کی سیرت کے واقعات اکثر اوقات ہمیں سنایا کرتے تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒکے ساتھ آپ کی بے تکلفی تھی۔ اس کی بنیادی وجہ وہی تھی جو آپ کو حضرت مصلح موعود ؓکے ساتھ کام کرنے کی سعادت ملی تھی۔ حضرت صاحب آپ سے شفقت فرماتے تھے۔ آپ خود نمازوں کے بہت پابند تھے اور موسمی سختی کے باوجود آپ آخری عمر میں بھی مسجد آکر نماز باجماعت ادا کیا کرتے تھے۔ آخری عمر میں یادداشت کی کمزوری کی وجہ سے بعض اوقات گھر کی چابی بھول جاتے تو مجھے دفتر فون کرتے اور میں جا کر دروازہ کھولتا کیونکہ چابی باہر ایک مقام پر بھی رکھی ہوئی ہوتی تھی۔ اس پر آپ بہت ہی شکریہ اور ممنونیت کے جذبات کا اظہار کیا کرتے تھے۔

افسر حفاظت خاص میجر محمود احمد صاحب محترم شریف اشرف صاحب کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ آپ اپنے نام کی طرح انتہائی شریف النفس اور بے ضرر آدمی تھے۔ لگا تار کام کرتے رہتے لیکن طبیعت میں کبھی اکتاہٹ نہیں دیکھی بلکہ بہت خوش مزاج تھے اور بڑے مزیدار اور دلچسپ واقعات سنایا کرتے تھے۔ سب کارکنان کے ساتھ دوستانہ رویہ رکھتے تھے اور کارکنان کے مسائل حل کروانے اور ان کی بھلائی کے لیے کوشاں رہتے تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے ساتھ چونکہ بہت بے تکلفی تھی۔ موسم کی خرابی کے پیش نظر آپ اکثر حضورؒ کو نماز جمع کرنےکے لیے درخواست کر دیتے۔ بسا اوقات حضورؒ خود بھی پوچھ لیا کرتے کہ آج اشرف صاحب نہیں آئے؟ یعنی آپ کی طرف سےنماز جمع کرنے کی درخواست نہیں ہوئی۔ یہ حضور ؒ کی آپ سے شفقت اور محبت کا انداز تھا۔

مکرم ڈاکٹر سید کلیم اللہ صادق صاحب ابن مکرم سید مجیب اللہ صادق صاحب جو جماعت لندن کے قدیمی ممبر اور مسجد فضل کے قرب و جوار میں ہی رہائش رکھتے رہے وہ مکرم محمد شریف اشر ف صاحب کو اپنے بچپن سے جانتے ہیں۔وہ بیان کرتے ہیں کہ آپ بہت شریف النفس اور سادہ مزاج شخصیت تھے۔ میری ان سے مسجد فضل لندن میں روز ملاقات ہو جاتی تھی۔ آپ بہت دعا گو آدمی تھے بڑھاپے میں بھی اور پھر اسی بڑھاپے میں ان کی اہلیہ کی وفات بھی ہو گئی تھی۔باوجود بہت کمزوری کے پھر بھی گھر سے پیدل چل کر مسجد نماز باجماعت کی ادائیگی کے لیے آیا کرتے تھے۔ آپ فجر کی نماز کے بعد سیر کے لیے جایا کرتے تھے اور سیر کے دوران اونچی آواز میں دعائیں اور نظمیں پڑھا کرتے تھے۔

مکرم محمد شریف اشرف صاحب اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ صلہ رحمی کا سلوک کرتے اور ان کی ضروریات کا خیال رکھتے۔ آپ کے چھوٹے بھائی مکرم ونگ کمانڈر (ر) محمد حنیف شاد صاحب بیان کرتے ہیں کہ بھائی اشرف والدین اور بہن بھائیوں کے لیے بہت قربانی کرنے والے وجود تھے۔ آپ ریلوے میں اسٹیشن ماسٹر تھے پھر اپنی زندگی وقف کردی۔ ریلوے میں اچھی خاصی تنخواہ تھی لیکن ظاہر ہے وقف کے بعد وہ صورت نہ تھی۔ بہت معمولی تنخواہ تھی۔ ہم پانچ بہن بھائی بھی 1953ء کے حالات کے بعد آپ کے پاس ربوہ آگئے۔ ہماری والدہ بھی لاہور سے اکثر ہمارے پاس آجایا کرتی تھیں۔ آپ اس معمولی الاؤنس میں ہم سب کی کفالت کرتے۔ وہ بڑی خندہ پیشانی اور خوشی کے ساتھ ہم سب کے خرچ اٹھاتے رہے۔ میں نے F.Sc ٹی آئی کالج ربوہ سے کی اور پھرB.Scمیں ایف سی کالج لاہور میں داخلہ لے لیا۔ مغلپورہ سے سائیکل پر ایف سی کالج جاتا۔ مجھے کالج پسند نہ آیا اور دلبرداشتہ ہو گیا میں نے بھائی اشرف صاحب کو خط لکھ دیا۔ آپ نے بڑی شفقت کی اور مجھے کہا کہ ربوہ آجاؤ۔ اب ٹی آئی کالج میں مائیگریشن کروانا بھی ایک مرحلہ تھا اور پرنسپل حضرت مرزا ناصر احمد صاحب تھے۔ طبعاً یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ پہلے ٹی آئی کالج پسند نہیں آیا اور لاہور چلے گئے اور اب ٹی آئی کالج میں آنا ہے۔ بھائی اشرف نے محترم پرنسپل صاحب سے میرے لیے بات کی۔ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نےشفقت فرمائی اور میری مائیگریشن ربوہ کالج میں ہو گئی۔ بی اے کے لیے پنجاب یونیورسٹی کے اخراجات بھی بھائی جان نے برداشت کیے۔ ایم اے میتھ پنجاب یونیورسٹی میں سال اول کے داخلہ کا وقت آیا تو داخلہ جمع کروانے کے لیے پیسے نہ تھے۔میں نے بھائی جان کو لکھا آپ نے داخلہ کے لیے رقم بھجوادی۔ اگرچہ وہ رقم یونیورسٹی کے ٹرپ میں لگ گئی اور مجھے مجبوراً ایم اے کا امتحان اگلے سال اکٹھا دینا پڑا۔ ایم اے کے دوران بھائی اشرف لندن جاچکے تھے۔ ایم اے ریاضی کی بعض کتب نایاب تھیں میں نے ان کے نام لکھ کر بھائی جان کو خط لکھا کہ انگلستان سے شاید ارزاں قیمت میں مل جائیں گی۔ بھائی اشرف صاحب نے چاروں کتب خریدیں اور مجھے پاکستان پارسل کردیں۔ ان کتب کی مالیت اس زمانہ میں 300پاؤنڈ کے قریب تھی۔ جب کتب یونیورسٹی پہنچیں تو میرے اساتذہ نے کہا اتنی مہنگی کتب خریدنے کی کیا ضرورت تھی ہم تمہیں ان کے نوٹس مہیا کردیتے لیکن بھائی جان نے کمال شفقت کا مظاہرہ کیا۔

آپ سب بہن بھائیوں کی حسب ضرورت مالی مدد بھی کیا کرتے تھے۔ تمام بہن بھائیوں سے آپ بہت محبت کرنے والے تھے۔ میرے بڑے بھائی محمد عظیم صاحب کوئٹہ میں ملازم تھے اور وہیں وہ بیمار ہو گئے۔ ڈپریشن کا شکار ہو گئے اور انہیں اپنی بھی خبر نہ رہی۔ ایئر فورس میں ڈیوٹی کی وجہ سے میرا کوئٹہ جا کر ان کو سنبھالنا ممکن نہ تھا۔ آپ کو خبر ہوئی تو آپ لندن سے پاکستان آئے اور کوئٹہ گئے بھائی کو وہاں سے بیماری کی حالت میں لاہور والدین کے پاس لے آئے۔ میں ایئر فورس کی طرف سے 1979ء میں ٹریننگ پر جرمنی گیا تب وہاں سے ایک ماہ کی رخصت پر لندن بھائی شریف اشرف صاحب کے پاس آیا۔ اس وقت آپ کا گھر پٹنی میں تھا جو بہت کشادہ تھا۔ اس کو فروخت کرکے آپ مسجد فضل کے قریب آگئے۔ میرے قیام لندن کے ایام آپ کے ساتھ بہت اچھے گذرے بہت پیار اور محبت دیا اور مہمان نوازی کی اور پورے لندن کی آپ نے مجھے سیر کروائی۔

آپ جہاں اپنے بہن بھائیوں سے بہت پیار کرتے وہاں ہمیں نماز کے معاملہ میں بہت سختی کرتے تھے۔ رات دیر تک پڑھنے کی وجہ سے اگر کبھی فجر پر آنکھ نہیں کھلی تو آپ بہت ناراضگی کا اظہار کرتے تھے۔ آپ ایک دن حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب ؓسے باتیں کر رہے تھے۔ میں نے مولانا صاحب ؓکو کہا کہ بھائی جان مجھے نماز کے لیے بہت سختی کرتے ہیں میں رات کو دیر تک پڑھتا ہوں۔ کبھی صبح سستی ہو جاتی ہے۔ آپ نے بھائی جان کو کہا کہ اتنی سختی نہ کیا کریں اور مجھے نصیحت کی کہ نماز لازمی ادا کرنی ہے اٹھنے میں کبھی سستی ہو تو اٹھنے کے فوراً بعد نماز پڑھ لیا کریں۔ بھائی جان شکار کے بہت شوقین تھے۔ آپ نے اس کے لیے شکار والی ایک عمدہ بندوق خرید رکھی تھی۔ شکار پر جب جاتے تو کسی بھائی کو ساتھ لے جاتے۔ اسی شکار کی بندوق نے 1953ء کے فسادات کے دوران بڑا کام کیا جب لاہور میں حملہ آور ہمارے گھر تک پہنچ گئے تو بھائی اشرف صاحب یہ بندوق لے کر باہر آگئے اور دشمن اس سے مرعوب ہو گیا۔

اپنی تیسری نسل کے بچوں کے ساتھ بھی بہت پیار تھا۔ آپ کے بیٹے محمدافضل صاحب ملازمت کے دوران لندن سے باہر ہی رہے۔وہ کہتے ہیں کہ جب کبھی ملازمت کی وجہ سے تین ماہ سے زائد عرصہ لندن نہ آتا تو آپ کو ملنے کی تڑپ ہوتی تھی اور آپ مجھے فون پر صرف یہ کہتے کہ مجھے فلاں اسٹیشن سے لے لیں میں اپنی پوتیوں کو ملنے آرہا ہوں۔

اللہ تعالیٰ نے آ پ پر بڑا فضل کیا اور اپنے بچوں کی کامیابیوں کی صورت میں بھی اپنے افضال اور برکات نازل کیں۔ آپ کے دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔ آپ نے اپنے بچوں کی احسن تربیت کی۔

آپ کے چھوٹے بیٹے آصف اشرف صاحب بتاتے ہیں کہ مجھے بچپن میں آپ مسجد فضل پیدل لے کر جاتے اور آنے جانے کا اچھا خاصہ فاصلہ تھا اور اس وقت آپ مجھے دین سکھاتے اور ہمیشہ مجھے یہی کہا کہ اپنا گھر مسجد کے قریب رکھیں نہ کہ اپنی ملازمت کے قریب۔

خاکسار راقم الحروف کو2000ء میں جلسہ سالانہ برطانیہ میں پہلی بار شمولیت کاموقع ملا۔ اس موقع پر خاکسار محترم شریف اشرف صاحب کے گھر اپنے بڑے بھائی محمد ساجد قمر صاحب کے ہم راہ ملنے گیا۔ جلسہ سے کوئی ایک ماہ قبل اشرف صاحب کی اہلیہ ممتاز اختر صاحبہ کی وفات ہوئی تھی۔ آپ سے تعزیت بھی کی اور پھر آپ نے قیام پاکستان کی کئی خوشگوار باتیں سنائیں اور قیام لندن کی باتیں بھی ہوئیں۔ آپ نے بتایا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے مجھے ریٹائر کرتے وقت بڑے پیارے الفاظ کے ساتھ رخصت کیا ہے جو کہ آپ کی خدمات پر سپاسنامہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔

1999ء میں جب آپ کی پارکنسنز کی بیماری نے آپ کے کام پر اثر انداز ہونا شروع کیا تو حضورؒنے مجبوراً آپ کو ریٹائر فرمایا تھا۔ آپ کی ریٹائر منت پر جو خط حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے آپ کو تحریر کیا وہ آپ کی سیرت کا خلاصہ ہے۔ حضورؒ نے اپنے خط محررہ 30؍ستمبر 1999ء میں فرمایا:

’’14/13 سال پہلے میں نے جو کام آپ کے سپرد کیا تھا اسے آپ نے اس سارے عرصہ میں باوجود اتنی عمر ہونے کے ہمیشہ بڑی خوش اسلوبی اور عمدگی سے نبھایا ہے اور آپ کا کام بہت ہی اچھا رہا ہے لیکن اب آپ کی صحت کے پیش نظر بعض اوقات مجھے جو آپ کو By Passکرنا پڑتا تھا تو اس کی وجہ سے میرے دل پر ایک بوجھ پڑتا تھا۔ … آپ اپنے خلوص، لگن اور محنت سے جس طرح مجھے خوش رکھتے رہے ہیں اسی طرح اللہ بھی ہمیشہ آپ کو خوش رکھے۔ آپ نے حضرت مصلح موعود ؓ کے ساتھ جو لمبا عرصہ خدمت کی توفیق پائی ہے میرے دل میں اس کی بھی بے حد قدر ہے۔ اللہ آپ کو دونوں جہاں کی دائمی حسنات سے نوازے۔ خدا حافظ و ناصر ہو۔ ‘‘

قبل ازیں آپ کے والد محترم میاں فتح محمد صاحب کی وفات پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 30؍اکتوبر1987ء میں ان کی نماز جنازہ کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا:

’’ہمارے سلسلہ کے مخلص کارکن مکرم چوہدری محمد شریف صاحب اشرف جو آج کل ایڈیشنل وکیل المال ثانی کے طور پر رضائی طور پر خدماتِ سلسلہ انجام دے رہے ہیں اور میرے ساتھ کافی ہاتھ بٹا رہے ہیں انگلستان میں۔ ان کے والد میاں فتح محمد صاحب جو کہ مکرم غلام محمد اختر صاحب سابق ناظر اعلیٰ مرحوم کے بڑے بھائی تھے ان کی وفات کی اطلاع ملی ہے۔ مکرم شریف اشرف صاحب اپنے والد کے جنازہ میں شرکت کے لئے پاکستان چلے گئے ہیں۔ جانے سے پہلے پیغام دے گئے تھے کہ ان کی نماز جنازہ غائب پڑھائی جائے۔ ‘‘

(مطبوعہ خطباتِ طاہر جلد 6صفحہ 719)

10؍اگست 2003ء کو آپ کے بیٹے محمد افضل صاحب نے سکاٹ لینڈ سے آپ سے فون پر بات کی جبکہ آپ ہسپتال داخل ہو ئے تھے۔ اس آخری گفتگو کے اختتام پر محترم محمد شریف اشرف صاحب نے اپنے بیٹے کو کہا کہ

’’حضور انور ایدہ اللہ سے درخواست کردیں کہ حضور میرا جنازہ پڑھا دیں۔ ‘‘ اس آخری خواہش کے بیان کے چند گھنٹے بعد 11؍ اگست ہو چکی تھی اور آپ انتہائی پرسکون حالت میں داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے اپنے مالک حقیقی کے حضور حاضر ہو گئے۔

اِنَّا للّٰہِ وَاِنَّٓا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ازراہ شفقت آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور اس آخری خواہش کی تکمیل پر جنازہ کے موقع پر آپ کے بیٹے محمد افضل صاحب نے حضور انور کا شکریہ ادا کیا تو حضورنے فرمایا:’’دیکھیں ! ان لوگوں کا انجام یہی ہوتاہے۔ ‘‘ یعنی ایسے خدمت گار لوگوں کا انجام بخیر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی خدمات کو قبول فرمائے اور آپ کی اولاد کو آپ کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button