ادبیات

ملفوظات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور فارسی ادب (قسط نمبر 46)

(محمود احمد طلحہ ۔ استاد جامعہ احمدیہ یو کے)

اولاد کی خواہش

’’…اولاد کی خواہش صرف نیکی کے اصول پر ہونی چاہیئے۔ اس لحاظ سے اور خیال سے نہ ہو کہ وہ ایک گناہ کا خلیفہ باقی رہے۔ خدا تعالیٰ بہتر جانتاہے کہ مجھے کبھی اولاد کی خواہش نہیں ہوئی تھی۔ حالانکہ خدا تعالیٰ نے پندرہ یا سولہ برس کی عمر کے درمیان ہی اولاد دے دی تھی۔ یہ سلطان احمد اور فضل احمد قریباً اسی عمر میں پیدا ہوگئے تھے اور نہ کبھی مجھے یہ خواہش ہوئی کہ وہ بڑے بڑے دنیا دار بنیں۔ اور اعلیٰ عہدوں پر پہنچ کر مامور ہوں۔ غرض جو اولاد معصیت اور فسق کی زندگی بسر کرنے والی ہواس کی نسبت تو سعدیؒ کا یہ فتویٰ ہی صحیح معلوم ہوتا ہے۔ کہ پیش از پدر مردہ بہ ناخلف

پھر ایک اور بات ہےکہ اولاد کی خواہش تو لوگ بڑی کرتےہیں اور اولاد ہوتی بھی ہے۔ مگر یہ کبھی نہیں دیکھا گیا کہ وہ اولاد کی تربیت اور اُن کو عمدہ اور نیک چلن بنانے اور خدا تعالیٰ کے فرمانبرداربنانے کی سعی اور فکر کریں۔ نہ کبھی ان کے لئے دعا کرتے ہیں اور نہ مراتب تربیت کو مد نظر رکھتے ہیں۔

میری اپنی تو یہ حالت ہے کہ میری کوئی نماز ایسی نہیں ہے جس میں میں اپنے دوستوں اور اولاد اور بیوی کے لئے دعا نہیں کرتا۔ بہت سے والدین ایسے ہیں جو اپنی اولادکو بری عادتیں سکھا دیتے ہیں۔ ابتدا میں جب وہ بدی کرنا سیکھنے لگتے ہیں تو اُن کو تنبیہ نہیں کرتے۔ نتیجہ یہ ہوتاہے کہ وہ دن بدن دلیر اور بے باک ہوتے جاتے ہیں۔ ایک حکایت بیان کرتے ہیں کہ ایک لڑکا اپنے جرائم کی وجہ سے پھانسی پر لٹکایا گیا۔ اس آخری وقت میں اس نے خواہش کی کہ میں اپنی ماں سے ملنا چاہتا ہوں۔ جب اس کی ماں آئی تو اس نے ماں کے پاس جا کر اسے کہا کہ میں تیری زبان کو چوسنا چاہتا ہوں۔ جب اس نے زبان نکالی تو اسے کاٹ کھایا۔ دریافت کرنے پر اس نے کہا کہ اسی ماں نے مجھے پھانسی پر چڑھایا ہے کیونکہ اگر یہ مجھے پہلے ہی روکتی تو آج میری یہ حالت نہ ہوتی۔

حاصل کلام یہ ہے کہ لوگ اولاد کی خواہش تو کرتےہیں۔ مگر نہ اس لئے کہ وہ خادم دین ہو بلکہ اس لئے کہ دنیا میں ان کا کوئی وارث ہو اور جب اولاد ہوتی ہے تو اس کی تربیت کا فکر نہیں کیا جاتا۔ نہ اس کے عقائد کی اصلاح کی جاتی ہے اور نہ اخلاقی حالت کو درست کیا جاتا ہے۔ یہ یاد رکھو کہ اس کا ایمان درست نہیں ہو سکتا جو اقرب تعلقات کو نہیں سمجھتا۔ جب وہ اس سے قاصر ہے تو اور نیکیوں کی امید ا س سے کیا ہوسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اولادکی خواہش کو اس طرح پر قرآن میں بیان فرمایا ہے۔

رَبَّنَا ہَبۡ لَنَا مِنۡ اَزۡوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعۡیُنٍ وَّ اجۡعَلۡنَا لِلۡمُتَّقِیۡنَ اِمَامًا۔(الفرقان:75)

یعنی خدا تو ہم کو ہماری بیویوں اور بچوں سے آنکھ کی ٹھنڈک عطا فرماوے۔ اور یہ تب ہی میسر آسکتی ہے کہ وہ فسق وفجور کی زندگی بسر نہ کرتے ہوں بلکہ عبادالرحمٰن کی زندگی بسر کرنے والے ہوں اور خدا کو ہر شے پر مقدم کرنے والے ہوں اور آگے کھول کر کہہ دیا

وَّ اجۡعَلۡنَا لِلۡمُتَّقِیۡنَ اِمَامًا۔

اولاد اگر نیک اور متقی ہو تو یہ ان کا امام ہی ہوگا۔ اس سے گویا متقی ہونے کی بھی دعا ہے۔ ‘‘(ملفوظات جلد دوم صفحہ نمبر372-373)

*۔ اس حصہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فارسی کا یہ مصرع استعمال کیا ہے۔

کِہْ پِیْش اَزْپِدَر، ْمُرْدِہْ بِہْ نَاخَلَفْ

ترجمہ:۔ ناخلف بیٹے کا باپ سے پہلے مر جا نابہتر ہے۔

بوستان سعدی کے ساتویں باب میں حکایت ہے جس کا عنوان ہے ’’اولاد کی تربیت کے بیان میں ‘‘ اس کے آخری شعر کا یہ دوسرامصرع ہے۔ پو را شعرمع حکایت ذیل میں درج ہے۔

حکایت

جب لڑکے کی عمر دس سال سے زیادہ ہوجائےاس کو کہو کہ وہ نامحرموں سے دور ہوکر بیٹھے۔ روئی کے پا س آگ نہ سلگانی چاہیے۔ (جوان لڑکے اور لڑکی کی مثال روئی او ر آگ کی سی ہے)اس لیے کہ جب تک تو پلک جھپکے گا گھر جل جائے گا۔ اگر تو چاہتا ہےکہ تیرا نام باقی رہے تو لڑکے کو عقلمندی اور رائے سکھا (باسلیقہ اولاد سے تیرا نام روشن ہوگا)۔ اگر اس کے پاس اچھی عقل اور رائے نہ ہوگی تو تُو مرجائے گا اور تیرے بعد کوئی اہل نہ رہے گا۔ لڑکا بہت عرصہ تک سختی اٹھائے گا اگر باپ اس کو نازوں سے پالے گا۔ (یعنی نازپروردہ کو دنیا میں بہت دھکے کھانے پڑتے ہیں )اگر تجھے اس سے محبت ہے اس کو ناز میں نہ رکھ اس کو عقلمند اور پرہیزگار بنا۔ بچپن میں اس کو جھڑک اور سکھا۔اچھے اور برے کا وعدہ اور خوف دلا (یعنی اگر اچھا کام کرے تو اچھا وعدہ کر اور اگر برا کرے تو دھمکا دے)نوآموز کے لیے ذکر اور تعریف اور شاباش استاد کی سرزنش اور دھمکی سے زیادہ مفید ہے۔ پالے ہوئے کو دستکاری سکھا اگر چہ تو قارون کی طرح خزانے پر قابو رکھتاہے (یعنی اولاد کو ہنر مند بنا دینا چاہیےخواہ انسان قارون ہو)اس قدرت پر جو تجھے حاصل ہے بھروسا نہ کر اس لیے کہ ہو سکتا ہے کہ دولت ہاتھ میں نہ رہے……تجھے معلوم نہیں سعدی کو مرتبہ کس چیز سے ملا نہ جنگل طے کیے نہ دریا پھاڑا (یعنی نہ خشکی کا سفر کیانہ دریا کا)اس نے بچپن میں بزرگوں کے طمانچے کھائے۔ خدا نے اس کو بزرگی میں صفائی عنایت فرمائی۔ جو شخص حکم کی اطاعت کرتاہے زیادہ وقت نہیں گزرتا کہ حکم چلانے والا بن جاتاہے۔ ہر وہ بچہ جو استاد کا ظلم نہیں سہتا زمانے کا ظلم سہتاہے۔ لڑکے کو عمدہ طریقے پر رکھ اور آرام پہنچا، تاکہ دوسروں کے ہاتھ کی طرف اس کی نگاہ نہ اٹھے۔ جس شخص نے اولاد کا غم نہ کھایا دوسرے نے اسکا غم اٹھایا اور اس کو آوارہ کردیا۔ (یعنی اگر اولاد کی ضروریات پوری نہ کرو گے تو وہ آوارہ ہوجائے گی )بد کے میل جول سے اس کی نگرانی کر ورنہ وہ اس کو اپنی طرح بدبخت اور بے راہ کردے گا …وہ لڑکا جو قلندرو ں میں بیٹھا، باپ سے کہہ دواس کی بھلائی سے ہاتھ دھو لے۔

دَرِیْغَشْ مَخُوْر بَرْھَلَاکْ وتَلَفْ

کِہْ پِیْش اَزْپِدَرْ، مُرْدِہْ بِہْ نَاخَلَفْ

اس کی ہلاکت پر افسوس نہ کر کیونکہ ناخلف بیٹے کا باپ سے پہلے مر جانا بہتر ہے۔ (یعنی آوارہ اولاد کا باپ کی زندگی میں مر جانا بہترہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button