سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

باغ میں ملّت کے ہے کوئی گلِ رعنا کھلا

حضرت مسیح موعودؑ کے آبا واجداد

حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰة والسلام کے دیگرجدّی رشتہ دار

٭مرزا کمال الدین صاحب

ان کے متعلق زیادہ تفصیلی حالات دستیا ب نہیں ہوسکے۔ یہ صاحب فقیرانہ مزاج کے تھے۔ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰة والسلام کے والد ماجد کے زمانہ میں قادیان میں ایک پنڈت دیوی رام صاحب ولد متھراداس تھے۔ جو کہ دودوچک تحصیل شکرگڑھ ضلع گورداسپور کے رہنے والےتھے اور اس زمانہ [1875ء]میں قادیان میں نائب مدرس تھے۔ حضرت اقدس علیہ الصلوٰة والسلام کی نوجوانی کے زمانہ کے حالات بیان کرتے ہوئے مرزاکمال الدین صاحب کے متعلق انہوں نے بیان کیا:

’’…ان دنوں نیکی۔ تقویٰ اور طہارت میں مرزا غلام احمد صاحب اور مرزا کمال الدین صاحب اور میر عابد علی مسلمانوں میں مشہورتھے۔ مرزا کمال الدین فقیری طریقہ پر تھے۔ معلوم نہیں کہ وہ نماز کب پڑھا کرتے تھے۔ مگر مرزا غلام احمد صاحب کو ہم نے پنجوقت نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ مرزا صاحب گوشہ نشین تھے۔ ہمیشہ مطالعہ اور عبادت میں مشغول رہتے تھے…مرزا نظام الدین اور امام الدین صاحبان کا چلن ٹھیک نہ تھا۔ نماز روزہ کی طرف راغب نہ تھے۔ تمام خاندان میں سے صرف مرزا غلام احمد صاحب کو مسجد میں نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ مرزا کمال الدین تارک الدنیا تھے۔ مرزا نظام الدین اور امام الدین میں تمام دُنیا کے عیب تھے۔ میری موجودگی میں مرزا غلام احمد صاحب نے کبھی کوئی عیب نہیں کیا اور نہ کبھی مَیں نے اس وقت سنا تھا۔ صرف ایک سکھ کو مسلمان کر دیا تھا۔ یہ عیب ہے۔ اس کے سوا مَیں نے کوئی عیب نہ دیکھا ہے اور نہ سُنا ہے۔‘‘

(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر759)

مرزا کمال الدین صاحب کی تاریخ وفات بھی معلوم نہیں ہوسکی البتہ مقدمۂ دیوار جو کہ1900ء میں ہوااور اسکا فیصلہ 12؍ اگست 1901ء کو ہوا مذکورہ بالا اقتباس سے معلوم ہوتاہے کہ اس دوران مرزاکمال الدین صاحب زندہ تھے۔

ان کی قبربھی اغلب گمان ہے کہ بہشتی مقبرہ قادیان کے غربی جانب قدرے فاصلہ پرہوگی جہاں کہ مرزانظام دین صاحبان وغیرہ کی قبورہیں اور وہاں ایک تکیہ سابناہواہے۔ اوراس کی تائیدایک مضمون سے بھی ہوتی ہے جوکہ محترم عبدالرحمان صاحب شاکرکاتحریرفرمودہ ہے جس میں وہ بیان کرتے ہیں: ’’مرزاکمال دین بالکل تارک الدنیاہوکرقصبہ قادیان کے باہرموجودہ باغ بہشتی مقبرہ کے جانب غرب اپنے مختصرسے باغیچے میں رہاکرتے تھے۔ وہیں پر انکی قبربھی ہے۔ …طب میں اچھی مہارت تھی۔ ان کے بعض نسخے بڑے کامیاب تھے۔ ‘‘

(مضامین شاکر جلد اول ص 280)

مرزاکمال الدین صاحب کے نسخہ جات پرمشتمل ایک کتاب ’’مجربات کمالی‘‘ کی فوٹوکاپی خاکسارکے پاس ہے۔ یہ قلمی مخطوطہ معلوم ہوتی ہے۔ سب سے آخری صفحہ کی آخری سطر پرلکھاہواہے:

’’تمام شد مجربات کمالی۔ تصنیف مسکین کمال الدین ولدمرزاغلام محی الدین سکنہ قادیان ضلع گورداسپور‘‘

اس کے پہلے صفحہ پر ان کے نام کے نیچے یہ بھی لکھاہوہے کہ شاگردرشیدجناب مرزاغلام مرتضیٰ صاحب۔

٭مرزاامام الدین صاحب

مرزا غلام محی الدین صاحب کے لڑکوں میں سب سے بڑے مرزا امام الدین تھے جو بہت لانبے اور وجیہہ شکل تھے۔

(مأخوذ از سیرت المہدی جلد اوّل روایت نمبر831)

یہ دہلی کے محاصرہ کے وقت ہاڈسن ہارس میں رسالدار تھے اور تذکرۂ رؤسائے پنجاب کے مطابق 1904ء میں فوت ہوئے۔

(بحوالہ کتاب تذکرۂ رؤسائے پنجاب مترجم سیدنوازش علی جلد دوم صفحہ69، سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر134)

مرزا امام الدین صاحب حضرت اقدس علیہ السلام کے جدی مخالفین میں سے اول نمبر پر تھے۔ دیکھا جائے تو ان کی سرشت میں یہ مخالفت ابتداء سے ہی تھی۔ انہوں نے اپنے تایا یعنی حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کے والد ماجد حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحب ؒ کو قتل کرنے کے لئے ایک سازش بھی کی تھی۔ اور اس کے لئے سوچیت سنگھ نام کاایک کرائے کا قاتل بھی حاصل کیا۔ لیکن اس مذموم ارادے میں انہیں کامیابی نہ ہوسکی۔ اس کدوکینہ کااندازہ اس امرسے کیاجاسکتاہے کہ جونہی حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحب کی وفات ہوئی اور ان کے بعد جب گھر کے امورکی باگ ڈور صاحبزادہ مرزا غلام قادرصاحب کے ہاتھ میں آئی تو مرزا امام الدین صاحب نے ان کے خلاف مقدمات دائر کردئے۔ اور ساتھ ساتھ حضرت اقدس علیہ السلام کے خلاف مخالفت او ر سب وشتم کا ایسامحاذ قائم کرلیا کہ آپؑ کی مخالفت میں وہ ہراس شخص کاساتھ دیتے نظرآتے جوحضرت اقدسؑ کی مخالفت پرتیارہوتا۔ ہم احمدیت کی تاریخ کےاس باب میں کبھی انہیں مسلم مخالف مولویوں کےساتھ دیکھتے ہیں تو کبھی عیسائیوں کے ساتھ اورکبھی یہ مخالفانہ جوش یوں ظاہرہوتاہے کہ مشہوردشنام طراز آریہ لیڈر پنڈت لیکھ رام جس کا کام ہی نبی اکرمﷺ کے خلاف بدزبانی کرنا تھا اس کو یہ لوگ خود قادیان لائے اور اس کی مہمان نوازی کی اور حضرت اقدس علیہ السلام کے خلاف اس کی حمایت میں کھڑے ہوئے یہاں تک کہ امام الدین صاحب اس دشمنی میں اتنے بڑھ گئے کہ وہ خود آریہ سماج میں داخل ہوگئے۔

’’مرزا امام الدین جو ہماری برادری میں سے ہے اور دین اسلام سے مرتد ہے اوراب آریہ سماج میں داخل ہوگیاہے۔ ‘‘

(سرمہ چشم آریہ، روحانی خزائن جلد2صفحہ238)

مصنف’’مجدداعظم‘‘مرزاامام الدین صاحب کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ

’’مرزاامام الدین صاحب حضرت اقدس کے ایک چچازادبھائی تھے۔ ان کی طبیعت پردہریت والحادکاغلبہ تھا۔ اورشریکہ کے طورپرحضرت اقدس کی مخالفت ان کادن رات کامشغلہ تھا۔ ان کی مجلس میں بھنگڑاور چرس پینے والے لوگ جمع ہوتے اور دینی باتوں کی ہنسی اڑانااورلغو اعتراضات کرناجیساکہ اباحتی فقیروں کاشیوہ ہے اس مجلس کاکام ہوتاتھا۔ ا ورحقیقت یہ تھی کہ مرزاامام الدین صاحب خوددہریہ تھے۔ انہوں نے جوسنا کہ لیکھرام اس قسم کی خط وکتابت کررہاہے۔ انہوں نے اسے اپناآلۂ کاربناکراپنی حاسدانہ مخالفت کے کام کوسرانجام دیناچاہا۔ چنانچہ وہ خود گئے اورلیکھرام کواپنے ساتھ قادیان لے آئے۔ یہ نومبر 1885ء کاواقعہ ہے۔ لیکھرام کی طبیعت میں بیہودہ گوئی استہزاء اورتمسخربہت تھااوریہی رنگ مرزاامام الدین صاحب کی طبیعت میں بھی تھا۔ اس لئے دونوکی جوڑی اچھی مل گئی۔ قادیان کے آریہ سماج کی تجدیدہوئی۔ مرزاامام الدین، منشی مرادعلی، ملاحسیناں وغیرہ بھی عملی طورپرآریہ سماج قادیان کے ممبربنے۔‘‘(مجدداعظم جلداول صفحہ128)

ان صاحب کے دین مذہب کا تو کوئی حال ہی نہ تھا۔ خدا اور اس کے رسولوں کو گالیاں دینا اور شعائراسلام کی ہتک وتوہین کرنا ان لوگوں کا کام تھا۔ بے دینی یہاں تک بڑھی کہ بھنگیوں اور چوہڑوں کے پیراور پیشوا ’’لعل بیگ‘‘ کہلانا شروع کردیا۔

اورقادیان میں بالمیک کے نام کامندربناکرسنکھ اور گھڑیال بجاناشروع کردیا۔ یہ مندر لنگرخانہ اور بہشتی مقبرہ کے پل کے درمیان مرزامحمداشرف صاحب کے مکان کی جگہ پرتھا۔(مأخوذازمضامین شاکر: جلد اول ص28، 280، 281)

چوہڑوں کی پیری کا تذکرہ تو اتنا عام ہواکہ ایک انگریز پروفیسر گرسفورڈ نے حضرت اقدس مسیح موعوعلیہ السلام کی سوانح اور عقائد پر ایک مختصر سی کتاب لکھی تو اس میں اس کا بھی ذکر کیا۔ وہ لکھتاہے:

“Mirza Imam-ud-Din, a first cousin of Mirza Ghulam Ahmad, became the Guru of the chuhra or Sweeper community and claims to be the successor of Lal Beg.”

(MIRZA GHULAM AHMAD THE MEHDI- MESSIAH OF QADIAN- Pg:01)

ترجمہ: مرزا امام الدین، جو مرزا غلام احمد (علیہ السلام) کا فرسٹ کزن ہے، چوہڑوں یا صفائی کرنے والوں کا گرو بن گیا اور وہ لعل بیگ کے جانشین ہونے کا دعویدار ہے۔

واضح رہے کہ پنجاب /ہندوستان میں مختلف ذاتوں اور اقوام کے مختلف گورواور پیر ہیں۔ مثلاً شاہ مدار؛مداریوں کا پیر، بھگت کبیر؛جولاہوں کا پیر، شمس؛سناروں کا پیر، لقمان: لوہاروں ترکھانوں کا پیر، نام دیو: دھوبیوں کا پیر، لعل بیگ: بھنگیوں اورچوہڑوں کا پیر…

مرزا امام الدین صاحب نے کچھ کتابیں بھی لکھی تھیں مثلاً: دیدۂ حق، گل شگفت، ہدایت نامہ اور ’’دوکافروں کی کہانی‘‘وغیرہ

مرزا امام الدین کی وفات 6؍جولائی 1903ء کو ہوئی۔

[ بحوالہ الحکم جلد7 نمبر26 صفحہ 10، 17 جولائی 1903ء، ملفوظات جلد6صفحہ44]

مرزا امام الدین صاحب کی ایک بیٹی خورشید بیگم صاحبہ کی شادی حضرت اقدس ؑ کے سب سے بڑے بیٹے صاحبزادہ حضرت مرزا سلطان احمدصاحب کے ساتھ ہوئی۔ [ مأخوذ از سیرت المہدی جلد اوّل روایت نمبر212]صاحبزادہ مرزا رشیداحمدصاحب ان کے بطن سے تھے۔

(مأخوذ از سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 864، حضرت مرزا سلطان احمد مرتبہ میر انجم پرویز صاحب صفحہ10)

صاحبزادہ مرزا رشیداحمدصاحب کی شادی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدصاحب ؓ کی بیٹی صاحبزادی امۃ السلام صاحبہ کے ساتھ ہوئی۔ صاحبزادہ مرزا رشیداحمدصاحب حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے سسر تھے۔

حضرت مصلح موعودؓ محترمہ خورشیدبیگم صاحبہ کا ذکر خیر کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں:

’’میں نے بتایا ہے کہ مرزا امام دین صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سخت مخالف تھے لیکن جیسے اللہ تعالیٰ نے ابوجہل کے ہاں عکرمہؓ جیسا بزرگ بیٹا پیدا کر دیا تھا۔ اسی طرح مرزا امام دین صاحب کی لڑکی خورشید بیگم جو ہمارے بڑے بھائی مرزا سلطان احمد صاحب سے بیاہی ہوئی تھیں۔ بڑی نیک اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور سلسلہ احمدیہ کی سچی عاشق تھیں۔ انہوں نے اپنی وفات تک ایسا اخلاص دکھایا کہ حیرت آتی ہے۔ ‘‘

(الفضل 30 مئی1959ء صفحہ 3 کالم 3)

مرزاامام الدین اورمرزانظام الدین صاحبان کی تصاویر ’’لائف آف احمد‘‘ میں شائع ہوئی تھیں۔ لیکن ان کی طباعت اتنی عمدہ نہیں کہ دوبارہ شائع کی جاسکیں۔

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button