حضرت مصلح موعود ؓ

ہمارا فرض ہے کہ ہم مظلوم قوم کی مدد کریں چاہے وہ ہمیں ماریں یا دکھ پہنچائیں

حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ (فرمودہ ۱۶ ؍مئی ۱۹۴۷ء بعد نماز مغرب)

دلّی کے ایک اخبار نے لکھا کہ احمدی پاکستان کی حمایت کر رہے ہیں حالانکہ ان کے ساتھ دوسرے مسلمانوں نے اچھا سلوک نہیں کیا۔ جب پاکستان بن جائے گا تو مسلمان پھر ان کے ساتھ وہی سلوک کریں گے جو کابل میں ان کے ساتھ ہوا تھا اور اُس وقت احمدی کہیں گے کہ ہمیں ہندوستان میں شامل کر لو۔

حضرت مصلح موعود نے مؤرخہ 16؍ مئی 1947ء کو بعد نماز مغرب قادیان میں اِس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ :

’’ہمارا فرض ہے کہ ہم مظلوم قوم کی مدد کریں چاہے وہ ہمیں ماریں یا دُکھ پہنچائیں‘‘۔

نیز آپ نے فرمایا کہ:

’’ہمارا دشمن اگر ہمارے ساتھ ظلم اور بے انصافی بھی کرے تو ہم انصاف سے کام لیں گے‘‘۔

آج مجھے ایک عزیز نے بتایا کہ دلّی کے ایک اخبار نے لکھا ہے کہ احمدی اِس وقت تو پاکستان کی حمایت کرتے ہیں مگر ان کو وہ وقت بھول گیاہے جبکہ ان کے ساتھ دوسرے مسلمانوں نے بُرے سلوک کئے تھے۔ جب پاکستان بن جائے گا تو ان کے ساتھ مسلمان پھر وہی سلوک کریں گے جو کابل میں ان کے ساتھ ہوا تھا اور اُس وقت احمدی کہیں گے کہ ہمیں ہندوستان میں شامل کر لو۔ کہنے والے کی اِس بات کو کئی پہلوؤں سے دیکھا جا سکتا ہے اِس کا ایک پہلو تو یہی ہے کہ جب پاکستان بن جائے گا تو ہمارے ساتھ مسلمانوں کی طرف سے وہی سلوک ہو گا جو آج سے کچھ عرصہ پیشتر افغانستان میں ہوا تھا اور فرض کرو ایسا ہی ہو جائے پاکستان بھی بن جائے اور ہمارے ساتھ وہی سلوک روا بھی رکھا جائے لیکن سوال تو یہ ہے کہ ایک دیندار جماعت جس کی بنیاد ہی مذہب، اخلاق اور انصاف پر ہے کیا وہ اس کے متعلق اِس نقطۂ نگاہ سے فیصلہ کرے گی کہ میرا اس میں فائدہ ہے یا وہ اس نقطۂ نگاہ سے فیصلہ کرے گی کہ اس امرمیں دوسرے کا حق کیا ہے؟ یقیناًوہ ایسے معاملہ میں مؤخر الذ کر نقطۂ نگاہ سے ہی فیصلہ کرے گی مثلاً ایک مجسٹریٹ ایسے علاقہ میں عدالت کی کرسی پر بیٹھا ہے جس میں اس کے بعض قریبی رشتہ دار بھی رہتے ہیں اور اس کے ان رشتہ داروں کے دوسرے لوگوں کے ساتھ تنازعات بھی ہیں اس کے سامنے ایک ایسا مقدمہ پیش ہوتا ہے جس میں اس کے رشتہ داروں کا ایک دشمن مدعی ہے اگر اس کے پاس روپیہ ہو تو وہ اس کے رشتہ داروں کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اگر یہ مجسٹریٹ اسی مدعی کے حق میں فیصلہ کردے تو اس مدعی کے پاس روپیہ آجاتاہے اور پھر وہ اس مجسٹریٹ کے رشتہ داروں کو دِق کر سکتا ہے تو کیا ایک دیانتدار مجسٹریٹ اس ڈر سے کہ کل کو یہ روپیہ ہمارے خلاف استعمال کرے گااس حقدار مدعی کے خلاف فیصلہ کر دے گا؟ اگر وہ ایسا کرے گا تو یہ اس کی صریح ناانصافی ہوگی اور اگر وہ حق پر قائم رہتے ہوئے شہادات کو دیکھتے ہوئے اور موادِ مسل کی روشنی میں مدعی کے حق میں فیصلہ دیتا ہے تو کیا کوئی دیانتدار دنیا میں ایسا بھی ہو سکتا ہے جو اس کے فیصلہ پر یہ کہے کہ اس نے فیصلہ ٹھیک نہیں کیا اور اپنے اور اپنے رشتہ داروں پر ظلم کیا ہے۔ کوئی شریف اور دیانتدار مجسٹریٹ یہ نہیں کر سکتا کہ وہ کسی مقدمہ کا حصر اپنے آئندہ فوائد پر رکھے۔ اور کوئی دیانتدار مجسٹریٹ ایسا نہیں ہو سکتا جو موادِمسل کو نظر انداز کرتے ہوئے آنکھیں بند کر کے فیصلہ دیدے بلکہ ایمانداری اور دیانتداری متقاضی ہے اس بات کی کہ وہ حق اور انصاف اور غیرجنبہ داری سے کام لے کر مقدمہ کا فیصلہ سنائے۔ وہ یہ نہ دیکھے کہ جس شخص کے حق میں مَیں ڈگری دے رہا ہوں یہ طاقت پکڑ کر کل کو میرے ہی خاندان کے خلاف اپنی طاقت استعمال کرے گا۔ پس انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ وہ عدالت کی کرسی پر بیٹھ کر نظر انداز کر دے اِس بات کو کہ میں کس کے خلاف اور کس کے حق میں فیصلہ دے رہا ہوں، وہ نظر انداز کر دے اس بات کو کہ جس روپیہ کے متعلق میں ڈگری دے رہا ہوں وہ روپیہ کل کو کہاں خرچ ہو گا اور وہ بھول جائے اس بات کو کہ فریقین مقدمہ کون ہیں کیونکہ انصاف اور ایمانداری اسی کا نام ہے۔ پس قطع نظر اس کے کہ مسلم لیگ والے پاکستان بننے کے بعد ہمارے ساتھ کیا سلوک کریں گے وہ ہمارے ساتھ وہی کابل والا سلوک کریں گے یا اِس سے بھی بدتر معاملہ کریں گے اس وقت سوال یہ ہے کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے جھگڑے میں حق پر کون ہے اور ناحق پر کون؟

آخر یہ بات آج کی تو ہے نہیں یہ تو ایک لمبا اور پرانا جھگڑا ہے جو بیسیوں سال سے ان کے درمیان چلا آتا ہے۔ ہم نے با ر بار ہندوؤں کو توجہ دلائی کہ وہ مسلمانوں کے حقوق کو تلف کر رہے ہیں یہ امر ٹھیک نہیں ہے، ہم نے بار بار ہندوؤں کو متنبہ کیا کہ مسلمانوں کے حقوق کو اس طرح نظر انداز کر دینا بعید از انصاف ہے اور ہم نے بار بار ہندو لیڈروں کو آگاہ کیا کہ یہ حق تلفی اور یہ نا انصافی آخر رنگ لائے گی مگر افسوس کہ ہمارے توجہ دلانے، ہمارے انتباہ اور ہمارے ان کو آگاہ کرنے کا نتیجہ کبھی کچھ نہ نکلا۔ ہندو سختی سے اپنے اِس عمل پر قائم رہے انہوں نے اکثریت کے گھمنڈ میں مسلمانوں کے حقوق کا گلا گھونٹا، انہوں نے حکومت کے غرور میں اقلیت کی گردنوں پر چھری چلائی اور انہوں نے تعصب اور ہندوانہ ذہنیت سے کام لیتے ہوئے ہمیشہ مسلمانوں کے جذبات کا خون کیا اور ہندو لیڈروں کو با ر بار توجہ دلانے کے باوجود نتیجہ ہمیشہ صفر ہی رہا۔ ایک مسلمان جب کسی ملازمت کے لئے درخواست دیتا تو چاہے وہ کتنا ہی لائق کیوں نہ ہوتا اُس کی درخواست پر اس لئے غور نہ کیا جاتا کہ وہ مسلمان ہے اور اس کے مقابلہ میں ہندو چاہے کتنا ہی نالائق ہوتا اس کو ملازمت میں لے لیا جاتا۔ اِسی طرح گورنمنٹ کے تمام ٹھیکے مسلمانوں کی لیاقت قابلیت اور اہلیت کو نظر انداز کرتے ہوئے ہندوؤں کو دے دئیے جاتے، تجارتی کاموں میں جہاں حکومت کا دخل ہوتا ہندوؤں کو ترجیح دی جاتی سوائے قادیان کے کہ یہاں بھی ہم نے کافی کوشش کر کے اپنا یہ حق حاصل کیا ہے باقی تمام جگہوں میں مسلمانوں کے حقوق کو ملحوظ نہیں رکھا گیا۔ یہی وجہ تھی کہ مسلمانوں کے دلوں میں ہندوؤں کے خلاف ان کی فرقہ وارانہ ذہنیت کی وجہ سے نفرت پیدا ہوتی رہی اور آخر یہ حالت پہنچ گئی جو آج سب کی آنکھوں کے سامنے ہے۔ یہ صورتِ حال کس نے پیدا کی؟ جس نے یہ صورت حال پیدا کی وہی موجودہ حالات کا ذمہ دار بھی ہے یہ سب کچھ ہندوؤں کے اپنے ہی ہاتھوں کا کیا ہوا ہے اور یہ فسادات کا تنا ور درخت وہی ہے جس کا بیج ہندوؤں نے بویا تھا اور اسے آج تک پانی دیتے رہے اور آج جبکہ اس درخت کی شاخیں سارے ہندوستان میں پھیل چکی ہیں ہندوؤں نے شور مچانا شروع کر دیا ہے۔ مگر میں کہتا ہوں کہ ہندوؤں کو اُس وقت اس بات کا کیوں خیال نہ آیاکہ ہم مسلمانوں کے حقوق تلف کر رہے ہیں اور ہر محکمہ میں اور ہر شعبہ میں ان کے ساتھ بے انصافی کر رہے ہیں۔

مجھے 25سال شور مچاتے اور ہندوؤں کو توجہ دلاتے ہوگئے ہیں کہ تمہارا یہ طریق آخر رنگ لائے بغیر نہ رہے گا لیکن افسوس کہ میری آواز پر کسی نے کان نہ دھرا اور اپنی مَن مانی کرتے رہے یہاں تک کہ جب ہمارا احرار سے جھگڑا تھا تو ہندوؤں نے احرار کی پیٹھ ٹھونکی اور حتی الوسع ان کی امداد کرتے رہے۔ ان سے کوئی پوچھے کہ جھگڑا تو ہمارے اور احرار کے درمیان مذہبی مسائل کے متعلق تھا تمہیں اِس معاملہ میں کسی فریق کی طرفداری کی کیا ضرورت تھی اور تمہیں ختمِ نبوت یا وفاتِ مسیح کے مسائل کے ساتھ کیا تعلق تھا؟کیا تم محمد رسول اللہﷺ کے بعد نبوت کو بندمانتے تھے کہ ہمارے اجرائے نبوت کے عقیدہ پر تم برہم ہوئے تھے؟ کیا تم حیاتِ مسیح کے قائل تھے کہ ہماری طرف سے وفاتِ مسیح کا مسئلہ پیش ہونے پر تم چراغ پا ہو گئے تھے؟ ہندوؤں کا ان مسائل کے ساتھ دور کا بھی تعلق نہ تھا احرار کی طرف سے ہندو وکلاء مفت پیش ہوتے رہے۔ میں نے اِس بارہ میں پنڈت نہرو کے پاس اپنا آدمی بھیجا کہ آپ لوگوں کی احرار کے ساتھ ہمدردی کس بناء پر ہے اور یہ طرفداری کیوں کی جارہی ہے۔ انہوں نے ہنس کر کہا سیاسیات میں ایسا کرنا ہی پڑتا ہے۔ اب جن لوگوں کی ذہنیت اس قسم کی ہو اس سے بھلا کیا امید کی جاسکتی ہے۔ یہ جو کچھ آج کل ہو رہا ہے یہ سب گاندھی جی، پنڈت نہرو اور مسٹر پٹیل کے ہاتھوں سے رکھی ہوئی بنیادوں پر ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی انگریزوں کا بھی اس میں ہاتھ تھا ان کو بھی بار باراس امر کے متعلق توجہ دلائی گئی کہ ہندوستان کے کروڑوں کروڑ مسلمانوں کے حقوق کو تلف کیا جا رہا ہے جو ٹھیک نہیں ہے لیکن انہوں نے بھی اس طرف توجہ نہیں کی۔ یہ سب کچھ ہوتا رہا اور باوجود یہ جاننے کے ہوتا رہا کہ مسلمانوں کے حقوق تلف ہو رہے ہیں اور باوجود اس علم کے کہ مسلمانوں سے ناانصافی ہو رہی ہے مسلمان ایک مدت تک ان باتوں کو برداشت کرتے رہے مگر جب یہ پانی سر سے گزرنے لگا تو وہ اُٹھے اور انہوں نے اپنے لمبے اور تلخ تجربہ کے بعد جب یہ سمجھ لیا کہ ہندوؤں کے ساتھ رہتے ہوئے ان کے حقوق خطرے میں ہیں تو انہوں نے اپنے حقوق کی حفاظت اور آرام اور چین کے ساتھ زندگی بسر کرنے کے لئے الگ علاقہ کا مطالبہ پیش کر دیا۔ کیا وہ یہ مطالبہ نہ کرتے اور ہندوؤں کی ابدی غلامی میں رہنے کے لئے تیار ہو جاتے؟ کیا وہ اتنی ٹھوکروں کے باوجود بھی نہ جاگتے؟ پھر میں پوچھتا ہوں کہ کیا مسلمان اتنے طویل اور تلخ تجربات کے بعد ہندوؤں پر اعتبار کر سکتے تھے؟ ایک دو باتیں ہوتیں تو نظر انداز کی جاسکتی تھیں، ایک دو واقعات ہوتے تو بُھلائے جا سکتے تھے، ایک دو چوٹیں ہوتیں تو اُن کو نظر انداز کیا جا سکتا تھا، ایک آدھ صوبہ میں مسلمانوں کو کوئی نقصان پہنچاہوتا تو اُس کو بھی بھلایا جا سکتا تھا لیکن متواتر سَو سال سے ہر گاؤں میں، ہر شہر میں، ہرضلع میں اور ہر صوبہ میں اور ہر محکمہ میں، ہر شعبہ میں مسلمانوں کو دُکھ دیا گیا، ان کے حقوق کو تلف کیا گیا اور ان کے جذبات کو مجروح کیا گیا اور ان کے ساتھ وہ سلوک روا رکھا گیا جو زر خر ید غلام کے ساتھ بھی کوئی انصاف پسند آقا نہیں رکھ سکتا۔ کیا اب بھی وہ اپنے اس مطالبہ میں حق بجا نب تھے؟ کیا اب بھی وہ اپنے حقوق کی حفاظت کے لئے تگ ودو نہ کرتے؟ کیا اب بھی وہ اپنی عزت کی رکھوالی نہ کرتے؟اور کیا اب بھی وہ ہندوؤں کی بد ترین غلامی میں اپنے آپ کو پیش کرسکتے تھے؟

(جاری ہے)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button