متفرق مضامین

جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے …تب بوجھ اُتارا کرتے ہیں

(محمد کاشف خالد۔مربی سلسلہ قادیان)

برّ صغیر میں شاید ہی کوئی ایسا پڑھا لکھا مسلمان ہو گاجو سرسید احمد خان صاحب کے نام سے واقف نہ ہو۔ سر سیّد احمد خان ہندوستان میں مسلمانوں کے عظیم لیڈر مانے جاتے ہیں۔ آپ کی مقبولیت خاص طور پر علمی میدان میں آپ کی خدمات کی وجہ سے ہے۔ چنانچہ آپ کی خدمات کا زندہ ثبوت علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے رنگ میں آج بھی بر سر خدمت ہے۔ دنیاوی طور پر تو بلاشبہ سر سید احمد خان صاحب نے اُمت کی خدمت کی ہے جس کا ہمیں بھی اعتراف ہے اور دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ان خدمات کے بدلے اجر عطا فرمائے آمین۔ لیکن جب انسان دینی پہلو سے آپ کی خدمات کو رقم کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو کشمکش میں مبتلا ہو جاتا ہے کیونکہ سر سید احمد خان کی اپنی تحریرات و خیالات ہیں جنہیں آپ نے تو اپنے زعم میں فلسفہ کے شدید طوفان سے اسلام کے دفاع کے لیے شائع کر کےعام کیا تھا لیکن جب امام الزمان حضرت اقدس مسیح موعودومہدئ معہودعلیہ السلام نے ان خیالات کی حقیقت کو دنیا کے سامنے رکھا تو معلوم ہوا کہ یہ خیالات بجائے دفاع اسلام کے اسلام کو نقصان پہنچانے کا باعث ہیں۔

سر سید احمد خان صاحب نے جو غلطی کی وہ یہ تھی کہ آپ نے فلسفیوں اور دہریوں کے اعتراضات سے اسلام کو بچانے کےلیے یہ عقیدہ اپنا لیا کہ اسلام میں دعا کی کوئی خاص اہمیت نہیں۔ چنانچہ آپ نے اپنی اس غلطی کو اپنے رسالہ الدعا والاستجابۃ میں اسلام کی طرف منسوب کیاکہ استجابت دعا کے یہ معنے نہیں ہیں کہ جو کچھ دعا میں مانگا گیا ہے وہ دیا جائے۔ دراصل سر سید احمد خان صاحب نے مذہب کی نئی تعبیر کرتے ہوئے اسلام کے ہر اصول کو اپنی طرف سے نیچر کے مطابق کرنا چاہا تھا اور یہ قدم انہوں نے انگریزی تہذیب و فلسفیانہ خیالات سے متاثر ہو کر نیزاپنے زعم میں اسلام کو نیچریوں کے اعتراضات سے بچانے کے لیے اٹھا یا تھا۔ چنانچہ آپ کے ہم عصر،اردو کے مشہور شاعر اکبر الہ آبادی نے آپ کے اس قدم کو اپنی شاعری میںکچھ اس طرح سے طنزیہ انداز میں ڈھالا

بزرگان ملّت نے کی ہے توجہ

کمی پہ رہیں گے نہ عالم نہ عابد

ترقی دیں ہوں گی روز افزوں

علی گڑھ کا کالج ہے لندن کی مسجد

سر سید احمد خان صاحب کا یہ عقیدہ سراسر قرآن کے معارف و محاسن کو نہ سمجھنے کا نتیجہ تھا۔ اور آپ کی یہ غلطی اس لحاظ سے بجا بھی سمجھی جا سکتی ہے کہ قرآن کریم کے عظیم خزانہ سے حصہ پانے کے لیے آپ کے پاس تمام عام انسانوں کی مانند ایک محدود سوچ ہی تو تھی جس نے اپنی استطاعت کے مطابق اس خزانہ سے حصہ پایا۔ اور شاید اسی محدود سوچ کی بناپر آپ نے اس شعر کے مطابق عمل کیا کہ

جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے

تب بوجھ اُتارا کرتے ہیں

اور آپ نے اسلام کی کشتی کو فلسفہ کے طوفان میں ڈوبنے سے بچانے کے لیے دعا جیسی عظیم نعمت کو بوجھ سمجھ کےاُتار کر دریا میں پھینکنے کی غلطی کی۔

لیکن سنت اللہ کے مطابق عام انسانوں کی محدود سوچوں سے بڑھ کر سوچ رکھنے والے، خدا کے سکھائے ہوئے،مامور من اللہ بھی اس دنیا میں پیدا ہوتے رہے ہیں۔ جنہوں نے اپنے ربّ کے سکھائے ہوئے علم سے دنیا کو منور کیا ہے۔ چنانچہ اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے آخری شریعت یعنی قرآن کریم کی خدمت اور اس کے لا تعداد معارف و محاسن کو دنیا کے سامنے رکھنے کے لیےاسلام کے حقیقی دافع حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود و مہدئ معہودؑ کو مبعوث فرمایاجنہوں نے اللہ تعالیٰ کی جانب سے سکھائے گئے علم قرآن کی بنا پر یہ اعلان عام کیا کہ

وہ خزائن جو ہزاروں سال سے مدفون تھے

اب میں دیتا ہوں اگر کوئی ملے امیدوار

حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعودو مہدئ معہود ؑکو جب سر سید احمد خان کی اس غلطی کا علم ہوا جو کہ اسلام کو نقصان پہنچانے کا باعث بن رہی تھی اور سراسر قرآنِ حکیم کے خلاف تھی تو آپؑ نے اس غلطی کا ازالہ فرماتے ہوئے اور اسلام کی حقیقی تعلیم کوآشکار کرتے ہوئے قبولیت دعا کے موضوع پر معرکہ آراء کتاب ’’برکات الدعا ‘‘ تصنیف فرمائی جو کہ پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔

اس کتاب کو پڑھنے کے بعد ہر عاقل پر واضح ہو جائے گا کہ بچائو کی یہ ترکیب کہ’’جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے…تب بوجھ اُتارا کرتے ہیں ‘‘دنیاوی معاملات میں تو کسی حد تک کارگر ثابت ہو سکتی ہے لیکن جب دینی عقیدہ کے دفاع میں یہ ترکیب استعمال کی جائے گی تو وہ بجائے خدمت کے غلطی ہی کہلائے گی۔ کیونکہ جس چیز کو انسان اپنی محدود سوچ سے بوجھ سمجھ رہا ہوتا ہے وہ ایک قیمتی خزانہ ہوتا ہے جس کی حفاظت ہر لحاظ سے ضروری ہوتی ہے۔ اور اُس کی حفاظت کے لیے عام انسانوں کی کوششیں کارگر نہیں ہوتیں بلکہ اس کشتی کا ناخدا (یعنی اللہ تعالیٰ) خود اس کی حفاظت کا سامان اپنے مامور کے ذریعہ کرتا ہے۔

چنانچہ اس مضمون کو سمجھنے کے لیے سیدنا حضرت مسیح موعودؑ کے اس پُر معارف اقتباس کا مطالعہ لازمی ہے۔ آپؑ سر سید احمد صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’شاید آپ کے دل میں یہ عذر بھی مخفی ہو کہ اس نئے فلسفہ کے طوفان کے وقت اسلام کی کشتی خطرناک حالت میں تھی اور گو وہ کشتی جواہرات اور نفیس مال و متاع سے بھری ہوئی تھی مگر چونکہ وہ تہلکہ انگیز طوفان کے نیچے آگئی تھی اس لئے اس ناگہانی بلا کے وقت یہی مصلحت تھی اور اس کے بغیر کوئی اور چارہ نہیں تھا کہ کسی قدر وہ جواہرات اور نفیس مال کی گٹھڑیاں دریا میں پھینک دی جائیں اور جہاز کو ذرا ہلکا کر کے جانوں کو بچا لیا جائے لیکن اگر آپ نے اس خیال سے ایسا کیا تو یہ بھی خودروی کی ایک گستاخانہ حرکت ہے جس کے آپ مجاز نہیں تھے اس کشتی کا ناخدا خدا وند تعالیٰ ہے نہ آپ وہ بار بار وعدہ کرچکا ہے کہ ایسے خطرات میں یہ کشتی قیامت تک نہیں پڑے گی ۔اور وہ ہمیشہ اس کو طوفان اور باد مخالف سے آپ بچاتا رہے گا۔ جیسا کہ فرماتا ہے۔

إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُوْنَ (الحجر:10)

یعنی ہم نے ہی اس کلام کو اتارا اور ہم ہی اس کو بچاتے رہیں گے۔ سو آپ کو چاہیئے تھا کہ آپ اس ناخدا کی غیبی ہدایت کی انتظار کرتے اور دلی یقین سے سمجھتے کہ اگر طوفان آگیا ہے تو اب اس ناخدا کی مدد بھی نزدیک ہے جس کا نام خدا ہے جو مالک جہاز بھی ہے اور ناخدا بھی۔پس چاہیئے تھا کہ ایسی بےرحمی اور جرأت نہ کرتے اور آپ ہی خود مختار بن کر بےبہا جواہرات کے صندوق اور زر خالص کی تھیلیاں اور نفیس اور قیمتی پارچات کی گٹھڑیاں دریا میں نہ پھینکتے۔ خیر ہرچہ گذشت گذشت۔ اب میں آپ کو اطلاع دیتا ہوں اور بشارت پہنچاتا ہوں کہ اس ناخدا نے جو آسمان اور زمین کا خدا ہے زمین کے طوفان زدوں کی فریاد سن لی۔ اور جیسا کہ اس نے اپنی پاک کلام میں طوفان کے وقت اپنے جہاز کو بچانے کا وعدہ کیا ہوا تھا وہ وعدہ پورا کیا ۔اور اپنے ایک بندہ کو یعنی اس عاجز کو جو بول رہا ہے اپنی طرف سے مامور کر کے وہ تدبیریں سمجھادیں جو طوفان پر غالب آویں اور مال و متاع کے صندوقوں کو دریا میں پھینکنے کی حاجت نہ پڑے۔‘‘

( آئینہ کمالات اسلام،روحانی خزائن جلد 5صفحہ 259تا261حاشیہ)

ہر چہ گذشت گذشت …جو ہو گیا سو ہو گیا

کتاب ’’برکات الدعا ‘‘جماعت کی مرکزی ویب سائٹ پر موجود درج ذیل لنک سے پڑھی جا سکتی ہے۔

www.alislam.org/urdu/book/ruhani-khazain/

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

ایک تبصرہ

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button