متفرق مضامین

حیات مسیح پر اجماعِ امت کے دعویٰ کی حقیقت (قسط دوم۔ آخری)

(ساجدمحمود بٹر۔استاد جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا)

امت محمدیہ کے مختلف ادوار کے متعدد بزرگان اور علماء وفات مسیح ناصری ؑکے قائل تھے

گذشتہ بزرگ جو گذر چکے ہیں اگر انہوں نے مسئلہ وفات مسیح کو نہ سمجھا ہو اور اس میں غلطی کھائی ہو تو اس سبب سے ان پر مواخذہ نہیں

قائلینِ وفاتِ مسیح

(گذشتہ سے پیوستہ)

14۔ علامہ محمود شلتوت صاحب مفتی مصر

علامہ محمود شلتوت صاحب مفتی مصر نے نہایت وضاحت وصراحت اور شد و مد سے وفات عیسیٰ کا فتویٰ دیا ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں:

والمَعنی ان اللّٰہ توفی عیسٰی ورفعہ الیہ وطھّرہ من الذین کفرُوا۔ وقد فسّر الالوسی قولہ تعالیٰ ’’انّی متوفّیک‘‘بوجوہٍ منھا۔ وھواظھرھا۔ انی مستوفٍ اجلک وممیتک حتْفَ انفِک لا اسلّط علیک من یقْتُلک …… وظاہر ان الرّفع الذی یکون بعد التّوفیة۔ ھورفْعُ المکانة لا رفْع الجسد …… فمِن این تُؤْخذ کلمةُ السّماء من کلمةٍ(الیہ)؟ اللّٰھم ان ھذاالظّلم للتّعبیر القرآنیّ الواضح خضُوعا لقِصص وروایات لَّم یقم علی الظن بھا فضلا عن الیقین۔ برھان ولا شبہ برھان

(الفتاویٰ للامام الاکبر محمود شلتوت صفحہ53تا54)

ترجمہ: اس کا مطلب ہے کہ اللہ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو وفات دی، عزت دی اور کافروں کے الزامات سے پاک کیا۔ علامہ الوسی نے اپنی تفسیر میں

اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ

کے کئی معنی کیے ہیں ان میں سے سب سے مضبوط معنی یہ ہیں کہ میں تیری عمر پوری کرکے تجھے طبعی طورسے وفات دوں گا۔ اور میں تجھ پر ایسے لوگوں کو مسلط نہیں کروں گا جو تجھے قتل کر دیں۔ پھر رفع کے معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ رفع جو توفی کے بعد ہو سکتا ہے وہ رفع مرتبہ ہی ہے نہ کہ رفع جسمانی۔ پھر رفع سماوی کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ

بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِ

میں آسمان کا کوئی لفظ موجود نہیں۔ پھر جسمانی رفع کے قائلین کی طرف سے آسمان کا لفظ کہاں سے لیا جاتا ہے۔ یقینا ًیہ قرآن کے ایک واضح مفہوم کے ساتھ زیادتی ہے۔ محض ایسے قصے اور ظنی روایات قبول کرتے ہوئے جن پر کوئی دلیل تو کیا دلیل کا کوئی ادنیٰ سا شائبہ بھی نہیں۔

15۔ حضرت خواجہ غلام فرید صاحب چاچڑاں شریف والے (متوفی 1901ء)

حضرت خواجہ غلام فرید صاحب چاچڑاںشریف والے (متوفی 1901ء) بھی وفات مسیح کے قائل تھے۔ چنانچہ ’’اشارات فریدی‘‘ میں لکھا ہے:

’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر اٹھائے جانے کا ذکر ہو رہا تھا۔ ایک شخص نے دریافت کیا کہ کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس جسم کے ساتھ آسمان پر اٹھائے گئے تھے یا معروف موت کے بعد آپ کی روح مرفوع ہوئی۔ آپ نے فرمایا کہ باقی انبیاء اور اولیاء کی طرح مرفوع ہوئے ہیں۔ ‘‘

(اشارات فریدی مقابیس المجالس مترجم اردو کپتان واحد بخش سیال صفحہ731 مقبوس نمبر 60بروز یکشنبہ 20ذیقعد1316ھ)

16۔ علامہ عبیداللہ سندھی صاحب (متوفی 1944ء)

مشہور عالم دین اور مدرسہ دارالعلوم دیوبند کے فارغ التحصیل علامہ عبیداللہ سندھی صاحب (متوفی 1944ء) اپنی تفسیر ’’الہام الرحمٰن فی تفسیر القرآن‘‘(اردو ترجمہ) میں فرماتے ہیں:

مُمِیْتُکَ:

تجھے مارنے والا ہوں۔ یہ جو حیات عیسیٰ لوگوں میں مشہور ہے یہ یہودی کہانی۔ نیز صابی من گھڑت کہانی ہے۔ مسلمانوں میں فتنہ عثمان کے بعد بواسطہ انصار بنی ہاشم یہ بات پھیلی اور یہ صابی اور یہودی تھے…… قرآن میں ایسی کوئی آیت نہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہو کہ عیسیٰ نہیں مرا اور وہ زندہ ہے اور نازل ہو گا۔

(الہام الرحمٰن فی تفسیر القرآن اردو ترجمہ صفحہ240تا241 زیر آیت اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَآل عمران : 56)

17۔ غلام احمد پرویز ایڈیٹر طلوع اسلام

غلام احمد پرویز ایڈیٹر طلوع اسلام کراچی اور اہل قرآن کے عظیم عالم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’باقی رہا عیسائیوں کا یہ عقیدہ کہ آپ زندہ آسمان پر اٹھائے گئے تھے۔ تو قرآن سے اس کی بھی تائید نہیں ہوتی، بلکہ اس میں ایسے شواہد موجود ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ آپ نے دوسرے رسولوں کی طرح اپنی مدت عمر پوری کرنے کے بعد وفات پائی۔ ‘‘

(شعلۂ مستور صفحہ80)

’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ ہونے کی تائید قرآن کریم کی آیات سے نہیں ملتی۔ بلکہ اس کے برعکس آپ کے ’’گذر جانے‘‘اور وفات پا جانے کی شہادت قرآن میں موجود ہے۔ ‘‘

(شعلۂ مستور صفحہ82تا83)

علاوہ ازیں موجودہ وقت میں اہل قرآن فرقہ کا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام دوسرے انبیاء کی طرح وفات پاچکے ہیں اور اب تک آسمان پر زندہ نہیں ہیں۔

18۔ شیخ الہند مولانا ابوالکلام آزاد (1888ء تا1958ء)

مشہور عالم لیڈر شیخ الہند مولانا ابوالکلام آزاد (1888ء تا1958ء ) فرماتے ہیں:

’’بلاشبہ یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ یہ عقیدہ اپنی نوعیت میں ہر اعتبار سے ایک مسیحی عقیدہ ہے اور اسلامی شکل ولباس میں نمودار ہوا ہوا ہے۔ ‘‘

(نقش آزاد صفحہ102 مولف غلام رسول مہرطابع شیخ نیاز احمد، مطبع علمی پرنٹنگ پر یس ہسپتا ل روڈ لاہور ناشر کتاب منزل لاہور)

19۔ سر سید احمد خان صاحب (1817ء تا1898ء)

مسلمانانِ برصغیر کے عظیم رہ نماسرسید احمد خان صاحب (1817ء تا1898ء)بانیٔ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ تحریر فرماتے ہیں:

’’قرآن مجید میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کے متعلق چار جگہ ذکر آیا ہے…… مگر چونکہ علماء اسلام نے بہ تقلید بعض فرق نصاریٰ کے قبل اس کے کہ مطلب قرآن مجید پر غور کریں یہ تسلیم کر لیا تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ آسمان پر چلے گئے ہیں اس لیے انہوں نے ان آیتوں کے بعض الفاظ کو اپنی غیر محقق تسلیم کے مطابق کرنے کی بے جا کوشش کی ہے۔ ‘‘

(تفسیر القرآن مع تحریر فی اصول التفسیر از سر سید احمد خان صاحب تفسیر سورة آل عمران حصہ دوم صفحہ41-43)

20۔ حضرت سید علی بن عثمان الہجویری المعروف بہ داتا گنج بخش

حضرت سید علی بن عثمان الہجویری المعروف بہ داتا گنج بخش فرماتے ہیں:

’’رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ :’’معراج کی رات مَیں نے حضرت آدم صفی اللہ، یوسف صدیق، موسیٰ کلیم اللہ، ہارون حلیم اللہ، عیسیٰ روح اللہ اور ابراہیم خلیل اللہ علیہم السلام کو آسمانوں میں دیکھا۔ لا محالہ یہ ان کی ارواح ہیں۔ ‘‘

(کشف المحجوب تصنیف حضرت داتا گنج بخش لاہوری صفحہ 274۔ باب 14فصل حقیقتِ روح ترجمہ و شرح اردو الجاج کپتان واحد بخش سیال چشتی صابری جنوری1999ء)

بزرگان دین اور علمائے امت کے ان حوالہ جات سے روز روشن کی طرح ثابت ہو رہا ہے کہ ہر زمانے میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہے ہیں جنہوں نے ببانگ دہل وفات مسیح کا اعلان کیا۔ اور وفات مسیح کے قائلین میں اگر ان لوگوں کو بھی شامل کر لیا جائے جو ان بزرگوں اور علماء کے پیرو کارتھے تو بلاشبہ یہ تعداد لاکھوں، کروڑوں تک جا پہنچتی ہے۔

نزول مسیح پر اجماعِ امت کے دعویٰ کی حقیقت

مسلمان علماء کا عقیدہ ہے کہ مسیح اسرائیلی نے ہی آخری زمانے میں نازل ہونا ہے اور نزول مسیح کے متعلق احادیث پر اجماع امت ہے۔ یعنی تما م امت محمدیہ یہ عقیدہ رکھتی ہے کہ آخری زمانے میں فتنہ وفساد کو دور کرنے اور غلبہ اسلام کے لیے خداتعالیٰ امت محمدیہ میں مسیح اسرائیلی کو آسمان سے نازل کرے گا۔ دیوبندی عالم مفتی رفیع صاحب لکھتے ہیں کہ

’’نزول عیسیٰ کے بارے میں 109 حدیثوں نے جو قطعی طور پر متواتر ہیں اس اجماعی عقیدے کو ہر قسم کی تحریف و تاویل سے ہمیشہ کے لیے مامون و محفوظ کر دیا ہے‘‘

(علامات قیامت اور نزول مسیح صفحہ42)

اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہوں پھر تسلیم کرنا پڑے گا کہ آخری زمانے میں مسیح ناصری نے ہی امت کی اصلاح کے لیے آنا ہے۔ لیکن اگر وہ وفات یافتہ ہوں تو اس بات کو ماننے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں کہ ابن مریم کی آمد سے مراد مثیل ابن مریم ہے۔ گذشتہ صفحات میں تفصیل سے گزر چکا ہے کہ قرآن کریم اور احادیث نبویہﷺ روز روشن کی طرح وفات مسیح ثابت کر رہی ہیں۔ وفات مسیح کے ان دلائل و براہین کے ہوتے ہوئے یہ دعویٰ کرنا کہ آخری زمانے میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی آئیں گے۔ اور اسی پر اجماع امت ہے ایک بے بنیاد دعویٰ ہے۔

علاوہ ازیں امت محمدیہ میں ہمیں ایسے بزرگان اور علماء بھی ملتے ہیں جنہوں نے نہایت صراحت و وضاحت سے لکھاہے کہ امت محمدیہ میں مسیح کی آمد سے مراد مثیل مسیح کی آمد ہے۔ چنانچہ ساتویں صدی ہجری کے عظیم صوفی بزرگ اور مشہورومعروف عالم دین حضرت علامہ محی الدین ابن عربی (متوفی 638ھ) تحریر فرماتے ہیں:

وجب نزولہ فی آخر الزمان بتعلقہ ببدن آخَرَ

(تفسیر القرآن الکریم از ابن عربی زیر آیت بل رفعہ اللّٰہ الیہ)

یعنی مسیح کا نزول آخری زمانے میں ایک دوسرے جسم کے ساتھ تعلق پکڑ کر ہونا ضروری ہے۔

آٹھویں صدی ہجر ی کے عظیم عالم علامہ سراج الدین ابی حفص عمر بن الوردی (749ھ) تحریر فرماتے ہیں:

وقالت فرقة نزول عیسیٰ خروج رجل یشبہ عیسیٰ فی الفضل و الشرف کما یقال للرجل الخیر ملک و للشریر شیطان تشبیھا بھما ولا یراد الاعیان

(خریدة العجائب و فریدة الغرائب صفحہ263تالیف سراج الدین ابی حفص عمر بن الوردی)

یعنی ایک گروہ کہتا ہے کہ نزول عیسیٰ سے مراد ایسے شخص کی آمد ہے جو فضیلت اور شرف میں عیسیٰ سے مشابہ ہو۔ جس طرح اچھے آدمی کو فرشتہ اور برے آدمی کو شیطان کہہ دیتے ہیں اور اس سے مراد حقیقتاً فرشتہ و شیطان نہیں ہوتے بلکہ ان کی مشابہت مرادہوتی ہے۔

’نجم الثاقب‘ میں لکھاہے:

در شرح دیوان از بعض نقل کرد کہ روح عیسیٰ علیہ السلام در مہدی علیہ السلام بروز کند و نزول عیسیٰ عبارت از ایں بروز است و مطابق اینست حدیث لا مھدی الا عیسیٰ بن مریم۔

(نجم الثاقب باب چہارم صفحہ102 تالیف حاج میرزا حسین طبرسی نوری)

یعنی شرح دیوان میں بعض کا یہ عقیدہ لکھا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی روحانیت مہدی علیہ السلام میں بروز کرے گی اور حدیث میں نزول عیسیٰ سے مراد یہ بروز ہی ہے۔ اور اسی کے مطابق یہ حدیث ہے کہ مہدی ہی عیسیٰ بن مریم ہیں۔

شیخ محمد اکرم صاحب صابری اپنی کتاب ’’اقتباس الانوار‘‘جو 1130ھ کی تالیف ہےمیں لکھتے ہیں:

’’ایک فرقے کا عقیدہ یہ ہے کہ مہدی آخر الزمان حضرت عیسیٰ بن مریم ہوں گے۔ ‘‘

(اقتباس الانوار صفحہ166 از شیخ محمد اکرم قدوسی ترجمہ مؤلفہ الحاج کپتان واحد بخش سیال چشتی صابری زمانہ ٔتالیف 1130ھ۔ اشاعت دوم 1409ھ ناشر بزم اتحاد المسلمین لاہور پاکستان)

شیخ محمد اکرم صاحب صابری کا چونکہ اپنا عقیدہ حیات مسیح کا ہے اور آخری زمانے میں آنے کا ہے اس لیے انہوں نے ایک فرقے کا عقیدہ لکھ کر نیچے لکھا ہے کہ یہ روایت ضعیف ہے۔ بہرحال ایک فرقہ کا عقیدہ لکھ کر اتنا تو ثابت کر گئے ہیں کہ اسرائیلی مسیح کی آمد پر اجماع امت نہیں ہے۔

علاوہ ازیں اس نام نہاد اجماع امت کے متعلق یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ مسیح کا جسم کے ساتھ آسمان سے اترنا اس کے جسم کے ساتھ آسمان پر چڑھنے کی فرع ہے۔ یعنی اگر قرآن و حدیث سے یہ ثابت ہو جائے کہ مسیح زندہ جسم سمیت آسمان پر چڑھ گیا ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکالنا پڑے گا کہ پھر وہ آسمان سے ہی اترے گا۔ لیکن اگر قرآن و حدیث سے حیات مسیح ثابت نہ ہو اور ان کا زندہ جسم سمیت آسمان پر جانا مذکور نہ ہو بلکہ اس کے برعکس ان کی وفات ثابت ہو تو عقل ان کے آسمان سے زندہ نازل ہونے کی فرع کو کسی صورت میں قبول نہیں کر سکتی۔ جیسے ہر درخت کا تنا بھی ہوتا ہے اور شاخیں بھی۔ اگر تنا کاٹ دیا جائے تو لازماً شاخیں بھی سلامت نہیں رہیں گی اسی طرح حیات مسیح کا تنا قرآن و حدیث نے زور آور ہتھیاروں سے کاٹ کر رکھ دیا ہے جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ اب کوئی آسمان سے آئے گا ہی نہیں۔ جو آسمان پر گیا ہی نہیں وہ وہاں سے اترے گا کیسے۔

علاوہ ازیں یہ بات بھی ذہن نشین کرنی چاہیے کہ پیشگوئیوں کے بارے میں اجماع ہو ہی نہیں سکتا۔ کیونکہ مستقبل کے متعلق انسانوں کو صحیح علم نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ علامہ محمود شلتوت مفتی مصر تحریر کرتے ہیں:

اما الحِسِیاتُ المُستقبلةُ من اشراط السّاعة و اُمور الاخرة فقد قالواانّ الاجماعَ علیھا لا یعتبر من حیث ھو اجماع، لان المُجْمعینَ لا یعلمُون الغیبَ …… لان الحسیَ المستقبَلَ لا مَدْخَلَ للاجتھاد فیہ

(الفتاو یٰ صفحہ67 از مفتی مصر علامہ محمود شلتوت)

ترجمہ: یعنی جہاں تک مستقبل کے امور کا تعلق ہے جیسے علامات قیامت اور امور آخرت۔ تو ایسے امور کے متعلق علماء نے کہا ہے کہ اجماع کی کوئی حیثیت نہیں۔ کیونکہ اجماع کرنے والے غیب کا علم نہیں رکھتے۔ اس لیے مستقبل کے امور کے متعلق اجتہاد کو کوئی دخل نہیں۔

اس حد تک تو ہم تسلیم کرتے ہیں کہ آخری زمانے میں ابن مریم نے نازل ہونا ہے اور اس نے آکر اسلام کو غالب کرنا ہے۔ کیونکہ یہ خبر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ میں تواتر کے ساتھ ملتی ہے۔ لیکن یہ کہنا کہ ابن مریم سے مراد مسیح ناصری ہی ہے اور نزول سے مراد آسمان سے ہی نازل ہونا ہے یہ بالکل غلط ہے تمام امت نے اس پر ہرگز اجماع نہیں کیا۔ بزرگان امت کے حوالہ جات گذشتہ صفحات میں گزر چکے ہیں جو مسیح ناصری کو وفات یافتہ تسلیم کرتے ہیں اور ان کی آمد کو بروزی رنگ میں مانتے ہیں۔

سلف اور خلف کے لیے یہ ایک ایمانی امر تھا جو پیشگوئیوں کو انہوں نے اجمالی طور پر مان لیا۔ انہوں نے ہرگز یہ دعویٰ نہیں کیا کہ ہم ان پیشگوئیوں کی تہ تک پہنچ گئے ہیں اور درحقیقت ابن مریم سے مراد مسیح ابن مریم ہی ہے۔ اور اسی طرح ان پیشگوئیوں میں مذکور ہ تمام علامات ظاہری صورت میں ہی پوری ہونی ہیں۔ اگر امت کا اجماع ہوتا تو ان میں سے نہ کوئی وفات مسیح کا قائل ہوتا اور نہ ہی مسیح کی آمد کو بروزی قراردیتا۔ ہاں اتنی بات تو ہم بھی تسلیم کرتے ہیں کہ امت کے بعض علماء کو واقعی غلط فہمی ہوئی ہے کہ انہوں نے آخری زمانے میں ابن مریم کے آنے سے مراد مسیح ابن مریم کوہی لیا ہے۔ لیکن ہمارے موقف کو اس سے کوئی کمزوری نہیں پہنچتی کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ بعض اوقات انبیاء کے ذہن میں بھی پیشگوئی پوری ہونے کا ایک خاص اور معین مفہوم مراد ہوتا ہے لیکن عملاً وہ پیشگوئی کسی اور رنگ میں پوری ہوتی ہے۔چنانچہ احادیث میں ہمیں اس امر کی کئی مثالیں ملتی ہےہیں مثلارسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ابھی مکہ میں ہی تھے کہ آپ نے اپنی ہجرت کے متعلق ان الفاظ میں پیشگوئی کی۔

’’رأیتُ فی المَنا م انی اُھاجِر مِن مکة الی ارضٍ بھا نخْل ، فذھب وھلی الی انھا الْیَمامة او ھجر، فاذا ھِی الْمدینة یَثْرب‘‘

یعنی میں نے رؤیا میں دیکھا کہ میں مکہ مکرمہ سے ایک ایسی سرزمین کی طرف ہجرت کر رہا ہوں جس میں کھجوروں کے باغات ہیں۔ پس میں نے سمجھا کہ یہ جگہ یا یمامہ ہے یا ھجر ہے۔ لیکن عملاً جب ہجرت ہوئی تو وہ سرزمین مدینہ یثرب تھی۔

(صحیح بخاری کتاب المناقب باب علامات النبوة فی الاسلام۔ صحیح بخاری کتاب التعبیر باب اذا رای بقرة تنحر)

اسی طرح یہ بھی ذکر ملتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری وفات کے بعد میری بیویوں میں سے پہلے وہ فوت ہو گی جس کے ہاتھ لمبے ہوں گے۔ آپؐ کی بیویوں نے جب یہ سنا تو انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہی باہم ہاتھ ماپنے شروع کر دیے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو منع نہ فرمایا بلکہ ان کے اس عمل پر خاموش رہے۔ چنانچہ جب بیویوں نے ہاتھ ماپے تو سب سے لمبے ہاتھ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کے نکلے۔اب تمام لوگوں نے یہی سمجھ لیا کہ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا سب سے پہلے فوت ہوں گی۔ لیکن عملاً یہ ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جس بیوی کی سب سے پہلے وفات ہوئی وہ حضرت زینب بنت جحش تھی۔ تب دوسری بیویوں اور باقی لوگوں کو سمجھ آئی کہ لمبے ہاتھوں سے مراد سخاوت تھی۔ چونکہ حضرت زینب باقی بیویوں کے مقابلے میں زیادہ سخاوت کرنے والی تھیں۔اس لیے ان کی پہلے وفات ہوئی۔ صحیح بخاری میں لکھا ہے:۔

’’عن عائشة رضی اللّٰہ عنھا: انّ بعضَ ازواجِ النّبیّ صلی اللہ علیہ وسلم قُلن لِلنّبی صلی اللہ علیہ وسلم: اَیّنا اَسرعُ بک لُحوقًا؟ قال اَطولکُنّ یدا۔ فاخذوا قصبة یَذْرعُونَھا فکانَت سَودة اَطْولھن یَدًا، فَعلِمنا بعد انّما کانتْ طول یدھا الصّدقة، وکانت اسرعْنا لُحُوقا بہ، وکانت تحبّ الصّدقة‘‘

(صحیح بخاری کتاب الزکاة باب فضل صدقة الشحیح الصحیح)

حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ بعض ازواج مطہرات نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ کہ ہم میں سے سب سے پہلے آپ کی وفات کے بعد آپ سے کون ملے گی۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے جس کے ہاتھ سب سے لمبے ہیں۔ پس انہوں نے سر کنڈا پکڑا اور ہاتھ ماپنے شروع کیے تو حضرت سودہ کے ہاتھ سب سے لمبے نکلے ۔ لیکن ہمیں بعد میں معلوم ہوا جب حضرت زینب کی وفات ہوئی کہ لمبے ہاتھوں سے مراد صدقہ تھا اور حضرت زینب صدقہ وخیرات کو بہت پسند کرتی تھیں۔

اس حدیث میں

فَاَخَذُوْا قَصَبَةً یَذْرَعُوْنَھَا

کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جن سے ثابت ہو رہا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن نے ہاتھ ماپے تھے۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں موجود نہ ہوتے اور صرف ازواج مطہرات ہی ہاتھ ماپتیں تو مؤنث جمع کے صیغے

فاخَذْنَ قصبةً یَذْرَعْنَھَا

استعمال ہونے چاہیے تھے۔

فتح الباری شرح صحیح بخاری میں لکھا ہے:۔

’’نِسْوَة النبی صلی اللہ علیہ وسلم حَمَلْن طُول الیَدِ علی الحقِیْقةِ فلم ینکر علیھن‘‘

(فتح الباری شرح صحیح بخاری الجزء الثالث صفحہ288 از امام حافظ احمد بن علی بن حجر العسقلانی (852 ھ) دارنشر الکتب الاسلامیة۔ 2۔ شارع شیش محل لاہور پاکستان طبع1401ھ ،1981ء)

یعنی ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن نے ہاتھوں کی لمبائی کی حقیقت کوظاہر پر محمول کیا تھا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس عمل کو نہ روکا اور نہ انہیں منع کیا۔

اس سے ملتا جلتا مضمون صحیح بخاری کتاب الزکوٰة باب فضل صدقة الشحیح الصحیح حاشیہ احمد علی سہانپوری اور صحیح مسلم کتاب فضائل صحابہ باب من فضائل زینب ام المومنین میں بیان ہوا ہے۔علاوہ ازیں ازواج مطہرات کو اس پیشگوئی کے ظاہرًا پورا ہونے پر اس قدر یقین تھا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی وہ اپنے ہاتھوں کو ماپتی رہتی تھیں کہ کس کے ہاتھ لمبے ہیں۔ چنانچہ فتح الباری حضرت عائشہ کی روایت بیان ہے:

’’فکنّا اذا اجْتَمعنا فِی بَیتٍ اِحدَانا بعدَ وفَاةِ رسولِ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نَمُدُّ ایْدینا فی الجدار نَتَطاول فَلم نَزلْ نفعل ذالک حتّی تُوفّیتْ زینب بنت جحش وکانت اِمْراة قَصیرة ولم تکن اَطوَلَنا فعرَفنا حِینئذٍ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم انّما اَراد بطولِ الید الصّدقةَ وکانت زینب امراة صَناعةَ الیَدِ‘‘

(فتح الباری جزء 3صفحہ287)

یعنی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب کبھی بھی ہم اپنے میں سے کسی کے گھر اکٹھی ہوتیں تو ہم دیوار پر اپنے اپنے ہاتھوں کو پھیلا کر ماپتیں کہ کس کے ہاتھ لمبے ہیں۔ اور یہ کام ہم مسلسل کرتی رہیں یہاں تک کہ حضرت زینب بنت جحش وفات پاگئیں حالانکہ حضرت زینب کے ہاتھ چھوٹے تھے۔ تب ہمیں پتہ چلا کہ لمبے ہاتھوں سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد صدقہ وخیرات اور سخاوت میں لمبے ہاتھ ہونا تھا۔ اور حضرت زینب میں یہ خوبی پائی جاتی تھی۔

پس اس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ جب تک پیشگوئیوں کا ظہور نہ ہو اس سے پہلے پیشگوئیوں کے متعلق اجماع کا دعویٰ کرنا بالکل غلط ہے۔

اسی طرح صلح حدیبیہ کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہی سمجھے کہ ہم اس رؤیا کے مطابق جس میں مجھے صحابہ کو طواف کرتے دکھایا گیا تھا، اسی سال طواف کعبہ کریں گے۔اس پر اتنا یقین تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم 1400 صحابہ کو لے کر سینکڑوں کلو میٹر کا انتہائی کٹھن سفر کر کے پہنچے لیکن اس سال طواف نہ ہو سکا۔

(سیرة حلبیہ اردو ترجمہ از محمد اسلم قاسمی جلد 5صفحہ51زیر عنوان غزوہ حدیبیہ دارالاشاعت کراچی۔ تالیف علامہ علی بن برہان الدین حلبی)

بہرحال یہ تمام مثالیں ثابت کر رہی ہیں کہ پیشگوئیوں کی حقیقت سمجھنے میں بعض اوقات نبی کو بھی غلطی لگ سکتی ہے۔

اب ہم نزول عیسیٰ کی پیشگوئی کو ایک اَور زاویے سے دیکھتے ہیں۔ نزول المسیح کی پیشگوئی اشراطِ ساعہ میں سے ایک ہے۔ اور اشراطِ ساعہ کے متعلق لکھا ہے کہ یہ متشابہات میں سے ہیں۔ یعنی علامات قیامت کے متعلق کوئی آدمی یقین اور وثوق سے نہیں کہہ سکتا کہ یہ اس طرح پوری ہوں گی اور فلاں تاریخ کو یہ علامت پوری ہو گی اور فلاں تاریخ کو یہ علامت تکمیل کو پہنچے گی۔ یا پھر اس علامت کی یہ کیفیت ہوگی۔ اس طرح اس کا ظہور ہوگا۔ یہ تمام امورمستقبل سے تعلق رکھتے ہیں۔ جن کے متعلق قطعیت سے نہیں کہا جا سکتا کہ ان کا ظہور کس طرح ہوگا۔ علمائے امت نے نزول مسیح اور خروج دجال اور اشراطِ ساعہ کو متشابہات میں شمار کیا ہے۔ اور متشابہات کے متعلق بزرگان دین کا یہی موقف ہے کہ ان کی حقیقت کو خدا تعالیٰ کے سپرد کرنا چاہیے۔ ہمارا فرض بس یہی ہے کہ ان کے وقوع پذیر ہونے پر ایمان رکھیں۔ اور ان کے وقوع پذیر ہونے سے پہلے قطعیت کے ساتھ کوئی ایسی رائے قائم نہ کریں جو بعد میں ہمارے لیے ٹھوکر کا موجب بنے۔ ہمارے لیے متشابہات پر ایمان لانا ضروری ہے اور ان کے حقائق کا علم خدا کے سپرد کرنا لازمی ہے۔

علامہ الخازن اپنی تفسیر میں زیر آیت

وَمَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَہ اِلَّا اللّٰہ

متشابہات کے بارہ میں لکھتے ہیں:

قیل یجوزُ ان یکون لِلقرآن تَاویل اسْتاثَر اللّٰہ بعلمہِ ولم یطلعْ علیہ احدًا مِن خلقہ کعلم قیامِ الساعةِ ووقت طلوعِ الشمسِ من مغربِھا وخروجِ الدجّال ونزول عیسیٰ ابن مریمَ وعلم الحروفِ المقطّعة واشباہِ ذالک ممّا اسْتاثرَ اللّٰہُ بعلمہ فالایمانُ بہ واجب وحقائقُ علومِہ مفوضة الی اللّٰہ تعالیٰ۔ وھذا قول اکثر المفسِّرین وھو مذھبُ ابن مسعود وابن عباس فی روایة عنہ وابی ابن کعب وعائشة واکثر التابعین

(تفسیرالخازن تالیف علاء الدین علی بن محمد بن ابراہیم البغدادی زیر آیت وما یعلم تاویلہ آل عمران:7)

کہا گیا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ قرآن کریم کی آیات متشابہات کے ایسے معنے ہوں جو اللہ تعالیٰ کے علم سے ہی مخصوص ہوں اور اس نے اپنی مخلوق میں سے کسی کو ان معنوں سے مطلع نہ کیا ہو۔ جیسے کہ قیام ساعت کا علم، طلوع شمس من المغرب کا وقت، خروج دجال، نزول عیسیٰ ابن مریم اور حروف مقطعات کا علم اور اس جیسے دیگر امور۔ پس ایسے امور پر ایمان لانا تو ضروری ہے اور ان کے حقائق کا علم خدا کے سپرد کرنا چاہیے۔ یہی قول اکثر مفسرین کا ہے اور یہی مذہب حضرت ابن مسعود اور ایک روایت کے مطابق حضرت ابن عباس کا، حضرت ابی بن کعب، حضرت عائشہ اور اکثر تابعین کاہے۔

علامہ محمد رشید رضا صاحب اپنی تفسیر ’’تفسیر المنار‘‘ میں لکھتے ہیں:

وذھب جمھور عظیم منھم الی انہ لا متشابہ فی القرآن الا اخبار الغیب

(تفسیر المنار زیر آیت آل عمران :8)

یعنی مفسرین علماء میں سے بھاری اکثریت کا یہ خیال ہے کہ قرآن کریم میں سوائے اخبار غیبیہ کے کوئی متشابہ نہیں ہے۔

علامہ جلال الدین سیوطی نےاپنی مشہور کتاب ’’الاتقان فی علوم القرآن ‘‘ میں محکمات اور متشابہات کے متعلق مختلف اقوال لکھے ہیں۔ متشابہات کے متعلق پہلا قول یہ لکھا ہے:

’’جس چیز کا علم اللہ تعالیٰ نے اپنے ہی لیے خاص کیا ہے۔ جیسے قیامت کا قائم ہونا، اور دجال کا خروج اور سورتوں کے اوائل کے حروف مقطعہ، یہ سب متشابہ ہیں‘‘

(الاتقان حصہ دوم اردو ترجمہ مولانا محمد حلیم انصاری صفحہ102زیر عنوان محکم اور متشابہ )

مذکورہ بالا حوالہ جات سے بصراحت ثابت ہو رہا ہے کہ مستقبل کے امور مثلاً نزول عیسیٰ اور قتل دجال اور یاجوج ماجوج وغیرہ متشابہات میں سے ہیں جن کا حقیقی علم صرف خدا تعالیٰ کو ہے۔ ان کی حقیقت کو خدا تعالیٰ پر چھوڑ دینا چاہیے اور ان پیشگوئیوں کا پورا ہونا لوگوں کو بتا دے گا کہ ان کی حقیقت کیاتھی۔ علمائے امت کے اس موقف کے ہوتے ہوئے ان علماء کا یہ کہنا کہ اسرائیلی مسیح کے اس امت میں آنے کے متعلق اجماع ہے ایک بے بنیاد دعویٰ سے بڑھ کر اور کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔

پھر اجماع کی بحث کو اگر ہم گذشتہ امتوں میں تلاش کریں کہ کیا کبھی کسی کے نزول کے متعلق کسی امت کا اجماع ہواتھا اور پھر اس امت کے اجماع کے مطابق کوئی شخص آسمان سے نازل ہوا تھا یا پھر ان کے ظاہری اجماع کے برعکس اس کا کوئی مثیل آیا تھا تو ہمیں اس معاملے میں یہود کی واضح مثال نظر آتی ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد سے پہلے یہودنے بھی بائبل کی روشنی میں ایک ظاہری اجماع کیا تھا۔ وہ بھی یہی کہتے تھے کہ بائبل کی روشنی میں حضرت ایلیاء آسمان پر گئے ہیں اور وہ اب تک زندہ بیٹھے ہوئے ہیں جیسا کہ سلاطین 2باب2 آیت نمبر11میں مندرج ہے۔ اور پھرمسیح کی آمد سے قبل ایلیاء کا دوبارہ آسمان سے نازل ہونا بھی صحیفہ ملاکی باب4 آیت نمبر5میں لکھا ہے۔ چنانچہ یہود کا یہی موقف تھا کہ ایلیاء آسمان پر زندہ ہے اور وہ آسمان سے نازل ہوگا۔ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام آئے تو یہود نے یہی نام نہاد ظاہری اجماع ان کے سامنے رکھ دیا اور کہا کہ اگر تم سچے ہو تو پھر وہ ایلیا ءکہاں ہے جس نے آسمان سے نازل ہونا تھا۔ حضرت عیسیٰ نے حضرت یحیٰ علیہ السلام کے متعلق فرمایا کہ ایلیاء یہی ہے۔ چاہو تو قبول کرو۔ اب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یہودیوں کے ظاہری اجماع کے بالکل برعکس بات کہی اور یہودیوں کو ظاہر پرستی کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے دو سچے نبیوں یعنی حضرت یحیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت سے منکر ہونا پڑا۔ ان علماء کے لیے قابل فکر مقام ہے کہ وہ عیسیٰ علیہ السلام جس کو آسمان پر زندہ بٹھائے ہوئے ہیں اور جس کے آسمان سے نازل ہونے کی راہ تک رہے ہیں، اسی عیسیٰ نے خود یہ فیصلہ کردیا کہ جب کسی کی آسمان سے نازل ہونے کے متعلق پیشگوئی بیان ہوئی ہوتو اس سے مراد اس شخص کا مثیل ہوا کرتا ہے جیسے ایلیاء کے مثیل یحیٰ بنے، نہ کہ بعینہٖ وہی شخص مراد ہوتاہے۔ لیکن جس طرح اکثر یہود نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بات کو نہیں مانا تھا اور اس کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے سچے نبی کا انکار کرنا پڑا تھا اسی طرح حضرت عیسیٰ کی بات کو آج کل کے اکثر نام نہاد علماء نے نہیں مانا اور خدا تعالیٰ کے ایک سچے نبی کو قبول کرنے سے محروم رہے ہیں۔ حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ سے پہلے کے علماء معذور ہیں۔ وہ علماء جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے پہلے گذرے ہیں اور حیات مسیح کا عقیدہ رکھتے تھے، ان کے متعلق حضرت بانیٔ جماعت احمد یہ فرماتے ہیں:

گذشتہ اکابر قابل مواخذہ نہیں ہوںگے

’’گذشتہ بزرگ جو گذر چکے ہیں اگر انہوں نے مسئلہ وفات مسیح کو نہ سمجھا ہو اور اس میں غلطی کھائی ہو تو اس سبب سے ان پر مؤاخذہ نہیں۔ کیونکہ ان کے سامنے یہ بات کھول کر بیان نہیں کی گئی تھی۔ اور یہ مسائل ان کی راہ میں نہ تھے۔ انہوں نے اپنی طرف سے تقویٰ و طہارت میں حتی الوسع کوشش کی۔ ان لوگوں کی مثال ان یہودی فقہاء کے ساتھ دی جاسکتی ہے جو کہ بنی اسرائیل میں آنحضرتﷺ کے زمانہ سے بہت پہلے گذر چکے تھےاور ان کا پختہ عقیدہ تھا کہ آخری نبی جو آنے والا ہے وہ حضرت اسحٰق ؑکی اولاد میں سے ہوگا اور اسرائیلی ہوگا۔ وہ مرگئے اور بہشت میں گئے۔ لیکن جب آنحضرتﷺ کے ظہور سے یہ مسئلہ روشن ہوگیا کہ آنے والا آخری نبی بنی اسماعیل میں سے ہے اور ایسا ہی ہونا چاہیے تھا تب بنی اسرائیل میں سے جو لوگ ایمان نہ لائے وہ کافر قرار دے گئے اور لعنتی ہوئے اور آج تک ذلیل وخوار اور در بدر زدہ ہوکر پھر رہے ہیں۔ ‘‘

(ملفوظات جلد 5 صفحہ 64)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button