سیرت صحابہ کرام ؓ

حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ

(باسل احمد بشارت)

چودہویں صدی ہجری کے سر پر قرآن کریم کی سورة الجمعة کی آیت  

وَآخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ

اورحدیث بخاری

لَوْ كَانَ الْإِيْمَانُ عِنْدَ الثُّرَيَّا، لَنَالَهُ رِجَالٌ أَوْ رَجُلٌ مِنْ هَؤُلَاءِ

کے مطابق اسلام کے احیائے نوکے لیےحضرت مرزا غلام احمد قادیانی بطور مسیح موعود و مہدئ معہود مبعوث ہوئےاوردور اوّلین کی طرح آپ کی دعوت کو صرف غرباءاور کمزور لوگوں نے ہی قبول نہ کیا بلکہ دینی و دنیاوی لحاظ سےمتمول اور شاہانہ زندگی گزارنے والوں نے بھی آپ کی آواز پر لبیک کہا۔ ان ماننے والوں میں سے

وَآخَرِيْنَ مِنْهُمْ

کی پیشگوئی اور الہام

’’ینصرک رجال نوحی الیھم من السماء‘‘

کے مصداق حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحبؓ بھی ہیں جنہیں حضرت مسیح موعودؑ کے داماداورفدائی صحابی حجة اللہ حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ کے فرزند ہونے کا فخر حاصل ہے۔

ولادت

حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحبؓ کی ولادت یکم جنوری 1896ءکو حضرت مہر النساء بیگم صاحبہ بنت مکرم بہاول خان صاحب کے بطن سے مالیر کوٹلہ میں ہوئی۔ آپ ابھی اڑھائی تین سال کے تھے کہ آپ کی والدہ محترمہ کا سایہ شفقت آپ کے سر سے اٹھ گیا۔ آپ کے بھائی عبد الرحیم خان صاحب کے بقول آپ کی پانچ رضاعی مائیں تھیں۔

(اصحاب احمد جلد12 صفحہ 30)

ہجرت قادیان

1901ء میں جب آپ کی عمر بمشکل چھ سال تھی تو آپ اپنے والد ماجدحضرت نواب محمدعلی خان صاحبؓ کے ہم راہ ہجرت کر کے قادیان آگئے اورمالیرکوٹلہ کی پرتعیش زندگی، محل اور نوکر چاکرچھوڑکریہ خاندان محض ِللّٰہ قادیان میں ایک ایسی بستی میں قیام پذیر ہوگیاجہاں اس وقت روزمرہ کی ضروریات زندگی بھی مکمل طور پر مہیا نہ تھیں۔ حضرت نواب صاحب نے مسیح پاکؑ کے قدموں میں بظاہر ایک تنگ مکان میں تین چار سال بخوشی گزارا کیا۔

لیکن ان مادی چیزوں کو محض ِللّٰہ ترک کرنے کی بدولت اللہ تعالیٰ نےحضرت نواب محمدعبد اللہ خان صاحبؓ کے خاندان کو جن لازوال روحانی نعمتوں سے نوازا ان کا کوئی بدل نہیں۔ سب سے پہلی برکت حضرت نواب صاحبؓ کو یہ عطا ہوئی کہ قریباً ساڑھے چھ سال تک آ پ کوحضرت مسیح موعودؑ کی تربیت میں پرورش پانے کا موقع میسر آیا۔ حضرت مسیح موعودؑ کی مشفقانہ تربیت و نگرانی کا ہی نتیجہ تھا کہ آپ محبت الٰہی، اطاعتِ رسولﷺ، عشق ووفامسیح موعودؑ واہل بیت میں طاق ہوئے۔

ابتدائی تعلیم وتربیت

حضرت نواب صاحب نےاپنے برادر اصغر مکرم عبدالرحیم صاحب کے ساتھ حضرت پیر منظور محمد صاحبؓ (مؤلف قاعدہ یسر نا القرآن)سے پہلے قاعدہ یسرنا القرآن اور پھر قرآن مجید ناظرہ پڑھا۔ مورخہ21؍دسمبر 1903ء کو بروز عید الفطر بعد نماز مغرب آپ دونوں کی تقریب آمین ہوئی جس میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے بنفس نفیس شرکت فرماکراجتماعی دعا کروائی۔

(الحکم 17؍تا24؍دسمبر1903ء بحوالہ اصحاب احمد جلد12صفحہ31)

حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ نے اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے ایک خادم کی خدمات حاصل کی ہوئی تھیں جوان کی نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں کا خیال رکھتے تھے۔ حضرت نواب محمدعبد اللہ خان صاحب نےباترجمہ قرآن کریم جماعت احمدیہ کے جید عالم حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ سے پڑھا۔ آپ نے سات پارے بھی حفظ کیے۔ جغرافیہ، حساب وغیرہ کے مضامین حضرت بھائی عبد الرحیم صاحب سے سیکھے جو آپ کے ٹیوٹر بھی مقرر تھےاور ورزش و کھیل میروڈبہ وغیرہ کے سلسلہ میں آپ کا خیال رکھتے تھے۔

(اصحاب احمد جلد12صفحہ32)

مدرسہ میں داخلہ

حضرت نواب صاحب کچھ بڑے ہوئے تو آپ کو مدرسہ میں داخل کروادیا گیا۔ آپ اپنی سبزہ گھوڑی پر مدرسہ جایا کرتے تھے۔ آپ کے برادرم محترم عبد الرحیم خان صاحب مدرسہ کی زندگی کے بارہ میں بیان کرتے ہیں کہ

’’…ہماری مدرسہ کی زندگی شروع ہوئی۔ میاں عبد اللہ خان کا مذہبی رجحان بڑھ چکا تھا۔ یہ نمازوں وغیرہ میں مجھ سے بہت زیادہ پیش پیش تھے۔ ان کوبحث و تمحیص کا بہت زیادہ شوق تھا۔ ‘‘

(اصحاب احمد جلد12صفحہ33)

حضرت نواب صاحب کا یہ مذہبی رجحان اور تعلق باللہ حضرت مسیح موعودؑ کی پاک صحبت و تربیت کے مرہون منت تھا۔

ایام طفولیت

حضرت نواب صاحب جسمانی لحاظ سے قوی اورصبر و برداشت کا پیکرتھے۔ ایام طفولیت میں عموماً بچوں کو چوٹیں وغیرہ آجاتی ہیں حضرت نواب صاحب کوبھی کئی دفعہ چوٹیں لگیں ایک دفعہ ہونٹ اور منہ پھٹ گیا تو دوسری دفعہ کہنی کی ہڈی ٹوٹ گئی لیکن آپ کبھی نہ روئے بلکہ سب چوٹوں پرمکمل ضبط کا مظاہر ہ کیا۔

حضرت نواب صاحب ماہر شکاری، بہترین کھلاڑی اورمدرسہ کی فٹ بال ٹیم کے ممبر تھے۔ آپ نے ڈسٹرکٹ ٹورنامنٹس میں بھی شرکت کی۔ آپ درخت پر بڑی سرعت سے چڑھ جاتے تھےاور آپ کی نظر بھی نہایت تیز تھی۔ بیڈمنٹن بھی بہت اچھی کھیل لیا کرتے تھے۔ آپ نے مرغیاں بھی پالی ہوئی تھیں جس کی وجہ سےآپ کے والد محترم آپ کو مرغی مینیجر کہتے تھے۔ (ملخص از اصحاب احمد جلد 12صفحہ34تا36)

تعلیم الاسلام ہائی سکول میں داخلہ

1911ء میں حضرت نواب صاحب نے اپنے دوسرے دو بھائیوں (میاں عبدالرحمٰن صاحب اور میاں عبد الرحیم صاحب خالد) کے ساتھ تعلیم الاسلام ہائی سکول میں داخلہ لیا۔ حضرت نواب صاحب ساتویں جماعت میں داخل ہوئے۔ اس زمانہ میں حضرت مولوی محمد دین صاحب، حضرت مولوی محمد جی صاحب ہزاروی، حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب، حضرت ماسٹر عبدالرحمٰن مہر سنگھ صاحب، حضرت صوفی غلام محمد صاحب (مجاہد ماریشس)، حضرت چوہدری غلام محمد صاحب اور حضرت قاضی عبد الحق صاحب سکول کے اساتذہ تھے۔

(تاریخ احمدیت جلد21صفحہ 205تا220)

حضرت نواب صاحب کو زمانہ طالب علمی میں بھی شریعت کی چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال ہوتا تھا۔ ایک دفعہ کھلاڑیوں کے لیے نیکر اور سفید قمیض بطور یونیفارم تجویز ہوئی جس پر حضرت نواب صاحب کو اعتراض تھا۔ چنانچہ آپ اپنے خرچ پر گھٹنوں سے نیچے تک کی نیکر بنوا کر پہنتے تھے۔

(اصحاب احمد جلد12صفحہ172)

گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ

حضرت نواب صاحب نے 1915ء میں میٹرک کا امتحان دیا اوراساتذہ کے علاوہ آپ کااپنا خیال بھی تھا کہ آپ اس سال کامیاب نہ ہوسکیں گے لیکن آپ کو الہام ہوا:

وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ رَمٰى

(جب تُو نے (ان کى طرف کنکر) پھىنکے تو تُو نے نہىں پھىنکے بلکہ اللہ ہے جس نے پھىنکے)۔

چنانچہ اس الہام کے مطابق آپ کامیاب ہوگئے لیکن آپ کے بھائی مکرم عبدالرحیم صاحب کامیاب نہ ہوسکے۔

(اصحاب احمد جلد12صفحہ37)

1915ء میں آپ نے میٹرک پاس کر کے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا۔ کالج میں آپ کے حلقہ احباب میں دینی ومذہبی طلباء ہی شامل رہےلیکن ہاسٹل کا ماحول آپ کے دینی مزاج کے برخلاف تھا۔ چنانچہ آپ اپنے چچا نواب سر ذوالفقار علی خاں صاحب کی کوٹھی ’’زر افشاں‘‘(واقع کوئینز روڈ)میں منتقل ہوگئے۔

(اصحاب احمد جلد12صفحہ174)

احمدیہ ہاسٹل کا قیام

آپ کے کالج کے زمانہ میں متعدد احمدی طلباء لاہور کے مختلف کالجوں میں زیرتعلیم اور انہی کالجوں کے ہاسٹلز میں قیام پذیر تھے۔ ان احمدی طلباء کا دینی ماحول میں اکٹھے رہنے کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ آپ نے لاہور میں احمدیہ ہاسٹل کے قیام کی تحریک شروع ہونے پر اس میں نہایت جانفشانی سے حصہ لیا اور آپ کی مساعی کے نتیجہ میں 1915ء کے آخر میں حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کے حکم سے احمدیہ ہاسٹل کا قیام ہواجس کےلیے آپ نے ہی ایک موزوں مکان تلاش کیا۔ ہاسٹل کے قیام کے بعد آپ بھی وہیں آگئے جہاں نماز باجماعت اور درس کا باقاعدہ سلسلہ حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحبؓ مبلغ لاہور کے ذریعہ شروع ہوا۔

’’حضرت مسیح موعودؑ کے گھر میں‘‘

حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحبؓ ہر جمعہ کے دن حضرت خلیفة المسیح الاولؓ کے طریق کے مطابق نماز عصر تا مغرب جنگل میں جاکر یا اپنے گھر میں ہی دعا کیا کرتے تھے۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز میں دوپہر کے وقت آرام کررہا تھا کہ مجھے خواب میں کسی نے کہا ’’حضرت مسیح موعودؑ کے گھر میں‘‘۔

(حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب از راشد محمودصفحہ 4)

خاندان مسیح موعودؑ سے رشتہ

قادیان ہجرت کرنے کی دوسری بڑی برکت جو حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب کو نصیب ہوئی وہ خاندان حضرت مسیح موعودؑ سےرشتہ مصاہرت قائم ہونے کی تھی۔ حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب کارشتہ پہلے ایک غیر احمدی نواب موسیٰ خاں صاحب آف علی گڑھ کے رشتہ داروں میں قرار پایا جوکہ آپ کےمالیر کوٹلہ کے غیر احمدی رشتہ داروں کے زیر اثرآنے کی وجہ سے ختم کردیا گیا۔ پھر نواب صاحب والیٔ مالیر کوٹلہ نے آپ کے والد محترم کو لکھا کہ میری ایک بیٹی اور دو بھانجیاں ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ کے تینوں بیٹوں سے بیاہ دی جائیں۔ لیکن حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے اسے قبول نہ کیالیکن بعد میں شدید اصرار کے بعد میاں محمد عبد الرحمٰن خان صاحب کے لیے رشتہ منظور کرلیا۔

حضرت نواب محمد علی خان صاحب کی دیرینہ دلی خواہش تھی کہ ان کی ساری اولاد کی شادیاں احمدی گھرانوں میں ہوں اور کسی ایک لڑکے کی شادی حضرت مسیح موعودؑ کے گھر میں ہو۔ اس بارے میں انہوں نے حضرت خلیفة المسیح الاولؓ کی خدمت میں بھی خط لکھا جو نواب صاحب موصوف کو بھی پڑھ کر سنایا گیا۔

چنانچہ آپ نے حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب کو تحریر کیا کہ

’’میں چاہتا ہوں کہ تمہارا رشتہ امة الحفیظ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صاحبزادی سے ہو اور مجھ کو اس لیے یہ تحریک ہوئی ہے کہ اس وقت میں تم کو نسبتاًدیکھتا ہوں کہ دوسرے بھائیوں کی نسبت تمہیں دین کا شوق ہے اور اس سے میں خوش ہوں…‘‘

(مکتوب از حضرت نواب محمد علی خان صاحب مورخہ 9؍مئی1914ء بحوالہ اصحاب احمد جلد 12صفحہ40)

حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب کو بذریعہ خواب خدا تعالیٰ کی طرف سے بشارت مل چکی تھی۔ چنانچہ اپنے والد محترم کی تمام شرائط کو مانتے ہوئے اس رشتہ کی تجویز کو منظور کیا۔

بعداستخارہ حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے سیدنا حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کی خدمت میں اس امر کا اظہارکیا۔

اعلان نکاح و تقریب رخصتانہ

چنانچہ7؍جون1915ءبمطابق23؍رجب المرجب1333ھ بروز دوشنبہ کوحضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحبؓ کا نکاح حضرت صاحبزادی امة الحفیظ بیگم صاحبہؓ (جو خدائی وحی میں ’’دخت کرام‘‘ کے خطاب سےیاد کی گئیں اور قبل از وقت خبر ملنے کی وجہ سے آیت اللہ بنیں)، کے ساتھ مبلغ پندرہ ہزار روپے حق مہر پر حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحبؓ نے پڑھایا۔ اور یوں آپ کو سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دامادی کا شرف حاصل ہوا۔

تقریب تودیع(رخصتانہ)22؍فروری1917ءبمطابق 29؍ربیع الثانی 1335ھ کو عمل میں آئی اور حضرت صاحبزادی امة الحفیظ بیگم صاحبہؓ دارالمسیح سے دارالسلام لائی گئیں۔

(الفضل 24؍جنوری1917ء بحوالہ اصحاب احمد جلد12صفحہ65)

مزیدبرکات

اس بابرکت رشتہ ازدواج کی بدولت حضرت نواب صاحبؓ موصوف کو حضرت اماں جانؓ کی صورت میں نہ صرف ماں کا غیرمعمولی پیار ملا بلکہ آپ کی زندگی میں ایک استحکام پیدا ہوا۔ حضرت اماں جانؓ کی خاص شفقت و محبت اپنے چھوٹے داماد پر نچھاور ہوئی۔ شادی کے کچھ عرصہ بعد حضرت اماں جاںؓ نے نواب صاحبؓ سے فرمایا کہ

’’جب مبارکہ(حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ ) کی شادی میاں (حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ ) سے ہوئی تو اس وقت چونکہ نواب صاحب کی عمر بڑی تھی اس لیے اپنے داماد کے ساتھ محبت کرنے کا جو شوق ہوتا ہے میں اسے پورا نہ کرسکی۔ اس لیے میں تم سے دہری محبت کرکے اس کمی کو بھی پورا کروں گی۔ ‘‘

(اصحاب احمد جلد 12صفحہ 168بروایت ملک غلام فرید صاحب)

چنانچہ حضرت اماں جانؓ کی محبت و شفقت، خصوصی توجہ اور دعاؤں سے حضرت نواب صاحبؓ کی سندھ میں خرید کردہ اراضی میں حائل مشکلات دُور ہوئیں اور اللہ تعالیٰ نے اس میں غیر معمولی برکت عطا کی۔ چنانچہ حضرت نواب صاحبؓ موصوف خود فرماتے ہیں:

’’حضرت اماں جان نے میرے ساتھ محبت کرنے میں حد کردی اور جب میں نے متأہل زندگی کی ذمہ داریوں کو سنبھالا…حضرت اماں جانؓ نے ہر طرح سے میری غیر معمولی مدد فرمائی یہاں تک کہ مالی مدد اور دعاؤں کی برکت سے لاکھوں کی جائیداد کا مالک اور کئی ہزار روپیہ میری ماہوار آمدنی ہوگئی۔ میرے یہ سب برگ و بار حضرت اماں جان کی محبت اور دعاؤں کی برکت سے ہیں۔ ‘‘

(اصحاب احمد جلد 12صفحہ 168)

مثالی ازدواجی زندگی

حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ نے اس رشتہ سے قبل حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحبؓ کوچند نصائح فرمائی تھیں۔ جن پر آپؓ نے بخوبی عمل کیا اوراس مبارک رشتہ کو آپ نے زندگی کی آخری سانس تک اپنے لئے عظیم سعادت سمجھا۔

آپ فرماتے تھے کہ

’’میں اپنی زوجہ محترمہ کو آیۃٌ من آیات اللّٰہ سمجھتا ہوں اور حضور کی صاحبزادی میرے گھر میں ہے اس لیے اللہ تعالیٰ مجھے افضال و برکات سے نوازتا ہے۔ میں نےحتی الامکان ان کی کسی خواہش کو کبھی بھی رد نہیں کیا۔ میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہیں کر سکتا۔ ‘‘ (اصحاب احمد جلد 12صفحہ 125)

ایک اور موقع پر فرمایا کہ

’’وہ میری WIFE ہیں مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیٹی اور شعائراللہ میں سے ہیں۔ میں تو محسوس کرتا ہوں کہ کماحقہٗ ان کی قدر نہیں کر سکا۔ اللہ تعالیٰ مجھے توفیق دے کہ میں ان کا تا زندگی کامل طور پر احترام کرتا رہوں۔ ‘‘

(الفضل14؍اکتوبر1961ء صفحہ 5، اصحاب احمد جلد 12صفحہ148)

حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب (خلیفۃ المسیح الرابعؒ) تحریر فرماتے ہیں :

’’حضرت مسیح موعود ؑکی دامادی کی سعادت کو اپنے لئے ایسا عزت و اکرام کا موجب سمجھتے تھے جیسے ذرۂ خاک کو آسمان پر کرسی نشینی مل گئی ہو۔ اسی بنا پر حضرت پھوپھی جان کے ساتھ نہایت ہی ادب و احترام کا سلوک کرتے تھے… خانگی اور معاشرتی امور میں حضرت پھوپھی جان کی خواہشات کا بہت زیادہ پاس ہوتا۔ ‘‘

(اصحاب احمد جلد 12صفحہ 160)

خدمات سلسلہ

حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحبؓ کو متعددخدمات سلسلہ کی توفیق ملی۔ جلسہ سالانہ1917ء میں ممبر سب کمیٹی برائے انتظام جلسہ بنے۔1919ء میں بطور قائمقام آڈیٹر مقرر ہوئے۔ جلسہ سالانہ1919ء میں مہمانوں کے متعلق ضروری انتظامات اور جلسہ گاہ کی تیاری آپ کے ذمہ تھی۔ اپریل 1919ء سے اکتوبر 1923ء تک مختلف اوقات میں پہلے ناظرتالیف و اشاعت اور پھر نائب ناظر اشاعت کی خدمات بجا لاتے رہے۔ 1922ء میں پہلی مجلس مشاورت منعقد ہوئی جس میں آپ نے بھی بطور ممبر شرکت فرمائی۔ 1923ء میں ’’صیغہ انسداد ارتداد‘‘ میں بطور نائب ناظر نمایاں خدمات سرانجام دیں۔ جلسہ سالانہ 1924ء میں آپ مہتمم جلسہ سالانہ بیرون قصبہ مقرر ہوئے۔ 1932ء میں حضرت مصلح موعودؓ کی منشائے مبارک سے سندھ میں پانچ ہزار ایکڑ زمین خریدی گئی جس کاانتخاب آپ نے کیا۔ شروع 1933ءمیں آپ نے اپنے لیے ساڑھے پانچ ہزار ایکڑ اراضی ضلع نواب شاہ میں حاصل کی لیکن حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد پر اس کا تبادلہ نصرت آباد والی اسٹیٹ سے کر لیا۔

(اصحاب احمد جلد12صفحہ 134-135)

26؍اگست 1947ء کوآپ ہجرت کر کے پاکستان پہنچے۔ یکم ستمبر 1947ء کو حضرت مصلح موعودؓ نے جودھا مل بلڈنگ (لاہور) میں صدر انجمن احمدیہ کی بنیاد رکھی اور ایک رؤیا کی بناء پراس کا اولین ناظر اعلیٰ آپ کو نامزد فرمایا۔ آپ نے ان نامساعد حالات میں انتہائی محبت و شفقت سےمصیبت زدہ احمدی مہاجرین کی ہر طرح اعانت کی۔ آپ کی بشاشت قلبی سے زخمی دل مہاجروں کو بہت آرام پہنچا۔ (اصحاب احمد جلد 12 صفحہ138)نئے مرکز کے لیے موجودہ ربوہ کی زمین خریدنے کا فیصلہ ہوا تو جو درخواست گورنمنٹ کے نام رقبہ خریداری کے لیے لکھی گئی اس پر آپ ہی کے دستخط تھے۔

(اصحاب احمد جلد 12صفحہ115)

بیماری سے معجزانہ شفا

8؍فروری 1949ء کوجودھا مل بلڈنگ میں دفترنظارت علیاء میں دفتری امور کی انجام دہی کے بعدگھر آتے ہوئے دوپہر ایک بجےآپ پر کارونری تھر مبوسس (دل کی شریانوں میں خون کا منجمد ہوجانا)کا ایک شدید حملہ ہوا۔ لاہور کے مشہور و معروف ڈاکٹریوسف صاحب بھی آپ کی زندگی سے بالکل مایوس ہو گئے۔ آپ پانچ سال تک بستر پرعلیل رہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل اورحضرت مصلح موعودؓ ، خاندان مسیح موعودؑ اور جماعت کی دعاؤں کی بدولت آپ کو معجزانہ طور پر شفا عطا کی۔ دعاؤں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مصلح موعودؓ کو نومبر 1950ءکوآپ کی صحت یابی کی بشارت دی جس کے بعد آپ کم و بیش بارہ سال تک زندہ رہے۔

(اصحاب احمد جلد12صفحہ182)

وفات

وفات سےچندسال قبل ہی خواب میں آپ کواپنی عمر 66سال بتادی گئی تھی۔ (اصحاب احمد جلد12صفحہ 102)اس خواب کے عین مطابق آپ 66 سال کی عمر میں 18؍ستمبر 1961ء بروزدوشنبہ ساڑھے آٹھ بجے صبح کولاہور میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ 19؍ستمبر کو صبح ساڑھے آٹھ بجے ہی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے نماز جنازہ پڑھائی اورقطعہ خاص بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین ہوئی۔

اولاد

حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحبؓ اور دخت کرام حضرت صاحبزادی امة الحفیظ بیگم صاحبہ کواللہ تعالیٰ نےتین صاحبزادوں اورپانچ صاحبزادیوں سے نوازا۔

1۔ صاحبزادی آمنہ طیّبہ بیگم صاحبہ زوجہ صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب

2۔ صاحبزاد ہ میاں عباس احمد خان صاحب

3۔ صاحبزادی طاہرہ بیگم صاحبہ زوجہ صاحبزادہ مرزا منیر احمد صاحب

4۔ صاحبزادی زکیہ بیگم صاحبہ زوجہ صاحبزادہ مرزا داؤداحمد صاحب

5۔ صاحبزادی قدسیہ بیگم صاحبہ زوجہ صاحبزادہ مرزا مجید احمد صاحب

6۔ صاحبزادہ شاہداحمد خان پاشا صاحب

7۔ صاحبزادی فوزیہ بیگم صاحبہ

8۔ صاحبزادہ میاں مصطفیٰ احمد خان صاحب

سیرت و اخلاق

حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحبؓ کو حضرت مسیح موعودؑ کی پاکیزہ صحبت و تربیت سے جو روحانی مائدہ نصیب ہوا اس میں تقویٰ، تعلق باللہ، حصول ذوق نماز و دعا، عشق قرآن وعشق شارع قرآنﷺ، حضرت مسیح موعودؑ اوران کے خاندان سے محبت، انفاق فی سبیل اللہ، ہمدردیٔ خلق وغیرہ نمایاں طور پر شامل ہیں۔

حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ تحریر فرماتی ہیں:

’’دین و ایمان کے معاملہ میں ہمیشہ انتہائی ثابت قدم اور ایک مضبوط چٹان کی مثال رہے۔ ایمان و اخلاص میں بالکل اپنے والد مرحوم کا نمونہ تھے…قابل نمونہ پختہ ایمان و اخلاص کا وہ شخص تھا… حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تمام دعاوی پر صدقِ دل سے ایمان رکھنے والے، خلافت سے ظاہر و باطن، دل و جان سے وابستہ رہنے والے، کوئی معترض ان پر کسی قسم کا اثر ہر گز نہیں ڈال سکتا تھا۔ دنیاوی چھوٹی چھوٹی باتوں میں کسی کا اثر اپنے بھولے پن سے جتنی جلدی لے لینے کے عادی تھے اتنے ہی دینی امور میں ایک ایسا پختہ پہاڑ تھے جس پر کوئی وار بھی خراش نہیں ڈال سکتا تھا۔ ‘‘

(اصحاب احمد جلد 12صفحہ6)

تعلق باللہ و ذوق نماز و دعا

حضرت نواب صاحبؓ موصوف بچپن سے ہی نماز کے پابند تھے۔ جوانی میں بھی نماز باجماعت اور نماز تہجد باقاعدگی سےادا کرتے تھے۔ ایسا شغف تعلق باللہ کے بغیر ممکن نہیں۔ صاحبزادہ مرزا داؤد احمد صاحب بیان فرماتے ہیں:

’’آپ کی زندگی اپنے مطاع مسیح محمدی علیہ الصلوٰة والسلام کی کامل اتباع سے

’’إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ‘‘

کا نمونہ ہوگئی۔ آپ نے زندگی بھر شریعت کے ایک ایک شعشے کو قابل اتباع اور احترام سمجھا۔ ‘‘

(اصحاب احمد جلد12صفحہ120)

حضرت ملک غلام فرید صاحبؓ ایم اے بیان کرتے ہیں کہ آپ پنجوقتہ نماز باجماعت کے نہایت شدت کے ساتھ پابند تھے۔ میں نے اپنی زندگی کے پچاس سال ان کے ساتھ گزارے۔ میں ایمانداری سے کہہ سکتا ہوں کہ میں نے آپ کی طرح تمول اور تنعم میں پرورش پایا ہوا نماز کا ایسا پابند انسان ساری عمر نہیں دیکھا۔ وہ جہاں کہیں ہوتے تھے، یہاں تک کہ جب سیر یا بحالی صحت کے لیے پہاڑ پر بھی جایا کرتے تھے تو ان کی کوٹھی کا ایک کمرہ ہمیشہ نماز باجماعت کے لیے مخصوص ہوتا تھا۔ نہایت باقاعدگی سے پانچ وقت اذان ہوکر نماز باجماعت ہوتی تھی۔ انہوں نے زندگی کے آخری سال لاہور میں گزارے اور شاید سارے لاہور میں صرف ان کی کوٹھی ہی تھی جہاں پانچ وقت نماز باجماعت کے علاوہ ماڈل ٹاؤن کے احباب نماز جمعہ بھی ادا کرتے تھے اور وہاں حدیث، کتب حضرت مسیح موعودؑ کا درس بھی ہوتا تھا۔ جن حالات میں آپ نے پرورش پائی ان کو دیکھتے ہوئے ان کا ایسا پابند صوم و صلوٰة ہونا ان کے باخدا انسان ہونے کی ایک زندہ دلیل ہے۔

(الفضل 30؍ستمبر1961ء صفحہ5 بحوالہ اصحاب احمد جلد 12صفحہ177)

ایک دفعہ حضرت مصلح موعودؓ نے محمد آباد اسٹیٹ کے کارکنان کو کسی بد انتظامی پر تنبیہ کی اور فرمایا کہ تمہارے قریب ہی میاں عبد اللہ خان کی اسٹیٹ نصرت آباد ہے۔ وہ کیسی عمدگی سے اس کا انتظام کررہے ہیں۔ حالانکہ وہ ذاتی طور پر زیادہ عرصہ وہاں نہیں رہتے اور تمہیں میں نے یہاں ہر قسم کی سہولتیں دے رکھی ہیں لیکن پھر بھی تم کام ٹھیک نہیں کرتے جب حضور ناراض ہوچکے تو آخر پر نرمی سے فرمایا کہ اصل بات یہ ہے کہ میاں عبد اللہ خان کے کام تو خدا کرتا ہے۔

(اصحاب احمد جلد12صفحہ183)

عشق رسولﷺ و عشق قرآن

حضرت نواب صاحبؓ کو سیدنا حضرت خاتم الانبیاءمحمد مصطفیٰﷺ سے عشق کامل تھا۔ آپ رسول اللہﷺ پر کثرت سے دُرود بھیجتے اور سنت رسولﷺ کی پیروی کی بےحد کوشش کیا کرتے تھے۔ آپ اپنے ہر عمل کو قرآن و سنت اور حدیث کے مطابق بجالانے کی سعی کرتے تھے۔

اسی طرح حضرت نواب صاحبؓ کو قرآن کریم سے خاص عشق تھا آپ کثرت سے تلاوت قرآن کریم فرمایا کرتے اور اس پر غور و تدبر کیا کرتے تھے۔ آپ حضرت خلیفة المسیح الاولؓ اور حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کے دروس القرآن میں باقاعدگی سے شامل ہوا کرتے تھے۔ زمانہ طالب علمی میں آپ کو حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کے ان خصوصی دروس میں جوآپؓ اپنے صاحبزادہ میاں عبد الحئی صاحب کو نما ز مغرب کے بعد اپنے کچے مکان کے صحن میں دیا کرتے تھے، میں شامل ہونے کا موقع ملا۔

(اصحاب احمد جلد 12صفحہ170)

مکرم چودھری رشید احمد صاحب مینیجراراضی بیان کرتے ہیں کہ

’’میں لاابالی پن میں ہیر وارث پڑھتا تھا۔ آپ نے مجھے فرمایا کہ کیا اچھا ہو کہ جتنی ہیروارث شاہ آپ کو آتی ہے اتنا قرآن مجید بھی آجائے۔ چنانچہ آپ نے توجہ دلا کے مجھے قرآن مجید باترجمہ اور کچھ طب پڑھائی اور اس نیک اثر کے تحت ہیر کا پڑھنا چھٹ گیا۔ ‘‘

(اصحاب احمد جلد12صفحہ 180)

حضرت مسیح موعودؑ سے محبت

حضرت نواب صاحبؓ کو حضرت مسیح موعودؑ سے بےانتہا محبت تھی۔ میاں عطاء اللہ صاحب امیر جماعت راولپنڈی نے تعزیتی خط میں تحریر کیا کہ

’’میں نے ہمیشہ محسوس کیا کہ حضرت نواب صاحب کو حضرت مسیح موعودؑ سے ایسی بے مثال محبت تھی کہ اس کا اندازہ نہیں ہوسکتا۔ ‘‘

پھر حضرت صاحبزادی امة الحفیظ بیگم صاحبہؓ کو لکھا کہ

’’ان کا سلوک آپ سے ہمیشہ آپ کے شعائر اللہ میں سے ہونے اور پنجتن ہونے کی وجہ سے اس درجہ بے مثال محبت سے پُر اور بے مثال تعظیمانہ تھا کہ میں محسوس کرتا تھا کہ یہ حضور علیہ الصلوٰة والسلام سے عشق کا ایک ثمر ہے۔ ‘‘

(اصحاب احمد جلد 12صفحہ108)

آپ کے پاس حضرت مسیح موعودؑ کے سات تبرکات تھے جن میں ایک گرم کوٹ، ایک کرتہ ململ، ایک پاجامہ، ایک صندوقچی، ایک چوتہی جو وقت وصال حضورؑ کے زیر استعمال تھی، ایک دونّی، حضورؑ کے عمامہ مباک سے کاٹ کر ایک ململ کا کرتہ نوزائیدہ بچہ کو پہنانے کے لیے اور ایک ٹوپی شامل تھے۔ (اصحاب احمد جلد12صفحہ98)

خاندان حضرت مسیح موعودؑ سے محبت

حضرت مسیح موعودؑ سے محبت کی وجہ سے حضرت نواب صاحبؓ خاندان حضرت مسیح موعودؑ سے پیار و محبت اور احترام کا تعلق رکھتے تھے۔ آپ کوحضرت اماں جانؓ سے اتنا اُنس تھا کہ آپ جب بھی نواب صاحبؓ کے گھر تشریف لے جاتیں تو گویا حضرت نواب صاحب کے لیے عید کا چاند نکل آتا۔ چہرے سے خوشی چھپائے نہ چھپتی تھی۔ فوراً سب کو بلاتے کہ اماں جانؓ آئی ہیں یہ لاؤ وہ لاؤ، کسی کو کہتے پاؤں دباؤ…چاہتے کہ سارا گھر اماں جان پر فدا ہوجائےاور اپنی اولاد کو یہی نصیحت فرماتے کہ اماں جان کی خدمت کرو اور اماں جان سے دعائیں لو۔

(اصحاب احمد جلد12صفحہ 189)

اسی محبت کی وجہ سے اپنی زمین کا نام نصرت آباد اسٹیٹ رکھا۔

خلافت سے محبت

حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحبؓ کو خلافت سے بےحد محبت تھی۔ خلافت اولیٰ اور خلافت ثانیہ میں ہمیشہ اطاعت شعاری کا نمونہ دکھایا۔ آپ کو حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ سے اس قدرمحبت اور عقیدت تھی کہ ان کا ہر حکم اور ہر لفظ آپ کے لیے حرف آخر تھا۔ آپ سلسلہ کے سارے نظام کی بڑی سختی سے پابندی فرماتے۔ اپنے کسی عزیز یا دوست سے بھی حضرت صاحب یا نظام سلسلہ کے خلاف کچھ نہیں سن سکتے تھے۔

(اصحاب احمد جلد12صفحہ 189)

آپ اپنے بچوں کو یہ نصیحت فرماتے کہ

’’حقیقی سعادت یہی ہے کہ خلیفہ کا کوئی حکم خواہ تم پر کتنا ہی گراں کیوں نہ ہو اسے خوشی سے مانو۔ ‘‘

(اصحاب احمد جلد12صفحہ 206)

آپ نے اپنی وفات سے قبل اپنی اولاد کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا:

’’میرے ایمان کا جزو ہے کہ خلافت کا قیام الٰہی سلسلوں کے قیام اور بقاء کے لیے لازمی اور ضروری ہے۔ جو سلسلہ اس نظام سے بدقسمتی سے محروم ہوگیاہے اس کو کبھی استحکام حاصل نہیں ہوسکا، ایک منتشر پراگندہ گروہ ہوکر رہ گیا۔

میری دعا اور آرزو ہے کہ میری اولاد خلافت سے منسلک رہے اور ہمیشہ اس گروہ کا ساتھ دیں جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد کے افراد زیادہ سے زیادہ ہوں کیونکہ حضور سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے:

اِنِّیْ مَعَکَ وَ مَعَ اَھْلِکَ

(میں تیرے اور تیرے اہل کے ساتھ ہوں)‘‘۔

(اصحاب احمد جلد12 صفحہ99)

انفاق فی سبیل اللہ

حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحبؓ نے کئی بار اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ میں چاہتا ہوں کہ میں خوب دولت پیدا کروں اور خدا کی راہ میں خوب چندے دوں۔ آپ نے اپنی ساری زندگی میں خدا کی راہ میں اپنے مال کو خرچ کرکے اس بات کو عملی رنگ میں ثابت کیا کہ خدا کے مقربین اور متقی لوگ جوکچھ خدا نے ان کو دیا اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔

(حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب صفحہ13)

آپ نہ صرف اپنا چندہ بلکہ حضرت صاحبزادی صاحبہؓ کی خادمہ محمد بی بی کا چندہ بھی اپنے پاس سے دیتے تھے۔

ہمدردیٔ خلق

آپ کا ایک نمایاں وصف ہمدردیٔ خلق تھا۔ آپ نے کبھی کسی سے زیادتی اور جبر کا سلوک نہیں فرمایا۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ

’’لین دین میں قطعاً زیادتی نہیں ہونی چاہیے۔ آپ احتیاط کرتے ہوئے بے شک میرا حصہ کسی ہاری کو دے دیں لیکن کسی ہاری کا حق میرے لیے حاصل نہ کریں۔ میں ہر ایک ایسی چیز کو جوکہ ناجائز طور پر حاصل کی جاتی ہے جہنم کی آگ کا ایندھن تصور کرتا ہوں۔ میں تمام ہاریوں کے روبرو آپ لوگوں کو کہتا ہوں کہ ایسی چیز جوکہ جبر سے، زیادتی سے ہاریوں سے آپ لوگ حاصل کریں گے میں اس سے بری ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے حضور اس کے جواب دہ آپ لوگ ہوں گے میں نہیں ہوں گا…اگر کسی پر زیادتی ہوتی ہے…میرے پاس آئیں، انشاءاللہ اس کا حق اس کو دلایا جائے گا۔ ‘‘

(حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب صفحہ10-11)

لوگ آپ سے اپنی حاجات بیان کرکے ضرورت سے زائد رقم لے جایا کرتے تھے۔

غرباء پروری اور مہمان نوازی

غرباء پروری میں بھی آپ اپنی مثال آپ تھے۔ آپ یتیموں کےکفیل تھے۔ 1918ء میں حضرت حکیم محمد زمان کی انفلوئنزا سے وفات کے بعد ان کی بیوہ، ایک بیٹے اور چار بیٹیوں کی کفالت کی ذمہ داری آپ نے لی۔ اسی طر ح ایک ڈرائیور نے آپ کے ساتھ سو روپیہ کا غبن کیا۔ پتہ چلنے پر اس نے لوگوں سے مانگ کر آپ کوپیسے واپس کردیےلیکن آپ نے اس کے تنگ دستی والےحالات جاننے کے بعد اسے پیسے لوٹا دیے تاکہ وہ لوگوں کا مقروض نہ رہےلیکن بد دیانتی کی وجہ سے ملازمت سے فارغ کردیا۔

اسی طرح مہمان نوازی کی صفت بھی آپ میں بدرجہ اتم موجود تھی۔ مہمان امیر ہو یا غریب سب کو پر تکلف کھانا کھلاتے۔ آپ کے ملازمین بیان کرتے ہیں کہ آپ نے ہمیں وہ کھانے بھی کھلائے جو پہلے کبھی دیکھے بھی نہ تھے۔ حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ بیان فرماتے ہیں کہ

’’غرباء کے ہمدرد۔ کثرت سے صدقہ خیرات کرنے والے۔ مہمان نوازی میں طرۂ امتیاز کے حامل اس قسم کے فدائی اور خلیق میزبان اس زمانہ میں تو شاذ و نادر ہی ہوں گے۔ مہمان کے آرام کا خیال وہم کی طرح سوار ہو جاتا۔ میری طبیعت پر آپ کی مہمان نوازی کا ایسا اثر ہے کہ اگر غیر معمولی مہمان نوازی کا جذبہ رکھنے والے صرف چند بزرگوں کی فہرست مجھے لکھنے کو کہا جائے تو آپ کا نام میں اس فہرست میں ضرور تحریر کروں گا۔ ‘‘

(اصحاب احمد جلد 12صفحہ160)

شکرگزار اور منکسر المزاج

حضرت ملک غلام فرید صاحب فرماتے ہیں:

’’حضرت میاں محمد عبد اللہ خان صاحب خدا تعالیٰ کے نہایت شاکر بندے تھے اور غالباً یہ ان کے کیریکٹر کا سب سے نمایاں پہلو تھا۔ میں نے ان پر تنگی کی حالتوں کو بھی دیکھا اور اس حالت کو بھی جب ان کی سالانہ آمدنی ہزاروں تک پہنچ چکی تھی۔ وہ ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے سے نہیں تھکتے تھے۔ میں نے بلا مبالغہ ان گنت دفعہ ان کی زبان سے یہ فقرہ سنا کہ ملک صاحب ! اللہ تعالیٰ نے مجھ پر بڑے ہی احسان کئے ہیں۔ میں ان احسانات کا شکریہ ادا نہیں کر سکتا۔ ان کے عبد شکور ہونے کا منظر میں نے ان کی لمبی اور خطرناک بیماری میں دیکھا۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس خطرناک اور لمبی بیماری کے دوران جبکہ ان کے جسم کا کوئی ایک انچ بھی ایسا نہ رہا تھا جن کو ٹیکوں سے نہ چھیدا گیا ہو۔ اور جب ڈاکٹر صاحبان ان کی دل کی بیماری کے پیش نظر یہ بات سننے کے لئے بھی تیار نہ تھے کہ نواب صاحب موصوف چند دن سے زیادہ زندہ بھی رہ سکتے ہیں میں نے ایک دفعہ بھی ان کے منہ سے شکایت کا کلمہ نہ سنا۔ اور بیسیوں مرتبہ میں نے اس بیماری میں ان کے منہ سے یہ فقرہ سنا کہ خدا کے مجھ پر بےانتہا احسان ہیں جن کا میں شکر ادا نہیں کر سکتا۔‘‘

(اصحاب احمد جلد 12صفحہ 176)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button