متفرق مضامین

میرا گھر، میری جنت

(عابدہ اقبال۔ ڈیٹسن باخ۔ جرمنی)

میرا گھر میری جنت …یہ فقرہ لکھنا جتنا آسان ہے اس کی گہرائی میں جائیں تو پتہ چلے گا کہ کتنا مشکل کام ہے۔ ایک گھر کو جنت بنانے میں خاتونِ خانہ کو بہت سی قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔گھر میں موجود ہر فرد کا ہر ممکن خیال رکھنا ہوتا ہے۔خاص طور پر صاحبِ خانہ کا،جی ہاں گھر کے سربراہ کا۔ہم مسلمان ہیں اور ہمیں یہی حکم دیا گیا ہے کہ اپنے شوہر کی خوشی کا ہر دم خیال رکھیں،ان کے ہر حکم کی تعمیل کریں۔ہر کام میں اُن کی رائے کا احترام کریں گے تو ہی گھر آپ کی جنت بنے گا۔ اگر آپ کے ساتھ بزرگ یعنی ساس سسر بھی رہتے ہیں تو اُن کا خاص خیا ل رکھیں۔ان کے کھانے پینے کا خیال رکھیں اور انہیں اپنے گھر میں ہر لحاظ سے اہمیت دیں۔انہیں اپنے والدین کی ہی طرح سمجھیں اور اگر کسی وقت وہ کسی بات پر ناراض بھی ہوں یا سخت لہجے میں آپ کو یا بچوں کو کچھ کہہ دیں تو برداشت کریں،اپنے والدین بھی تو کبھی کچھ کہہ ہی دیتے ہیں۔ صبر کریں گی تو انشاء اللہ آپ کا گھر جنت محسوس ہو گا۔ قرآن کریم میں والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کی تاکید کی گئی ہے اور یہاں تک کہا گیا ہے کہ انہیں اُف تک نہ کہو بلکہ ان سے حسن سلوک کرو اور ان کے لیے ہمیشہ دعا کرو،

رَبِّ ارۡحَمۡہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیۡ صَغِیۡرًا۔

یعنی اے ہمارے رب! ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن میں ہم پر رحم کیا۔ تو وہ والدین آپ کے بھی ہو سکتے ہیں اور آپ کے خاوند کے بھی۔ اگر ہم اس پر عمل کریں گے تو یقین رکھیں کل کو ان شاء اللہ آپ کی اولاد آپ کی اطاعت گزار اور خدمت کرنے والی ہوگی اور آپ کا گھر نہ صرف جنت ہو گا بلکہ آپ کا مستقبل بھی جنت ہو گا۔

میاں بیوی اگر ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھیں،ایک دوسرے کی پسند کو مقدم رکھیں ایک دوسرے کی بات مانیں تو گھر جنت ہو گا۔اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے :’’ تم ان کا لباس ہو اور وہ تمہارا لباس ہیں‘‘۔لباس کا کام صرف جسم ڈھانپنا ہی نہیں بلکہ خوبصورت دکھانا بھی ہے۔ یعنی میاں بیوی ایک دوسرے کی کمزوریوں پر پردہ ڈالیں گے اور علیحدگی میں ایک دوسرے کی کمزوریاں دور کرنے کی کوشش کریں گے تو ان شاء اللہ گھر ضرور جنت بنے گا۔

شوہرکو چاہیے کہ حتی الوسع اپنی بیوی کو خوش رکھنے کی کوشش کرے،محنت سے رزقِ حلال کمائے۔گھر کے کاموں میں بھی اس کا ساتھ دینے کی کوشش کرے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر اس کی دلجوئی کرے اس طرح گھر میں پیار اور محبت کی فضا قائم ہوتی ہے۔

حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :’’ راوی کہتے ہیں میرا خیال ہے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایاتھا کہ مرد اپنے والد کے مال کا نگران ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گااور فرمایا تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور اس سے اس کی ذمہ داریوں کے بارے میں پوچھا جائے گا‘‘۔ (بخاری کتاب الجمعۃ۔ باب الجمعۃ فی القریٰ والمدن)تو اس روایت میں مختلف طبقوں کے بارے میں ذکر ہے کہ وہ اپنے اپنے ماحول میں نگران ہیں لیکن اِس وقت میں کیونکہ مردوں کے بارے میں ذکر کر رہا ہوں اس لئے اس بارے میں تھوڑی سی وضاحت کر دوں۔ عموماً اب یہ رواج ہو گیا ہے کہ مرد کہتے ہیں کیونکہ ہم پر باہر کی ذمہ داریاں ہیں، ہم کیونکہ اپنے کاروبار میں اپنی ملازمتوں میں مصروف ہیں اس لئے گھر کی طرف توجہ نہیں دے سکتے اور بچوں کی نگرانی کی ساری ذمہ داری عورت کا کام ہے۔

تو یاد رکھیں کہ بحیثیت گھر کے سربراہ مرد کی ذمہ داری ہے کہ اپنے گھر کے ماحول پر بھی نظر رکھے، اپنی بیوی کے بھی حقوق ادا کرے اور اپنے بچوں کے بھی حقوق ادا کرے، انہیں بھی وقت دے ان کے ساتھ بھی کچھ وقت صرف کرے چاہے ہفتہ کے دو دن ہی ہوں، ویک اینڈ ز پر جو ہوتے ہیں۔ انہیں مسجد سے جوڑے، انہیں جماعتی پروگراموں میں لائے، ان کے ساتھ تفریحی پروگرام بنائے، ان کی دلچسپیوں میں حصہ لے تاکہ وہ اپنے مسائل ایک دوست کی طرح آپ کے ساتھ بانٹ سکیں۔ بیوی سے اس کے مسائل اور بچوں کے مسائل کے بارے میں پوچھیں، ان کے حل کرنے کی کوشش کریں۔ پھر ایک سربراہ کی حیثیت آپ کومل سکتی ہے۔ کیونکہ کسی بھی جگہ کے سربراہ کو اگر اپنے دائرہ اختیار میں اپنے رہنے والوں کے مسائل کا علم نہیں تو وہ تو کامیاب سربراہ نہیں کہلا سکتا۔ اس لئے بہترین نگران وہی ہے جو اپنے ماحول کے مسائل کو بھی جانتا ہو۔ یہ قابل فکر بات ہے کہ آہستہ آہستہ ایسے لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جو اپنی ذمہ داریوں سے اپنی نگرانی کے دائرے سے فرار حاصل کرنا چاہتے ہیں یا آنکھیں بند کر لیتے ہیں اور اپنی دنیا میں مست رہ کر زندگی گزارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تو مومن کو، ایک احمدی کو ان باتوں سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہونا چاہئے۔ مومن کے لئے تو یہ حکم ہے کہ دنیا داری کی باتیں تو الگ رہیں، دین کی خاطر بھی اگر تمہاری مصروفیات ایسی ہیں، اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہوئے تم نے مستقلاً اپنا یہ معمول بنا لیا ہے، یہ روٹین بنا لی ہے کہ اپنے گردو پیش کی خبر ہی نہیں رکھتے، اپنے بیوی بچوں کے حقوق ادا نہیں کرتے، اپنے ملنے والوں کے حقوق ادا نہیں کرتے، اپنے معاشرے کی ذمہ داریاں نہیں نبھاتے تو یہ بھی غلط ہے۔ اس طرح تقویٰ کے اعلیٰ معیار قائم نہیں ہوتے۔ بلکہ یہ معیار حاصل کرنے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی ادا کرو اور بندوں کے حقوق بھی ادا کرو۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 2؍جولائی 2004ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 16جولائی 2004ء)

بیوی کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے شوہر کا مکمل طور پر ساتھ دے اور جتنا وہ کمائے اپنے گھر کو اس کے مطابق چلائے،زیادہ کا مطالبہ نہ کرے کیونکہ یہ پھر لڑائی جھگڑے اور فساد کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ ہمیشہ دونوں قرض لینے سے بچیں۔اللہ تعالیٰ سے ہر آن دعا کریں کہ وہ اپنی جناب سے آسانیاں پیدا کرے اور ان کے رزق میں برکت دے اور کسی کا محتاج نہ کرے۔

گھر کو جنت بنانے کے لیے خاتونِ خانہ کا کردار بہت اہم ہے۔اپنے گھر کو جنت بنانے کے لیے اُس کوبڑی حکمتِ عملی،صبر اور حوصلہ سے کام لینا چاہیے۔ کتنا بھی مشکل وقت کیوں نہ آئے وہ صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے۔سب سے پہلے دعا سے کام لے۔خاموشی بھی بہت سی پریشانیوں سے بچاتی ہے۔اس لیے بعض اوقات خاموشی اختیار کرنے سے بھی انسان بہت سی تکلیفوں سے بچ جاتا ہے۔ صدقہ خیرات ضرور کریں اس سے بھی اللہ تعالیٰ بہت سی پریشانیاں اور بیماریاں ٹال دیتا ہے۔

گھر میں بچوں کی تربیت بھی پیار محبت سے کریں۔خود بھی نماز کی پابندی کریں،قرآن پاک پڑھیں۔اللہ تعالیٰ سے لو لگائیں اور بچوں کی تعلیم کا خاص خیال رکھیں ۔انہیں بچپن میں ہی نماز اور قرآن پاک پڑھنا سکھائیں اور انہیں باقاعدگی سے پڑھنے کی تلقین کریں۔اپنے بچوں کا واجبی احترام کریں اور انہیں بھی بڑوں کا ادب و احترام کرنے والا اور فرمانبردار بنائیں۔ان کی دنیاوی تعلیم کی طرف بھی توجہ دیں۔انہیں تعلیم صرف اس لیے نہ دیں کہ وہ پیسے بنانے والی مشین بن جائیں بلکہ تعلیم اس لیے دیں کہ ان میں روحانی ترقی بھی ہو۔ اللہ تعالیٰ سے حقیقی پیار کرنے والے، اس کی رضا میں راضی رہنے والے اور اس کی عبادت دلی خوشی سے کرنے والے ہوں۔آپ کے بچے بڑوں کی عزت اور اپنے سے چھوٹوں سے پیار کرنے والے ہوں تو ہمارا گھر حقیقی جنت کا نمونہ بن جائے گا۔

ہماری کاوشیں کچھ بھی رنگ نہیں لا سکتیں جب تک ہم اللہ تعالیٰ سے دعا نہ مانگیں۔اس لیے سب سے پہلے اپنے ہر معاملہ میں دعا سے کام لیں اور پھر اپنی کوشش جاری رکھیں۔

اللہ تعالیٰ بہت رحم اور فضل کرنے والا ہے ان تمام کوششوں میں ضرور برکت ڈالے گا۔ ان شاء اللہ

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہمیشہ ہمیں اپنے گھروں کو جنت بنانے کے لیے درج ذیل دعا کابہت زیادہ ورد کرنے کی تلقین کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا (الفرقان:75)

اولادکےقرۃالعین ہونے کے لئے ہمیشہ دعا کرتے رہنا چاہئے۔ تو جب ہر وقت انسان یہ دعا کرتارہے کہ اے اللہ !تو ہم پررحمت کی نظر کر، اور ہم پر رحمت کی نظر ہمیشہ ہی رکھنا، کبھی شیطان کو ہم پر غالب نہ ہونے دینا، ہماری غلطیوں کو معا ف کردینا اور ہم تجھ سے تیری بخشش کے بھی طالب ہیں، ہمارے گناہ بخش اور ہمارے گناہ بخشنے کے بعد ہم پر ایسی نظر کرکہ ہم پھر کبھی شیطان کے چنگل میں نہ پھنسیں اور جب اتنے فضل تُوہم پر کردے تو ہمیں اپنی نعمتوں کا شکرادا کرنے والا بنا، ان کو یاد رکھنے والا بنا اور سب سے بڑی نعمت جو تو نے ہمیں دی ہے وہ ایمان کی نعمت ہے، ہمیشہ ہمیں اس پر قائم رکھ، کبھی ہم اس سے دور جانے والے نہ ہوں اور دعا پڑھتے رہیں۔

رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ہَدَیْتَنَا وَہَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً۔ اِنَّکَ اَنْتَ الْوَہَّابُ (آل عمران:9)

اے ہمارے ربّ! ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ ہونے دے بعد اس کے کہ تو ہمیں ہدایت دے چکا ہواور ہمیں اپنی طرف سے رحمت عطا کر۔ یقیناً تو ہی ہے جو بہت عطا کرنے والا ہے۔ اگر دعاؤں کی طرف توجہ نہیں ہوگی تو شیطان مختلف طریقوں سے، مختلف راستوں سے آکر ورغلاتا رہے گا اور اس سے اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحمت کے بغیر نہیں بچا جا سکتا، جیسے کہ میں پہلے بیان کرتا آرہاہوں۔ اللہ تعالیٰ اس سے ہی بات کرتاہے جو پیشگی اس سے دعائیں مانگے اور جس پر اس کی رحمت ہواور یہ رحمت اس وقت اور بھی بہت بڑھ جاتی ہے جب اللہ تعالیٰ کی محبت دل میں پیدا ہوجائے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ12دسمبر2003ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 6فروری2004ء)

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو ایک جنت نظیر گھر اور ایک جنت نظیر معاشرہ بنانے کی توفیق دے آمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button