حضرت مصلح موعود ؓ

قرآن کریم پڑھنے پڑھانے کے متعلق تاکید (قسط ششم)

از: حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ

(گزشتہ سے پیوستہ ) دوسرے آپ میں سے جسے خدا تعالیٰ اگلے سال آنے کی پھر توفیق دے وہ دو تین اَور کو تحریک کر کے ضرور اپنے ساتھ لائے تا علم حاصل کر کے واپس اپنے وطنوں میں جا کر پڑھانے والوں کی تعداد بڑھتی چلی جائے۔ ہماری جماعت اب اتنی ہے کہ ہزارہا بھی اس کے لئے کافی نہیں ہو سکتے۔ اب اسّی نوے کا تو سوال ہی نہیں ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم ہزارہا ایسے مبلغ پیدا کریں جنہوں نے قرآن شریف پڑھا ہوا ہو، تا وہ اپنے اپنے وطن واپس جا کر لوگوں کو قرآن شریف پڑھائیں۔ یہی چیز تھی جس کی وجہ سے مجھے خواہش تھی کہ میں آپ لوگوں میں آکرتقریر کروں اور آپ کو آپ کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاؤں۔
اب میں آپ لوگوں کو مختصر الفاظ میں کچھ ایسی باتیں بتاتا ہوں جو قرآن کریم کے سمجھنے کے متعلق ہیں۔

جب آپ قرآن شریف پڑھیں گے تو وہ باتیں جو اُستاد آپ کے کانوں میں ڈالیں گے اگر آپ اُن کو یاد رکھیں گے تو آپ کی حیثیت آنحضرتﷺ کے مقولہ کے مطابق صرف ایسی ہوگی جیسے ایک زمین پر پانی پڑتا ہے اور وہ اُسے محفوظ رکھتی ہے دوسرے لوگ اس سے آکر پانی پیتے ہیں یا پانی لے جاتے ہیں یہ درمیانہ درجہ کے لوگ ہیں۔ رسول کریمﷺ فرماتے ہیں علم کے لحاظ سے تین قسم کے لوگ ہوتے ہیں ایک تو وہ جن کی مثال اُس زمین کی سی ہوتی ہے جو ڈھلوان ہوتی ہے اور سخت بھی جس پر پانی ٹھہرتا ہی نہیں۔ ایک زمین ایسی ہوتی ہے جو نشیب میں ہوتی ہے اُس پر پانی پڑتا ہے اور جمع ہو جاتا ہے لیکن پانی تہ میں نہیں جاتا وہ زمین پانی نہیں پیتی لیکن چار پائے آتے اور پیتے ہیں۔ تیسری مثال ایسی زمین کی ہے جو عمدہ قسم کی ہوتی ہے جس میں روئیدگی اُگانے کی طاقت ہے اُس میں ڈھلوان نہیں کہ پانی بہ جائے اور وہ کنکریلی نہیں کہ پانی جذب نہ کر سکے بلکہ جب آسمان سے بارش ہوتی ہے تو وہ اُس پانی کو جذب کر لیتی ہے، پیتی ہے پھر سبزہ اُگاتی ہے، پھل پھول اور اناج اُگاتی ہے دوسرے لوگ آتے ہیں اور اُس سے فائدہ اُٹھاتے ہیں، انسان اُس سے پھل کھاتا ہے اور اناج حاصل کرتا ہے، جانور اُس سے چارہ حاصل کرتے ہیں وہ زمین آپ بھی پانی پیتی ہے اور دوسروں کو بھی پلاتی ہے۔(بخاری کتاب العلم باب فضل من علم وعلم)

یہی تین حالتیں انسان کی ہیں۔ ایک عالم ایسے ہوتے ہیں جو علم کو حاصل کرتے ہیں اور حاصل کر کے لوگوں تک پہنچاتے ہیں اُن کی مثال اُس زمین کی ہے جو پانی پیتی ہے اور روئیدگی اُگاتی ہے آپ بھی فائدہ حاصل کرتی ہے اور دوسروں کو بھی فائدہ پہنچاتی ہے۔ ایک ایسے عالمِ ہوتے ہیں جو علم حاصل کرتے ہیں اور اُسے اُسی شکل میںمحفوظ رکھتے ہیں وہ عالمِ تو ہوتے ہیں لیکن بے عمل، خدا اور رسول کی باتیں تو لوگوں کو بتاتے ہیں لیکن خود اُن پر عمل نہیں کرتے۔ اُن کی مثال ایسی نشیب زمین کی ہے جو پانی جمع کر لیتی ہے اُسے خود تو پیتی نہیں لیکن دوسروں کو پلادیتی ہے۔ تیسری قسم کے عالموں کی مثال ڈھلوان زمین کی ہے وہ علم حاصل کرتے ہیں لیکن اس کو یاد نہیں رکھتے وہ نہ خود اس سے فائدہ اُٹھاتے ہیں اور نہ دوسروں کو فائدہ پہنچاتے ہیں جیسا کہ ڈھلوان کنکریلی زمین سے پانی بہ جاتا ہے اسی طرح ان پر سے علم گزر جاتا ہے لیکن اس سے ان کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔پس اگر آپ لوگوں نے جو پڑھا ہے اُس کو بُھلا دیا تو رسول کریمﷺ نے آپ لوگوں کی مثال یہ بتائی ہے کہ جیسے کنکریلی ڈھلوان زمین جس نے نہ آپ پانی پیا اور نہ دوسروں کو پلایا۔ اگر آپ نے قرآن شریف کی باتیں سُنیں اور لوگوں کو جا کر سمجھائیں لیکن خود اُن پرعمل نہ کیا تو آپ کی مثال اُس جوہڑ کی سی ہوگی جس میں پانی جمع ہو جاتا ہے لیکن وہ خود اس میں سے پانی نہیں پیتا ہاں لوگوں کو پلا دیتا ہے۔ لیکن اگر آپ نے قرآن شریف کی باتیں سُنیں اور اُن پر عمل کیا اور دوسروں کو بھی قرآن شریف پڑھایا اور سمجھایا تو آپ کی مثال ایسی اچھی زمین کی ہوگی جو خود پانی پیتی ہے اور دوسروں کو گھاس، چارہ، پھل اور پھول دیتی ہے اور بنی نوع انسان اس سے فائدہ حاصل کرتے ہیں۔ یہی وہ زمین ہے جس کے لئے زمیندار خواہش کرتے ہیں اور جس کو حاصل کرنے کے لئے ہر ایک خواہش کرتا ہے۔ راجپوتانہ کے علاقہ میں ہزارہا میل کے میدان بیابان پڑے ہیںلیکن کوئی شخص ان کے لئے خوشی سے ایک پیسہ دینے کی بھی خواہش نہیں رکھتا لیکن لائل پور اور سرگودھا کے علاقوں میں پچیس پچیس ہزار روپے دے کر ایک مربع زمین خریدتے ہیں۔ نیلامی میں تو یہاں تک مول پڑتا ہے کہ ایک دوست نے مجھے بتایا کہ لوگوں نے ایک جگہ پانچ ایکڑ زمین کی ایک لاکھ کئی ہزار بولی دی، تو اچھی زمین ہی قیمتی ہوتی ہے۔ پس اگر آپ قیمتی وجود بننا چاہتے ہیں تو آپ اِس پڑھے ہوئے پر عمل کریں اور جو کچھ یہاں سے سبق حاصل کر کے جائیں اُس کو خود بھی استعمال کریں اور اس سے فائدہ اُٹھائیں اور دوسروں کو بھی فائدہ پہنچائیں۔

مَیں ایک اَور بات بیان کرتا ہوں جو رسول کریمﷺ کی حدیث کی تردید نہیں کرتی بلکہ تائید کرتی ہے اور وہ یہ ہے کہ رسول کریمﷺ نے جو زمین کی مثال دی تھی اس سے ہمیں ایک اور سبق ملتا ہے اوروہ یہ ہے کہ ایک زمین ایسی ہوتی ہے جوپانی جذب کر تی ہے اور پانی ہی اُگلتی ہے۔ ایک زمین ایسی ہوتی ہے جو پانی جذب کرتی ہے لیکن پانی نہیں نکالتی بلکہ اس کی بجائے انگور،انار، آم،گندم، کپاس، گھاس، چارہ وغیرہ نکالتی ہے۔ اسی طرح اگر آپ لوگوں نے جو کچھ یہاں پڑھا وہی واپس جا کر پڑھایا تو آپ کی مثال ایسی زمین کی ہوگی جو پانی پیتی ہے اور پانی نکال دیتی ہے لیکن اگر آپ دوسری مثال کے مصداق بننا چاہتے ہیں تو آپ میں یہ قابلیت پیدا ہونی چاہئے کہ آپ کو اُستاد جو باتیں بتلائیںاُن میں تغیر و تبدل کر کے ایک نئی صورت میں دنیا کے سامنے پیش کریں۔ اگر آپ کو صرف وہی نکتے یاد رہتے ہیں جو اُستاد نے بتائے ہیں تو آپ ہرگز اس مثال کے مصداق نہیں ہو سکتے۔ لیکن اگر ان باتوں نے آپ کے دل میں ہیجان پیدا کر دیا ہے اور آپ کے جذبات میں ہیجان پیدا کر دیا ہے اور آپ میں غور کرنے کی عادت پیدا ہوگئی ہے اور آپ کے اندر ایسا تقویٰ پیدا ہوگیا ہے جس سے آپ پرقرآن شریف کے معارف کھل جاتے ہیں تو آپ کی مثال اُس زمین کی سی ہوگی جو پانی پیتی ہے اور اس کے نتیجے میں پھل پھول نکالتی ہے۔ پس آپ لوگ اس زمین کی طرح نہ ہوں جو پانی کے بدلے پانی نکال دیتی ہے بلکہ اُس زمین کی طرح ہوں جو پانی پی کر اس کے نتیجہ میں گھاس چارہ اور پھل اور پھول پیش کرتی ہے۔ تو جب تک آپ میں یہ قابلیتیں پیدا نہ ہو جائیں کہ جو باتیں آپ مدرس سے سنتے ہیں ان کو بدل نہ ڈالیں اور چارے کی شکل میں، پھل پھول کی شکل میں اور غلّے کی شکل میں تبدیل کر کے پیش نہ کریں اُس وقت تک آپ پوری طرح اِس حدیث کے مصداق نہیں ہو سکتے۔ جو انسان بھی علم ایسی صورت میں حاصل کرتا ہے کہ اپنے اُستاد کی بتائی ہوئی باتوں کو اُسی شکل میں رہنے دیتا ہے وہ جہالت اور بے وقوفی کا مرتکب ہوتا ہے۔

ہمارے ملک میں لطیفہ مشہورہے کہ کسی بادشاہ نے اپنے بیٹے کو کسی عالم کے پاس بٹھایا جسے ہر قسم کے علوم، علمِ نجوم اور علمِ ہیئت وغیرہ آتے تھے اور اُسے کہا کہ اِس کو تمام علوم میں ماہر کردو۔ جب وہ علوم سیکھ چکا تو بادشاہ نے کہا میں اِس کا علمِ نجوم میں امتحان لیتا ہوں۔ اُس نے اپنی مٹھی میں انگوٹھی کا ایک نگینہ پکڑ لیا اور اپنے بیٹے سے پوچھا بتاؤ میرے ہاتھ میں کیا ہے؟ اُس نے حساب لگا کر کہا کہ آپ کے ہاتھ میں چکی کا پاٹ ہے۔ بادشاہ اُس کے اُستاد پر بڑا ناراض ہوا اور کہا کہ تم نے میرے لڑکے کو کیا پڑھایا ہے؟ عالم نے کہا حضور میں نے جو پڑھایا ہے ٹھیک ہے میں نے اُسے ایسا طریقہ بتایا تھا جس سے پتہ لگ جائے کہ آپ کے ہاتھ میں کوئی پتھر کی چیز ہے سو اُس نے یہ بات معلوم کر لی مگر میں آپ کے لڑکے کے دماغ میں بیٹھ نہیں سکتا تھا کہ اِسے عقل بھی دیتا جاؤں، آپ کے بیٹے کے دماغ میں اتنی عقل ہی نہیں کہ وہ معلوم کر سکے کہ مٹھی میں چکی کے پاٹ کا پتھر نہیں آسکتا مٹھی میں تو نگینہ ہی آئے گا۔ پس یہ نہ ہو کہ آپ لوگ اِس قسم کی جہالت کے مرتکب ہوں اور جو علم یہاں سے لے کر جائیںاُسے اسی طرح لفظاً لفظاً دُہرانے لگ جائیں اور یہ نہ دیکھیں کہ دوسرا کس صورت میں اعتراض کر رہا ہے اور ہم جواب کیا دے رہے ہیں۔ وہ آپ کے مقابل پر ایک نیا اعتراض پیش کر رہا ہے لیکن آپ ہیں کہ اُستاد کی بات ہی دُہراتے چلے جاتے ہیں صرف میا ں مٹھو کہنا جانتے ہیں اور کچھ بھی نہیں جانتے۔

پس آپ میں یہ قابلیت پیدا ہونی چاہئے کہ آپ نے جو قرآن شریف کی باتیں سنی ہیں ان کے لئے معنی استنباط کر کے دنیا کے سامنے پیش کر سکیں۔ میرا خیال تھا کہ میں اس سلسلہ میں بعض ہدایات دوں لیکن اب وقت نہیں رہا۔ دوسرے گلے کی خرابی کی وجہ سے بھی میں زیادہ بول نہیں سکتا لیکن میں نے اپنی بعض کتابوں میں قرآن شریف کی تفسیر کے اصول لکھے ہیںاُن کو پڑھیں اور اُن پر غور کریںاور اُن کو سمجھنے کی کوشش کریں۔

ایک گُر میں آپ کو بتاتا ہوں کہ کبھی اور کبھی اور کبھی بھی اپنے دشمنوں کی بات کو مروڑنے کی عادت نہ ڈالو۔ جو دشمن کی بات کو مروڑتے ہیں وہ دشمن کی بات کو نہیں مروڑتے بلکہ وہ اپنی عقل کو مروڑتے ہیں۔ میں نے بہت لوگوں کو دیکھا ہے کہ دشمن کی باتوں کو مضحکہ خیز بنا کر پیش کرتے ہیں اور پھر اُن پر خود ہنستے ہیں اور دوسروں کو بھی ہنساتے ہیں بظاہر وہ اُس کا مذاق اُڑا رہے ہوتے ہیں لیکن حقیقتاً وہ اُس کا مذاق نہیں اُڑارہے ہوتے بلکہ اپنے خود ساختہ خیالات کا مذاق اُڑا رہے ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا دماغ علم حاصل نہیں کر سکتا کیونکہ وہ دشمن کے اعتراضوں کو مروڑتے ہیں اور اپنے مطلب کے مطابق پیش کرتے ہیں اور مصنوعی باتوں سے انسان کو پکڑنا چاہتے ہیں اور اِس پر بڑے خوش ہوتے ہیں۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق یہ لکھ لکھ کر بڑے خوش ہوتے تھے کہ مرزا غلام احمد تو مضمون نگار ہے اور حکیم نورالدین ایک طبیب ہے ہاں یہ مان لیتا ہوں کہ مولوی محمد احسن صاحب امر وہی کچھ علمیت رکھتے ہیں اور پھر اس پر بڑے خوش ہوتے تھے کہ میں نے بڑا تیر مارا ہے لیکن اب مرنے کے بعد اُن کو کون یاد کرتا ہے؟ مگر یہاں خداتعالیٰ ہر گھر ، ہر گاؤںاور ہر ملک سے لوگوں کو کھینچ کھینچ کر لا رہا ہے اور ان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے غلاموں کے قدموں میں ڈال رہا ہے۔ حضرت مسیح موعود ؑکے دعویٰ سے پہلے آپ کے پاس ایک شخص بیمار ہو کر آیا اور حضرت مسیح موعود ؑ کے سلوک کو دیکھ کر یہیں رہ پڑا۔ وہ ایسا بے وقوف تھا کہ مٹی کا تیل کھانے میں ڈال کر کھا جاتا تھا اور کہتا تھا کہ چکنائی ہی کھانی ہے کوئی دوسرا تیل نہ کھایا یہ کھا لیا۔ اُس وقت یہاں تار گھر نہیں ہوتا تھا۔ تار دینے کے لئے آدمی بٹالے جاتے تھے یہ بھی تار دینے کے لئے بٹالے جاتا۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی روزانہ اسٹیشن پر جاتے تھے اور لوگوں کو قادیان آنے سے روکتے تھے ممکن ہے شاذونادر بعض لوگوں کو ورغلا کر واپس بھیج دینے میں کامیاب ہو جاتے ہوں گے۔ وہ لوگوں سے کہتے تھے کہ میں یہاں کا رہنے والا ہوں مرزا صاحب کو خوب جانتا ہوں آپ وہاں نہ جائیں۔ ایک دن مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو اسٹیشن پر کوئی بھی آدمی نہ ملا مذکورہ بالا شخص کو جس کا نام پیرا تھا اور جو تار دینے بٹالہ گیا تھا اُنہوں نے دیکھ لیا اور اُس کو تبلیغ کرنے کا ارادہ کیا۔ چنانچہ اُسے جا کر کہا تجھ پر کیا مار پڑی ہے کہ تو مرزا صاحب کے قابو آگیا ہے تو نے آخر وہاں کیا دیکھا ہے؟ اُس نے یہ واقعہ خود آکر قادیان سنایا اور بتایا کہ پہلے میں حیران ہوا کہ کیا کہوں مجھے آتا تو کچھ ہے نہیں اور حقیقتاًوہ تھا بھی جاہل اور احمدیت سے بالکل ناواقف چونکہ اُس کے رشتہ داروں نے اُسے چھوڑ دیا تھا اور بیماری میں اُس کا علاج نہیں کرایا تھا اِس لئے وہ اُن کو چھوڑ کر قادیان میں ہی رہ گیا تھا حضرت مسیح موعودؑ نے اُس کا علاج کیا اِس لئے وہ حضرت مسیح موعود کے حُسنِ سلوک کو دیکھ کر یہیں رہ پڑا مگر باوجود جاہل ہونے کے اُس کی فطرت نے اُسے جواب سمجھادیا۔ چنانچہ اس کے اپنے بیان کے مطابق مولوی صاحب کو یہ جواب دیاکہ مولوی صاحب! میں تو اَن پڑھ ہوں اور مجھے کچھ نہیں آتا مگر ایک بات میں دیکھتا ہوں وہ یہ کہ مرزا صاحب اپنے گھر سے نہیں نکلتے، لوگ اطلاع کرواتے ہیں، بعض اوقات کسی مجبوری کی وجہ سے مرزا صاحب دیر تک باہر نہیں آتے اور کہلا بھیجتے ہیں کہ طبیعت اچھی نہیں اِس وقت نہیں آسکتے اور گو ملنے والے بڑے بڑے آدمی ہوتے ہیں لیکن چپ کر کے دروازے کے آگے بیٹھے رہتے ہیں اور اگر مصافحہ ہو جاتا ہے تو بڑے خوش ہوتے ہیں اور سمجھتے ہیں بڑا کام ہو گیا۔ مگر مولوی صاحب! میں اکثر بٹالہ آتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ آپ ہمیشہ اسٹیشن پر آتے ہیں اور لوگوں کو ورغلاتے ہیں لیکن پھر بھی لوگ آپ کی نہیں مانتے اور مرزا صاحب کی طرف چلے جاتے ہیں اور پھر کہا کہ مولوی صاحب! آپ کی تو جوتیاں بھی اس کام میں گھس گئی ہوںگی مگر سنتا کوئی نہیں آخر کچھ تو مرزا صاحب میں بات ہوگی جو ایسا ہو رہا ہے۔ تو یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے جس پر نازل ہوتا ہے۔ (جاری ہے )

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button