از افاضاتِ خلفائے احمدیت

حضرت امام حسنؓ، حضرت امام حسینؓ اور صحابہؓ کا مقام

محرّم میں محبت کی اور باہم رشتوں کو باندھنے کی تعلیم دینی ضروری ہے

بیان فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ

خطبہ جمعہ فرمودہ 17؍جون 1994ء

تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒنے فرمایا:

یہ مہینہ محرم الحرام کا ہے جس کی بہت سی فضیلتوں کا احادیث میں اور اسلامی لٹریچر میں ذکر ملتا ہے لیکن اس موقع پر آج کے خطبے میں حضرت اقدس محمدمصطفیٰﷺ کے اہل بیت، آپؐ کی آل کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ کا وہ رشتہ ہے جس رشتے سے ہمارا خدا سے رشتہ بنتا ہے۔ پس آپ کی اولاد سے اس تعلق کا قائم نہ رہنا یا اولاد سے کسی قسم کا بغض، ان دونوں رشتوں کو کاٹ دیتاہے۔ حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ کی اولاد وہ اولاد نہیں تھی جس نے اپنا روحانی تعلق حضرت اقدس محمد رسول اللہ ؐسے قائم نہ رکھا بلکہ وہ اولاد تھی جس نے اس تعلق کے تقاضوں میں اپنی جانیں دے دیں اور عظیم ترین قربانیاں پیش کیں۔ پس اس پہلو سے وہ جس کے دل میں اہل بیت کا بغض ہے حقیقت میں اس کے دل میں محمد رسول اللہؐ کا بغض ہے اور اسلام کا بغض ہے اور اس کی کوئی نیکی، حقیقی نیکی نہیں کہلا سکتی۔ یہ ایک طبعی حقیقت ہے کہ جس سے محبت ہو اس کے محبوب سے محبت ہو۔ جس سے محبت ہو اس سے جو محبت کرتے ہیں ان سے بھی تعلق قائم ہو اور یہ دونوں باتیں حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ کی بہت ہی پیاری اور مقدس بیٹی حضرت فاطمہؓ کی اولاد کو نصیب تھیں۔ ان سے حضرت اقدس محمد رسول اللہﷺ کو محبت تھی اور وہ حضرت محمد رسول اللہﷺ سے محبت کرتے تھے اور پھر یہ خونی تعلق بھی تھا اس لئے کسی مسلمان کے تصور میں بھی یہ بات نہیں آ سکتی کہ آنحضورﷺ کے اہل بیت سے دوری تو درکنار، اس کے وہم میں بھی یہ بات داخل ہو کہ میرا ان سے کسی قسم کا تعلق ٹوٹ سکتا ہے۔ اس کے بالکل برعکس ایک گہری بے ساختہ محبت حقیقت میں اس کے ایمان پر گواہ ہو گی اور آنحضرتﷺ سے پیار پر ایک ایسی پختہ اور دائمی گواہی دے گی کہ جس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ مگر اس کے برعکس آنحضرتﷺ کی اولاد میں سے پیدا ہونے والے محبت کرنے والوں اور محبوبوں کا ذکر تو محبت سے کیا جائے مگر ان کا جن کا خونی رشتہ نہ بھی تھا مگر خونی رشتوں سے بڑھ کر انہوں نے اپنی جانیں آپؐ پر نثار کیں ان کا بغض سے ذکر کیا جائے، اگر ایسا ہو تو ایسے شخص کے ایمان کے خلاف یہ گواہی بھی بہت مضبوط اور ناقابل تردید گواہی ٹھہرے گی۔ پس حقیقی اور سچی بیچ کی راہ یہ ہے کہ آنحضرتﷺ سے جس نے، جس رنگ میں بھی، تعلق باندھا خواہ خون کا رشتہ تھا یا نہ تھا اس سے طبعی بےساختہ دل میں پیار پیدا ہو۔ یہ سچی علامت ہے انسان کے ایمان کی اور آنحضورﷺ سے حقیقی وابستگی کی۔

آج عالم اسلام نہ جانے کن اندھیروں میں بھٹک رہا ہے کہ یہ دو محبتیں آپس میں پھٹ چکی ہیں اور ان دونوں کو ایک گھر میں جگہ نصیب نہیں۔ وہ لوگ جو اہل بیت کی محبت کا دعویٰ کرتے ہیں وہ اہل بیت سے محبت کے ساتھ آنحضورﷺ کے عشاق اور ان فدائیوں کا نفرت اور بغض سے ذکر کرنا بھی جزو ایمان سمجھتے ہیں جن کا ان معنوں میں خونی رشتہ نہیں تھا جن معنوں میں حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ کا رشتہ تھا یا آپ کی اولاد کا تھااور اس طرح محبت میں زہر گھول دیتے ہیں اور اس کے برعکس وہ لوگ جو صحابہ کرامؓ کی عزت بلکہ گہری محبت اور عقیدت کو دل میں جگہ دیتے ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں اس کے ساتھ محرم کے دنوں میں شیعوں کے خلاف حرکت کرنا اور ان کی مجالس کو درہم برہم کرنا، ان کے جلوسوں میں مخل ہونا، یہ بھی ایک ایمان کا حصہ ہے اور وہ رشتے جو باہم جوڑنے کے لئے بہت ہی اہم کردار ادا کر سکتے تھے جو تمام عالم اسلام کو ایک جگہ اکٹھا کرنے میں ایک بہت ہی مضبوط کردار ادا کر سکتے تھے ان کو اکٹھا کرنے کی بجائے باہم تفریق کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ پس محرم کے دن وہ دن نہیں ہیں جن میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ آج اہلِ بیت کی قربانیوں کی یاد میں تمام عالم اسلام اکٹھا ہو گیا ہے اور پہلی نفرتیں مٹ چکی ہیں، کوئی فرقے بازی کی تفریق باقی نہیں رہی، آج اس محبت کے صدقے ایک ہاتھ پر ایک جان کے نذرانے لئے ہوئے اکٹھے ہو رہے ہیں۔ اس کے برعکس آپ عجیب بات اخباروں میں پڑھتے ہیں اور ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر ذکر سنتے ہیں کہ محرم آ رہا ہے۔ سخت خطرات ہیں، بڑی دشمنیاں ہوںگی، گلیوں میں خون بہیں گے، سر پھٹول ہو گی، ایک دوسرے کو گالیاں دی جائیں گی اور اسلام کے دو بڑے حصے یعنی شیعہ اور سنی اگر اس عرصہ میں گزشتہ محرم سے اب تک قریب آ بھی گئے تھے تو پھر دوبارہ ایک دوسرے سے ایسا پھٹیں گے کہ وہ نفرتوں کی یاد آئندہ محرم تک باقی رہے گی اس لئے حکومتوں کے ادارے الرٹ ہو رہے ہیں۔ بعض جگہ فوجوں کو بلایا جا رہا ہے، بعض جگہ پولیس کے Reservesکو حرکت دی جارہی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ نہایت خطرے کے دن ہیں۔ محبت سے خطرے ہیں؟ کیسے خطرے ہیں؟ محبت تو خطروں کو مٹا دیا کرتی ہے، محبت تو خطروں کے ازالے میں کام آتی ہے۔ پس دونوں جگہ محبت میںکوئی جھوٹ شامل ہو گیا ہے۔ دونوں جگہ نظریں ٹیڑھی ہو گئی ہیں اور حقیقت حال کو دیکھنے سے کلیۃً عاری ہو چکی ہیں ورنہ ناممکن تھا کہ حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ کی محبت آپؐ کے صحابہؓ اور آپؐ کے اہل بیت کے درمیان ایسی پھٹ جاتی کہ گویا ایک سے وابستگی دوسرے سے نفرت کے ہم معنی ہو جاتی۔ ایک سے نفرت دوسرے کی محبت کے مترادف ہو جاتی۔ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا اس لئے محمدرسول اللہﷺ کی محبت میں تو کوئی جھوٹ نہیں، ان محبت کے دعویٰ کرنے والوں میں ضرور جھوٹ ہے جو اس محبت کو یہ رنگ دیتے ہیں۔

پس میں تمام عالم اسلام کو ان احمدیوں کی وساطت سے جو اس خطبے کو سن رہے ہیں یہ پیغام دیتا ہوں کہ محرم کے دنوں کو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ دلی محبت پیدا کرنے کے لئے استعمال کیا کریں اور سنیوں کا یہ کوئی حق نہیں کہ وہ لوگ جو اہل بیت کی محبت میں جلوس نکالتے ہیں خواہ ان کی رسمیں پسند آئیں یا نہ پسند آئیں ان کے محبت کے اظہار میں کسی طرح مخل ہوں، ان پر پتھراؤ کریں، ان پر گولیاں چلائیں، ان پر گالیوں کی بارش کریں۔ یہ کیا انداز ہیں محبت کے۔ یہ تو دلوں میں گُھٹی ہوئی اور گھولی جانے والی نفرتیں ہیں جو ابل ابل کر باہر آ رہی ہیں۔ پس جب تک حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ کے عشق کو اور آپؐ سے سچی محبت کو تمام امت کو باہم باندھنے کا ذریعہ نہ بنایا جائے اس وقت تک امت کے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ سب ہی حضورؐ کی محبت کا دعویٰ کر کے ایک دوسرے کے خلاف نفرت کی تعلیم دیتے ہیں اور یہ سلسلہ بڑھتے بڑھتے 72حصوں میں امت کو تقسیم کرگیا اور آج تک ان کو ہوش نہیں آئی۔ پس جماعت احمدیہ کو آنحضورﷺ کی محبت کا پیغام اس رنگ میں امت کو دوبارہ دینے کی ضرورت ہے جس رنگ میں پہلی بار دیا گیا تھا۔ قرآن کریم نے جو دلوں کے باندھنے کا ذکر فرمایا ہے وہ اللہ کی نعمت کے ساتھ باندھنے کا ذکر فرمایا ہے اور اللہ کی نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت محمد رسول اللہﷺ تھے اور حقیقت یہ ہے کہ آپؐ ہی کی محبت نے ایک دوسرے کے دشمن قبائل کو یک جان کر دیا تھا۔ وہ جو ایک دوسرے کے جان کے دشمن تھے وہ بھائیوں کی طرح بلکہ ان سے بھی بڑھ کر جان نثار کرنے والے دوست بن چکے تھے اور حضور اکرمﷺ کے وجود کو نکال کر اس کا تصور بھی پیدا نہیں ہو سکتا، ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ پس اگرچہ محمد رسول اللہﷺ نے خود بالارادہ ایسا کام نہیں کیا مگر اللہ نے آپؐ کی ذات میں آپؐ کی نعمت میں ایک ایسی غیر معمولی کشش رکھ دی تھی کہ ناممکن تھا کہ لوگ آپؐ کی ذات پر ایک مرکز کی حیثیت سے جمع نہ ہو جائیں۔ پس مرکز مدینہ نہیں تھا، مرکزمحمدرسول اللہﷺ تھے۔ مرکز مکہ نہیں تھا، مرکز محمد رسول اللہﷺ تھے۔ جہاں کہیں آپؐ جاتے تھے وہیں مرکز منتقل ہوتاتھا۔ آپ بیٹھتے تھے تو اسلام کا مرکز آپؐ کی ذات میں بیٹھتا تھا۔ آپ اٹھتے تھے تو اسلام کا مرکز آپؐ کی ذات میں اٹھتا تھا اور یہی وہ نکتہ تھا جو صحابہؓ کے عشق نے ہمیشہ کے لئے ہم پر حل کر دیا کہ محمد رسول اللہﷺ کے مرکز سے محبت اور آپؐ کی ذات میں اکٹھے ہونے کا نام ہی اسلامی وحدت ہے اور یہی توحید کا پیغام ہے جو آج ہمیں سب دنیا کو دینا ہے۔ مگر محمد رسول اللہﷺ کی امت کو پہلے دینا ضروری ہے کیونکہ سب سے زیادہ اس امت کا حق ہے کہ انہیں دوبارہ از منۂ گزشتہ کی یاد دلا کر، ان زمانوں کے واسطے دے کر جن زمانوں میں محمد رسول اللہﷺ کی اولاد بھی تھی، آپؐ کے صحابہؓ بھی تھے اور کسی کے دل پھٹے ہوئے نہیں تھے۔ وہ تمام صحابہؓ جب حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ کو دیکھتے تھے تو ان کی نظریں عشق اور فدائیت سے ان پر پڑتی تھیں۔ ان کے ذکر دیکھو کیسے کیسے پیار سے حدیثوں میں محفوظ کئے گئے۔ کس طرح صحابہؓ ان کو آنحضرتﷺ کے کندھوں پر سوار دیکھتے تھے، نماز میں سجدوں میں جاتے تھے تو اس طرح پیار سے ان کو اتار دیا کرتے تھے، کس طرح ساتھ کھیلتے اور حرکت کرتے اور لاڈ اور پیار کرتے ہوئے دیکھتے تھے اور یوں لگتا تھا کہ تمام صحابہؓ کی آنکھوں میں دل پگھل پگھل کر آ رہے ہیں۔ وہ طرز بیان بتاتی ہے کہ غیرمعمولی عشق تھا۔

پس وہی اہل بیت ہیں، وہی صحابہؓ ہیں، آنحضرتﷺ کے وصال کے بعد تمہیں کیا جنون کودا ہے کہ انہی اہل بیت اور صحابہؓ کو ایک دوسرے کے دل پھاڑنے کے لئے استعمال کرنے لگے ہو۔ وہ تو محبتوں کے پیغامبر تھے، عشق کے سمندر تھے، تم نے انہیں نفرتوں کے سمندر میں تبدیل کر دیا ہے۔ پس آج امت محمدیہؐ کو یہ باتیں سمجھانے کی ضرورت ہے ورنہ یہ امت، امت محمدیہؐ کہلانے کی مستحق نہیں رہے گی۔ ابھی چند دنوں تک آپ دیکھیں گے کہ محرم کے جلوس کراچی میں بھی نکلیں گے، خیرپور میں بھی نکلیں گے، ملتان میں بھی نکلیں گے، بہاولپور میں بھی اور لاہور وغیرہ میں بھی اور ہر جگہ غیر معمولی طورپر پولیس کی طاقت دو نفرت کرنے والے سمندروں کے بیچ میں دیوار کی طرح حائل ہو گی اور پھر وہ یَبْغِیَان ہوں گے، وہ ایک دوسرے کے خلاف بغاوت کریں گے اور ان دیواروں کو توڑ کر، ان کی نفرتیں پھلانگتی ہوئی دوسرے کے امن کو پارہ پارہ کر دیں گی اور ان کی زندگیوں کو زہر آلود کر دیں گی۔ یہ کیا دن ہیں اور ان دنوں کے کیا تقاضے ہیں؟ اور یہ کیا حرکتیں ہیں جو ان دنوں میں کی جا رہی ہیں؟ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جن پر ظالم ملّاں یہ الزام لگاتے ہیں کہ آپؑ نے نہ اہل بیت کی عزت کی نہ صحابہؓ کی۔ ان کی اہل بیت کی عزتیں تو ہر روز برسرعام گلیوں میں پھرتی ہیں اور جو کچھ کسر رہ جاتی ہے وہ محرم کے دنوں میں طشت از بام ہو جاتی ہے۔ کچھ بھی لُکا چُھپا باقی نہیں رہتا۔ مگر حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ اور آپؐ کے صحابہؓ اور آپؐ کے اہل بیت کے عشق میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جو پاکیزہ تحریریں ہیں ان پر مہریں لگائی گئی ہیں، ان پر تالے لگا دئے گئے ہیں۔ جو عشق کے اظہار ہیں انہیں اجازت نہیں کہ وہ گلیوں میں کھل کر نکلیں۔ جو نفرتوں کے پیغام ہیں وہ گلیاں ان کی ہیں، وہ صحن ان کے ہیں، جب چاہیں جس طرح چاہیں نفرتوں کا اظہار جس ملک میں چاہیں کرتے پھریں، یہ بڑا ظلم ہے، یہ ایک خود کشی ہے۔

پس آج کے خطبے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی چند تحریریں چنی ہیں جو میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں اور یہی آج امت کا علاج ہے کہ ایک ہی زبان سے ایک ہی منہ سے صحابہؓ کے عشق کے قصے بھی بیان ہوں اور اہل بیت کے عشق کے قصے بھی بیان ہوں تا کہ پھر امت ان دو پاک ذرائع سے ایک ہاتھ پر اکٹھی ہو جائے۔ یعنی محمد رسول اللہﷺ کے عشق میں، اور وہی مرکزیت اسلام کو دوبارہ نصیب ہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام حضرت امام حسنؓ اور امام حسینؓ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔

’’افسوس یہ لوگ نہیں سمجھتے کہ قرآن نے تو امام حسینؓ کو رتبہ ابنیت کا بھی نہیں دیا تھا۔‘‘

یہ وہ عبارت ہے جس کو لے کر مولویوں نے شور مچایا کہ دیکھو امام حسینؓ کے خلاف کیسی سخت زبان استعمال کی ہے۔ رتبہ ابنیت کا بھی نہیں دیا تھا، کہتے ہیں دیکھو حضرت محمدرسول اللہﷺ کی اولاد میں شمار نہیں کرتے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عبارت پوری پڑھتے تو ان کو پتہ چلتا کہ اگلے فقرے میں یہ فرمایا کہ

’’آیت خاتم النبیین بتا رہی ہے کہ

’’مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ

کہ محمدؐ تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں ہیں تو یہ اشارہ اس طرف ہے کہ حضرت امام حسنؓ اور امام حسینؓ ہی نہیں، صحابہ میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو جسمانی طور پر محمدؐ رسول اللہ کا بیٹا ہواور ہر ایک وہ ہے جو روحانی طور پر آپؐ کا بیٹا بن سکتا ہے۔‘‘

پس یہ تفریق دور کرنے کے لئے ایسا عظیم نکتہ امت محمدیہ کے سامنے پیش فرمایا کہ تم خون کے رشتے سے ابنیت کی باتیں چھوڑ دو کیونکہ قرآن کریم نے ہر رشتے سے ابنیت کی باتیں ختم کر دی ہیں سوائے روحانی رشتے کے۔

مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِيّٖنَ

رسول کا رشتہ سب سے برابر کا رشتہ ہو جاتا ہے اور اس رشتے سے جو روحانی بیٹا بنے گا اس کی راہ میں کوئی چیز حائل نہیں ہو سکتی اور جو روحانی بیٹا نہیں بنے گا ظاہری تعلق بھی اس کا کام نہیں آ سکتا۔

یہ وہ مضمون تھا جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیان فرمایا اور ان ملانوں نے کیسے کیسے ظلم کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف یہ غلط باتیں منسوب کیں کہ گویا نعوذ باللہ من ذالک آپؑ کے دل میں نہ صحابہ کی عزت تھی نہ اہل بیت کی تھی۔ اب میں آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الفاظ میں بتاتا ہوں کہ آپ کے نزدیک اہل بیت کا کیا مقام تھا اور صحابہ کا کیا مقام تھا۔ فرماتے ہیں:

’’حضرت عیسیٰ ؑاور امام حسینؓ کے اصل مقام اور درجہ کاجتنا مجھ کو علم ہے دوسرے کو نہیں ہے۔‘‘

اب عیسیٰ ؑاور امام حسین کا کیا جوڑ ہے۔ نبیوں میں اپنی جان کی عظیم قربانی پیش کرنے میں عیسیٰؑ کو ایک عجیب مرتبہ اور عجیب مقام حاصل تھا۔ نبیوں میں وہ ایک منفرد مقام ہے جو محمدرسول اللہﷺ سے پہلے گزرے ہیں جس طرح، جس شان کے ساتھ حضرت عیسیٰ ؑنے حق کی خاطر اپنی جان کی قربانی پیش کی ہے اور صلیب کی اذیتیں قبول کی ہیں۔ پس دیکھیں ایک عارف باللہ کا کلام کس طرح ان باتوں کو جوڑتا ہے جس طرف ایک ظاہری نظر رکھنے والے کا تصور بھی نہیں جا سکتا۔ فرماتے ہیں:

’’عیسیٰ ؑاور امام حسینؓ کے اصل مقام ودرجہ کا جتنا مجھ کو علم ہے دوسرے کو نہیں ہے کیونکہ جوہری ہی جوہر کی حقیقت کو سمجھتا ہے اس طرح پر دوسرے لوگ خواہ وہ امام حسینؓ کو سجدہ کریں مگر وہ ان کے رتبہ اور مقام سے محض ناواقف ہیں اور عیسائی خواہ حضرت عیسیٰؑ کو خدا کا بیٹا یا خدا جو چاہیں بنا دیں مگر وہ ان کے اصل اتباع اور حقیقی مقام سے بے خبر ہیں اور ہم ہر گز یہ باتیں تحقیر سے نہیں کہہ رہے۔‘‘

ان کی تحقیر مراد نہیں بلکہ امرِ واقعہ بیان کر رہے ہیں کہ مسیح کا جو حقیقی مرتبہ میرے دل پر روشن ہوا ہے اور حسینؓ کا جو حقیقی مرتبہ میرے دل پر روشن ہوا ہے وہ ان کے سجدہ کرنے والوں کے دلوں پر بھی روشن نہیں اور سجدہ کرنا خود بتاتا ہے کہ مقام سے بے خبر ہیں۔ پس اسی فقرہ میں اپنے کلام کی تائید میں ایک محکم دلیل بھی داخل فرما دی۔ وہ شان کیاہے۔ فرماتے ہیں:

’’مَیں اس اشتہار کے ذریعہ سے اپنی جماعت کو اطلاع دیتا ہوں کہ ہم اعتقاد رکھتے ہیں کہ یزید ایک ناپاک طبع دُنیا کا کیڑا اور ظالم تھا اور جن معنوں کی رو سے کسی کو مومن کہا جاتا ہے وہ معنے اس میں موجود نہ تھے۔‘‘

یہ ہے اعلان حق۔ کوئی پرواہ نہیں کہ سنی اس سے خوش ہوتے ہیں یا ناراض ہوتے ہیں حالانکہ آپ اہل سنت سے تعلق رکھتے تھے، اہل تشیع میں شامل نہیں تھے اور مقام تو در حقیقت دونوں سے بالا تھا کیونکہ آپ نے حکم عدل کے طور پر دونوں کے درمیان فیصلے کرنے تھے۔ پس آپ دنیا کے خوف سے بالکل مستغنی اور بالا تھے۔ فرماتے ہیں:

’’یزید ایک ناپاک طبع دُنیا کا کیڑا اور ظالم تھا اور جن معنوں کی رو سے کسی کو مومن کہا جاتا ہے وہ معنے اس میں موجود نہ تھے۔ مومن بننا کوئی امر سہل نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے شخصوں کی نسبت فرماتا ہے:

’’قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّاؕقُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَ لٰكِنْ قُوْلُوْۤا اَسْلَمْنَا

مؤمن وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے اعمال ان کے ایمان پر گواہی دیتے ہیں جن کے دل پر ایمان لکھا جاتا ہے اور جو اپنے خدا اور اس کی رضا کو ہر ایک چیز پر مقدم کر لیتے ہیں۔‘‘

فرماتے ہیں: ’’دنیا کی محبت نے اس کو اندھا کر دیا تھا۔ مگر حسین رضی اللہ عنہ طاہر و مطہر تھا اور بلاشبہ ان برگزیدوں میں سے جن کو خدا تعالیٰ اپنے ہاتھ سے صاف کرتا ہے اور اپنی محبت سے معمور کرتا ہے اور بلاشبہ وہ سردارانِ بہشت میں سے ہے۔‘‘

یہ حضرت امام حسینؓ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا موقف ہے اور ایک ایک لفظ بتا رہا ہے کہ سچے دل کی آواز ہے جو بے ساختہ اور بلاتکلف دل سے بلند ہو رہی ہے:

’’سردارنِ بہشت میں سے ہے اور ایک ذرہ کینہ رکھنا اس سے موجب سلبِ ایمان ہے اور امام کی تقویٰ اور محبت الٰہی اور صبر استقامت اور زہد اور عبادت ہمارے لئے اسوۂ حسنہ ہے اور ہم اس معصوم کی ہدایت کے اقتداء کرنے والے ہیں جو اس کو ملی تھی۔ تباہ ہو گیا وہ دل جو اس کا دشمن ہے اور کامیاب ہو گیا وہ دل جو عملی رنگ میں اس کی محبت ظاہر کرتا ہے۔‘‘

اب دیکھیں ’’عملی رنگ‘‘ نے اسے کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے۔ زبان کے دعوؤں کی بات نہیں ہو رہی۔ زنجیروں سے سینہ کوبی کی بات نہیں ہو رہی۔ فرمایا ہے جو عمل سے اس سے محبت کرتا ہے اور اپنے عمل سے اس کی محبت کو سچا ثابت کر دیتا ہے یعنی حسین کے رنگ اختیار کرتا ہے وہی سنت اپنا لیتا ہے جو حسین کی سنت تھی۔ فرماتے ہیں:۔

’’کامیاب ہو گیا وہ دل جو عملی رنگ میں اس کی محبت ظاہر کرتا ہے اور اس کے ایمان اور اخلاق اور شجاعت اور تقویٰ اور استقامت اور محبت الٰہی کے تمام نقوش انعکاسی کے طور پر کامل پیروی کے ساتھ اپنے اندر لیتا ہے۔‘‘

کون کون سے ہیں؟ ایمان، اخلاق، شجاعت یعنی بہادری، تقویٰ یعنی خدا خوفی اور اپنی بات پر صبر کے ساتھ قائم ہو جانا اور کسی مخالفت کی پروا نہ کرنا یعنی استقامت اور محبت الٰہی کے تمام نقوش اپنے دل پر منعکس کرتا ہے اور انہیں اپنا لیتا ہے۔ ’’جیسا کہ ایک صاف آئینہ ایک خوب صورت انسان کا نقش‘‘ اپنے اندر لے لیتا ہے۔ یہ اپنے اندر لے لیتا ہے کے الفاظ پہلے گزر چکے ہیں اب میں نے وہی مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ دہرائے ہیں جو اس فقرے کے شروع میں تھے:

’’یہ لوگ دنیا کی آنکھوں سے پوشیدہ ہیں کون جانتا ہے ان کی قدر مگر وہی جو انہی میں سے ہے‘‘جو ویسا ہی دل رکھتا ہے ویسا ہی محبت الٰہی میں وہ پاک اور صاف کیا گیا ہے اور محبت کی آگ میں جلایا گیا ہے وہی ہے جو ان لوگوں کے حالات کو جانتا ہے۔ ان کے تجارب سے واقف ہے۔ غیر کی آنکھ، باہر سے دیکھنے والی، اس کی حقیقت کو پہچان نہیں سکتی۔

’’دنیا کی آنکھ ان کو شناخت نہیں کر سکتی کیونکہ وہ دنیا سے بہت دور ہیں۔ یہی وجہ حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی تھی۔‘‘ اب دیکھیں کیسا عظیم نکتہ ہے اور یہ محبت اور معرفت کی آنکھ سے ہی دکھائی دیتا ہے۔ یہ مجلسوں میں پڑھا جانے والا نکتہ تو نہیں ہے۔ فرماتے ہیں:

’’یہی وجہ حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی تھی کیونکہ وہ شناخت نہیں کیا گیا۔‘‘

ایک سو سال کے شیعوں کے ماتم ایک طرف اور یہ فقرہ ایک طرف۔ کیسی حقیقت کی روح پر انگلی رکھ دی ہے۔ اس کی شہادت کی یہی وجہ تھی کہ حسینؓ کو شناخت نہیں کیا گیا۔ مگر افسوس کہ جیسا کہ وہ کل شناخت نہیں کیا گیا تھا ویسا ہی آج بھی شناخت نہیں کیا گیا، ورنہ حسینؓ کے نام پر محمدؐ رسول اللہ کے عشاق سے نفرتوں کی تعلیم نہ دی جاتی اور محمد رسول اللہﷺ کے عشاق حسینؓ کا عذر رکھ کر ان سے محبت کرنے والوں سے نفرت کی تعلیم نہ دیتے۔ پس شناخت کا جہاں تک معاملہ ہے خدا کے پیارے تو بعض دفعہ نہ اپنے وقت پر شناخت کئے جاتے ہیں نہ بعد میں شناخت کئے جاتے ہیں۔ مگر وہی ان کو شناخت کرتا ہے جو ویسا دل رکھتا ہے، ویسا مزاج اس کو عطا ہوتا ہے، ویسی ہی فطرت ودیعت کی جاتی ہے، وہی ہے جو حقیقت میں شناخت کا حق رکھتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں ’’یہی وجہ حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی تھی کیونکہ وہ شناخت نہیں کیا گیا۔ دنیا نے کس پاک اور برگزیدہ سے اس کے زمانے میں محبت کی تا حسین رضی اللہ عنہ سے بھی محبت کی جاتی۔‘‘ یہاں یہ مراد نہیں ہے کہ کوئی محبت نہیں کرتا۔ حضرت محمد رسول اللہﷺ کی زندگی میں آپؐ کے بڑے بڑے عشاق پیدا ہوئے۔ ہرنبی کے وقت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں بھی کچھ عشاق پیدا ہوئے مگر مراد یہ ہے کہ کثرت کے ساتھ، قومی طور پر، بڑی تعداد میں، بہت بعد میں آنے والے محبت کی باتیں کرتے ہیں لیکن وہ لوگ یا ان کے مزاج کے لوگ جو اس برگزیدہ کی زندگی میں، اس زمانے میں ہوتے ہیں وہ اس کو نہیں پہچانتے اور یہ حقیقت ہے کہ قرآن کریم نے اسی لئے حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام سے تعلق رکھنے والی قوم کو مخاطب کرتے ہوئے یہ فرمایا کہ تم وہی ہو جنہوں نے موسیٰ کو اذیتیں دیں، تم وہی ہو جو اس زمانے میں نبیوں کو قتل کیا کرتے تھے حالانکہ وہ تو دو ہزار سال بعد پیدا ہوئے تھے۔ وہ، وہ کیسے ہو گئے۔ مراد یہ ہے کہ تم ایسے لوگ ہو کہ تمہاری سرشت ایسی ہے۔ اگر تم اس زمانہ میں ہوتے تو وقت کے مقدس انسان کو پہچان نہ سکتے اور ضرور اس کی دشمنی میں اس کی عزت اور جان کے در پے ہو جاتے لیکن اب تم اس کی محبت کی باتیں کرتے ہو۔ توحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ان لوگوں کا ذکر فرما رہے ہیں کہ یہ لوگ جب برگزیدہ لوگوں کی زندگی میں اس وقت سے حصہ پاتے ہیں تو کبھی ان کو پہچان نہیں سکتے اور جب وہ وفات پا جاتے ہیں یا ویسے کسی وجہ سے ان سے دور ہٹ جاتے ہیں، زمانے بدل جاتے ہیں، اس وقت پھر یہ ان کی محبت کے گیت گاتے اور ان کے نام کو اچھالتے ہیں۔

’’غرض یہ امر نہایت درجہ کی شقاوت اور بے ایمانی میں داخل ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ کی تحقیر کی جائے اور جو شخص حسینؓ یا کسی اور بزرگ کی جو ائمہ مطہرین میں سے ہے تحقیر کرتا ہے یا کوئی کلمہ استخفاف کا اس کی نسبت اپنی زبان پر لاتا ہے۔ وہ اپنے ایمان کو ضائع کرتا ہے کیونکہ اللہ جلّشانہ اس کا دشمن ہو جاتا ہے جو اس کے برگزیدوں اور پیاروں کا دشمن ہے۔ جو شخص مجھے بُرا کہتا یا لعن طعن کرتا ہے اس کے عوض میں کسی برگزیدہ اور محبوب الٰہی کی نسبت شوخی کا لفظ زبان پر لانا سخت معصیت سمجھتا ہوں۔‘‘

فرمایا جو مجھے برا سمجھتا ہے، مجھ پر لعن طعن کرتا ہے اس کا بدلہ میں معصومین سے نہیں لیتا اور شوخی کے طور پر ان پر اپنا غصہ اتارنا ایک سخت لعنت کی بات سمجھتا ہوں، سخت براسمجھتا ہوں۔

پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:

’’اس میں کس ایماندار کو کلام ہے کہ حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہما خدا کے برگزیدہ اور صاحبِ کمال اور صاحب عفت اور عصمت اور ائمۃ الھدیٰ تھے (یعنی ہدایت کے اماموں میں سے تھے) اور وہ بلاشبہ دونوں معنوں کی رو سے آنحضرتﷺ کی آل تھے۔ خون کے لحاظ سے بھی آل تھے اور روحانی وراثت کے لحاظ سے بھی آل تھے۔ لیکن کلام اس بات میں ہے کہ کیوں آل کی اعلیٰ قسم کو چھوڑا گیا ہے اور ادنیٰ پر فخر کیا جاتا ہے۔ تعجب کہ اعلیٰ قسم امام حسن اور امام حسین کے آل ہونے کی اور کسی کے آل ہونے کی جس کی رو سے وہ آنحضرتﷺ کے روحانی مال کے وارث ٹھہرتے ہیں اور بہشت کے سردار کہلاتے ہیں۔ یہ لوگ اس کا تو کچھ ذکر نہیں کرتے اور ایک فانی رشتے کو بار بار پیش کیا جاتا ہے۔‘‘

یہ وہ نقص ہے جس کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام، حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ کی محبت رکھنے والوں کے تعلق میں بیان فرما رہے ہیں کہ ان کو اس پہلو سے اپنی اصلاح کرنی چاہئے۔ ان دونوں کا مرتبہ جس کے نتیجہ میں آنحضرتﷺ نے ان کو روحانی طور پر بہت اعلیٰ مراتب پر فائز فرما دیا وہ روحانی تعلق کی بنا پر تھا نہ کہ جسمانی رشتے کی بنا پر۔ آپؐ نے فرما دیا، سے یہ مراد ہے کہ آپؐ نے ان کے اعلیٰ مراتب کی نشاندہی فرمائی اور ان کی شان میں بہت ہی پاکیزہ اور مقدس خیالات کا اظہار فرمایا۔ ان کو ان اعلیٰ مراتب پر فائز تو خدا نے فرمایاتھا مگر حضرت محمدؐ رسول اللہ کی زبان سے ہم نے اس کا ذکر سنا اس لئے آپؐ جب کہتے ہیں کہ وہ سردارانِ بہشت میں سے ہے تو بلا شبہ یہ اللہ کا کلام ہے جوحضرت محمد رسول اللہﷺ پر نازل ہوا ہے ورنہ حضرت محمد رسول اللہﷺ اپنی طر ف سے تو کسی کو سردارِ بہشت نہیں بنا سکتے تھے۔ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ آپؐ کی نظر ان کے روحانی مراتب پر تھی، ہرگز اس بات پر نہیں تھی کہ چونکہ میری بیٹی کی اولاد میں سے ہوں گے یا بیٹی کی پشت سے پیدا ہوں گے اس لئے یہ سردارِ بہشت ہیں۔ پس ان کا سردارانِ بہشت ہونا بتاتاہے کہ انہوں نے آنحضرتﷺ کا روحانی ورثہ پایا ہے۔ آپ فرماتے ہیں اس اعلیٰ بات کا ذکر تم نہیں کرتے اور محرم کے موقع پر یا ویسے مجالس میں خونی رشتے کی باتیں کرتے چلے جاتے ہو۔ اگر ایسا کرو گے تو دوسرے روحانی ورثہ پانے والوں کی طرف بھی محبت کی نگاہ پڑے گی، نفرت کی نگاہ ان پر نہیں پڑ سکتی۔ یہی وجہِ تفریق ہے۔ یہی بیماری ہے جس کی نشان دہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمائی اور جس طرف اب توجہ کرنا ضروری ہے۔

تمام شیعوں کو میری نصیحت ہے کہ وہ اپنی مجالس میں جتنا چاہیں محبت کا اظہار کریں مگر اگر روحانی تعلق سے ایسا کریں تو پھر وہی روحانی تعلق کی باتیں ان کو حضرت ابوبکرؓ سے بھی محبت پر مجبور کر دیں گی، حضرت عثمانؓ سے بھی محبت پر مجبور کر دیں گی، حضرت عمرؓ سے بھی محبت پر مجبور کر دیں گی۔ تمام صحابہؓ کے لئے ان کے دل میں محبت کے سوا اور کچھ نہیں رہے گا لیکن چونکہ جسمانی رشتے پر زور دیا جاتا ہے اور اس پہلو سے صحابہؓ کو کلیۃً حضرت محمد رسول اللہﷺ سے جدا دکھایا جاتا ہے گویا ایک الگ قوم ہے جس کا آپؐ سے اور آپؐ کے مقاصد سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس لئے یہ نفرتیں رفتہ رفتہ ان کے دلوں میں جا گزیں ہوئیں اور پھر بڑھتی چلی گئیں یہاں تک کہ بغضِ صحابہ ان کے ایمان کا حصہ بن گیا اور اس نے پھر یہ رد عمل دکھایا کہ سنّیوں میں بھی سپاہ صحابہ جیسی چیزیں پیدا ہوئیں جن کے اعلیٰ مقاصد میں شیعوں کا خون بہانا اس طرح داخل ہو گیا جیسے اسلام کے دشمنوں کے خلاف جہاد صحابہؓ کے دلوں میں داخل تھا۔ صحابہؓ کے دلوں میں اسلام کے خلاف تلوار اٹھانے والوں کے مقابل پر جہاد کا ایک جوش پایا جاتا تھا لیکن یہ ایک دفاعی جہاد تھا، اس میں نفرتوں کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ یہ ان نفرتوں کے خلاف جہاد تھا جن نفرتوں کا صحابہؓ کو نشانہ بنایا جا رہا تھا، حضرت محمد رسول اللہﷺ کو نشانہ بنایا جا رہا تھا لیکن جو آج ہم دیکھ رہے ہیں وہ بالکل برعکس قصّہ ہے ……۔

پس محرم میں محبت کی اور باہم رشتوں کو باندھنے کی تعلیم دینی ضروری ہے اور جیسا کہ مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے حقیقت یہ ہے کہ اول زور روحانی تعلق پر دینا ضروری ہے اور پھر جسمانی طور پر اگر تعلق ہے تو اس تعلق میں اضافہ ہو گا، کمی نہیں ہو سکتی۔ یعنی جسمانی تعلق سونے پر سہاگے کا کام دے گا لیکن شرط یہ ہے کہ پہلے روحانی تعلق قائم ہو اور روحانی تعلق پر زور دیا جائے پھر زائد کے طور پر جب جسمانی رشتہ دکھائی دے گا تو لازمًا سب کو محبت ہو گی۔

پس سنّیوں کو بجائے اس کے کہ نفرتوں کی تعلیم دیں اور ان کے جلوسوں پر حملہ آور ہوں اور طرح طرح سے ان کی راہیں روکیں یا کاٹیں یا ان پربم پھینکیں یا زبان سے گندی گالیوں کی گولہ باری کریں۔ ان کا فرض ہے کہ ایسے موقع پر ان سے بڑھ کر صحابہؓ کے عشق کی باتیں کیا کریں اور ان میں حضرت محمد رسول اللہﷺ کے اہلِ بیت کو جو صحابہ کا مرتبہ بھی رکھتے تھے، روحانی وارث بھی تھے اور روحانی وارثوں میں بھی بہت بلند مقام پر فائز تھے ان کا ذکر بھی کریں اور دوسرے صحابہؓ کا ذکر بھی کریں۔ صدیقوں کا ذکر بھی کریں اور شہیدوں کا ذکر بھی کریں اور کثرت سے درود اور سلام کی مجلسیں لگائیں اور اس میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں تو یہی دن کتنی برکت کے دن بن سکتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ دونوں طرف سے ان دنوں کو، نفرتیں پھیلانے کے لئے استعمال کیاجائے، دونوں ایک دوسرے کی نیکی کی باتوں میں سبقت لے جانے کی کوشش کریں اور یہ بتائیں دنیا کو کہ ہم محمد رسول اللہﷺ کے عشاق سے زیادہ محبت کرنے والے ہیں۔ ہم اہل بیت سے دوسروں کی نسبت زیادہ پیار رکھنے والے ہیں۔ اہل بیت کے ترانے اگر سارے سنّی گانے شروع کر دیں توشیعوں کی آواز کو اس آواز میں ڈبو سکتے ہیں اور زیادہ عشق کے ترانے گائیں، ان سے بلند تر آواز میں اور ان کو بتائیں کہ محبت کی باتیں ہی کافی ہیں نفرت کی باتیں بیان کرنا ضروری نہیں۔ پس اس موقع کا اصل علاج یہ ہے۔

……اور یہ علاج امامِ وقت تمہیں بتا رہا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جو حَکم عَدل بن کر آئے تھے وہ سلیقہ سکھا رہے ہیں کہ دیکھو اس طرح صحابہؓ کی بھی تعریف کرو۔ اس طرح اہل بیت کی بھی تعریف کرو۔ ان پر بھی درود بھیجو، ان پر بھی درود بھیجو، یہی ایک ذریعہ ہے امت کے اکٹھا ہونے کا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:۔

’’یقینا ہمارے نبی خیر الوریٰﷺ ہمارے رب اعلیٰ کی دونوں صفات رحمانیت اور رحیمیت کے مظہر تھے پھر صحابہ رضوان اللہ علیہم حقیقت محمدیہ جلالیہ کے وارث ہوئے جیسا کہ پہلے تجھے معلوم ہو چکا ہے۔‘‘

اب ان صحابہؓ کے ذکر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اہلِ بیت یعنی خونی رشتے کے ذریعے منسلک اور دوسروں سب کا اکٹھا ذکر فرما رہے ہیں اور تمام صحابہؓ کی تعریف فرما رہے ہیں اس میں نعوذ باللہ اہل بیت اس تعریف سے خارج نہیں ہوئے بلکہ جیسا کہ پہلے میں حوالہ دے چکا ہوں اول طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پیش نظر ہیں۔ فرماتے ہیں:

’’پھر صحابہ حقیقت محمدیہ جلالیہ کے وارث ہوئے جیسا کہ تجھے معلوم ہو چکا ہے ان کی تلوار مشرکین کی جڑ کاٹنے کے لئے اٹھائی گئی اور مخلوق پرستوں کے ہاں ان کی ایسی کہانیاں ذکر ہیں جو بھلائی نہ جا سکیں گی۔ انہوں نے صفت محمدیہ کا حق ادا کر دیا۔‘‘

اب صفت محمدیہؐ کو صحابہؓ میں رائج فرمایاہے۔ یہ ایک بہت ہی اہم نکتہ ہے۔ وہ تمام صفات حسنہ جو خونی رشتوں میں تعلق رکھنے والے اہل بیت میں تھیں یا محض روحانی رشتہ میں بندھے ہوئے صحابہؓ میں تھیں وہ تمام خوبیاں نہ اِن کی ذاتی تھیں، نہ اُن کی ذاتی تھیں وہ صفت محمدیہؐ کے ان میں جاری ہونے کے نتیجہ میں تھیں۔ جو اس نکتہ کو سمجھ جائے وہ ایک کے مقابل پر دوسرے سے نفرت کر ہی نہیں سکتا کیونکہ صفت محمدیہؓ کی طرف پیٹھ دکھا کر صفت محمدیہؐ سے محبت نہیں کی جا سکتی۔ صفت محمدیہؐ پر حملہ آور ہوتے ہوئے صفت محمدیہؐ کے عشق کے گیت نہیں گائے جاسکتے۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کس اعلیٰ پیرائے میں حضرت محمد رسول اللہﷺ کی سیرت ہی کو صحابہ میں جلوہ گر دکھایا۔ فرمایا ہے وہاں بھی سیرت محمدیہ کام کر رہی ہے۔ اے سیرت محمدیہؐ کے عشاق! کیا تم سیرت محمدیہ سے دشمنی کرو گے؟

پس جہاں صفتِ محمدی کے سوا کچھ ہے ہی نہیں۔

مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِؕ وَ الَّذِيْنَ مَعَهٗ

وہاں اہل بیت یا غیر اہل بیت کی کوئی تفریق نہیں ہے۔ اگر حسن ہے تو محمد کا حسن ہےﷺ ۔ سیرت ہے تو محمد کی سیرت ہے، ﷺ اور صحابہ میں اگر کوئی مدح کی بات پائی جاتی ہے تو محمدؐ رسول اللہ کی سیرت کو اپنانے کے نتیجے میں ہے اور بعینہٖ یہی وجہ فضیلت کی اہل بیت میں پائی جاتی ہے اس کے سوا کوئی وجہ نہیں۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’اللہ تعالیٰ نے صحابہ کو اور ان کے تابعین کو اسم محمدؐ کا مظہر بنایا اور ان کے ذریعے رحمانی جلالی شان ظاہر کی اور انہیں غلبہ عطا کیا اور پے در پے نعمتوں کے ذریعہ ان کی نصرت فرمائی۔‘‘

پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام صحابہ رضوان اللّٰہ علیھم کے ذکر میں فرماتے ہیں:

’’صحابہ رضوان اللہ علیہم کے زمانے میں تو یقین کے چشمے جاری تھے اور وہ خدائی نشانوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے تھے اور انہی نشانوں کے ذریعہ سے خدا کے کلام پر انہیں یقین ہو گیا تھا اس لئے ان کی زندگی نہایت پاک ہو گئی تھی۔‘‘

اب یہ وہ حصہ ہے جس کی کمی کی وجہ سے ساری امت، کہلانے والی امت میں، یعنی رسول اللہﷺ کی طرف منسوب ہونے والے لوگوں میں فساد پھیلا ہوا ہے۔ یعنی یہ وہ نکتہ ہے جس کو نہ سمجھنے کی وجہ سے، جس پر عمل نہ کرنے کے نتیجہ میں، کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ انہوں نے محمد رسول اللہﷺ میں خدائی نشان دیکھے اور اپنی آنکھوں سے دیکھے اور اس ذریعہ سے خدا کے کلام پر انہیں یقین ہو گیا تھا اس لئے ان کی زندگی نہایت پاک ہو گئی تھی۔ پس جنہوں نے الٰہی نشان دیکھے ہوں لازم ہے کہ ان کی زندگی پاک ہو اور پاک زندگیوں میں یہ بد نمونے دکھائی نہیں دے سکتے جو محرم کے دنوں میں آپ دیکھتے ہیں۔ یہ ناممکن ہے کہ پاک دلوں سے دوسرے پاکوں کے خلاف نفرت اور بغض کے کلمے اس طرح نکلیں جس طرح پھوڑے سے پیپ نکلتی ہے۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ پاک وجود صحت مند وجود ہوتا ہے، اس میں گندی پیپ کے پالے ہوئے پھوڑے نہیں ہوا کرتے۔ پس جب بھی صحابہؓ کے خلاف شیعوں کی مجالس میں سخت قسم کی ظالمانہ زبان استعمال کی جاتی ہے تو یہ دلوں کے پھوڑے ہیں جو سارا سال پکتے رہتے ہیں اور وہ پیپ اس وقت پھٹ کر اچھل اچھل کر باہر نکلتی ہے اور بہت ہی بد بودار مواد ہے جو باہر نکل کر گلیوں میں آتا ہے اور ساری فضا کو یہ بد بودار کر دیتا ہے۔ دوسری طرف مقابل کو دیکھیں۔ اگر وہ ان کے مقابلہ کرنے والے بھی رسول اللہﷺ کی سچائی کے نشان دیکھ کر اپنے دلوں کو پاک کر چکے ہوتے تو ایسے موقع پر استغفار سے کام لیتے۔ گند کا جواب گند سے نہ دیتے بلکہ ان کے لئے دعا گو ہو جاتے، ان پر زیادہ رحم اور شفقت کرتے، ان کو سمجھانے کے لئے سارا سال کارروائیاں کرتے اور دلائل کی دنیا میں ان کو گھسیٹ کر لاتے اور دلائل کے میدانوں میں یہ فیصلے کرتے۔ بجائے اس کے کہ تلوار کے میدان میں ایسے فیصلے کئے جائیں۔

پس ادھر بھی وہ پاک نمونے نہیں ہیں ادھر بھی وہ پاک نمونے نہیں ہیں اور امرِ واقعہ یہ ہے کہ اس زمانے میں اگر حضرت محمد رسول اللہﷺ سے سچا تعلق باندھنا ہے تو اس امام سے تعلق باندھے بغیر یہ سچا تعلق قائم نہیں ہو سکتا جوامام ان پیش گوئیوں کے مطابق آیا ہے جو محمد رسول اللہﷺ کو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائیں وہ تعلق جو تیرہ سو سال میں تم کاٹ بیٹھے، وہ تعلق تیرہ سو سال کے بعد دوبارہ جوڑنے کے وقت آئے اور آسمان سے وہ رسی نیچے کی گئی جس رسی سے ہاتھ جدا ہو چکے تھے۔ اب ایک ہی راہ ہے کہ اس رسی کو دوبارہ مضبوطی سے پکڑ لو اور پھر حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے دامن میں پناہ لے لو اس پناہ کے سوا اور کوئی پناہ نہیں ہے اور یہ پناہ امام وقت کے انکار کے ذریعہ میسر نہیں ہو سکتی۔ یہ پناہ صرف اس صورت میں نصیب ہو سکتی ہے اگر امام وقت کو تسلیم کرو، اس سے محبت کا رشتہ باندھو، کیونکہ یہی محبت کا رشتہ سلسلہ وار خدا تک پہنچے گا، محمد مصطفیٰﷺ کی سچی محبت تمہارے دلوں میں پیدا کرے گا۔ صحابہؓ کی سچی محبت کے سلیقے تمہیں سکھائے گا، اہل بیت کی سچی محبت کی روح تمہیں عطا کرے گا۔ یہ صاحبِ عرفان محبت ہو گی جس کے نتیجے میں پاک عمل پیدا ہوتا ہے۔ یہ ایسی محبت ہو گی جس کے نتیجہ میں دل پاک کئے جاتے ہیں اور پاک دل ایک دوسرے سے نفرت نہیں کیا کرتے۔ پاک دل آپس میں بٹ نہیں جایا کرتے بلکہ ایک ہاتھ پر جمع ہو جاتے ہیں اور امتِ محمدیہؐ کو دوبارہ ایک ہاتھ پر جمع کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے جس امام کو بھیجا ہے وہی ان روحانی رشتوں کا ضامن بن کر آیا ہے۔ وہی ان روحانی رشتوں کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے منادی بن کر بھیجا گیا ہے۔ تم اس کی ندا پر کان دھرو اور اطاعت اور محبت کے ساتھ اس کے حضور اپنے دلوں کو ان معنوں میں جھکا دو کہ جس طرف وہ بلاتا ہے وہ دل لپکتے ہوئے لبیک کہتے ہوئے اس طرف دوڑیں۔ میں خدا کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ جس طرف وہ ان دلوں کو بلا رہا ہے یعنی تم سب کے دلوں کو وہ محمد رسول اللہﷺ کا رستہ ہے وہ خدا کا رستہ ہے اور کسی کا نہیں اس کے سوا اور کوئی رستہ نہیں۔ اسی کا نام صراط مستقیم ہے، اسی سے وحدت ملّی عطا ہوتی ہے۔ اسی سے تفرقے پھر وحدت کی لڑیوں میں پروئے جاتے ہیں۔

پس آپ سب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آواز پر لبیک کہیں اور اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ دور کی باتیں ہیں تو ان نصیحتوں پر تو عمل کریں یا بتائیں کہ ان میں کیا نقص ہے۔ ان سے بہتر بات تو پیش کر کے دکھائیں۔ آپ تسلیم نہیں کرتے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام وہی ہیں جو حکم عدل بن کر آئے تھے اور تمہارے درمیان انصاف سے فیصلہ کرنے والے تھے اب آپ کے فیصلے میں نے تمہیں سنا دئے ہیں۔ ان فیصلوں سے بہتر فیصلے کر کے تو دکھاؤ۔ بتاؤ تو سہی کہ اس سے زیادہ اور کون سی پاک اور مؤثر راہ ہو سکتی ہے جو مسلمانوں کے بٹے ہوئے دلوں کو پھر ایک ہاتھ پر اکٹھے کر سکتی ہے۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ایمان لانا اب تمہارے اختیار کی یا ہاں یا نہ کی بات نہیں رہی۔ امرِ واقعہ یہ ہے کہ سچا امام جن رستوں کی طرف بلاتا ہے ان رستوں سے انکار خود کشی کے مترادف ہو جایا کرتا ہے۔ تو انکار کرو گے بھی تو باتیں وہی ماننی پڑیں گی جو حضرت مسیح موعودؑکہتے ہیں۔ ان باتوں سے بہتر باتیں تمہارے فرشتے بھی سوچ نہیں سکتے کیونکہ یہ خدا کا کلام ہے جو حضرت محمد رسول اللہﷺ کے ذریعہ آپؐ کی برکتوں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دل پر نازل ہوا۔ جو وحدت کے رستے آپؑ نے بتائے ہیں ان کے سوا اور کوئی وحدت کا رستہ نہیں۔ پس اس رستے سے آؤ یا اس رستے سے آؤ، طوعاً آؤ یا کرھًا آؤ۔ تم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اگر بیعت نہیں کرنی تو باتوں کو تو لازمًا ماننا پڑے گا اور اگر نہیں مانو گے تو اسی طرح بٹے رہو گے۔ اسی طرح ایک دوسرے کے خلاف نفرتوں کی تعلیم دیتے رہو گے۔ نفرتوں کی منادی کرتے رہو گے اور ہر سال بجائے اس کے کہ محرم امت محمدیہؐ کو ایک کرنے کا عظیم الشان نظارہ دکھائے ہر سال یہ محرم آپ لوگوں کو اور زیادہ متفرق کرتا چلا جائے گا، آپ کے دلوں کو اور زیادہ پھاڑتا چلا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو عقل دے، ہوش دے اور وہ سچی باتیں جو ایک صاف اور پاک دل کو صاف دکھائی دیتی ہیں۔ کسی دلیل کی حاجت نہیں رہتی۔ سچ تو خود اس طرح بولتا ہے کہ مومن کی پیشانی سے برستا ہے، سچ تو خود اس طرح بولتا ہے جیسے مشک خوشبو دیتا ہے۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی باتوں میں وہ سچائی ہے جو مومن کی پیشانی کے نور کی طرح آپ کے چہرے سے برس رہی ہے۔ آپ کی باتوں میں وہ سچائی ہے جو مشک کی طرح خوشبو رکھتی ہے اور خود بخود اٹھتی ہے اور فضا کو مہکا دیتی ہے۔ پس ان باتوں پر غور سے کان دھرو اور ان کو اپنے دلوں میں جگہ دو۔ یہی ایک رستہ امت کو دوبارہ وحدت کی لڑیوں میں پرونے کا رستہ ہے۔ اس کے سوا اور کوئی رستہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ 17؍جون 1994ء مطبوعہ خطباتِ طاہرجلد 13صفحہ 447تا466)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button