حضرت مصلح موعود ؓ

قرآن کریم پڑھنے پڑھانے کے متعلق تاکید (قسط پنجم)

حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ

ہر احمدی کو قرآن کریم پڑھنا چاہئے اور جو پڑھنا نہیں جانتے اُن کو سنا کر قرآن کریم سمجھانے کی کوشش کرنی چاہئے اور یہ ہمارا اوّلین فرض ہے۔ اگر ہم یہ ارادہ کر لیں کہ سَو فیصدی افراد کو قرآن شریف کا ترجمہ سمجھا دیں گے اور اگر ہم اِس میں کامیاب ہو جائیں تو پھر ہماری فتح میں کوئی شک ہی نہیں اور ہماری روحانی حالت میں ایک عظیم الشان تغیر آ جائے گا۔ تم یہ کہہ سکتے ہو کہ دوسرے مسلمانوں میں بعض لوگ قرآن شریف جانتے ہیں مگر اُن کے حالات بھی خراب ہیں پھر ہم کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ جو لوگ اِس کو جاننے کی کوشش کریں گے اُن کی یہ حالت نہ ہوگی؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ اول تو لفظوں کا جاننا اور حکمت کا جاننا دو مختلف اَشیاء ہیں۔ دوسرے میں کہتا ہوں کہ تم مجھے یہ بتاؤ کہ کیا یہ واقعہ ہے یا نہیں کہ جب ملک میں طاعون یا ہیضہ نہیں ہوتا تو اُس ملک کا کمزور سے کمزور انسان بھی طاعون اور ہیضہ سے محفوظ ہوتا ہے اور جب ملک میں طاعون اور ہیضہ ہوتا ہے تو پھر طاقتور سے طاقتور انسان بھی طاعون اور ہیضہ سے محفوظ نہیں ہوتا۔ اسی طرح جس قوم میں جاہل بکثرت موجود ہوتے ہیں وہاں عالموں کا ایمان بھی خطرہ میں ہوتا ہے اور جس قوم میں علم اچھی طرح پھیلا دیا جاتا ہے اور جہالت کو دور کر دیا جاتا ہے اُس میں عالموں کے ایمان کی مضبوطی کے ساتھ جاہلوں کا ایمان بھی مضبوط ہوجاتا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کچھ لوگ غیروں میں بھی قرآن شریف جاننے والے موجود ہیںلیکن اوّل تو اُن کا علم محض لفظی ہے دوسرے یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ اُن کے دائیں بائیں کون کھڑے ہیں؟ ان کے دائیں بائیں کثرت سے جاہل اور خدا سے دُور لوگ کھڑے ہیں جو اُن کو اپنی طرف کھینچ رہے ہیں پس وہ تو چند لفظی طور پر قرآن پڑھے ہوئے لوگ ہیں جو کہ اپنے آپ کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں نہ قوم کو، جبکہ ہماری جماعت میں بے شک حقیقی طور پر قرآن جاننے والے لوگ موجود ہیں لیکن اِن کی تعداد اس قدر کم ہے کہ وہ بھی اپنی جماعت کو پورا فائدہ نہیں پہنچا سکتے کیونکہ وہ نسبتی طور پر اتنے تھوڑے ہیں کہ ان کے نور پر جہالت کی ظلمت کے چھا جانے کا ہر وقت خطرہ رہتا ہے۔ پس ہمارا فرض ہے کہ عوام احمدیوں تک بھی قرآن شریف پہنچائیں۔ ان تک قرآن شریف پہنچانا نہ صرف ان کے لئے ضروری ہے بلکہ اس میں اپنی بھی حفاظت ہے۔ احمق ہے وہ انسان جس کے گاؤں میں ہیضہ آجائے اور وہ کہے کہ میرے گاؤںمیں صرف ایک انسان کو ہیضہ ہوا ہے اگر وہ یہ سمجھتا ہے کہ اس گاؤں میں ایک آدمی کو ہیضہ ہوا ہے تو یقینا ًاس کا بیٹا بھی ہیضہ سے محفوظ نہیں لیکن اگر اس کے گاؤں کے پرلے کنارے پر ہیضہ کی ایک واردات ہوتی ہے اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ میرے اپنے بیٹے کو ہیضہ ہوا ہے تو نہ صرف وہ بلکہ اُس کا گاؤں بھی ہیضے سے بچ جائے گا۔ اسی طرح اگر قوم کے تمام افراد روحانی عالم نہیں تو اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے گاؤں میں ہیضہ آگیا اور جب ہیضہ آگیا تو کوئی نوجوان بھی اس سے محفوظ نہیں۔ اگر اِس قوم میں سے کُلّی طور پر جہالت نکال دیں اور جہالت کا مرض دور کر دیں اور اگر اپنے تمام افراد کو کُلّی طور پر اسلامی علوم سے آشنا کر دیں تو پھر گویا ہم نے ہیضہ کو کُلّی طور پر اپنی قوم سے نکال دیا اور اس صورت میں صرف مضبوط انسان ہی نہیں بلکہ کمزور ایمان والے انسان کو بھی روحانی ہیضہ نہیں ہو سکتا۔ پس آپ لوگ بھی جو یہاں پڑھنے کے لئے آئے ہیں آپ کا یہ کام نہیں کہ یہاں سے پڑھ کر جائیں اور علم کو اپنے تک ہی محدود رکھیں بلکہ آپ کا کام یہ ہے کہ جو کچھ پڑھ کر جائیں لوگوں کو جا کر سنائیں۔ ہر شخص جو تم میں سے قرآن کریم کی تعلیم حاصل کر کے جائے گا وہ یہ ذمہ داری لے کر جائے گا کہ دوسروں کو بھی علم پڑھا ئے۔اگر وہ واپس جا کر اپنے علاقے کے ہر فرد کو قرآن نہیں سکھائے گا تو وہ خدا تعالیٰ کے سامنے مجرم کی حیثیت میں پیش ہو گا۔

جب تک یہ تعلیم حاصل کرنے کا موقع پیدا نہیں ہوا تھا تم مجرم نہیں تھے مگر اب جبکہ وہ موقع پیدا ہوگیا ہے اگر تم نے سُستی سے کام لیا اور جو کام تمہارے سپرد کیا گیا ہے اِس کو پورا نہ کیا تو تم خدا تعالیٰ کے سامنے مجرم کی صورت میں پیش ہو گے۔ شاید تم میں سے بعض یہ کہیں کہ پھر تو علمِ قرآن کا حاصل کرنا بجائے فائدہ کے وبالِ جان ہو گیا یہ تو ہم سے غلطی ہوئی کہ ہم یہاں آگئے۔ اگر تمہارے دل میں یہ خیال پیدا ہو تو یہ صرف ایک بے حقیقت وہم ہوگا۔

دیکھو رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں جہاد کا موقع آیا بہت سے لوگ اس میں شامل ہوئے اور کچھ نہ ہوئے۔ اب ظاہر ہے کہ جنگ میں نہ جانیوالا شخص اس بات کا مجرم نہیں تھا کہ اُس نے رسول کریم ﷺ کی جان کی حفاظت کیوں نہیں کی بلکہ وہ مجرم تھا اس بات کا کہ وہ جہاد میں کیوں نہیں گیا۔ لیکن ایسے لوگ جو جہاد میں تو شامل ہوئے لیکن اُنہوں نے رسول کریمﷺ کی جان کی حفاظت نہیں کی اور اُس وقت جبکہ رسول کریم ﷺ پر حملہ ہوا انہوں نے رسول کریم ﷺ کی جان کی حفاظت کی خاطر اپنی جان قربان نہیں کی وہ ضرور مجرم ہوئے اِس بات کے کہ اُنہوںنے اپنے فرائض کو صحیح طور پر انجام نہیں دیا۔ مجرم دونوں ہوئے لیکن دونوں کے جرم کی نوعیت مختلف تھی۔ جو جہاد میں شامل نہ ہوئے ان کے جرم کی نوعیت اَور تھی اور بعض منافق جو صحابہؓ سے مل کر جہاد میں شامل تو ہو جاتے تھے مگر اُن کی غرض اسلام اور رسول کریمﷺ کی حفاظت نہ ہوتی تھی اُن کے جرم کی نوعیت اَور تھی۔ یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ وہ کیوں مجرم ہوگئے۔ وہ تو میدانِ جنگ میں گئے تھے کیونکہ مجرم کی نوعیت مقامات کے لحاظ سے بدلتی رہتی ہے۔ ہر مقام سے جب انسان ترقی کرتا ہے تو اُس کے اس مقام کے بدلنے کے ساتھ ہی اس کی ذمہ داریوں کی نوعیت بھی بدل جاتی ہے اور ان کے ادا نہ کرنے کی صورت میں اس کے جرموں کی نوعیت بھی بدل جاتی ہے۔ اِس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے ایک انسان جب پہلی سیڑھی پر ہوتا ہے تو اُس کا پہلی سیڑھی سے گرنے کا امکان ہوتا ہے لیکن جب وہ پہلی سیڑھی سے دوسری سیڑھی پر چڑھ جائے تو اُس کے لئے دوسری سیڑھی سے گرنے کا امکان تو ہوتا ہے لیکن پہلی سیڑھی سے نیچے گرنے کا امکان نہیں ہوتا کیونکہ وہ پہلی سیڑھی پر نہیں ہے لیکن جب وہ تیسری سیڑھی پر چڑھ جائے تو دوسری سیڑھی سے گرنے کا امکان نہیں رہتا۔ ایک شخص ایک مقام پر کھڑا ہے اُس سے کچھ گناہ سر زد ہوتے ہیں۔ ایک اَور شخص ہے جو اُس سے اوپر کے مقام پر کھڑا ہے اُس سے اَور قسم کی غلطیاں سرزد ہو سکتی ہیں لیکن وہ غلطیاں سر زد نہیں ہو سکتیں جو نچلے مقام والے انسان سے ہوئیں۔ اسی طرح ایک تیسرا شخص ہے جو دوسرے شخص سے زیادہ اونچے مقام پر ہے اُس سے غلطیاں تو سر زد ہو سکتی ہیں لیکن وہ نہیں جو اُس سے نچلے مقام والے انسان سے سرزد ہو سکتی ہیں۔جرائم تو سب سے ہی ہوں گے لیکن جرائم کی نوعیت ہر مقام پر بدل جائے گی۔ جو سب سے اوپر کے درجہ پر ہوگا اُس کے جرائم کی نوعیت اور ہوگی اور جو اُس سے نچلے درجہ پر ہوگا اُس کے جرائم کی نوعیت اور ہوگی اور جو سب سے نچلے درجہ پر ہوگا اُس کے جرائم کی نوعیت اور ہوگی۔ جو لوگ پڑھنے کے لئے نہیں آئے وہ مجرم ہیں اِس بات کے کہ خدا تعالیٰ نے اُن کو موقع دیا کہ وہ روحانی آنکھیں پیدا کر لیں لیکن اُنہوں نے پیدا نہ کیں اور اندھے رہے۔ اور تم میں سے جو آنکھیںپیدا کر لیں گے لیکن اِس کے ذریعہ اندھوں کو راستہ نہیں دکھلائیں گے تو وہ مجرم ہوں گے اِس بات کے کہ انہوں نے اندھوںکو پکڑ کر منزلِ مقصود تک کیوں نہ پہنچایا۔ پس یہ مت خیال کرو کہ کسی صورت میں بھی تم ذمہ داری سے بچ سکتے تھے تم ذمہ داری سے نہیں بچ سکتے تھے صرف تمہاری ذمہ داری کی نوعیت بدل سکتی تھی۔ اگر تم قرآن کریم پڑھنے نہ آتے تو تم پر یہ الزام قائم ہوتا کہ ان کو روحانی آنکھیں حاصل کرنے کا موقع مل سکتا تھا مگر یہ اندھے رہے اوراب اگرقرآن کریم پڑھ کر دوسروں کو نہ سکھاؤگے تو یہ الزام ہو گاکہ اِن کو آنکھیں ملی تھیں پھر اِنہوں نے اندھوں کو کیوں راستہ نہ دکھلایا۔ تو آپ کا صرف یہ کام نہیں کہ جب قرآن شریف پڑھ کر جائیں تو اسے اپنے تک ہی محدود رکھیں بلکہ آپ کا یہ بھی کام ہے کہ اپنے وطن واپس جا کر اپنی جماعتوں کو قرآن شریف پڑھائیں۔ جب میں کہتا ہوں کہ قرآن شریف پڑھائیں تو زیادہ منشاء میرا یہی ہوتا ہے کہ دوسروں کو قرآن شریف سنائیں کیونکہ ہمارے ملک کے اکثر لوگ پڑھے ہوئے نہیں۔

دوسرا فرض آپ کا یہ ہے کہ چونکہ آپ سارا قرآن شریف اِن دنوں میں نہیں پڑھ سکیں گے اور ساری صَرف ونحو بھی نہیں پڑھ سکیں گے بلکہ اِس کے موٹے موٹے مسائل بھی شاید اِس دفعہ ختم نہ کر سکیں گے اِس لئے آپ آج ہی سے دل میں پکا عہد کریں کہ اگلے سال آکر اپنی تعلیم مکمل کرنے کی کوشش کریں گے۔ آدھی تعلیم حاصل کرنے سے آپ کی ذمہ داری ایک نئی شکل اختیار کر لیتی ہے ایک شخص جو کسی کے گھر میں کرائے پر رہتا ہے اگر وہ اُس مکان کو خراب کرتا ہے، اُس کو ضائع کرتا ہے تواُس کو محلے والے بھی اور مالک مکان بھی بُرا کہتے ہیں۔ لیکن ایک اور شخص جو ایک مکان کی دیواریں بنا کر چھوڑ دیتا ہے اور مکان کی تکمیل نہیں کرتا اس کی وفات کے بعد اس کے محلے والے ہی اُسے بُرا نہیں کہتے اُس کی اولاد بھی اُسے بُرا کہتی ہے کہ ہمارے باپ نے یونہی روپیہ ضائع کرا دیا۔ اگر وہ یہاں روپیہ نہ لگاتا تو کسی اور جگہ کام آجاتا۔ اور ہمسائے کہتے ہیں اِس کی اینٹیں گرتی ہیں، بےچارے راہ گیروں کے سروں پر لگتی ہیں ان کے سر پھٹ جاتے ہیں یا لوگوں کو ٹھوکریں لگتی ہیں اگر مکان بنانا تھا تو مکمل بناتا، نہیں تو نہ بناتا۔ اب آپ لوگ بھی سوچیں کہ آپ لوگ سارا قرآن شریف ختم کر کے نہیں جا سکتے اس لئے آپ بھی علمِ دین کے مکان کی دیواریں کھڑی کر کے جا رہے ہیں،نہ چھت پڑے گی، نہ دروازے لگیں گے، نہ پلستر ہوگا پس آپ کو یہ وعدہ کر لینا چاہئے اور فیصلہ کر لینا چاہئے کہ اب ہم اپنی ساری توجہ اِس طرف لگا دیں گے اور اِس سارے علم کو حاصل کر کے چھوڑیں گے اور آپ کو یہ فیصلہ کر لینا چاہئے کہ اگلے سال پھر اِنْ شَاءَ اللّٰہُ آئیں گے اور اپنے علم کی تکمیل کریں گے یہاں تک کہ سارا علم آجائے۔

(جاری ہے )

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button