سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

باغ میں ملّت کے ہے کوئی گلِ رعنا کھلا

حضرت مسیح موعودؑ کے آبا واجداد

حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰة والسلام کے والد ماجد(حصہ نہم۔ آخر)

حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحبؒ

[پیدائش:اندازاً1791ءوفات:جون1876ء]

آپؒ کی وفات اوراللہ تعالیٰ کی طرف سے عزاپرسی

ایک مختصر علالت کے بعد آپؒ کی وفات ہوئی۔حضرت اقدس علیہ السلام نے جہاں اپنے والد صاحب کی وفات کا ذکر فرمایا ہے اس سے معلوم ہوتاہے کہ ان دنوں انہیں دردِ گردہ اور زَحِیْر یعنی پیچش کی تکلیف شروع ہوئی۔دردِ گردہ سے تو افاقہ ہواالبتہ پیچش کی تکلیف تھی جب آپ کی وفات ہوئی۔چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام ان کی وفات کاذکرکرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’پھر اس کے ساتھ

اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ

کا نشان ہے۔ یہ بہت پرانا الہام ہے اوراُس وقت کا ہے جبکہ میرے والد صاحب مرحوم کاانتقال ہوا۔ میں لاہورگیاہواتھا۔ مرزا صاحب کی بیماری کی خبرجومجھے لاہورپہنچی میں جمعہ کویہاں آگیا۔ تودردِگردہ کی شکایت تھی۔پہلے بھی ہوا کرتا تھا۔اس وقت تخفیف تھی۔ہفتہ کے دن دوپہرکوحقہ پی رہے تھے اور ایک خدمت گار پنکھا کر رہا تھا۔ مجھے کہاکہ اب آرام کاوقت ہے تم جاکرآرام کرو۔میں چوبارہ میں چلاگیا۔ایک خدمتگارجمال نام میرے پاؤں دبارہاتھا۔ تھوڑی سی غنودگی کے ساتھ الہام ہوا

وَالسَّمَاءِ وَالطَّارِق۔

(ملفوظات جلدسوم صفحہ 355)

حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے ایک قدیمی صحابی ؓ حضرت مفتی محمدصادق صاحب ؓنے اپنی پرانی نوٹ بکوں سے کچھ اقتباسات دیے ہیں۔ان میں وہ حضورؑ کایہ ارشادنوٹ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

جب ہمارے والد کی وفات کے ایام قریب آئے تو ہم لاہورچیف کورٹ کے کسی مقدمہ میں گئے ہوئے تھےوہیںخواب میںدیکھاکہ ان کی وفات کےایام قریب ہیں۔ بعدمیں ان کی بیماری کی خبرملی۔ہفتہ کادن اوردوپہرکاوقت تھا۔ڈیوڑھی میں مَیں لیٹاہواتھا۔ اورجمال کشمیری میرے پاؤں دبارہاتھا الہام ہوا

وَالسَّمَاءِ وَالطَّارِق

جس کے معنے ہیں قسم ہے آسمان کی اورقسم ہے اس حادثہ کی جوغروب آفتاب کے بعد پڑے گا۔

(ذکرحبیب مرتبہ حضرت مفتی محمدصادق صاحب ؓ ص 224 ایڈیشن اول)

آپؒ کی تدفین مسجد اقصیٰ کے صحن سے باہر(تب یہ جگہ باہر ہی تھی اوربعد میں جب مسجد اقصیٰ کی توسیع کی گئی تو یہ قبر صحن کے اندر آگئی۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ قبر کافی نیچے ہے۔ موجودہ شکل اس تعویذ کی ہے جو قبر کے اوپر بنایاگیاہے۔مرتب)اس جگہ کی گئی جہاں آپ نے پہلے سے نشاندہی کی ہوئی تھی اور پنڈت دیوی رام جو کہ اس زمانے میں قادیان کے سکول میں نائب مدرس تھے ان کا بیان ہے کہ ’’جب آپ کے والد ماجد فوت ہوئے۔ تو اسی مسجد کے صحن میں صندوق میں ڈال کر دفن کئے گئے اور وہ قبر پختہ بنا دی گئی۔‘‘

(سیرت المہدی جلداوّل روایت نمبر759)

آپ کی وفات کا واقعہ بھی اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں ایک ایسی عظمت اور وقعت رکھتاتھاکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں اس حادثۂ وفات کی قسم کھائی۔اس واقعہ کی تفصیلات حضرت اقدس علیہ السلام نے ایک نشان کے طورپر اپنی کتب میں بیان فرمائی ہیں۔ایک جگہ آپؑ فرماتے ہیں :

’’میری عمر قریباً چونتیس یا پینتیس برس کی ہوگی جب حضرت والد صاحب کا انتقال ہوا۔ مجھے ایک خواب میں بتلایا گیا تھا۔ کہ اب ان کے انتقال کا وقت قریب ہے۔ میں اس وقت لاہور میں تھا۔جب مجھے یہ خواب آیاتھا۔تب میں جلدی سے قادیاں میں پہنچا اور ان کو مرض زحیر میں مبتلا پایا۔لیکن یہ امید ہرگز نہ تھی کہ وہ دوسرے دن میرے آنے سے فوت ہو جائیں گے کیونکہ مرض کی شدت کم ہو گئی تھی۔اوروہ بڑے استقلال سے بیٹھے رہتے تھے۔دوسرے دن شدت دوپہر کے وقت ہم سب عزیز ان کی خدمت میں حاضر تھے۔کہ مرزا صاحب نے مہربانی سے مجھے فرمایا۔کہ اس وقت تم ذرا آرام کر لو۔کیونکہ جون کا مہینہ تھا۔اور گرمی سخت پڑتی تھی۔میں آرام کے لئے ایک چوبارہ میں چلا گیا۔اور ایک نوکر پیر دبانے لگا۔کہ اتنے میں تھوڑی سی غنودگی ہو کر مجھے الہام ہوا۔

وَالسَّمَآءِ وَالطَّارِقِ۔

یعنی قسم ہے آسمان کی جو قضاوقدر کا مبدء ہے۔اور قسم ہے اس حادثہ کی جو آج آفتاب کے غروب کے بعد نازل ہو گا۔اور مجھے سمجھایا گیا۔کہ یہ الہام بطور عزا پرسی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے۔اور حادثہ یہ ہے۔کہ آج ہی تمہارا والد آفتاب کے غروب کے بعد فوت ہو جائے گا۔سبحان اللہ کیا شان خداوند عظیم ہے کہ ایک شخص جو اپنی عمر ضائع ہو نے پر حسرت کرتا ہوا فوت ہوا ہے اس کی وفات کو عزا پرسی کے طور پر بیان فرماتا ہے۔اس بات سے اکثر لوگ تعجب کریں گے کہ خداتعالیٰ کی عزا پرسی کیا معنے رکھتی ہے۔مگر یاد رہے۔کہ حضرت عزت جلشانہٗ جب کسی کو نظر رحمت سے دیکھتا ہے۔تو ایک دوست کی طرح ایسے معاملات اس سے کرتا ہے۔‘‘

(کتاب البریہ،روحانی خزائن جلد 13صفحہ192-194حاشیہ)

رَأَیْتُ رَبِّیْ عَلٰی صُوْرَةِ أَبِیْ

آپ کی سوانح پر نظرکرنے والا خدائے غفور و رحیم کے پیار کی ایک خاص نظر اس بزرگ انسان پر مشاہدہ کرتاہے۔وہ بآسانی محسوس کرسکتاہے کہ اس رحمٰن اور رحیم وکریم خداکے پیار کا ہاتھ اس کی زندگی میں بھی اس پر تھااوروہی نظر شفقت اس بندے کے آخری دنوں میں بھی تھی اور جو آخری دن تھا تب بھی تھی اورخداکو نہ جانے اس کی کونسی اداپسند آئی تھی کہ مرنے کے بعد بھی یہ پیارکا اظہار اس طرح قائم رہا کہ عرش کا خدا اس پیارے بندے کے رُوپ میں اپنا دیدارکروانے لگا۔آخر کوئی بات تو تھی کہ خدائے ذوالجلال والاکرام نے اس کی صورت میں اپنا آپ ظاہر فرمایا…چنانچہ حضرت اقدس علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں :

’’حضرت سید عبدالقادر جیلانی رحمۃاللہ علیہ کا قول ہے کہ

رَأَیْتُ رَبِّیْ عَلٰی صُوْرَةِ أَبِیْ

یعنی میں نے اپنے رب کو اپنے باپ کی شکل پردیکھا۔میں نے بھی اپنے والد صاحب کی شکل پر اللہ تعالیٰ کو دیکھا۔اُن کی شکل بڑی بارعب تھی۔انہوں نے ریاست کا زمانہ دیکھا ہوا تھا اس لئے بڑے بلند ہمت اور عالی حوصلہ تھے۔غرض میں نے دیکھا کہ وہ ایک عظیم الشّان تخت پر بیٹھے ہیں اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ خداتعالیٰ ہے۔اس میں سِرّ یہ ہوتاہے کہ باپ چونکہ شفقت اور رحمت میں بہت بڑاہوتاہے اور قُرب اور تعلق شدید رکھتاہے اس لئے اللہ تعالیٰ کا باپ کی شکل میں نظر آنا اس کی عنایت،تعلق اور شدتِ محبت کو ظاہر کرتاہے۔ اس لئے قرآن شریف میں بھی آیا ہے

کَذِکْرِکُمْ آبَاءَکُمْ

اور میرے الہامات میں یہ بھی ہے

أَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَةِ اَوْلَادِیْ

یہ قرآن شریف کی اسی آیت کے مفہوم اور مصداق پر ہے۔‘‘

(تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ342-343،الحکم جلد6نمبر17

مؤرخہ 10 مئی 1902ء صفحہ 7)

اس میں کوئی شک نہیں کہ مسجداقصیٰ کی تعمیرآپ کاایک بہت بڑاکارنامہ تھا۔لیکن خداتعالیٰ نے حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحبؒ کوجواعزازبخشا وہ یہ ہے کہ خداکاایک پیغمبران کی نسل سے ہوا۔ ان کا ایک بیٹا خدا کافرستادہ اور رسول ٹھہرا۔وہ امام مہدی اورمسیح موعودؑ کے طورپرمبعوث ہوا۔اور اس ناطے خداکے اس مسیح کے سارے کام ان بزرگ والدین کے لیے صدقہ جاریہ اور بلندئ درجات کاباعث بنتے رہیں گے۔

اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت اقدسؑ فرماتے ہیں :

’’2یا3بجے رات کو مَیں نے ایک خواب دیکھا کہ ایک جگہ پر معہ چند ایک دوستوں کے گیا ہوں۔ وہ دوست وہی ہیں جو رات دن پاس رہتے ہیں۔ ایک اُن میں مخالف بھی معلوم ہوتا ہے۔ اس کا سیاہ رنگ لمبا قد اور کپڑے چرکین ہیں۔ آگے جاتے ہوئے تین قبریں نظر آئی ہیں۔ ایک قبر کو دیکھ کر مَیں نے خیال کیا کہ والد صاحب کی قبر ہے۔ اور دوسری قبریں سامنے نظر آئیں۔ مَیں ان کی طرف چلا۔ اس قبر سے کچھ فاصلہ پر گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ صاحب ِ قبر (جسے مَیں نے والد کی قبر سمجھا تھا) زندہ ہو کر قبر پر بیٹھا ہوا ہے۔غور سے دیکھنے سے معلوم ہوا کہ اَور شکل ہے والد صاحب کی شکل نہیں مگر خوب گورا رنگ، پتلا بدن، فربہ چہرہ ہے۔ مَیں نے سمجھا کہ اس قبر میں یہی تھا۔ اتنے میں اُس نے آگے ہاتھ بڑھایا کہ مصافحہ کرے۔ مَیں نے مصافحہ کیا اور نام پوچھا تو اُس نے کہا نظام الدین۔ پھر ہم وہاں سے چلے آئے۔ آتے ہوئے مَیں نے اُسے پیغام دیا کہ پیغمبرِ خدا صلعم اور والدصاحب کو السلام علیکم کہہ چھوڑنا۔ راستہ میں مَیں نے اس مخالف سے پوچھا کہ آج جو ہم نے یہ عظیم الشّان معجزہ دیکھا کیا اَب بھی نہ مانو گے تو اُس نے جواب دیا کہ اَب تو حد ہوگئی اَب بھی نہ مانوں تو کب مانوں…… مُردہ زندہ ہوگیا ہے۔ اس کے بعد الہام ہوا۔

سَلِیْمٌ حَامِدٌ مُّسْتَبْشِرًا

کچھ حصہ الہام کا یاد نہیں رہا۔والد کا زندہ ہونا یا کِسی اَور مُردہ کا زندہ ہونا، کسی مُردہ امر کا زندہ ہونا ہے۔ مَیں نے اِس سے یہ بھی سمجھا کہ ہمارا کام والدین کے رفع درجات کا بھی موجب ہے‘‘۔

(البدر جلد2 نمبر21 مؤرخہ12 جون 1903ء صفحہ162۔ الحکم جلد 7نمبر22 مؤرخہ 17 جون 1903ء صفحہ15)

(باقی آئندہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button