خلاصہ خطبہ جمعہ

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 21؍ اگست 2020ء

عشرہ مبشرہ میں شامل آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت بدری صحابیحضرت زبیر بن عوامرضی اللہ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ

حواریٔ رسولؐ حضرت زبیرؓ پہلے شخص تھے جنہوں نے اللہ کی راہ میں اپنی تلوار نیام سے نکالی

مکرم معراج احمد صاحب شہید ابن محمود احمد صاحب (ڈبگری گارڈن ضلع پشاور)،مکرم ادیب احمد ناصر مربی سلسلہ ابن محمد ناصر احمد ڈوگر صاحب (عہدی پور ضلع نارووال ) اور مکرم حمید احمد شیخ صاحب ابن شیخ محمد حسین صاحب (اسلام آباد پاکستان) کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 21؍ اگست 2020ء بمطابق 21؍ ظہور 1399 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ  بنصرہ العزیزنےمورخہ 21؍ اگست 2020ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینے کی سعادت مکرم صہیب احمد صاحب کے حصے میں آئی۔تشہد، تعوذ اور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

بدری صحابہ کے ذکر میں آج جن صحابی کا ذکر ہوگا وہ ہیں حضرت زبیر بن عوامؓ۔ آپؓ کی والدہ آنحضرتﷺ کی پھوپھی حضرت صفیہ بنت عبدالمطلب تھیں اسی طرح آپؓ حضرت خدیجہؓ کے بھتیجے بھی تھے۔ حضرت زبیرؓ کی اہلیہ اسماء حضرت ابوبکرؓ کی صاحب زادی تھیں یوں آپؓ آنحضرت ﷺ کے ہم زلف بھی تھے۔ عشرہ مبشرہ میں شامل حضرت زبیرؓ اسلام قبول کرنے والوں میں چوتھے یا پانچویں شخص تھے۔اسی طرح آپؓ حضرت عمرؓ کی مقرر کردہ اُس چھ رکنی کمیٹی کا حصّہ تھےجسے حضرت عمرؓ نے اپنے بعد انتخابِ خلافت کے لیے نامزد فرمایا تھا۔ جب حضرت زبیرؓ نے نَوعمری میں اسلام قبول کیا تو آپؓ کے چچاچٹائی میں لپیٹ کر دھواں دیتے تاکہ آپؓ اسلام ترک کر دیں لیکن آپؓ کے پایہ ثبات میں کبھی لغزش نہ آئی۔

حضرت زبیرؓ کی والدہ حضرت صفیہ آپؓ کو بچپن میں اس لیے مارتی تھیں تاکہ آپؓ بہادر اور نڈر بنیں۔ حضورِانور نے اس مضمون پر مشتمل حضرت صفیہؓ کے بعض اشعار پیش کرنے کے بعد فرمایا کہ یہ اُن کا تربیت اور بہادر بنانے کا طریقہ تھا، ضروری نہیں کہ ہم کہیں کہ یہ بڑا اچھا طریقہ تھا۔ عموماً تو آج کل اس سے اعتماد میں کمی آتی ہے۔

حضرت زبیرؓ حبشہ کی طرف دونوں ہجرتوں میں شریک ہوئے۔ ہجرتِ مدینہ کے موقعے پر آپؓ نے حضرت منذر بن محمد کے پاس قیام کیا۔ آپؓ کی اہلیہ حضرت اسماء ؓسفرِ ہجرت کے دوران امید سے تھیں چنانچہ قبا کے مقام پر عبداللہ بن زبیرؓ کی ولادت ہوئی۔ تو حضرت اسماءؓ انہیں لے کر آنحضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں ۔ رسول اللہﷺ نے نَومولود کو گود میں لیا اور اپنا لعابِ مبارک اُس کے منہ میں ڈالا۔ پھر آپؐ نے کھجور کو چبا کر اُس کے منہ میں رکھا اور برکت کی دعا کی۔عبداللہ پہلا بچہ تھا جو اسلام میں پیدا ہوا۔ آنحضورﷺ نے ہجرت سے قبل حضرت زبیرؓکی مؤاخات حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے ساتھ قائم فرمائی اور ہجرتِ مدینہ کے بعد آپؓ حضرت سلمہ بن سلامہ کے دینی بھائی ٹھہرے۔حضرت زبیرؓ نے اپنے بیٹوں کے نام نیک فال کے طور پر شہدا کے نام پر رکھے تھے۔حضرت زبیرؓ کے بیٹے نے ایک موقعے پر آپؓ سے آنحضورﷺکی روایات بیان نہ کرنے کے متعلق پوچھا تو آپؓ نے فرمایا کہ مَیں نے جب سے اسلام قبول کیا ہے مَیں نبی کریمﷺ سے کبھی جُدا نہیں ہوا لیکن مَیں نے نبی کریمﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس شخص نے جان بوجھ کر میری طرف جھوٹی بات منسوب کی اُس نے جہنم میں ٹھکانہ بنا لیا۔ آپؓ اس وجہ سے احتیاط کیا کرتے تھے۔

حضرت زبیرؓ پہلے شخص تھے جنہوں نے اللہ کی راہ میں اپنی تلوار نیام سے نکالی۔ ہوا کچھ یوں کہ ایک دفعہ حضرت زبیر مکّے کی کسی گھاٹی میں آرام کر رہے تھے کہ آنحضورﷺ کی شہادت کی خبر سنائی دی، آپؓ اپنی تلوار سونت کر تیزی سے نکلے۔ راستے میں رسول اللہﷺ ملے اور آپؐ نے زبیرؓکو روک لیا اور تلوار سونتنے کی وجہ دریافت کی تو آپؓ نےعرض کی کہ مَیں نے ارادہ کیا تھا کہ تمام اہلِ مکّہ کو قتلکردوں گا۔ نبی کریمﷺ نے آپؓ کے لیےخصوصی دعا کی۔ آپؓ غزوۂ بدر سمیت تمام غزوات میں شامل ہوئے۔ بدر کے دن دو گھڑسواروں میں سے ایک زرد عمامہ باندھے ہوئے حضرت زبیرؓ تھے۔ آنحضرتﷺ نے آپؓ کو دیکھ کر فرمایا کہ فرشتے زبیر کے مشابہ عمامہ باندھے ہوئے اترے ہیں۔ حضرت زبیرؓ بیان کرتے ہیں کہ احد کے دن نبی کریمﷺ نے میرے لیے اپنے والدین کو جمع فرمایا یعنی یوں فرمایا کہ میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں۔غزوۂ احد کے دن آنحضرتﷺ نے مُثلہ شدہ لاشوں کے قریب ایک عورت کو دیکھا تو ناپسندفرمایا کہ وہ یہ تکلیف دہ منظر دیکھے۔حضرت زبیرؓ نے پہچان لیا کہ یہ اُن کی والدہ صفیہؓ ہیں جو اپنے بھائی حمزہ کی تکفین کے لیے دو چادریں لائی تھیں۔ آنحضورﷺ کو جب یہ بتایا گیا تو آپؐ نے حضرت صفیہؓ کو حضرت حمزہ ؓکی لاش دیکھنے کی اجازت دے دی۔ اس موقعے پر حضرت صفیہ نے غیرمعمولی صبر اور حوصلے کا مظاہرہ فرمایا۔

غزوۂ خندق کے موقعے پرآنحضرتﷺ کی تحریک پر حضرت زبیرؓ نے خود کو بنو قریظہ کی خبر لانے کے لیے پیش کیا تھا۔ اس موقعے پر آنحضورﷺ نے فرمایا کہ ہر نبی کا ایک حواری ہوتا ہے اور میرے حواری زبیرؓ ہیں۔

غزوۂ خیبر میں یہود کا مشہور سردار مرحب مارا گیا تو اُس کے بھائی یاسر نے مَنْ یُبَارِز کا نعرہ بلند کیا۔ حضرت زبیرؓ اس کے مقابلے کے لیے آگے بڑھے اور وہ آپؓ کےہاتھوں مارا گیا۔

جب حضرت حاطب بن ابی بلتعہ نے آنحضورﷺ کے ایک فیصلے کی خبر پر مشتمل خط ایک عورت کے ہاتھ اہلِ مکّہ کو بھجوایا تو آنحضورﷺ نے حضرت علیؓ،مقدادؓ اور زبیرؓ کو وہ خط لینے کے لیے بھجوایا تھا۔ حضرت حاطب کی اس لغزش پر حضرت عمرؓ سخت سیخ پا ہوئے اور انہیں قتل کرنے کی اجازت چاہی۔ اس پر رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ حاطب غزوۂ بدر میں شریک ہوچکے ہیں اوراللہ تعالیٰ نے اہلِ بدر کی نسبت آسمان سے جھانک کر فرمایا ہےکہ تم جو کچھ کرتے رہو مَیں تمہیں معاف کرچکا ہوں۔

فتح مکّہ کے دن زبیرؓ گھوڑے پر سوار فوج کے بائیں جانب تھے۔ جب آنحضورﷺ نے اپنی چھڑی سے ھبُل نامی بُت کو گرایا تو آپؓ نے ابوسفیان کو احد کے دن غرور سے لگایا گیا نعرہ اُعل ھبُل یاد کرایا۔

غزوۂ حنین کے دن حضرت زبیرؓنے نہایت جاں نثاری سے ثابت قدم رہتے ہوئے کفّار کا مقابلہ کیا اور نیزے کا وار کرکے کافر سرداروں سے گھاٹی کو خالی کرایا۔

جنگِ یرموک میں حضرت زبیرؓ نے صحابہ کے اصرار پر حملہ کیا تو اس قدر سرعت سے کفار کی صفیں چیرتے ہوئے نکلے کہ کوئی آپؓ کاساتھ نہ دے سکا۔ مصر کے معرکوں کے دوران حضرت عمرو بن العاصؓ کی درخواست پر حضرت عمرؓ نے دس ہزارفوج اور چار افسر بھجوائے اور فرمایا کہ ان میں سے ہر افسر ایک ہزار فوج کے برابر ہے۔ اُن چار افسروں میں سے ایک حضرت زبیرؓ بھی تھے۔

حضرت عمرؓ کی مقرر کردہ چھ رکنی خلافت کمیٹی نے جب اپنااختیار تین افراد کے سپرد کرنے کا سوچا تو زبیرؓ نے اپنا اختیار حضرت علیؓ کے سپرد کیا۔ حضورِانور نے انتخابِ خلافت حضرت عثمانؓ کامفصّل واقعہ بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ حضرت زبیرؓ کا ذکر ابھی چل رہا ہے باقی ان شاء اللہ آئندہ بیان کروں گا۔

خطبے کے دوسرے حصّے میں حضورِانور نے تین مرحومین کا ذکرِ خیر اور نماز ہائے جنازہ پڑھانے کا اعلان فرمایا۔

پہلا ذکر مکرم معراج احمد صاحب ابن محمود احمد صاحب آف ڈبگری گارڈن ضلع پشاور کا تھا۔جماعت کے خلاف جاری تازہ مہم کے باعث آپ کومخالفینِ احمدیت نے 12؍اگست کواِن کے میڈیکل سٹور کے سامنے فائرنگ کرکےشہیدکردیاتھا۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

بوقتِ شہادت مرحوم کی عمر تقریباً61برس تھی۔ شہید نماز باجماعت کے پابند،خلافت سے بےانتہا عقیدت رکھنےوالے،مالی قربانیوں میں پیش پیش،بڑھ چڑھ کردعوت الیٰ اللہ کرنے والے، اورہم دردی خلق کے نمایاں اوصاف کےمالک تھے۔طویل عرصہ جماعت پشاور کے سیکرٹری ضیافت رہے۔ پسماندگان میں اہلیہ اور تین بیٹے اور ایک بیٹی سوگوار چھوڑے ہیں۔

دوسرا جنازہ مکرم ادیب احمد ناصر مربی سلسلہ ابن محمد ناصر احمد ڈوگر صاحب عہدی پور ضلع نارووال کا تھا۔ مرحوم 9؍اگست کو 27 برس کی عمر میں ٹائیفائیڈ اور سرسام کے سبب مختصر علالت کے بعد وفات پاگئے۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

مرحوم نے جولائی 2017ء میں جامعہ احمدیہ کی تعلیم مکمل کی تھی اور نظارت اصلاح و ارشاد کے تحت کام کر رہے تھے۔ مرحوم صوم و صلوٰة کے پابند،ہر دل عزیز، سادہ طبیعت اور نرم لہجے کے مالک تھے۔وقف کی حقیقی روح کو سمجھ کر زندگی بسر کرنے والے تھے۔ ایک کمرے کے سینٹر میں جہاں مکمل سامان میسر نہ تھا آپ نے بڑی جاں فشانی سے ڈیوٹی دی۔

تیسرا جنازہ مکرم حمید احمد شیخ صاحب ابن شیخ محمد حسین صاحب کا تھا۔ مرحوم 12؍اگست کو ہارٹ اٹیک کے باعث پچاسی برس کی عمر میں وفات پاگئے۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

آپ حضرت شیخ نور احمد صاحب صحابی حضرت مسیح موعودؑ کے پوتے تھے۔ مرحوم نہایت مخلص ،نمازوں کے پابند،مالی تحریکات میں بھرپور حصّہ لینے والے تھے۔آپ چارٹرڈ آرکیٹیکٹ تھے اور اسلام آبادپاکستان میںIAAAEکے چیئرمین کے طور پر اور دیگر مختلف حیثیتوں میں خدمات انجام دیتے رہے۔ مرحوم کے پسماندگان میں دو بیٹے اور ایک بیٹی شامل ہیں۔

خطبے کے اختتام پرحضورِانورنے تمام مرحومین کی مغفرت اور بلندی درجات کےلیےدعا کی۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button