کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

مذہبی آزادی اور جہاد کی حقیقت

ظہر کے وقت حضور علیہ السلام تشریف لائے تو سرحد کے لوگوں کے جہاد کے بارے میں غلط فہمی کا ذکر چل پڑا۔ حضرت اقدس نے فرمایا کہ

مذہبی امور میں آزادی ہونی چاہیے اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے

لَاۤ اِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ(البقرۃ: 257)

کہ دین میں کسی قسم کی زبردستی نہیں ہے۔ اس قسم کا فقرہ انجیل میں کہیں بھی نہیں ہے۔ لڑائیوں کی اصل جڑ کیا تھی۔ اس کے سمجھنے میں ان لوگوں کو غلطی ہوئی ہے۔ اگر لڑائی کا ہی حکم تھا تو تیرہ برس رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تو پھر ضائع ہی گئے کہ آپؐ نے آتے ہی تلوار نہ اٹھائی۔ صرف لڑنے والوں کے ساتھ لڑائیوں کا حکم ہے۔ اسلام کا یہ اصول کبھی نہیں ہوا کہ خود ابتداء جنگ کریں۔ لڑائی کا سبب کیا تھا اسے خود خدا نے بتلایا ہے کہ ظُلِمُوْا۔ خدا تعالیٰ نے جب دیکھا کہ یہ لوگ مظلوم ہیں تو اب اجازت دیتا ہے کہ تم بھی لڑو۔ یہ نہیں حکم دیا کہ اب وقت تلوار کا ہے تم زبردستی تلوار کے ذریعہ لوگوں کو مسلمان کرو بلکہ یہ کہا کہ تم مظلوم ہو اب مقابلہ کرو۔ مظلوم کو تو ہر ایک قانون اجازت دیتا ہے کہ حفظِ جان کے واسطے مقابلہ کریں۔ ایسے خیالات کی اشاعت کا الزام پادریوں پر نہیں ہے بلکہ اسے خود ملانوں نے اپنے اوپر پختہ کیا ہے۔ خدا تعالیٰ کا ہرگز یہ منشاء نہیں ہے کہ ایک غافل شخص جسے دین کی حقیقت معلوم نہیں ہے اسے جبراً مسلمان کیا جائے۔ اب ایک بنیا جس کی عمر ساٹھ پینسٹھ سال کی ہے اور اسے دین کی خبر ہی نہیں تو اس کے گلے پر تلوار رکھ کر اس سے

لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ

کہلانے سے کیا حاصل ہوگا؟ خدا تعالیٰ کا منشا ہے کہ غفلت چونکہ بہت ہو گئی ہے۔ اب دلائل سے سمجھادیوے۔ اگر جہاد کریں بھی تو کس سے کریں؟ سب سے اول تو انہیں مسلمانوں سے کرنا چاہیے کہ جنہوں نے دین کو تباہ کر دیا ہے۔ صحابہ کرامؓ تو خد اکے فرشتے تھے۔ اور جب ناعاقبت اندیش لوگوں نے تلواریں اٹھائیں تو خدا نے ان کے ذریعہ ان کو سزائیں دلوائیں۔ مگر آج کل کے یہ لوگ کہ جن کی مثال ڈاکوئوں کی ہے کیا یہ خدا تعالیٰ کے وکیل ہوسکتے ہیں۔ قرآن سے تو ثابت ہوتا ہے کہ کافر سے پہلے فاسق کو سزا دینی چاہیے۔ خدا تعالیٰ نے اسی لئے چنگیز خان کو ان پر مسلط کر دیا تھا تاکہ مماثلت پوری ہو جیسے یہودیوں پر بخت نصر کو متعین کر دیا تھا ویسے ہی ان پر چنگیز خان کو۔ اس کے وقت میں ایک بزرگ تھے ان کے پاس لوگ گئے کہ وہ دعا کریں۔ انہوں نے جواب دیا کہ تمہاری حرام کاریوں کی وجہ سے ہی تو چنگیز خان مسلط ہواہے۔ قتل کے بعد سنا ہے کہ چنگیز خان نے اسلام کے علماء فضلاء کو بلا کر پوچھا کہ اسلام کیا ہے انہوں نے کہا کہ پنج وقتہ نماز ہے۔ کہنے لگا کہ یہ تو عمدہ بات ہے کہ اپنے کاروبار میں پانچ وقت دن میں خدا کو یاد کرنا۔ پھر انہوں نے زکوٰۃ بتلائی اس کی بھی تعریف کی۔ تیسرے انہوں نے حج بتلایا اس کی اسے سمجھ نہ آئی۔ اس کے بیٹے کااسلام کی طرف رجوع تھا مگر آخر پوتا بالکل مسلمان ہو گیا۔ اسی طرح بخت نصر یہودیوں پر مسلط ہوا تھا۔ مگر خدا تعالیٰ نے اسے کہیں ملعون نہیں کہا ہے بلکہ

عِبَادًا لَّنَا(بنی اسرائیل: 6)

ہی کہا ہے۔ یہ خدا تعالیٰ کا دستور ہے کہ جب ایک قوم فاسق فاجرہوتی ہے تو اس پر ایک اور قوم مسلط کر دیتا ہے۔(ملفوظات جلد 4صفحہ 366تا367۔ایڈیشن 1984ء)

مہدی اور جہاد

بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ایسا مہدی آنا چاہیے جو جہاد کا فتویٰ دے اور انگریزوں اور دوسری غیر قوموں سے لڑائی کرے۔ میں کہتا ہوں یہ بھی غلط ہے اور حدیث سے بھی پایا جاتا ہے کہ آنے والا موعود یَضَعُ الْـحَرْبَ کرکے دکھائے گا یعنی لڑائیوں کو موقوف کرے گا۔ دیکھو ہر چیز کے عنوان پہلے ہی سے نظر آجاتے ہیں۔ جیسے پھل سے پہلے شگوفہ نکل آتا ہے اگر خدا تعالیٰ کا یہی منشا ہوتا کہ مہدی آکر جہاد کرتا اور تلوار کے زور سے اسلام کی حمایت کرتا تو چاہیے تھا کہ مسلمان فنون حربیہ اور سپہ گری میں…. تمام قوموں سے ممتاز ہوتے اور فوجی طاقت بڑھی ہوئی ہوتی مگر اس وقت یہ طاقت تو اسی قوم کی بڑھی ہوئی ہے اور فنونِ حرب کے متعلق جس قدر ایجادات ہو رہی ہیں وہ یورپ میں ہو رہی ہیں نہ کسی اسلامی سلطنت میں۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا یہ منشاء ہرگز نہیں ہے اور

یَضَعُ الْـحَرْبَ

کی پیشگوئی کو پورا کرنے کے واسطے یہی ہونا بھی چاہیے تھا۔دیکھو مہدی سوڈانی وغیرہ نے جب مخالفت میں ہتھیار اٹھائے تو خدا تعالیٰ نے کیسا ذلیل کیا یہاںتک کہ اس کی قبر بھی کھدوائی گئی اور ذلت ہوئی اس لیے کہ خدا کے منشاء کے خلاف تھا۔ مہدی موعود کا یہ کام ہی نہیں ہے بلکہ وہ تواسلام کو اس کی اخلاقی اور علمی وعملی اعجازات سے دلوں میں داخل کرے گا اور اس اعتراض کو دور کرے گا جو کہتے ہیں کہ اسلام تلوار کے زورسے پھیلایا گیا وہ ثابت کر دکھائے گا کہ اسلام ہمیشہ اپنی عملی سچائیوں اور برکات کے ذریعہ پھیلاہے۔ ان تمام باتوںسے انسان سمجھ سکتا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ کا منشا تلوار سے کام لینا ہوتا تو فنونِ حرب اسلام والوں کے ہاتھ میں ہوتے اسلامی سلطنتوں کی جنگی طاقتیں سب سے بڑھ کر ہوتیں اگرچہ حقیقی خبر تو خدا تعالیٰ سے وحی پانے والوں کو ملتی ہے مگر مومن کو بھی ایک فراست ملتی ہے اور وہ علامات و آثار سے سمجھ لیتا ہے کہ کیا ہونا چاہیے جب عیسائی قوموں کے بالمقابل آتے ہیں تو زک اُٹھاتے ہیں اور ذلت کا منہ دیکھتے ہیں کیا اس سے پتہ نہیں لگتا کہ خدا تعالیٰ کا منشا تلوار اٹھانے کا نہیں ہے یہ اعتراض صحیح نہیں غلط ہے۔

مسیح موعود کا یہی کام ہے کہ وہ لڑائیوں کو بند کر دے کیونکہ

یَضَعُ الْـحَرْبَ

اس کی شان میں آیا ہے کیا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کو باطل کر دے گا؟ معاذاللہ۔ قرآن شریف سے بھی ایسا ہی پایا جاتا ہے کہ اس وقت لڑائی نہیں ہونی چاہیے کیا یہ ہوسکتا ہے کہ جب دل اعتراضوں سے بھرے ہوئے ہوں تو ان کو قتل کردیا جاوے یا تلوار اٹھاکر مسلمان کیا جاوے۔ وہ اسلام ہوگا یا کفر جواس وقت ان کے دلوں میں پیدا ہوگا؟

(ملفوظات جلد5صفحہ103تا104۔ایڈیشن1984ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button