محترم صفدر گجر صاحب مرحوم کی یاد میں

(آصف محمود باسط)

محترم صفدر گجر صاحب 25؍جولائی 2020ءکی صبح وفات پاگئے۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔

اللہ تعالیٰ انہیں غریقِ رحمت کرے اور ان کے ساتھ مغفرت کا سلوک فرمائے۔ بہت ہی پیارے بزرگ تھے۔

صفدر صاحب سے پہلا تعارف مجھے بھی اکثر احمدیوں کی طرح ایم ٹی اےکے ذریعہ حاصل ہوا۔ کبھی کبھار وہ ایم ٹی اے پر اپنی ہی لکھی ہوئی پنجابی نظمیں پڑھتے نظر آتے۔ لباس اور پگڑی میں بھی پنجابیت کا اہتمام رکھا ہوتا اور بڑے جذب و حال کی کیفیت میں خوش الحانی سے پنجابی کلام پڑھ رہے ہوتےجو کلام حضرت مسیح موعود علیہ السلام، جماعت احمدیہ اور خلافتِ احمدیہ کی محبت سے بھرپور ہوتا۔ یہ محبت اتنی توانا ہوتی کہ سامع کی توجہ کے دامن کو مضبوطی سے تھام لیتی اور توجہ کہیں اِدھر اُدھر نہ ہونے پاتی۔ شاعری کی ظاہری ہیئت یعنی بحور و عروض کی طرف بھی۔

پھر 2002ء میں انگلستان آنا ہوا اور زندگی میں پہلی مرتبہ جلسہ سالانہ یوکے میں شمولیت کی سعادت حاصل ہوئی تو لنگر خانہ کے خیمہ میں کھانا کھاتے ہوئے وہ مانوس پنجابی کلام اور لحن بآوازِ بلند سنائی دیا۔ بھیڑ اتنی تھی کہ کچھ سمجھ نہ آئی کہ آواز کدھر سے آرہی ہے۔ یہ بھی لگا کہ شاید ریکارڈنگ ہے۔ پھر معلوم ہوا کہ ریکارڈنگ نہیں ہے بلکہ صفدر صاحب بنفسِ نفیس اپنے روایتی حلیےمیں مائیک تھامے زائرینِ جلسہ کا خون گرما رہے ہیں۔ مگر یہ تعارف بھی ٹی وی کی طرح ہی دور سے دیکھنے اور سننے تک محدود رہا۔

صفدر صاحب سے زیادہ تعارف تب حاصل ہوا جب 2004ء میں وقفِ زندگی کی توفیق ملی اور پہلی ڈیوٹی ایم ٹی اے کے دفتر واقع مسجد فضل لندن میں لگی۔ دفتر میں پہلا ہی دن تھا۔ ظہر کی نماز کے بعد کھانے کا وقت ہوا اور میں سوچ ہی رہا تھا کہ کھانے کے لیے گھر جاؤں یا محمود ہال کے پیچھے واقع باورچی خانہ سے کچھ کھا آؤں کہ ایک صاحب ایک بڑی سی ٹرے میں کھانا رکھے دفتر میں داخل ہوئے۔ شکل صفدر گجر صاحب جیسی مگر پتلون اور مغربی طرز کی شرٹ اور اس پر ایک مغربی طرز کا سویٹر پہنے ہوئے۔ پھر معلوم ہوا کہ یہ صفدر گجر صاحب ہی ہیں اور لنگر خانہ میں ڈیوٹی کرتے ہیں۔ دوپہر کا کھانا دفاتر میں پہنچانا بھی ان کی ذمہ داری ہے۔

اس پہلی ملاقات کے بعد ان سے روزانہ دوپہر کو اسی وقت ملاقات ہونے لگی۔ شام کی چائے بھی بڑے سے فلاسک(Flask)میں بھر کے ہر دفتر میں لے جاتے اور یوں شام کو بھی ملاقات کی صورت بن جاتی۔ میں ان سے عمر میں بہت چھوٹا تھا (بلکہ ہر لحاظ سےہی) اور ہر مرتبہ جب و ہ کھانا یا چائے لے کر آتے، میں تہِ دل سے ان کا شکریہ ادا کرتا۔ یوں دن میں دو مرتبہ ان کا شکریہ ادا کرنا تو معمول بن ہی گیا، ساتھ ہر دو مرتبہ جواب میں ان کا صوفیانہ چاشنی میں ڈوبا ہوا جواب بھی اس معمول میں شامل ہوگیا۔ کبھی شکریہ وصول کر کے چلتے نہیں بنے۔ ہمیشہ پورے التزام سے جواب میں بتاتے کہ وہ جماعتی کارکنان کے لیے یہ سہولت مہیا کر نے میں کس قدر خوشی محسوس کرتے ہیں اور اسے اپنے لیے کتنی بڑی سعادت خیال کرتے ہیں۔ اور اپنے سادہ سے انداز میں ہمیں شرمندہ ہونے سے بھی بچا لیتے کہ ’’تمہارے لیے تھوڑا ہی کرتا ہوں، تم لوگ میرے محبوب کے کاموں میں سہولت پیدا کرتے ہو۔ اس محبوب کی طرف سے دی گئی ذمہ داریوں میں مصروف ہو۔ میں بھی لہو لگا کر شہیدوں میں شامل ہوجاتا ہوں، اس لیے مجھے شرمندہ نہ کیا کرو۔ میں یہ تم لوگوں کے لیے نہیں کررہا۔ ‘‘ گویا یہ کہہ کر ہمیں تسلی دیتے کہ

اتنا خوش فہم نہ ہو اپنی پذیرائی پر

ہم کسی اور محبت میں ملے ہیں تجھ سے

مگر اصل بات تو یہ ہے کہ انہیں اپنے محبوب آقا سے تو محبت تھی ہی۔ بہت زیادہ تھی۔ لیکن انہیں ہر انسان سے ہی محبت تھی۔ ہر اس انسان سے جو مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں شامل تھا۔ بلکہ جو نہیں تھا، صفدر صاحب تو ان کا بھی برا نہ چاہ سکتے تھے۔ تو اصل احوال ان کے دل کا چوہدری صاحب مرحوم کے اس شعر میں آجاتا ہے کہ

محبت ہو گئی ہے تجھ سے مضطر

تو کس محبوب کا نوکر رہا ہے؟

یہاں یہ بیان کردینا بھی ضروری ہے کہ صفدر صاحب رضاکارانہ طور پر لنگر خانہ میں یہ خدمت بجا لاتے۔ اور اس کے بدلہ میں کبھی طالبِ انعام نہ ہوتے۔

میری رہائش ان دنوں مسجد فضل کے قریب ہی تھی۔ میں گھر سے نکل ہی رہا تھا کہ صفدر صاحب سے مڈھ بھیڑ ہوگئی۔ ہمیشہ کندھے پر اٹھانے والا بیگ دونوں کندھوں پر اٹھائے رکھتے۔ میری پیشکش کو قبول کرتے ہوئے کار میں بیٹھ گئے اور اپنا بیگ پچھلی سیٹ پر رکھ دیا۔ عام سا بیگ تھا اور یوں بھی یہاں رواج ہے کہ لوگ کاندھوں پر ایسے بیگ اٹھائے رکھتے ہیں۔ زیادہ تر اسے کتابیں اور لیپ ٹاپ وغیرہ اٹھانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ بظاہر کبھی ان دونوں اشیا سے صفدر صاحب کا شغف محسوس نہ ہوا تھا، مگر یہ پوچھنا بھی کبھی مناسب نہ لگا کہ ’’صفدر صاحب، اس میں کیا اٹھائی پھرتے ہیں؟۔ ‘‘

بہر حال، ہمارا مختصرسا سفر شروع ہوا۔ صفدر صاحب نے بس اتنا ہی پوچھا کہ ’’یہاں رہتے ہیں؟‘‘ مجھے سخت شرمندگی ہوئی کہ مجھے پیشکش کرنا چاہیے تھی کہ وہ اندر تشریف لاکر خدمت کا موقع دیتے۔ آخر وہ روزانہ ہمارے لیے کھانے پینے میں سہولت کا اہتمام کرتے ہیں۔ مگراب ہم مسجد کی طرف روانہ ہوچکے تھے، سو میں نے گزارش کی کہ ’’صفدر صاحب، کسی دن تشریف لائیں۔ اب تو آپ کو گھر بھی معلوم ہوگیا ہے۔ ‘‘

انہوں نے بھی اپنے محبت بھرے انداز میں کہا کہ ’’ٹھیک ہے۔ ضرور آواں گے۔ کیوں نئیں آنا۔ اپنی بیٹی نوں ملاں گے۔ اپنے بچیاں نوں ملاں گے۔ بلکہ چھیتی آواں گا۔ ‘‘

میری شرمندگی کو کچھ تسکین حاصل ہوئی کہ صفدر صاحب نے ایسے جوش و خروش سے میری دعوت کو قبول کرلیا ہے۔

اگلے دن صبح دفتر جانے کے لیے گھر سے نکلا تو دیکھا کہ باہر کی باڑجو کچھ بڑھی ہوئی تھی، ترشی ہوئی ہےاور سامنے کا باغیچہ بہت ہی بھلا منظر پیش کررہا ہے۔ مجھے خوشی سے زیادہ تشویش لاحق ہوگئی کہ یہ ماجرا کیا ہے۔ یہاں تو پڑوسی بھی اس طرح کے کارِ خیر اور خدمتِ خلق کے قائل نہیں۔ کہیں کونسل والے نہ کاٹ گئے ہوں؟ مگر کونسل کاٹتی تو سب گھروں کے کاٹتی!

خیر! اسی شش و پنج میں دفتر پہنچا۔ صفدر صاحب دوپہر کا کھانا لے کر آئے تو مجھے الگ بلایا اور کہنے لگے کہ

’’کل میں نے دیکھا تو باڑکچھ بڑھی ہوئی لگی۔ میں نے آج صبح صبح گزرتے ہوئے کچھ تراش دی۔ اس لیے بتا رہا ہوں کہ پریشان نہ ہوتے ہوں کہ کون کاٹ گیا۔ ‘‘

میں نے کہا کہ پریشان تو میں ہو رہا تھا۔ لیکن ایسا بھی کون سی بڑھی ہوئی تھی۔ میں کاٹ ہی لیتا۔ مگر کہنے لگے کہ

’’میرا تو کام ہے۔ کسی نے باغیچہ بنوانا ہو تو میں صبح صبح ان کا کام کرکے پھر یہاں لنگر خانہ کی ڈیوٹی پر پہنچ جاتا ہوں۔ اس بستے میں میرے باغبانی والےکپڑے اور اوزار ہوتے ہیں۔ ‘‘

میں نے بصد شرمندگی ان کا شکریہ ادا کیا۔ کچھ پیش کرنے کا کہا تو باقاعدہ بُرا مان گئے اور نہایت محبت بھرے انداز میں قطعِ تعلق کی دھمکی تک دے دی۔

اس دن ان کی ایک آنکھ بہت سرخ تھی۔ دریافت کرنے پر بتایا کہ چونکہ جلدی جلدی باڑ تراش رہا تھا کہ اِسی عجلت میں ایک ٹہنی آنکھ میں لگ گئی۔ یہ کہہ کر الٹا مجھے ہی تسلی دینے لگے کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ زخم گہرا نہیں ہے۔ ٹھیک ہو جائے گا۔ تکلیف بھی زیادہ نہیں۔ مگر یہ چوٹ میرے دل پر لگی اور میں نے کئی دن اس کے درد میں گزارے۔

کوئی مہینہ بھر بعد کی بات ہے۔ چھٹی کا دن تھا اور بہت صبح کا وقت۔ میری بچیاں گھبرائی ہوئی میرے پاس آئیں کہ سامنے باغیچے میں کوئی آدمی گُھس آیا ہے اور کیاریوں میں کھدائی کررہا ہے۔ میں لپک کر باہر نکلا تو کیا دیکھتا ہوں کہ صفدر صاحب ایک مرتبہ پھرنہایت اخفا سے مجھے ممنونِ احسان کرنے میں مصروف ہیں۔ ہوا یوں کہ ان کی آنکھ کے زخم کے بھرنے تلک باڑ دوبارہ بڑھ آئی۔ وہ وہاں سے گزرے تو ان سے رہا نہ گیا اور انہوں نے اپنا بستہ کھولا اور تراش خراش کرنے لگے۔ میں نے وہی خفگی ظاہر کی جو بزرگوں کے ساتھ ہم بعض اوقات ان کے لاڈ پیار سے liberty لیتےہوئے کر لیتے ہیں۔ ہم نے ساتھ ناشتہ کیا اور وہ میرے تیار ہونے کا انتظار کیے بغیر مسجد کے لیے روانہ ہو گئے۔

کئی دفعہ انہیں اس بات پر ملول دیکھا کہ کہیں باغبانی کرنے گئے تھے اور وہاں دیر ہوگئی اور ڈیوٹی پر بروقت نہ پہنچ سکے۔ مگر ایسا شاذ ہی ہوتا۔ متعدد مرتبہ انہیں مختلف بس سٹاپوں پر کھڑے دیکھا۔ گاڑی روک کر انہیں بلایا تو اس قدر مشکور ہوئے کہ شرمندہ کر کے رکھ دیا۔ بس کے سفر کے تو عادی ہی تھے، مگر مشکور اس بات پر ہوتے رہے کہ بس کے انتظار میں وقت لگ جاتا اور وہ ڈیوٹی پر بروقت نہ پہنچ سکتے۔

اس دوسرے واقعے کے بعد ان کے ساتھ کچھ شرائط طے کرنا پڑیں۔ مجھے آج یہ سطور لکھتے وقت ان کا محبت بھرا احتجاج، مجھے ساتھ لگانا، ماتھا چومنا اور ہاتھ جوڑ کر اس طرح التجائیں کرنا جیسے ان پر کوئی ظلم ہو رہا ہوبہت یاد آرہا ہے۔ اب کے میں نے بھی قطعِ تعلق کی (سہمی ہوئی اور محبت بھری)دھمکی دے دی۔ خیر، کچھ میں نے ان کی مانی، کچھ انہوں نے میری اور ہمارے درمیان معاہدہ طے پاگیا۔ ہم دونوں کو پتہ تھا کہ یہ تعلق قطع ہونے کی حدوں سے گزرچکا ہے۔

یہ معاہدہ جو اس روز طے پایا، سولہ سال تک قائم رہا۔ تا وقتیکہ میں 2020ءمیں لندن سے فارنہم منتقل ہوگیا۔ میں درخواست کرتا تو شاید چلے ہی آتے مگر ناحق تکلیف دینے والی بات تھی۔ اور اب آخری کچھ سالوں میں بات صرف سفر ہی کی نہ رہی تھی۔ ان کی صحت بھی طرح طرح کے عوارض کی مسلسل زد میں رہنے کے باعث گِرچکی تھی۔ بلکہ ان کی اہلیہ کو بھی جو عوارض لاحق ہوتے رہے، وہ بھی صفدر صاحب ہی کی صحت پر اثر ڈالتےرہے۔ پھر کچھ اور پریشانیاں بھی لاحق رہیں جو اندر اندر توڑ پھوڑ کا کام کرتی رہیں۔ مگر اپنی ذات کی چومکھی جنگ میں بھی کبھی انہیں اپنے جماعتی فرائض سے غافل نہ دیکھا۔ فرائض بھی وہ جو دراصل نوافل تھے اور انہوں نے طوعی طور پر اپنے ذمہ لگا رکھے تھے۔ طوعی خدمت کرنے والوں کے لیے تو یہ قابلِ تقلید نمونہ ہے ہی، مگر میں بھی ، جو واقفِ زندگی ہونے کا دعویٰ کرتا ہوں، ان کی اس فرض شناسی، باقاعدگی، دل جمعی، مستقل مزاجی، محنت، مشقت اور اس سب کے ساتھ ساتھ ہمیشہ مسکراتے رہنے کی عادات کو نہایت درجہ رشک سے دیکھتا رہا۔ آج بھی ان کی شخصیت انہی خوبصورت اوصاف کے خوش رنگ ملبوسات میں ملبوس چشمِ تصور کے سامنے کھڑی ہے۔ آج بھی ان پر رشک کررہا ہوں۔

صفدر صاحب جب بھی ہمارے دفتر میں آتے، ہماری کوشش ہوتی کہ انہیں اپنے پاس کچھ بٹھا لیا جائے اور ہم بھی ان کی کچھ خدمت کریں۔ جب ان کے اور ہمارے پاس وقت ہوتا، وہ کچھ دیر بیٹھ بھی جاتے۔ ہماری کوشش ہوتی کہ وہ کچھ سستا بھی لیں اور ہم ان کی صوفیانہ محبت سے بھری گفتگو بھی سن لیں۔ انہیں خلافتِ احمدیہ سے عارفانہ محبت تھی۔ بے لوث، بےغرض، بے ریا۔ ایسی محبت جس کا مشاہدہ کرنے والا اپنے دل میں بھی اس محبت کو بڑھتا محسوس کرتا ہے۔ کئی سال میں نے اور برادرم شاہد احمد صاحب (ایم ٹی اے لائبریری)نے دوپہر کے کھانے کے وقفے میں ان کی محبتِ خلافت سے بھری گفتگو سننے میں گزارے۔

اَور موضوعات پر بھی گفتگو کرلیتے۔ عمروں کے تفاوت کے باوجود ہم سے بے تکلف بھی ہوجاتے۔ مذاق کرتے بھی اور مذاق کوخوش دلی سے برداشت بھی کرتے اور نہایت عمدہ مزاح سے بات کو آگے بڑھاتے۔ (برداشت کا لفظ اس لیے کہ بعض بزرگ اچھے مزاح کو بھی بدتمیزی خیال کربیٹھتے ہیں)۔

کبھی کبھی اپنی زندگی کے دکھ درد بھی سنالیتے اور اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرلیتے۔ کسی کو ان سے شکوہ ہوتا تو اس تکلیف میں تڑپ رہے ہوتے۔ انہیں کسی سےدکھ پہنچتا تو غصہ میں نہ آتے بلکہ اس شعر کی زندہ تصویر بنے ہوتے کہ

بس اس سبب سے کہ تم پہ بہت بھروسہ تھا

گِلے نہ ہوں بھی، تو حیرانیاں تو ہوتی ہیں

انہیں اپنے بچوں میں سے کسی ایک کے رشتے کے سلسلہ میں کسی عزیز سے سخت تکلیف پہنچی تھی۔ ہمیشہ اپنے دکھ کا اظہار کرتے رہے مگر کبھی نام نہ بتایا۔ ایک روز میں اتفاق سےاُن کے ساتھ تھا کہ اُس شخص سے آمنا سامنا ہوگیا۔ اس کے پاس سے گزرکر اس کے لیے جس طرح دعائیں کیں اور اپنے دل کے جذبات پر استغفار کی، اس سے مجھے اندازہ ہوا کہ یہ وہ شخص ہے جسے آج تک صفدر صاحب نے شدید دکھ کے باوجود بےنام رہنے دیا تھا۔

ایک مرتبہ بیمار ہوگئے۔ آپریشن کروانا پڑا۔ شاہد احمدصاحب، عمیرعلیم صاحب اور خاکساران کی عیادت کے لیے ان کے گھر حاضر ہوئے۔ لیٹے ہوئے تھے۔ اٹھ نہ سکتے تھے مگر مہمان نوازی کے لیے تڑپے جاتے تھے۔ ہمارے باربار روکنے پر بھی بچوں کو کہتے رہے یہ لاؤ، وہ لاؤ۔ ناچار ہمیں جلدی اٹھ کر آنا پڑا کہ ہماری موجودگی مزید زحمت ہی کا باعث نہ ہورہی ہو۔ پھرکچھ ہی دن کے آرام کے بعد بھلے چنگے ہوکر واپس اپنی ڈیوٹی پر پہنچ گئے۔

کبھی کبھی کھانے اور چائے کے اوقات کے علاوہ بھی دفتر میں آنکلتے۔ یہ بہت کم ہوتا مگر وقت کے ساتھ مجھے معلوم ہوگیا کہ ایسے میں صفدر صاحب کی طبیعت روانی میں ہوتی ہے۔ شرمندہ کردینے والی ہچکچاہٹ سے پوچھتے کہ ’’کچھ وقت ہے؟ کچھ کر تو نہیں رہے؟ کام کا حرج تو نہ ہوگا؟‘‘ وغیرہ۔ شاعری سے خود بھی کچھ نسبت ہونے کے باعث مجھے ان کے کرب کا احساس ہوتا۔ سب کچھ ایک طرف کر کے کہتا کہ آپ حکم کریں۔

پھر وہ بتاتے کہ انہوں نے کچھ شعر لکھے ہیں اور وہ انہیں ٹائپ کرواکر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں پیش کرنا چاہتے ہیں۔ میں ان کی اس وارفتگی والی محبت کا حصہ بننے کی لالچ میں ان کی خطِ شکستہ میں لکھی نظم ٹائپ کردیتا۔ وہ عجیب آدمی تھے۔ بات یہیں ختم نہ کردیتے۔ جب اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب آتا، تو لہکتے، مہکتے بڑی ترنگ میں تشریف لایا کرتے۔ جیب سے وہ خط بڑی احتیاط سے نکالتے، بڑی عقیدت سے اس کی تہوں کو کھولتے اور دکھاتے کہ حضور انور نے کس طرح محبت اور دعاؤں سے بھرا جواب عنایت فرمایا ہے۔ جس عقیدت اور محبت سے وہ ان خطوط کو سینے سے لگائی پھرتے، جس احتیاط سے وہ اسے نکالتے، اور جب میں پڑھ رہا ہوتا تو جس طرح میری طرف دیکھتے جاتے، اور اس وقت ان کی آنکھوں میں جو چمک ہوتی، وہ سب آج یاد آرہا ہے تو دل سے ان کے لیے تو دعا نکل ہی رہی ہے، اپنے اور اپنے بچوں کے لیے بھی یہ دعا نکل رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی حضور کے ہر ہر لفظ کو اسی محبت اور عقیدت سے دل وجان سے قریب رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

جب میرا دفتر مسجد فضل سے مسجد بیت الفتوح منتقل ہوگیاتو ان سے روز مرہ کی ملاقات تو نہ رہی، مگر ہمارا باغبانی والا معاہدہ قائم رہا۔ میرے باغیچوں کی صورت سنورتی رہی اور میری سستیوں کی پردہ پوشی ہوتی رہی۔ پھر ان کی صحت گرنے لگی مگر گاہے گاہے ان سے ملاقات ہوجاتی۔ نہ بھی ہوتی تو یا وہ فون کرلیا کرتے یا میں فون کر کے ان کی طبیعت دریافت کر لیا کرتا۔ کبھی کبھی صرف اتنا کہہ دیا کرتے کہ ’’کچھ پریشانیاں ہیں‘‘۔ میں خود پریشان ہوجانے کے علاوہ اور کر بھی کیاسکتا تھا۔ پھر دنیا کی بھیڑ میں گم ہوجاتا اور صفدر صاحب کی پریشانیاں اگرچہ شعوری سطح سے تو فراموش ہوجاتیں، مگر کہیں ذہن کی تہوں میں صفدر صاحب موجود رہتے۔

ان کا آخری فون کچھ ہفتے قبل آیا۔ پریشان سےتھے۔ کچھ سانس بھی پھولا ہوا سا تھا۔ پوچھنے پر بھی تفصیل نہ بتائی۔ میں نے ان سے وعدہ کیا کہ یہ لاک ڈاؤن کی صورت میں کچھ نرمی آئے اور معمر حضرات کی shielding والی ڈھال ذرا ڈھلک جائے تو ان سے ملنے کے لیے حاضر ہوں گا۔

یہ ڈھال ابھی ہمارے درمیان حائل ہی تھی کہ صفدر صاحب کی وفات کی خبر آگئی۔ ایسا لگا کوئی بہت قریبی عزیز وفات پاگیا ہو۔ یہ سطور اسی دکھ میں تحریر کی گئی ہیں۔ اسی صدمے کے باعث ان کے ذکر کا حق ادا نہیں کرسکا۔

اللہ تعالیٰ انہیں اپنی رحمت کی چادر سے ڈھانپ لے۔ اسی اخفا سے ان کی کمزوریوں اور خامیوں کو معاف فرمادے، جس اخفا کے ساتھ صفدر صاحب مرحوم مجھ جیسوں سے احسان کا سلوک کر جایا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کی باغیچوں کی محبت ہی کو دیکھتے ہوئے انہیں جنت کے باغات میں راحت اور سکون نصیب فرمائے۔

وہ جب جب ہمارے گھر آئے، ہماری کوشش تو رہی کہ انہیں غیریت کا احساس نہ ہو۔ ہمارے معاہدے کی بنیاد پہلے ہی دن سےاجرت پر نہیں محبت پر تھی، سو کوشش تو رہتی کہ محبت ہی ہمیشہ پیش منظر میں رہے اور باقی سب پس منظر میں۔ خدا کرے کہ ہم سے اس میں کوئی چوک نہ ہو گئی ہو۔ حق مغفرت کرے!

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

ایک تبصرہ

  1. جزاکم اللہ و احسن الجزاء
    پڑھ کر بہت لطف آیا۔اللہ تعالی مرحوم کے ساتھ رحمت و مغفرت کا سلوک فرمائے، اپنی ابدی جنتوں میں سکون و راحت کے وافر سامان مہیا کرتے ہوئے درجات بلند کرتا چلا جائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین آمین ثم آمین

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button