متفرق مضامین

شروط عمریہ قرآن و سنت کے آئینے میں (قسط اوّل)

(حافظ مظفر احمد)

[اہلحدیث کے ہفت روزہ ترجمان الاعتصام لاہور نے ’’ردّ قادیانیت‘‘ کے تحت 13؍ مارچ تا 21؍ مئی 2020ء اپنے چھ شماروں میں بالاقساط جماعت احمدیہ کے خلاف 2018ء میں اسلام آباد ہائی کورٹ میںپیش کردہ اہم شرعی استدلال کی تفصیل کے بارے میں ڈاکٹر حافظ حسن مدنی(مدیر ماہنامہ محدث لاہور)کا ایک مقالہ شائع کیا ہے۔جس کا عنوان یہ ہے:’’مسلم حکومت میں غیر مسلموں پر عائد شرائط’’الشروط العمریة، شریعت اور تاریخ کے آئینے میں ‘‘۔ اس مقالہ کی وجہ تحریریہ بیان کی گئی ہے کہ ’’غیر مسلموں کے لیے مسلم معاشروں میں اسلامی علامات اور مشابہت سے گریز کرنا بھی شریعت کا تقاضہ ہے۔ اس سلسلے کی اہم ترین شرعی اور تاریخی دستاویز خلافت راشدہ میں اجماع صحابہؓ سے طے پانے والی ’’شروط عمریہ‘‘ ہیں جن کی بنیاددراصل بہت سی احادیث نبویہ اور شرعی احکام ہیں، جن میں غیر مسلموں کو دودرجن کے قریب مشابہتوں سے روکا گیا ہے۔ زیر نظر مقالے میں کتب حدیث و فقہ سے اس دستاویز کے متون، اس کی روایات کی تحقیق و تخریج اور اسلامی ادوار میں ان کے نفاذ کی تفصیلات پیش کی گئی ہیں۔ ‘‘

غیرمسلموں کے معاشرتی حقوق سے متعلق یہ مقالہ قرآن شریف کی تعلیم عدل و احسان و رواداری، رسول کریمﷺ، خلفائے راشدین اور صحابہ کرامؓ کے پاکیزہ نمونے پر ایک ظالمانہ حملہ ہے، اس لیے اس کی تحقیق و تدقیق وقت کی اہم ضرورت تھی۔ زیرنظر مضمون میں شروط عمریہ کی اصل حقیقت سے پردہ اٹھایاگیا ہے۔ (راقم)]

شروط عمریہ کے مقالہ نگار اہلحدیث ہیں شاید اس لیے انہوں نے اپنی تائید میں قرآن و سنت کی بجائےمحض کمزور روایات کا سہارا لینے کی ناکام کوشش کی ہے۔ شروط عمریہ پرمقالہ نگار کےا جماع صحابہ کا دعویٰ بھی خلاف واقعہ ہےجیساکہ اس مضمون میں قرآن کریم، سنت نبویؐ وخلفائے راشدین سے ثابت کیاگیاہے۔

رسول اللہﷺ کی بعثت کامقصدہی خالق سے مخلوق کا رشتہ استوارکرکے قیام عبادت، آزادیٔ مذہب، امن و آشتی پرمشتمل ایک حسین جنت نظیرمعاشرےکا نمونہ پیش کرناتھا۔ بانئ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے مذہبی رواداری اور آزادیٔ ضمیر کی بے نظیرتعلیم دی اور جبرو تشدد کی ماری دنیا کوصرف یہ نویدہی نہیں سنائی کہ

لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ (البقرة :257)

یعنی دین میں کوئی جبر نہیں بلکہ اس کا ایسا اعلیٰ نمونہ دکھایا جو رہتی دنیا تک یادرہے گا۔

اللہ تعالیٰ نے دین کے بارے میں جبر نہ کرنے کے اصول کی بنیاد یہ بیان فرمائی کہ اللہ تعالیٰ جو خالق ومالک ہے جب وہ اپنی مخلوق پر مذہب کے بارے میں کوئی جبر نہیں کرتا تو پھرانسانوں کو کس طرح دین میں جبر و اکراہ کی اجازت دی جاسکتی ہے۔ فرمایا:

وَ لَوۡ شَآءَ رَبُّکَ لَاٰمَنَ مَنۡ فِی الۡاَرۡضِ کُلُّہُمۡ جَمِیۡعًاؕ اَفَاَنۡتَ تُکۡرِہُ النَّاسَ حَتّٰی یَکُوۡنُوۡا مُؤۡمِنِیۡنَ (يونس:100)

اور اگر تىرا ربّ چاہتا تو جو بھى زمىن مىں بستے ہىں اکٹھے سب کے سب اىمان لے آتے تو کىا تُو لوگوں کو مجبور کرسکتا ہے حتى کہ وہ اىمان لانے والے ہو جائىں۔

رسول کریمﷺ نے دعوت اسلام دیتے ہوئے ہر مخاطب کو یہ آزادی دی کہ

فَمَنۡ شَآءَ فَلۡیُؤۡمِنۡ وَّ مَنۡ شَآءَ فَلۡیَکۡفُرۡ(الکہف:30)

یعنی جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر اختیار کرے۔

آپؐ نےکسی کے دین ومذہب میں ہرقسم کی مداخلت کی نفی کرتے ہوئے فرمایا:

لَکُمۡ دِیۡنُکُمۡ وَلِیَ دِیۡنِ۔ (الكافرون:7)

تمہیں اپنے دین کی آزادی ہے اور مجھے اپنے دین کا اختیار۔

اسلام کی امتیازی شان یہ بھی ہے کہ اس نے دیگر مذاہب و اقوام کے ساتھ عدل و احسان کی اس پاکیزہ تعلیم پرعمل کرکے رواداری کے بہترین نمونے پیش کیے۔ بے شک قیام عدل کی خاطر اسلامی تعلیم میں ظلم کا بدلہ لینے کی بھی اجازت ہے لیکن زیادہ پسندیدہ عفوہے۔ جس کا اجر خدا نے خود اپنے ذمّہ لیا ہے۔(الشوریٰ:41)

مسلمانوں کوبطور دفاع غیر مذہب کے صرف ان لوگوں سے جنگ کی اجازت دی ہے جو ازخودمسلمانوں پرحملہ آور ہوں۔ مگر ان کے ساتھ بھی زیادتی کی اجازت نہیں۔ (البقرة:191)

غیرمسلموں سے انصاف اور احسان

اس کےبرعکس جو لوگ مسلمانوں کے ساتھ کوئی شر انگیزی یا جنگ وغیرہ بھی نہیں کرتے، قرآن شریف نےان کے ساتھ حسن سلوک اور انصاف سے معاملات طے کرنےکی تعلیم دی اور فرمایا:

لَا یَنۡہٰٮکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیۡنَ لَمۡ یُقَاتِلُوۡکُمۡ فِی الدِّیۡنِ وَ لَمۡ یُخۡرِجُوۡکُمۡ مِّنۡ دِیَارِکُمۡ اَنۡ تَبَرُّوۡہُمۡ وَ تُقۡسِطُوۡۤا اِلَیۡہِمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُقۡسِطِیۡنَ۔ (الممتحنة:9)

اللہ تمہىں ان سے منع نہىں کرتا جنہوں نے تم سے دىن کے معاملہ مىں قتال نہىں کىا اور نہ تمہىں بے وطن کىا کہ تم اُن سے نىکى کرو اور اُن سے انصاف کے ساتھ پىش آؤ ىقىناً اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتاہے۔

چنانچہ حضرت اسماء بنت ابوبکرؓ کی (مشرک )والدہ مکہ سےانہیں ملنے مدینہ آئیں۔ تو انہوں نے نبی کریمؐ سے پوچھا کہ کیا مجھے مشرک والدہ کی خدمت اورحسن سلوک کی اجازت ہے؟ آپؐ نے فرمایا ہاں وہ تمہاری ماں ہے۔

(بخاری کتاب الادب باب 7)

ایک دفعہ مدینہ میں کسی یہودی کا جنازہ آرہا تھا۔ نبی کریمؐ احتراماً کھڑے ہوگئے۔ کسی نے عرض کیا کہ حضورؐ! یہ یہودی کا جنازہ ہے۔ آپؐ نے فرمایا کیا اس میں جان نہیں تھی۔ کیا وہ انسان نہیں تھا؟

(بخاری کتاب الجنائز باب48)

حضرت یعلیٰ ؓ بن مرہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریمؐ کے ساتھ کئی سفر کیے۔ کبھی ایک بار بھی ایسا نہیں ہوا کہ آپؐ نے کسی انسان کی نعش پڑی دیکھی ہو اور اسے دفن نہ کروایا ہو۔ آپؐ نے کبھی یہ نہیں پوچھا کہ یہ مسلمان ہے یا کافر ہے۔

(مستدرک حاکم جزء1صفحہ371)

غیرمسلموں سے بے انصافی کی ممانعت

غیرقوموں اور مذاہب کی مذہبی زیادتیوں کے جواب میں بے انصافی سے منع کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَ لَا یَجۡرِمَنَّکُمۡ شَنَاٰنُ قَوۡمٍ عَلٰۤی اَلَّا تَعۡدِلُوۡا ؕ اِعۡدِلُوۡا ۟ ہُوَ اَقۡرَبُ لِلتَّقۡوٰی (سورۃالمائدۃ:9)

اورکسی قوم کی دشمنی تمہیں ہرگز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو۔ انصاف کرو کہ یہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔

غیر مسلموں کوتبلیغ کی آزادی

اسلام نے غیر مذاہب والوں کو اپنے دین کی تبلیغ کی مکمل آزادی دیتے ہوئے فرمایا:

قُلۡ ہَاتُوۡا بُرۡہَانَکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ (البقرة:112)

تُو کہہ کہ اپنى کوئى مضبوط دلىل تو لاؤ اگر تم سچے ہو۔

اسی طرح فرمایا:

لِیَھلِکَ مَنْ ھَلَکَ عَنْ بَیِّنَۃٍ وَّ یَحْیٰ مَنْ حَیَّ عَنْ بَیِّنَۃٍ (الانفال:43)

تاکہ کھلی کھلی حجت کی رُو سے جس کی ہلاکت کا جواز ہو وہی ہلاک ہو اور کھلی کھلی حجت کی رو سے جسے زندہ رہنا چاہیے وہی زندہ رہے۔

گویا ہر مذہب و ملت کو دلیل کے ساتھ اپنا موقف پیش کرنے کا بنیادی حق حاصل ہے۔

دیگر مذاہب کےعبادت خانوں کی آزادی

اسلام ہر مذہب و ملت کو عبادت گاہوں کی حفاظت کی ضمانت دیتا ہے۔ فرمایا:

وَلَوۡ لَا دَفۡعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعۡضَہُمۡ بِبَعۡضٍ لَّہُدِّمَتۡ صَوَامِعُ وَ بِیَعٌ وَّ صَلَوٰتٌ وَّ مَسٰجِدُ یُذۡکَرُ فِیۡہَا اسۡمُ اللّٰہِ کَثِیۡرًا ؕ وَ لَیَنۡصُرَنَّ اللّٰہُ مَنۡ یَّنۡصُرُہٗ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَقَوِیٌّ عَزِیۡزٌ (الحج :41)

اور اگر اللہ کى طرف سے لوگوں کا دفاع اُن مىں سے بعض کو بعض دوسروں سے بِھڑا کر نہ کىا جاتا تو راہب خانے منہدم کر دىے جاتے اور گرجے بھى اور ىہود کے معابد بھى اور مساجد بھى جن مىں بکثرت اللہ کا نام لىا جاتا ہے اور ىقىناً اللہ ضرور اُس کى مدد کرے گا جو اس کى مدد کرتا ہے ىقىناً اللہ بہت طاقتور (اور) کامل غلبہ والا ہے۔

دیگر مذاہب کے افراد کے مطالبہ پناہ پر امن مہیا کرنا

اسلام نے دشمن قوم حتّٰی کہ مشرکین کا امن کے ساتھ زندہ رہنے کا حق بھی تسلیم کیا ہے چنانچہ فرمایا:

وَ اِنۡ اَحَدٌ مِّنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ اسۡتَجَارَکَ فَاَجِرۡہُ حَتّٰی یَسۡمَعَ کَلٰمَ اللّٰہِ ثُمَّ اَبۡلِغۡہُ مَاۡمَنَہٗ ؕ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ قَوۡمٌ لَّا یَعۡلَمُوۡنَ (سورۃالتوبۃ:6)

اور مشرکوں میں سے اگر کوئی تجھ سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دے یہاں تک کہ وہ کلام الٰہی سن لے پھر اسے اس کی محفوظ جگہ تک پہنچادے یہ (رعایت) اس لیے ہے کہ وہ ایک ایسی قوم ہیں جو علم نہیں رکھتے۔

دیگرمذاہب کی قابل احترام ہستیوں اور ان کے شعائر کا احترام

بانئ اسلام نے رواداری کی یہ تعلیم بھی دی ہے کہ مذہبی بحثوں کے دوران جوش میں آکر دوسرے مذہب کی قابل احترام ہستیوں کو برا بھلا نہ کہو۔ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَ لَا تَسُبُّوا الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوا اللّٰہَ عَدۡوًۢا بِغَیۡرِ عِلۡمٍ (الانعام:109)

اور تم ان کو گالیاں نہ دوجن کووہ لوگ اللہ کے سوا پکارتے ہیں۔ ورنہ وہ بھی اللہ کو دشمنی کی راہ سے نادانی میں گالی دیں گے۔

رسول کریمؐ نےبانیان مذاہب کے احترام کی تعلیم دی اوراس بنیادی حقیقت سے پردہ اُٹھایا کہ ہر قوم میں نبی آئے اور آغاز میں ہر مذہب سچائی پر قائم تھا مگر بعد میں اپنے نبی کی تعلیم سے انحراف کی وجہ سے بگاڑ پیدا ہوا۔ تاہم اب بھی ہرمذہب میں کچھ حصہ ہدایت کا موجود ہے۔ (النحل:64)

آپؐ نے یہ تعلیم بھی دی کہ سب اقوام کے نبی مقدس اور برگزیدہ تھے، اس لیے وہ منافرت دور کرنی چاہیے جو دائرۂ ہدایت کومحدود کرنے سے پیدا ہوتی ہے اور باوجود مذہبی اختلاف کے دیگر اقوام و مذاہب سے اتحاد رکھنا چاہیے اور انسانیت کے ناطے ان کے ساتھ محبت وپیار کا سلوک کرناچاہیے۔

اسی طرح اللہ تعالیٰ غیر مسلموں کے شعائر کے احترام کا حکم دیتے ہوئے فرماتا ہے:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُحِلُّوۡا شَعَآئِرَ اللّٰہِ وَ لَا الشَّہۡرَ الۡحَرَامَ وَ لَا الۡہَدۡیَ وَ لَا الۡقَلَآئِدَ وَ لَاۤ آٰمِّیۡنَ الۡبَیۡتَ الۡحَرَامَ یَبۡتَغُوۡنَ فَضۡلًا مِّنۡ رَّبِّہِمۡ وَ رِضۡوَانًا ؕ وَ اِذَا حَلَلۡتُمۡ فَاصۡطَادُوۡا ؕ وَ لَا یَجۡرِمَنَّکُمۡ شَنَاٰنُ قَوۡمٍ اَنۡ صَدُّوۡکُمۡ عَنِ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ اَنۡ تَعۡتَدُوۡا ۘ وَ تَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡبِرِّ وَ التَّقۡوٰی ۪ وَ لَا تَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡاِثۡمِ وَ الۡعُدۡوَانِ ۪ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ شَدِیۡدُ الۡعِقَابِ (المائدة:3)

اے لوگو جو اىمان لائے ہو!شعائراللہ کى بے حرمتى نہ کرو اور نہ ہى حرمت والے مہىنہ کى اور نہ قربانى کے جانوروں کى اور نہ ہى قربانى کى علامت کے طور پر پٹے پہنائے ہوئے جانوروں کى اور نہ ہى ان لوگوں کى جو اپنے ربّ کى طرف سے فضل اور رضوان کى تمنا رکھتے ہوئے حرمت والے گھر کا قصدکر چکے ہوں اور جب تم اِحرام کھول دو تو (بے شک) شکار کرو اور تمہىں کسى قوم کى دشمنى اس وجہ سے کہ انہوں نے تمہىں مسجدِ حرام سے روکا تھا اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم زىادتى کرو اور نىکى اور تقوىٰ مىں اىک دوسرے سے تعاون کرو اور گناہ اور زىادتى (کے کاموں ) مىں تعاون نہ کرو اور اللہ سے ڈرو ىقىناً اللہ سزا دىنے مىں بہت سخت ہے۔

سنت رسولﷺ کا سنہری ورق، میثاق مدینہ

تیرہ سالہ مکی دَور میں سخت مخالفت کے نتیجہ میں مذہبی آزادی اور اظہار رائے و عقیدہ کے سلب ہوجانے کے بعدنبی کریمﷺ کووہاں سےمدینہ ہجرت کرنی پڑی۔ (الحج آیت40، 41)

مدینہ میں بھی دشمن نے تعاقب کیا تو مظلوم مسلمانوں کو اپنے دفاع کے لیے جنگ کرنی پڑی مگراس سے بھی پہلے بانیٔ اسلام نے اہل مدینہ کے یہود، مشرکین اور عیسائیوں کے ساتھ ایک معاہدہ امن و صلح میثاق مدینہ کے نام سے کیا، جو اسوۂ رسولﷺ کا ایسا روشن اور تاریخ ساز ورق ہےجس میں موجود تمام مذاہب مسلمان، یہود اور مشرکین وغیرہ کو مکمل مذہبی آزادی عطا کی گئی۔

یہ معاہدہ حقوق انسانی، مساوات اور حریت ضمیر و مذہب کا عظیم شاہکار، قرآنی تعلیم کا خلاصہ اور سنت رسولﷺ کا حاصل ہے۔ اس معاہدہ کی مذہبی آزادی سے متعلق شقوں کا ذکر یہاں مناسب ہوگا۔

1۔ اس معاہدہ کی بنیادی شرط یہ تھی کہ یہود کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہوگی اور اس معاہدہ کے نتیجہ میں کچھ حقوق انہیں حاصل ہوں گے اور کچھ ذمہ داریاں عائد ہوں گی۔

2۔ معاہدہ کی دوسری اہم شق یہ تھی کہ مدینہ کے مسلمان مہاجرین وانصار اور یہود اس معاہدہ کی رو سے ’’اُمّتِ واحدہ‘‘ ہوں گے۔ (ظاہر ہے مذہبی آزادی اور اپنے اپنے دین پر قائم رہنے کے بعد امت واحدہ سے مراد وحدت اور امت کا سیاسی تصور ہی ہے۔)

3۔ معاہدہ کی تیسری بنیادی شق میں صراحت ہے کہ بنی عوف کے یہود مسلمانوں کے ساتھ مل کر ایک سیاسی امت ہوں گے۔ یہود کو اپنے دین کی آزادی اور مسلمانوں کو اپنے دین میں مکمل آزادی ہوگی۔

4۔ معاہدہ کی چوتھی شق کے مطابق مسلمانوں اور یہود کے مدینہ پر حملہ کی صورت میں ایک دوسرے کی مدد لازم تھی۔ مسلمان اپنے اخراجات کے ذمّہ دار اور یہود اپنے اخراجات کے ذمہ دار خود ہوں گے البتہ جنگ میں باہم مل کر خرچ کریں گے۔

5۔ پانچویں شق کے مطابق فریقین ایک دوسرے کی خیرخواہی کریں گے اور نقصان نہیں پہنچائیں گے۔

(السیرة النبویة لابن ہشام جلد2صفحہ147تا150)

معاہدہ اہل حنین و خیبر و مقنا

رسول اللہﷺ کی حیات مبارک میں جب فتوحات کا سلسلہ شروع ہوا تو7؍ہجری میں فتح خیبر کےبعد وہاں کے یہود سے معاہدہ ہوا جس کی بنیادی شرائط اسی قرآنی تعلیم عدل و انصاف اور سنت رسولﷺ کے پاکیزہ نمونہ آزادیٔ مذہب کے مطابق تھیں۔ پھراہل حنین و خبیر و مقنا سے معاہدے اسی بنیاد پر ہوئے جن کی مذہبی آزادی کی ضمانت پر مشتمل درج ذیل شقیں خاص طور پر قابل ذکر ہیں :

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

یہ امان نامہ خدا کے رسول محمدﷺ کی طرف سے ہے مندرجہ ذیل طبقات کے لیے:

(الف) اہل حنین(ب) اہل خیبر(ج) اہل مقنا(د) اور ان سب کی ذریت کے لیے۔

میعاد امان: تاقیامت(مادامت السموات والارض)

میں انہیں اس خدائے بے ہمتا کی حمد و ثنا کے ساتھ سلامتی کی بشارت دیتا ہوں جس کے سوا کوئی الٰہنہیں۔

بعد ازیں یہ کہ مجھے وحی الٰہی کے ذریعے تینوں طبقات کے اپنے اپنے گھروں میں لوٹنے کی اطلاع ہوئی ہے؛ سو ضرور لوٹ جائے۔ سب کے لیے خدا اور خدا کے رسولﷺ کی طرف سے پناہ ہے۔ نہ صرف تمہاری جانوں کے لیے امان ہے بلکہ

i.تمہارے دین

ii.تمہارے اموال

iii.تمہارے غلام

iv.تمہاری جملہ املاک

ان سب میں خدا اور اس کے رسولؐ کا ذمہ ہے۔

ماسوائے مذکورہ بالا رعایتوں کے یہ مراعات بھی دی جاتی ہیں :

1.جزیہ کی معافی۔

2.پیشانی کے بال ترشوانا(آزادکردہ غلاموں کے لیے ایک دفعہ یہ عمل کیا جاتا ہے)۔

3.اسلامی لشکر تم پر حملہ نہ کرے گا۔

4.ترک بیگار۔

5.فوجی مہم میں شرکت سے استثناء۔

6.فوجی ضرورت کے لیے تمہارے گھر خالی کرانے کی معافی۔

7.لباس اور اس کی رنگت میں ذمیوں کی سی پابندی معاف ہے۔

8.گھوڑے پر سواری کی اجازت ہے۔

9.مسلح ہوکر نکلنے کی اجازت ہے۔

10.تم خود پر حملہ آور کے خلاف جنگ کرسکتے ہو۔ ایسی لڑائی میں تمہارے مخالف کے مقتولوں کی دیت یا قصاص تم پر نہ دلوایا جائے گا۔

11.لیکن جب تم میں سے کوئی شخص کسی مسلمان کا ناحق خون کردےتب جس طرح مسلمان قاتل پر قصاص یا دیت لازم کردی جاتی ہے تم پر بھی لازم ہے۔

12.تم پر ناحق بے حیائی کا افترا نہ کیا جائے گا۔

13.نہ تمہیں عام ذمیوں کے درجے میں سمجھا جائے گا۔

14.تمہارے درخواست کرنے پر تمہاری مدد کی جائے گی۔

15.تمہارے آنےپر تمہاری مہمانی کی جائے گی۔

اور حقوقِ ریاست میں تم پر سے مندرجہ ذیل اشیا ساقط ہیں :

16.تم سے سونا، چاندی، گندم، مویشی، زرعین ادا کرنے اور کمر پر پٹکا باندھنے کا مطالبہ نہ کیا جائےگا۔

17.تمہارے لیے تم ہی میں سے سردار مقرر کیا جائے گا یا اہل بیت رسولؐ خدا میں سے۔

18.تمہارے جنازے لے جانے کی راہ میں رکاوٹ نہ ہوگی۔

19.تمہاری یہ تعظیم ام المومنین(صفیہ تمہاری عم زاد بہن) کی بدولت ہے۔

20.اہل بیت رسولؐ اور جملہ مسلمانوں پر تمہارے شرفاء کی تعظیم واجب ہے۔

21.تمہارے معمولی مسامحات معاف کردیے جائیں گے۔

22.تم میں جو شخص سفر میں ہو وہ خدا اور اس کے رسولؐ کی پناہ میں ہے۔

23.اسلام میں کسی کو اکراہاً مسلمان کرنا روا نہیں۔ (لا اکراہ فی الدین)

24.تم میں سے جو شخص رسول اللہﷺ کے دین میں داخل ہوکر ان کے احکام پر چلے اس کےلیے رسول اللہﷺ کے اہل بیت کے موجب میں سے ایک چوتھائی وظیفہ مقرر کیا جاتا ہے جو قریش کے مقرر کردہ موجب کے ساتھ عطا ہوگا۔ یہ رقم پچاس دینار ہے۔ تمہارے لیے یہ وظیفہ میری طرف سے عنایت ہے۔

25.رسول اللہﷺ کے اہل بیت اور تمام مسلمانوں پر اس وثیقہ کی پابندی لازم کی جاتی ہے۔

26.جوشخص اہل حنین و خیبر اور مقنا میں رہنے والوں کے ساتھ بھلائی کرے اسے اس کے احسان سے بہتر معاوضہ دیا جائے گا۔

27.اور جو شخص ان(ہر سہ) میں سے کسی کے ساتھ برائی کرے اس سے بدلہ لیا جائے۔

28.جو شخص میرا یہ خط پڑھے یا اسے سنے اور اس میں تغیر یا اس کی مخالفت کرے ایسے شخص پر اللہ اور ملائکہ اور تمام جہان کی طرف سے لعنت ہے۔ ایسا ملعون قیامت کے روز نہ صرف میری شفاعت سے محروم ہوگا بلکہ میں خداکے سامنے اس کا دشمن ہوں گا اور جس کا میں دشمن ہوں گا خدا بھی اس کا دشمن ہوگااور جس کا خدا دشمن ہوگا وہ دوزخ کا کندا ہوگا۔ دوزخ بہت تکلیف دہ مقام ہے جس کی شہادت خدائے یکتا، ملائکہ، عرش برداران اور مسلمان دیتے ہیں۔

محرر: علی بن ابی طالب بقلمہ

رسول اللہﷺ کا فرمودہ حرف حرف علیؓ نے لکھا

گواہان:1۔ عمار بن یاسر

2۔ سلمان فارسی مولیٰ رسول اللہﷺ

3۔ ابوذر غفاری

(آنحضرتﷺ کے فرامین، معاہدات۔ مکاتیب اور خلفائے راشدین کے احکام سیاسی وثیقہ جات از ڈاکٹر حمیداللہ حیدرآبادی، اردو مترجم مولانا ابو یحیٰ امام خاں نوشہروی صفحہ 73تا76)

معاہدۂ نجران

پھر9؍ہجری میں ہی نجران کے عیسائیوں نےمدینہ آکررسول کریمﷺ سےمعاہدہ صلح کیا۔ جو عین قرآنی تعلیم اور سنت رسولﷺ کےمطابق عدل واحسان اور آزادیٔ مذہب کا آئینہ دار ہے۔ اس بارے میں خاص طور پر قابل ذکر شِقیں حسب ذیل ہیں :

مصرف بن عمرو، یونس، ابن بکیر، اسباط بن نصر اسماعیل بن عبدالرحمٰن قرشی نے حضرت ابن عباس ؓسے روایت کیاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے نجران کے عیسائیوں سے صلح کی اس شرط پر کہ وہ سال میں دو ہزار کپڑے کے جوڑے وغیرہ مسلمانوں کو دیا کریں گے… اس شرط پر کہ ان کا کوئی گرجا گرایا نہ جائے گا اور ان کا کوئی پادری نہ نکالا جائے گا اور نہ ان کے دین میں مداخلت ہوگی اور یہ اس وقت تک ہوگا جب تک کہ وہ کوئی نئی بات نہ نکالیں۔

(سنن أبي داود کتاب الخراج بَابٌ فِي أَخْذِ الْجِزْيَةِ)

ابو حارث بن علقمہ نجران کے پادری کےنام مذہبی مراعات کے مکتوب کے قابل ذکر نکات

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

من جانب محمد نبیﷺ بنام ابو حارث بشمول نجران کے دیگر پادری، راہب اور کاہن۔

1.سب اپنی اپنی تھوڑی بہت شے کے خود مالک ہیں۔

2.ان کے گرجے، عبادت خانے اور خانقاہوں کی حفاظت خدا کے ذمہ ہے۔

3.ان کے پادریوں اور راہبوں کو ان کے طریق عبادت اور کاہنوں کو نہ ان کے پیشہ سے ہٹایا جائے گا نہ ان کے حقوق میں مداخلت کی جائے گی۔

ان امور پر ایفائے عہد کی ذمہ داری بھی خدا اور رسولؐ پر ہے بشرطیکہ یہ لوگ ہمارے ساتھ کیے ہوئے معاہدے کی خود بھی پابندی کریں اور ہماری خیر طلبی پر قائم رہیں۔ تب انہیں کسی قسم کی مزید زیر باری سے دوچار کیا جائے گا نہ ان پر کسی قسم کا ظلم روا رکھا جائے گا۔

کاتب : مغیرہ

(آنحضرتﷺ کے فرامین، معاہدات، مکاتیب اور خلفائے راشدین کے احکام سیاسی وثیقہ جات صفحہ 111-112)

مسیحیان نجران کے ساتھ معاہدہ کی دیگر شرائط میں مذہبی آزادی کی ضمانت

مسیحیان نجران سے معاہدہ کے ایک اَور نسخے میں شرائط معاہدہ مزید تفصیل سے موجود ہیں جس کے خاص نکات قابل ذکر ہیں :

1.ان کے گرجے، عبادت خانے، خانقاہیں اور مسافر خانے خواہ وہ پہاڑوں میں ہوں یا کھلے میدان یا تیرہ و تار غاروں کے اندر ہوں یا آبادیوں میں گھرے ہوئے ہوں یا وادیوں کے دامن اور ریگستان میں ہوں، سب کی حفاظت میرے ذمہ ہے۔

2.ان معاہدین اور ان کے ہم مشرب گروہ کے عقائد و رسوم مذہب کے تحفظ کی ذمہ داری میری ہے۔

3.یہ لوگ خشکی اور بحری، شرق و غرب کے کسی حصے میں کیوں نہ ہوں ان کے لیے میرے ساتھ مسلمانوں کا ہر فرد اس امان نامے کا پابند ہے۔

4.ہم اپنی جنگی مہموں میں انہیں ان کی رضامندی کے بغیر شریک نہیں کر سکتے۔

5.ان کے پادری، راہب اور سیاح جن مناصب پر ہیں انہیں معزول نہ کروں گا۔ ان کی عبادت گاہوں میں بھی مداخلت نہ کروں گا۔ نہ انہیں مساجد میں تبدیل کروں گا۔ نہ انہیں مہمان سرائے کے طور پر استعمال کروں گا۔

  1. ذمی کو مسلمانوں کی حمایت میں جنگ کرنے پر مجبور نہ کیا جائے، وہ ہمارے پناہ گزین ہیں جو اپنی امان کا عوض ادا کرتے ہیں۔

7.جنگ کے موقع پر ان سے گھوڑے اور اسلحہ بھی نہ لیا جائے اگر از خود امداد کرنا چاہیں تو صحیح۔

8.نصرانی کو مسلمان ہونے کے لیے اکراہ نہ کیا جائے۔

9.ان سے مذہبی گفتگو میں احسن طریق سے پیش آیا جائے۔ انہیں اپنی مہربانی کا مورد رکھا جائے۔

10.ان کی ایذا دہی کا ارادہ نہ کیا جائے…وہ کہیں بھی ہوں۔

11.ان کے کسی فرد سے جرم سرزد ہو تو مسلمانوں کو ان کے درمیان انصاف کرنا چاہیے۔ جہاں تک ہوسکے فریقین مقدمہ میں صلح کرادی جائے۔

12.انہیں کسی حالت میں خود سے دور کیاجائے۔ نہ ذلیل اور نظرانداز کیا جائے اس لیے کہ میں انہیں معافی دے چکا ہوں۔

13.عدل و انصاف اور سماجی معاملات میں ان کے حقوق مسلمانوں کے برابر ہیں۔

14.ان کی عورتیں، جن سے عقد حلال ہے، مسلمان انہیں زبردستی نکاح میں نہ لائیں۔ ان کی طرف سے انکار کی حالت میں ایسا ارادہ ان کو تکلیف پہنچانا ہے۔ نکاح توخوشی سے ہونا چاہیے۔

15.وہ اور مسلمان دونوں جرائم کی سزا میں برابر ہیں۔

16.جس مسلمان کے گھر میں نصرانی عورت ہو اسے اپنے مذہبی شعائر ادا کرنے کی اجازت ہونا چاہیے۔ وہ عورت جب چاہے اپنے علماء سے مسئلہ دریافت کر سکتی ہے۔ جو شخص اپنی نصرانی بیوی کو اس کے مذہبی شعائر ادا کرنے سے منع کرے وہ خدا اور رسول کی طرف سے ان کو دیے گئے میثاق کا مخالف اور عند اللہ کاذب ہے۔

17.اگر وہ اپنی عبادت گاہوں اور خانقاہوں یا قومی عمارتوں کی مرمت کرنا چاہیں اور مسلمانوں سے مالی اور اخلاقی امداد کے طلب گار ہوں تو ان کی اعانت کرنا ہی چاہیے۔ یہ اعانت ان پر فرض اور احسان نہ ہوگی بلکہ اس میثاق کی تقویت ہوگی جو رسول نے ازراہ احسان و کرم ان سے کیا۔

جو نصرانی ان دفعات میں سے کسی ایک کی مخالفت بھی کرے اور یہ حقوق مسلمانوں کے سوا ان کے دشمنوں کے لیے ادا کرے۔ ایسا شخص اللہ اور رسولؐ کے ذمہ سے بری ہے۔ ان پر ایسے معاہدات کی ذمہ داری ہے۔ جس سے انہیں ان کے رہبان نے مطلع کیا اور میں نےرہبان سے اور ہر نبی نے امان کے عوض میں اپنی امت سے جو وعدہ لیا، امت پر اس کا ایفا اور نبی پر امت کی حفاظت واجب ہے۔ ان دونوں میں قیامت تک تغیر و تبدل نہیں ہوسکتا۔ انشاء اللہ۔

محرر: معاویہ بن ابو سفیان

گواہان:32گواہان صحابہ

(سیاسی وثیقہ جات صفحہ 121-127)

تجدید معاہدہ اہل نجران از خلفائے راشدین

رسول اللہﷺ کے اہل نجران کے ساتھ معاہدہ کی تجدید حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ نے بھی فرمائی۔ اسی طرح حضرت عثمانؓ نے بھی اہل نجران سے نرمی فرمائی۔ حضرت علیؓ نے بھی رسول اللہﷺ کا امان نامہ دیکھ کر جو تجدید فرمائی وہ یہ ہے:

بسم الله الرحمٰن الرحیم

یہ تحریر عبدالله بن ابوطالب امیر المومنین کی جانب سے اہل نجران کے لیے ہے۔

تم نے حضرت نبیؐ الله کا تحریری امان نامہ دکھایا جس کی رو سے تمہاری جان اور مال کی ذمہ داری لی گئی ہے۔

میں حضرت محمدؐ و ابوبکرؓ اورعمرؓ تینوں کی تحریر پرعمل پیرا ہوں اورحکم دیتاہوں کہ جومسلمان تمہارے ہاں وصولِ تحصیل کےلیے جائے تمہاری جان و مال کی حفاظت کرے۔ ایسا ہرگز نہ ہو کہ وہ تم پر ظلم کرے اورتمہارے حقوق کم کر دینے کی مصیبت میں تمہیں ڈالے۔

محرر: عبد اللہ بن ابو رافع

10جمادی الآخر37ھ

(سیاسی وثیقہ جات صفحہ 135)

سینٹ کیتھرین کے راہبوں کو امان نامہ

اسی طرح عہدنبویؐ میں بھی سینٹ کیتھرین کے راہبوں کو تاریخی امان نامہ عطا ہواجس میں تمام شرائط قرآنی تعلیم کے مطابق مذہبی آزادی اور عدل و انصاف پر مشتمل تھیں جن کی قابل ذکر شقیں درج ذیل ہیں :

٭…ان پرکسی بھی معاملہ میں کسی قسم کاکوئی جبر اور زبردستی نہیں۔

٭…ان کا کوئی پادری یا راہب تبدیل نہیں کیا جائےگا، اسی طرح نہ ہی کسی گرجے میں رہنے والے اور نہ ہی کسی زائر کو زیارت سےروکا جائے گا۔

٭…ان کی کسی مذہبی عمارت کو مسمار نہیں کیا جائے گا۔

٭…جو کوئی ایسے فعل کا مرتکب ہوگا تو اس نے اللہ سے عہد شکنی کی اور اپنے رسول کی مخالف کی۔

٭…راہبوں، پادریوں اور عابدوں پرکسی قسم کا جزیہ لاگو نہ ہوگا۔

٭…اور میں (رسول اللہﷺ ) ان کے ذمہ کی حفاظت کروںگا وہ خشکی و تری، مشرق ومغرب وغیرہ جہاں کہیں بھی ہوں۔

٭…ان سے احسن طریق سے بحث کی جائے۔

٭…ان سے رحمدلی کا سلوک کیا جائے۔

٭…عیسائیوں سے جہاں کہیں بھی وہ مقیم ہوں، ناپسندیدہ معاملہ نہیں کیا جائےگا۔

٭…اگر کوئی عیسائی عورت کسی مسلمان کے ہاں ہو تو اس مسلمان کے ذمہ ہوگا کہ وہ اس عیسائی عورت کی مرضی اور خواہش کے مطابق اس کے گرجے میں اس کی نماز ادا کرنے دے اوروہ اس عورت کے درمیان اور اس کے دین کی خواہش کے درمیان حائل نہیں ہوگا۔

٭…اگر عیسائیوں کو اپنے گرجوں وغیرہ کی تعمیر یا کسی مذہبی امر میں مدد کی ضرورت ہوتو مسلمانوں کو ہر طرح کی اعانت کرنی چاہیے۔ اس سے ان کے مذہب میں شرکت نہیں ہوگی صرف ان کے احتیاج کو رفع کرنا مقصود ہے۔

(مجموعة الوثائق السياسية للعهد النبوي والخلافة الراشدة جزء1صفحہ561تا563)

پھربنی جنبة، بنی عادیا اوربنی ضمرة وغیرہ مختلف قبائل سے معاہدات ہوئے جن سب میں حریّت مذہب، آزادیٔ ضمیراوررواداری کے بنیادی اصول واضح اور نمایاں ہیں جیساکہ ان معاہدات سے ظاہر و باہر ہےجس پر رسول اللہﷺ کے بعد خلفائے راشدین بھی عمل پیرا رہے۔

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

ایک تبصرہ

  1. ماشاء اللہ حافظ صاحب نے انہتائی عمدگی سے حقیقت کو بالکل واضح کردیا ہے۔اللہ تعالیٰ آپ کے علم وعرفان میں مزید ترقی دے اور ہمیشہ مہدی کا سلطان نصیر بنائے رکھے۔آمین

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button