سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

باغ میں ملّت کے ہے کوئی گلِ رعنا کھلا

حضرت مسیح موعودؑ کے آبا واجداد

حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰة والسلام کے والد ماجد(حصہ ہفتم)

حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحبؒ

[پیدائش:اندازاً1791ءوفات:جون1876ء]

ایک دین دار اور خداپرست انسان

حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحب کے جتنے سوانح ہمارے سامنے بیان ہوئے ہیں ان پریکجائی نگاہ ڈالی جائے توآپ کے متعلق ایک بات جو سب سے نمایاں طور پر ہمارے سامنے آتی ہے وہ یہ کہ آپؒ ایک ایسے بزرگ انسان تھےجو باوجود دنیاکے دھندوں میں مصروف رہنے کے اپنے خداکے ساتھ ایک ایسا تعلق رکھے ہوئے ضرورتھے کہ دنیاوی دھندوں کی دھول تو اس پر پڑتی رہی لیکن وہ دل اپنے خداکی یاد سے غافل نہیں رہا۔اس بزرگ انسان کی سوانح پڑہتے ہوئے ذرا اس کے قریب ہوں تو اس کے دل سے نکلنے والی یہ صدا ہم سن سکتے ہیں کہ بقول غالب:

گو میں رہا رہینِ ستم ہائے روزگار

لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا

اس کے پاک دل کا ایک گوشہ اپنے خالق اورمالک کی ذات کے ساتھ وابستہ ضرور تھا۔اور یہ وابستگی آپ کی زندگی میں ایک چنگاری کی طرح رہی جس کی حرارت کبھی قریب رہنے والے اور دیکھنے والے محسوس کرتے اور اہل دل مشاہدہ کرتے رہے۔لیکن یہی چنگاری ان کی زندگی کے آخری وقت میں بھڑک کر شعلہ سا بن کر سامنے آتی ہے۔حضرت اقدسؑ بانی سلسلہ احمدیہ اپنے والد بزرگوار کی اس کیفیت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’…حضرت والد صاحب کی تلخ زندگی کا نقشہ مجھے اس بے لوث زندگی کا سبق دیتا تھا جو دنیوی کدورتوں سے پاک ہے۔ اگرچہ حضرت مرزا صاحب کے چنددیہات ملکیت باقی تھے اورسرکار انگریزی کی طرف سے کچھ انعام بھی سالانہ مقرر تھا اور ایام ملازمت کی پنشن بھی تھی۔ مگر جو کچھ وہ دیکھ چکے تھے اس لحاظ سے وہ سب کچھ ہیچ تھا۔ اسی وجہ سے وہ ہمیشہ مغموم اور محزون رہتے تھے۔ اور بارہا کہتے تھے کہ جس قدر میں نے اس پلید دنیا کے لئے سعی کی ہے اگر میں وہ سعی دین کے لئے کرتا تو شاید آج قطب وقت یا غوث وقت ہوتا اور اکثر یہ شعر پڑھاکرتے تھے:ؔ

عمر بگذشت و نماند ست جز ایّامےچند

بہ کہ در یاد کسے صبح کنم شامے چند

[ترجمہ :میری ساری عمر گزرگئی اور اب تو سوائے چند دنوں کے کچھ نہیں رہا۔اب تو بہتر ہے کہ یہ چند صبحیں اور شامیں کسی( یعنی اپنے محبوب خدا)کی یاد میں گزاردوں]

اور میں نے کئی دفعہ دیکھا کہ وہ ایک اپنا بنایا ہوا شعر رقت کے ساتھ پڑھتے تھے اور وہ یہ ہے:

ازدرِ تو اے کسِ ہر بیک سے

نیست امیدم کہ روم نا امید

[ترجمہ:اے ہر بے سہاروں کے سہارے ! مجھے ہرگز امیدنہیں کہ مَیں تیرے دَر سے ناامید جاؤں گا۔]

اور کبھی درد دل سے یہ شعر اپنا پڑھا کرتے تھے۔

بآب دیدۂ عشاق وخاکپائے کسے

مرا دلےست کہ درخوں تپد بجائے کسے‘‘

[ترجمہ:کوئی تو عاشقوں کی آنکھوں کا پانی اور کوئی ان کی خاکِ پا ہوتاہے۔لیکن میری دلی تمنا ہے کہ کسی اور کی بجائے میں خون میں تڑپوں ]

(کتاب البریہ،روحانی خزائن جلد13صفحہ188-189حاشیہ)

آخری عمر کایہی تأسّف توتھا جو ساری عمرکی کوتاہیوں کا مداواکرگیا اوراس کریم اور شکور خدااور غفور اور رحیم خدا نے، اس کی شان کریمی نے اس عرق انفعال کے موتیوں کو چن لیا اور اپنی درگاہ میں قبول کیا۔اور ایسا خوبصورت انجام کیا، ایسا خاتمہ بالخیر کیا کہ ریاضتیں اورعبادتیں اس پر نثار!

یہاں میں آپ کی ایک رؤیا کا ذکر کئے بغیر نہیں رہ سکتاجس میں انہوں نے دونوں جہانوں کے شہنشاہ رحمۃ للعالمین حضرت محمدمصطفیٰ ﷺ کو اپنی جانب آتے ہوئے دیکھا۔ہرچند کہ اس کی تعبیر جو بھی سمجھی جائے لیکن اس ہستی کا خواب میں نظر آجاناہی ایک بہت بڑی سعادت ہے۔ اوربخشش ومغفرت کے لئے کافی۔حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام اس رؤیا کاذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’ایک مرتبہ حضرت والد صاحب نے یہ خواب بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ ایک بڑی شان کے ساتھ میرے مکان کی طرف چلے آتے ہیں جیسا کہ ایک عظیم الشان بادشاہ آتا ہے تو میں اُس وقت آپ کی طرف پیشوائی کے لئے دوڑا جب قریب پہنچا تو میں نے سوچا کہ کچھ نذر پیش کرنی چاہئے۔ یہ کہہ کر جیب میں ہاتھ ڈالا جس میں صرف ایک روپیہ تھا اور جب غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ بھی کھوٹا ہے۔ یہ دیکھ کر میں چشم پُرآب ہوگیا اور پھر آنکھ کھل گئی۔ اور پھر آپ ہی تعبیر فرمانے لگے کہ دنیاداری کے ساتھ خدا اور رسول کی محبت ایک کھوٹے روپیہ کی طرح ہے…‘‘

(کتاب البریہ،روحانی خزائن جلد13صفحہ189-190حاشیہ)

آپ کی ایک اَور رؤیا کا ذکر حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا۔آپؑ فرماتے ہیں :

’’ایک دفعہ ہمارے والد صاحب نے ایک خواب دیکھا کہ آسمان سے تاج اترااور انہوں نے فرمایا یہ تاج غلام قادر کے سر پر رکھ دو (آپ کے بڑے بھائی ) مگر اس کی تعبیر اصل میں ہمارے حق میں تھی جیسا کہ اکثر دفعہ ہوجاتاہے کہ ایک عزیز کے لئے خواب دیکھو اور وہ دوسرے کے لئے پوری ہوجاتی ہے۔اور دیکھو کہ غلام قادر تووہی ہوتاہے جو قادر کاغلام اپنے آپ کو ثابت بھی کردے اور انہیں دنوں میں مجھ کو بھی ایسی ہی خوابیں آتی تھیں۔پس میں دل میں سمجھتا تھا کہ یہ تعبیر الٹی کرتے ہیں۔اصل میں اس سے مَیں مراد ہوں۔سید عبدالقادر جیلانی نے بھی لکھا ہے کہ ایک زمانہ انسان پر ایسا آتاہے کہ اس کا نام عبدالقادر رکھا جاتاہے جیسا کہ میرانام بھی خداتعالیٰ نے الہام کے ذریعہ سے عبدالقادر رکھا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد9صفحہ 202)

آپ کی بزرگی اور آپ کا خدا کے ساتھ جوایک تعلق تھا اسکو غیر بھی محسوس کرتے تھے۔ چنانچہ یہاں ایک غیرجانبدارہندوکی شہادت درج کرنی بھی مناسب ہے۔یہ ایک تاریخی خط ہے جو بہت کم سلسلہ کے لٹریچر میں سامنے آیاہے۔مئی 2008ء میں سیرت المہدی حصہ پنجم کے ساتھ یہ شائع ہواہے۔جسے حضرت صاحبزادہ مرزابشیراحمدصاحبؓ نے 1945ء میں تاریخ احمدیت کے لئے محفوظ فرمایاتھا۔

لالہ بھیم سین صاحب ایک ہندووکیل تھے اورحضرت اقدس علیہ السلام کے ساتھ ان کے دوستانہ تعلقات تھے۔ اور جوآخری وقت تک قائم رہے۔لالہ بھیم سین کے بیٹے بیرسٹرلالہ کنورسین جو کہ پرنسپل لاء کالج لاہورتھے اور بعد میں ریاست ہائے کشمیرجودھ پورالوروغیرہ کے چیف جسٹس وجوڈیشل منسٹر کے عہدوں پر فائز رہے۔وہ اپنے ایک انگریزی خط میں لکھتے ہیں۔

“…My father used to have correspondence with him and I remember to have seen some of his letters. My father used to mention to me those incidents which are stated in this book.The one regarding the prophecy about his success in the pleadership examination bears repetition. Mirza sahib had written to ask my father to confirm this incident, which Mirza sahib wanted to publish in his book, ‘Burahin-i-ahmadiya’, my father used to tell me that in reply, he confirmed the incident but added that more than he Mirza Sahibs worthy father was in his (my fathers) opinion a prophet,because, He (Mirza sahibs father)had foretold while Mirza Sahib was born and was yet a child that the new born child was to be a Wali ہمارے گھر میں ولی پیداہواہے……”

ترجمہ:’’میرے والد صاحب آپ کے ساتھ خط وکتابت کرتے رہتے تھے اورمجھے یاد ہے کہ میں نے آپ کے بعض خطوط بھی دیکھے تھے۔میرے والد صاحب ان واقعات کا تذکرہ کرتے رہتے تھے جن کا ذکر اس کتاب میں کیاگیاہے۔ایک بات کو جومیرے والد کی وکالت(مختارکاری) کے امتحان میں کامیابی سے تعلق رکھتی ہے میں یہاں دوبارہ بیان کرناچاہوں گا۔مرزا صاحب نے میرے والدکو لکھاتھا کہ وہ اس واقعہ کی تصدیق کردیں۔مرزاصاحب اسے اپنی کتاب براہین احمدیہ میں شائع کرناچاہتے تھے۔میرے والد مجھے بتاتے تھے کہ انہوں نے اس واقعہ کی تصدیق کردی تھی۔ لیکن میرے والدنے ساتھ ہی یہ بھی لکھا تھا کہ ان کی رائے میں مرزاصاحب سے زیادہ ان کے یعنی مرزاصاحب کے معزز والد صاحب صحیح پیش خبریاں کرنے والے تھے کیونکہ مرزاصاحب کے والد صاحب نے مرزا صاحب کی پیدائش پر اورابھی جب آپ بچہ ہی تھے یہ پیشگوئی کی تھی کہ نومولود (یعنی مرزاصاحب) ایک ولی ہوں گے۔انہوں نے کہاتھا’’ہمارے گھر میں ولی پیداہواہے۔‘‘

رائے کنورسین صاحب کا خط بنام علی محمدصاحب مرقومہ 27؍ دسمبر 1944ء کنورکنج،لکشمی ایونیو۔ڈیرہ دون

(بحوالہ سیرت المہدی جلد دوم تتمہ حصہ پنجم ص341-344)

ہرچند کہ لالہ بھیم سین کے ان ریمارکس سے تو کسی بھی طرح اتفاق نہیں کیاجاسکتا جس میں انہوں نے حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحب کو حضرت اقدس علیہ السلام سے زیادہ صحیح پیش خبری کرنے والابتایاہے۔یہ ان کی ایک اپنی سوچ تھی جو کہ کسی بھی اعتبارسے درست نہ تھی۔البتہ اس سے اس بات کی شہادت ملتی ہے کہ حضرت اقدس علیہ السلام کی پیدائش کے بعد جبکہ ابھی آپ بچہ ہی تھے کہ حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحب نے فرمایا تھا کہ ’’ہمارے گھر میں ولی پیداہواہے‘‘اور یہ پیشگوئی بتاتی ہے کہ یہ بات کرنے والا آخر اپنےخداسے کوئی تعلق تو رکھتاتھا۔اور وہ تعلق واقعی تھا جیسا کہ اس باب کی آخری سطورسے عیاں ہوگا۔

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button