از افاضاتِ خلفائے احمدیت

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور بنی نوع انسان کی ہمدردی

شرائط بیعت اور ہماری ذمہ داریاں

نویں شرط بیعت(حصہ چہارم)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور بنی نوع انسان کی ہمدردی

بنی نوع انسان کی ہمدردی خصوصاً اپنے بھائیوں کی ہمدردی اور حمایت پر نصیحت کرتے ہوئے ایک موقع پرحضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ

’’میری تو یہ حالت ہے کہ اگر کسی کو درد ہوتا ہو اور میں نماز میں مصروف ہوں میرے کان میں اس کی آواز پہنچ جاوے تو میں یہ چاہتا ہوں کہ نماز توڑ کر بھی اگر اس کو فائدہ پہنچا سکتا ہوں تو فائدہ پہنچائوں اور جہاں تک ممکن ہے اس سے ہمدردی کروں۔ یہ اخلاق کے خلاف ہے کہ کسی بھائی کی مصیبت اور تکلیف میں اس کا ساتھ نہ دیا جاوے۔ اگر تم کچھ بھی اس کے لئے نہیں کر سکتے تو کم از کم دعا ہی کرو۔اپنے تو درکنار، میں تو یہ کہتا ہوں کہ غیروں اور ہندوئوں کے ساتھ بھی ایسے اخلاق کا نمونہ دکھائو اور ان سے ہمدردی کرو۔ لاابالی مزاج ہرگز نہیں ہونا چاہئے۔

ایک مرتبہ میں باہر سیر کو جا رہا تھا ایک پٹواری عبد الکریم میرے ساتھ تھا۔ وہ ذرا آگے تھا اور میں پیچھے۔ راستہ میں ایک بڑھیا کوئی 70یا 75 برس کی ضعیفہ ملی۔ اس نے ایک خط اسے پڑھنے کو کہا مگر اس نے اسے جھڑکیاں دے کر ہٹا دیا۔ میرے دل پر چوٹ سی لگی۔ اس نے وہ خط مجھے دیا۔ میں اس کو لے کر ٹھہر گیا اور اس کو پڑھ کر اچھی طرح سمجھا دیا۔ اس پر اسے سخت شرمندہ ہونا پڑا۔ کیونکہ ٹھہرنا تو پڑا اور ثواب سے بھی محروم رہا‘‘۔

(ملفوظات۔ جدید ایڈیشن۔ جلد چہارم۔ صفحہ 82-83)

فرماتے ہیں:’’اس کے بندوں پر رحم کرو اور ان پر زبان یا ہاتھ یا کسی تدبیر سے ظلم نہ کرو اور مخلوق کی بھلائی کے لئے کوشش کرتے رہو اور کسی پر تکبر نہ کرو گو اپنا ماتحت ہو۔ اور کسی کو گالی مت دو گو وہ گالی دیتا ہو۔ غریب اور حلیم اور نیک نیت اور مخلوق کے ہمدرد بن جائو تا قبول کئے جائو … بڑے ہو کر چھوٹوں پر رحم کرو نہ ان کی تحقیر اور عالم ہو کر نادانوں کو نصیحت کرو نہ خودنمائی سے ان کی تذلیل۔ اور امیر ہو کر غریبوں کی خدمت کرو، نہ خودپسندی سے ان پر تکبر۔ ہلاکت کی راہوں سے ڈرو۔‘‘

(کشتی نوح۔ روحانی خزائن۔ جلد 19صفحہ 11-12)

پھر فرمایا:

’’لوگ تمہیں دُکھ دیں گے اور ہر طرح سے تکلیف پہنچائیں گے مگر ہماری جماعت کے لوگ جوش نہ دکھائیں۔ جوشِ نفس سے دل دُکھانے والے الفاظ استعمال نہ کرو اللہ تعالیٰ کو ایسے لوگ پسند نہیں ہوتے۔ ہماری جماعت کو اللہ تعالیٰ ایک نمونہ بنانا چاہتا ہے۔‘‘

آپؑ مزید فرماتے ہیں:

’’اللہ تعالیٰ متقی کو پیار کرتا ہے۔ خدا تعالیٰ کی عظمت کو یاد کرکے سب ترساں رہو اور یاد رکھو کہ سب اللہ کے بندے ہیں۔ کسی پر ظلم نہ کرو نہ تیزی کرو نہ کسی کو حقارت سے دیکھو۔ جماعت میں اگر ایک آدمی گندہ ہوتا ہے تو وہ سب کو گندہ کردیتا ہے۔ اگر حرارت کی طرف تمہاری طبیعت کا مَیلان ہو تو پھر اپنے دل کو ٹٹولو کہ یہ حرارت کس چشمہ سے نِکلی ہے۔ یہ مقام بہت نازک ہے۔‘‘

(ملفوظات۔ جلد نمبر 1۔ صفحہ 8-9)

فرمایا: ’’ایسے بنو کہ تمہارا صدق اور وفا اور سوز و گداز آسمان پر پہنچ جاوے۔ خداتعالیٰ ایسے شخص کی حفاظت کرتا اور اس کو برکت دیتا ہے جس کو دیکھتا ہے کہ اس کا سینہ صدق اور محبت سے بھرا ہوا ہے۔ وہ دلوں پر نظر ڈالتا اور جھانکتا ہے نہ کہ ظاہری قیل و قال پر۔ جس کا دل ہر قسم کے گند اور ناپاکی سے مُعَرَّا اور مُبَرَّا پاتا ہے، اس میں آ اُترتا ہے اور اپنا گھر بناتا ہے‘‘۔

(ملفوظات۔ جدید ایڈیشن۔ جلد سوم۔ صفحہ 181)

فرمایا :

’’مَیں پھر کہتا ہوں کہ جو لوگ نافع الناس ہیں اور ایمان، صدق و وفا میں کامل ہیں، وہ یقیناً بچا لئے جائیں گے۔ پس تم اپنے اندر یہ خوبیاں پیدا کرو‘‘۔

(ملفوظات۔ جدید ایڈیشن۔ جلد چہارم۔ صفحہ184)

فرمایا:

’’سو تم اُس کی جناب میں قبول نہیں ہو سکتے جب تک ظاہر و باطن ایک نہ ہو۔ بڑے ہوکر چھوٹوں پر رحم کرو، نہ اُن کی تحقیر۔ اور عالم ہوکر نادانوں کو نصیحت کرو،نہ خودنمائی سے اُن کی تذلیل۔ اور امیر ہوکر غریبوں کی خدمت کرو، نہ خود پسندی سے اُن پر تکبر۔ ہلاکت کی راہوں سے ڈرو۔ خدا سے ڈرتے رہو اور تقویٰ اختیار کرو۔… کیا ہی بدقسمت وہ شخص ہے جو ان باتوں کو نہیں مانتا جو خدا کے منہ سے نکلیں اور مَیں نے بیان کیں۔ تم اگر چاہتے ہو کہ آسمان پر تم سے خدا راضی ہو تو تم باہم ایسے ایک ہو جاؤ جیسے ایک پیٹ میں سے دو بھائی۔ تم میں سے زیادہ بزرگ وہی ہے جو زیادہ اپنے بھائی کے گناہ بخشتا ہے۔ اور بدبخت ہے وہ جو ضد کرتا ہے اور نہیں بخشتا۔ ‘‘

(کشتی نوح۔ روحانی خزائن۔ جلد19۔ صفحہ 12تا 13)

فرمایا:

’’دراصل خدا تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ ہمدردی کرنا بہت ہی بڑی بات ہے اور خدا تعالیٰ اس کو بہت پسند کرتا ہے۔ اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا کہ وہ اس سے اپنی ہمدردی ظاہر کرتا ہے۔ عام طور پر دنیا میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے کہ اگر کسی شخص کا خادم کسی اس کے دوست کے پاس جاوے اور وہ شخص اس کی خبر بھی نہ لے تو کیا وہ آقا جس کا کہ وہ خادم ہے اس اپنے دوست سے خوش ہوگا؟ کبھی نہیں۔ حالانکہ اس کو تو کوئی تکلیف اس نے نہیں دی، مگر نہیں۔ اس نوکر کی خدمت اور اس کے ساتھ حُسنِ سلوک گویا مالک کے ساتھ حُسنِ سلوک ہے۔ خدا تعالیٰ کو بھی اس طرح پر اس بات کی چِڑ ہے کہ کوئی اس کی مخلوق سے سردمہری برتے کیونکہ اس کو اپنی مخلوق بہت پیاری ہے۔ پس جو شخص خدا تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ ہمدردی کرتا ہے وہ گویا اپنے خدا کو راضی کرتا ہے۔‘‘

(ملفوظات۔ جدید ایڈیشن۔ جلد چہارم۔ صفحہ 215تا 216)

اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ان نصائح پر عمل کرنے کی توفیق دے ۔اور آپ سے جوعہدبیعت ہم نے باندھاہے اس کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

(از خطبہ جمعہ۔ ارشاد فرمودہ 12؍ستمبر2003ء بمقام مسجد فضل لندن، انگلستان)

(باقی آئندہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button