سیرت صحابہ کرام ؓ

صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم مخالفت کی تُند و تیز آندھیوں میں صبر کی چٹانین اوراستقامت کے پہاڑ

(عبد السمیع خان۔ گھانا)

جب دشمنوں نے ظلم کی ہر حد پار کرلی اور صحابہؓ نے برداشت کی بلند ترین منزل اختیار کی

تین ناقابل فراموش مناظر

(1) بھٹی میں آگ جل رہی ہے۔ لوہے کو پگھلانے کے لیے کوئلے دہکائے جارہے ہیں، جب وہ انگاروں کی صورت میں بھڑک اٹھتے ہیں تو چند ہٹے کٹے لوگ ادھر ادھر سے اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ دیکھو! انہوں نے جلتے ہوئے کوئلے نکالے ہیں۔ انہی پر اس لوہار کو لٹا دیا ہے اور ایک شخص اس کی چھاتی پر چڑھ گیا ہے تاکہ وہ حرکت نہ کرسکے۔

اُف! کتنا تکلیف دہ منظر ہے۔ ظلم کی انتہا ہے۔ زندہ انسان کو جلایا جارہا ہے۔ چربی کے جلنے کی بُو آرہی ہے اور وہ کوئلے اسی طرح جل جل کر اس مظلوم کے نیچے ٹھنڈے ہو جاتے ہیں۔ یہ حضرت خباب ؓہیں جنہیں اسلام لانے کی پاداش میں اس عذاب سے گزارا جارہا ہے۔

(2)آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ کے پاس ٹیک لگائے بیٹھے ہیں۔ حضرت خباب بن ارتؓ اور بعض دوسرے صحابہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں اور عرض کرتے ہیں۔ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مسلمانوں کو قریش کے ہاتھوں اتنی تکالیف پہنچ رہی ہیں آپ ان کے لیے بددعا کیوں نہیں کرتے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ الفاظ سنتے ہی اٹھ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ آپ کا چہرہ جوش سے تمتما اٹھتا ہے اور فرماتے ہیں:

دیکھو! تم سے پہلے وہ لوگ گزرے ہیں جن کا گوشت لوہے کے کانٹوں سے نوچ نوچ کر ہڈیوں تک صاف کر دیا گیا مگر وہ اپنے دین سے متزلزل نہیں ہوئے اور وہ لوگ بھی گزرے ہیں جن کے سروں پر آرے چلا کر ان کو دو ٹکڑے کر دیا گیا مگر ان کے قدموں میں لغزش نہیں آئی۔ دیکھو! خدا مجھے ضرور غلبہ دے گا حتیٰ کہ ایک شتر سوار صنعاء سے لے کر حضر موت تک سفر کرے گا اور اس کو سوائے خدا کے اور کسی کا ڈر نہ ہوگا۔

(3) آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم 10 ہزار صحابہ کے ساتھ مکہ میں داخل ہوچکے ہیں۔ ہر طرف توحید اور اللہ اکبر کے نعرے ہیں۔ اللہ کے وعدوں کے مطابق اسلام نے شرک اور کفر کو شکست دے دی ہے۔ مکہ کی گلیوں میں اعلان ہورہا ہے کہ جو خانہ کعبہ میں آجائے وہ بھی امن میں ہے،جو اپنے گھر میں بیٹھ جائے وہ بھی امن میں ہے، جو بلال کے بھائی ابورویحہ کے جھنڈے تلے آجائے وہ بھی امن میں ہے۔ مکہ کے وہ بڑے بڑے سردار جو مسلمانوں کو دکھ دینے میں پیش پیش تھے سرنگوں ہوچکے ہیں۔ کچھ تو بدر اور بعد کی جنگوں میں ذلت کے ساتھ مارے گئے۔ کچھ نے اسلام قبول کرلیا۔ باقی گردنیں جھکائے کھڑے ہیں اور فیصلے کے منتظر ہیں۔

تاریخ مذہب کا خلاصہ

یہ تین مناظر مذہب کی ہزاروں سالہ تاریخ کا خلاصہ ہیں۔ جب بھی خدا کا کوئی مامور آتا ہے یہی تاریخ دہرائی جاتی ہے۔ نور کی شمع کو بجھانے کے لیے تاریکی کے فرزند ہر حربہ استعمال کرتے ہیں شیطان خدا کے فرستادہ کے چاروں طرف مشکلات اور مصائب کے خارزار کھڑے کر دیتا ہے۔ مگر سعادت مند لوگ ہر مشکل کو پھلانگتے ہوئے اور ہر پہاڑ کو سر کرتے ہوئے مامور الٰہی کے آستانہ پر حاضر ہو جاتے ہیں اور پھر کسی قیمت پر ایمان کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو ابتلاؤں اور آزمائشوں کی بھٹی سے گزر کر کندن بن جاتے ہیں اور ابدی عزت کے تاج انہی کے سروں پر رکھے جاتے ہیں۔

اس تاریخ کا سب سے روشن باب حضرت اقدس محمدمصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہؓ نے اپنی قربانیوں سے رقم کیا۔ ایک طرف مخالفت کی تند و تیز آندھیاں ہیں تو دوسری طرف صبر و استقامت کے پہاڑ ہیں۔ بظاہر کمزور اور ناتواں انسان مگر عزم اور یقین میں شیروں کے دل دہلا دیتے ہیں اور بڑی جرأت اور پامردی کے ساتھ سراٹھا کر اپنے ایمان کا برملا اعلان کرتے چلے جاتے ہیں جو متاع بےبہا ہے، زندگی کی سب سے قیمتی دولت ہے اور خدا کے حضور سرفرازی کی علامت ہے۔

یہ کیا کہ سورج پہ گھر بنانا پھر اس پہ سائے تلاش کرنا

کھڑے بھی ہونا تو دلدلوںمیں پھر اپنے پاؤں تلاش کرنا

قربانیوں کا نقشہ

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو جن المناک مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، ان کے چند نمایاں باب یہ ہیں۔

جانیںقربان کیں، تیروں اور تلواروں سے شہید کیا گیا، صلیب دے کر شہید کیا گیا، جلتے انگاروں پر لٹایا گیا، الٹا لٹکا کر نیچے آگ جلا دی گئی۔ لوہے کی زرہیں پہنا کر دھوپ میں کھڑا کیا گیا، بھوک اور پیاس میں مبتلا رکھا گیا۔ عین دوپہر کے وقت گرم پتھروں پر گھسیٹا گیا، زدوکوب کیا گیا اور مار مار کر لہولہان کر دیا گیا، جوتیوں سے اتنا مارا گیا کہ پہچانے نہ جاتے تھے۔ شیرخوار بچوں کو دودھ سے محروم رکھا گیا۔ مسلمان ماؤں سے ان کے چھوٹے بچے جدا کر دیے گئے، قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں، سوشل بائیکاٹ کیا گیا، ہر قسم کے تعلقات قطع کر دیے گئے، شوہروں نے مسلمان بیویوں کو طلاق دے دی۔ وطن سے بے وطن کیا گیا، مسلمانوں کی محنتوں کا معاوضہ ضبط کرلیا گیا، مقدس حاملہ عورتوں کے حمل گرائے گئے، نام بگاڑے گئے، مساجدگرا دی گئیں، خدائے واحد کی عبادت کرنے سے روکا گیا۔ غرضیکہ ہر روز نئے ستم ایجاد کیے گئے۔ ہر رات نئے ظلم تراشے گئے۔ صبح و شام کو مصائب و آلام کی چکیوں میں تبدیل کر دیا گیا۔ زندگی کی ہر گھڑی موت کا الارم سناتی تھی، ہر سانس زہر ہلاہل تھا۔

شہادت کے مناظر

یہ وہ لوگ تھے جو موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مسکراتے تھے۔ جن کے لیے ایمان کے مقابل پر یہ فانی دنیا کوئی حیثیت نہ رکھتی تھی۔ اسلام لانے کے بعد ان سب نے اپنی جانیں خدا کے حضور پیش کردی تھیں۔ کچھ کو براہ راست شہادت کی نعمت عطا ہوئی اور بہت سے ایسے تھے جو دشمنوں کے ہاتھوں مدتوں زنجیروں میں گرفتار رہے اور مرمر کرجیتےرہے۔

آیئے! پہلے ان جواں مردوں کا تذکرہ کریں جنہوں نے اس دنیا کے بدلے دائمی زندگی قبول کی۔ اس باب میں سب سے پہلے حضرت یاسرؓ اور ان کے تمام گھرانے کی غیرمعمولی قربانی قابل ذکر ہے۔

آل یاسر

حضرت عمار ؓکے والد یاسر ؓیمن سے آکر مکہ میں آباد ہوئے تھے اور ان کے حلیف ابوحذیفہ نے اپنی لونڈی حضرت سمیہ ؓکے ساتھ ان کی شادی کردی تھی۔ جب مکہ میں آفتاب رسالت طلوع ہوا تو حضرت یاسر ؓاور ان کی اہلیہ سمیہؓ اور بیٹا عمار ؓسب ابتدائی ایام میں ہی اس نور سے منور ہوگئے۔ اس وقت ابھی مسلمانوں کی تعداد 30-35سے زیادہ نہ تھی اور یہ وہ زمانہ تھا جب مکہ کے ذی وجاہت مسلمان بھی قریش کی ستم رانیوں کا شکار تھے تو اس غریب الوطن خاندان کے حالات کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ بنو مخزوم نے اس خاندان پر ظلم و بربریت کی انتہا کردی۔ بظاہر ان کی زندگی موت سے بدتر بنا دی گئی۔ ایک دفعہ اس سارے گھرانے کو تکلیف دی جارہی تھی کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ادھر سے گزر ہوا تو آپؐ نے انہیں مخاطب کرکے فرمایا:

’’اے آل یاسر! صبر کرو اور خوش ہو جاؤ کیونکہ تمہاری وعدہ گاہ جنت ہے۔‘‘

(مستدرک حاکم کتاب معرفة الصحابہ ذکر مناقب عمار جلد3 صفحہ 383 مکتبہ النصر الحدیثہ ریاض)

پہلی شہادت

جب دشمن اپنی پوری طاقت کے باوجود اس پاکیزہ گھرانے کے پائے ثبات میں کوئی جنبش پیدا نہ کرسکے توغصہ سے آگ بگولا ہو کر ابوجہل نے حضرت سمیہؓ کی شرمگاہ میں نیزہ مار کر ان کو شہید کردیا۔ یہ اسلام میں عورت کی پہلی شہادت تھی جو اہل ایمان کو سورج چاند کی طرح روشنی دکھاتی رہے گی۔

جلتے انگاروں پر

مگر یہ انجام دیکھنے کے باوجود باپ اور بیٹا ایمان پر ثابت قدم رہے۔ تھوڑے دنوں بعد حضرت یاسر ؓبھی بوجہ ضعیف العمری کے ان شدائد سے جانبر نہ ہوسکے اور انتقال کر گئے۔ حضرت عمار ؓکو قریش دوپہر کے وقت انگاروں پر لٹاتے اور پانی میں غوطے دیتے۔ ایک مرتبہ انہیں انگاروں پر لٹایا جارہا تھا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ادھر سے گزر ہوا۔ آپؐ نے حضرت عمارؓ کے سر پر ہاتھ پھیر کر یہ دعا کی:

یَا نَارُ کُونِی بَرْدًا وَ سَلَامًا عَلٰی عَمَّار کَمَا کُنْتِ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ

اے آگ! عمار کے لیے اسی طرح ٹھنڈک اور سلامتی کا موجب بن جا جس طرح ابراہیم کے لیے بنی تھی۔

( طبقات ابن سعد جلد3 صفحہ 353 مطبوعہ ایجوکیشنل پریس کراچی طبع اول1970ء)

حضرت عمار ؓکی پیٹھ پر وہ نشان موت تک باقی رہے۔ مگر ان کے ایمان میں کوئی لغزش نہ آئی۔

(طبقات ابن سعد جلد3صفحہ246)

یہی نعرہ ان کے ورد زبان رہا:

یہ جان و دل نثار محمدؐ کی آن پر

اس راہ میں ہر ایک اذیت قبول ہے

تختۂ دار کو چوم لیا

غزوۂ اُحد کے قریب زمانہ میں دس صحابہ کو بے قصور ظالمانہ طور پر موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔ مگر کسی نے صداقت سے منہ نہ موڑا۔ ان میں سے ایک صحابی حضرت خبیبؓ نے شہادت سے قبل دو نفل ادا کیے اور یہ شعر پڑھتے ہوئے تختہ دار کو چوم لیا۔

لَسْتُ اُبَالِی حِیْنَ اُقْتَلُ مُسْلِماً

عَلٰی اَیِّ جَنْبٍ کَانَ لِلّٰہِ مَصْرَعِ

وَذَالِکَ فِیْ ذَاتِ اِلْاِلٰہِ وَاِنْ یَشَأْ

یُبَارِک علٰی اَوْصَالِ شِلْوٍ مُمَزَّعِ

یعنی جب میں مسلمان ہونے کی حالت میں قتل کیا جاؤں تو مجھے اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ میں کس پہلو پر گرتا ہوں۔ میری یہ سب قربانی اللہ کی رضا کے لیے ہے۔ وہ اگر چاہے گا تو میرے ریزہ ریزہ اعضاء میں بھی برکت ڈال دے گا۔

(صحیح بخاری کتاب المغازی)

فُزْتُ بِرَبِّ الْکَعْبَة

اسی زمانہ میں ستر صحابہ کو دھوکےسے تبلیغ کے بہانے بلایا گیا مگر انتہائی سفاکی کے ساتھ شہید کر دیا گیا۔ ان کے سردار حضرت حرام بن ملحان ؓکو پشت کی طرف سے نیزہ مارا گیا جو جسم سے پار ہوگیا۔ جب خون کا فوارہ پھوٹا تو حضرت حرامؓ نے اس سے چلو بھر کر منہ اور سر پر پھیرا اور فرمایا:

فُزْتُ بِرَبِّ الْکَعْبَة

کعبہ کے رب کی قسم میں کامیاب ہوگیا۔

(صحیح بخاری کتاب المغازی باب غزوة الرجیع)

حضرت خبیب،ؓ حضرت حرام ؓاور ان کے ساتھیوں کی قربانیاں رائیگاں نہیں گئیں۔ ان کے عزم اور استقلال نے کئی سعادت مندوں پر گہرے اثرات چھوڑے اور وہ بالآخر آغوش اسلام میں آگرے۔

اذان کی سزا

حضرت عروہ بن مسعود ثقفیؓ نے 9؍ہجری میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی قوم کی طرف واپس جانے کی اجازت چاہی۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آغاز میں انکار کیا مگر ان کے اصرار پر اجازت دے دی۔ وہ عشاء کے وقت اپنی قوم کے پاس پہنچے اور جب ان کے قبیلہ ثقیف کے لوگ ان سے ملنے کے لیے آئے تو حضرت عروہ بن مسعودؓ نے انہیں اسلام کی طرف دعوت دی۔ مگر انہوں نے حضرت عروہ ؓپر الزام لگائے اور بہت نازیبا کلمات کہے اور واپس چلے گئے۔ مگر وہ حضرت عروہ ؓکی موت کا فیصلہ کرچکے تھے۔ صبح فجر کے وقت حضرت عروہ ؓنے اپنے گھر کے صحن میں کھڑے ہو کر اذا ن دی تو ایک بدبخت وہاں پہنچا اور تیر سے انہیں شہید کردیا۔

(مستدرک حاکم جلد3 صفحہ 615کتاب معرفة الصحابہ مکتبہ النصر الحدیثہ۔ ریاض)

کب نکلتا ہے کوئی دل میں اتر جانے کے بعد

اس گلی کے دوسری جانب کوئی رستہ نہیں

سچائی کی خاطر

حضرت فروہ بن عمرو ؓفلسطین کے علاقہ میں معان اور قرب و جوار میں قیصر روم کے عامل تھے۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اسلام کی دعوت دی تو بغیر کسی پس و پیش کے اسلام لے آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں چند تحائف بھی بھجوائے۔ جب قیصر روم کو ان کے اسلام لانے کی اطلاع ہوئی تو انہیں دربار میں بلایا اور قید کردیا اور جب اس پر بھی تسلی نہ ہوئی تو انہیں صلیب پر لٹکا کر شہید کر دیا مگر حضرت فروہ ؓنے جادۂ حق سے ہٹنا گوارا نہ کیا۔

(شرح زرقانی علی المواہب اللدنیہ جلد4صفحہ44 مطبع ازھریہ مصریہ۔ طبع اولیٰ 1327ھ)

ایک روایت میں ہے کہ وہ قید کی حالت میں فوت ہوگئے تھے۔ ان کے مرنے کے بعد انہیں صلیب پر لٹکایا گیا۔

(طبقات ابن سعد جلد نمبر7صفحہ 435 بیروت 1958ء)

ایک ایک عضو کاٹ دیا گیا

حضرت حبیب بن زید انصاریؓ صحابی تھے۔ مسیلمہ کذاب نے اپنی بغاوت کے زمانے میں انہیں پکڑ لیا اور کہا کیا تم شہادت دیتے ہو کہ محمد اللہ کے رسول ہیں۔ حضرت حبیب نے فرمایا: ہاں پھر اس نے پوچھا: کیا تم گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں تو آپ نے فرمایا: نہیں۔ میں یہ بات سننا بھی نہیں چاہتا اس بات پر کئی دفعہ تکرار ہوئی مگر حضرت حبیب نے اسے رسول ماننے سے اور رسول اللہؐ کا انکار کرنے سے مسلسل انکار کیا۔ اس پر مسیلمہ نے ان کا ایک ایک عضو کاٹ کر انہیں شہید کردیا۔

(سیرة النبی ابن ہشام جلد2صفحہ110مطبع مصطفی البابی الحلبی۔ مصر1963ء)

صحابہ کی ان عظیم قربانیوں کا نقشہ حضرت مسیح موعود ؑنے یوں کھینچاہے:

فَدَمُ الرِّجَالِ لِصِدْقِھِمْ فِیْ حُبِّھِمْ

تَحْتَ السُّیُوْفِ اُرِیْقَ کَالْقُرْبَانٖ

ان عظیم انسانوں کا خون سچائی سے محبت کی وجہ سے تلواروں کے نیچے قربانی کے جانوروں کی طرح بہایا گیا۔

مارپیٹ کے مناظر

بارگاہ احدیت کے وہ جاں نثار جن کو تاریکی کے فرزند ابدی زندگی کا جام پلانے سے قاصر رہے ان کی زندگیاں تو لمحہ لمحہ عذاب تھیں۔ مار پیٹ اور جسمانی مظالم کا ایک بازار گرم تھا جس میں ان کے جسم اور عزتیں بلاخوف و خطر پامال کی جارہی تھیں۔ مگر ان پر پڑنے والی ہر ضرب ان کے بلند روحانی مقامات کے بگل بجارہی تھی۔اس تشدد اور ظلم سے معزز گھرانوں کے مسلمان بھی محفوظ نہ تھے۔ اس لیے حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ اور دوسرے صحابہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک دفعہ عرض کیا تھا کہ

یارسول اللہؐ! جب ہم مشرک تھے تو معزز تھے اور کوئی شخص ہماری طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتا تھا مگر مسلمان ہو کر ہم کمزور اور ناتواں ہوگئے ہیں۔ (سنن نسائی کتاب الجہاد باب وجوب الجہاد)

ان لوگوں نے بظاہر دنیا کی ذلت قبول کرلی مگر سچائی کا دامن نہیں چھوڑا اور ابدالآباد تک ایک ایسی عزت حاصل کی جس پر کبھی فنا نہیں آئے گی۔

حضرت ابوبکرؓکا عشق

حضرت ابوبکر ؓقریش کے ایک معزز فرد تھے۔ اسلام لائے تو انہوں نے برملا اپنے ایمان کا اظہار کیا اور قریش کو بھی دعوت اسلام دی مگر یہ سنتے ہی مشرکین حضرت ابوبکر اور قریبی مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے اور حضرت ابوبکر ؓکو گرا کر بہت مارا۔ بدبخت عتبہ بن ربیعہ اپنے مضبوط جوتے سے ان پروار کرتا رہا اور ان کے چہرے پر اتنا مارا کہ ان کا چہرہ پہچانا نہ جاتا تھا۔ بالآخر آپ کے قبیلہ بنو تمیم کے لوگ آئے اور انہوں نے آپ کو دشمنوں سے بچایا۔ مگر حالت یہ تھی کہ حضرت ابوبکرؓ کے قریب المرگ ہونے میں کسی کو شبہ نہ تھا۔ لیکن دن کے آخری حصہ میں جب انہیں ہوش آیا تو ان کے منہ سے پہلا جملہ یہ نکلا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے۔ یہ سن کر قبیلہ کے لوگ واپس چلے گئے مگر آپ بہت اصرار کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حال دریافت کرتے رہے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحیح سلامت ہونے کی اطلاع ملی تو والدہ کی منت کرکے ان کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ان کی حالت دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں ڈبڈبا آئیں مگر حضرت ابوبکر ؓعرض کرتے تھے کہ سوائے چہرہ کے زخموں کے اور کوئی تکلیف نہیں۔ پھر آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی۔ میری والدہ کو اسلام کی طرف دعوت دیں اور ان کے لئے دعا بھی کریں۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ سے وہ اسلام لے آئیں۔

(البدایہ والنھایہ جلد3صفحہ30۔ از حافظ ابن کثیر طبع اولیٰ۔ 1966ء مکتبہ معارف بیروت)

دل شکستہ ہم نہ ہوں گے ظلم کی یلغار سے

خود کو وابستہ رکھیں گے قافلہ سالار سے

اک تعلق ہے ہمارا یوسفِ دوراں کے ساتھ

ایک نسبت ہے ہمیں اس عہد کے اوتار سے

قرینین

حضرت ابوبکر ؓکی تبلیغ سے حضرت طلحہ ؓاسلام لائے تو نوفل بن خویلد بن العدویہ نے ان دونوں کو پکڑ لیا۔ یہ شخص اسد قریش کہلاتا تھا یعنی قریش کا شیر۔ اس نے دونوں کو ایک رسی میں بندھوا دیا اسی لیے ان دونوں کو قرینین بھی کہتے ہیں۔ حضرت ابوبکر ؓکے قبیلہ بنو تمیم نے بھی انہیں چھڑانے سے انکار کردیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ہوئی تو آپؐ نے دعا کی:

’’اے اللہ! ہمیں ابن العدویہ کے شر سے بچا۔ تب خدا نے ان کی رہائی کے سامان پیدا فرمائے۔‘‘

(البدایہ والنھایہ جلد3صفحہ 29)

ماں کا ظلم

حضرت مسعود بن حراش بیان کرتے ہیں کہ میں صفا اور مروہ کے درمیان چکر لگا رہا تھا کہ میں نے دیکھا کہ بہت سے لوگ ایک نوجوان کو کھینچتے ہوئے لے جارہے ہیں جس کے ہاتھ اس کی گردن میں بندھے ہوئے ہیں۔ میں نے پوچھا یہ کون ہے؟ تو لوگوں نے بتایا یہ طلحہ بن عبید اللہ ہے جو صابی یعنی مسلمان ہوگیا ہے۔ ایک عورت ان کے پیچھے غراتی اور گالیاں دیتی ہوئی چلی جارہی تھی۔ میں نے اس کے متعلق پوچھا تو بتایا گیا کہ یہ طلحہ کی ماں صعبہ بنت حضرمی ہے۔

(التاریخ الکبیر جلد7صفحہ421 از امام بخاری بیروت)

جو چاہو کرلو

حضرت عمر بن خطابؓ جیسا جری اور بیباک شخص بھی دشمنوں کے شر سے محفوظ نہ رہا۔ انہوں نے اسلام قبول کیا تو ایک شخص جمیل بن معمر نے مسجد حرام میں جا کر اعلان کیا کہ عمر بےدین ہو گیا ہے۔ حضرت عمر ؓوہاں پہنچے اور کہا یہ جھوٹا ہے میں نے توحید کو قبول کیا ہے۔ یہ سن کر سب حضرت عمر ؓپر جھپٹ پڑے اور دیر تک ان سے لڑتے رہے۔ حضرت عمرؓ فرماتے تھے:

’’تم جو چاہو کرلو۔ اب تو میں یہ دین نہیں چھوڑ سکتا۔‘‘

(البدایہ والنھایہ جلد3صفحہ 82 از حافظ ابن کثیر طبع اولیٰ 1966ء مکتبہ معارف بیروت)

ہر گز نہیں

حضرت زبیر بن العوامؓ جب اسلام لائے تو ان کی عمر8سال کی تھی۔ ان کا چچا انہیں چٹائی میں لپیٹ کر لٹکا دیتا تھا اور نیچے آگ جلا کر ان کی ناک میں دھواں پہنچاتا تھا اور ساتھ کہتا کہ اسلام سے انکار کر دے مگر حضرت زبیر ؓفرماتے:

’’میں کبھی اسلام سے انکار نہیں کروں گا۔‘‘

(مستدرک حاکم کتاب معرفةالصحابہ باب مناقب الزبیر جلد3صفحہ360ریاض)

گھسیٹے گئے

حضرت سعد بن عبادہؓ نے بیعت عقبہ ثانیہ میں اسلام قبول کرنے کی سعادت حاصل کی۔ وہاں سے واپسی پر دشمنوں نے پکڑ لیا۔ ان کے ہاتھ ان کی گردن سے باندھ دیے، ان کے بال کھینچے، زدوکوب کیا اور سخت اذیت دیتے ہوئے گھسیٹ کر مکہ میں لے آئے۔ ظلم و ستم کا سلسلہ جاری تھا کہ مطعم بن عدی نے آکر انہیں نجات دلائی۔

(سیرة ابن ھشام جلد2صفحہ 91)

بے قراری

حضرت عثمان بن مظعونؓ نے اسلام قبول کیا تو دشمنوں کے مظالم سے بچنے کے لیے ولید بن مغیرہ کی پناہ میں آگئے۔ مگر جب انہوں نے دیکھا کہ دوسرے صحابہ تکالیف برداشت کررہے ہیں اور میں امن سے پھر رہا ہوں تو انہوں نے ولید بن مغیرہ سے کہا کہ تم اپنی پناہ واپس لے لو اور اس کا اعلان مسجد حرام میں کر دیا گیا۔ اس واقعہ کے تھوڑے دن بعد ایک مشرک نے ان کی آنکھ پر ایسا مکا مارا کہ ڈیلے سے باہر نکل آئی۔ اس پر ولید جو وہاں موجود تھا کہنے لگا کہ اگر تم میری پناہ واپس نہ کرتے تو یہ تکلیف نہ ہوتی تو حضرت عثمان بن مظعونؓ نے فرمایا تم اس ایک آنکھ کی بات کرتے ہو میری تو دوسری آنکھ بھی خدا کی راہ میں قربان ہونے کے لئے بیتاب ہے۔

(البدایہ والنھایہ جلد3 صفحہ 92 از حافظ ابن کثیر طبع اولیٰ 1966ء۔ مکتبہ المعارف بیروت)

کل پھر

حضرت عبداللہ بن مسعود ؓنے خانہ کعبہ میں قرآن کریم کی چند آیات بلند آواز سے کفار کو سنائیں تو انہوں نے اس قدر مارا کہ چہرے پر نشان پڑ گئے۔ جب دوسرے صحابہ نے ہمدردی کا اظہار کیا تو فرمایا:

’’اگر کہو تو کل پھر اسی طرح ان لوگوں کو اونچی آواز میں قرآن سناؤں۔‘‘

(اسد الغابہ جلد3صفحہ 256تذکرہ عبداللہ بن مسعود مکتبہ اسلامیہ طہران)

حقیقت یہ ہے کہ سچا ایمان دل میں ایک غیرمعمولی جرأت اور بے خوفی پیدا کر دیتا ہے جو ایک کمزور بے کس کو طاقتور مخالف کے مقابل کھڑا کردیتا ہے۔اس کی ایک اور مثال ملاحظہ ہو۔

سچ کی طاقت

حضرت ابوذرغفاریؓ اسلام لانے سے قبل مخالفین سے اتنے خوفزدہ تھے کہ آپ قبیلہ غفار سے مکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی تلاش میں آئے مگر کسی سے آپؐ کا پتہ نہ پوچھتے تھے۔ یہاں تک کہ حضرت علی ؓنے بڑی حکمت سے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا دیا اور آپ نے اسلام قبول کرلیا۔مگر اسلام قبول کرتے ہی ایسی شجاعت پیدا ہوئی کہ مسجد حرام میں جا کر ببانگ دُہل کلمہ توحید کا اعلان کیا تو دشمن ان پر پل پڑے اور مارتے مارتے بے حال کردیا۔ یہاں تک کہ جب وہ بے دم ہو کر زمین پر گر پڑے تو سمجھا کہ ان کا کام تمام ہوگیا ہے۔ تب واپس جانے لگے۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ مجھے جب ہوش آیا تو میں سر سے پاؤں تک لہولہان ہوچکا تھا۔

بعض روایتوں میں ہے کہ جب آپ مرنے کے قریب ہوگئے تو حضرت عباسؓ نے آکر دشمنوں سے چھڑایا مگر آپ پھر دوسرے دن اسی طرح مسجد حرام میں جا کر توحید کی منادی کرنے لگے تو دشمنوں نے پہلے کی طرح زدوکوب کرنا شروع کر دیا اور حضرت عباس نے اس ظلم و ستم سے نجات دلائی مگر آپ کے پائے ثبات میں کوئی لغزش نہ آئی۔

(مستدرک حاکم جلد3صفحہ338صحیح بخاری کتاب بنیان الکعبہ باب اسلام ابی ذر)

ضمیر بیچ کے کوئی خوشی قبول نہیں

یہ خود کشی کسی قیمت ہمیں قبول نہیں

جو ہم نے کوچہ یار ازل میں دی ہے صدا

پھر اس کے بعد کسی کی گلی قبول نہیں

حضرت عمر ؓکے بہنوئی حضرت سعید بن زید ؓنے بھی بہت تکالیف برداشت کیں۔ حضرت عمر ؓاسلام لانے سے قبل انہیں رسیوں سے باندھ دیتے تھے۔

(صحیح بخاری کتاب الاکراہ باب من اختار الضرب)

مقدس خواتین کے نمونے

مسلمان مردوں کے شانہ بشانہ خواتین بھی عزم کے اس سفر میں شریک تھیں۔

نیزوں سے شکار

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی حضرت زینبؓ ہجرت کرکے مکہ سے مدینہ جارہی تھیں کہ ہبار بن اسود نے حضرت زینب کو نیزہ سے زمین پر گرا دیا۔ وہ حاملہ تھیں حمل ساقط ہوگیا۔

(زرقانی جلد3صفحہ223)

انکار ممکن نہیں

حضرت عمرؓ کے اسلام لانے میں ان کی بہن کی استقامت اور فدائیت کا بڑا دخل ہے۔ ان کو جب پتہ لگا کہ ان کی بہن نے اسلام قبول کرلیا ہے تو وہ غصہ میں بھرے ہوئے گھر پہنچے اور اپنی بہن کو اسلام قبول کرنے کی وجہ سے مارا مگر اس نے صاف صاف کہہ دیا کہ تم جو چاہو کرلو میں تو اسلام لاچکی ہوں۔ اب اس سے کسی قیمت پر انکار نہیں کرسکتی۔

(مجمع الزوائد و منبع الفوائد الھیثمی جلد9صفحہ62کتاب المناقب باب مناقب عمر)

کام جو مشکل تر جانا ہے

اب ہم نے وہ کر جانا ہے

آپ جلائیں جتنا چاھیں

ہم نے اور نکھر جانا ہے

غلامان رسول

مسلمان غلاموں اورلونڈیوں نے بھی فدائیت اور جاں فروشی کے نئے نئے باب رقم کیے۔ حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں:

ان کو کفار لوہے کی زرہیں پہنا کر سخت دھوپ میں کھڑا کر دیتے تھے مگر دھوپ کی شدت ان کی دینی حرارت اور جوش ایمانی کے سامنے بالکل ناکارہ اور بے حیثیت ہو جاتی تھی اور دشمن ان سے اپنی مرضی کے کلمات کہلوانے میں ناکام رہتا تھا۔

(اسد الغابہ محمد بن عبدالکریم الجزری جلد 3صفحہ 32مکتبہ اسلامیہ طہران)

اَحَد اَحَد

حضرت بلال ؓکا بھی ان سرفروشوں میں نمایاں نام ہے۔ انہیں اللہ کی راہ میں اپنے نفس کی کسی تکلیف کی کوئی پرواہ نہ تھی اور اپنی قوم کی نظر میں وہ بالکل بے حقیقت تھے۔ کفار انہیں لڑکوں کے حوالے کر دیتے جو انہیں مکہ کی گلیوں میں گھسیٹتے پھرتے مگر بلال کے منہ سے احد احد کی صدا بلند ہوتی رہتی تھی یعنی خدا ایک ہے، خداواحد ہے۔

(مستدرک حاکم کتاب معرفة الصحابہ جلد3صفحہ 284مکتبہ النصر الحدیثہ۔ ریاض)

حضرت بلالؓ کا آقا امیہ بن خلف ظلم کی انتہا کر دیتا تھا۔ عین تپتی دوپہر کے وقت ان کو باہر نکالتا ایک بھاری پتھر ان کے سینہ پر رکھتا اور پھر کہتا۔ یہ پتھر نہیں ہٹاؤں گا جب تک تو مر نہ جائے یا محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا انکار کرکے لات اور عزیٰ کی عبادت نہ کرنے لگے۔ حضرت بلالؓ اس کے جواب میں احد احد پکارتے رہتے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ نے انہیں اس حال میں دیکھا تو خرید کر آزاد کر دیا۔

(البدایہ والنھایہ جلد3صفحہ57 از حافظ ابن کثیر طبع اولیٰ 1966ء مکتبہ معارف بیروت)

انگاروں کو ٹھنڈا کرنے والا

حضرت خباب بن ارتؓ کا ذکر پہلے گزرا ہے وہ ایک لوہار تھے۔ مشرکین انہی کی بھٹی سے انگارے دہکاتے اور انہیں انگاروں پر لٹا دیتے۔ یہاں تک کہ جسم سے رطوبت نکل نکل کر ان انگاروں کو سرد کردیتی۔ مگر یہ مرد مجاہد کسی طور پر صداقت سے سرموانحراف کرنے کے لیے تیار نہ ہوتا۔

(کنز العمال علاؤ الدین علی متقی جلد7صفحہ32کتاب الفضائل۔ مطبع دائرة المعارف النظامیہ حیدرآباد 1314ھ)

حضرت عمر ؓنے ایک دفعہ حضرت خباب کی پیٹھ دیکھی تو فرمایا میں نے کبھی کسی شخص کی ایسی پیٹھ نہیں دیکھی۔

سرپر گرم لوہا

حضرت خبابؓ کی مالکن ام انمار لوہا سخت گرم کرتی اور حضرت خبابؓ کے سر پر رکھ دیتی۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شکایت کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے ام انمار کو سر میں ایک بیماری ہوگئی اور حضرت خبابؓ نے اس کے مظالم سے نجات پائی۔

(اسدالغابہ جلد2صفحہ98ازعبدالکریم جزری مکتبہ اسلامیہ طہران)

حواس کھو بیٹھے

حضرت ابوفکیہہؓ ابتدائی مسلمانوں میں سے تھے۔ حضرت بلالؓ کے ساتھ اسلام لائے تھے۔ آپ صفوان بن امیہ کے غلام تھے۔ اسلام لائے تو صفوان آپ کو رسی سے باندھتا اور گرم پتھروں پر گھسیٹتا۔ پھر گلے میں کپڑا ڈال کر گھونٹتا۔ صفوان کے ساتھ اس کا بھائی امیہ بھی شریک تھا جو کہتا تھا اسے مزید عذاب دو۔ چنانچہ وہ دونوں یہ سلسلہ جاری رکھتے۔ یہاں تک کہ حضرت ابوفکیہہؓ کے مرنے کا شبہ ہونے لگتا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ صرف ان کا آقا ہی نہیں سارا قبیلہ ان کے درپے آزار تھا۔ ان کو قبیلے والے سخت گرمی میں نکالتے، پاؤں میں بیڑیاں ڈالتے، پھر گرم پتھروں پر لٹاتے اور اوپر وزنی پتھر رکھ دیتے یہاں تک کہ اذیت کی شدت اور سخت گرمی کی وجہ سے وہ اپنے حواس کھو بیٹھتے۔یہ عذاب جاری تھا کہ حضرت ابوبکر ؓنے انہیں صفوان سے خرید کر آزاد کر دیا اور وہ حبشہ ہجرت کرکے چلے گئے۔

(اسدالغابہ جلد5صفحہ 273از عبدالکریم جزری)

قید و بند اور بھوک پیاس

عام مار پیٹ کے ساتھ قید و بند اور بھوک پیاس کی اذیت کا سلسلہ بھی بدستور جاری تھا مگر وہ سرفروش زنجیروں کی جھنکاروں کے ساتھ ساتھ عشق مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے گیت گاتے رہے اور اپنے رب کی رضا اور محبوب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ ان کی ہر بھوک اور پیاس کا مداوا تھا۔

تاریک گھاٹی کے قیدی

مسلسل تکلیف دینے کے باوجود بھی جب کفار مکہ نے دیکھا کہ مسلمان صبر و استقامت سے ان تمام مراحل کو برداشت کرتے چلے جارہے ہیں اور ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے تو انہوں نے محرم 7؍نبوی میں ایک باقاعدہ معاہدہ لکھا کہ کوئی شخص خاندان بنو ہاشم اور بنو مطلب کے پاس کوئی چیز فروخت نہ کرے گا۔ نہ ان سے کچھ خریدے گا۔ نہ ان کے پاس کوئی کھانے پینے کی چیز جانے دے گا۔ نہ ان کے ساتھ رشتہ کرے گا۔ نہ ان سے کسی قسم کا تعلق رکھے گا جب تک وہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے الگ نہیں ہو جاتے۔ اس معاہدہ پر تمام بڑے بڑے رؤسا کے دستخط ہوئے اور پھر قومی عہد نامہ کے طور پر کعبہ میں لٹکا دیا گیا۔ چنانچہ مسلمان اور ان کے حامی شعب ابی طالب میں قیدیوں کی طرح نظر بند کر دیے گئے۔

(سیرت ابن ھشام حالات شعب ابی طالب۔ طبقات ابن سعد ذکر حصر قریش)

ان ایام میں محصورین کو جو سختیاں برداشت کرنی پڑیں ان کا حال پڑھ کر بدن پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے۔ مگر آفرین ہے ان پر کہ کسی ایک نے بھی ایک لمحہ کے لیے بھی استقامت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ صحابہ بیان کرتے ہیں کہ بعض اوقات انہوں نے جانوروں کی طرح جنگلی درختوں کے پتے کھا کھا کر گزارہ کیا۔

(السیرة المحمدیہ باب اجتماع المشرکین علی منابذہ بنی ھاشم)

دیوار کے بغیر بھی در کے بغیر بھی

اہل جنوں تو رہتے ہیں گھر کے بغیر بھی

ایسے بھی سادہ لوح زمانے میں ہیں کہ جو

منزل کو ڈھونڈتے ہیں سفر کے بغیر بھی

معلوم نہیں کیا تھا

حضرت سعد بن ابی وقاص ؓبیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ رات کے وقت ان کا پاؤں کسی ایسی چیز پر جا پڑا جو تر اور نرم معلوم ہوتی تھی ان کی بھوک کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے فوراً اسے اٹھا کر نگل لیا اور وہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے آج تک پتہ نہیں وہ کیا چیز تھی۔ ایک دوسرے موقع پر بھوک کی وجہ سے ان کا یہ حال تھا کہ انہیں سوکھا ہوا چمڑا مل گیا تو اس کو انہوں نے پانی میں نرم کیا اور پھر بھون کر کھالیا۔

(الروض الانف جلد2صفحہ160حالات نقض الصحیفة)

بچوں کی یہ حالت تھی کہ بھوک سے ان کے رونے اور چلاّنے کی آواز باہر جاتی تھی تو قریش اسے سن سن کر خوش ہوتے۔ حضرت حکیم بن حزام ایک دفعہ اپنی پھوپھی حضرت خدیجہ کے لیے خفیہ طور پر کوئی کھانے کی چیز لے کر جارہے تھے کہ ابوجہل کو پتہ لگ گیا تو اس نے سختی کے ساتھ روکا۔

(سیرة النبی صلی اللہ علیہ وسلم ابن کثیر جلد2صفحہ47 تا50 دارالاحیاء التراث العربی بیروت)

تین سال کے بعد اس مصیبت سے مسلمانوں نے رہائی پائی۔

دشمن تھک گیا

حضرت عثمانؓ اسلام لائے تو ان کے چچا حکم بن ابی العاص نے ان کو پکڑ کر رسیوں سے باندھ دیا اور کہا کہ تو اپنے باپ دادا کے دین سے نئے دین کی طرف پھر گیا ہے۔ میں تجھے نہیں کھولوں گا جب تک تو اس دین کو چھوڑ نہ دے۔ مگر اس عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ میں کبھی اس دین کو چھوڑ نہیں سکتا۔ حکم بن ابی العاص نے جب دیکھا کہ یہ اپنے دین کے بارہ میں انتہائی سخت ہیں تو ان کو چھوڑدیا۔

(طبقات ابن سعد جلد3صفحہ55داربیروت۔ بیروت1957ء)

روپ بدل گیا

حضرت مصعب بن عمیر ؓ مکہ کے ایک مالدار گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ انہوں نے اس قدر نازونعم سے پرورش پائی تھی کہ مکہ میں کوئی ثانی نہ رکھتے تھے۔ عمدہ سے عمدہ لباس پہنتے اور اعلیٰ سے اعلیٰ خوراک کھاتے۔ نہایت بیش قیمت خوشبوئیں اور عطریات استعمال کرتے۔ اسلام لانے کے بعد ایک عرصہ تک تو اسے پوشیدہ رکھا مگر ایک روز ایک مشرک نے انہیں نماز پڑھتے دیکھ لیا اور آپ کی ماں اور دوسرے اہل خاندان کو خبر کردی جنہوں نے آپ کو فوراً بند کر دیا۔ ایک عرصہ تک آپ قیدوبند کے مصائب نہایت صبر کے ساتھ برداشت کرتے رہے اور موقع ملنے پر حبشہ کی راہ لی۔لکھا ہے کہ قید میں ان کا بدن بھاری ہوگیا۔ رنگ و روپ بدل گیا۔ اس حال کو دیکھ کر ماں بھی لعنت ملامت کرنے سے باز آگئی تھی۔

(طبقات ابن سعد جلد3صفحہ 116)

اسی دین پر رہوں گا

حضرت خالد بن سعیدؓ ایک خواب کی بناء پر اسلام لائے۔ ان کے والد کو معلوم ہوا تو خالد کو پکڑنے کے لیے کئی آدمی بھیجے۔ جب وہ انہیں لے آئے تو والد نے انہیں شدید زدوکوب کیا اور انہیں ایک کوڑے سے مارا یہاں تک کہ ان کے سر پر مارتے مارتے وہ کوڑا ٹوٹ گیا۔ ان کے والد نے سمجھا کہ اب شاید ان کے خیالات بدل گئے ہوں گے اور پوچھا: کیا تم اب بھی محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اتباع کرو گے؟ خالد نے جواب دیا: خدا کی قسم یہ سچا دین ہے۔ میں اسی پر رہوں گا۔ اس پر والد نے بہت گالیاں دیں اور انہیں قید کر دیا۔ بھوکا پیاسا رکھا یہاں تک کہ تین دن اسی حال میں گزر گئے۔ آخر ایک دن موقع پاکر فرار ہوگئے اور حبشہ کی طرف ہجرت کرگئے۔

(طبقات ابن سعد جلد4صفحہ94)

اسیران راہ مولیٰ

حضرت عیاش بن ربیعہ ؓماں کی طرف سے ابوجہل کے بھائی تھے۔ اسلام لائے اور ہجرت کرکے مدینہ کی نواحی بستی قبا پہنچے تو ابوجہل اور حارث بن ہشام وہاں آگئے اور ان کو بہلا پھسلا کر مکہ لے آئے اور قید کر دیا۔ حضرت سلمہ بن ہشام بھی قدیمی مسلمانوں میں سے ہیں۔ آپ ہجرت کرکے حبشہ چلے گئے تھے۔ واپس آئے تو ابوجہل نے انہیں قیدکردیا اور بھوکا اور پیاسا رکھا۔

فرار ہو کر

حضرت ولید ؓخالد بن ولید کے بھائی تھے۔ وہ اسلام لائے تو انہیں حضرت سلمہ اور عیاش بن ابی ربیعہ کے ساتھ قید کر دیا گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان تینوں کی رہائی کے لیے دعا کیا کرتے تھے۔ ولید کسی طرح قید سے چھوٹ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باقی دو ساتھیوں کا حال پوچھا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ سخت اذیت اور مصیبت میں ہیں۔ ایک کا پاؤں دوسرے کے پاؤں کے ساتھ باندھا ہوا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر حضرت ولید مکہ گئے اور ایک خفیہ طریق سے ان دونوں کو لے کر مدینہ کی طرف روانہ ہوئے۔ خالد بن ولید نے پیچھا کیا مگر یہ بچ کر مدینہ پہنچ گئے۔

(طبقات ابن سعدجلد4صفحہ129تا133 داربیروت۔بیروت 1957ء)

پابجولاں

قریش کے ایک لیڈر سہیل بن عمرو کے بیٹے ابوجندل مسلمان ہوئے تو ان کے والد نے بیڑیاں پہنائیں اور کئی برس تک قید رکھا۔ اس دوران انہیں سخت عذابوں میں سے گزارا گیا۔ حدیبیہ کا معاہدہ طے ہورہا تھا کہ وہ کسی نہ کسی طرح پابجولاں وہاں آپہنچے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایفائے عہد کا بلند نمونہ پیش کرتے ہوئے انہیں واپس کردیا۔ وہ تعمیل حکم کرتے ہوئے پھر انہی مصائب میں گرفتار ہوگئے مگر پائے ثبات میں لغزش نہ آئی۔

(صحیح بخاری کتاب الشروط باب الشروط فی الجہاد)

ہر خوف سے آزاد

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی حضرت عبداللہ بن حذافہ ؓحضرت عمرؓ کے زمانہ میں رومیوں کے ساتھ ایک جنگ میں گرفتار ہوگئے۔ ان کو بادشاہ کے سامنے پیش کیا گیا اور بتایا گیا کہ یہ اصحاب محمد میں سے ہیں۔ بادشاہ نے اولاً تو انہیں لالچ دیا اور کہا: اگر تم عیسائی ہو جاؤ تو میں تمہیں اپنی حکومت اور سلطنت میں شریک کرلوں گا۔ حضرت عبداللہ نے ان سے کہا کہ اگر تم اپنی ساری سلطنت اور دولت بھی مجھے اس شرط پر دے دو کہ میں دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پھر جاؤں تب بھی میں یہ بات ایک لمحہ کے لیے بھی قبول نہیں کروں گا۔ تب بادشاہ نے انہیں موت کی دھمکی دی تو انہوں نے کہا: یہ تیرا اختیار ہے تو جو مرضی کر۔

چنانچہ بادشاہ کے حکم سے انہیں صلیب پر لٹکا دیاگیا اور اس نے تیراندازوں سے کہا: ان پر اس طرح سے تیر چلاؤ کہ ان کو نہ لگیں، ہاتھوں اور پاؤں کے قریب سے گزر جائیں۔ اس کے ساتھ ہی بادشاہ کہہ رہا تھا کہ اگر تم عیسائی ہو جاؤ تو بچ جاؤ گے مگر وہ مسلسل انکار کرتے رہے۔ آخر بادشاہ نے ایک اور چال چلی۔ ان کو صلیب سے اتروا لیا۔ ایک دیگ منگوائی اور اس کو لبالب پانی سے بھروایا، نیچے آگ جلوائی اور خوب جوش دلوایا۔ پھر دو مسلمان قیدیوں کو بلوایا۔ ان میں سے ایک کو دیگ میں پھینکنے کا حکم دیا اور اسے پھینک دیا گیا۔ اس طرح بادشاہ نے اپنے خیال میں حضرت عبداللہ پر اذیت ناک موت کا خوف طاری کرکے انہیں پھر عیسائی ہو جانے کا مشورہ دیا مگر انہوں نے اسے پائے حقارت سے ٹھکرا دیا۔

تب بادشاہ نے کہا کہ انہیں بھی اسی دیگ میں ڈال دیا جائے جب ان کو لے جایا جانے لگا تو حضرت عبداللہؓ رو پڑے۔ بادشاہ کو پتہ لگا تو وہ سمجھا کہ موت سے خوفزدہ ہوگئے ہیں۔ چنانچہ انہیں قریب بلاکر پھر عیسائیت کا پیغام پیش کیا تو انہوں نے انکار کر دیا۔ اس پر بادشاہ نے تعجب سے کہا کہ پھر رونے کی کیا وجہ تھی۔ حضرت عبداللہؓ نے فرمایا:میں نے سوچا کہ ابھی مجھے دیگ میں ڈال دیا جائے گا اور میری ایک ہی جان ہے جو چلی جائے گی۔ میری خواہش تو یہ ہے کہ میرے جسم کے بالوں جتنی تعداد میں یعنی ہزاروں لاکھوں جانیں ہوتیں جو سب کی سب راہ خدا میں آگ میں ڈال دی جاتیں۔ اس صدمہ سے مجھے رونا آگیا۔

بالآخر بادشاہ نے ان سے کہا کہ اگر تم میرے سر پر بوسہ دو تو میں تمہیں چھوڑدوں گا۔ اس پر حضرت عبداللہؓ نے تمام مسلمان قیدیوں کی رہائی کا وعدہ لیا اور سوچا کہ اس کے سر کو بوسہ دینے سے میرے تمام ساتھیوں کو بریت نصیب ہوتی ہے تو اس میں کیا حرج ہے۔ چنانچہ تمام قیدی رہا ہو کر حضرت عمرؓ کے پاس پہنچے اور انہیں یہ سارا واقعہ بتایا گیا تو حضرت عمرؓ نے فرمایا: ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ عبداللہ بن حذافہؓ کے سر کو بوسہ دے اور اس کا آغاز میں کروں گا۔

(کنزالعمال کتاب الفضائل جلد7صفحہ62)

معجزانہ رزق

اسی قید و بند اور اذیت کے عالم میں خدا تعالیٰ نے ایسے معجزانہ طور پر صحابہ کو رزق عطا فرمایا کہ دشمن حیران رہ گئے اور یہ امر ان کے لیے ہدایت کا موجب بن گیا۔

لذیذ پانی

حضرت ابوامامہ باہلی ؓاپنی قوم کو تبلیغ کر رہے تھے مگر قوم مسلسل انکار کر رہی تھی۔ اس موقع پر انہیں سخت پیاس لگی۔ انہوں نے پانی طلب کیا تو ان کی قوم نے کہا: ہم تمہیں ہرگز پانی نہیں دیں گے۔ یہاں تک کہ تم پیاس سے مر جاؤ۔حضرت ابوامامہ سر پر کپڑا لپیٹ کر سخت گرمی میں پتھروں پر لیٹ گئے اور بعید نہیں تھا کہ شدت پیاس اور گرمی سے ان کی جان نکل جاتی۔ مگر خدا اپنے فدائیوں کے لیے غیرمعمولی معجزے بھی دکھاتا ہے۔ انہوں نے خواب میں دیکھا کہ ایک آدمی ان کے لیے ایک قیمتی پیالہ میں ایسا پانی لایا ہے جس سے زیادہ خوبصورت پیالہ اور لذیذ پانی کبھی کسی نے نہیں دیکھا۔ انہوں نے وہ پانی سیر ہو کر پیا۔ یہ معجزہ جب انہوں نے ثبوت کے ساتھ پیش کیا تو ساری قوم ایمان لے آئی۔

(مستدرک حاکم جلد3صفحہ642کتاب معرفة الصحابہ مکتبہ النصر الحدیثہ ریاض)

تمہارا دین بہتر ہے

حضرت ام شریکؓ قبیلہ بنو عامر بن لوئی میں سے تھیں۔ مکہ میں اسلام قبول کیا۔ آپ خفیہ طور پر قریش کی عورتوں کے پاس جاتیں اور اسلام کی تبلیغ کرتیں۔ جب اہل مکہ کو پتہ لگا تو انہوں نے حضرت ام شریک ؓکو پکڑ لیا اور ان کے لیے سزا تجویز کی اور انہیں اونٹ کی ننگی پیٹھ پر سوار کرا دیا اور انہیں نامعلوم منزل کی طرف لے کر چل پڑے انہیں تین دن تک کھانے پینے کے لیے کچھ نہ دیا گیا۔ جب کسی منزل پر رکتے تو خود سائے میں بیٹھ جاتے اور ان کو دھوپ میں باندھ دیتے۔ خود کھاتے پیتے اور ان کو بھوکا پیاسا رکھتے۔ مگر خداتعالیٰ نے ان کے ساتھ یہ سلوک فرمایا کہ رؤیا میں انہیں بہترین ٹھنڈا اور میٹھا پانی پلایا گیا جو انہوں نے اپنے اوپر بھی چھڑک لیا اور ان کی حالت بہت بہتر ہوگئی۔ جب ان کے مخالفین نے ان کی یہ کیفیت دیکھی تو سمجھا کہ شاید انہوں نے ان کے مشکیزوں سے پانی لے لیا ہے۔ مگر حضرت ام شریک ؓ نے انہیں اپنا رؤیا بتایا اور انہوں نے دیکھ لیا کہ ہمارے مشکیزے باقاعدہ اسی طرح بھرے ہوئے ہیں تو انہوں نے کہا کہ تمہارا دین ہمارے دین سے بہتر ہے اور پھر اسلام لے آئے۔

(الاصابہ جلد4صفحہ446 ازابن حجر عسقلانی مطبع مصطفی محمد۔ مصر 1939ء)

رشتہ داروں سے جدائی

صحابہ پر جو ایک گہرا جذباتی وار کیا گیا وہ رحمی رشتوں کا انقطاع تھا۔ ان کے اہل خاندان نے نہ صرف ان سے تمام تعلق توڑ لیے بلکہ ان پر مظالم کی بھی قیادت کرتے رہے۔ مگر صحابہ اس امتحان سے بھی سرخرو ہو کر نکلے۔ جیسا کہ متعدد واقعات پہلے درج کئے جاچکے ہیں۔ چند مزید نمونے پیش خدمت ہیں۔

جبری طلاق

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دعویٰ نبوت سے قبل آپ کی دو بیٹیوں حضرت رقیہ ؓاور حضرت ام کلثوم ؓکے نکاح ابولہب کے دو بیٹوں عتبہ اور عتیبہ سے ہوچکے تھے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید کا اعلان فرمایا تو ابولہب اور اس کی بیوی نے اپنے دونوں بیٹوں کو حکم دے کر رخصتانہ سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں بیٹیوں کو طلاق دلوادی۔ یہ دونوں مقدس خواتین بعد میں یکے بعد دیگرے حضرت عثمانؓ کے عقد میں آئیں اور حضرت عثمانؓ نے ذوالنورین کا لقب پایا۔

(اسد الغابہ جلد5صفحہ 612)

اگر سو جانیں ہوں

حضرت سعد بن ابی وقاصؓ والدہ سے بہت محبت اور حسن سلوک کرنے والے تھے۔ جب وہ اسلام لائے تو ان کی ماں نے کہا یہ تو نے کیا دین اختیار کرلیا ہے۔ اسے چھوڑ دے ورنہ میں کچھ کھاؤں گی نہ پیئوں گی یہاں تک کہ مر جاؤں۔ مگر حضرت سعد ؓنے انکار کردیا اور ماں نے بھوک ہڑتال شروع کر دی اور ایک دن رات اسی طرح گزر گیا اور وہ بہت کمزور ہوگئی۔ مگر دین کے معاملہ میں حضرت سعد ؓنے غیرمعمولی استقامت کا مظاہرہ کیا اور انہوں نے اپنی والدہ سے کہا:

اگر تیرے سینہ میں ہزار جانیں بھی ہوں اور ایک ایک کرکے ساری نکل جائیں تب بھی میں کسی قیمت پر اس دین سے جدا نہیں ہوسکتا۔ یہ سن کر ان کی والدہ نے کھانا پینا شروع کر دیا۔

(اسد الغابہ جلد2صفحہ292 از عبدالکریم جزری)

خاندان بکھر گیا

حضرت ابوسلمؓہ نے قریش کے مظالم سے تنگ آکر مدینہ ہجرت کا ارادہ کیا۔ اپنے ساتھ اپنی بیوی ام سلمہ ہند اور بیٹے سلمہ کو اونٹ پر سوار کیا اور مدینہ کی طرف چل پڑے۔ جب ام سلمہ کے قبیلہ بنو مغیرہ کو معلوم ہوا تو وہ لپک کر پہنچے اور ابوسلمہ سے کہا کہ تیری ذات تو ہم سے جدا ہوسکتی ہے مگر تو ہمارے قبیلہ کی عورت کو نہیں لے جاسکتا۔یہ کہہ کر انہوں نے اونٹ کی نکیل کو ابوسلمہ کے ہاتھ سے چھین لیا اور انہیں اکیلے ہجرت کی اجازت دے کر ام سلمہ کو روک لیا اور قید کر دیا۔

جب ابوسلمہ کے قبیلہ بنو عبدالاسد تک یہ خبر پہنچی تو وہ دوڑے آئے اور کہا کہ ابوسلمہ کا بیٹا تو ہمارے قبیلہ کا فرد ہے اسے ہم ماں کے پاس نہیں رہنے دیں گے اور یہ کہہ کر ام سلمہ سے ان کا بیٹا بھی چھین لیا جو گود کا شیر خوار بچہ تھا۔ اس طرح بیوی کو خاوند سے اور بیٹے کو ماں سے جد اکر دیا گیا۔ حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ میں روزانہ صبح باہر نکل جاتی اور ویرانوں میں بیٹھ کر سارا دن آنسو بہاتی رہتی اور اس طرح پورا سال اسی حال میں گزر گیا۔ یہاں تک کہ بنو مغیرہ کے ایک آدمی کو ان پر رحم آگیا۔ ان کو بچہ واپس کیا گیا اور مدینہ جانے کی اجازت دی گئی اور وہ اکیلی بچے کو لے کر مدینہ پہنچیں۔

(سیرة ابن ہشام جلد2صفحہ112)

یہی ام سلمہ اپنے خاوند کی شہادت کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عقد میں آئیں اور ام المومنین کہلائیں۔

جائیداد سے محرومی

صحابہؓ نے اپنی جانیں، اپنے جسم، اپنی عزتیں اپنے تمام دنیوی تعلقات کے ساتھ اپنے تمام اموال بھی راہ مولیٰ میں قربان کر دیے مگر ایمان پر آنچ نہ آنے دی۔

اجرت نہ دی

عاص بن وائل پر حضرت خباب ؓکی اجرت باقی تھی۔ انہوں نے تقاضا کیا تو اس نے کہا کہ جب تک محمد (ﷺ)کی نبوت سے انکار نہ کرو گے مال نہ دوں گا۔ مگر خبابؓ نے جواب دیا مال دو یا نہ دو یہ انکار قیامت تک نہیں ہوسکتا۔

(بخاری کتاب التفسیر۔ سورة مریم)

نفع مند سودا

حضرت صہیب ؓبھی ابتدائی مسلمانوں میں سے تھے۔ آپ کمزور طبقہ سے تعلق رکھتے تھے اور حضرت عمار بن یاسرؓ کے ساتھ اسلام لائے تھے۔ انہوں نے ہجرت کرنا چاہی تو کفار نے سخت مزاحمت کی اور کہا کہ تم مکہ میں محتاج ہو کر آئے تھے لیکن یہاں آکر دولتمند ہوگئے۔ اب یہ مال لے کر ہم تمہیں یہاں سے نہیں جانے دیں گے۔ حضرت صہیبؓ نے کہا اگر میں یہ سارا مال تمہیں دے دوں تو پھر جانے دو گے۔ اس پر کفار راضی ہوگئے اور حضرت صہیبؓ سارا مال دے کر متاع ایمان کے ساتھ مدینہ پہنچ گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو فرمایا: صہیب نے نفع بخش سودا کیا ہے۔

(طبقات ابن سعد جلد4صفحہ227)

ذوالبجادین

حضرت عبداللہ ذوالبجادینؓ نے جب اسلام قبول کیا تو ان کی قوم نے ان کے تمام کپڑے اتروالیے۔ وہ اپنی ماں کے پاس گئے تو اس نے انہیں ایک چادر دے دی۔ انہوں نے اس کے دو ٹکڑے کیے ایک تو تہ بند بنالیا اور ایک اوپر قمیص کے طور پر لے لی۔ یہی ان کی جائیداد تھی جسے لے کر وہ خوش خوش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آگئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو چادروں کی وجہ سے ہی انہیں ذوالبجادین کا لقب عطا فرمایا۔

(اسدالغابہ جلد3صفحہ122۔ از عبدالکریم جزری)

یہ کیفیت دوچار صحابہ کی نہیں سب مہاجرین کی تھی۔ وہ جہاں جہاں سے بھی آتے اپنے تمام اموال اور جائیدادیں یا خود چھوڑ کر آگئے یا دشمنوں نے زبردستی چھین لیں اور ان پر قبضہ کرلیا۔ چنانچہ بڑے بڑے مالدار اور تاجر صحابی اس حال میں مدینہ پہنچے کہ تن کے کپڑوں کے سوا اور کوئی چیز ان کے پاس نہ تھی۔ ہاں آسمان سے حاصل ہونے والی رضائے الٰہی کی ردا ان پر سایہ فگن تھی۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی تمام آبائی جائیداد جو مکہ میں تھی اس پر عقیل (جو ابھی مسلمان نہ ہوئے تھے) نے قبضہ کرلیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر فرمایا: کیا عقیل نے ہمارے لیے کوئی جگہ چھوڑی ہے جہاں ہم ٹھہر سکیں اور ایسی عالی ظرفی کا مظاہرہ کیا کہ فتح کے باوجود وہ مکانات اور جائیدادیں ان سے واپس نہ لی گئیں۔

(بخاری کتاب المغازی باب این رکز النبی صلی اللہ علیہ وسلم )

صحابہ پر سلام

حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ نے جلسہ سالانہ ربوہ 1982ء پر صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے صبر کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

’’یہ تھا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں کا ردعمل اور یہی ان کو تعلیم دی گئی تھی۔ پس آج آغاز اسلام کی باتیں کرتے ہوئے ہمیں درود بھیجنا چاہئے اس محسن اعظم پر جس کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔محمد رسول اللّٰہ والذین معہکس شان کا وہ رسول تھا اور کس شان کے وہ غلام تھے جو آپ کے ساتھ تھے۔ ان کی کیسی اعلیٰ تربیت کی گئی اور انہوں نے تربیت کا کیسا پیارا رنگ پکڑا۔

پس آؤ آج کی دعاؤں میں خصوصیت کے ساتھ ہم درود بھیجیں محسن اعظم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اور سلام بھیجیں روح بلالی پر اور سلام بھیجیں روح خباب پر اور سلام بھیجیں روح خبیب پر۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ دنیا ادھر سے ادھر ہو جائے زمین و آسمان ٹل جائیں مگر یہ تقدیر نہیں بدل سکتی کہ ہمیشہ ہر حال میں ناربولہبی یقینا ًشکست کھائے گی اور نور مصطفوی ؐیقیناً کامیاب ہوگا۔ کوئی نہیں جو بلالی احد کی آواز کو مٹا سکے۔ کوئی پتھر، کوئی پہاڑ نہیں جو سینوں پر پڑ کر لاالٰہکی آواز کو دباسکے۔ کوئی دکھ اور کوئی غم نہیں، کوئی صدمہ نہیں جو محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کی شہادت سے کسی کو باز رکھ سکے۔

یہ امر یقیناً ہمیشہ ہمیش کے لئے زندہ اور قائم رہے گا۔ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم والذین معہ غالب آنے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں۔ مغلوب ہونے کے لئے نہیں بنائے گئے۔‘‘

(الفضل 10؍فروری 1983ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button