متفرق مضامین

پنجاب اسمبلی کی طرف سے منظور کردہ نئے بل ’تحفظ بنیادِ اسلام‘ پر ایک مختصریہ

(جمیل احمد بٹ)

22؍جولائی2020ء کوپنجاب اسمبلی نے تحفظ بنیاد اسلام کے نام پر ایک بل پاس کیا ہےجس میں کہا گیا ہے کہ پنجاب میں شائع ہو نے یا یہاں لائی جانے والی ہر کتاب (بشمول ڈیجیٹل) میں آنحضرت ﷺ کے نام کے ساتھ ‘خاتم النبیین ’لکھنا ضروری ہوگا۔اور آپ ﷺ ، اہل بیت، خلفائے راشدین، اصحابِ رسول اور امہات المومنین رضوان اللہ اجمعین۔نیز انبیائےکرام،فرشتوں،قرآن مجید،زبور، تورات، انجیل اور دین اسلام کے بارے میں توہین آمیز الفاظ کا استعمال قابل گرفت ہوگا۔اور کسی قابل اعتراض مواد کی اشاعت قابل ِسزا جرم ( پانچ سال تک قید اور پانچ لاکھ روپے تک جرمانہ) ہو گا۔

یہ تو نہیں بتایا گیاکہ ظہوراسلام پرڈیڑھ ہزار سال گزرنے کے بعد پنجاب میں اچانک ایسا کیا ہوا کہ اسلا م کی بنیادوں کو تحفظ کی ضرورت پڑ گئی۔ عدم ضرورت کے علاوہ یہ بل درج ذیل جہات سے بھی محل نظر ہے۔

توہین کا معاملہ

محترم ہستیوں میں ممتاز ترین انبیا ئےکرام ہیں۔ جن کے خلاف ان کے مخالفین کا توہین آمیزا لفاظ استعمال کرنے کا قرآن کریم ایک امر واقعہ کے طور پر ذکر کرتاہے۔ جیسا کہ فرمایا۔

یٰحَسۡرَۃً عَلَی الۡعِبَادِ ۚؑ مَا یَاۡتِیۡہِمۡ مِّنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا کَانُوۡا بِہٖ یَسۡتَہۡزِءُوۡنَ(یس:31)

وائے حسرت بندوں پر! ان کے پاس کوئی رسول نہیں آتا مگر وہ اس سے ٹھٹھا کرنے لگتے ہیں۔

انبیا ءکی توہین بڑا جرم ہے اور اس کی سزا یہ مجرم دنیا میں بھی پاتے ہیں اور آخرت میں بھی جہنم ان کا مقدر ہو گا۔لیکن قرآن کریم نےاس کے لیے کوئی حدمقرر نہیں فرمائی ہے۔ ہاں مومنوں کو ایسی صورت حال میں دو حکم دیے ہیں۔

ایک یہ کہ

اِذَا سَمِعۡتُمۡ اٰیٰتِ اللّٰہِ یُکۡفَرُ بِہَا وَ یُسۡتَہۡزَاُ بِہَا فَلَا تَقۡعُدُوۡا مَعَہُمۡ حَتّٰی یَخُوۡضُوۡا فِیۡ حَدِیۡثٍ غَیۡرِہٖۤ(النساء: 141)

جب تم سنو کہ اللہ کی آیات کاانکار کیا جا رہا ہے یا ان سے تمسخر کیا جا رہا ہے تو ان لوگوں کے پاس نہ بیٹھویہاں تک کہ وہ اس کے سوا کسی اور بات میں مصروف ہو جائیں۔

یعنی ایسی مجالس (جن میں آج کی ویب سائٹس اور ویڈیو کلپس شامل ہیں )سے دور رہا جائے۔

اور دوسرےیہ کہ

وَ لَا تَسُبُّوا الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوا اللّٰہَ عَدۡوًۢا بِغَیۡرِ عِلۡمٍ(انعام:109)

اور تم ان کو گالیاں نہ دو جن کو وہ اللہ کے سوا پکارتے ہیں ورنہ وہ دشمنی کرتے ہوئے بغیر علم کے اللہ کو گالیاں دیں گے۔

یعنی مومن اپنی زبان پاک رکھیں۔اور خودمذہب کے نام پر کسی کو حتیٰ کہ بتوں کو بھی برا نہ کہیں۔

اسی تعلیم کے مطابق آنحضرت ﷺ اور خلفائے راشدین نے ایسے گستاخوں سے اس وقت تک درگزر کیا جب تک انہوں نے بغاوت نہ کی۔

مخالفین کی لاعلمی کے سبب پیدا ہونے والے اس ناپسندیدہ رویہ کی اصلاح کےلیے وقت کے امام نے آنحضرت ﷺ کی سیرت مبارکہ کی اشاعت اوراسے عام کرنے کی طرف توجہ دلائی۔ اسی طرح صحابہ کرام ؓ،امہات المومنین ؓ اور خلفائے راشدین کی سیرت کو عام کرنا ان کے بارے غلط فہمیوں کے ازالہ کا طریق ہے۔عزت و احترام دل سے پیدا ہوتا ہے اور تادیبی کارروائیوں سے اس کی نشو ونما ہوسکنا خام خیالی ہے۔اگر دل ویسے ہی نفرت سے پر رہیں اور صرف کاغذ پراس کا اظہار نہ ہونے دیا جائے تو کیا حاصل؟

دوسرا معاملہ تحفظ کا ہے

دین کی اساس قرآن کریم ہے جس کی حفاظت کواللہ نے خود اپنے ذمہ لیاہے۔ جیسا کہ فرمایا:

اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّکۡرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ(الحجر:10)

یقیناً ہم نے ہی یہ ذکر اتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔۔

حفاظت کے اس اعلیٰ ترین انتظام کے ہوتے ہوئے اسلامی عقائد کے تحفظ کے نام پر قانون سازی اور انجمنوں کےقیام کی اغراض سیاسی اور معاشی تو ہو سکتی ہیں مگر دینی نہیں۔ کیا ایسا کرنےوالے انگریزی مثل more loyal than the kingکے مطابق خودکو بادشاہ سے زیادہ وفادار ثابت کرنا چاہتے ہیں؟

ریاستی مداخلت

ریاست کا رعایا کے مذہبی معاملات میں بلا جوازدخل اندازی کا یہ بل پستی کے اس راستہ پر ایک اور بڑی جست ہے جس کا راستہ 1974ء میں قرآن کریم کی اس بنیادی تعلیم کی نفی کرتے ہوئے کھولا گیا تھا کہ

لَاۤ اِکۡرَاہَ فِی الدِّیۡنِ(البقرہ :257)

دین میں کوئی جبر نہیں۔

قرآن کریم کی یہ روشن تعلیم ان اعلیٰ اصولوں کی پروردہ ہے کہ دین میں کوئی ، حتیٰ کہ خود آنحضرت ﷺ داروغہ نہیں۔ ذمہ داری بات پہنچا دینے کی حد تک ہے۔ ماننا یا نہ ماننا سننے والے پر موقوف ہے۔ ہر ایک خود اپنے اعمال کا جواب دہ ہو گا اور کوئی جان کسی دوسری جان کا بوجھ نہیں اٹھا ئے گی۔ اختلاف کرنے والوں کا دین ان کے لیےہےاور ہما رے لیے ہمارا دین۔

ریاست کی لوگوں کے مذہب سے لاتعلقی اب ایک مسلمہ اصول ہے۔ اس اصول کی خلاف ورزی سے مسائل بجائے حل ہونے کے اور بگڑتے ہیں۔اس حقیقت کا ادراک اس امر کا متقاضی ہے کہ پہلے ہونے والی غلطیوں کی اصلاح کی جائے نہ کہ ویسی ہی اور نئی غلطی۔

افہام و تفہیم (dialogue)

یہ بِل اختیار کے بَل پراختلاف کو دبانے کے کوشش ہے۔ جبکہ قرآن کریم بات چیت کی حوصلہ افزائی فرماتا ہے اور اپنے مخالفین سے بھی دلیل کا سوال کرتا ہے۔ جیسا کہ مختلف پس منظر میں چار بار فرمایا :

قُلۡ ہَاتُوۡا بُرۡہَانَکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ(البقرۃ:112)

تو کہہ کہ اپنی کوئی مضبوط دلیل تو لاؤ اگر تم سچے ہو۔

نیز دلیل سے جیت کو زندگی اور اس سے ہار کو موت سے تعبیر کرتا ہے جیسا کہ فرمایا:

…لِیَہۡلِکَ مَنۡ ہَلَکَ عَنۡۢ بَیِّنَۃٍ وَّ یَحۡیٰی مَنۡ حَیَّ عَنۡۢ بَیِّنَۃٍ…(الانفال:43)

…تا ہلا ک ہو جو ہلاک ہوادلیل کے ساتھ اور زندہ رہے جو زندہ رہا دلیل کے ساتھ۔…

پس مسئلہ کا حل اس قسم کی قانون سازی نہیں بلکہ مذکورہ قرآنی تعلیم پر عمل ہے۔ یعنی ملک بھر میں عوام و خواص کاکھلے دل کے ساتھ اختلاف رائے کو برداشت کرتے ہوئے افہام و تفہیم کو راہ دینا۔ریاست کے تمام ستون ،عمال حکومت ، مقننہ، عدلیہ اور میڈیا اس بارے میں حساس ہونا۔ مختلف نقطہ ہائے نظر کو برداشت کرنے کا عملی مظاہرہ کرنا۔ دوسروں کے مقدسین کا نام کم از کم عام تہذیبی اصولوں کے مطابق بلا توہین لینا۔ہر مذہبی معاملہ پر بات چیت dialogueکی راہ کھلی رکھنااور عدم برداشت کے ہر اظہار کو اجتماعی طور پر معیوب اور ناپسندیدہ سمجھا جانا اور اس پر پرسش اور باز پرس ہونا۔یہ سب ہونےسے ہی خوشگوار بقائے باہمی ممکن ہے۔

کتاب کی بندش؟

اس بل پر عمل درآمد کتب کو محدود کردے گا۔ جتنی درسی، تاریخی یا مذہبی کتب اس وقت پنجاب میں گھروں،لائبریریوں اور کتب فروشوں کے پاس موجود ہیں ان میں لکھے گئے مقدس نام پورے طور پر بل کے مطابق نہیں ہیں اور قابل گرفت ہیں۔ نئے ایڈیشن شائع ہونے تک عملاً قانون کے مطابق کوئی کتاب دستیاب نہیں ہوگی۔ نئے ایڈیشن بھی صرف ان کتابوں کے ہی ممکن ہوں گے جو پاکستان میں طبع ہوئیں۔ غیر ملکی ناشر ان قوانین کی پابندی کرنے سے رہے۔ اور یوں وہ سب کتب آئندہ پنجاب میں دستیاب نہیں ہوں گی۔ اور یوں فروغ علم کی یہ بنیادی راہ محدود بلکہ مسدود ہوجائے گی۔قرآن کریم نے اپنے ماننے والوں کو پہلا حکم اقراء یعنی پڑھنے کا دیاتھا۔ یوں تو پہلے ہی اس حکم پر عمل کم ہے اب اس بل سے اس کے کم تر ہو جانے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔

بوتل کا جن

اس بل پرڈان کے ایک صحافی نے تبصرہ کیا کہ

’’اگر احمدیوں کو کافر نہ قرار دیا جاتا تو تحفظ بنیاد اسلام جیسےاحمقانہ بل کی نوبت نہ آتی۔‘‘ (مبشر زیدی کا ٹوئٹ میسج)

یہ ٹویٹ اورسوشل میڈیا پر گردش کرتی متاثرہ مسلک کے علما ءکے ناراض ویڈیو کلپس نے اس امکان کا حقیقت ہونا ثابت کردیا ہےجس کی طرف حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے 1974ء میں اشارہ فرمایا تھا کہ یہ معاملہ یہیں نہیں رکے گا اور دوسرے فرقے بھی اس کی زد میں آئیں گے۔ جب بوتل میں بند قانون کے نام پر لاقانونیت کے اس جن کو باہر نکالنے کی کوشش ہو رہی تھی۔ وہ وقت تھا کہ تمام اہل دانش اس کی روک تھام کرتے۔ اس وقت سب نے اس اسلامی تعلیم کو نظر انداز کردیا کہ

وَ لَا یَجۡرِمَنَّکُمۡ شَنَاٰنُ قَوۡمٍ عَلٰۤی اَلَّا تَعۡدِلُوۡا(المائدہ:9)

کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہرگز اس با ت پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو۔

نیز یہ کہ برائی کا ساتھ نہ دیا جائے اوراس کو ہاتھ سے، زبان سے روکا جائے یا کم از کم دل میں بر اسمجھا جائے۔

نتیجہ یہ ہے کہ آج ایساکرنے والوں میں شامل ایک فریق کی باری آ گئی ہے۔اب بھی اگر یہی رویہ اپنایا گیا تو کل کسی اور کا نمبر آ جائے گا۔ برائی سےلا تعلقی اس کو پنپنے میں ممد و مددگار ہو تی ہے اور سب ذمہ دار ٹھہرتے ہیں۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button