حضرت مصلح موعود ؓ

قرآن کریم پڑھنے پڑھانے کے متعلق تاکید (قسط دوم)

از: حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ

(گزشتہ سے پیوستہ )جیسا کہ میں نے بتایا ہے قرآن شریف ہی دین کی جان ہے اِس کو پڑھے پڑھائے بغیر کسی قسم کی ترقی کا خیال کر لینا ایک غلط خیال ہے۔ حضرت خلیفہ اوّل عام طور پر عورتوں کے درس میں ایک چھوٹی سی مثال سنایا کرتے تھے۔ وہ ایک نہایت ہی لطیف بات ہے اگر ہم چاہیں تو اس سے بہت بڑا سبق حاصل کر سکتے ہیں۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ دیکھو! جب میں کہتا ہوں قرآن شریف پڑھو یا سنو تو تم یہ جواب دیا کرتی ہو کہ ہم پڑھی ہوئی نہیں حالانکہ اگر کسی عورت کا بچہ باہر گیا ہوا ہو اور اُس کے نام کا کارڈ باہر سے آئے تو جو پڑھی ہوئی ہوتی ہیں وہ تو اُس کو ایک دفعہ پڑھ کر سرہانے کے نیچے رکھ دیتی ہیں یا ٹرنک میں رکھ لیتی ہیں یا کسی طاق میں رکھ دیتی ہیں مگر جو اَن پڑھ ہوتی ہیں اُن کو ایک دفعہ خط پڑھوا کر سننے سے تسلی نہیں ہوتی بلکہ وہ کسی دوسرے کے پاس جاتی ہیں اور پھر اُس سے سنتی ہیں۔ مثلاً جب ایک اَن پڑھ عورت کے پاس خط آتا ہے تو پہلے وہ گاؤں کے مُلاّ کے پاس جاتی ہے اور کہتی ہے مُلاّ جی! ذرا کارڈ پڑھنا میرے بیٹے کی طرف سے آیا ہے۔ اُس سے سنتی ہے اور سمجھتی ہے کہ شاید کوئی لفظ مُلاّ جی کی نگاہ سے رہ گیاہویا شاید جلدی میں سارا مضمون نہ سنایا ہو، پھر وہ دَوڑی دَوڑی چوہدری جی کی بیٹھک میں جاتی ہے اور کہتی ہے چوہدری جی! ذرا یہ کارڈ تو سنا دینا میرے بیٹے کی طرف سے آیا ہے۔ اُس سے خط سنتی ہے مگر پھر بھی تسلی نہیں ہوتی اور وہ پٹواری جی کے پاس چلی جاتی ہے اور کہتی ہے پٹواری جی! ذرا یہ خط تو سنا دینا میرے بیٹے کی طرف سے آیا ہے اُس سے سنتی ہے۔ پھر وہ مدرّس کے پاس چلی جاتی ہے اور کہتی ہے منشی جی! ذرااِس خط کو تو سنا دینا پھر بھی تسلی نہیں ہوتی تو ڈاکخانے والے بابو کے پاس چلی جاتی ہے اور کہتی ہے۔ ڈاکٹر بابو جی! ذرا اِس خط کو تو سنا دینا (گاؤں والے بیچارے ڈاکخانے کو کم علمی کی وجہ سے ڈاکٹر خانہ کہتے ہیں) وہ اُس کے پاس جاتی ہے اور کہتی ہے ڈاکٹر بابو جی! ذرا یہ خط تو سنا دینا اور اِس طرح جب تک اُسے سات آٹھ دفعہ سن نہیں لیتی اُسے تسلی نہیں ہوتی اور کارڈ کو اپنے قریب ہی رکھتی ہے۔ ایک دو ماہ کے بعد اگر کوئی باہر کا آدمی اس گاؤں میں آ جائے اور اُس کو اِس کا علم ہو جائے کہ وہ پڑھا ہوا ہے تو وہ اُس کے پاس چلی جاتی ہے اور کہتی ہے ذرا یہ خط تو سنا دیں۔ غرض پڑھی لکھی عورتیں تو ایک دفعہ پڑھ کر چپ کر جاتی ہیں مگر اَن پڑھ عورتوں کو تم دیکھتی ہو کہ جب تک سات آٹھ دفعہ خط پڑھوا نہ لیں آرام نہیں لیتیں۔

پس خدا تعالیٰ تمہارا یہ عُذر ہرگز نہیں سنے گا کہ ہم پڑھی ہوئی نہیں ہیں۔ خدا تعالیٰ پوچھے گا کہ تم نے اپنے بیٹے کا کارڈ اتنی دفعہ پڑھوا لیا تھا تو تم نے میرا کارڈ کیوں نہ پڑھوایا۔ اگر تمہیں مجھ سے اتنی بھی محبت ہوتی جتنی اپنے بیٹے سے تھی تو تم میرا خط بھی پڑھوا کر سنا کرتیں مگر تم نے میرا خط بند کر کے رکھ دیا اور کسی سے نہ سنا اور اپنے بیٹے کا کارڈ پڑھواتی پھریں۔ تو حقیقت یہ ہے کہ جس چیز پر انسان کی زندگی کا مدار ہے اور جس کے بغیر انسان انسان نہیں کہلا سکتا اس کے متعلق اس قسم کے عُذر تراشنا کہ ہم پڑھے ہوئے نہیں جاہل ہیں بالکل غلط بات ہے۔

دنیا میں ہر چیز پڑھی تو نہیں جاتی بہت سی چیزیں سننے سے آتی ہیں۔ کیا دنیا کے ہر شخص نے کابل دیکھا ہے؟ کیا ہر شخص نے طہران دیکھا ہے؟ کیا ہر شخص نے بغداد دیکھا ہے؟ کیا ہر شخص نے قاہرہ دیکھا ہے؟ کیا ہر شخص نے دمشق دیکھا ہے؟ کیا ہر شخص نے قسطنطنیہ دیکھا ہے؟ کیا ہر شخص نے ٹوکیو (TOKYO) دیکھا ہے؟ کیا ہر شخص نے برلن (BERLIN) دیکھاہے؟ کیا ہر شخص نے پیرس (PARIS) دیکھا ہے؟ کیا ہر شخص نے میڈرڈ (MADRID) دیکھا ہے؟ کیا ہر شخص نے لندن (LONDON) دیکھا ہے؟ کیا ہر شخص نے پیٹس برگ (PETERSBURG) دیکھا ہے؟ کیا ہر شخص نے ماسکو (MOSCOW) دیکھا ہے؟ کیا ہر شخص نے نیویارک (NEW YORK) دیکھا ہے؟ کیا ہر شخص نے ہانگ کانگ (HONG KONG) دیکھا ہے؟ کیا ہر شخص نے شنگھائی دیکھا ہے؟ ہم نے کتنی چیزیں دیکھی ہیں اور کتنی سُنی ہیں؟ اگر مقابلہ کیا جائے تو سننے کی چیزیں ہزار ہا گُنا زیادہ ہیں اور دیکھنے والی چیزیں ہزار ہا گُنا کم ہیں بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ دیکھی ہوئی چیزیں اکثر نظر انداز ہو جاتی ہیں اور سنی ہوئی چیزیں اکثر یاد رہتی ہیں۔ ہم روزانہ سیر کے لئے باہر جاتے ہیں اور میدانوں اور پہاڑوں اور جنگلوں میں سے گزرتے ہیں لیکن جب باہر سے آنے والے انسان سے پوچھو کہ تم نے سیر میں کیا کیا دیکھا؟ اُس نے کئی کروڑ چیزیں دیکھی ہوتی ہیں مگر جب پوچھیں تو زیادہ سے زیادہ یوں کہہ دے گا بڑا اچھا نظارہ تھا۔ جب پوچھیں بتاؤ تو سہی کیا نظارہ تھا؟ تو آگے سے یہ جواب دے دیتے ہیں کہ بڑا اچھا نظارہ تھا، دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ دراصل مطلب یہ ہوتا ہے کہ یاد کچھ نہیں اور ہمارا یہ فقرہ کہنا کہ وہ نظارے دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں اپنے اندر درحقیقت یہ مفہوم رکھتا ہے کہ خاص نگاہ سے کسی چیز کو دیکھا ہی نہیں ویسے نظارے اچھے لگے۔ لیکن اِس کے مقابل پر اگر یہ پوچھا جائے کہ راستہ میں کون کون ملا اور کس کس سے کیا کیا باتیں کیں؟ تو وہ اس سے بیسیوں گُنے زیادہ باتیں بتا دے گا۔ وہ یہ بتلائے گا کہ راستے میں فلاں چوہدری ملا اُس نے یہ کہا، فلاں ملا اُس نے یہ کہا اور فلاں آدمی جو مجھے ملا اُس نے یہ کہا تو جو سُنی ہوئی باتیں ہیں وہ قریباً ساری یاد ہونگی اور دیکھی ہوئی باتوں میں سے اکثر بھول گئی ہونگی۔

بات یہ ہے کہ حافظے سے تعلق رکھنے والی دیکھنے اور سننے کی الگ الگ حسیں ہیں اور تجربہ بتاتا ہے کہ سننے والی چیزیں زیادہ یاد رہتی ہیں اور دیکھنے والی چیزیں کم یاد رہتی ہیں۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ جتنا بھی ہم کسی چیز کو زیادہ قریب کرتے ہیں اُتنا ہی وہ ہماری آنکھوں سے اوجھل ہوتی ہے۔ ہر وقت ماں کی گود میں رہنے والا بچہ ماں کو اتنا یاد نہیں ہوتا جتنا دُور کا رہنے والا۔ وہ اپنے ایک بچہ کو گود میں اُٹھائے ہوئے ہوتی ہے لیکن اُس کا دماغ اُس بچہ کی طرف نہیں ہوتا بلکہ اُس بچہ کی طرف ہوتا ہے جو دور ہوتا ہے۔ اِسی طرح وہ چیزیں جن میں سے انسان ہر وقت گزرتا ہے وہ اتنا اثر اُس کی طبیعت پر نہیں ڈالتیں جتنا وہ چیزیں جن میں سے انسان کبھی کبھی گزرتا ہے اثر ڈالتی ہیں۔ آنکھیں ہر وقت دیکھتی ہیں مگر کان ہر وقت نہیں سنتے، شوروغل تو ہر وقت ہوتا رہتا ہے مگر اُس کی طرف انسان کی توجہ نہیں ہوتی صرف ایک گونج سی ہوتی ہے جو کان سنتے ہیں مگر وہ چیز توجہ کھینچنے والی نہیں ہوتی۔ جس طرح میں تقریر کر رہا ہوں اور میری تقریر تمہاری توجہ کو اپنی طرف کھینچ رہی ہے تو جو معیّن سننا ہے وہ کبھی کبھی ہوتا ہے۔ لیکن جب تک انسان جاگتا رہتا ہے آنکھیں کھلی رہتی ہیں اور کوئی نہ کوئی چیز ہر وقت آنکھ دیکھتی رہتی ہے جس کی وجہ سے آنکھ فوراً اثر اخذ نہیں کرتی۔ لیکن کان کبھی کبھی سنتے ہیں اس لئے کان اس کو اخذ کرنے کے لئے اور دماغ اس کو حاصل کرنے کیلئے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ اِسے دوسرے لفظوں میں یوں سمجھ لو کہ آپ کا ایک بڑا گہرا دوست آپ کو ملنے کیلئے آتا ہے اور اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہتا ہے آپ وَعَلَیْکُمُ السَّلَامُ کہہ کر اپنا کام کرتے رہتے ہیں اور آپ کو اس کا خیال نہیں رہتا۔ کچھ دیر کے بعد آپ کہتے ہیں اوہ! مجھے خیال نہیں رہا تھا آپ سے بات کرنے کا۔ لیکن ایک اجنبی آدمی آتا ہے تو آپ اُس سے اِس طرح نہیں کرتے جس طرح اپنے دوست کے ساتھ کیا تھا بلکہ آپ فوراً کھڑے ہو جاتے ہیں اور اُسے تپاک سے ملتے ہیں اور پوچھتے ہیں آپ کہاں سے آئے؟ کیسے آئے؟ اس طرح دس بیس باتیں کرتے ہیں اور پھر اُسے تپاک سے رُخصت کرتے ہیں تو نئے آنے والے کی قدر زیادہ ہوتی ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ ہماری جماعت کے کئی افراد جو زیادہ سمجھدار نہیں ہوتے وہ اِس پر بگڑ جاتے ہیں کہ غیر کی خاطر کی اور ہماری نہیں کی۔ وہ جانتے نہیں کہ یہ فطرتی اور طبعی امر ہے کہ انسان نئی چیز کی طرف نئی توجہ کرتا ہے اور اسے ایسا کرنا چاہئے۔

حضرت مسیح ناصری کی ایک مثال کیسی لطیف ہے۔ آپ نے فرمایا کوئی شخص تھا اُس نے اپنے اموال دو بیٹوں میں تقسیم کر دیئے اور کہا بیٹو! جاؤ کماؤ اور کھاؤ! اُن میں سے ایک نے کہا باپ سے مال ملا ہے مُفت کا ہے اِس لئے آؤ خوب گل چھرے اُڑائیں۔ اُس نے عیاشی شروع کر دی اور خوب مال اُڑایا۔ دوسرے نے کہا میرے باپ کا مال ہے اِس کی حفاظت کرنی چاہئے۔ اُس نے روپیہ کمانا اور جمع کرنا شروع کردیا۔ حسبِ ضرورت کچھ گزارے کے لئے خرچ کرتا رہا اور باقی رقم جمع کرتاگیا آخر بہت سار وپیہ لے کر گھر واپس آیا۔ باپ نے اُس کی بڑی تعریف کی اور عزت سے گھر میں بٹھایا اور اپنے دوسرے بیٹے کا انتظار کرتا رہا مگر دوسرا بیٹاسارا مال کھا چکا تھا وہ کونسا منہ لے کر باپ کے پاس جاتا، وہ باپ کے پاس جانے کا خیال چھوڑ کر دُور نکل گیا اور کسی شخص کے ہاں سؤر کا گلہ چرانے پر نوکر ہوگیا، روزانہ چھوٹے چھوٹے بچے جو چل نہ سکتے تھے اُن کو کمرپر لادتا اور باقی بچوں کی گردنوں میں ہاتھ ڈالے ہوئے ریوڑ کو ہانک کر باہر لے جاتا اور لاتا تھا۔ اُس کا مالک بعض اوقات کسی وجہ سے اُسے گالیاںدیتا اور مارنے کے لئے بھی تیار ہو جاتا اور کہتا نالائق! تم نے یہ کام نہیں کیا وہ کام نہیں کیا، وہ اس سے بہت تنگ آگیا اور ایک دن غصے میں آکر اُس نے سؤر کے بچے کو زور سے زمین پر پٹخ دیا اور کہا میرے باپ کے گھر میں صرف بھائی ہی تو نہیں کئی نوکر بھی ہیں۔ اگر نوکری ہی کرنی ہے تو کیوں نہ میں باپ کے پاس چلا جاؤں اور اُس کی نوکری کر لوں، وہ لَوٹ کر اپنے باپ کی طرف آیا۔ جب باپ کو پتہ لگا کہ میرا بیٹا واپس آرہا ہے تو اُس نے اپنے تمام دوستوں کو جمع کیا اور اُس کے استقبال کے واسطے گیا اور اپنے گھر میں لے آیا۔ اُس نے اِس خوشی میں کئی دنبے ذبح کئے اور لوگوں کو بُلا کر اُن کی دعوت کی۔ دوسرا بیٹا جو کما کے لایا تھا اُس کو بہت غصہ چڑھا اور اُس نے اپنے باپ سے کہا اے باپ !تیری بھی عجیب عقل ہے میں نے تیرے مال کو حفاظت سے رکھا، کمایا، اُس کو بڑھایا اور پھر واپس لے کر تیرے گھر آیا لیکن تو نے میرے آنے پر ایک کمزور دُنبی بھی ذبح نہیں کی لیکن یہ جس نے تیرے مال کو ضائع کیا اور اس کو تلف کر دیااور عیاشی میں اپنی عمر گزاری یہ آیا تو تو نے اِس کا استقبال کیا اور کئی دُنبے ذبح کرڈالے۔ باپ نے کہا اے میرے بیٹے! تو میرے پاس تھا جو چیز پاس ہوتی ہے اُس کی انسان خوشی نہیں کیا کرتے لیکن جو چیز گم ہو جاتی ہے اور پھر ملتی ہے اُس کی خوشی کیا کرتے ہیں۔ یہ گم ہوا تھا مجھے واپس ملا اِس لئے میں نے خوشی کی۔ (لوقاباب 15آیت 11تا32) پھر حضرت مسیحؑ نے فرمایا۔ ایسا ہی خدا کو اُس شخص کے واپس آنے سے زیادہ خوشی ہوتی ہے جو گنہگار ہوتا ہے اور توبہ کرکے اُس کے حضور میں حاضر ہو جاتا ہے۔

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button