کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

خدائے عزّوجل کی خوبی اور حُسن و جمال کی معرفت اس کی محبت پیدا کرتی ہے

انسان خدا تعالیٰ تک پہنچنے کے لئے دو چیزوں کا محتاج ہے۔ اوّل بدی سے پرہیز کرنا۔ دوم نیکی کے اعمال کو حاصل کرنا اور محض بدی کو چھوڑنا کوئی ہنر نہیں ہے۔ پس اصل بات یہ ہے کہ جب سے انسان پیدا ہوا ہے یہ دونوں قُوتیں اس کی فطرت کے اندر موجود ہیں۔ ایک طرف تو جذباتِ نفسانی اس کو گناہ کی طرف مائل کرتے ہیں اور دُوسری طرف محبتِ الٰہی کی آگ جو اُس کی فطرت کے اندر مخفی ہے وہ اُس گناہ کے خس و خاشاک کو اس طرح پر جلا دیتی ہے جیسا کہ ظاہری آگ ظاہری خس و خاشاک کو جلاتی ہے۔ مگر اُس رُوحانی آگ کا افروختہ ہونا جو گناہوں کو جلاتی ہے معرفتِ الٰہی پر موقوف ہے کیونکہ ہر ایک چیز کی محبت اور عشق اُس کی معرفت سے وابستہ ہے۔ جس چیز کے حسن اور خوبی کا تمہیں علم نہیں تم اس پر عاشق نہیں ہو سکتے۔ پس خدائے عزّوجل ّکی خوبی اور حُسن و جمال کی معرفت اس کی محبت پیدا کرتی ہے اور محبت کی آگ سے گناہ جلتے ہیں مگر سنّت اللہ اِس طرح پر جاری ہے کہ وہ معرفت عام لوگوں کو نبیوں کی معرفت ملتی ہے اور ان کی روشنی سے وہ روشنی حاصل کرتے ہیں اور جو کچھ اُن کو دیا گیا وہ اُن کی پیروی سے سب کچھ پالیتے ہیں۔

مگر افسوس کہ عیسائی مذہب میں معرفت الٰہی کادروازہ بند ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کی ہمکلامی پر مُہر لگ گئی ہے اور آسمانی نشانوں کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ پھر تازہ بتازہ معرفت کس ذریعہ سے حاصل ہو۔ صرف قصّوں کو زبان سے چاٹو۔ ایسے مذہب کو ایک عقلمند کیا کرے جس کا خدا ہی کمزور اور عاجز ہے اور جس کا سارا مدار قصّوں اور کہانیوں پر ہے۔

اِسی طرح ہندو مذہب جس کی ایک شاخ آریہ مذہب ہے وہ سچائی کی حالت سے بالکل گِرا ہوا ہے اُن کے نزدیک اِس جہان کا ذرّہ ذرّہ قدیم ہے جن کاکوئی پیدا کرنے والا نہیں۔ پس ہندوؤں کو اُس خدا پر ایمان نہیں جس کے بغیر کوئی چیز ظہور میں نہیں آئی اور جس کے بغیر کوئی چیز قائم نہیں رہ سکتی اور کہتے ہیں کہ اُن کا پرمیشر کسی کے گناہ معاف نہیں کر سکتا گویا اُس کی اخلاقی حالت انسان کی اخلاقی حالت سے بھی گری ہوئی ہے جبکہ ہم اپنے گنہگاروں کے گنہ معاف کر سکتے ہیں اور اپنے نفوس میں ہم یہ قوت پاتے ہیں کہ جو شخص سچے دل سے اپنے قصور کا اعتراف کرے اور اپنے فعل پر سخت نادم ہو اور آئندہ کے لئے اپنے اندر ایک تبدیلی پیدا کرے اور تذلّل اور انکسار سے ہمارے سامنے توبہ کرے تو ہم خوشی کے ساتھ اُس کے گناہ معاف کر سکتے ہیں بلکہ معاف کرنے سے ہمارے اندر ایک خوشی پیدا ہوتی ہے تو پھر کیا وجہ کہ وہ پرمیشر جو خدا ہونے کا دعویٰ کرتا ہے جس کے پیدا کردہ گنہگار ہیں اور اُن کے گناہ کرنے کی طاقتیں بھی اسی کی طرف سے ہیں۔ اُس میں یہ عمدہ خلق نہیں اور جب تک کروڑوں سال تک ایک گناہ کی سزا نہ دے خوش نہیں ہوتا۔ ایسے پرمیشر کے ماتحت رہ کر کیونکر کوئی نجات پا سکتا ہے اور کیونکر کوئی ترقی حاصل کر سکتا ہے۔

غرض مَیں نے خوب غور سے دیکھا کہ یہ دونوں مذاہب راستبازی کے مخالف ہیں اور خدا تعالیٰ کی راہ میں جس قدر اِن مذاہب میں روکیں اور نومیدی پائی جاتی ہے مَیں سب کو اِس رسالہ میں لِکھ نہیں سکتا۔ صرف بطور خلاصہ لکھتا ہوں کہ وہ خدا جس کو پاک روحیں تلاش کرتی ہیں اور جس کو پانے سے انسان اِسی زندگی میں سچی نجات پا سکتا ہے اور اُس پر انوارِ الٰہی کے دروازے کھل سکتے ہیں اور اُس کی کامل معرفت کے ذریعہ سے کامل محبت پیدا ہو سکتی ہے۔ اُس خدا کی طرف یہ دونوں مذہب رہبری نہیں کرتے اور ہلاکت کے گڑھے میں ڈالتے ہیں ایسا ہی اِن کے مشابہ دنیا میں اور مذاہب بھی پائے جاتے ہیں۔ مگر یہ سب مذاہب خدائے واحد لاشریک تک نہیں پہنچا سکتے اور طالب کو تاریکی میں چھوڑتے ہیں۔

یہ وہ تمام مذاہب ہیں جن میں غور کرنے کے لئے میں نے ایک بڑا حصہ عمر کا خرچ کیا اور نہایت دیانت اورتدبّر سے اُن کے اُصول میں غور کی۔ مگر سب کو حق سے دور اور مہجور پایا۔ ہاں یہ مبارک مذہب جس کا نام اسلام ہے وہی ایک مذہب ہے جو خدا تعالیٰ تک پہنچاتا ہے۔ اور وہی ایک مذہب ہے جو انسانی فطرت کے پاک تقاضاؤں کو پورا کرنے والا ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ انسان کی ایک ایسی فطرت ہے کہ وہ ہر ایک بات میں کمال کو چاہتا ہے۔ پس چونکہ انسان خدا تعالیٰ کے تعبدِ ابدی کے لئے پیدا کیا گیا ہے اِس لئے وہ اِس بات پر راضی نہیں ہو سکتا کہ وہ خدا جس کی شناخت میں اُس کی نجات ہے اُسی کی شناخت کے بارے میں صرف چند بیہودہ قصوں پر حصر رکھے اور وہ اندھا رہنا نہیں چاہتا بلکہ چاہتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی صفاتِ کاملہ کے متعلق پورا علم پاوے گویا اُس کو دیکھ لے۔ سو یہ خواہش اُس کی محض اسلام کے ذریعہ سے پوری ہو سکتی ہے۔ اگرچہ بعض کی یہ خواہش نفسانی جذبات کے نیچے چُھپ گئی ہے اور جو لوگ دنیاکی لذّات کو چاہتے ہیں اور دنیا سے محبت کرتے ہیں وہ بوجہ سخت محجوب ہونے کے نہ خدا کی کچھ پروا رکھتے ہیں اور نہ خدا تعالیٰ کے وصال کے طالب ہیں۔ کیونکہ دنیا کے بُت کے آگے وہ سرنگوں ہیں۔ لیکن اس میں کچھ شک نہیں کہ جو شخص دنیا کے بُت سے رہائی پائے اور دائمی اور سچی لذّت کا طالب ہو وہ صرف قصّوں والے مذہب پر خوش نہیں ہو سکتا اورنہ اُس سے کچھ تسلّی پا سکتا ہے ایسا شخص محض اِسلام میں اپنی تسلّی پائے گا۔ اِسلام کا خدا کسی پر اپنے فیض کا دروازہ بند نہیں کرتا بلکہ اپنے دونوں ہاتھوں سے بُلا رہا ہے کہ میری طرف آؤ اور جو لوگ پورے زور سے اس کی طرف دوڑتے ہیں اُن کے لئے دروازہ کھولا جاتا ہے۔

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 62تا64)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button