تاریخ احمدیت

8؍اگست تا 8؍ستمبر 1928ء کے مبارک ایام میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکا درس القرآن

قرآنی علوم و معارف اور اسرار و نکات کی اشاعت کے لحاظ سے8؍اگست1928ء تا 8؍ستمبر 1928ء کے مبارک ایام ہمیشہ یادگار رہیں گے کیونکہ ان ایام میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے مسجد اقصیٰ قادیان میں سورۂ یونس سے سورۂ کہف تک پانچ پاروں کا روح پرور درس دیا۔

(یہ درس حضور ؓکی نظر ثانی ترمیم و اصلاح اور بہت سے اضافوں کے بعد 1940ء میں تفسیر کبیر جلد سوم کی صورت میں شائع ہوا)

حضور کی غیر معمولی محنت و کاوش

حضور ؓکو ناسازئ طبع کے باوجود بہت محنت و مشقت کرنا پڑی۔ درس القرآن کو علمی اور تحقیقی پہلو سے مکمل کرنے کے لئے حضور گرمی کے تکلیف دہ موسم میں رات کے بارہ بارہ بجے تک کتب کا مطالعہ کر کے نوٹ تیار کرنے میں مصروف رہتے اور پھر دن میں سلسلہ کے اہم اور ضروری معاملات کی سر انجام دہی کے علاوہ روزانہ چار پانچ گھنٹہ تک سینکڑوں کے اجتماع میں بلند آواز سے درس دیتے۔( اس وقت تک ابھی مائیکروفون کا استعمال قادیان میں شروع نہیں ہوا تھا۔)جس قدر وقت میسر آ سکا اسے کلام اللہ پر غور کرنے اور اس کے حقائق و معارف بیان کرنے میں صرف فرماتے۔

حضور کے اس عظیم مجاہدہ کا ذکر کرنے کے بعد جو آپ نے محض اشاعت علوم قرآن کی خاطر اختیار فرمایا۔ اب ہم درس القرآن کے دوسرے اہم کوائف بیان کرتے ہیں۔

دوستوں کا قادیان میں اجتماع

یہ درس چونکہ ایک خاص اہمیت رکھتا تھا۔ اس لئے احباب جماعت کو متعدد بار تحریک کی گئی کہ اس موقعہ سے نہ صرف خود پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہیئے بلکہ دوسرے اہل علم مسلمانوں بلکہ غیر مسلموں کو بھی لانے کی کوشش کریں۔(اس بارے میں پہلا اعلان الفضل 3؍اپریل 1928ء میں اور دوسرا الفضل 22؍مئی 1928ء میں ہوا۔ اس کے بعد 6؍ جولائی 1928ء سے 7؍اگست1928ء کے الفضل میں۔)

چنانچہ 7؍اگست 1928ء تک بہت سے دوست مرکز احمدیت قادیان میں جمع ہوگئے۔ درس کے پہلے ہفتہ میں بیرونی احباب کی تعداد قریباً ڈیڑھ سو تک پہنچ گئی۔ ان احباب کی اکثریت گریجویٹ وکلاء، کالجوں کے طلباء اور حکومت کے معزز عہدیداروں اور رؤساء پر مشتمل تھی۔ (مثلاً حافظ عبدالسلام صاحب شملہ، مرزا عبدالحق صاحب بی۔ اے ایل ایل بی گورداسپور، چوہدری عصمت اللہ صاحب وکیل لائلپور۔ منشی قدرت اللہ صاحب سنوری۔ صالح محمد صاحب قصور، نذیر احمد صاحب متعلم بی ایس سی بابو عبدالحمید صاحب شملہ، قریشی رشید احمد صاحب بی ایس سی۔ میرٹھ۔ بابو فقیر محمد صاحب کورٹ انسپکٹر کیمل پور ملک عبدالرحمٰن صاحب خادم گجرات۔ سید محمد اقبال حسین صاحب ہیڈ ماسٹر نور محل، بابو روشن دین صاحب سیالکوٹ، ماسٹر فقیر اللہ صاحب ڈسٹرکٹ انسپکٹر مدارس۔)

اور ان کے قیام کا انتظام مدرسہ احمدیہ میں کیا گیا تھا۔ پروگرام کے مطابق 8؍اگست 1928ء کو مسجد اقصیٰ میں نماز ظہر کے بعد درس کا آغاز ہوا۔

درس نوٹ کرنے والے علماء اور زودنویس

درس محفوظ کرنے کے لئے حضور نے پہلے دن سے سلسلہ کے جید علماء اور زود نویسوں کی ایک جماعت متعین فرما دی تھی جو مندرجہ ذیل اصحاب پر مشتمل تھی:

حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب،مولوی عبدالرحمٰن صاحب جٹ۔ مولوی ارجمند خان صاحب، مولوی غلام احمد صاحب بدوملہوی، مولوی ظہور حسین صاحب۔ مولوی ابوالعطاء صاحب جالندھری بھائی عبدالرحمٰن صاحب قادیانی، ابوالبشارت مولوی عبدالغفور صاحب، مولوی محمد یار صاحب عارف، مولوی عبدالرحمٰن صاحب مصری، مولوی ظفر الاسلام صاحب، سردار مصباح الدین صاحب، مولوی علی محمد صاحب اجمیری، شیخ چراغ الدین صاحب۔(مولوی ارجمند خان صاحب کی روایت ہے کہ ایک دفعہ میں نے اختتام درس پر حضرت مولانا (سید محمد سرور شاہ صاحب۔ناقل) سے عرض کیا: آپ لکھنے کی تکلیف کیوں اٹھاتے ہیں۔ آپ کو قرآن مجید کے علوم سے واقفیت اور پورا عبور حاصل ہے آپ نے جواباً فرمایا ایک تو میں حضرت صاحب کے حکم کی تعمیلکرتا ہوں دوسرے یہ کہ اگرچہ میں حضور کو خلافت سے قبل پڑھاتا رہا ہوں لیکن منصب خلافت پر متمکن ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ پر معارف اور حقائق قرآنیہ کا ایسا دروازہ کھولا ہے کہ میرا فہم ان علوم سے قاصر ہے اور میں حضور کا شاگرد ہوں استاد نہیں۔(اصحاب احمد جلد پنجم حصہ سوم صفحہ 54 طبع اول)

مسجلین کا تقرر

ان کے علاوہ سامعین میں سے (جن کی تعداد بعض اوقات پانچ سو سے بھی زیادہ ہو جاتی تھی اور جن میں مقامی احباب بھی شامل تھے) 81کے قریب اصحاب کا نام ایک رجسٹر میں درج کرلیا گیا اور ان کا نام مسجلین رکھا جنہیں حضور کے قریب جگہ دی جاتی تھی۔ اور ان کی روزانہ درس سے قبل حاضری ہوتی تھی اور 12؍اگست سے تو ان کا امتحان بھی لیا جانے لگا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی درس شروع کرنے سے پیشتر سوالات لکھوا دیتے اور پھر جواب لکھنے کے بعد پرچے لے لیتے۔ اور دوسرے دن نتیجے کا اعلان فرما دیتے۔

پہلے امتحان میں بابو محمد امیر صاحب امیر جماعت کوئٹہ اول، صوفی صالح محمد صاحب قصور دوم اور مولوی محمد ابراہیم صاحب قادیان سوم رہے۔ اس کے بعد نتائج میں پانچ درجوں تک کا اعلان ہوتا تھا جب مسجلین کی تعداد ایک سو سات تک پہنچ گئی تو مسجد میں ان کی نشستیں مقرر کر دی گئیں۔ تا ان کو بیٹھنے میں آسانی ہو۔ درس القرآن کے عام اوقات اڑھائی بجے سے پانچ بجے تک اور پھر نماز عصر کے بعد 6 بجے سے 7بجے تک مقرر تھے۔ لیکن عام طور پر اس سے زیادہ وقت صرف کیا جاتا۔(دو اڑھائی سو مستورات بھی پردہ میں بیٹھ کر استفادہ کرتی تھیں۔)

درس القرآن سننے والوں سے خطاب

31؍اگست 1928ء کو حضور نے خطبہ جمعہ میں درس القرآن سننے والوں سے خطاب کرتے ہوئے انہیں نصیحت فرمائی کہ

’’درس جب انہوں نے تکلیف اٹھا کر سنا ہے تو اس سے فائدہ بھی اٹھائیں اور وہ اس طرح کہ قرآن کریم کو دنیا تک پہنچائیں۔ قرآن دنیا میں غلافوں میں رکھنے یا جھوٹی قسمیں کھانے کے لئے نہیں آیا۔ بلکہ اس لئے آیا ہے کہ منبروں پر سنایا جائے۔ مناروں پر اس کی منادی کی جائے اور بازاروں میں اس کا وعظ کیا جائے۔ وہ اس لئے آیا ہے کہ پڑھا جائے اور سنایا جائے۔ پھر پڑھا جائے اور سنایا جائے۔ پھر پڑھا جائے اور سنایا جائے۔ خدا تعالیٰ نے اس کا نام پانی رکھا ہے اور پانی جب پہاڑوں پر گرتا ہے تو ان میں بھی غاریں پیدا کر دیتا ہے وہ نرم چیز ہے مگر گرتے گرتے سخت سے سخت پتھروں پر بھی نشان بنا دیتا ہے۔ اور اگر جسمانی پانی اس قدر اثر رکھتا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ خدا تعالیٰ کا نازل کیا ہوا روحانی پانی دلوں پر اثر نہ کرے۔ مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ اسے بار بار سنایا جائے اور اپنے عمل سے نیک نمونہ پیش کیا جائے۔‘‘

3؍ستمبر سے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مجوزہ درس بروقت ختم کرنے کے لئے صبح آٹھ بجے سے قریباً ساڑھے گیارہ بجے تک اور پھر ظہر کے بعد عصر تک دینا شروع فرما دیا۔

دار مسیح موعودؑ میں دعوت طعام

6؍ستمبر کو حضور نے درس میں شامل ہونے والے اصحاب کو دار مسیح موعود علیہ السلام میں دعوت طعام دی جس میں بہت سے مقامی اصحاب کو بھی شمولیت کا فخر بخشا۔ اخبار الفضل نے اس دعوت پر یہ نوٹ لکھا۔

’’اس دعوت کی قدر و قیمت وہی اصحاب جانتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لنگر خانہ کے سوکھے ٹکڑے بطور تبرک لے جاتے ہیں اور اپنے عزیزوں میں بطور تحفہ تقسیم کرتے ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ دعوت دینے والے ہوں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب اور خاندان مسیح موعود علیہ السلام کے دوسرے نونہال دعوت کھلانے والوں میں ہوں اور دار مسیح موعود میں بیٹھ کر دعوت کھانے کا موقعہ نصیب ہو۔ اس سے بڑھ کر ایک احمدی کے لئے کیا خوش قسمتی ہوسکتی ہے مبارک ہو ان اصحاب کو جنہیں یہ موقعہ میسر آیا اور خوش قسمت ہیں وہ انسان جنہیں روحانی مائدہ کے ساتھ اس دعوت میں بھی شریک ہونے کا فخر حاصل ہوا۔‘‘(الفضل 11؍ستمبر 1928ء)

الوداعی تقریر اور خطبہ جمعہ

چونکہ کئی اصحاب کو بعض مجبوریوں کے باعث واپس جانا ضروری تھا اس لئے حضور نے اگلے روز 7؍ستمبر کو گیارہ بجے تک درس دینے کے بعد جانے والے اصحاب کے لئے ایک مختصر سی الوداعی تقریر فرمائی۔ جس میں تبلیغ اسلام کرنے، قرآن مجید کے حقائق و معارف پھیلانے اور قلمی جہاد کرنے کی نصیحت کرنے کے بعد حاضرین سمیت نہایت خشوع خضوع سے لمبی دعا فرمائی دوران دعا گریہ و بکا سے مسجد میں گونج پیدا ہوگئی۔ خود حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔

اسی روز آپ نے خطبہ جمعہ میں بیرونی احباب کو نصیحت فرمائی کہ وہ اپنے اپنے مقام پر جاکر جماعتوں کو سنبھالنے اور چست بنانے کی کوشش کریں۔ اور ان میں زندگی کی روح پیدا کریں اور انہیں بتائیں کہ ان کا معیار آگے والے کی طرف دیکھنا ہوتا ہے۔ دنیا دار قربانی کرتے وقت پیچھے کی طرف دیکھتا ہے اور شکریہ کے وقت آگے کی طرف۔پھر ارشاد فرمایا کہ

’’آپ لوگوں نے قرآن کریم کا جو حصہ پڑھا ہے۔ اسے ضبط کریں۔ اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ اور دوسروں سے عمل کرانے کی کوشش کریں تاکہ جو مشکلات دین پر آ رہی ہیں وہ دور ہوں اور خدا تعالیٰ اپنے فضل سے دین کی ترقی کے سامان پیدا کرے اور ہماری کمزوریوں کی وجہ سے اس کے دین کو نقصان نہ پہنچے۔‘‘

درس کا فوٹو

جمعہ و عصر کے بعد پھر درس ہوا اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی معیت میں پورے مجمع کا فوٹو لیا گیا۔8؍ستمبر درس القرآن کا آخری دن تھا اس روز صبح سے درس شروع ہوا جو دو بجے دوپہر تک مسلسل جاری رہا۔

(افسوس یہ تاریخی فوٹو اب قریباً ناپید ہے … الفضل 12؍اکتوبر1928ء صفحہ 2میں مرزا عبدالحق صاحب وکیل گورداسپور … کے قلم سے ’’درس کے اجتماع کا فوٹو‘‘کے عنوان سے اس فوٹو کا یوں ذکر ملتا ہے کہ’’جن دوستوں نے درس کے موقعہ پر فوٹو کی قیمت ادا کی تھی ان کی خدمت میں اطلاعاً عرض ہے کہ وہ اپنی کاپی مولوی عبدالرحمٰن صاحب مولوی فاضل مدرسہ احمدیہ قادیان سے محصول ڈاک بھیج کر منگوا سکتے ہیں۔‘‘)

دوبارہ اجتماعی دعا صدقہ اور تقسیم انعامات

درس کے خاتمہ پر حضور نے دوبارہ اجتماعی دعا کرائی اور ماسٹر فقیر اللہ صاحب ڈسٹرکٹ انسپکٹر مدارس کی طرف سے حاضرین میں مٹھائی تقسیم کی گئی۔ اس موقعہ پر حضور نے فرمایا۔ کہ چونکہ رسول کریمﷺ کے متعلق آتا ہے کہ’’حضور علیہ السلام رمضان کے دنوں میں جبکہ قرآن نازل ہوتا تھا بہت صدقہ دیا کرتے تھے اس لئے میں بھی اس موقعہ پر اپنی طرف سے دس روپے بطور صدقہ دیتا ہوں اور بھی جن دوستوں کو توفیق ہو قادیان کے غرباء کے لئے صدقہ دیں اس پر قریباً دو سو روپے اس وقت جمع ہوگئے۔

آخر میں حضور نے اپنے دست مبارک سے درس کے سب امتحانات میں نتائج کے لحاظ سے اعلیٰ پوزیشن حاصل کرنے والوں کو انعامات عطا فرمائے۔

اول انعام حافظ عبدالسلام صاحب شملوی نے دوسرا صالح محمد صاحب قصور نے۔ تیسرا نذیر احمد صاحب متعلم بی ایس سی نے اور چوتھا فقیر محمد صاحب کورٹ انسپکٹر نے اور پانچواں شیخ عبدالقادر صاحب…نے حاصل کیا۔ تقسیم انعامات کے بعد یہ مقدس و مبارک تقریب اختتام پذیر ہوئی۔

(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد 5صفحہ 59تا 62)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button