خلاصہ خطبہ جمعہ

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ 31؍ جولائی 2020ء

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشادات کی روشنی میں حضورؑ کی بعثت کے مقاصد کا بیان

’’میرے آنےکے دو مقصد ہیں۔ مسلمانوں کے لیے یہ کہ اصل تقویٰ اور طہارت پر قائم ہوجائیں اور دوسرا مقصد یہ کہ عیسائیوں کے لیے کسرِ صلیب ہو اور اُن کا مصنوعی خدا نظر نہ آوے‘‘ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام)

احمدی توخاتم ا لنبیین کے مقام کا سب سے زیادہ ادراک رکھتے ہیں اور یہ ادراک ہمیں حضرت مسیح موعودؑنے ہی دیا ہے

مَیں سچ کہتا ہوں اور خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں اور میری جماعت مسلمان ہے۔ مَیں ایک ذرہ بھی اسلام سے باہر قدم رکھنا ہلاکت کا موجب یقین کرتا ہوں اور میرا یہی مذہب ہے کہ جس قدر فیوض اور برکات اور تقرب الیٰ اللہ کوئی شخص پاسکتا ہے وہ صرف آنحضرتﷺ کی سچی اطاعت اور کامل محبت سے پاسکتا ہے ورنہ نہیں

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 31؍ جولائی 2020ء بمطابق 31؍ وفا 1399 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ  بنصرہ العزیز نےمورخہ 31؍ جولائی 2020ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینے کی سعادت مکرم صہیب احمد صاحب کے حصے میں آئی۔تشہد، تعوذ اور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

آج صبح ہم نے عید بھی پڑھی ہے اور آج جمعہ بھی ہے۔ ایسے موقعے کے لیے آنحضرتﷺ کا یہ ارشاد ملتا ہے کہ جو لوگ چاہیں جمعے کی بجائے ظہر کی نماز ادا کرلیں، لیکن ساتھ ہی ایک ایسے ہی موقعے پرآپؐ نے فرمایا ہم تو جمعہ پڑھیں گے۔ اس ارشاد کی روشنی میں مَیں نے امیر صاحب کو یہی ہدایت کی تھی کہ جو لوگ ظہر کی نماز پڑھنا چاہیں وہ بےشک ظہر کی نماز پڑھ لیں۔ ویسے آج کل کے حالات میں گھروں میں اگر فارغ ہوں تو جیسے پہلے جمعہ پڑھتے ہیں آج بھی پڑھ لیں۔

حضرت مصلح موعودؓنے اس امر کے متعلق فرمایا کہ ہمارا ربّ کیسا سخی ہے کہ اُس نے ہمیں دو دو عیدیں دی ہیں ۔ اب جس کو دودو چپڑی ہوئی چپاتیاں ملیں ،وہ سوائے کسی خاص مجبوری کےایک کوکیوں ردّ کرے گا۔ اسی لیے آنحضرتﷺ نے اجازت دی ہے کہ اگر کوئی مجبور ہوکر ظہر کی نماز پڑھ لے تو دوسرے اُس پر طعن نہ کریں۔

آج کے خطبے کے لیے مَیں نے حضرت مسیح موعودؑ کے کچھ ایسے اقتباسات لیے ہیں جن میں آپؑ نے اپنی بعثت کے مقصد کو بیان فرمایا ہے۔ہمارے مخالفین یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ہم حضرت مسیح موعودؑ کو مان کر نعوذ باللہ آنحضرتﷺ کےمقام کو کم کرتے ہیں۔ پاکستان کی اسمبلیوں میں آنحضرتﷺ کے نام کے ساتھ خاتم النبیین کے لفظ لکھنے کی قرارداد پاس کرکے مخالفین فخر کر رہے ہیں کہ دیکھو ہم نے کیسا زبردست کام کیا ہے۔ اگر اُن کے عمل آنحضرتﷺ کے اسوے کے مطابق نظر آئیں تو یقیناً یہ قرارداد پاس کرنا بڑی اچھی بات ہو لیکن ان کے عمل تو حضورﷺ کی تعلیم سے کوسوں دُور ہیں۔ یہ سمجھتے ہیں کہ آنحضرتﷺ کے نام کے ساتھ خاتم النبیین لکھنا لازمی قرار دے کر انہوں نے احمدیوں کے راستے میں کوئی روک کھڑی کردی ہے۔ ان عقل کے اندھوں کو یہ نہیں پتہ کہ احمدی توخاتم ا لنبیین کے مقام کا سب سے زیادہ ادراک رکھتے ہیں اور یہ ادراک ہمیں حضرت مسیح موعودؑ نے ہی دیا ہے۔حضرت مسیح موعودؑ کے الفاظ میں جو طاقت ہے یہ لوگ اس کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتے۔ اپنی بعثت کے مقصد اور سلسلے کی ترقی کے متعلق، مخالفین کو مخاطب کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں:

میرے آنےکے دو مقصد ہیں۔ مسلمانوں کے لیے یہ کہ اصل تقویٰ اور طہارت پر قائم ہوجائیں اور دوسرا مقصد یہ کہ عیسائیوں کے لیے کسرِ صلیب ہو اور اُن کا مصنوعی خدا نظر نہ آوے۔ میرے ان مقاصد کو دیکھنے کے باوجود مخالفت کرنے والوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ کیا کاذب کبھی کامیاب ہوسکتا ہے؟ کذاب کی ہلاکت کے واسطے اس کا کذب ہی کافی ہے۔ لیکن جو کام اللہ تعالیٰ کے جلال اور اس کے رسول کی برکات کے اظہار کےلیے ہو اور خود خداتعالیٰ کے اپنے ہی ہاتھ کا لگایا ہوا پودا ہو تو اس کی حفاظت تو خود فرشتےکرتے ہیں۔ یاد رکھو کہ اگر میرا سلسلہ نری دکان داری ہے تو اس کا نام و نشان مٹ جائے گا لیکن اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور یقیناً اس کی طرف سے ہے تو ساری دنیا اس کی مخالفت کرے یہ بڑھے گا اور پھیلے گا اور فرشتے اس کی حفاظت کریں گے۔اگر ایک شخص بھی میرے ساتھ نہ ہو تب بھی مَیں یقین رکھتا ہوں کہ یہ سلسلہ کامیاب ہوگا۔ فرمایا کہ ہمارے سلسلے کی ترقی فوق العادت ہو رہی ہے۔

حضورِانور نے فرمایا کہ آج ہم دیکھتے ہیں کہ دو سو سے زائد ممالک میں مخلصین موجود ہیں ۔ جب آپؑ نے یہ فرمایا تھا تب توسینکڑوں میں تعداد تھی اور اب سال کے سال لاکھوں بیعتیں ہوتی ہیں۔

اپنی جماعت کے کامل ایمان اور آنحضرتﷺ کی سچی اطاعت کا اعلان کرتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں۔ مَیں سچ کہتا ہوں اور خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں اور میری جماعت مسلمان ہے۔ مَیں ایک ذرہ بھی اسلام سے باہر قدم رکھنا ہلاکت کا موجب یقین کرتا ہوں اور میرا یہی مذہب ہے کہ جس قدر فیوض اور برکات اور تقرب الیٰ اللہ کوئی شخص پاسکتا ہے وہ صرف آنحضرتﷺ کی سچی اطاعت اور کامل محبت سے پاسکتا ہے ورنہ نہیں۔ آپؐ کے سوا اب کوئی راہ نیکی کی نہیں۔ ہاں یہ بھی سچ ہے کہ مَیں ہرگز یقین نہیں کرتا کہ مسیح علیہ السلام اسی جسم کے ساتھ زندہ آسمان پر گئے ہوں اور اب تک زندہ قائم ہوں۔اگر مسیح کی نسبت موت کا یقین کرنا بےا دبی ہے تو آنحضرتﷺ کی نسبت یہ گستاخی اور بے ادبی کیوں یقین کرلی جاتی ہے۔

فرمایا ہمیں بھی رنج نہ ہوتا اگر تم آنحضرتﷺ کی نسبت بھی وفات کا لفظ سُن کر ایسے آنسو بہاتے مگر افسوس کہ خاتم النبیین اور سرورِ دو عالَم کی نسبت تو تم بڑی خوشی سے موت تسلیم کرلو اور اس شخص کی نسبت جو آنحضرتﷺ کی جوتی کا تسمہ کھولنے کے بھی قابل اپنے آپ کو نہیں بتاتا زندہ یقین کرتے ہو۔آنحضرتﷺ کے وجود کی جس قدر ضرورت دنیا اور مسلمانوں کو تھی اس قدر ضرورت مسیح کے وجود کی نہیں تھی ۔ جب آپؐ نے وفات پائی تو صحابہ کی یہ حالت تھی کہ دیوانے ہورہے تھے یہاں تک کہ حضرت عمرؓ نے تلوار میان سے نکال لی اور کہا کہ اگر کوئی آنحضرتﷺ کو مردہ کہے گا تو اس کی گردن سر سے جدا کردوں گا۔ تب حضرت ابو بکؓر نے کمال فراست سے خطبہ پڑھا اور یہ آیت پڑھی کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں اور آپؐ سے پیشتر جس قدر رسول آئے وہ سب وفات پاچکے۔اس آیت سے حضرت عمرؓ کی بھی تسلی ہوگئی اور صحابہ یہ آیت مدینے کی گلیوں میں پڑھتے پھرتے گویا یہ آیت آج ہی اتری ہو۔

آنحضرت ﷺ کے مقام و مرتبے کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:

وہ انسان جس نے اپنی ذات سے اپنی صفات سے اپنے افعال سے اپنے اعمال سے اور اپنے روحانی اور پاک قویٰ کے پُرزور دریا سے کمالِ تام کا نمونہ علماً و عملاً و صدقاً و ثباتاً دکھلایا اور انسان ِکامل کہلایا۔ وہ انسان جو سب سے زیادہ کامل اور انسانِ کامل تھا اور کامل نبی تھا اور کامل برکتوں کے ساتھ آیا … وہ مبارک نبی حضرت خاتم الانبیاء امام الاصفیاء ختم المرسلین فخر النبیین جناب محمد مصطفیٰﷺ ہیں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ آنحضرتﷺ کے مقام و مرتبے کا حقیقی ادراک عطا کرتے ہوئے آپؐ پر درود بھیجتے چلے جانے اور پہلے سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے آنحضرتﷺ کی محبت اپنے دلوں میں بٹھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اسی طریق سے ہماری عملی حالتیں مخالفین کو مخالفت کا جواب دیں گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button