خلاصہ خطبہ عید

عید الاضحی منانے کی غرض و غایت

مسلمان ابتدائے اسلام سے اُس قربانی او ر اُس واقعہ کو یاد کرنے کے لیے جوچارہزار سال سے زائد عرصہ پہلے پیش آیا تھا اس قربانی کی عید کو مناتے چلے آرہے ہیں۔

آج کا دن ہمیں اس خاندان کے اللہ تعالیٰ پر توکل اور اس قربانی کی یاد دلانے کے لیے ہے۔

خلاصہ خطبہ عید الاضحی سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 31؍ جولائی 2020ء بمطابق 31؍ وفا 1399 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ  بنصرہ العزیز نےمورخہ 31؍ جولائی 2020ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ عید الاضحی ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ تشہد، تعوذ اور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

آج عیدا لاضحی ہے،وہ عید جو قربانی کی عید کہلاتی ہے۔مسلمان ابتدائے اسلام سے اُس قربانی او ر اُس واقعہ کو یاد کرنے کے لیے جوچارہزار سال سے زائد عرصہ پہلے پیش آیا تھااس قربانی کی عید کو مناتے چلے آرہے ہیں۔ اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود اس قربانی کی اہمیت اور اس کی یاد میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ بےشک ایسے بےشمار لوگ ہوں گے جو دکھاوے کےلیےقربانیاں کرتےاور صرف خوشی کی تقریب کے طور پر اس عید کو یاد رکھتے ہیں۔ لیکن ایک مومن اس قربانی کی اہمیت اور اس کی روح کو یاد رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس واقعے کو قرآن کریم میں محفوظ کرکے ہمیشہ کےلیےقربانی کا ایک معیا ر قائم فرمادیا ہے۔کیا اعلیٰ معیار ہے کہ آج بھی جب ہم اس واقعے کو سنتے ہیں،اس پر غور کرتے ہیں تو ہمارے دل جذبات سے بھرجاتے ہیں۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ ایک شخص کو بڑھاپے میں نوے سال کی عمر کے قریب اولاد عطاہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ اپنے اس لڑکے کو ذبح کردو اور وہ شخص اپنے اکلوتے لڑکے کو ذبح کرنے کےلیے تیار ہوجاتا ہے۔اُس بچے کے جواب کو بھی قرآن کریم نے محفوظ کرلیا کہ اے میرے باپ!جو کچھ بھی خدا کہتا ہے تُو وہی کر۔ یہ جواب خوشی سے قربانی دینے والوں کے لیے ایک مثال ہے اور نوجوانوں کو بتایا گیا ہے کہ قربانی کے لیے تیار رہنےوالوں کے یہ جواب اور یہ معیار ہونے چاہئیں۔

بےمثال قربانی کے ان واقعات سے ہم جذبات سے لبریز ہوجاتے ہیں۔اکثر لوگوں کی آنکھیں آنسوؤں سے بھرجاتی ہیں لیکن ہمارے لیے اتنا ہی کافی نہیں۔ ہمیں اس کے ساتھ اپنے ’’ہر قربانی کے لیے تیار رہنے‘‘ کے عہدکا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

حضرت ابراہیمؑ کا اللہ تعالیٰ کےحکم پر بیٹے کی قربانی کےلیے فوری تیار ہوجانااس لحاظ سے بھی زیادہ اہمیت رکھتا ہے کہ آپؑ بہت نرم دل واقع ہوئے تھے۔ لیکن خدا تعالیٰ کا حکم ملتے ہی آپؑ نے اپنے ذاتی درد اور محبت کو ایک طرف رکھ کر اللہ تعالیٰ کی محبت کو ہر چیز پر مقدم کرلیا۔خداتعالیٰ سے وفا،محبت اور قربانی کے اس امتیاز نے آپؑ کو دوسروں سے ممتاز کردیا اور قیامت تک جب مسلمان آنحضرتﷺ پر درود بھیجیں گے تو ابراہیمؑ کا ذکر ضرور ہوگا۔ہر مسلمان، ہر قرآن پڑھنے والااور ہر درود پڑھنے والا جانتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس قربانی کو یاد رکھا اور قیامت تک کے لیے امر کردیا۔حضرت ابراہیمؑ نے قربانی کرکے اس سوچ کو دل و دماغ پر حاوی کرلیا کہ میری قربانی کی کوئی حقیقت نہیں بلکہ یہ خدا تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے مجھے اس قربانی کے قابل سمجھا۔پس قربانی کے لیے تیار رہنے کا عہد کرتے وقت ہمیں بھی اسی سوچ کو دل و دماغ پر حاوی کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ہماری قربانیوں کی حضرت ابراہیم اور حضرت اسمٰعیل علیہما السلام کی قربانیوں کے سامنے تو کوئی حیثیت نہیں، لیکن پھر بھی ہم اگر ‘دین کو دنیا پر مقدم رکھنے ’ کے عہد پر ذرا سابھی عمل کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس طرح نوازتا ہے کہ جس کی انتہا نہیں۔ پس یہ جذبہ عارضی نہیں بلکہ مستقل ہونا چاہیے ۔ اگر اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کی خواہش اور اس کے لیے کوشش زندگی کا مستقل حصّہ بن جائے تو تب ہی ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم اپنے عہد کو پورا کرنے کی کوشش کرنے والے ہیں۔ یہ ماحول گھروں میں پیدا کرنے کے لیے دعاؤں اور عمل کی ضرورت ہے۔

قربانی کےلیے تیار ہوجانے کے اس واقعے کے بعد حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسمٰعیلؑ کی مزید نئی قربانیوں کا دَور شروع ہوتا ہے۔اس نئے دَور میں صرف ابراہیمؑ اور اسمٰعیلؑ ہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کی بیوی اور اسمٰعیلؑ کی والدہ کو بھی قربانی میں شریک کرکےمردوں کے لیے یہ مثال قائم کردی کہ اگر تم حقیقی نیک ہو تو تمہارا اثر تمہاری بیویوں پر بھی ظاہر ہونا چاہیے۔چُھری پِھرنا تو ایک وقتی قربانی تھی لیکن خوف، تنہائی اور جدائی کی قربانی کے لیے اللہ تعالیٰ نے پورے خاندان سے مطالبہ کیاتوحضرت ابراہیمؑ  حضرت ہاجرہ اور حضرت اسمٰعیلؑ کوبے آب و گیاہ وادی میں چھوڑ آئے۔ حضرت ہاجرہ نے بھی توکل علی اللہ کا بےنظیر نمونہ دکھاتے ہوئےبے خوف ہوکر خود کو اس قربانی کے لیے پیش کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس قربانی کے طفیل ان کے ذریعے ایک ایسی زبردست قوم بنائی جس میں حضرت خاتم الانبیاء ﷺ جیسا عظیم المرتبت نبی مبعوث فرمایا اور اس طرح تمام دنیا حضرت اسمٰعیلؑ کے قدموں میں لاکر ڈال دی۔آنحضرتﷺ کے طفیل آج لاکھوں کروڑوں لوگ حج و عمرہ کرتے ہیں تو حضرت ہاجرہ کی اس قربانی کی یاد بھی تازہ کرتے ہیں۔

آج کا دن ہمیں اس خاندان کے اللہ تعالیٰ پر توکل اور اس قربانی کی یاد دلانے کے لیے ہے۔ حضرت ابراہیمؑ کی وفا اور حضرت ہاجرہ کی قربانی کو ہمیں اسوہ بنانا ہوگا۔ ہر عورت دیکھے کہ ہم نے اس معیار کو حاصل کرنے کے لیے کیا کرنا ہے۔ لجنہ جب اولاد کی قربانی کا عہد دہراتی ہیں تو میرے علم میں آیا ہے کہ بعض عورتیں خاموش رہتی ہیں کہ ہم تیار نہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ پر توکل اور اس کی رضا کی خواہش ہو تو یہ سوچ آہی نہیں سکتی۔ دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے عہد کو ہر احمدی مرد،عورت،جوان اور بچے نے نبھانا ہے ۔ جب ہمارے مرد اپنے نمونے ابراہیمی معیار پر لائیں گے تو وہ روحانی معیار عورتوں اور بچوں میں بھی سرایت کر جائےگا ۔جب ہر عورت حضرت ہاجرہ اور ہر جوان حضرت اسمٰعیلؑ کے نمونے اپنانے کے لیے تیار ہوں گے تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش بھی ہوگی اور پھر حقیقی قربانی اور اُس کے نتیجے میں خدا تعالیٰ کے قُرب کا ادراک اور تجربہ بھی ہوگا۔

اس زمانے میں اسلام کی نشأة ثانیہ میں حصّےدار بننے کےلیے ہم نے آنحضرتﷺ کے جس غلامِ صادق کو مانا ہے اللہ تعالیٰ نے اسے بھی ‘ابراہیم’کہا ہےچنانچہ کئی مواقع پر حضرت مسیح موعودؑ کو الہاماً ابراہیم کہہ کر مخاطب فرمایا گیا ہے۔پس اگر ہم نے روحانی ترقی،اسلام کو دنیا میں غالب کرنے اور حضرت محمدرسول اللہﷺ کا جھنڈا دنیا میں لہرانے کے لیے اس ابراہیم کو مانا ہے تو ہم میں سے ہر ایک کو اسمٰعیل بننے کی کوشش کرنی ہوگی۔ اس طرح ہی ہم اُن شہدا کی قربانیوں کا بہترین بدلہ لے سکتے ہیں جن کو زمانے کے ابراہیم کو ماننے کی پاداش میں شہید کیا گیا۔ حضورِانور نے واقفینِ نَو اور اُن کے والدین کو توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ جب دین کو دنیا پر مقدم کرنے اور قربانی کرنے کا عہد کیا ہے تو مالی حالات اور کم الاؤنس میں گزارہ جیسے عُذر بے معنی ہیں۔ ہمارے سلسلے کی غرض یہ ہے کہ ہم بھولی بھٹکی انسانیت کو خدا تعالیٰ کے حضور جھکنے والا بناسکیں۔ پس اس غرض کے لیے واقفینِ نو کو چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ مربی اور مبلغ بننے کی کوشش کریں۔

حضورِانور نے اسیرانِ راہِ مولیٰ کے لیے بالخصوص دعا کی تحریک فرمائی۔ اسی طرح شہدا کے خاندانوں، واقفین، مربیان، مبلغین اورمعلمین کو دعاؤں میں یاد رکھنے کا ارشاد فرمایا۔حضورِانور نے پاکستان میں احمدیوں کو قربانی سے روکے جانے اور افریقہ میں باہر سے آنے والے شریروں کا خاص طور پر ذکر کرتے ہوئے ہر احمدی کےلیے ان شریروں کے شر سے محفوظ رہنے کی دعا کی۔

خطبہ ثانیہ سے پیشتر حضورِانور نے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے تمام احمدیوں کو عید مبارک کا محبت بھرا پیغام دیا اور اعلان فرمایا کہ آج بھی خطبہ جمعہ اپنےوقت پر ہی ہوگا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button