حضرت مصلح موعود ؓ

نیکیوں پر استقلال اوردوام کی عادت ڈالیں

از: حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ

(گزشتہ سے پیوستہ) قرآن مجید سے پتہ لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنت میں مومنوں کے لئے افتراق اور جُدائی کو پسند نہیں فرمایا۔ پس وہاں اعلیٰ اور ادنیٰ کا امتیاز اس رنگ میں باقی نہیں رہے گاکہ وہ ایک دوسرے سے جُدا رہیں بلکہ ان کو ایک درجہ میں جمع کر دیا جائے گا۔ مگر اِس کا یہ مطلب نہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت ابراہیم ؑ، حضرت موسیٰؑ، حضرت عیسیٰ ؑ اور دوسرے انبیاء بھی جنت کی لذات سے اسی طرح سَوفیصدی لطف اندوز ہو رہے ہوں گے جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم لطف اندوز ہو رہے ہوں گے۔

اصل بات یہ ہے کہ چونکہ جذباتی لحاظ سے انسان پر اس کے پیاروں کی جُدائی شاق گزرتی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ادنیٰ اور اعلیٰ کے امتیاز کو مٹا کر ایک ہی مقام میں اُن کو جمع کر دے گا مگر اِس کے باوجود اُن میں مدارج کا امتیاز ہوگا۔ایک ہی پلیٹ سے دو آدمی کھانا کھاتے ہیں تو ہر ایک ان میں سے اپنے اپنے ذوق کے مطابق اس سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ ہر روز گھر میں کھانا پکتا ہے، میاں، بیوی، بچے اور دوسرے رشتہ دار اُسے کھاتے ہیں مگر کیا وہ سارے کے سارے ایک سا مزہ اُٹھاتے ہیں حالانکہ وہ سب کے سب ایک ہی کھانے میں شریک ہوتے ہیں پس مشارکت سے یہ ضروری نہیں ہوتا کہ وہ سب مزہ اُٹھانے میں بھی برابر ہوں۔ جنت میں مشارکت بھی ضروری ہے کیونکہ اگر سارے رشتہ داراِن نعمتوں میں شامل نہ ہوں تو جنت پورا انعام نہیں کہلا سکتی۔ باپ کہے گا میرا بیٹا میرے پاس نہیں ہے، بیوی کہے گی میرا خاوند میرے پاس نہیں ہے، خاوند کہے گا کہ میری بیوی میرے پاس نہیں ہے، بیٹا کہے گا میرے ماں باپ میرے پاس نہیں ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ سب کو جمع کر دے گا مگر باوجود ایک جگہ جمع ہونے کے ضروری نہیں کہ وہ سب جنت کی نعمتوں سے ایک جیسا لُطف اُٹھائیں۔ جیسا کہ ہمارے گھروں میں عام طور پر ایک ہی کھانا پکتاہے یہ کبھی نہیں ہوا کہ بیوی خاوند کیلئے تو پلاؤ پکائے، بچوں کیلئے قورما پکائے اور اپنے لئے دال پکائے، کوئی آدمی بھی گھر میں اس تفریق کو پسند نہیں کرتا۔ لیکن باوجود اس کے کہ وہ سب ایک ہی کھانے میں شریک ہوتے ہیں اُن کے ذوق اور اُن کے مزے میں اختلاف ہوتا ہے۔ اگر ان میں سے کوئی بیمار ہے تو وہ اور مزہ اُٹھائے گا، اگر کسی کے دانت نہیں تو وہ اور مزہ اُٹھائے گا اور جس کے دانت بھی ہیں اور صحت بھی ٹھیک ہے وہ اس سے اور مزہ اُٹھائے گا حالانکہ کھانا ایک ہی ہوتا ہے۔ اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عزیز اور رشتہ دار اور مقرب صحابہؓ وغیرہ کھانے میں آپ کے شریک ہوں گے تاکہ اُن کے دلوں کو ٹھیس نہ لگے لیکن ہر ایک ان میں الگ الگ مزہ لے رہا ہوگا اس لحاظ سے ان میں فرق بھی ہوگا اور درجات کا امتیاز بھی باقی ہوگا۔ اگر یہ سمجھا جائے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی بھی سَوفیصدی اُسی طرح جنت سے لُطف اُٹھائیں گے جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم لُطف اُٹھا رہے ہونگے تو جنت کے مدارج باطل ہو جاتے ہیں اور بڑے اور چھوٹے کا امتیاز باقی نہیں رہتا حالانکہ یہ امتیاز موجود ہوگا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ دوسرے لوگ مزہ میں سَوفیصدی تب شامل ہوسکتے ہیں کہ ان کے اعمال رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اعمال کے برابر ہوں لیکن ہم میں سے ہر ایک شخص جانتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اعمال کے لحاظ سے تمام انبیاء سے ارفع اور اعلیٰ ہیں۔ پھر باقی انبیاء آپ کے ساتھ جنت کی نعماء میں سَوفیصدی کس طرح شامل ہو سکتے ہیں۔

اِس نکتہ کو یاد رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے کہ ہم اِس دنیا میں اپنے اعمال کے ذریعہ جیسا ذوق پیدا کریں گے اسی کے مطابق جنت کی نعمتوں سے لطف اُٹھائیں گے اور ہر نیکی جس کے کرنے میں کوتاہی سے کام لیں گے ہم اپنے ہاتھ سے اُس نعمت کا دروازہ اپنے اوپر بند کریں گے۔اِس نکتہ کو پہلے لوگوں میں سے بھی کسی نے بیان نہیں کیا۔ جہاں تک میں نے صوفیاء کی کتابیں پڑھی ہیں کسی نے اِس بات کے متعلق بحث نہیں کی اور نہ اِس موضوع پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ غرض جنتیوں کے اتصال اور اتحاد سے اللہ تعالیٰ کا مقصد یہ ہے کہ جنتی لوگوں کو تسکینِ قلب حاصل ہو اور کوئی خلش ان کو تکلیف نہ دے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ کو بے شک تسکینِ قلب حاصل تھی لیکن بعد میں آنے والے دل میں ایک چبھن محسوس کرتے ہیںکہ کاش! ہم بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ ہوتے، ہم بھی آپ کا زمانہ دیکھتے، ہم بھی آپ کے ساتھ جنگوں میں شریک ہوتے لیکن جنت میں اِس قسم کی کوئی خلش باقی نہیں رہے گی۔ پس جنت میں اِتحاد اور اِتصال بھی ہوگا اور وہ اِس طرح کہ اللہ تعالیٰ سب رشتہ داروں کو ایک جگہ جمع کر دے گا تا کہ جُدائی ان کو تکلیف نہ دے لیکن ان میں مدارج کا امتیاز بھی باقی رہے گا اور وہ اس طرح کہ ہر ایک ان میں سے اپنے اپنے ذوق اور اپنی اپنی حِس کے مطابق جنت کی نعمتوں سے لطف اُٹھائے گا۔

پس یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ جس جس حِس کو انسان دنیا میں تقویت دے گا اُسی کے مطابق جنت کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوگا اور انسان کی حِسیں اِس دنیا میں اِس طرح تیز ہو سکتی ہیں کہ انسان محض اللہ تعالیٰ کی رضا اور اُس کی خوشنودی کے لئے اعمال بجا لائے اور اعمال کے بجالانے میں اِستقلال اور دوام اختیار کرے۔ جب تک اعمال میں اِستقلال اور مداومت کا رنگ نہ ہو اُس وقت تک وہ انسان کی روحانی زندگی پر اثر انداز نہیں ہوتے۔ کچھ دن تک التزام سے نماز پڑھنا پھر چھوڑ دینا، کچھ دن اصلاح و ارشاد کے کام میں جوش دکھانا پھر خاموشی اختیار کر لینا، کچھ دن تک قربانی کرنا اور پھر تھک جانا یہ ایسی چیز ہے جس کی وجہ سے انسان کی روحانی زندگی خطرہ میں ہوتی ہے اور وہ لوگ جو ایسا کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے جاذب نہیں ہوسکتے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل پورے طور پر اُنہی لوگوں پر نازل ہوتے ہیں جو صرف اللہ تعالیٰ کی خاطر اعمال بجا لاتے ہیں اور اِس بات کے محتاج نہیں ہوتے کہ نبی یا خلیفہ اُن کو بار بار توجہ دلائے۔ وہ اِس بات کا خیال نہیں کرتے کہ کسی بڑے آدمی نے تحریک کی ہے یا کسی چھوٹے آدمی نے، بلکہ وہ ہر نیک تحریک پر خواہ وہ نبی کی طرف سے ہو یا خلیفہ کی طرف سے ہو یا اُس کے کسی نائب کی طرف سے ہو لَبَّیْکَ کہنے کیلئے تیار رہتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے مورد بنتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ یہ کبھی پسند نہیں کرتا کہ لوگ نبی یا خلیفہ کی خاطر کام کریں۔ موحّد قوم وہی ہوتی ہے کہ خواہ نبی یا خلیفہ زندہ رہے یا فوت ہو جائے اُس کے اخلاص میں اور اُس کے جوش میں کمی نہ آئے بلکہ وہ اُسی جوش اور اخلاص سے کام کرتی چلے جائے جس جوش اور اخلاص سے وہ پہلے کام کرتی تھی۔اور یہ حقیقت ہے کہ جو قوم پورے طور پر موحّد ہو اُسے دنیا کی کوئی طاقت مٹا نہیں سکتی۔ نہ حکومتیں اسے کوئی گزند پہنچا سکتی ہیں اور نہ بادشاہتیں اُس کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ہمیشہ شرک ہی قوموں کی تباہی اور ہلاکت کا موجب ہوتا ہے۔

پس دوستوں کو اِس بات کا خاص خیال رکھنا چاہئے کہ آپ لوگوں کے اعمال میں کسی قسم کی ملونی نہ ہو اور ہر چھوٹی سے چھوٹی نیکی کو اختیار کرنے کی کوشش کریں۔ اس میں مداومت اختیار کریں اور کسی بات کے متعلق بھی آپ لوگوں کو بار بار توجہ دلانے کی ضرورت نہ ہو بلکہ ایک آواز ہی آپ کے لئے کافی ہوجو قوم اِس بات کی عادی ہو کہ اُسے بار بار بیدار کیا جائے اسے اپنے مستقبل کی فکر کرنی چاہئے کیونکہ انبیاء اور خلفاء تو اللہ تعالیٰ کی سواریاں ہوتے ہیں جو بوقتِ ضرورت بندوں کو عطا کی جاتی ہیں اور وہ بڑی حد تک جماعتوں کے بوجھوں کو اُٹھاتے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ سہولت کے لئے اپنے بندوں کو یہ سواریاں دے دے تو یہ اُس کا احسان ہوتا ہے اور اگر یہ سواریاں نہ ہوں تو اللہ تعالیٰ کی جماعتوں کا کام ہوتا ہے کہ وہ اِن بوجھوں کو خود اُٹھائیں۔ اگر کسی والد کو اپنا بچہ اُٹھا کر لے جانے کے لئے سواری نہ ملے تو وہ اُس کو پھینک نہیں دیتا بلکہ خود اُٹھا کر لے جاتا ہے۔ اور موت فوت کا سلسلہ تو انسانوں کے ساتھ جاری ہے اِس لئے نہ کسی انسان پر بھروسہ کرنا جائز ہے اور نہ بھروسہ کرنا چاہئے۔

حدیث میں آتا ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو مدینہ کے لوگوں کے لئے بہت بڑے ابتلاء کی صورت پیدا ہوگئی۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اُس وقت مدینہ میں موجود نہ تھے۔ آپ جب مدینہ میں آئے تو آپ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا علم ہوا اور آپ کو لوگوں کی حالت کا بھی علم ہوا۔ آپ مسجد میں تشریف لائے اور لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ مَنْ کَانَ یَعْبُدُ مَحَمَّدًاﷺ فَاِنَّ مُحَمَّدًا قَدْمَاتَ کہ جو شخص تم میں سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا یعنی آپ کی خاطر نماز پڑھتا تھا یا آپ کی خاطر روزہ رکھتا تھا یا آپ کی خاطر زکوٰۃ دیتا تھا اُسے جان لینا چاہئے کہ اُس کا معبود فوت ہو گیا ہے اور اب اُسے ان اعمال کے بجا لانے کی ضرورت نہیں۔

وَمَنْ کَانَ یَعْبُدُ اللّٰہَ فَاِنَّ اللّٰہَ حَیٌّ لَایَمُوْتُ

(بخاری کتاب فضائل اصحاب النبی ﷺ۔ باب قول النبی ﷺ لو کنت متخذا خلیلا…)

اور جو شخص تم میں سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا تھا یعنی اللہ تعالیٰ کے لئے نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور دوسرے احکام پر عمل کرتا تھا اُسے اب بھی یہ اعمال کرتے رہنا چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ زندہ ہے اور اس پر کبھی موت وارد نہیں ہو سکتی۔

پس جن لوگوں میں یہ کیفیت پیدا ہو جائے کہ خواہ کوئی زندہ رہے یا فوت ہو اُن کے اعمال میں کوئی کمی واقعہ نہ ہو یہی لوگ موحّد ہوتے ہیں اور جب توحید کی روح قوم میں سے مٹ جائے تو قوم بھی مٹ جاتی ہے۔

کیا ہم نے حضرت مسیح موعودؑ کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ کا سپرد کردہ کام چھوڑ دیا تھا؟ نہیں اور ہرگز نہیں بلکہ ہم نے نہایت اخلاص سے جاری رکھا اور اللہ تعالیٰ نے ہمارے اخلاص کو قبول فرمایا اور ہمیں پہلے کی نسبت بہت زیادہ ترقی عطا کی گئی۔ اگر آئندہ بھی جماعت اِس روح کو قائم رکھے کہ کسی کی موت کی وجہ سے ان میں سُستی پیدا نہ ہو بلکہ وہ اپنے کام کو پہلے کی نسبت زیادہ ہمت کے ساتھ کرتی چلی جائے تو اللہ تعالیٰ اسے بہت زیادہ ترقیات دے گا۔ پس یہ بات ہمیشہ یاد رکھو کہ جس قوم میں توحید زندہ ہے وہ قوم زندہ رہے گی اور جس قوم میں سے توحید مٹ جائے گی وہ قوم بھی مٹ جائے گی۔

(الفضل 29؍ جون 1960ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button