متفرق مضامین

قربانی کا فلسفہ، حکمت و مصلحت

(جاوید اقبال ناصر۔مربی سلسلہ جرمنی)

حج کی تکمیل کے لیےقربانی ایک لازمی جزو ہے۔ اسی طرح عید الاضحی بھی قربانی کو چاہتی ہے۔ لیکن دیکھنے والی بات یہ ہے کہ قربانی کس چیز کا نام ہے؟ کون سی قربانی کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم صادر فرمایاہے؟ کیا ظاہری طور پر کسی جانورکو ذبح کر دینے سے قربانی کا مفہوم پورا ہو جاتا ہے ؟یا قربا نی کسی اور چیز کا نام ہے؟ بہت سے سوال انسان کے ذہن میں جنم لیتے ہیں۔ اس مضمون میں کوشش کی گئی ہے کہ قربانی کے فلسفہ، حکمت و مصلحت کو واضح کیا جائے۔

انسان دُنیا میں جو کام بھی بجا لاتا ہے اُس کی ایک ظاہری شکل ہے اور ایک باطنی۔ ظاہر میں کوئی عمل جتنا بھی اچھاہو خداتعا لیٰ کے سامنے اِس کی کوئی قدر و قیمت نہیں جب تک اُس کا باطن بھی اُ س کی تائید نہیں کرتا۔ اسی طرح اگر کوئی عمل خواہ دنیا کی نظر میں اچھا نہ بھی ہو لیکن کرنے والے کی نیت، اللہ تعالیٰ کی خوشنودی ہو، تو اللہ تعالیٰ اُس کو قبول کر لیا کرتاہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانی کرنےکا معاملہ ہے۔ خداتعالیٰ کی راہ میں دی گئی چیز خواہ چھوٹی ہو یا بڑی اس کی خداتعا لیٰ کو کوئی غرض نہیں۔ ہاں اگر خدتعالیٰ کو غرض ہے تو اُس کی نیت اور تقویٰ کے ساتھ ہےکہ کس نیت اور خلوص سے وہ چیز اللہ تعالیٰ کو پیش کی گئی ہے۔ اور اُسی کے مطابق خداتعالیٰ اُس کے ساتھ معاملہ کرتاہے۔ اللہ تعالیٰ نےاس بات کا ذکر سورۃ الحج آیت نمبر 38 میں اس طرح کیا ہے:

لَنۡ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوۡمُہَا وَ لَا دِمَآؤُہَا وَ لٰکِنۡ یَّنَالُہُ التَّقۡوٰی مِنۡکُمۡ

یعنی ہر گز اللہ تک نہ ان کے گوشت پہنچیں گے اورنہ ان کےخون لیکن تمہاراتقویٰ اس تک پہنچے گا۔

قربانی اگر عاجزی اختیار کرتے ہوئےاور خداتعالیٰ کے پیار میں کی جائے تو اللہ تعالیٰ اُس کوبہت بڑھاتا ہے۔ جیساکہ فرمایا

وَاللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنۡ یَّشَآءُ(البقرہ:262)

اورہمارے پیارے نبیﷺ نےاس مضمون کو ایک جگہ اس طرح بیان فرمایا کہ’’جس نے ایک کھجور بھی پاک کمائی میں سے اللہ کی راہ میں دی۔ اور اللہ تعالیٰ پاک چیز کو ہی قبول فرماتاہے، تواللہ تعالیٰ اس کھجور کو دائیں ہاتھ سے قبول فرمائے گا اور اسے بڑھاتا چلا جائے گا یہاں تک کہ وہ پہاڑ جتنی ہوجائے گی۔ جس طرح تم میں سے کوئی اپنے چھوٹے سے بچھڑے کی پرورش کرتاہے یہاں تک کہ وہ ایک بڑا جانور بن جاتاہے۔ ‘‘

(بخاری کتاب الزکوٰۃ باب الصدقۃ من کسب طیب)

قربانی کے فلسفہ، حکمت و مصلحت کو اس زمانے کے خاتم الاخلفآء حضرت اقدس مسیح موعود علیہ ا لسلام نے اپنی تحریرات، خطابات و خطبات میں بار باربیان فرمایا۔ اِسی طرح آپؑ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے آپؑ کے خلفائے کرام نے بھی اس مضمون کومتعدد دفعہ مختلف زاویوں سے پیش کیا۔ تاکہ قربانی کی اصل حقیقت و روح کو درست طور پر سمجھا جا سکے۔ چند نمونے پیش کیے جاتے ہیں:

’’جس جگہ عام لوگ جانوروں کی قربانی کرتے ہیں خاص لوگ دلوں کو ذبح کرتے ہیں‘‘

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ ا لسلام قربانی کا فلسفہ بیان کرتےہوئے فرماتے ہیں:

’’دل کی پاکیزگی سچی قربانی ہے۔ گوشت اور خون سچی قربانی نہیں۔ جس جگہ عام لوگ جانوروں کی قربانی کرتے ہیں خاص لوگ دلوں کو ذبح کرتے ہیں۔ مگر خدا نے یہ قربانیاں بھی بند نہیں کیں۔ تا معلوم ہو کہ ان کی قربانیوں کا بھی انسان سے تعلق ہے۔ ‘‘

(پیغام صلح، روحانی خزائن جلد 23صفحہ 482)

’’حقیقی قربانی کے لیے کامل معرفت اور کامل محبت کی ضرورت ہے نہ کسی اور چیز کی ضرورت‘‘

اسی طرح آپؑ نے فرمایا:

’’خوف اور محبت اور قدردانی کی جڑھ معرفت کاملہ ہے۔ پس جس کو معرفت کاملہ دی گئی اس کو خوف اور محبت بھی کامل دی گئی۔ اور جس کو خوف اور محبت کامل دی گئی اس کو ہر ایک گناہ سے جو بے باکی سے پیدا ہوتا ہے نجات دی گئی۔ پس ہم اس نجات کے لیے نہ کسی خون کے محتاج ہیں اور نہ کسی صلیب کے حاجت مند اور نہ کسی کفارہ کی ہمیں ضرورت ہے بلکہ ہم صرف ایک قربانی کے محتاج ہیں جو اپنے نفس کی قربانی ہے جس کی ضرورت کو ہماری فطرت محسوس کر رہی ہے۔ ایسی قربانی کا دوسرے لفظوں میں نام اسلام ہے۔ اسلام کے معنے ہیں ذبح ہونے کے لیے گردن آگے رکھ دینا۔ یعنی کامل رضا کے ساتھ اپنی روح کو خدا کے آستانہ پر رکھ دینا۔ یہ پیارا نام تمام شریعت کی روح اور تمام احکام کی جان ہے۔ ذبح ہونے کے لیے اپنی دلی خوشی اور رضا سے گردن آگے رکھ دینا کامل محبت اور کامل عشق کو چاہتا ہے اور کامل محبت کامل معرفت کو چاہتی ہے۔ پس اسلام کا لفظ اسی بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ حقیقی قربانی کے لیے کامل معرفت اور کامل محبت کی ضرورت ہے نہ کسی اور چیز کی ضرورت۔‘‘

(لیکچرلاہور، روحانی خزائن جلد 20صفحہ 151تا152)

’’اللہ تعالیٰ پوست کو پسند نہیں کرتا۔ وہ تو روحانیت اور مغز کو قبول کرتا ہے‘‘

اسلام میں قربانی کی روح بیان کرتےہوئے آپؑ فرماتے ہیں :

’’اللہ تعالیٰ پوست کو پسند نہیں کرتا۔ وہ تو روحانیت اور مغز کو قبول کرتا ہے۔ اس لیے فرمایا۔

لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُھَا وَلَا دِمَاؤُھَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ ‘‘

(ملفوظات جلد 4صفحہ 81۔ایڈیشن 1988ء)

’’اپنے تمام وجود کے ساتھ خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان ہو‘‘

ایک اور جگہ آپؑ نے فرمایا:

’’خدا تعالیٰ نے شریعتِ اسلام میں بہت سے ضروری احکام کے لیے نمونے قائم کیے ہیں چنانچہ انسان کو یہ حکم ہے کہ وہ اپنی تمام قوتوں کے ساتھ اور اپنے تمام وجود کے ساتھ خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان ہو۔ پس ظاہری قربانیاں اسی حالت کے لیے نمونہ ٹھہرائی گئی ہیں لیکن اصل غرض یہی قربانی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُہَا وَلَا دِمَآؤُھَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ

یعنی خدا کو تمہاری قربانیوں کا گوشت نہیں پہنچتا اورنہ خون پہنچتا ہے مگر تمہاری تقویٰ اُس کو پہنچتی ہے۔ یعنی اُس سے اتنا ڈرو کہ گویا اُس کی راہ میں مرہی جاؤاور جیسے تم اپنے ہاتھ سے قربانیاں ذبح کرتے ہو۔ اسی طرح تم بھی خدا کی راہ میں ذبح ہو جاؤ۔ جب کوئی تقویٰ اس درجہ سے کم ہے تو ابھی وہ ناقص ہے‘‘۔

(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد نمبر23صفحہ نمبر99حاشیہ)

’’جس طرح ان جانوروں کا خون کراتے ہو ایسا ہی تم بھی خدا کی فرمانبرداری میں اپنے خون تک سے دریغ نہ کرو‘‘

حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ قربانی کا فلسفہ یوں بیان فرماتے ہیں:

’’جیسے ہم ایک جانور پر جو ہماری مِلک اور قبضہ میں ہے جزوی مالکیت کے دعوے سے چھری چلاتے ہیں اسی طرح ہمیں بھی اپنے مولیٰ کے حضور جو ہمارا سچا خالق ہے اور ہم پر پوری اور حقیقی ملکیت رکھتا ہے اپنی تمام نفسانی خواہشوں کو اس کے فرمانوں کے نیچے ذبح کر دینا چاہئے۔ قربانی کرنے سے یہ مراد نہیں کہ اس کا گوشت اللہ تعالیٰ کو پہنچتا ہے بلکہ اس سے ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام کی فرمانبرداری کا نظارہ مقصود ہے تاتم بھی قربانی کے وقت اس بات کو نظر رکھو کہ تمہیں بھی اپنی تمام ضرورتوں، اعزازوں، ناموریوں اور خواہشوں کو خدا کی فرمانبرداری کے نیچے قربان کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ جس طرح ان جانوروں کا خون کراتے ہو ایسا ہی تم بھی خدا کی فرمانبرداری میں اپنے خون تک سے دریغ نہ کرو۔ انسان جب ایسا کرے تو وہ کوئی نقصان نہیں اٹھاتا۔ دیکھو! ابراہیمؑ و اسماعیلؑ کا نام دنیا سے نہیں اٹھا۔ ان کی عزت و اکرام میں فرق نہیں آیا۔ پس تمہاری سچی قربانی کا نتیجہ بھی بد نہیں نکلے گا۔

و لٰکن ینالہ التقویٰ (الحج:38)

تقویٰ خدا کو لے لیتا ہے۔ جب خدا مل گیا تو پھر سب کچھ اسی کا ہو گیا۔ معجزوں کی حقیقت بھی یہی ہے۔ جب انسان خدا کا ہو جاتا ہے تو اس کو تمام ذرات عالم پر ایک تصرف ملتا ہے۔ اس کی صحبت میں ایک برکت رکھی جاتی ہے۔ اور یہ ایک فطرتی بات ہے کہ ایک انسان کے اخلاق کا اثر دوسرے کے اخلاق پر پڑتا ہے۔ بعض طبائع ایسی بھی ہیں جو نیکوں کی صحبت میں نیک اور بدوں کی صحبت میں بد ہو جاتی ہیں۔ ‘‘

( خطبہ عید الاضحی فرمودہ15؍جنوری1908ء مطبوعہ خطبات نورصفحہ 276)

’’قربانی ‘‘کہتے ہیں اللہ کے قرب کے حصول اور اس میں کوشش کرنے کو‘‘

اس طرح حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

’’قربانیوں کی لمبی تاریخیں ہیں۔ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ آدم کے وقت سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ چنانچہ ایک مقام پر ذکر ہے۔

وَ اتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ ابْنَیْ اٰدَمَ بِالْحَقِّۘاِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِهِمَا وَ لَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِؕقَالَ لَاَقْتُلَنَّكَؕ قَالَ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ(المائدۃ:28)

جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اولاد آدم (یہاں اس امر سے بحث نہیں کہ کتنے آدم گزرے ہیں بہرحال ایک آدم کی اولاد)نے قربانی کی۔ ’’قربانی‘‘ کہتے ہیں اللہ کے قرب کے حصول اور اس میں کوشش کرنے کو۔ میرا ایک دوست تھا۔ اسے کبوتروں کا بہت شوق تھا۔ شاہجہانپور سے تین سو روپے کا جوڑا منگوایا۔ اسے اڑا کر تماشا کر رہا تھا کہ ایک بحری نے اس پر حملہ کیا اور اسے کاٹ دیا۔ میں نے کہا کہ دیکھو یہ بھی قربانی ہے۔ باز ایک جانور ہے، اس کی زندگی بہت سی قربانیوں پر موقوف ہے۔ اسی طرح شیر ہے، اس کی زندگی کا انحصار کئی دوسرے جانوروں پر ہے۔ بلی ہے، اس پر چوہے قربان ہوتے ہیں۔ پھر پانی میں ہم دیکھتے ہیں کہ مچھلیوں میں بھی یہ طریق قربانی جاری ہے۔ ویل مچھلی پر ہزاروں مچھلیوں کو قربان ہونا پڑتا ہے۔ اسی طرح اژدہا ہے کہ جس پر مرغا قربان ہوتا ہے۔ غرض اعلیٰ ہستی کے لئے ادنیٰ ہستی قربان ہوتی رہتی ہے۔ اسی طرح انسان کی خدمت میں کس قدر جانور لگے ہوئے ہیں۔ کوئی ہل کے لئے، کوئی بگھیوں کے لئے، کوئی لذیذ غذا بننے کے لئے۔ پھر اس سے اوپر بھی ایک سلسلہ چلتا ہے، وہ یہ کہ ایک آدمی دوسروں کے لئے اپنے مال یا اپنے وقت یا اپنی جان کو قربان کرتا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ لڑائیوں میں ادنیٰ اعلیٰ پر قربان ہوتے ہیں۔ سپاہی قربان ہوتے جائیں مگر افسر بچ رہے۔ پھر افسر قربان ہوتے جائیں مگر کمانڈر انچیف کی جان سلامت رہے۔ پھر کئی کمانڈر انچیف بھی ہلاک ہو جاویں مگر بادشاہ بچ رہے۔ غرض قربانی کا سلسلہ دور تک چلتا ہے۔ اس پر بعض ہندو جو ذبح اور قربانی پر معترض ہیں ان سے ہم نے خود دیکھا کہ جب کسی کے ناک میں کیڑے پڑ جاویں تو پھر ان کو جان سے مارنا کچھ عیب نہیں سمجھتے بلکہ ان کیڑوں کے مارنے والے کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ شکریہ کے علاوہ مالی خدمت بھی کرتے ہیں۔ پھر اس سلسلہ کائنات سے آگے اگلے جہان کے لئے بھی قربانیاں ہوتی رہتی ہیں۔ اگلے زمانہ میں دستور تھا کہ جب کوئی بادشاہ مرتا تو اس کے ساتھ بہت سے معززین کو قتل کر دیا جاتا تا اگلے جہان میں اس کی خدمت کر سکیں۔ ‘‘

(خطبہ عید الاضحی فرمودہ3؍جنوری 1909ء مطبوعہ خطبات نور صفحہ 374تا375)

’’رؤیاء کا عام مسئلہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے بیٹے کو ذبح کرتے ہوئے دیکھے تو اس کی بجائے کوئی بکرا وغیرہ ذبح کر دے‘‘

پھر ایک جگہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

’’حضرت ابراہیم علیہ السلام جس ملک میں تھے شام اس کا نام تھا۔ وہاں آدمی کی قربانی کا بہت رواج تھا۔ اللہ نے انہیں ہادی کر کے بھیجا اور اللہ نے ان کو حقیقت سے آگاہ کیا۔ حضرت ابراہیمؑ نے رویاء میں دیکھا جبکہ ان کی ننانوے سال عمر تھی کہ میں بچہ کو قربان کروں۔ ایک ہی بیٹا تھا۔ دوسری طرف اللہ کا وعدہ تھا کہ کبھی مردم شماری کے نیچے تیری قوم نہ آئے گی۔ ادھر عمر کا یہ حال ہے اور بچہ چلنے کے قابل ایک ہی ہے، اسے حکم ہوتا ہے کہ ذبح کر دو۔ رؤیاء کا عام مسئلہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے بیٹے کو ذبح کرتے ہوئے دیکھے تو اس کی بجائے کوئی بکرا وغیرہ ذبح کر دے۔ اسی طرح یہاں لوگوں کو کہا کہ میں بیٹے کو ذبح کرتا ہوں مگر وحی الٰہی سے حقیقت معلوم ہوئی کہ دنبہ ذبح کرنا چاہئے۔ پس لوگوں کو سمجھایا کہ اے لوگو! تمہارے بزرگوں نے جو کچھ دیکھ کر یہ قربانی انسانی شروع کی اس کی حقیقت بھی یہی ہے کہ آدمی کی قربانی چھوڑ کر جانور کی قربانی کی طرف توجہ کرو۔ اس کی برکت یہ ہوئی کہ ہزاروں بچے ہلاک ہونے سے بچ گئے۔ کیونکہ انہیں ادنیٰ کو اعلیٰ پر قربان کرنے کا سبق پڑھا دیا گیا۔ ‘‘

(خطبہ عید الاضحی فرمودہ 3؍جنوری 1909ءخطبات نور صفحہ 375تا376)

’’جو شخص قربانی کرتا ہے وہ گویا اس امر کا اظہار کرتا ہے کہ میں خداتعالیٰ کی راہ میں سب کچھ قربان کر دوں گا‘‘

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ قربانی کی فلاسفی اور حکمت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’بعض لوگ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ کیا خدا تعالیٰ نعوذ باللہ ہندوؤں کے دیوتاؤں کی طرح خون کا پیاسا اور گوشت کا بھوکا ہے کہ وہ جانوروں کی قربانی کرنے کا حکم دیتا ہے اور اُن کی جان کی قربانی کو شوق سے قبول فرماتا ہے اور قربانی کرنے والوں کو بہشت کی بشارت دیتا ہے۔ اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ دیا ہے کہ قربانیوں میں یہ حکمت نہیں ہے کہ ان کا گوشت یا اُن کا خون خداتعالیٰ کو پہنچتا ہے بلکہ اس میں حکمت یہ ہے کہ ان کی وجہ سے انسانی قلب میں تقویٰ پیدا ہوتا ہے اور وہ تقویٰ خدا تعالیٰ کو پسند ہے۔ پس وہ لوگ جو بکرے یا اونٹ یا گائے کی قربانی کر کے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کو پالیاوہ غلطی کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ صاف طور پر فرماتا ہے کہ یہ کوئی چیز نہیں کہ خود ہی جانور ذبح کیا اور خود ہی کھا لیا۔ اس سے اللہ تعالیٰ کو کیا۔ یہ تو تصویری زبان میں ایک حقیقت کا اظہار ہے جس کے اندر بڑی گہری حکمت پوشیدہ ہے جیسے مصور ہمیشہ تصویریں بناتے ہیں مگر ان کی غرض صرف تصویر بنانا نہیں ہوتی بلکہ ان کے ذریعہ قوم کے سامنے بعض اہم مضامین رکھنے ہوتے ہیں…اسی طرح یہ ظاہری قربانی بھی ایک تصویری زبان ہے جس کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ جانور ذبح کرنے والا اپنے نفس کی قربانی پیش کرنے کے لیے تیار ہے پس جو شخص قربانی کرتا ہے وہ گویا اس امر کا اظہار کرتا ہے کہ میں خداتعالیٰ کی راہ میں سب کچھ قربان کر دوں گا۔ ‘‘ (تفسیر کبیر جلدششم صفحہ57)

’’پس ہر عبادت اور قربانی تقویٰ کی روح کو چاہتی ہے …اس کے بغیر یہ سب عبادتیں اور قربانیاں منہ پر ماری جاتی ہیں‘‘

اسی طرح حضورانورخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں کہ

’’ …خدا تعالیٰ کا حکم ہے کہ عید مناؤ۔ اس لئے کہ یہ قربانی کی عید تمہیں قربانی کے اسلوب سکھاتی ہے۔ تمہیں اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق چلنے کی طرف توجہ دلاتی ہے۔ ان حکموں پر غور کرنے کی طرف توجہ دلاتی ہے جو تقویٰ کے معیار بلند کرتے ہیں۔ ان ماںبیٹا اور باپ کی قربانیوں کی طرف توجہ دلاتی ہے جنہوں نے اپنے جذبات کو قربان کیا۔ جو صرف چھری پھروانے اور پھیرنے کے عارضی نمونہ دکھانے والے نہیں تھےبلکہ مسلسل لمبا عرصہ قربانیاں دینے والے تھے۔ جنہوں نے دنیاکو امن اور سلامتی کے اسلوب سکھانے کے لئےنہ صرف اپنے جذبات کو قربان کیا، اپنے آرام کو قربان کیا، اپنے وطن کو قربان کیا بلکہ ان دعاؤں میں مسلسل لگے رہے کہ خدا تعالیٰ آئندہ آنے والی نسلوں میں بھی ایسا انتظام کردے جودنیا کے لئے امن اور سلامتی دینے والے بن جائیں۔ جوتقویٰ کی وہ راہیں دکھانے والے ہوں جواللہ تعالیٰ کی رضا کو ہر چیز پرمقدم کرتے ہوئے تقویٰ کا اعلیٰ معیار قائم کر دیں۔ جن کے نمونے دنیا کے لئے ہمیشہ کے لئے رہنمابن جائیں۔

پس حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آپؑ کی بیوی اور بیٹے کی قربانی کی یاد میں جو ہم عید قربان مناتے ہیں اور مناسکِ حج ادا کرتے ہیں یہ ظاہری قربانیاں اور اظہار نہیں ہیں بلکہ ایک بہت بڑے مقصد کی طرف توجہ دلانے والی ہیں۔ ہماری قربانیاں جوبکروں، بھیڑوں اور گائیوں کی ہم کرتے ہیں یہ صرف ہماری بڑائی کے اظہار یا لوگوں پر اپنی نیکیاں ظاہر کرنے کے لئے نہیں کہ فلاں شخص نے بڑا خوبصورت اورمہنگا دنبہ قربان کیا یا فلاں نے بڑی خوبصورت اور مہنگی گائے قربان کی۔ اگر تقویٰ سے عاری یہ قربانیاں ہیں، اگر اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی خواہش اور دعا کے بغیر یہ قربانیاں ہیں تو اللہ تعالیٰ کےہاں یہ ردّ کرنے کے قابل ہیں۔ یہ اسی طرح ہلاکت کا باعث بن جاتی ہیں جس طرح نمازیں ہلاکت کا باعث بنتی ہیںجو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے نہیں پڑھی جاتیںبلکہ صرف دکھاوے کی ہوتی ہیں۔ …

پس ہر عبادت اور قربانی تقویٰ کی روح کو چاہتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کو چاہتی ہے۔ اس کے بغیر یہ سب عبادتیں اور قربانیاں منہ پر ماری جاتی ہیں۔

…ہم جو آنحضرتﷺ کے عاشق صادق کے ماننے والے ہیں، ہمیں یہ کوشش کرنی چاہئے کہ اُس روح کی تلاش کریں جو اِن قربانیوں کی روح ہے۔ ‘‘

(خطبہ عید الاضحی فرمودہ 6؍اکتوبر2014ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل23؍جنوری2015ءصفحہ20و10)

’’قربانی ایک ادنیٰ چیز کا اعلیٰ چیز کے لیے قربانی کا ایک ظاہری اظہار ہے‘‘

ایک اور جگہ حضورِ انور ایّدہ اللہ بیان فرماتے ہیں:

’’قربانی ایک ادنیٰ چیز کا اعلیٰ چیز کے لیے قربانی کا ایک ظاہری اظہار ہے۔ اور یہ احساس دلانے کے لیے کہ انسان ایک ادنیٰ چیز کو اپنے لیے قربان کر سکتا ہے۔ پس جب انسان ایک جانور کو اپنے لیے قربان کر سکتا ہے تو پھر انسان کو بھی سوچنا چاہیے کہ وہ اعلیٰ چیز کے لیے، اعلیٰ مقصد کے لیے اپنے آپ کو قربان کرے۔ یہ اقرار کرے کہ مَیں بھی اعلیٰ چیز کے لیے اپنے آپ کو قربان کرنے کے لیے تیار ہوں۔ اور ایک مومن کے لیے اعلیٰ چیز جس کے لیے اسے ہر قربانی کے لیے تیار رہنا چاہیے وہ خدا تعالیٰ کی ذات ہے۔ اور خدا تعالیٰ کے احکامات پر عمل کے لیے ہر قربانی کے لیے پیش کرنا ہے۔ دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کے عہد کو پورا کرنا ہے۔ جان، مال اور وقت کو پورا کرنے کے لیے بخوشی راضی اور تیار ہونا ہے۔ اور یہی تقویٰ ہے اور یہی وہ مقصد ہے جس کا احساس ہر سال تازہ کرنے کے لیے عید الاضحی منائی جاتی ہے کہ اپنے اس قربانی کے مقصد کو بھول نہ جانا۔ ‘‘

(خطبہ عیدا لاضحی فرمودہ 22؍اگست 2018ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل9؍اگست2019ءصفحہ24)

’’قربانیاں اور یہ عید کی خوشیاں تقویٰ نہیں پیدا کر رہیں تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کی دوٹکے کی بھی حیثیت نہیں‘‘

پھرآپ نے اسی خطبہ عیدا لاضحی میں فرمایا:

’’جب ہم دنیا کے حالات پر نظر دوڑاتے ہیں تو بدقسمتی سے مسلمانوں میں سب سے زیادہ یہ صورتحال نظر آتی ہے کہ وہ تقویٰ سے دور ہیں۔ دوسرے سے قربانی لینے کا تو بڑھ چڑھ کر مطالبہ کرتے ہیں لیکن اپنے گریبان میں نہیں جھانکتے، اپنی حالتوں کو نہیں دیکھتے، اپنی حالتوں پر غور نہیں کرتے… حج پر جاتے ہیں اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنے کا اعلان بھی کرتے ہیں۔

لَبَّیْکَ اللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ

کا ورد بھی کرتے ہیں، اعلان بھی کرتے ہیں۔ جانوروں کی قربانی بھی کرتے ہیں اور اسی طرح حج کے علاوہ بھی جیسا کہ میں نے کہا باقی دنیا میں رہنے والے بھی حسب توفیق قربانی کرتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے اس اعلان پر غور نہیں کرتے کہ

لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُھَا وَلَا دِمَاؤُھَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ۔

کہ یاد رکھو کہ ان قربانیوں کے گوشت اور خون ہرگز اللہ تعالیٰ تک نہیں پہنچتے لیکن تمہارے دل کا تقویٰ اللہ تعالیٰ تک پہنچتا ہے۔ پس اگر یہ حج اور قربانیاں اور یہ عید کی خوشیاں تقویٰ نہیں پیدا کر رہیں تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کی دوٹکے کی بھی حیثیت نہیں، معمولی حیثیت بھی نہیں۔ ‘‘

(خطبہ عیدا لاضحی فرمودہ 22؍اگست 2018ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل9؍اگست2019ءصفحہ24و19)

’’پس وہ لوگ جو کہ دنیا میں ترقی کرنا چاہتے ہیں …خدا کی فرمانبرداری سے وہ ابراہیمی مراتب حاصل کر سکتے ہیں‘‘

حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

’’حضرت ابراہیمؑ کے عملدرآمد اور ان کی تعلیم کا خلاصہ قرآن شریف نے ان آیات میں بیان فرمایا ہے کہ جیسا اس کے رب نے اسے کہا أَسْلِمْ تو فرمانبردار ہو جا تو ابراہیمؑ نے کوئی سوال کسی قسم کا نہیں کیا اور نہ کوئی کیفیت دریافت کی کہ میں کس امر میں فرمانبرداری اختیار کروں؟ بلکہ ہر ایک امر کے لئے خواہ وہ کسی رنگ میں دیا جاوے اپنی گردن کو آگے رکھ دیا اور جواب میں کہا

أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ۔ (البقرۃ:132)

کہ میں تو رب العالمین کا تابعدار ہو چکا۔ ابراہیم علیہ السلام کی یہی فرمانبرداری اپنے رب کے لئے تھی جس نے اسے خدا کی نظروں میں برگزیدہ بنا دیا۔ وہ لوگ جو ابراہیمؑ کا دین یعنی ہر طرح اپنے آپ کو خدا کے سپرد کرنا اختیار نہیں کرتے، غلطی کرتے ہیں اور اس لئے اللہ تعالیٰ ان کو سفیہ قرار دیتا ہے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے اسے دنیا میں بھی برگزیدہ کیا۔ پس وہ لوگ جو کہ دنیا میں ترقی کرنا چاہتے ہیں وہ غور کریں کہ خدا کی فرمانبرداری سے وہ ابراہیمی مراتب حاصل کر سکتے ہیں۔ ہر ایک قسم کی عزت ابراہیم علیہ السلام کو حاصل ہے اور یہ سب کچھ أَسْلَمْتُ کا نتیجہ ہے۔

وَ وَصّٰی بِہَاۤ اِبۡرٰہٖمُ بَنِیۡہِ (البقرۃ:133)

ابراہیم علیہ السلام نے اولاد کو بھی یہی سکھایا کہ جب تک خدا تعالیٰ حکم دے تب تک ہی تم اس کی اطاعت کرتے رہو۔ ‘‘

( خطبہ عید الاضحی 16؍فروری 1905ء مطبوعہ خطبات نور صفحہ183)

’’قربانی کرتے ہو تو ابراہیمی قربانی کرو۔ زبان سے اِنِّیۡ وَجَّہۡتُ وَجۡہِیَ لِلَّذِیۡ…کہتے ہو تو روح بھی اس کے ساتھ متفق ہو‘‘

حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

’’قربانی کرنا بڑا ہی مشکل کام ہے۔ جب یہ شروع ہوئی اس وقت دیکھو کیسے مشکلات تھے اور اب بھی دیکھو۔ ابراہیم علیہ السلام بہت بوڑھے اور ضعیف تھے۔ ۹۹برس کی عمر تھی۔ خدا تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے موافق اولاد صالح عنایت کی۔ اسمٰعیل جیسی اولاد عطا کی۔ جب اسمٰعیلؑ جوان ہوئے تو حکم ہوا کہ ان کو قربانی میں دیدو۔ اب ابراہیم علیہ السلام کی قربانی دیکھو۔ زمانہ اور عمر وہ کہ ۹۹تک پہنچ گئی۔ اس بڑھاپے میں آئندہ اولاد کے ہونے کی کیا توقع اور وہ طاقتیں کہاں؟ مگر اس حکم پر ابراہیم نے اپنی ساری طاقتیں ساری امیدیں اور تمام ارادے قربان کر دیئے۔ ایک طرف حکم ہوا اور معاً بیٹے کو قربان کرنے کا ارادہ کر لیا۔ پھر بیٹا بھی ایسا سعید بیٹا تھا کہ جب ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا بیٹا!

اِنِّیۡۤ اَرٰی فِی الۡمَنَامِ اَنِّیۡۤ اَذۡبَحُکَ (الصٰفٰت:103)

تو وہ بلا چون و چرا یونہی بولا کہ

افۡعَلۡ مَا تُؤۡمَرُ ۫ سَتَجِدُنِیۡۤ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰبِرِیۡنَ (الصٰفٰت:۱۰۳)

ابا! جلدی کرو۔ ورنہ وہ کہہ سکتے تھے کہ یہ خواب کی بات ہے، اس کی تعبیر ہو سکتی ہے۔ مگر نہیں۔ کہا پھر کر ہی لیجئے۔ غرض باپ بیٹے نے فرمانبرداری دکھائی کہ کوئی عزت، کوئی آرام، کوئی دولت اور کوئی امید باقی نہ رکھی۔ یہ آج ہماری قربانیاں اسی پاک قربانی کا نمونہ ہیں۔ مگر دیکھو کہ اس میں اور ان میں کیا فرق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم اور اس کے بیٹے کو کیا جزا دی؟ اولاد میں ہزاروں بادشاہ اور انبیاء پیدا کئے۔ وہ زمانہ عطا کیا جس کی انتہا نہیں۔ خلفا ءہوں تو وہ بھی ملت ابراہیمی میں۔ سارے نواب اور خلفاء الٰہی دین کے قیامت تک اسی گھرانے میں ہونے والے ہیں۔

پس اگر قربانی کرتے ہو تو ابراہیمی قربانی کرو۔ زبان سے

اِنِّیۡ وَجَّہۡتُ وَجۡہِیَ لِلَّذِیۡ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ (الانعام:80)

کہتے ہو تو روح بھی اس کے ساتھ متفق ہو۔

اِنَّ صَلَاتِیۡ وَ نُسُکِیۡ وَ مَحۡیَایَ وَ مَمَاتِیۡ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ (الانعام:163)

کہتے ہو تو کر کے بھی دکھلاؤ۔

…خلاصہ کلام یہ ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کا بنتا ہے وہی کامیاب ہوتا ہے ورنہ نامراد مرتا ہے۔ پس ایسے بنو کہ موت آوے خواہ وہ کسی وقت آوے مگر تم کو اللہ تعالیٰ کا فرمانبردار پاوے۔ یاد رکھو کہ مر کر اور مرتے ہوئے بھی اللہ کے ہونے والے نہیں مرتے- اللہ تعالیٰ ہم سب کو اعمال صالحہ کی توفیق دے۔ جو اپنی اصلاح نہیں کرتا اور اپنا مطالعہ نہیں کرتا وہ پتھر ہے۔ اور دنیا کے ایچ پیچ کام نہیں آتے۔ کام آنے والی چیز نیکی اور اعمال صالحہ ہیں۔ خدا سب کو توفیق عطا کرے۔ آمین۔

(خطبہ الاضحی فرمودہ11؍مارچ 1903ءمطبوعہ خطبات نور صفحہ 142)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button