متفرق مضامین

خلفاۓ احمدیت کے ارشادات کی روشنی میں عید الاضحٰی اور قربانی کے احکام و مسائل

(رحمت اللہ بندیشہ۔ استاد جامعہ احمدیہ جرمنی)

حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو اہلِ مدینہ دو دن کھیل کود کے لیے منایا کرتے تھے۔ حضورﷺ نے دریافت فرمایا:ان دو دنوں کی کیا حقیقت ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہم جاہلیت کے زمانہ میں بھی ان دنوں کھیل کودکیا کرتے تھے۔ آپﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ان کے بدلے دو دن عطا فرمائے ہیں جو ان سے بہتر ہیں۔ ایک عید الاضحی دوسرا عید الفطر۔

(سنن ابی داؤد کتاب الصلوٰۃ باب صلوٰۃ العیدین)

عید ِقربان کا حقیقی مقصد

ہمارے پیارے آقاحضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز عید الاضحی کے بارے میں فرماتے ہیں :

’’آج ہم عید الاضحی منارہے ہیں جو قربانی کی عید بھی کہلاتی ہے۔ اس عید پر جن کو توفیق ہے جانوروں کی قربانی کرتے ہیں۔ پھر حج کرنے والوں کی طرف سے ہزاروں لاکھوں جانور ذبح ہورہے ہوتے ہیں۔ آج یا کل دنیا میں کروڑوں جانور ذبح ہورہے ہوں گے۔ لیکن کیا یہ قربانی اور عیدکی خوشیاں جو ہیں جو ہم عید پہ مناتے ہیں یہی اس عید کا مقصد ہیں؟ یہ بکرے اور بھیڑیں ذبح کرنا اور خود بھی باربی کیو سے لطف اُٹھانا، گوشت سے تکّے بناکراور اپنے عزیزوں اور دوستوں کو بھی اپنے ساتھ اس میں شامل کرنا کیا یہی اس قربانی کا مقصد ہے؟کیا یہ کوئی ایساکام ہے جس پر اللہ تعالیٰ بہت خوش ہو…

قربانی کی عید کے پیچھے صرف اتنی سی بات نہیں ہے کہ بکرا ذبح کرلو اور عید کی نماز کے بعد سب سے پہلا یہی کام کرو کہ بکرا ذبح کرنا ہے اور اس کے بعد اس کا گوشت کھانا ہے…

پس ہمیں یہ دیکھناچاہئےکہ ہرسال جو عید آتی ہے اس سے ہم اپنے روحانی معیار کس طرح بلند کرسکتے ہیں۔ اپنی قربانیوں کے معیار کس طرح بلند کر سکتے ہیں۔ ورنہ اللہ تعالیٰ کو ہمارے اِن بکرے، دنبے، گائے وغیرہ ذبح کرنے سے کوئی غرض نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جس مقصد کے لئے انسان کوپیدا کیا ہے، اللہ تعالیٰ تو وہ مقصد پورا کرنے والے انسان دیکھنا چاہتا ہے ورنہ یہ گوشت وغیرہ جو ہیں یہ تو صرف اگر صرف ذبح کرنے کی نیت سے ہی کئے جارہے ہیں تو یہ تو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے نہیں ہوسکتے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے…

لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُہَا وَلَا دِمَآؤُھَا

یادرکھو کہ ان قربانیوں کے گوشت اور خون ہرگزاللہ تعالیٰ تک نہیں پہنچتے۔ پس ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہم ہر سال جب عید الاضحی مناتے ہیں تو وہ روح تلاش کریں جو ان قربانیوں کے پیچھے ہونی چاہئے اور ہے اور وہ روح کیا ہے ؟اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں دے دیا

وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ۔

لیکن تمہارے دل کا تقویٰ جو ہے وہ اللہ تعالیٰ تک پہنچتا ہے …

پس یہ ظاہری نمونے اس روح کو قائم کرنے کے لئے ہیں۔ ورنہ ہمارا جانور قربانی کرنا یہ نیکی نہیں ہے۔ نہ گوشت کھانا نیکی ہے۔ نہ ہی یہ گوشت اور خون اللہ تعالیٰ کو پہنچتا ہے۔ ‘‘

(خطبہ عید الاضحی فرمودہ20؍دسمبر2007ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل15؍اپریل2016ءصفحہ20و15)

اسی طرح حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں کہ

’’ …خدا تعالیٰ کا حکم ہے کہ عید مناؤ۔ اس لئے کہ یہ قربانی کی عید تمہیں قربانی کے اسلوب سکھاتی ہے۔ تمہیں اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق چلنے کی طرف توجہ دلاتی ہے۔ ان حکموں پر غور کرنے کی طرف توجہ دلاتی ہے جو تقویٰ کے معیار بلند کرتے ہیں۔ ان ماںبیٹا اور باپ کی قربانیوں کی طرف توجہ دلاتی ہے جنہوں نے اپنے جذبات کو قربان کیا۔ جو صرف چھری پھروانے اور پھیرنے کے عارضی نمونہ دکھانے والے نہیں تھےبلکہ مسلسل لمبا عرصہ قربانیاں دینے والے تھے۔ جنہوں نے دنیاکو امن اور سلامتی کے اسلوب سکھانے کے لئےنہ صرف اپنے جذبات کو قربان کیا، اپنے آرام کو قربان کیا، اپنے وطن کو قربان کیا بلکہ ان دعاؤں میں مسلسل لگے رہے کہ خدا تعالیٰ آئندہ آنے والی نسلوں میں بھی ایسا انتظام کردے جودنیا کے لئے امن اور سلامتی دینے والے بن جائیں۔ جوتقویٰ کی وہ راہیں دکھانے والے ہوں جواللہ تعالیٰ کی رضا کو ہر چیز پرمقدم کرتے ہوئے تقویٰ کا اعلیٰ معیار قائم کر دیں۔ جن کے نمونے دنیا کے لئے ہمیشہ کے لئے رہنمابن جائیں۔

پس حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آپؑ کی بیوی اور بیٹے کی قربانی کی یاد میں جو ہم عید قربان مناتے ہیں اور مناسکِ حج ادا کرتے ہیں یہ ظاہری قربانیاں اور اظہار نہیں ہیں بلکہ ایک بہت بڑے مقصد کی طرف توجہ دلانے والی ہیں۔ ہماری قربانیاں جوبکروں، بھیڑوں اور گائیوں کی ہم کرتے ہیں یہ صرف ہماری بڑائی کے اظہار یا لوگوں پر اپنی نیکیاں ظاہر کرنے کے لئے نہیں کہ فلاں شخص نے بڑا خوبصورت اورمہنگا دنبہ قربان کیا یا فلاں نے بڑی خوبصورت اور مہنگی گائے قربان کی۔ اگر تقویٰ سے عاری یہ قربانیاں ہیں، اگر اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی خواہش اور دعا کے بغیر یہ قربانیاں ہیں تو اللہ تعالیٰ کےہاں یہ ردّ کرنے کے قابل ہیں۔ یہ اسی طرح ہلاکت کا باعث بن جاتی ہیں یہ جس طرح نمازیں ہلاکت کا باعث بنتی ہیںجو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے نہیں پڑھی جاتیں بلکہ صرف دکھاوے کی ہوتی ہیں۔ …

پس ہر عبادت اور قربانی تقویٰ کی روح کو چاہتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کو چاہتی ہے۔ اس کے بغیر یہ سب عبادتیں اور قربانیاں منہ پر ماری جاتی ہیں۔

…ہم جو آنحضرتﷺ کے عاشق صادق کے ماننے والے ہیں، ہمیں یہ کوشش کرنی چاہئے کہ اُس روح کی تلاش کریں جو اِن قربانیوں کی روح ہے۔

…اللہ کرے کہ…یہ حقیقی ادراک مسلمانوں میں پیدا ہو کہ حضرت ابراہیم اور اسماعیل علیہ السلام کی قربانی خانہ کعبہ کی تعمیر اور حضرت رسول اللہﷺ کی بعثت کا مقصد اپنی قربانی کے معیار کو بلند کر تے ہوئے حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کا قیام اور سلامتی اور امن کو دنیا میں قائم کرنا تھا۔

اللہ تعالیٰ ہمیں بھی حقیقی رنگ میں اس قربانی کا ادراک عطا فرمائے اور …ہم قربانی کی روح کو سمجھتے ہوئے اپنےحق اداکرنے والے بنیں۔ دنیا کو امن اور سکون اور سلامتی دینے والے بنیں۔ ‘‘

(خطبہ عید الاضحی فرمودہ 6؍اکتوبر2014ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل23؍جنوری2015ءصفحہ20و10تا12)

تکبیرات عیدا لاضحی

حضورﷺ 9؍ذوالحجہ کی فجر سے ایام تشریق کے آخری دن یعنی تیرہ ذوالحجہ کی نماز عصر تک تمام فرض نمازوں کے بعد بالعموم تکبیرات پڑھتے تھے۔ چنانچہ احادیث میں لکھا ہے کہ

عن جابر بن عبداللّٰہ قال کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہﷺ یُکَبِّرُ فِیْ صَلَاۃِالْفَجْرِ یَوْمَ عَرَفَۃَ اِلٰی صَلَاۃِ الْعَصْرِ مِنْ آخِرِ اَیَّامِ التَّشْرِیْقِ حِیْنَ یُسَلِّمُ مِنَ الْمَکْتُوْبَاتِ

(دار قطنی کتاب العیدین حدیث نمبر27)

اسی طرح ایک اور حدیث میں لکھا ہے کہ

عن علی وعمار اَنَّ النَّبِیَّﷺ کَانَ یُکَبِّرُ مِنْ یَوْمِ عَرَفَۃَ صَلٰوۃَ الْغَدَاۃِ وَ یَقْطَعُہَا صَلٰوۃَ الْعَصْرِ آخِرَ اَیَّامِ التَّشْرِیْقِ

ترجمہ :حضرت علی ؓ اور حضرت عمار ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ؐ نوذوالحجہ کی نماز فجر سے تیرہ ذوالحجہ کی نماز عصر تک تکبیرات کہا کرتے تھے۔

(المستدرک للحاکم کتاب العیدین باب تکبیرات التشریق)

وَاذْكُرُوا اللّٰهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُودَاتٍ(البقرة :204)

اور اللہ کو (بہت) ىاد کرو، خصوصاً اِن گنتى کے چند دنوں مىں۔ حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ اسی آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’اس آیت میں جن مقررہ دنوں میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے کا خصوصیت کے ساتھ حکم دیا گیا ہے وہ ایام تشریق ہیں۔ یعنی 11، 12، 13ذوالحجہ یا ایام منیٰ ہیں۔ جو دسویں تاریخ سے شروع ہوتے ہیں اور 13کو ختم ہو جاتے ہیں۔ ‘‘

(تفسیر کبیرجلد 2صفحہ 448)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

’’ہم عید کی نماز میں جو بہت سی تکبیریں کرتے ہیں بلکہ ایام تشریق میں برابر تکبیر بلند کرتے رہتے ہیں تو گویا ابراہیم کی قربانی کےلئے اپنے جذبات استحسان کا ہدیہ پیش کرتے ہیں۔ ‘‘

(خطبات محمود جلد2صفحہ204)

حضرت قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل رضی اللہ عنہ نے ’’سنت احمدیہ‘‘ کے نام سے 1910ء میں ایک کتاب لکھی جس کی بابت حضرت خلیفۃالمسیح الاول رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

’’میں نے اس کتاب کو پڑھا۔ کتاب ہر ایک پہلو میں مجھے پسند ہے۔ ‘‘

(سنت احمدیہ صفحہ84)

اس کتاب میں وہ لکھتے ہیں:

’’عید الاضحی میں نویں حج کی صبح سے لیکر تیرہویں کی عصر تک٢٣ نمازوں میں بعد فرض پڑھنے کے بھی تکبیریں آئی ہیں۔ جو سنت ہیں۔ ‘‘

(سنت احمدیہ صفحہ 54 مطبوعہ بدر پریس قادیان، اپریل 1910ء باراوّل)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ

’’ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ ان دنوں میں تیسرے دن تک تکبیرتحمید کیا کرتے تھے اور اس کے مختلف کلمات ہیں اصل غرض تکبیر وتحمید ہے خواہ کسی طرح ہو اور اس کے متعلق دستور تھا کہ جب مسلمانوں کی جماعتیں ایک دوسری سے ملتی تھیں تو تکبیر کہتی تھیں۔ مسلمان جب ایک دوسرے کو دیکھتے تو تکبیر کہتے۔ اٹھتے بیٹھتے تکبیر کہتے۔ کام میں لگتے تو تکبیر کہتے لیکن ہمارے ملک میں یہ رائج ہے کہ محض نماز کے بعد کہتے ہیں ……باقی یہ کہ تکبیر کس طرح ہو یہ بات انسان کی اپنی حالت پر منحصر ہے جس کا دل زور سے تکبیر کہنے کو چاہے وہ زور سے کہے جس کا آہستہ وہ آہستہ مگر آواز نکلنی چاہئے۔ ‘‘

(الفضل17؍اگست1922ء،الفضل11؍ستمبر1951ء)

عید اور جمعہ کا اجتماع

اگر عید اور جمعہ ایک دن میں جمع ہوجائیں جس طرح امسال اکثر ممالک میں ہوگاتونماز جمعہ کی ادائیگی کے متعلق کیاحکم ہے؟

حدیث شریف میں آیا ہے کہ

عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ اجْتَمَعَ عِیدَانِ عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللّٰہِﷺ فَصَلَّی بِالنَّاسِ، ثُمَّ قَالَ: مَنْ شَاءَ أَنْ یَأْتِیَ الْجُمُعَۃَ فَلْیَأْتِہَا، وَمَنْ شَاءَأَنْ یَتَخَلَّفَ فَلْیَتَخَلَّف

ترجمہ:حضرت ابن عمرؓفرماتے ہیں کہ رسول پاک ؐکے عہد مبارک میں دونوں عیدیں (جمعہ اور عید)جمع ہوگئیں تو آپؐ نے عید کی نماز پڑھا کرفرمایا جو جمعہ کی نماز کے لیے آناچاہے آجائے اور جو نہ آنا چاہے وہ نہ آئے۔

(سنن ابن ماجہ۔ کِتَابُ إِقَامَۃِ الصَّلَاۃِ، وَالسُّنَّۃُ فِیْہَا۔ بَابُ مَا جَاءَ فِیمَا إِذَا اجْتَمَعَ الْعِیْدَانِ فِی یَوْمٍ۔ روایت نمبر1312)

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ رَسُولِ اللّٰہِﷺ أَنَّہُ قَالَ: اجْتَمَعَ عِیدَانِ فِی یَوْمِکُمْ ہَذَا، فَمَنْ شَاءَ أَجْزَأَہُ مِنَ الْجُمُعَۃِ، وَإِنَّا مُجَمِّعُونَ إِنْ شَاءَ اللّٰہُ۔

ترجمہ:حضرت ابن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ؐنے فرمایا آج کے دن دو عیدیں جمع ہوگئی ہیں جو چاہے اس کے لئے جمعہ کی بجائے عید کافی ہوگئی۔ اور ہم تو انشاء اللہ جمعہ ضرور پڑھیں گے۔

(سنن ابن ماجہ۔ کِتَابُ إِقَامَۃِ الصَّلَوٰۃِ، وَالسُّنَّۃُ فِیْہَا۔ بَابُ مَا جَاءَ فِیمَا إِذَا اجْتَمَعَ الْعِیدَانِ فِی یَوْمٍ۔ روایت نمبر1311)

مذکورہ بالا احادیث اور اس سے ملتی جلتی دیگر روایات میں بیان شدہ مضامین کی بابت حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ

’’رسول کریم ؐسے یہ بات ثابت ہے کہ آپؐ نے فرمایا جب جمعہ اور عید جمع ہو جائیں تو اجازت ہے کہ جو لوگ چاہیں جمعہ کی بجائے ظہر کی نماز ادا کرلیں مگر فرمایا ہم تو جمعہ ہی پڑھیں گے۔

کل بھی میرے پاس ایک مفتی صاحب کا فتویٰ آیا تھا کہ بعض دوست کہتے ہیں اگر جمعہ کی بجائے ظہر کی نماز ہو جائے تو قربانیوں میں ہم کو سہولت ہو جائے گی اور انہوں نے اس قسم کی حدیثیں لکھ کر ساتھ ہی بھجوا دی تھیں۔ میں نے ان کو یہی جواب دیا تھا کہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جمعہ اور عید جب جمع ہو جائیں تو جمعہ کی بجائے ظہر کی نماز پڑھنے کی اجازت ہے مگر ہم تو وہی کریں گے جو رسول کریم ؐنے کیا۔ رسول اللہؐ نے فرمایا تھا اگر کوئی جمعہ کی بجائے ظہر کی نما زپڑھنا چاہے تو اسے اجازت ہے مگر ہم تو جمعہ ہی پڑھیں گے۔

ہمارا ربّ کیسا سخی ہے کہ اس نے ہمیں دودو( عیدیں)دیں …یعنی جمعہ بھی آیا اور عید الاضحیہ بھی آئی اور اس طرح دو عیدیں خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے جمع کر دیں۔ اب جس کو دو، دو چُپٹری ہوئی چپاتیاں ملیں وہ ایک کو کیوں رد کرے گا۔ وہ تو دونوں لے گا۔ سوائے اس کے کہ اسے کوئی خاص مجبوری پیش آ جائے اور اسی لئے رسول کریم ؐنے اجازت دی ہے کہ اگر کوئی مجبور ہو کر ظہر کی نماز پڑھ لے جمعہ نہ پڑھے تو دوسرے کو نہیں چاہئے کہ اس پر طعن کرے اور بعض لوگ ایسے ہوں جنہیں دونوں نمازیں ادا کرنے کی توفیق ہو تو دوسرے کو نہیں چاہئے کہ ان پر اعتراض کرے اور کہے کہ انہوں نے رخصت سے فائدہ نہ اٹھایا۔ ‘‘

(خطبہ عید الاضحی فرمودہ 11؍فروری1938ء مطبوعہ الفضل 15؍ مارچ 1938ء)

حضرت مصلح موعودؓنے ایک اور موقع پر فرمایا کہ

’’شریعت نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ اگر عید اور جمعہ اکٹھے ہو جائیں تو جائز ہے کہ جمعہ کی بجائے ظہر کی نماز پڑھ لی جائے۔ لیکن یہ بھی جائز ہے کہ عید اور جمعہ دونوں ہی پڑھ لئے جائیں۔ کیونکہ ہماری شریعت نے ہر امر میں سہولت کو مدنظر رکھا ہے۔ چونکہ عام نمازیں اپنے اپنے محلوں میں ہوتی ہیں لیکن جمعہ کی نماز میں سارے شہر کے لوگ اکٹھے ہوتے ہیں۔ اسی طرح عید کی نماز میں بھی سب لوگ اکٹھے ہوتے ہیں اور ایک دن میں دو ایسے اجتماع جن میں دور دور سے لوگ آ کر شامل ہوں مشکلات پیدا کر سکتا ہے اس لئے شریعت نے اجازت دی ہے کہ اگر لوگ برداشت نہ کر سکیں توجمعہ کی بجائے ظہر پڑھ لیں۔ بہرحال اصل غرض شریعت کی یہ ہے کہ مسلمان اپنی زندگی میں زیادہ سے زیا دہ عرصہ کے لئے اکٹھے بیٹھ سکیں کیونکہ اسلام صرف دل کی صفائی کے لئے نہیں آیا۔ اسلام قومی ترقی اور معاشرت کے ارتقاء کے لئے بھی آیا ہے اور قوم اور معا شرت کا پتہ بغیر اجتماع میں شامل ہونے کے نہیں لگ سکتا۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 21؍اگست 1953ء مطبوعہ المصلح کراچی 20؍ اکتوبر 1953ء)

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ

’’میں نے عید کے خطبہ میں بیان کیا تھا کہ اگر عید جمعہ کے دن ہو تو اگرچہ نماز ظہر اد اکرنی بھی جائز ہے مگرمیں جمعہ ہی پڑھوں گا۔ جمعہ کا اجتماع بھی دراصل ایک عید ہی ہے اور اس میں دو سبق دئے گئے ہیں۔ ایک قومی اتحاد کی طرف اس میں توجہ دلائی گئی ہے اور دوسرے تبلیغ کی طرف۔ خطبہ کے لئے جمعہ کی نماز میں ظہر کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ نے دو رکعت کی کمی کردی۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ11؍ فروری 1939ء مطبوعہ الفضل 19؍فروری 1939ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓ فرماتے ہیں کہ

’’عید میں تنگی نہیں کی بلکہ فرمایا کہ اگر جمعہ و عید اکٹھے ہو جائیں تو گاؤں کے لوگوں کو جو باہر سے شریک ہوئے ہیں جمعہ کے لئے انتظار کی تکلیف نہ دی جائے۔‘‘

(بدر جلد 9 نمبر 10۔ 30؍دسمبر 1909ء صفحہ 1تا 3)

کیا قربانی دینے والےکو بال نہیں منڈوانے چاہئیں؟

حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت ؐنے فرمایا :

’’جب ذی الحجہ کا چاندنکل آئے تو جو شخص قربانی کرنا چاہتا ہو اسے قربانی ذبح کرنے تک اپنے بال اور ناخن نہیں کٹوانے چاہئیں۔ ‘‘

(مسلم کتاب الاضاحی باب نھی من دخل علیہ عشر ذی الحجہ)

سیدناحضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ارشاد پر الفضل میں بعض مسائل شائع کیے گئے جن میں درج ہے کہ :

’’جو لوگ قربانی کرنے کا ارادہ کریں انکو چاہیئے کہ ذی الحجہ کی پہلی تاریخ سے لے کر قربانی کرنے تک حجامت نہ کرائیں۔ اس امر کی طرف ہماری جماعت کو خاص توجہ کرنی چاہیئے۔ کیونکہ عام لوگوں میں اس سنت پر عمل کرنا مفقود ہو گیا ہے۔ ‘‘

(الفضل22؍ستمبر1917ء صفحہ4)

یعنی قربانی کی نیت کرنے والے افراد کے لیے مذکورہ بالا ایام میں بال اور ناخن نہ کٹوانامستحب ہے۔

قربانی کا فلسفہ اور حکمت

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

لَنۡ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوۡمُہَا وَ لَا دِمَآؤُہَا وَ لٰکِنۡ یَّنَالُہُ التَّقۡوٰی مِنۡکُمۡ (الحج:38)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

’’خدا تعالیٰ نے شریعتِ اسلام میں بہت سے ضروری احکام کے لئے نمونے قائم کئے ہیں چنانچہ انسان کو یہ حکم ہے کہ وہ اپنی تمام قوتوں کے ساتھ اور اپنے تمام وجود کے ساتھ خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان ہو۔ پس ظاہری قربانیاں اسی حالت کے لئے نمونہ ٹھہرائی گئی ہیں لیکن اصل غرض یہی قربانی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُہَا وَلَا دِمَآؤُھَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ

یعنی خدا کو تمہاری قربانیوں کا گوشت نہیں پہنچتا اورنہ خون پہنچتا ہے مگر تمہاری تقویٰ اُس کو پہنچتی ہے۔ یعنی اُس سے اتنا ڈرو کہ گویا اُس کی راہ میں مرہی جاؤاور جیسے تم اپنے ہاتھ سے قربانیاں ذبح کرتے ہو۔ اسی طرح تم بھی خدا کی راہ میں ذبح ہو جاؤ۔ جب کوئی تقویٰ اس درجہ سے کم ہے تو ابھی وہ ناقص ہے۔

(چشمۂ معرفت، روحانی خزائن جلد23صفحہ99)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اسی آیت کی تفسیر کرتےہوئے فرماتے ہیں:

’’قربانیوں میں یہ حکمت نہیں کہ اُن کا گوشت یا اُن کا خون خدا تعالیٰ کو پہنچتا ہے بلکہ ان میں حکمت یہ ہے کہ ان کی وجہ سے تقویٰ پیدا ہوتا ہے اور وہ تقویٰ خدا تعالیٰ کو پسند ہے۔ بعض لوگ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ کیا خدا تعالیٰ نعوذ باللہ ہندوؤں کے دیوتاؤں کی طرح خون کا پیاسا اور گوشت کا بھوکا ہے کہ وہ جانوروں کی قربانی کرنے کا حکم دیتا ہے اور اُن کی جان کی قربانی کو شوق سے قبول فرماتا ہے اور قربانی کرنے والوں کو بہشت کی بشارت دیتا ہے۔ اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ دیا ہے کہ قربانیوں میں یہ حکمت نہیں ہے کہ ان کا گوشت یا اُن کا خون خداتعالیٰ کو پہنچتا ہے بلکہ اس میں حکمت یہ ہے کہ ان کی وجہ سے انسانی قلب میں تقویٰ پیدا ہوتا ہے اور وہ تقویٰ خدا تعالیٰ کو پسند ہے۔ پس وہ لوگ جو بکرے یا اونٹ یا گائے کی قربانی کر کے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کو پالیاوہ غلطی کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ صاف طور پر فرماتا ہے کہ یہ کوئی چیز نہیں کہ خود ہی جانور ذبح کیا اور خود ہی کھا لیا۔ اس سے اللہ تعالیٰ کو کیا۔ یہ تو تصویری زبان میں ایک حقیقت کا اظہار ہے جس کے اندر بڑی گہری حکمت پوشیدہ ہے جیسے مصوّر ہمیشہ تصویریں بناتے ہیں مگر ان کی غرض صرف تصویر بنانا نہیں ہوتی بلکہ ان کے ذریعہ قوم کے سامنے بعض اہم مضامین رکھنے ہوتے ہیں…۔

اسی طرح یہ ظاہری قربانی بھی ایک تصویری زبان ہے جس کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ جانور ذبح کرنے والا اپنے نفس کی قربانی پیش کرنے کے لئے تیار ہے پس جو شخص قربانی کرتا ہے وہ گویا اس امر کا اظہار کرتا ہے کہ میں خداتعالیٰ کی راہ میں سب کچھ قربان کر دوں گا۔ اس کے بعد دوسرا قدم یہ ہوتا ہے کہ انسان جس امر کا تصویری زبان میں اقرار کرے عملاً بھی اسے پورا کرکے دکھاوے کیونکہ محض نقل جس کے ساتھ حقیقت نہ ہو کسی عزت کا موجب نہیں ہو سکتی۔ ‘‘

(تفسیر کبیر جلد6صفحہ57)

عید الاضحی کے موقع پر قربانی کس تاریخ سے کس تاریخ تک ہوتی ہے؟

حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت ؐنے فرمایا:

کل ایام التشریق ذبح۔

ترجمہ:تشریق کے تمام ایام قربانی ہو سکتی ہے۔

(مسند احمد بن حنبل جز 4صفحہ 82 حدیث نمبر 16798)

دارقطنی میں روایت ہے کہ آنحضرت ؐنے فرمایا:

ایام التشریق کلھا ذبح۔

ترجمہ:تشریق کے تمام دنوں میں قربانی ہو سکتی ہے۔

(دارقطنی کتاب الاشربۃ وغیرھا باب الصید والذبائح والاطعمۃ )

ایام تشریق سے مراد ذوالحجہ کی گیارہ، بارہ اور تیرہ تاریخ ہے۔ تشریق کے معنی گوشت کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے دھوپ میں خشک کرنے کے ہیں۔ عید الاضحی کے بعد کے تین ایام کو ایام تشریق کہا جاتاہے۔ کیو نکہ ان ایا م میں قربانیوں کا گوشت خشک کیا جاتا تھا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے 5؍ اگست 1922ء کو قادیان میں خطبہ عید الاضحی میں فرمایا:

’’قربانی آج اور کل اور پرسوں کے دن ہو سکتی ہے لیکن اگر سفر ہو یا کوئی اور مشکل ہو تو حضرت صاحبؑ کا بھی اور بعض اور بزرگوں کا بھی خیال ہے کہ اس سارے مہینے میں قربانی ہو سکتی ہے۔ ‘‘

(خطبات محمود جلد 2صفحہ 73)

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ سے سوال ہوا کہ قربانی عید کے بعد کتنے دن تک جائز ہے۔ اہل حدیث کے نزدیک 13؍تاریخ تک اور فقہاء کے نزدیک 12؍تاریخ تک۔ کس پر عمل کرنا چاہیے؟حضور ؓنے فرمایا:

’’قربانی ہمارے نزدیک 12تار یخ تک جائز ہے ہاں فقہاء نے 13تاریخ بھی رکھی ہے ایسا معلوم ہوتاہے کہ تعامل میں ضرور اس امر میں کچھ فرق ہوا ہے۔ ‘‘

(الحکم نمبر5 جلد9، 10؍فروری 1905ء صفحہ11)

کیا موجودہ حالت میں قربانی کے جانور ذبح کرنے کی بجائے نقد روپیہ غرباء یا مستحقین کی ضروریات کے لیے استعمال ہو سکتا ہے ؟

احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ حضور ؐنے اپنی زندگی میں تین حج کیے، دو ہجرت سے پہلے اور ایک ہجرت کے بعد۔

(ترمذی ابواب الحج باب ما جاء کم حج النبیﷺ )

لیکن آپؐ نے ہر سال عید الاضحی کے موقع پر قربانی کی اور صحابہ کو بھی اس کی تاکید فرمائی۔ چنانچہ احادیث میں آتا ہے کہ

حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں آنحضرت ؐمدینہ کے دس سالہ قیام میں قربانیاں کیا کرتے تھے۔

(ترمذی کتاب الاضاحی باب الدلیل علی ان الاضحیۃ سنۃ)

رسول پاک ؐنے فرمایا :

’’اے لوگو!ہر گھر کو ہر سال قربانی کرنی چاہیئے۔ ‘‘

(ابن ماجہ کتاب الاضاحی باب الاضاحی واجبۃ ھی ام لا)

مذکورہ بالا احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ ہر وہ شخص جو قربانی کا جانور پال کر یا خرید کر قربانی کر سکتا ہے اسے ضرور قربانی کرنی چاہیے۔ آنحضرتؐ مدنی زندگی میں ہر سال قربانی کیا کرتے تھے حالانکہ مدنی زندگی کے ابتدائی سال انتہائی تنگی کے تھے۔ اس سے یہ بھی پتہ چلا کہ غریب اور مستحقین کی موجودگی کے باوجود نقد روپیہ ان میں تقسیم کرنے سے قربانی نہیں ہوتی۔ قربانی تو قربانی کرنے سے ہی ہوتی ہے۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

وَ لِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلۡنَا مَنۡسَکًا لِّیَذۡکُرُوا اسۡمَ اللّٰہِ عَلٰی مَا رَزَقَہُمۡ مِّنۡۢ بَہِیۡمَۃِ الۡاَنۡعَامِ (الحج:35)

اور ہم نے ہر اُمّت کے لیے قربانی کا طریق مقرر کیا ہے تا کہ وہ اللہ کا نام اس پر پڑھیں جو اس نے انہیں مویشی چوپائے عطا کئے ہیں۔

اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ قربانی کرنے کا جو طریق شریعت میں مقرر شدہ ہے اسی طریق سے قربانی ہوتی ہے یعنی بھیمۃ الانعام کو ذبح کرنے سے۔

11؍فروری 1907ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بذریعہ خط سوال پیش ہوا کہ کئی اشخاص نے ایک گائے قربانی کرنے کے لیے خریدی تھی جن میں سے ایک احمدی تھا۔ غیر احمدیوں نے اس کو اس وجہ سے اس گائے کا حصہ قیمت واپس دے دیا کہ اس کا حصہ قربانی میں رکھنے سے قربانی نہ ہو گی۔ اس لیے اس شخص نے لکھا کہ میں اپنی قربانی کا حصہ نقد قادیان میں بھیج سکتا ہوں یا نہیں ؟

حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام نے فرمایا:

’’اس کو لکھو کہ قربانی کا جانور اس قیمت سے لے کر وہاں ہی قربانی کر دے۔ ‘‘

عرض کی گئی کہ اس کا حصہ قیمت جو گائے کے خریدنے میں تھا وہ بہت ہی تھوڑا ہے۔ اس سے دنبہ بکرا خرید نہیں سکے گا۔

حضرت نے فرمایا :

’’اس کو لکھو کہ تم نے جبکہ اپنے اوپر قربانی ٹھہرائی ہے اور طاقت ہے تو اب تم پر اس کا دینا لازم ہے اور اگر طاقت نہیں تو پھر اس کا دینا لازم نہیں۔ ‘‘

(الحکم 24؍فروری 1907ء صفحہ14)

11؍فروری 1907ء کی مجلس میں پیش کردہ سوال کا جواب اخبار بدر میں یوں شائع ہوا:

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں ایک شخص کی عرضی پیش ہوئی کہ میں نے تھوڑی سی رقم ایک قربانی میں حصہ کے طور پر ڈال دی تھی۔ مگران لوگوں نے مجھے احمدی ہونے کے سبب اس حصہ سے خارج کر دیا ہے۔ کیا میں وہ رقم قادیان کے مسکین فنڈ میں دے دوں تو میری قربانی ہو جائے گی؟

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:

’’قربانی تو قربانی کرنے سے ہی ہوتی ہے۔ مسکین فنڈ میں روپے دینے سے نہیں ہو سکتی، اگر وہ رقم کافی ہے تو ایک بکرا قربانی کرو، اگر کم ہے اور زیادہ کی تم کو توفیق نہیں تو تم پر قربانی کا دینا فرض نہیں ہے‘‘۔

(بدر14؍فروری 1907ء صفحہ8کالم نمبر2)

عید الاضحی کے موقع پر کیسے جانور کی قربانی دینی چاہیے ؟

جوجانور قربانی کےلیے خدا کے حضور پیش کیے جائیں وہ بے عیب ہونے چاہئیں۔ عیب دار جانور کی قربانی کو حضور ؐنے ناجائز فرمایا ہے۔ چنانچہ فرمایا:

اَرْبَعٌ لَا تَجُوزُ فِی الْاَضَاحِی اَلْعَوْرَاءُ بَیِّنٌ عَوَرُھَا وَالْمَرِیْضَۃُ بَیِّنٌ مَرَضُہَاوَالْعَرْجَاءُ بَیِّنٌ ظَلْعُہَا وَالْکِسِیْرُ الَّتِی لَا تَنْقَی۔ (ابوداؤد کتاب الضحایا باب مایکرہ من الضحایا)

چار قسم کے جانور قربانی کیے جانے کے لائق نہیں ہیں، ایک تو وہ جانور جس کا کانا پن واضح طور پرنظر آتا ہو، وہ بیمار جانور جس کی بیماری نظر آتی ہو، وہ لنگڑا جانور جس کا لنگڑا پن ظاہر ی طور پر نظر آتا ہواور وہ کمزور اور دبلا جانورجس کی ہڈیوں میں مغز تک باقی نہ ہو۔

حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

’’قربانیاں دو جو بیمار نہ ہوں، دبلی نہ ہوں، بے آنکھ کی نہ ہوں، کان چری نہ ہوں، عیب دار نہ ہوں، لنگڑی نہ ہوں۔ اس میں اشارہ ہے کہ جب تک کامل طور پر قویٰ قربان نہ کرو گے ساری نیکیاں تمہاری ذات پر جلوہ گر نہ ہوں گی۔ اصل منشا قربانی کا یہ ہے۔ پھر جس کو مناسب سمجھتا ہودے۔ ‘‘

(الحکم جلد 7 نمبر 11۔ 24؍مارچ1903ء صفحہ 3تا5۔ خطبات نور143)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’اب وہ جس مینڈھے کا ذکر تھا وہ ایک سال کا تھا اس پر رسول اللہ ؐنے فرمادیا تھا کہ اس کی تمہیں اجازت ہے مگر آئندہ سے یہ دوسروں کو اجازت نہیں ہوگی۔ پس اب قانون یہی ہے کہ جانور کم سے کم دو برس کا ہونا چاہئے۔ ‘‘

(خطبہ عید الاضحی فرمودہ23؍فروری 2002ء مطبوعہ خطبات طاہر عیدین صفحہ700تا701)

حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

’’قربانی کے لئے نبی کریم کو وہ نر بکرے پسند تھے، جن کے منہ اور پاؤں میں سیاہی ہو۔ وَاِلَّا خصی کا ذبح بھی شرعاً جائز ہے۔ جس کا پیدائشی سینگ نہ ہو وہ بھی جائز ہے۔ ہاں جس کا سینگ آدھے سے زیادہ ٹوٹا ہوا ہو یا کان چیرا ہوا ہو وہ ممنوع ہے۔ علماء کا اختلاف ہے کہ دو برس سے کم کا بکرا اور ایک برس سے کم کا دنبہ جائز ہے یا نہیں؟ اہل حدیث تو اسے جائز نہیں رکھتے مگر فقہا کہتے ہیں کہ دو برس سے کم ایک برس کا بکرا بھی جائز ہے اور دنبہ چھ ماہ کا بھی۔

مومن اس اختلاف سے فائدہ اٹھا سکتا ہے، ضروری بات تو یہ ہے کہ انسان ان سب باتوں میں تقویٰ کو مدنظر رکھے اور قربانی کی حقیقت سمجھے، دو چار روپے کا جانور ذبح کر دینا قربانی نہیں۔ قربانی تو یہ ہے کہ خود اپنے نفس کی اونٹنی کو خدا کی فرمانبرداری کے نیچے ذبح کر دے۔ ‘‘

(بدرجلد7نمبر3؍جنوری 1908ء صفحہ8تا 10۔ خطبات نور صفحہ278-279)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے 5؍ اگست 1922ء کو قادیان میں خطبہ عید الاضحی میں فرمایا:

’’قربانی کے جانور کے لئے یہ شرط ہے کہ بکرے وغیرہ دو سال کے ہوں۔ دنبہ اس سے چھوٹا بھی قربانی میں دیا جاسکتا ہے۔ قربانی کے جانور میں نقص نہیں ہونا چاہئے۔ لنگڑا نہ ہو، بیمار نہ ہو، سینگ ٹوٹا نہ ہویعنی سینگ بالکل ہی نہ ٹوٹ گیا ہو۔ اگر خول اوپر سے ٹوٹ گیا ہو اور اس کا مغز سلامت ہو تو وہ ہو سکتا ہے۔ کان کٹا نہ ہو لیکن اگر کان زیادہ کٹا ہوا نہ ہو تو جائز ہے۔ ‘‘

(خطبات محمود جلد 2صفحہ 73)

فقہ احمدیہ کے مطابق اونٹ تین سال، گائے دو سال اور بھیڑ بکری وغیرہ ایک سال کی کم از کم ہونی چاہیے۔

(فقہ احمدیہ ، عبادات صفحہ 182)

مسائل متعلقہ ذی الحجہ بحکم حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ

٭…ذی الحجہ کی نویں تاریخ کی فجر کی نماز کے بعد سے لےکر تیرہویں تاریخ کی عصر تک بعد سلام نماز فرض کے حسب ذیل تکبیرات کہیں

اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ۔

سہ دفعہ۔ یہ تکبیرات بآواز بلند ہوں تو نہایت انسب ہے۔

٭…دسویں تاریخ کو سورج کے بلند ہونے کے بعد دورکعت نماز صلوٰۃ العید جماعت کے ساتھ ادا کرے۔

٭…بعد نماز عید قربانی کرنی چاہئے۔ قربانی کا وقت عید کی نماز کے بعد شروع ہوتا ہے اور بارہویں تک اتفاقاً ختم ہوتا ہے لیکن بعض کے نزدیک تیرھویں تاریخ کے عصر تک ہے۔

٭…قربانی ا ونٹ، گائے، دنبہ، بکرے سے ہو سکتی ہے۔ بھیڑ بھینس کو بھی حنفی علماء نے جائز رکھا ہے۔ اونٹ پانچ سال کا، گائے تین سال کی، بکری دنبہ دو سال کا بشرطیکہ یہ قربانی کے حیوانات لنگڑے، اندھے، یک چشم، نہایت دبلے، کان کٹے اور بیمار نہ ہوں۔ سینگ ٹوٹابھی مناسب نہیں۔ ہاں نر خصی اور آنڈل قربانی میں یکساں ہیں۔

٭…گائے اونٹ سات آدمیوں کی طرف سے ہوسکتی ہے۔

٭…قربانی سنت مؤکدہ ہے۔ جس شخص میں قربانی دینے کی طاقت ہو وہ ضرور کرے۔

٭…قربانی کا گوشت خواہ خود استعمال کرے چاہے صدقہ کرے اور اس کی کھال اگر گھر میں رکھے تو ایسی چیز تیار کرائے جس کو عام استعمال کر سکیں۔ احمدیوں کو صدر انجمن احمدیہ قادیان میں کھال یا اس کی قیمت صدقات میں ارسال کرنا چاہئے۔

٭… اگر دو سالہ مینڈھا یا بکرا نہ ملے تو ایک سالہ بھی ہو سکتا ہے اور دنبہ سال سے کم کا بھی ہو تب بھی جائز ہے۔

٭…اور جو لوگ قربانی کرنے کا ارادہ کریں ان کو چاہئے کہ ذی الحجہ کی پہلی تاریخ سے لے کر قربانی کرنے تک حجامت نہ کرائیں۔ اس امر کی طرف ہماری جماعت کو خاص توجہ کرنی چاہئے کیونکہ عام لوگوںمیں اس سنت پر عمل کرنا مفقود ہو گیا ہے۔

(ماخوذازالفضل قادیان22؍ستمبر1917ء)

کیا قربانی کے گوشت کے تین حصے کرنا اور صرف تین دن استعمال کرنا لازم ہے ؟

اللہ تعالیٰ قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے قرآن کریم میں فرماتا ہے:

فَکُلُوۡا مِنۡہَا وَ اَطۡعِمُوا الۡبَآئِسَ الۡفَقِیۡرَ(سورۃالحج:29)

ترجمہ: اس قربانی کے گوشت میں سے خود بھی کھاؤاور محتاج ناداروںکو بھی کھلاؤ۔

اس آیت قرآنی میں اپنے افراد خاندان، اعزہ و اقارب، دوست احباب اور ضرورتمندوں کو قربانی کا گوشت بھجوانے کا حکم دیا گیا ہے۔

حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ

قَالَ النَّبِیُّﷺ مَنْ ضَحَّی مِنْکُمْ فَلاَ یُصْبِحَنَّ بَعْدَ ثَالِثَۃٍ وَبَقِیَ فِی بَیْتِہِ مِنْہُ شَیْءٌ فَلَمَّا کَانَ العَامُ المُقْبِلُ، قَالُوا یَا رَسُولَ اللّٰہِ، نَفْعَلُ کَمَا فَعَلْنَا عَامَ المَاضِی؟ قَالَ کُلُوا وَأَطْعِمُوا وَادَّخِرُوا، فَإِنَّ ذَلِکَ العَامَ کَانَ بِالنَّاسِ جَہْدٌ، فَأَرَدْتُ أَنْ تُعِینُوا فِیہَا

(صحیح بخاری کِتَابُ الأَضَاحِیِّ بَابُ مَا یُؤْکَلُ مِنْ لُحُومِ الأَضَاحِیِّ وَمَا یُتَزَوَّدُ مِنْہَا)

حضرت نبی کریم ؐنے فرمایا جو شخص تم میں سے قربانی کرے اس کو چاہیے کہ تین دن سے زیادہ اس کے گھر میں گوشت باقی نہ رہے۔ اور جب دوسرا سال آیا تو لوگوں نے عرض کی یا رسول اللہ ؐ! کیا اب بھی ہم گذشتہ سال ہی کی طرح کریں۔ آپؐ نے فرمایا ( نہیں ! بلکہ ) کھاؤ اور کھلاؤ اور جمع کرو۔ اور گذشتہ سال چونکہ لوگوں پر تنگی تھی اس لیے میں نے چاہا تھا کہ تم اس طریقہ سے ان کی مدد کرو۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

’’قربانیوں کے گوشت کے متعلق یہ حکم ہے کہ یہ صدقہ نہیں ہوتا۔ چاہئے کہ خود کھائیں، دوستوں کو دیں، چاہے سُکھابھی لیں۔ امیر غریبوں کو دیں، غریب امیروں کو۔ اس سے محبت بڑھتی ہے لیکن محض امیروں کو دینااسلام کو قطع کرنا ہے اور محض غریبوں کو دینا اور امیروں کو نہ دینا اسلام میں درست نہیں۔ امیروں کے غریبوں اور غریبوں کے امیروں کو دینے سے محبت بڑھتی ہے اور مذہب کی غرض جو محبت پھیلانا ہے پوری ہوتی ہے۔ ‘‘

(خطبہ عید الاضحی فرمودہ5؍اگست 1922ء مطبوعہ الفضل 17؍اگست 1922ء جلد 10نمبر 13)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں سوال ہوا کہ ایک شخص نے قربانی کا گوشت گھرمیں رکھ کر اس کی بڑیاں بنا لیں ہیں کیا یہ جائز ہے؟فرمایا :

’’منع تو نہیں۔ حدیثوں میں اس کا ذکر آتا ہے مگر بہتر یہی ہے کہ مسکینوں کو دیا جائے۔ ‘‘

(الفضل 19؍ دسمبر 1915ء جلد 3نمبر 71)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ فرماتے ہیں کہ

’’جہاں تک قربانی کے گوشت کا تعلق ہے۔ یاد رکھیں کہ اگر تیسرا حصہ اس کا اپنے لئے رکھ لیں اور باقی دوحصوں کو غربا اور مسکینوں اور دوسرے رشتہ داروں وغیرہ پر تقسیم کردیں تو یہ عین سنت کے مطابق ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں اور ایسے گوشت کوسنبھالا بھی جاسکتاہو کچھ عرصہ کے لئے قربانی کے گوشت کو تو یہ منع نہیں ہے۔ لیکن بعض حدیثوں سے صحابہ کو یہ شبہ پڑا کہ گویا تین دن کے اندر یہ گوشت تقسیم کردینا ضروری ہے اور باقی نہیں رکھا جاسکتا اس لئے آنحضرت ؐکو اس کی وضاحت کرنی پڑی۔ یہ تفصیلی حدیث اس مضمون سے تعلق رکھتی ہے۔ عبد اللہ بن واقد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آنحضورؐنے قربانی کا گوشت تین دن سے زائد کھانے سے منع فرمایا۔ یہ روایت ہے جس کی بنا پر صحابہ کو غلط فہمی ہوئی۔ عبد اللہ بن ابوبکر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے یہ بات حضرت عمر ہ رضی اللہ عنہا سے کہی تو انہوں نے اس کی تصدیق کی اور کہا کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہاسے سنا کہ حضور ؐ کے زمانے میں عید الاضحی کے موقع پر بادیہ نشینوں میں سے گیت گانے والے آئے۔ یہ گیت گانے والے کون ہیں جو مانگنے کے لئے نکلتے ہیں اور ساتھ گیت گاتے پھرتے ہیں۔ آج تک یہی رواج ہے بہت سے فقراء کا کہ وہ گیت گاتے چلتے ہیں تاکہ ان کی آواز سن کر اہل خانہ متوجہ ہوں۔ پس وہ بھی اس طرح گلیوں میں پھر رہے تھے اور گیت گارہے تھے۔ اس پر آنحضورؐ نے فرمایا تین دن تک کے استعمال کے لئے گوشت جمع کر رکھو باقی انہیں خیرات کردو۔ تو یہ ایک خاص موقع کا حکم تھا۔

اس کے بعد کی عید کی دفعہ یہ ہوا کہ صحابہ رضوان اللہ علیہم نے عرض کی یا رسول اللہ ؐ !لوگ اپنی قربانی کی کھالوں سے مشکیں بناتے ہیں اور ان میں چربی ڈالتے ہیں۔ مطلب کیا تھا؟مطلب یہ تھا کہ چربی کو وہ ممنوع نہیں سمجھتے کہ چربی بعد میں بھی رکھی جاسکتی ہے کیونکہ آپ ؐنے گوشت فرمایا تھا اس لئے صحابہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ گوشت کو تین دن سے زیادہ رکھنا منع ہے اور تین دن کے اند رہی استعمال کرلیا جائے، جتنا ہوسکتا ہے۔ اس لئے وہ قربانی کی کھالوں کی مشقیں بناتے ہیں اور ان میں چربی بھر لیتے ہیں جتنی چربی بھی میسر ہو۔ حضور ؐنے فرمایا تو اب کیا ہوا ہے ان کو؟کیوں یہ ایسا کرتے ہیں؟انہوں نے کہا آپ ؐنے ہی تین دن کے بعد قربانی کا گوشت کھانے سے منع فرمایا تھا۔ اب آپؐ پوچھ رہے ہیں کیوں ایسا کرتے ہیں؟حضور ؐنے فرمایا میں نے تو تمہیں ان باہر سے آنے والوں کی وجہ سے منع کیا تھا جو اس وقت آگئے تھے۔ یعنی ایک ہلّہ بولا تھا ان فقیروں نے تو ان کی خاطر یہ خیال تھا کہ قربانیاں تھوڑی نہ ہوجائیں اور ان کی اشتہاء، وہ جس وجہ سے وہ پھر رہے ہیں وہ پوری نہ ہوسکے اس لئے میں نے منع کیا تھا۔ اب گوشت کھاؤاور جمع کرو اور خیرات کرو۔

(صحیح مسلم کتاب الاضاحی باب بیان ماکان من النھی عن أکل لحوم الاضاحی بعد ثلاث )

پس اس حدیث کو پیش نظر رکھتے ہوئے جس حد تک آپ اپنے حصہ کے لئے قربانی کا گوشت جمع کرنا چاہیں اس کی مناہی نہیں ہے لیکن اگر ایسے غریب علاقوں میں آپ ہوں جہاں قربانی کے ساتھ اردگرد عام بھوک ہو اور لوگ کثرت کے ساتھ بھوک سے نڈھال ہوکر فاقہ کشی کررہے ہوں، موت کے قریب پہنچتے ہیں بعض جگہ ایسے علاقے بھی ہیں، اور بعض دفعہ صبر کے ساتھ بیٹھے رہتے ہیں لیکن بھوک ان کوعملاً موت کے کنارے تک پہنچا دیتی ہے۔ ایسی جگہ پر اگر کوئی احمدی قربانی کرتاہے تو یہ ہوہی نہیں سکتا کہ وہ ان کا خیال نہ کرے اور تین دن سے زائد اپنے لئے گوشت جمع کرلے۔ تین دن بھی اس کا دل نہیں چاہے گا، وہ چاہے گا کہ ایک دولقمے کھائے اور سب قربان کردے مگر سنت یہی ہے اس لئے تین دن اسے ضرور اپنی قربانی کا گوشت کچھ نہ کچھ اپنے استعمال میں لانا چاہئے اور باقی جس حد تک بھی ہوسکے ایسے غریب علاقوں میں خدا کے بندوں کی خاطر خدا کی خاطر کی ہوئی قربانی کا گوشت پیش کردیں۔ ‘‘

(خطبہ عید الاضحی فرمودہ28؍مارچ 1999ء مطبوعہ خطبات طاہر عیدین صفحہ 649تا651)

قربانی کے گوشت کے بارےمیںحضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ مزید فرماتے ہیں :

’’آنحضور ؐکے زمانے میں عید الاضحی کے موقع پر بادیہ نشینوں میں سے کچھ گیت گانے والے آئے، یہ محتاج لوگ تھے۔ حضور اکرم ؐنے فرمایا تین دن تک کھانے کے لئے گوشت جمع کرلواور باقی انہیں خیرات کردو تاکہ وہ بھوکے نہ رہیں۔ اس کے بعد آئندہ سال صحابہ ؓنے عرض کیا یارسول اللہؐ ! لوگ اپنی قربانیوں کی کھالوں سے مشکیں بناتے ہیں اور ان میں چربی ڈالتے ہیں اس پر حضور ؐنے فرمایا پھر کیا ہوا؟انہوں نے کہا کہ آپ نے ہی تو ہمیں تین دن کے بعد قربانی کے گوشت سے منع فرمایا ہے۔ حضور ؐنے فرمایا میں نے تو تمہیں ان باہر سے آنے والوں کی وجہ سے منع کیا تھا جو اس وقت آگئے تھے۔ جاؤ اور گوشت کھاؤاور جمع کرو اور اس سے صدقہ اور خیرات بھی کرو۔(مسلم کتاب الاضاحی باب بیان ماکان من النھی عن اکل لحوم الاضاحی بعد ثلاث )اس لئے اب آپ لوگ اچھی طرح سمجھ لیں، ضروری نہیں ہے تین۔ یہی تین دن کی حکمت رسول اللہ ؐنے بیان فرما دی، آج کل تو لوگ آتے بھی نہیں باہر سے آنے والے۔ یہاں تو ملک بھی امیر ہے اور یہاں تو قربانی کے بعد تقسیم کرنے کے لئے بھی آدمی ڈھونڈنے پڑتے ہیں۔ اس لئے آپ بڑے شوق سے رکھ لیا کریں قربانی کا گوشت۔ لیکن زیادہ دیر فرج میں رکھنا بھی ٹھیک نہیں۔ وہ کنجوسی ہے۔ جس حد تک ممکن ہواس کو تقسیم کردیا کریں۔ ‘‘

(خطبہ عید الاضحی 12؍فروری 2003ء مطبوعہ خطبات عیدین صفحہ 709تا710)

کیا دوسروں کی طرف سے قربانی ہوسکتی ہے؟

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ

’’ کئی لوگ غریب ہوتے ہیں اس لئے اس بات کو مدّ نظر رکھتے ہوئے کہ کوئی شخص قربانی سے محروم نہ رہ جائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دستور تھا کہ غرباء امت کی طرف سے ایک قربانی کردیا کرتے تھے۔ اس طریق کے مطابق میرا قاعدہ یہ ہے کہ اپنی جماعت کے غرباء کی طرف سے ایک قربانی کردیا کرتا ہوں۔ ‘‘

(الفضل 17؍ اگست 1922ء )

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button