متفرق مضامین

فخرِ رسُل آنحضرتﷺ کا سفرِ حجۃ الوداع

(انیس احمد ندیم۔ مبلغ انچارج جاپان)

حجة الوداع کا تاریخی خطبہ،تکمیلِ دین کا اعلان اور آپﷺ کی الوداعی نصائح

اللہ تعالیٰ کے نام کی سربلندی اور اشاعتِ توحید کا وہ سفر جس کا آغاز غارِ حراء سے ہوا تھا اس پر 22برس بیت چکے تھے۔ مکہ اور طائف کی کٹھن تبلیغی جدو جہد کے بعد ہمارے سیدو پیشواحضرت محمد مصطفیٰ ﷺ مدینہ تشریف لائے۔ مدینہ آمد کے دسویں سال آپﷺ نے جب حج کی ادائیگی کا عزم فرمایاتو لوگوں میں اعلانِ عام کردیا گیا کہ آنحضورﷺ حج پر تشریف لے جارہے ہیں۔ چنانچہ آپ کی رفاقت میں حج کی سعادت حاصل کرنے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں عشاق تیار ہوگئے۔ یہ مبارک موقع جسے حجة الوداع کے نام سے یاد کیا جاتا ہے آپﷺ کی حیاتِ اطہر میں پیش آنے والا غیر معمولی واقعہ ہے۔ غارِ حراء کےگوشہ تنہائی سے شروع ہونے والا سفر اپنی تکمیل کے مراحل کی طرف بڑھ رہا تھا۔ ابراہیمی دعاؤں کی قبولیت کے نظارے اور تعمیر بیت اللہ کے مقاصداپنی منتہاءکو پہنچنے والے تھے۔ دعوت وتبلیغ کا وہ مشن جو مکہ مکرمہ سے شروع ہوا کئی مراحل سے گزرنے کے بعد اِسی مبارک وادی میں پایۂ تکمیل کو پہنچنے والا تھا۔ آنحضورﷺ کی دعاؤں اور شبانہ روز تبلیغی کاوشوں کے ثمر ظاہر ہوچکے تھے۔ گویا وہ وقت آن پہنچاتھا کہ خدا کی حمدو ثنا کے گیت گائے جائیں اور تلبیہ کا ورد کرتے ہوئے محبوبِ خُداﷺ خلقِ خدا سے ہم آواز ہوکر اس زور سے توحید کی منادی کریں کہ اس کی گونج تاقیامت سنائی دیتی رہے۔ اس مقدس واقعہ کی یادیں بیان کرنے میں سب سے مشہور صحابی حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ

ہجرت کے دسویں سال جب یہ اعلان ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حج کا قصد کرنے والے ہیں تو لوگ ذوق وشوق سے تیاری کرنے لگے او رمدینہ میں بہت سے لوگ جمع ہونا شروع ہوگئے۔ سب لوگوں کی ایک ہی خواہش تھی کہ آپﷺ کے اس سفرمیں آپ کی پیروی کریں اور آپ کی اقتدا میں ہی مناسک حج بجا لائیں۔ لوگوں کے ذوق وشوق کا عالم یہ تھا کہ حاملہ خواتین بھی اس سفر سے پیچھے نہ رہیں۔ چنانچہ حجاج کا یہ قافلہ جب ذو الحلیفہ پہنچا تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ حضرت اسماء بنت عمیس کے ہاں بیٹا پیدا ہوا جن کا نام محمد رکھا گیا۔

(الجامع الصحیح للمسلم۔ كِتَاب الْحَجِّ۔ باب حَجَّةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ)

حجة الوداع کے سفر میں لوگوں کی کثرت کا احوال بیان کرتے ہوئے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ

جب آپﷺ ذو الحلیفہ سے عازم سفر ہوئے اوراونٹنی پر تشریف فرماہوئے تو آگے جہاں تک میری نظر دیکھ سکتی تھی سوار اور پیادے ہی نظرا ٓتے تھے۔ ایسی ہی بھیڑ دائیں طرف تھی اور بائیں جانب بھی یہی عالم تھا بلکہ پیچھے بھی ایسی ہی بھیڑ تھی اور رسول اللہﷺ ہمارے درمیان میں تھے۔ صحابہ کے عشق ومحبت اور اتباعِ رسولﷺ کا یہ عالم تھا کہ جو عمل آپﷺ بجا لاتے صحابہؓ ہو بہو اس کی پیروی کرتے۔

(الجامع الصیح للمسلم۔ كِتَاب الْحَجِّ۔ باب حَجَّةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ)

مدینہ سے روانگی

آنحضورﷺ نے مواقیتِ حج مقرر فرمائے اور مدینہ والوں کے لیے ذوالحلیفہ کو میقات قرار دیا جو مدینہ سے چھ میل کی مسافت پر واقع ہے(بخاری)آپ نے بالوں میں کنگھی کی، تیل لگایا، قربانی کے جانور کو تیار کیا اور ظہر کے بعد مدینہ سے عازم سفرہوئے اور عصر سے پہلے ذوالحلیفہ پہنچ گئے۔ وہاں آپ نے نمازِ عصر قصر کرکے ادا فرمائی۔

وادی عقیق ایک متبرک مقام

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ ذوالحلیفہ میں قیام کے دوران ہی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک فرشتہ میرے پاس آیا ہے اور اس نے کہا ہے کہ اس ’’مبارک وادی‘‘میں نماز پڑھیں اور حج کے ساتھ ہی عمرہ کا احرام باندھیں۔ (بخاری)اس مبارک مقام کو وادی عقیق کے نام سے یاد کیا گیاہے۔ (بخاری)

ذوالحلیفہ میں احرام باندھنا

نماز ظہر سے قبل آپؐ نے غسل فرمایا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو خوشبو لگائی، بالوں کو بکھرنے سے محفوظ رکھنے کی خاطر سر کی تلبیدکی، چادر اوڑھی اور ظہر کی نماز قصر کرکے ادا فرمائی اور اللہ تعالیٰ کی منشاء اور رہ نمائی کے مطابق حج اور عمرہ کا اکٹھا احرام باندھا۔ اور نماز ظہر کی ادائیگی کے بعد حجة الوداع کے تاریخی سفر کا آغاز فرمایا۔ (سیرت حلبیہ وابن ھشام)

صدائے لبیک کا روح پرورنظارہ

آنحضورﷺ اور آپ کے عشاق تلبیہ کرتے ہوئے ذوالحلیفہ سے روانہ ہوئے تو یہ نظارہ نہایت مسحور کن اور قابل دید تھا۔ آج شرک اور بت پرستی کی آماجگاہ سر زمینِ عرب میں توحید کا ڈنکا پوری شان سے بج رہا تھا۔ آپﷺ کا قافلہ تلبیہ کا ورد کرتے ہوئے ذوالحلیفہ سے روانہ ہوا تو

لَبَّيْكَ اللّٰهُمَّ لَبَّيْكَ

کی صداؤں سے چہار دانگ حجاز میں ایک غوغا برپاتھا۔ ایک تووہ وقت تھا کہ اَحَد اَحَد کی صد ا بلند کرنے پر مسلمانوں کو زدو کوب کیا جاتا اور اب یہ عالم تھا کہ ہزارہا فرزندان ِتوحید رسول اللہﷺ کی اقتدا میں اس زور سے توحید کی منادی کررہے تھے کہ حجاز کی وادیاں اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید سے گونج اٹھی تھیں۔ تلبیہ کے مسنون الفاظ یہ ہیں:

لَبَّيْكَ اللّٰهُمَّ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ لَا شَرِيْكَ لَكَ لَبَّيْكَ إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ لاَشَرِيْكَ لَكَ

میں حاضر ہوں۔ اے اللہ میں حاضر ہوں۔ تیرا کوئی شریک نہیں میں حاضر ہوں۔ یقیناً ہر قسم کی تعریف اور نعمت تیرے ہی لیے ہے اور بادشاہت بھی تیری ہی ہے۔ کوئی بھی تیرا شریک نہیں۔

حج کے موقع پر بلند آواز سے تلبیہ کا ورد شعائر ِحج میں سے ہے۔ سنن ابن ماجہ کی روایت ہے کہ آنحضورﷺ نے فرمایا ’’میرے پاس جبرئیل حاضرہوئے اور عرض کیا کہ اپنے اصحاب کو حکم دیں کہ تلبیہ پڑھتے وقت اپنی آوازوں کو بلند کیا کریں کیونکہ بلندآواز سے تلبیہ پڑھنا حج کے شعار میں سے ہے۔ ‘‘

(سنن ابن ماجہ، کتاب المناسک، باب رفع الصوت بالتلبیہ)

مکہ معظمہ میں ورود مسعود

آنحضورﷺ 25ذی القعدہ کو ذوالحلیفہ سے روانہ ہوئے اور آٹھ راتیں سفر میں گزارنے کے بعدسرِ شام مکہ کے قریب پہنچے تو ذی طویٰ میں نزول فرمایا اور اگلی صبح 4؍ذوالحج کو ثنیة العلیا یعنی بالائی جانب سے مکہ معظمہ میں داخل ہوئے۔

خانہ کعبہ پر پہلی نظر پڑتے ہی دعا مانگنا

مکہ معظمہ میں رونق افروز ہونے کے بعد آپؐ سب سے پہلے مسجد حرام پہنچے اور خانہ کعبہ پر پہلی نظر پڑتے ہی یہ دعا مانگی کہ

اللّٰهُمَّ زِدْ هَذَا الْبَيْتَ تَشْرِيفًا وَتَعْظِيمًا وَتَكْرِيمًا وَبِرًّا وَمَهَابَةً، وَزِدْ مِنْ شَرَفِهِ وَكَرَمِهِ مِمَّنْ حَجَّهُ أَوْ اعْتَمَرَهُ تَشْرِيفًا وَتَعْظِيمًا وَتَكْرِيمًا وَبِرًّا

(السیرة الحلبیہ)

اے اللہ ! اس گھر کی بزرگی، تعظیم، عزت اور نیکی میں اضافہ فرما۔ اور جو شخص اس گھر کا حج یا عمرہ بجا لائے اس کی عزت و تکریم اور بزرگی اور نیکی میں بھی اضافہ فرما۔

مناسک حج کی ادائیگی سے قبل آپﷺ کی مصروفیات

آنحضورﷺ حج سے چند دن قبل ہی مکہ معظمہ میں ورود فرما چکے تھے۔ چنانچہ آپؐ نے عمرہ ادا فرمایا۔ استلام(حجراسود کو بوسہ دینا) بجالایا۔ خانہ کعبہ کا طواف کیا۔ سیرت حلبیہ کی روایت کے مطابق اس موقع پرا ٓپؐ کی طبیعت قدرے ناساز تھی لہٰذا آپ نے سواری کی حالت میں ہی طواف مکمل کیا اور جب رکنِ یمانی کے پاس سے گزرتے تو چھڑی سے چھُو تے اور تکبیر کا ورد فرماتے۔ اسی طرح آپﷺ نے چھڑی کی مدد سے ہی حجرِ اسود کو چھوتے ہوئے اشارہ کی زبان میں بوسہ عطا فرمایا۔

طواف کے بعد آپﷺ مقام ابراہیم پر اُترے اور کعبہ کی طرف رخ کرکے دو رکعت نماز ادا کی۔ اس کے بعد آب زمزم کے متبرک چشمہ پر تشریف لے گئے جہاں سےآپﷺ نے پانی نوش فرمایا۔ اس کے بعدا ٓپﷺ بیت الحرام سے ہی

إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللّٰہ

پڑھتے ہوئے کوہِ صفا پر پہنچے اور فرمایا کہ ہم بھی وہیں سے آغاز کریں گے جہاں سے اللہ تعالیٰ نے ابتدا فرمائی ہے۔

عمرہ کی ادائیگی کے بعد آپﷺ مکہ کے مشرقی علاقہ ابطح میں فروکش ہوگئے اورایام حج کے آغاز یعنی یوم الترویہ تک یہیں مقیم رہے۔ اس دوران آپؐ نمازیں قصر کرکے ادا فرماتے رہے۔

حجة الوداع کا پہلا دن۔ منیٰ میں قیام

8؍ذو الحج یوم الترویہکہلاتا ہے اور اس دن منیٰ کی طرف روانگی کے ساتھ ہی مناسکِ حج کا آغاز ہوجاتا ہے۔ منیٰ مکہ معظمہ سے تین میل کی مسافت پر واقع ہے۔ آنحضورﷺ اور صحابہ تلبیہ کا ورد کرتے ہوئے چاشت کے وقت منیٰ روانہ ہوئے۔ اور نماز ظہر وعصر اور مغرب وعشاء منیٰ میں ہی ادا فرمائیں۔

حجة الوداع کا دوسرا دن۔ وقوفِ عرفہ

9؍ذوالحج کی نماز فجر منیٰ میں ادا فرمانے کے بعد آپﷺ نے طلوع آفتاب کا انتظار فرمایا اور تلبیہ کا ورد کرتے ہوئے عرفات کی طرف روانہ ہوگئے۔ یہاں آپ نے وادی نمرہ میں قیام فرمایا۔ حج کے اس اہم رکن کو وقوفِ عرفہ کہا جاتا ہے۔ وادی نمرہ میں ہی آپﷺ نےوہ تاریخی خطبہ ارشادفرمایا جسے خطبہ حجة الوداع کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

حجة الوداع کا تاریخی خطبہ

آنحضورﷺ اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے اورایک ایسا تاریخی خطبہ ارشاد فرمایا جو آپ کے مشن کی تکمیل کااعلانِ عام تھا۔ نیز خطبہ کے آغاز میں ہی آپؐ نے اشارہ فرمایا دیا کہ گویا یہ آپؐ کی الوداعی نصائح ہیں۔

عرفات کے میدان میں آپ نے جو تاریخی خطبہ ارشاد فرمایا صحاح ستہ سمیت تاریخ وسیر کی دیگر کتب میں اس کے مختلف حصے محفوظ ہیں۔ سیرت ابن ھشام کے مطابق آپ نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

أَيُّهَا النَّاسُ، اسْمَعُوا قَوْلِي، فَإِنِّي لَا أَدْرِي لَعَلِّي لَا أَلْقَاكُمْ بَعْدَ عَامِي هَذَا بِهَذَا الْمَوْقِفِ أَبَدًا، أَيُّهَا النَّاسُ، إنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ إلَى أَنْ تَلْقَوْا رَبَّكُمْ، كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا، وَكَحُرْمَةِ شَهْرِكُمْ هَذَا، وَإِنَّكُمْ سَتَلْقَوْنَ رَبَّكُمْ، فَيَسْأَلُكُمْ عَنْ أَعْمَالِكُمْ، وَقَدْ بَلَّغْتُ، فَمَنْ كَانَتْ عِنْدَهُ أَمَانَةٌ فَلِيُؤَدِّهَا إلَى مَنْ ائْتَمَنَهُ عَلَيْهَا، …أَيُّهَا النَّاسُ، اسْمَعُوا قَوْلِي وَاعْقِلُوهُ، تَعَلَّمُنَّ أَنَّ كُلَّ مُسْلِمٍ أَخٌ لِلْمُسْلِمِ، وَأَنَّ الْمُسْلِمِينَ إخْوَةٌ، فَلَا يَحِلُّ لِامْرِئِ مِنْ أَخِيهِ إلَّا مَا أَعْطَاهُ عَنْ طِيبِ نَفْسٍ مِنْهُ، فَلَا تَظْلِمُنَّ أَنَفْسَكُمْ، اللَّهمّ هَلْ بَلَّغْتُ؟

اے لوگو! میری باتیں توجہ سے سنو۔ کیونکہ میں نہیں جانتا کہ آئندہ سال میں اس جگہ تمہارے ساتھ موجود ہوں گا یا نہیں۔ اے لوگو! تمہارے خون اور تمہارے مال آپس میں ایک دوسرے پر حرام ہیں یہاں تک کہ تم اپنے پروردگار سے جا ملو۔ اسی طرح جیسے اس دن کی حرمت ہے اور اس مہینہ کی حرمت ہے۔

اور یقینا ًتم اپنے رب کے حضور حاضر ہوگے اور وہ تم سے تمہارے اعمال کا سوال کرے گا اور میں سب باتیں تم کو بتا چکا ہوں۔ پس جس شخص کے پاس کسی کی امانت ہو وہ اس کی امانت ادا کردے اور کوئی شخص اپنے قرض دار سے بجز رأس المال کے سود نہ لیا کرے کیونکہ سود حرام کر دیا گیا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے اس بات کا فیصلہ فرمادیا ہے۔ اور عباس بن عبد المطلب کا سود بھی آج سے ختم تصور ہوگا۔ اور جس قدر خون زمانہ جاہلیت کے تھے وہ سب معاف سمجھے جائیں گے اور سب سے پہلے میں خود ابن ربیعہ بن حرث بن عبد المطلب کا خون معاف کرتا ہوں جس کو بنی ھذیل نے قتل کیا تھا۔

اے لوگو! شیطان مایوس ہوگیا ہے کہ اب اس سر زمین میں دوبارہ اس کی پرستش نہ کی جائے گی۔ لیکن وہ چھوٹی چھوٹی باتوں اور صغیرہ گناہوں پر تمہیں بہکاتا رہے گا۔ سو اس سے بچ کر رہو۔

اے لوگو! نسیء(حرمت والے مہینوں کو آگےپیچھےکرنا)کی رسم کفار نے ایجاد کی تھیں اور یہ محض کفر میں بڑھانے والی ہے اور حرام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ سے بارہ مہینے مقرر فرمائے ہیں اور ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں۔ یعنی ذی القعدہ، ذی الحج، محرم اور رجب۔

اے لوگو! تمہارا تمہاری عورتوں پر حق ہے اور تمہاری عورتوں کا بھی تم پر حق ہے۔ تمہارا عورتوں پر یہ حق ہے کہ وہ تمہارے بستر پرکسی اور شخص کو نہ بلائیں۔ اور کوئی فحش بات اختیار نہ کریں۔ پس اگر وہ ایسا کریں تو انہیں اپنے بستروں سے جدا کر دو اور انہیں ایسی تادیب نہ کرو جو تکلیف دہ ہو۔ پھر وہ اگر اس سے باز آجائیں تو اُن کا نان نفقہ حسب حیثیت تمہارے ذمہ ہے۔

اے لوگو! عورتوں کے ساتھ بھلائی کرو۔ وہ تمہارے پاس باندیوں کی طرح ہیں اور اپنے لیےکوئی قدرت نہیں رکھتیں۔ اور تم نے ان کو خدا کی امانت کے طور پر لیا ہے۔ اور خدا کے کلام کی بدولت ان کی عصمتیں تم پر حلال کی گئی ہیں۔

اے لوگو! میری ان باتوں کو سنو اور خوب سمجھ لو او رجان لو کہ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے اور سب مسلمان ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ پس تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرنا۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ اے اللہ ! کیا میں نے تیرے احکام بندوں تک پہنچا دیے ہیں ؟ سب حاضرین نے عرض کیا کہ جی ہاں ! بے شک آپؐ نے احکاماتِ الہٰی ہم تک پہنچا دیے ہیں۔ اس پرا ٓپؐ نے فرمایا کہ اے اللہ تو گواہ ہوجا۔ (ابن ھشام)

تکمیلِ دین کا اعلان اور وحی الٰہی کا نزول

حجة الوداع کے دوران 9؍ذوالحج 10ہجری ایک غیر معمولی تاریخی دن کی صورت میں طلوع ہوا۔ یہ جمعہ کا مبارک دن تھا لیکن آنحضورﷺ نے نماز جمعہ کی بجائےظہر وعصر کی نمازیں ادا فرمائیں۔ آپﷺ عرفات میں ہی مقیم تھے اور اس حالت میں کہ اپنی اونٹنی القصواءپر سوار تھے آپﷺ پر اس آیت کریمہ کا نزول ہوا:

اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا (المائدۃ:4)

آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا اور تم پر میں نے اپنی نعمت تمام کر دی ہے اور میں نے اسلام کو تمہارے لیے دین کے طور پر پسند کر لیا ہے۔

یومِ عرفہ اور یومِ جمعہ کے مبارک دن اس آیت کریمہ کا نزول ایک طرف تکمیل دین کا اعلان تھا تو دوسری طرف آنحضورﷺ سے جدائی کی خبر تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس آیت کریمہ میں مستور پیغام کو بھانپ لیا اور اتمام نعمت و تکمیل دین کا اعلان سنتے ہی آبدیدہ ہوگئے۔ آ نحضورﷺ نے رونے کا سبب دریافت فرمایا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ ہم دین میں مزید تعلیمات کی امید رکھتے تھے اور اب جبکہ وہ کامل ہوگیا ہے اور نعمت تمام ہوگئی ہے تو اس بات کا خدشہ موجود ہے کہ جب کوئی چیز مکمل ہوجائے تو اس میں بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے۔ اس پر آنحضورﷺ نے فرمایا کہ عمر تم ٹھیک کہتے ہو۔ (سیرت الحلبیہ)

عرفات سے مزدلفہ روانگی

آپﷺ غروبِ آفتاب کے بعد عرفات سے مزدلفہ کے لیے روانہ ہوئے اور یہاں پہنچ کر آپﷺ نے نماز مغرب وعشاء ادا فرمائیں۔ مزدلفہ عرفات اور منیٰ کے درمیان واقع ہے اور حرم کی مقدس حدود میں داخل ہے۔

حج کا تیسرا یوم

مزدلفہ میں قیام اور المشعر الحرام تشریف آوری

آپﷺ نے مزدلفہ میں نماز فجر ادا فرمائی اور حج کے ایک اور رکن المشعر الحرام کی طرف تشریف لے گئے۔ یہ وہ مقام ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

فَإِذَا أَفَضْتُمْ مِّنْ عَرَفَاتٍ فَاذْكُرُوْا اللّٰهَ عِندَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ وَاذْكُرُوْهُ كَمَا هَدَاكُمْ (البقرۃ:199)

یعنی جب تم عرفات سے لوٹو تو مشعرِ حرام کے پاس اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو اور اُسی طرح اللہ تعالیٰ کو یاد کرو جس طرح اس نے تمہیں سکھایا ہے۔

آپﷺ اول وقت میں نماز فجر ادا کرنے کے بعد مشعرِ حرام کے مقدس مقام پر تشریف لے آئے اور طلوع آفتاب سے قبل روشنی ہوجانے تک یہاں ٹھہرے رہے اور سارا وقت دعاؤں میں مشغول رہے۔ (السیرة الحلبیہ باب حجة الوداع)

10ذوالحج کومنیٰ واپسی اور رمی الجمار

آپﷺ 10؍ذوالحج کوہی مزدلفہ سے روانہ ہو کر منیٰ پہنچے تو چاشت کا وقت ہوچکا تھا۔ یہاں تشریف لا کر آپﷺ نے ایک ایک کرکے جمرات کی رمی کی اور کل سات کنکریاں ماریں۔ ہر کنکری مارتے وقت آپﷺ اللہ اکبر کہتے جاتے۔ مناسک حج کا یہ مرحلہ نہایت وقار اور متانت سے بجا لایا گیا۔ (ترمذی)مزدلفہ سے روانگی کے وقت آپﷺ نےتلبیہ کہنا شروع کیا جو رمی الجمارتک مسلسل جاری رہا۔ رمی کے بعد آپﷺ نے تلبیہ کہنا ختم کر دیا۔ (بخاری)

یوم النحر۔ یعنی قربانیوں کا دن

دس ذوالحج قربانیوں کی وجہ سے یوم النحر کہلاتا ہے۔ اس دن آنحضورﷺ جمرات کے درمیان کھڑے ہوئے اور لوگوں سے ایک مرتبہ پھر خطاب فرمایا اور اس دن کی اہمیت اُجاگر کرتے ہوئے بعض نصائح فرمائیں۔ اس کے بعد آپؐ نے اعلان فرمایا کہ

’’ھَذَا یَوْمُ الحَجِّ الْاَکْبَرِ‘‘

کہ یہ حجِ اکبر کا دن ہے۔ (بخاری)

یہ امور بیان فرمانے کے بعد آپؐ نے قربانیاں ذبح کیں۔ یہ جانور آپ مدینہ سے ساتھ لائے تھے۔ آپؐ نےگوشت تناول فرمایااور شوربا بھی پیا۔ (سیرت حلبیہ)

بال کٹوانا اور احرام کھول دینا

10؍ذوالحج کو قربانیاں ذبح کرنےکے بعد صحابہ نے طواف، رمی اور قربانیوں کے بارے میں مختلف سوالات کیے جن میں سے اکثر معاملات کا تعلق مناسکِ حج کی تقدیم و تاخیر سے تھا۔ آنحضورﷺ نے ان سوالات کے جواب میں یہی فرمایا کہ اگر کوئی حصہ رہ گیا ہے تو اب بجا لائیں اور کسی وجہ سے تقدیم وتاخیر ہوگئی ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ (بخاری)

ان امور سے فراغت کے بعد آپﷺ نے حلق راس(سر کے بال منڈوانا) کروایا۔ حضرت معمر بن عبد اللہ ؓنے یہ سعادت حاصل کی اور آپؐ کے بال بطور تبرک صحابہ نے محفوظ کر لیے۔ حلقِ راس کے بعد آنحضورﷺ اور صحابہ نے احرام کھول دیے۔ (سنن ابی داؤد و سیرت حلبیہ)

خطبہ حجة الوداع کے بعد آپﷺ کی مصروفیات

یوم النحر کے بعد آپﷺ نے بیت اللہ کا طواف کیا۔ جسے طواف ِزیارت یا طوافِ افاضہ بھی کہاجاتا ہے۔ بعد ازاں آپﷺ آب زمزم پر تشریف لے گئے اور پانی نوش فرمایا اور منیٰ روانہ ہوگئے اور 11؍سے13؍ذوالحج تک منیٰ میں مقیم رہے۔ طواف ِزیارت کے بعد منیٰ میں تین دن رات قیام کرنا ایام التشریق کہلاتاہے۔ ان ایام میں آپؐ بیت اللہ کی زیارت کے لیے تشریف لاتے رہے۔

وادیٔ بطحا میں نزول

13؍ذوالحج کو آپ منیٰ سے وادی بطحا میں تشریف لے آئے اور ایک رات یہیں قیام فرمایا۔ یہ مکہ اور منیٰ کے درمیان واقع ہے اور یہی وہ مقام ہے جہاں کفار نے اپنے کفر پر قائم رہنے کی قسمیں کھائیں تھیں، اسے خیف بنی کنانةکہاجاتا ہے۔ آج یہ مبارک وادی بھی شرک اور بت پرستی کا جامہ اُتار کر نہ صرف توحید کے نور سے منور ہو چکی تھی بلکہ رسولِ خداﷺ بنفس نفیس اس مقام پر رونق افروز تھے۔

طواف ِوداع اور مدینہ کو واپسی

آپ نے 13؍ذوالحج کو نماز ظہر وعصر اور مغرب وعشاء محصّب( بطحا) میں ادا کیں اور نماز عشاء کے بعد کچھ دیر کے لیے سو گئے اور رات کے کسی حصہ میں بیدار ہوکر بیت اللہ تشریف لائے اور طوافِ وداع کیا۔ گویا اپنے محبوب وطن مکہ معظمہ میں خانہ خدا کی آخری زیارت کی اور اس مقدس مقام کو ہمیشہ کے لیے الوداع کہتے ہوئے ثنیة السفلی(مکہ کے نشیبی جانب) سے مدینہ کی طرف روانہ ہوگئے۔

حمد و ثنا کے ترانے گاتے ہوئےمدینہ منورہ میں نزول

حجة الوداع کا مبارک سفر جس کا آغاز تلبیہ کی صداؤں اور تسبیح وتحمید کے نعروں سے ہوا تھا اس کے اختتامی لمحات بھی نہایت مسحور کن اور روح پرورنظارہ پر مشتمل تھے۔ مدینہ منورہ کی آبادی نظر آتے ہی آپؐ نے تین مرتبہ اللہ اکبر کی صدا بلند کی۔ آپﷺ کا قلب مبارک اللہ تعالیٰ کی حمد سے سرشار تھا۔ توحید کا پرچار اور اللہ تعالیٰ کے نام کی سربلندی ہی آپﷺ کا مقصدِ حیات تھا۔ ان جذبات کا اظہارمدینہ میں داخل ہوتے وقت آپ کی کیفیات سے ہوتا ہے۔ آپﷺ کا دل اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا سے لبریز اور زبانِ مبارک پر یہ دعائیہ کلمات جاری تھے:

لَا إِلٰه إلَّا اللّٰه وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ، لَهُ المُلْكُ ولَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيءٍ قَدِيْرٌ . آئِبُونَ تَائِبُوْنَ عابِدُوْنَ سَاجِدُوْنَ لِرَبِّنَا حَامِدُون۔صدقَ اللّٰه وَعْدهُ، وَنَصرَ عبْدَه، وَهَزَمَ الْأَحزَابَ وحْدَه۔ (متفق علیہ)

اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ واحد ہےاس کا کوئی شریک نہیں۔ بادشاہت اسی کی ہے اور حمد(بھی) اسی کی ہےاور وہ ہر ایک چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ ہم فرمانبرداری کے ساتھ جھکتے ہوئے، توبہ کرتے ہوئے، عبادت کرتے ہوئے، سجدے کرتے ہوئے اور اپنے رب کی حمد کرتے ہوئے واپس لوٹ رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا ہے اور اپنے بندے کی نصرت فرمائی ہےاور اس واحد و لاشریک نے تمام لشکروں کو ہزیمت دی ہے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپﷺ مدینہ میں داخل ہونے تک مسلسل

آئِبُونَ، تَائِبُونَ، عَابِدونَ، لِرَبِّنَا حَامِدُونَ

کا ورد کرتے رہے۔ (مسلم)

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰٓی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰٓی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰٓی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ. اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰٓی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰٓی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰٓی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button