تاریخ احمدیت

حضرت مصلح موعودؓ کا پہلا تاریخی دورۂ یورپ

24؍جولائی تا4؍اگست1924ء : مصر میں قیام ۔ بیت المقدس اور مقامات انبیاء کی زیارت

1924ء میں حضرت مصلح موعودؓ نے یورپ کا دورہ فرمایا۔ یہ کسی بھی خلیفہ وقت کی جانب سے ان ممالک کو برکت بخشنے کا پہلا موقع تھا۔ دورانِ سفر حضورؓ نے بعض ممالک میں مختصر قیام بھی فرمایا۔ مورخہ 24جولائی تا 4 اگست کے دوران حضورؓ کی مصروفیات پر مشتمل ایک مختصر نوٹ قارئین کے لیے پیش ہے۔

عدن سے پورٹ سعید تک

اب جہاز عدن سے پورٹ سعید کی طرف چلا اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کا وقت پہلے سے زیادہ دعا اور اس اہم سفر کے متعلق عملی پروگرام پر غور میں صرف ہونے لگا۔ چنانچہ 24؍ جولائی 1924ء کو آپ نے شام و مصر میں تبلیغ کےسلسلہ پر کئی گھنٹے دوستوں سے مشورہ لیا اور ایک سکیم تجویز فرمائی اور دوستوں کو تاکید فرمائی کہ سفر کی اہمیت،مقصد کی عظمت اور مشکلات کو پیش نظر رکھتے ہوئے تمام وقت اس کی تیاری میں صرف ہونا چاہیےاور اس کے لئے خدا تعالیٰ سے دعا کرنی چاہیےتا ہمیں ہر قسم کے برکات حاصل ہوں۔ غرضیکہ اٹھتے بیٹھتے آپ کے پیش نظر یہی ایک امر تھا کہ کوئی لمحہ ضائع نہ ہو۔

اسی تاریخ (24؍جولائی) کو حضور دیر تک اسلامی عالم میں اتحاد عمومی پیدا کرنے کی ایک موثر تحریک کے قیام پر گفتگو فرماتے رہے۔

25؍جولائی کو گیارہ اور 12بجے کے درمیان جہاز جدہ اور مکہ شریف کے سامنے سے گزرنے والا تھا۔ حضور نے ارادہ فرمایا کہ خاص طور پر دعا کی جائے چنانچہ حضور نے دو رکعت نماز باجماعت پڑھائی جس میں بہت رقت انگیز دعائیں کیں۔

26؍جولائی کو حضور دن بھر مضمون لکھنے میں مصروف رہے۔

27-28؍جولائی کو حضور نے اپنے قلم سے جماعت کے نام دوسرا مکتوب لکھا۔ جو آپ کے اس اندرونی فکر و تشویش کا آئینہ دار تھا اور جو اس تصور سے آپ کو ہو رہی تھی کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یورپ اسلام کو تو قبول کرے مگر اسلامی تمدن اپنانے سے انکار کر دے۔ اگر خدانخواستہ ایسا ہوا تو اسلام کی بدلی ہوئی صورت پہلے یورپ میں پھر ساری دنیا میں قائم ہو جائے گی اور مسیحیت کی طرح اسلام بھی مسخ ہو جائے گا۔

حضور ؓنے اس خط میں اپنی جماعت کو اس زبردست خطرہ سے متنبہ کرتے ہوئے تحریر فرمایا:

’’ہمارا فرض ہے کہ اس مصیبت کے آنے سے پہلے اس کا علاج سوچیں اور یورپ کی تبلیغ کے لئے ہر قدم جو اٹھائیں اس کے متعلق پہلے غور کر لیں اور یہ نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہاں کے حالات کا عینی علم حاصل نہ ہو۔ پس اسی وجہ سے باوجود صحت کی کمزوری کے میں نے اس سفر کو اختیار کیا ہے۔ اگر میں زندہ رہا تو میں انشاء اللہ اس علم سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کروں گا۔ اگر میں اس جدوجہد میں مر گیا تو اے قوم میں ایک نذیر عریان کی طرح تجھے متنبہ کرتا ہوں کہ اس مصیبت کو کبھی نہ بھولنا۔ اسلام کی شکل کو کبھی نہ بدلنے دینا۔ جس خدا نے مسیح موعود کو بھیجا ہے وہ ضرور کوئی راستہ نجات کا نکال دے گا۔ پس کوشش نہ چھوڑنا۔ نہ چھوڑنا۔ نہ چھوڑنا۔ آہ نہ چھوڑنا۔ میں کس طرح تم کو یقین دلاؤں کہ اسلام کا ہر ایک حکم ناقابل تبدیل ہے خواہ چھوٹا ہو خواہ بڑا ۔ جو اس کو بدلتا ہے وہ اسلام کا دشمن ہے۔ وہ اسلام کی تباہی کی پہلی بنیاد رکھتا ہے۔ کاش وہ پیدا نہ ہوتا …۔ یورپ سب سے بڑا دشمن اسلام کا ہے۔ وہ مانے یا نہ مانے، تمہاری کوشش کا کوئی اثر ہو یا نہ ہو تم کو اسے نہیں چھوڑنا چاہئے۔ اگر تم دشمن پر فتح نہیں پا سکتے تو تمہارا یہ فرض ضرور ہے کہ اس کی نقل وحرکت کو دیکھتے رہو۔ اور پھر میں کہتا ہوں کہ یہ کس کو کس طرح معلوم ہوا کہ یورپ آخر اسلام کو قبول نہیں کرے گا۔ یورپ کے لئے اسلام کا قبول کرنا مقدر ہو چکا ہے۔ ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم دیکھیں کہ وہ ایسی صورت سے اسلام کو قبول کرے کہ اسلام ہی کو نہ بدل دے‘‘۔

جہاز 28؍جولائی کو پورٹ سعید کے ساحل سے لگا۔

پورٹ سعید سے قاہرہ۔ قاہرہ میں قیام

حضور ؓمع خدام پورٹ سعید سے اسی دن ایکسپریس گاڑی سے قاہرہ تشریف لے گئے اور شیخ محمود احمد صاحب عرفانی کے مکان پر فروکش ہوئے۔ قاہرہ میں حضور کا قیام صرف دو دن رہا۔ مگر آپ کی برکت و توجہ سے دو دنوں میں ہی قاہرہ کے اندر سلسلہ کی تائید میں ایک نئی روح پیدا ہو گئی۔

حضور ؓقیام مصر کی نسبت اپنے تاثرات و حالات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔

’’ہم قاہرہ میں صرف دو دن ٹھہرے …۔ میرے نزدیک مصر مسلمانوں کا بچہ ہے جسے یورپ نے اپنے گھر میں پالا ہے تاکہ اس کے ذریعہ سے بلاد اسلامیہ کے اخلاق کو خراب کرے۔ مگر میرا دل کہتا ہے اور جب سے میں نے قرآن کریم کو سمجھا ہے میں برابر اس کی بعض سورتوں سے استدلال کرتا ہوں اور اپنے شاگردوں کو کہتا چلا آیا ہوں کہ یورپین فوقیت کی تباہی مصر سے وابستہ ہے اور اب میں اسی بناء پر کہتا ہوں….۔ مصر جب خدا تعالیٰ کی تربیت میں آجائے گا تو وہ اسی طرح یورپین تہذیب کے مخرب اخلاق حصوں کو توڑنے میں کامیاب ہو گا جس طرح حضرت موسیٰ فرعون کی تباہی میں۔ بے شک اس وقت یہ بات عجیب معلوم ہوتی ہے مگر جو زندہ رہیں گے وہ دیکھیں گے میں نے قاہرہ پہنچتے ہی ….۔ اس بات کا اندازہ لگا کر کہ وقت کم ہے اور کام زیادہ۔ ساتھیوں کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا۔ ایک حصہ اخبارات و جرائد کے مدیروں کے ملنے میں مشغول ہوا اور دوسرا پاسپورٹوں اور ڈاک کے متعلق کام میں لگ گیا۔ تیسرا سفر کی بعض ضرورتوں کو مہیا کرنے میں ….۔ یہ علاقے تبلیغ کے لئے بہت روپیہ چاہتے ہیں مگر اسی طرح جب ان میں تبلیغ کامیاب ہو جائے تو اشاعت اسلام کے لئے ان سے مدد بھی کچھ مل سکتی ہے۔ میں لکھ چکا ہوں کہ میں نے بعض دوستوں کو اخبارات کے ایڈیٹروں کے پاس ملنے کے لئے بھیجا تھا ….۔ جن اخبار نویسوں سے ہمارے دوست ملے انہوں نے آئندہ ہر طرح مدد دینے کا وعدہ کیا۔ حتیٰ کہ وطنی اخباروں نے بھی …۔ علاوہ مذکورہ بالا لوگوں کے جن سے ملنے ہمارے لوگ خود جاتے رہے۔ بعض لوگ گھر پر بھی ملنے آتے رہے۔ چنانچہ جامع ازہر کے ماتحت جو خلافت کمیٹی بنی ہے….۔ اس انجمن کے پریذیڈنٹ اور سیکرٹری اور بعض اور دوسرے لوگ ملنے کے لئے آئے….۔ اس کے بعد مصر کے ایک مشہور صوفی سید ابوالعزائم صاحب ملنے کے لئے آئے۔ یہ صاحب بہت بڑے پیر ہیں کہا جاتا ہے کہ ایک لاکھ سے زیادہ ان کے مرید ہیں…۔ علاوہ ان لوگوں کے دو اَور معزز آدمی بھی ملنے کے لئے آئے۔ لیکن افسوس کہ بوجہ باہر ہونے کے مجھے ان سے ملنے کا موقعہ نہ ملا۔ ان میں سے ایک تو ترکی رئیس تھے ….۔ دوسرے صاحب ایک وکیل تھے ان کے گھر پر بھی میں نے اپنے بعض ساتھیوں کو بھیجا انہوں نے ….۔ مصریوں کی حالت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اس بات کی خواہش کی کہ مصر میں احمدیہ مشن کو مضبوط کیا جائے ….۔ چونکہ گرمی کا موسم ہے تمام عمائد اور علماء ملک کے ٹھنڈے علاقوں کی طرف چلے گئے ہیں اس لئے اور زیادہ لوگوں سے ملنے کا موقعہ نہیں مل سکتا تھا۔

مجھے جو مصر میں سب سے زیادہ خوشی ہوئی وہ وہاں کے احمدیوں کی ملاقات کے نتیجہ میں تھی۔ تین مصری احمدی مجھے ملے اور تینوں نہایت ہی مخلص تھے دو ازہر کے تعلیم یافتہ اور ایک علوم جدیدہ کی تعلیم کی تحصیل کرنے والے دوست۔ تینوں نہایت ہی مخلص اور جوشیلے تھے اور ان کے اخلاص اور جوش کی کیفیت کو دیکھ کر دل رقت سے بھر جاتا تھا۔ تینوں نے نہایت درد دل سے اس بات کی خواہش کی کہ مصر کے کام کو مضبوط کیا جائے‘‘۔

قاہرہ سے بیت المقدس تک

حضورؓ فرماتے ہیں:

’’دو دن کے قیام کے بعد ہم دمشق کی طرف روانہ ہوئے۔ مگر چونکہ راستہ میں بیت المقدس پڑتا تھا۔ مقامات انبیاء کے دیکھے بغیر آگے جانا مناسب نہ سمجھا اور دو دن کے لئے وہاں ٹھہر گئے ….۔ یہودی قوم کی قابل رحم حالت جو یہاں نظر آتی ہے۔ کہیں اَور نظر نہیں آتی۔ بیت المقدس کا سب سے بڑا معبد جسے پہلے مسیحیوں نے یہودیوں سے چھین لیا تھا اور بعد میں مسیحیوں سے چھین کر مسلمانوں نے اسے مسجد بنا دیا اس کی دیوار کے ساتھ کھڑے ہو کر ہفتہ میں دو دن برابر دو ہزار سال سے یہودی روتے چلے آتے ہیں جس دن ہم جگہ کو دیکھنے کے لئے گئے۔ وہ دن اتفاق سے ان کے رونے کا تھا۔ عورتوں اور مردوں اور بوڑھوں اور بچوں کا دیوار کے پیچھے کھڑے ہو کر بائبل کی دعائیں پڑھ پڑھ کر اظہار عجز کرنا ایک نہایت ہی افسردہ کن نظارہ تھا ….۔ بیت المقدس میں سے مندرجہ ذیل مقامات قابل ذکر ہیں۔ ابو الانبیاء حضرت ابراہیم،حضرت اسحاقؑ،حضرت یعقوبؑ،اور حضرت یوسفؑ کی قبور اور وہ مقام جس پر حضرت عمرؓ نے نماز پڑھی اور بعد میں اس کو مسجد بنا دیا گیا اور حضرت عیسیٰ کی پیدائش کے مقامات (بیت لحم وغیرہ۔ مولف) وہاں کے بڑے بڑے مسلمانوں سے میں ملا ہوں۔ میں نے دیکھا کہ وہ مطمئن ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہودیوں کے نکالنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ مگر میرے نزدیک ان کی رائے غلط ہے یہودی قوم اپنے آبائی ملک پر قبضہ کرنے پر تلی ہوئی ہے….۔ قرآن شریف کی پیشگوئیوں اور حضرت مسیح موعودؑ کے بعض الہامات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودی ضرور اس ملک میں آباد ہونے میں کامیاب ہو جائیں گے….۔ پس میرے نزدیک مسلمان رؤساء کا یہ اطمینان بالآخر ان کی تباہی کا موجب ہو گا …..۔ فلسطین کے گورنر ہائی کمشنر کہلاتے ہیں۔ اصل ہائی کمشنر آج کل ولایت گئے ہوئے ہیں ان کی جگہ سرگلبرٹ کلیٹن کام کر رہے ہیں۔ میں ان سے ملا تھا ایک گھنٹہ تک ان سے ملکی معاملات کے متعلق گفتگو ہوتی رہی ….۔ مسلمانوں کو عام طور پر شکایت تھی کہ تعلیمی معاملات میں ہمیں آزادی نہیں۔ میں نے اس امر کے متعلق ان سے گفتگو کی اور انہوں نے اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے کہ مسلمانوں کی یہ شکایت ایک حد تک بجا ہے مجھے بتایا کہ ایک دن پہلے ہی انہوں نے ایک تجویز وزارت برطانیہ کے غور کے لئے بھیجی ہے…..۔ سر کلیٹن صاحب کو پہلی ملاقات میں ہمارے سلسلہ سے بھی بہت دلچسپی ہو گئی اور گو ہم نے دوسرے دن روانہ ہونا تھامگر انہوں نے اصرار کیا کہ ڈیڑھ بجے ہم ان کے ساتھ کھانا کھائیں۔ چنانچہ ڈیڑھ گھنٹہ تک دوسرے دن بھی ان کے ساتھ گفتگو ہوتی رہی اور فلسطین کی حالت کے متعلق بہت سی معلومات مجھے ان سے حاصل ہوئیں۔

بیت المقدس سے دمشق تک

فلسطین سے چل کر ہم حیفا آئے جہاں سے کہ دمشق کے لئے گاڑی بدلتی ہے۔ رات حیفا میں ٹھہرنا پڑا۔ چونکہ دس بجے صبح سے پہلے کوئی گاڑی نہ جاتی تھی۔ صبح گاڑی لے کر میں سیر کے لئے گیا اور مجھے معلوم ہوا کہ بہائیوں کے لیڈر مسٹر شوقی آفندی عکہ کو چھوڑ کر حیفا میں آن بسے ہیں…۔ ہم ایک سڑک پر آرہے تھے۔ ہمیں معلوم ہوا کہ اس کے پاس چند قدم پر ہی مرزا عباس علی صاحب عرف عبدالبہاء کا مکان ہے ….۔ مولوی رحیم بخش صاحب(یعنی مولوی عبدالرحیم صاحب درد)۔ ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب اور میاں شریف احمد صاحب مکان دیکھنے کو چلے گئے۔ شوقی آفندی تو وہاں موجود نہ تھے۔ ان کے چھوٹے بھائی اور بعض دوسرے رشتہ دار (اور) بچے موجود تھے …..۔ نہ کوئی علماء کی جماعت تھی نہ انتظام تھا ……۔‘‘

(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد 4صفحہ 438تا 442)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button