متفرق مضامین

حفاظت قرآن کاعظیم الشان اورمحیّرالعقول معجزہ (قسط دوم۔ آخر)

(شہود آصف۔ استاذ جامعہ احمدیہ گھانا)

اُمّی نبی اور اُمّی قوم کے ذریعہ خدا تعالیٰ کا وعدہ لاثانی شان سے پورا ہوا

’’CORRECTIONS IN THE EARLY QURAN MANUSCRIPTS‘‘
’’نامی کتاب ‘‘ کا ناقدانہ جائزہ اورمتن ِقرآن میں اختلافات سے متعلق بعض اعتراضات کے جواب

اختلاف قراءت سےکیا مراد ہے؟

اس جگہ قراءت کی وضاحت کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ عربی زبان سے ناواقفیت کی وجہ سے مستشرقین اور معترضین کا یہ پسندیدہ موضوع ہے جس سے وہ قرآن میں اختلاف(نعوذ باللہ) ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ عام سادہ لوح مسلمان چونکہ قراءت کی باریکیوں سے آشنا نہیں ہوتے اس لیے وہ اس دھوکے میں آ جاتے ہیں کہ شاید قرآ ن میں بھی کوئی تحریف ہوئی ہے۔

صحیح بخاری کی مشہورروایت ہے کہ:

اِنَّ رَسُولَ اللّٰہﷺ قَالَ اَقْرَانِی جِبْرِیْلُ عَلی حَرْفٍ فَلَمْ اَزِلْ اَسْتَزِیْدُہ فَیَزِیْدُنِی حَتّٰی اِنْتَہٰی عَلَی سَبْعَةِ اَحْرُف

(بخاری کتاب بدء الخلق باب ذکر الملائکة)

ترجمہ:رسول اللہﷺ فرماتے ہیں کہ جبرائیل نے مجھے ایک حرف پر قرآن پڑھایا۔ مگر میں نے اس سے مزید وسعت مانگی اور وہ بڑھاتا رہا۔ یہاں تک کہ بات سات حروف پر ختم ہوئی۔

اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کی ایک سے زائد قراءت رسول اللہﷺ یا کسی صحابی نے خود نہیں بنائی بلکہ اللہ تعالیٰ نے جبرائیل کے ذریعہ ایک سے زائد قراءت میں رسول اللہﷺ کو قرآن سکھایا۔

اس کی مزید وضاحت ایک واقعہ سے ہوتی ہے۔ حضرت عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک صحابی(حضرت ہشام ؓبن حکیم بن حزام) کو سنا جونماز میں سورة الفرقان پڑھ رہے تھے اور ایسی طرز پر پڑھ رہے تھے جو رسول اللہﷺ نے مجھے نہیں سکھائی۔ میں انتظار کرتا رہا یہاں تک کہ انہوں نے نماز ختم کی تو میں نے ان کو پکڑ لیا اور پوچھا کہ آپ کو یہ سورت اس طرح کس نے سکھائی ہے ؟ انہوں نے کہا کہ میں نے یہ سورت اسی طرح رسول اللہﷺ سے سیکھی ہے۔ اس پر میں اُن کے ساتھ رسول اللہﷺ کے پاس حاضر ہوا اور سارا معاملہ سنایا۔ آپ نےوہ آیات پہلے ہشام سے سنیں اور پھر مجھے سنانے کا کہا۔ میں نے بھی وہ آیات اس طرح پڑھیں جیسے میں نے ان کو رسول اللہﷺ سے سیکھا تھا۔ اس پر رسول اللہﷺ نے فرمایایہ اس طرح بھی نازل ہوئی ہیں۔ قرآن سات احرف میں نازل ہوا ہے۔ پس جیسے آسانی سے سمجھو پڑھ لیا کرو۔

(صحیح بخاری کتاب فضائل القرآن)

رسول اللہﷺ کے زمانے میں عرب میں کوئی مرکزی حکومت نہیں تھی۔ لوگ قبائل کی صورت میں الگ الگ رہا کرتے تھے اور ان قبائل کی زبان عربی ہونے کے باوجود اپنے اندر کئی اختلاف رکھتی تھی۔ کئی ایسے حروف تھے جن میں اعراب کا اختلاف تھا۔ مختلف اعراب سے پڑھنے کے باوجود ان کا معنی ایک ہی تھا۔ بہت سے الفاظ ایسے تھے جو بولنے میں ایک طرح تھے مگر ان کو تحریر کرنے کا طریق مختلف قبائل میں بالکل دوسرے سے الگ تھا۔ کئی الفاظ ایک طرح لکھے جاتے تھے مگر مختلف قبائل میں ان کا معنی مختلف تھا۔ یہاں تک کہ کئی الفاظ کا مطلب مختلف قبائل میں ایک دوسرےسے مکمل متضاد تھا۔ اس کی کچھ مثالیں میں آپ کے سامنے رکھوں گا۔

٭…اعراب کا اختلاف مگر معانی ایک:

عرب قبائل الفاظ کو مختلف اعراب کے ساتھ پڑھتے تھے۔ سننے والے کو اعراب مختلف معلوم ہوتے تھے مگر ان کا معانی ایک ہی ہوتا تھا۔ جیسے قریش اور اسد وغیرہ مضارع کی علامت کو فتح کے ساتھ ’’یَفْعَلُ‘‘ پڑھا کرتے تھے جبکہ کئی قبائل اس کو کسرہ کے ساتھ ’’یِفْعَلُ‘‘پڑھا کرتے تھے۔

٭…حروف کافرق مگر معانی ایک:

عربی زبان کے متعدد ایسے الفاظ ہیں جن کا معنی ایک ہی ہے لیکن بولنے اور لکھنے کے وقت وہ لفظ مختلف معلوم ہوتا تھا۔ مثلاً یمن کے لوگ ’’س‘‘ کو ’’ت‘‘ پڑھا کرتے تھے۔ لفظ’’الناس‘‘ کو لوگ ’’النات‘‘ پڑھا کرتے تھے۔ قبیلہ ہذہل ’’ح‘‘ کو ’’ع‘‘ سے بدل دیتے تھے۔ جیسے’’حتّی‘‘ کو ’’عتّی‘‘ پڑھا جائے۔ اس کی بہت سی مثالیں ہیں۔

(تاریخ القرآن از عبد الصمد الصارم الازھری، صفحہ81-82 بحوالہ الذکر المحفوظ )

٭…ایک طرح کے حروف مگر متضادیا مختلف معانی:

اسی طرح متعدد ایسے حروف تھے جو لکھنے میں ایک ہی طرح تھے مگر مختلف علاقوں میں ان کے معانی مختلف تھے۔ جیسے لفظ ’’ذو‘‘ کا شمالی عرب میں مطلب ’’والا‘‘اور جنوبی عرب میں مطلب ’’بادشاہ‘‘ تھا۔ ’’بیت‘‘کا شمالی عرب میں مطلب’’گھر‘‘ اور جنوبی عرب میں مطلب ’’قلعہ‘‘ تھا۔

(ارض القرآن از سید سلیمان ندوی جلد 2صفحہ354دارالاشاعت کراچی بحوالہ الذکر المحفوظ)

قرآن کریم کے معانی اور مفہوم کی حفاظت کے لیے اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کو یہ اجازت دی کہ عرب کے مختلف قبائل قرآن کو آغازمیں اپنے لہجے اور عربی زبان میں اس طرح پڑھ لیں جس سے ان کو سمجھ آئے اور قرآن کےمعانی میں کوئی فرق نہ آئے۔ یاد رہے کہ یہ اجازت ایسے وقت میں دی گئی جب عرب ایک مضبوط مرکز ی حکومت یعنی مرکزی زبان نہ ہونے کی وجہ سے بسا اوقات دوسروں کی بات سمجھ نہ پاتے تھے۔ نزول قرآن کے ساتھ اس کا اصل مطلب سکھانے کے لیے یہ اجازت اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی۔ ابتدائے اسلام اور خلافت راشدہ میں یہ بات لوگوں میں عام طور مسلم تھی کہ اگر لوگو ں کے لہجوں اور پڑھنے کے انداز میں اختلاف ہے تو یہ اپنے انداز میں ان کے اپنے سمجھنے کے لیے ہے جیسا کہ رسول اللہﷺ نے حضرت عمر کو سمجھایا، نہ کہ قرآن میں کسی قسم کا اختلاف ہے۔ حضرت عمرؓ اور بعد ازاں حضرت عثمانؓ کے دَور خلافت میں جب کثرت سے عجمی لوگوں نے اسلام قبول کیا تو نَو مسلموںکواس غلطی سے بچانے کے لیے حضرت عثمانؓ نے اُس قراءت میں قرآن کی اشاعت اور ترویج کا حکم دیا جو رسول اللہﷺ کی زبان تھی یعنی جس میں اولین طور پر قرآن نازل ہوا۔ حضرت عثمان ؓکے دَور میں مرکزی حکومت کے قیام کے بعد لوگوں میں مرکزی زبان کو سمجھنا آسان ہو گیا تھا۔

حضرت عثمان ؓ کے اس حکم کے بعد یہ مسلّم ہوگیا کہ قرآن تحریری طور پر قریش کی قراءت میں ہی لکھا اور پڑھا جائے گا۔ دیگر قراءتیں علمی طور پر موجود رہیں۔ مسلمان علماء نے علم قراءت پر کئی کتب لکھیں اور بہت سےنئے مطالب کو اخذ کیا۔ آہستہ آہستہ تمام عالم اسلام میں ایک ہی قراءت مستحکم طور پر علمی اور تحریر ی صورت میں قائم ہو گئی۔

اس بات کے اثبات کے لیے یہ کافی دلیل ہےکہ حضرت عثمان ؓکے قریش کی قراءت میں قرآن جمع کرنے پر کسی صحابی، مسلمان یا اس زمانے کے مخالف نے کبھی کوئی اعتراض نہیں کیا کہ دیکھو عثمان نے قرآن کو بدل دیا ہے۔ اصل الفاظ اور تھے جبکہ اس شائع شدہ نسخے میں اور الفاظ لکھے گئے ہیں۔ اس زمانے میں سب کے نزدیک یہ بات مسلّم تھی کہ اختلاف قراءت صرف پڑھنے کی حد تک ہے ورنہ اصل قرآنی الفاظ میں رتّی برابر بھی اختلاف نہیں ہے۔ حضرت عثمان ؓپر کئی اعتراضات کیے گئے اور عزل خلافت تک کا مطالبہ کیا گیا مگر قرآن کے حوالے سے ان پر کبھی تحریف کا الزام نہیں لگایا گیا۔

قرآن کریم کی حفص قراءت اور ورش قراءت کا تعارف

اس جگہ پر قرآن کریم کی دو مشہور قراءتوں کا تعارف قارئین کی دلچسپی میں اضافہ کرے گا۔ بعض مخالفین اس امر پر زور دیتے نظر آتے ہیں کہ یہ دومختلف ورژن کےقرآن ہیں جو کہ بالبداہت غلط ہے۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کو قرآن سات مختلف قراءتوں (پڑھنے کے انداز)میں پڑھنے کی اجازت دی۔ ان قراءتوں میں پڑھنے کے انداز میں (یعنی لوگوں کے لحن اور لہجہ )میں معمولی فرق ہے۔ اسی اعتبار سے چند جگہ معمولی اعرابی تبدیلیاں(جن کی رسول اللہﷺ نے خود اللہ کے حکم سے اجازت دی ہوئی تھی) بھی ہیں۔ لیکن اس سے قرآن کے اصل متن اور معانی میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ بلکہ یہ قراءتیں قرآن کے معانی اور معارف میں مزید خوبصورتی کا اضافہ کرتی نظر آتی ہیں۔ ان قراءتوں کی کل تعداد سات(بعض روایات کے مطابق10)ہے۔ قرون اولیٰ میں قرآن کا اصل عالم اُسے تسلیم کیا جاتا تھا جس کو ان تمام قراءتوں پر عبور حاصل ہو۔

قرآن کریم کی دو مشہور قراءتیں حفص اور ورش ہیں۔ حفص اور ورش دو مختلف لوگوں کے نام ہیں۔ قرون اولیٰ میں چونکہ کتب کی فراوانی نہیں ہوتی تھی اس لیے ہر بڑے اورمعروف شہر میں علماء اور اساتذہ اپنے شاگردوں اور عام لوگوں کےلیےقرآن کی زبانی تعلیم و تدریس کیا کرتے تھے۔ اِن اساتذہ نےقرآن کو متواتر (متواتر روایت سے مراد ہے کہ اُس کو بیان کرنے والےہر کڑی میں بہت سے لوگ ہیں)اور مرفوع روایت کے ساتھ قرآن سیکھا اور لوگوں کو سکھایا۔ بعد میں آنے والے زمانے میں ان کا سکھایا ہوا قرآن’’ان کے نام کی قراءت ‘‘کے لفظ سے موسوم ہوگیا۔ یعنی یہ فلاں عالم کی قراءت ہے اور یہ فلاں عالم کی قراءت ہے۔ چونکہ قرآن کا متن ابتدا سے ہی حفظ اور تحریر کے ذریعہ محفوظ تھا اس لیے اِن علماء کی روایات میں کسی قسم کا اختلاف نہیں تھا۔

حفص اور ورش قراءتوں کا تعارف کچھ اس طرح ہے۔

٭…نسخہ حفص/حفص قراءت:

قرآن کی حفص قراءت حفص بن سلیمان بن المغیرہ الاسدی الکوفی کے نام سے موسوم ہے۔ حفص بن سلیمان نے اپنے استاد عاصم ابن ابی النجود (المتوفی127ھ)سے سنا۔ عاصم نے ابو عبد الرحمان عبداللہ بن الحبیب السلمی اور زِھر ابن ہباش سے سنا۔ ابو عبد الرحمان نےعثمان بن عفانؓ اور علی ابن طالبؓ اورزید بن ثابتؓ اور ابی ابن کعب ؓ سے سنا۔ (زِھر نے عبداللہ بن مسعودؓ سے بھی سنا)۔ عثمان بن عفانؓ اور علی ابن طالبؓ اورزید بن ثابتؓ، عبداللہ بن مسعودؓ اور اُبی ابن کعب ؓ نے رسول اللہﷺ سے سنا۔ حفص بن سلیمان کوفہ کے رہنے والے تھے۔ حضرت عثمانؓ کے زمانے میں قرآن کے جو نسخے دیگر صوبوں کو بھجوائے گئے وہ حفص قراءت کے مطابق تھے۔ اس وقت عالم اسلام میں موجود تمام قرآن اسی قراءت کے مطابق ہیں۔

٭…نسخہ ورش/ ورش قراءت:

قرآن کی ورش قراءت امام ورش کے نام سے موسوم ہے جو انہوں نے اپنے استاد نافع المدنی(المتوفی169ھ) سے بیان کی ہے۔ نافع المدنی نے ابو جعفر یزیدابن القعقاع اور عبد الرحمان ابن ہرمز الاعرج اور یزید بن ابن رمان سے سنا۔ ان سب نے عبداللہ ابن عباسؓ،ابو ہریرہ ؓ اور عبد اللہ بن عیاش سے سنا۔ ان تما م صحابۂ نے ابی بن کعب ؓسے سنا۔ ابی بن کعب نے رسول اللہﷺ سےسنا۔ یہ قراءت زیادہ تر شمالی افریقہ میں مشہور ہوئی۔ پس واضح رہے کہ ان دونوں سلسلوں کے آخری مراجع ابتدائی بزرگ صحابہ رسول ؐتھے۔

قرآن کے بعض ابتدائی صحیفوں میں لفظی فرق

عام لوگوں کو اشتباہ میں ڈالنے کے لیے ایک اور دانستہ کوشش مستشرقین اور مخالفین کرتے ہیں جو قرآن کے بعض ابتدائی نسخوں میں بعض حروف کے اضافہ سے متعلق ہے۔ مخالفین ایسی روایات پیش کرتے ہیں جن میں بعض صحابہ نے اپنے ذاتی نسخوں میں آیات میں بعض جگہ کچھ زائد الفاظ لکھے ہیں۔ اس کی ایک مثال میں پیش کرتا ہوں۔

ترمذی کی ایک معروف حدیث ہے جس میں ملتا ہے کہ حضرت عائشہ ؓکے ایک غلام ابو یونس،جو اُن کے لیے قرآن لکھا کرتے تھے،نے حضرت عائشہ کے کہنے پر

’’حٰفِظُوۡا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلٰوۃِ الۡوُسۡطٰی‘‘(البقرة:239)

کے ساتھ ’’وصلوة العصر‘‘کے الفاظ زیادہ لکھے۔ اب یہ الفاظ قرآن کے اصل متن کا حصہ نہیں ہیں۔ تمام ابتدائی حفاظ نے بھی کبھی ان الفاظ کو ساتھ بیان نہیں کیا۔ اس کا مطلب ہوا کہ حضرت عائشہؓ نے یہ الفاظ بطور تفسیر سمجھانے کےلیے اصل متن کے ساتھ درج کیے تھے۔ اس کی تائید ایک اور حدیث سے بھی ہو جاتی ہے جس میں رسول اللہﷺ نے صلوة الوسطیسے صلوة العصر مراد لیا۔ پس معلوم ہوا کہ بعض اوقات صحابہ اپنے پاس موجود نسخہ قرآن میں قرآن کی تفسیر سےمتعلق بعض الفاظ اپنی طرف سے زائد لکھ لیا کرتے تھے۔ مگر یہ قرآن کے متن کا حصہ نہیں تھے اور نہ ہی حفظ کا حصہ بنے۔ ان زائد الفاظ کو قراءت شاذہ اور قراءت مفسّرہ کہا جاتا ہے۔ پس یہ قراء تیں بھی قرآن کریم میں نئے نئے معانی اور مطالب میں اضافہ کرنے والی ہیں نہ کہ اختلاف دکھانے والی۔

تمام صحابہ کے نزدیک یہ بات مسلّم تھی کہ یہ اصل متن کا حصہ نہیں ہیں اور تفسیر ہے۔ چونکہ ان کی اپنی زبان بھی عربی تھی اس لیے ان کےتفسیر ی زائد الفاظ بھی قرآن کے عربی متن کی طرح تھے۔ اس وجہ سے آج کے مخالفین کو لگتا ہے کہ شاید صحابہ کے پاس مختلف قرآن تھے جن کے الفاظ ایک دوسرے سے مختلف تھے مگریہ بات حقیقت سے متضاد ہے۔ ایک اور دلیل اس امر کی یہ ہے کہ حضرت عائشہ ؓکی موجودگی میں حضرت ابو بکرؓ نے قرآن کا صحیفہ بنوایا، حضرت عثمان ؓنے نو (9)نسخے بنوا کر شائع کروائے۔ حضرت عائشہ ؓنے کبھی حضرت ابو بکرؓ یا عثمانؓ سے یہ نہیں کہا کہ دیکھو آپ کے قرآن میں یہ الفاظ کم ہیں جبکہ یہ اصل متن کا حصہ تھے۔ حضرت عائشہ ؓکی وفات 58ھ کی ہے۔ یعنی حضرت عثمانؓ سے 23برس بعد فوت ہوئیں۔

پس آج کے مخالفین کا یہ کہنا کہ حضرت عثمانؓ کے زمانے میں صحابہ کے پاس مختلف قرآن تھے،نہایت بودی بات ہے۔ یہ بات ملحوظ رہے کہ عرب کے معاشرے میں زیادہ لوگ لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے۔ رسول اللہﷺ نے بھی قرآن لکھنے کی ڈیوٹی تمام صحابہ کی نہیں لگائی تھی بلکہ آپؐ نے کچھ لوگوں کو بطور خاص لکھنے پر مقرر کیا۔ باقی عام مسلمان اپنے شوق اور محبت سے اپنے ذاتی استعمال کے لیے قرآن کی کچھ آیات اپنے پاس لکھ کر رکھا کرتے تھے۔ اس لیے کسی ایک شخص کے ذاتی نسخہ کو ہم اس امر میں بطور دلیل قبول نہیں کر سکتے کہ وہ ثقہ ہے اور دیگر تمام نسخے محرّف و مبدّل ہیں۔

متن ِقرآن پر نقطے اور اعراب

غیر مسلم محققین کی الجھن کا ایک اَور سبب قرآن کریم کے ابتدائی نسخوں کا بغیر نقطے اور اعراب کے ہونا ہے۔ رسول اللہﷺ کے زمانے میں عربی زبان میں اعراب اور نقطے پڑھے تو جاتے تھے مگر تحریر میں نہیں آتے تھے۔ قرآن کریم بھی آغاز میں اسی طرح لکھاگیا۔ کسی بھی عرب کے لیے یہ قرآن پڑھنا معمول کی بات تھی لیکن کسی غیر عرب کےلیے ایسی عربی تحریر پڑھناناممکن تھا۔ جب اسلام جزیرہ نما عرب سے نکل کر دیگر ممالک تک پھیلا تو کثرت سے عجمی لوگوں نے اسلام قبول کیا۔ ان نَو مبائع غیر عرب مسلمانوں کو ابتدا میں بغیر اعراب و نقطے قرآن کی تلاوت میں مشکل پیش آیا کرتی تھی۔ عربی سے ناواقفیت کی وجہ سے ایک دوسرے پر اعتراض کا موقع بھی پیش آ جاتا تھا۔

اس مشکل کو رفع کرنے کے لیے قرآن کریم پر اعراب لگانے کا آغاز کرنے کی سعادت حضرت علیؓ کو ملی۔ جنہوں نے ایک مرتبہ کسی شخص کوغلط اعراب سےتلاوت کرتے سنا تو اپنےایک گورنر ابو اسود الدؤلی کو نحو کے قواعد مرتب کرنے کی ہدایت کی۔ ابو اسود نے امیر معاویہ کے دَور میں ایک رسالہ قواعد النحو مکمل کیا اورقرآن پر اعراب لگائے مگر یہ اعراب آج کے اعراب کی طرح نہیں تھے بلکہ نقطوں کی شکل میں تھے۔ ابتدا میں قرآن خط ِکوفی میں لکھا جاتا تھا جس میں نقطے نہیں ہوتے تھے۔ ’’ر‘‘ اور’’ ز‘‘ جیسے الفاظ میں فرق کرنے کے لیے عرب کتابت میں معمولی سا فرق کیا کرتے تھے جسے کوئی بھی عرب شخص بآسانی پڑھ لیتا تھا۔

64ھ میں حجاج بن یوسف نے دو افراد نصر بن عاصم اور یحیٰ بن عمر کو مقرر کیا جنہوں نے حروف کے نقطے ایجاد کیے۔ اس وقت اعراب کی علامات اور حروف کے نقطے الگ الگ رنگ کی روشنائی سے لکھتے تاکہ آپس میں مل جل نہ جائیں۔ پھر خلیل بن احمد الفراہیدی نے اعراب کی موجودہ علامات مثلاً ضمّہ(بُ)،کسرہ(بِ)، فتحہ(بَ)، شدّ(بّ) وغیرہ ایجاد کیں۔ اس کے بعد قرآن پرانہیں حرکات سے اعراب لگائے جانے کا رواج شروع ہوا۔ چند صدیاں گزرنے کے بعد خط کوفی کی جگہ خط نسخ اور پھر خط نستعلیق نے لے لی اور یوں قرآن کی تحریر پڑھنے میں مزید آسانی پیدا ہو گئی۔

نقطوں کی صورت میں ابتدائی اعراب

قرآن کریم کی معنوی حفاظت

قرآن کریم کی لفظی حفاظت کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے موافق قرآن کی معنوی حفاظت بھی فرمائی۔ عمر بھررسول اللہﷺ نےقرآن کی تعلیم دی اور قرآن کے ہر حکم پر خود عمل کر کے عملی تصویر امت کے سامنے پیش کی۔ نماز کے حکم پر نماز پڑھ کر اپنے نمونے سے سکھایا۔ روزے کے حکم پر روزے رکھ کر تعلیم دی۔ قیام لیل، امور معاشرت، اہل خانہ کے حقوق، حکومت کے طریق،دفاع کے احکام،غرض یہ کہ ہر قرآنی حکم کی عملی تصویر بن کر سنت کے ذریعہ قرآن کو امّت میں جاری کروایا۔

رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایک اور ذریعہ قرآن کی حفاظت کا یہ جاری فرمایا کہ تمام اسلامی علوم کی بنیا دقرآن پر رکھی گئی۔ تمام اسلامی علوم کے لیے قرآن کی آیات کو بطور دلیل استعمال کیا جاتااور تقریباً تمام قرآن ہی اس طرح دیگر علوم کی کتب میں جمع ہو گیا۔ عصر حاضر میں قرآن کریم کے مشہور و معروف الہامی مفسّرجماعت احمدیہ کے دوسرے خلیفہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ؓ اس ضمن میں فرماتے ہیں:

’’ایک ذریعہ قرآن مجید کی حفاظت کا یہ تھا کہ اسلامی علوم کی بنیاد قرآن مجید پر قائم ہوئی۔ اس ذریعہ سے اس کی ہرحرکت و سکون محفوظ ہوگئے۔ مثلاً نحو پیداہوئی توقرآن مجید کی خدمت کے لئے۔ چنانچہ نحو کے پیداہونے کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ابوالاسودالدؤلی حضرت علی ؓکے پاس آئے کہ ایک نیا مسلمان

’’اِنَّ اللّٰہَ بَرِیْئٌ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ وَرَسُوْلَہ‘‘

کی بجائے وَرَسُوْلِہ پڑھ رہاتھا۔ جس سے ڈرہے کہ نو مسلموںکو قرآن مجید کے مطالب سمجھنے میں مشکل پیش آئے۔ حضرت علیؓ اس وقت گھوڑے پر سوار جارہے تھے۔ اسی حالت میں آپ انہیں بعض قواعد نحو بتاتے چلے گئے اورفرمایاکہ اسی قسم کے قواعد کو ضبط میں لے آؤ۔ اس سے ان نومسلموں کوصحیح تلاوت کی توفیق ملے گی اورکچھ قواعد بناکر فرمایااُنْح نَحْوَہٗ یعنی اسی رنگ میں اورقواعد تیار کرلواس فقرہ کی وجہ سے عربی گرائمر کانام نحو پڑ گیا۔ پھر مسلمانوں نے تاریخ ایجاد کی۔ توقرآن مجید کی خدمت کی غرض سے۔ کیونکہ قرآن مجید میں مختلف اقوام کے حالات آئے تھے۔ ان کو جمع کرنے لگے تو باقی دنیا کے حالات ساتھ ہی جمع کردیئے۔ پھر علم حدیث شروع ہوا۔ توقرآن مجید کی خدمت کے لئے۔ تامعلوم ہوسکے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کے کیامعنے کئے ہیں۔

پھر اہل فلسفہ کے قرآن مجید پر اعتراضات کے دفعیہ کے لئے مسلمانوں نے فلسفہ وغیرہ علوم کی تجدید کی اورعلم منطق کے لئے نئی مگر زیادہ محقق راہ نکالی۔ پھر طب کی بنیاد بھی قرآن مجید کے توجہ دلانے پر ہی قائم ہوئی۔ نحو میں مثالیں دیتےتھےتو قرآن مجید کی آیات کی۔ ادب میں بہترین مجموعہ قرآن مجید کی آیات کو قراردیاگیاتھا۔ غرض ہر علم میں آیاتِ قرآنی کو بطور حوالہ نقل کیاجاتاتھااورمیں سمجھتاہوں کہ اگر ان سب کتابوں سے آیات کوجمع کیاجائے تو ان سے بھی ساراقرآن جمع ہوجائے گا۔

(تفسیر کبیر جلد 4صفحہ19)

اللہ تعالیٰ نے قرآن کی معنوی حفاظت کا ایک اور ذریعہ یہ پیدا فرمایا کہ وعدہ کے مطابق ہر صدی میں ایسے مجددین اورملہمین پیدا کیے

(اِنَّ اللّٰہَ یَبْعَثُ لِھَذِہِ الْاُمَّةِ عَلَی رَأسِ کُلِّ مِأةِ سَنَةٍ مَنْ یُجَدِّدُ لَہَا دِیْنَھَا…ابو داؤد )

جنہوں نےقرآن کی معنوی حفاظت کی اور امّت کو درست راستے پر رکھا۔ اسی سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے موجودہ زمانے میں سیّدناحضرت مسیح موعودؑ کو مبعوث فرمایا جنہوں نے ایسے زور اور شدّت سے قرآن کی تائید فرمائی اور صداقت ثابت کی کہ تمام شکوک و شبہات اور وساوس ردّ ہو گئے۔ امام الزمان حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتےہیں:

’’سو خدا تعالیٰ نے بموجب اس وعدہ کے چار قسم کی حفاظت اپنی کلام کی کی۔ اوّل حافظوں کے ذریعہ سے اُس کے الفاظ اور ترتیب کو محفوظ رکھا اور ہر ایک صدی میں لاکھوں ایسے انسان پیدا کئے جو اُس کی پاک کلام کو اپنے سینوں میں حفظ رکھتے ہیں۔ ایسا حفظ کہ اگر ایک لفظ پوچھا جائے تو اس کا اگلا پچھلا سب بتا سکتے ہیں۔ اور اس طرح پر قرآن کو تحریف لفظی سے ہر ایک زمانہ میں بچایا۔ دوسرے ایسے ائمہ اور اکابر کے ذریعہ سے جن کو ہر ایک صدی میں فہم قرآن عطا ہوا ہے جنہوں نے قرآن شریف کے اجمالی مقامات کی احادیثِ نبویہ کی مدد سے تفسیر کرکے خدا کی پاک کلام اور پاک تعلیم کو ہر ایک زمانہ میں تحریف معنوی سے محفوظ رکھا۔ تیسرے متکلّمین کے ذریعہ سے جنہوں نے قرآنی تعلیمات کو عقل کے ساتھ تطبیق دے کر خدا کی پاک کلام کو کوتہ اندیش فلسفیوں کے استخفاف سے بچایا ہے۔ چوتھے رُوحانی انعام پانے والوں کے ذریعہ سے جنہوں نے خدا کی پاک کلام کو ہر ایک زمانہ میں معجزات اور معارف کے منکروں کے حملہ سے بچایا ہے۔ ‘‘

(ایام الصلح،روحانی خزائن جلد14صفحہ288)

Dr. Daniel Brubakerکی طرف سے اٹھائے جانے والے اعتراضات اور ان کا تجزیہ

اب ہم ان شواہد کی طرف آتے ہیں جوDr. Daniel Brubaker نے اپنی کتاب میں درج کیے۔ اس جگہ میں Dr. Daniel Brubakerکا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے قرآن کریم پر اتنی گہری اور طویل تحقیق کی۔ 10ہزار نسخے دیکھے اور یہ بتا یاکہ ان میں باہم کسی قسم کا کوئی اختلاف، تحریف یا تبدیلی نہیں ہے۔ اگر ہوتا تو ضرور بیان کرتے کہ دیکھیں فلاں نسخے میں یہ آیت زیادہ ہے اور یہ کم ہے۔ پس Dr. Daniel Brubakerنے ہمارےاس ایمان کو مزید پختہ کیا کہ قرآن میں کسی قسم کا کوئی اختلاف اور تحریف نہیں ہے۔

Dr. Daniel Brubakerنے اپنی دانست میں قرآن میں 7طرح کی دانستہ درستگیوں یا تبدیلیوں کی نشان دہی کی ہے۔ مصنف نے اپنی کتاب میں مختلف نسخوں کی تصاویر دے کر ان تبدیلیوں کو دکھانے کی کوشش کی ہے کہ فلاں جگہ پر یہ تحریف ہوئی ہے۔ اب ہم ان کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں۔ مصنف کے بقول قرآن میں دانستہ تبدیلیوں کی تفصیل کچھ یوں ہے۔

٭…قرآن کےمتن میں کچھ الفاظ کا اضافہ کیا گیا۔ بعد میں لکھےجانے والے لفظ کی روشنائی پہلے والے سے مختلف ہے۔ پس ثابت ہوا کہ کچھ الفاظ بڑھائے گئے ہیں۔

٭…بعض نسخوں کے متن میں چند لکھے ہوئے الفاظ کو دانستہ طور پر مٹایا گیا ہے۔

٭…بعض نسخوں میں متن کے پہلےالفاظ کو مٹا کر ان کے اوپر مختلف الفاظ لکھے گئے ہیں۔ نیچے والے الفاظ کی سیاہی اور اوپر نئے لکھے جانےوالے الفاظ کی سیاہی میں فرق ہے۔

٭…بعض نسخوں میں متن کے پہلےالفاظ کو مکمل مٹائے بغیر ہی اُن کے اوپر نئے الفاظ لکھے گئے ہیں۔

٭…کچھ نسخوں میں آیت کے کچھ حصہ کو دانستہ طور پر چھپا دیا گیا ہے۔

٭…بعض نسخوں میں آیت کے کچھ حصہ کو دانستہ طور پر چھپا کر اس مذکورہ حصہ پر مزید آیت لکھی گئی ہے۔

٭…بعض صفحات پر اس اندازسے tapeلگائی گئی ہے جیسے کچھ چھپانا مقصود ہو۔

ذیل میں خاکسارمصنف کی پیش کردہ آیات اور ان کے بقول ہونے والی دانستہ تبدیلوں کاتجزیہ کرتا ہے۔

  1. مصنف نے 10ہزار کے قریب قلمی نسخہ ہائے قرآن دیکھے۔ ان کو تحریر کے اندر ہونے والے معمولی تغیّر تو نظر آئے مگر کوئی ایک جگہ ایسی نہیں ملی، جہاں کوئی آیت یا کوئی ایک لفظ بھی دوسرے نسخوں سے مختلف ہوتا۔ (اگرہوتا تو ضرور بیان کرتے)کہ فلاں نسخہ میں ’’ھو ‘‘ کے لفظ کا اضافہ ہے جو باقی نو ہزار سے زائد نسخوں میں نہیں ہے۔ ہم ضرور اس اختلاف کو تسلیم کریں اگر یہ لفظ کسی اور جگہ نہ ہو یا کسی اور نسخہ میں’’ھو‘‘کی جگہ کوئی اور لفظ لکھا ہو۔
  2. مصنف کو چاہیے کہ 10ہزار نسخو ں کے باہمی موازنے کو بھی بیان کریں کہ جو الفاظ کسی ایک نسخہ میں کم یا زیادہ ہیں یا کسی جگہ مٹے ہوئے ہیں۔ دوسرے نسخوں میں بھی وہ قرآن کے اصل متن کے مطابق ہیں یا نہیں۔
  3. جو نسخے مصنف نےدیکھے وہ مختلف ممالک (مصر، ترکی،تاشقند،لندن،روس)میں موجود ہیں اور ساتویں سے دسویں صدی کے درمیان لکھے گئے ہیں۔ اب جو نسخہ ساتویں صدی میں ترکی میں لکھا گیا اگر اس میں ایک لفظ عمداً زیادہ کیا گیا یا کوئی آیت عمداً کم کی گئی،یہ کیسے ممکن ہے کہ مصر یا کوفہ میں لکھے جانے والے قرآن کے نسخے میں بھی وہی لفظ عمداً زیادہ کیا گیا تھا اور وہی آیت کم کی گئی تھی؟
  4. کیا ساتویں صدی میں ذرائع آمد ورفت و روابط ایسے تھے کہ ہاتھ سے لکھے جانے والے قرآن میں ایک دانستہ اضافہ یا ایک دانستہ کمی دس ہزار جگہوں پر بیک وقت کیا جا سکے۔ کیا عقل اس بات کو مانتی ہے؟
  5. قرآن کریم کے نزول سے اس کو حفظ کرنے کی سنت جاری ہے۔ ساتویں صدی میں بلا مبالغہ ہزاروں لاکھوں حفاظ ہوں گے۔ کیا آپ کسی ایک حافظ کی گواہی اپنی پیش کردہ آیات کے بارے میں دے سکتے ہیں کہ ساتویں سے دسویں صدی کے درمیان فلاں حافظ نے کہا کہ فلاں نسخہ میں فلاں لفظ یا آیت کا اضافہ ہے۔ مَیں قرآن کا حافظ ہوں۔ میرے علم کے مطابق یہ تحریف ہے۔
  6. نزول قرآن کے وقت سے کئی صدیوں تک دنیا میں ہاتھ سے لکھنے کا رواج عام تھا۔ تمام کتب اور صحائف قلم سے لکھے جاتے تھے۔ ہاتھ سے لکھے جانے والے نسخوں میں اگر کوئی غلطی ہو جائے تو اِسی طریق پر غلطی درست کیا کرتے تھے کہ لفظ کو کاٹ کر یا مٹا کر اس کی جگہ درست لفظ لکھ دیا جاتا تھا۔ آج کے دَور کی طرح پرنٹنگ پریس اور کمپیوٹر کی سہولت میسر نہیں تھی کہ مسوّدہ میں کسی غلطی کودوبارہ درست طور پر لکھ لیا جائے اور پھر پرنٹ کر لیا جائے۔ پس کتابت کی غلطی اور بعد ازاں کی جانے والی درستی کو کون تحریف کہتا ہے۔ جبکہ اِس درستی کے اور بھی قلمی نسخے گواہ ہوں۔
  7. اگر ہم بطور تنزّل یہ تسلیم کر لیں کہ قرآن کے متن میں الفاظ کا اضافہ یا کوئی کمی ہوئی ہے تو بتائیں کہ اِس کا مقصد کیا ہے؟ کیا اس سے قرآن کے معنی میں کوئی فرق آیا ہے ؟ مصنف کی پیش کردہ مثالوں کا جائزہ لیں تو ایک دلچسپ بات سامنے آتی ہے کہ جن الفاظ کو مصنف اضافہ یا کمی قرار دے کر دانستہ تحریف قرار دے رہے ہیں، اُن کے کرنے یا نہ کرنے سے قرآن کے اصل مضمون اور معانی میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مصنف کی پیش کردہ تین مثالیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔

٭…قرآن کریم کی سورة التوبة آیت 72 میں ہے

’’وَعَدَ اللّٰہُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ الۡمُؤۡمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا وَ مَسٰکِنَ طَیِّبَۃً فِیۡ جَنّٰتِ عَدۡنٍ ؕ وَ رِضۡوَانٌ مِّنَ اللّٰہِ اَکۡبَرُ ؕ ذٰلِکَ ہُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ ‘‘

بطور تنزّل اگرہم مان لیں کہ اس آیت میں ’’ ھو‘‘ کا لفظ کم یا زیادہ ہے تو بھی معانی میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔

٭…قرآن کریم کی سورةالمؤمنون آیت87میں ہے

قُلۡ مَنۡ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ السَّبۡعِ وَ رَبُّ الۡعَرۡشِ الۡعَظِیۡمِِ۔

بطور تنزّل اگرہم مان لیں کہ اس آیت میں ’’ السبع‘‘ کا لفظ زیادہ ہے تو بھی معانی میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ قرآن میں اور بھی بہت جگہوں پر آسمانوں کی تعداد سات بیان ہوئی ہے۔

٭…قرآن کریم کی سورة الحجرات آیت7میں ہے

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ جَآءَکُمۡ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوۡۤا اَنۡ تُصِیۡبُوۡا قَوۡمًۢا بِجَہَالَۃٍ فَتُصۡبِحُوۡا عَلٰی مَا فَعَلۡتُمۡ نٰدِمِیۡنَ۔

بطور تنزّل اگرہم مان لیں کہ اس آیت میں ’’فا سق ‘‘کے بعدکوئی لفظ غلط لکھا گیا اور بعد میں مٹا دیا گیا تو اس سے قرآن کے بیان فرمودہ مضامین اور معانی میں کیا فرق پڑتا ہے؟

  1. اگر قرآن میں دانستہ طورپر الفاظ کی کمی یا اضافہ ہوا ہےتو وہ باتیں اور حقائق جو قرآن نے مسلّمہ طور پر بیان کیے ہیں، مصنف کو چاہیے کہ ان کے متعلق کوئی ثبوت پیش کرےتاکہ ہم کہہ سکیں کہ قرآن پر کوئی بیرونی ہاتھ اثر انداز ہوا ہے۔ مثلاً:

٭…قرآن کریم مسلمانوں کے ایمانیات اور فقہ کی بنیادہے۔ کیا آپ کوئی ایسااضافہ یا کمی دکھا سکتے ہیں جس سے قرآن کا کوئی حکم تبدیل ہو گیا ہو یا منسوخ ہو گیا ہے؟کوئی فقہی حکم اس درستی سے تبدیل ہو گیا ہو؟

٭…کیا کسی نسخہ میں سورة البقرۃ یا کسی بھی اور سورہ کی آیات،موجود تعداد سے زیادہ یا کم ہیں؟کیا کوئی ایسی آیت آپ پیش کر سکتے ہیں جو موجودہ قرآن میں نہیں اور آپ کے دیکھے گئے صحیفوں میں مذکور ہے؟یا کوئی ایسی آیت جو پہلے نہ ہو اور موجودہ قرآن میں موجود ہو؟

٭…قرآن کی موجودہ سورتوں اور آیات کی ایک خاص ترتیب ہے آپ ہمارے سامنے ترتیب قرآن کے بارہ میں دانستہ درستی کی کوئی معین مثال دیں۔ مثلاً سورة البقرۃ کی آیت250،کسی نسخہ میں موجودہ ترتیب کے خلاف ہو۔ وعلٰی ھذا القیاس۔

٭…قرآن میں لکھا ہے حضرت یوسف ؑنے خواب میں گیارہ ستارے(اَحَدَ عَشَرَ کَوکباً )دیکھے۔ تحریف کرنے والوں(اگر کسی نے کرنی ہوتی) کے لیے یہ نہایت آسان تھا کہ احد یا عشر کا لفظ مٹا دیتا۔ مگر کسی کی ہمت نہیں ہوئی۔ کیا کوئی ایسی مثال ہے جس میں ایک لکھا ہو یا دس لکھا ہو اور اُس کو مٹا کر گیارہ کردیا گیا ہو؟ یا اس طرح کی کوئی اور مثال دکھا دیں۔

٭…حضرت نوح ؑکی عمر(یعنی اُن کی امت کی عمر) نو سو پچاس سال بیان ہوئی ہے۔ کیا کوئی ایسی مثال ہے جس میں یہ عمر کم یا زیادہ بیان ہوئی ہو؟

٭…قرآن کریم نے حضرت عیسیٰ کو بنی اسرائیل کی طرف رسول قرار دیاہے۔ کیا کوئی ایسی مثال ہے جس میں حضرت عیسیٰؑ کو کسی اور قوم کی طرف رسول قرار دیا ہو؟۔ و علی ھذا القیاسکوئی اور مسلّمہ تبدیلی آپ پیش کر سکیں۔

اگرآپ ایسی ایک بھی مثال پیش نہ کر سکیں تو پھر سوچیں کہ کیا آپ کی مذکورہ دانستہ درستیاں قرآن میں تحریف کا ثبوت بھی ہیں یا نہیں؟ آپ کے بقول قرآن میں تحریف یا درستی کرنے والے کا مقصد پورا ہوا یا نہیں ہوا؟اس بارے میں ایک دلچسپ بات کا ذکر کرتا چلوں کہ مصنف نے خود ہر مثال کے ساتھ اعتراف کیا ہے کہ قرآن کے موجودہ نسخہ(حفص) کے مطابق یہ درستی اب بھی قرآن میں موجود ہے۔

چند غورطلب نکات

٭…امت محمدیہ میں چودہ سو سال سے سینکڑوں تفاسیر متعدد زبانوں میں لکھی گئی ہیں اور پورا متن قرآن ان میں موجود ہے۔ کیا کسی ایک کے متن میں بھی اختلاف ہے؟

٭…حدیثوں میں قرآن کی بیسیوں آیات موجود ہیں۔ کیا ان کے متن میں کوئی اختلاف ہے؟

٭…علماء،متکلمین،صوفیاء نے اخلاق اور کلام کی ہزاروں کتب میں قرآن کی سینکڑوں آیات درج کی ہیں۔ کیا کسی ایک میں بھی کوئی اختلاف ہے؟

٭…متعدد ایسی کتب تصنیف کی گئیں جن میں قرآن کے مختلف مضامین پر گفتگو کی گئی ہے۔ مثلاً سابقہ اقوام،انبیاء،سائنسی و طبی امور وغیرہ۔ کیا ان میں اختلاف متن سے مختلف نتائج نکالے گئے ہیں؟

٭…امت محمدیہ73فرقوںمیںبٹ گئی۔ان کے سینکڑوں ذیلی فرقے ہیں اور ایک دوسرے پر اکثر نے کفر اور واجب القتل ہونے کے فتوے لگائے ہیں۔ مگر کسی نے آج تک یہ نہیں کہا کہ فلاں نے قرآن کے متن میں تبدیلی یا تحریف کر دی ہے۔ یا اگر کہا بھی ہے تو یہ بات ثابت نہ ہو سکی۔

٭…ناسخ و منسوخ کا مسئلہ شدت سے اٹھا۔ سینکڑوں آیات کو ناسخ اور اتنی ہی کومنسوخ قرار دیا گیا۔ مگر کسی نے قرآن سے منسوخ آیت کو نکالنے کی جرأت نہیں کی۔

٭…اگر آغاز میں کتابت کی غلطی سے کوئی ایک حرف زائد لکھا گیا مثلاً ’’الف‘‘ تو اس کو بھی قرآن سے نکالنے کی بجائے اس کے اوپر(x) کا نشان لگا دیا کہ یہ پڑھنے میں نہیں آئے گا۔ وہ نشان بھی آج تک ویسے ہی موجودہے۔ اُس حرف زائدہ کو بھی نہیں نکالا گیا۔

اگر ایسا نہیں ہے تو پھر آپ کس منہ سے قرآن میں تبدیلی کی بات کرتے ہیں۔ پڑھنے اور لکھنے کی طرز پر اگر عرب قبائل کو اپنی مقامی زبان اور لہجہ کے مطابق پڑھنے کی اجازت دی گئی تھی اور وہ قراءت بھی محفوظ ہے تو یہ بھی وعدہ الٰہی کے تابع ہے کیونکہ یہ ساتوں قراءتیں مرکزی قراءت کے ساتھ خدا تعالیٰ نے اتاری تھیں۔ کسی انسان نے نہیں۔ اب یہ صرف علمی اور ضمنی اثاثہ ہیں جو تفسیر کو سمجھنے میں معاون ہو سکتی ہیں۔ پس ان قراءتوں کا محفوظ رکھنا اور معانی اور مطالب میں ذرّہ برابر فرق نہ آنا بھی حفاظت قرآن کا ثبوت ہے۔

آخر پر میں آپ کی خدمت میں قرآن کے بارے میں چنددیگر غیر مسلم محققین اور مستشرقین کی رائے پیش کرتا ہوں۔ سرولیم میور اپنی کتاب لائف آف محمدمیں قرآن کے بارے میں لکھتاہے:

’’We may upon the strongest presumption affirm that every verse in the Quran is genuine and unaltered composition of Muhammad himself.‘‘

(William Muir Life of Muhamet, London, Vol 1, Introduction)

ترجمہ۔ ہم نہایت مضبوط قیاسات کی بنیاد پر کہہ سکتے ہیں کہ ہرایک آیت جوقرآن میں ہے وہ اصلی ہے۔ اورمحمد(صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم)کی غیر محرّف تصنیف ہے۔

ایک اور مستشرق نولڈکے لکھتا ہے:

Slight clerical errors there may have been, but the Qur’an of Othman contains none but genuine elements, though sometimes in very strange order. Efforts of European scholars to prove the existence of later interpolations in the Qur’an have failed.

(Encyclopedia Britannica Edition 11 under heading ‘Quran’ )

ترجمہ۔ ممکن ہے کہ تحریر کی کوئی معمولی غلطیاں (طرز تحریر) ہوں تو ہوں۔ لیکن جو قرآن عثمان (رضی اللہ عنہ)نے دنیا کے سامنے پیش کیا تھااس کامضمون وہی ہے جو محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) نے پیش کیاتھا۔ گو ا س کی ترتیب عجیب ہے۔یورپین علماء کی یہ کوششیں کہ وہ ثابت کریں کہ قرآن میں بعد کے زمانہ میں بھی کوئی تبدیلی ہوئی ہے۔ بالکل ناکام ثابت ہوئی ہیں۔

یہ چند و ہ شہادتیں ہیں جو اسلام کے شدید ترین دشمنوں کی ہیں۔

وَالْفَضْلُ مَا شَھِدَتْ بِہٖ الْاَعْدَاء۔

معروف مسلمان محقق ڈاکٹر حمید اللہ نے ایک دلچسپ تحقیق کا ذکر کیا ہے۔ جو آج کے قرآن پر مہر تصدیق ثبت کر دیتی ہے۔ کہتے ہیں:

’’جرمنی میں میونخ یورنیورسٹی میں ایک ادارہ قائم کیا گیا’’قرآن مجید کی تحقیقات کا ادارہ ‘‘اس کا مقصد یہ تھا کہ ساری دنیا کے قرآن مجید کے قدیم ترین نسخے خرید کر،فوٹو لے کر،جس طرح بھی ممکن ہو جمع کیے جائیں۔ جمع کرنے کا یہ سلسلہ تین نسلوں تک جاری رہا۔ جب میں 1933ء میں پیرس یورنیورسٹی میں تھا تو اس کا تیسرا ڈائریکٹر Pretzlپیرس آیاتاکہ پیرس کی پبلک لائبریر ی میں قرآن مجید کے جو قدیم نسخے پائے جاتے ہیں، ان کے فوٹو حاصل کرے۔ اس پروفیسر نے مجھے شخصاً بیان کیا کہ اِس وقت (1933ء میں)ہمارے انسٹیٹیوٹ میں قرآن مجید کے 42000نسخوں کی فوٹو موجود ہیں اور مقابلے(موازنہ) کا کام جاری ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں اس ادارے کی عمارت پر ایک امریکی بم گراا ور عمارت، اس کا کتب خانہ اور عملہ سب کچھ برباد ہو گیا۔ لیکن جنگ کے شروع ہونے سے کچھ عرصہ پہلے ایک عارضی رپورٹ شائع ہوئی تھی۔ اس رپورٹ کے الفاظ یہ ہیں کہ قرآن مجید کے نسخوں میں مقابلے (موازنے) کا جو کام ہم نے شروع کیا تھا،وہ ابھی مکمل تو نہیں ہوا لیکن ابھی تک جو نتیجہ نکلا ہے وہ یہ ہے کہ ان نسخوں میں کہیں کہیں کتابت کی غلطیاں تو ملتی ہیں لیکن اختلافات روایت ایک بھی نہیں۔ ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ کتابت کی غلطی ایک نسخے میں ہو گی وہ کسی دوسرے نسخوں میں نہیں ہو گی…لیکن اختلافات روایت یعنی ایک ہی فرق کئی نسخوں میں ملے،ایسا کہیں نہیں ہے۔ یہ ہے قرآن مجید کی تاریخ کا خلاصہ‘‘۔

(خطبات بہاولپوراز ڈاکٹر حمید اللہ جلد1صفحہ16تا17)

ایسا ہی اناجیل کے نسخوں کو جمع کر کے ان کے درمیان موازنہ کرنے کے بارے میں ڈاکٹر حمید اللہ صاحب کہتے ہیں کہ

’’جرمنی کے عیسائی پادریوں نے یہ سوچا کہ حضرت عیسیٰؑ کے زمانے میں آرامی زبان میں جو انجیل تھی وہ تو اب دنیا میں موجود نہیں۔ اس وقت قدیم ترین انجیل یونانی زبان میں ہےاور یونانی سے ہی ساری زبانوں میں اس کے ترجمے ہوئے ہیں۔ لہٰذا یونانی مخطوطوں کو جمع کیا جائے اور ان کا آپس میں مقابلہ کیا جائے۔ چنانچہ یونانی زبان میں انجیل کے نسخے جتنے دنیا میں پائے جاتے تھے۔ کامل ہوں کہ جزئی، ان سب کو جمع کیا گیا اور ا ن کے ایک ایک لفظ کا باہم مقابلہ کیا گیا۔ اس کی جو رپورٹ شائع ہوئی اس کے لفظ یہ ہیں کہ ’’کوئی2لاکھ اختلافی روایات ملتی ہیں۔ اس کے بعد یہ جملہ ملتا ہے۔ ان میں سے 8فیصد اختلافات سنگین ہیں۔ ‘‘

(خطبات بہاولپور جلد1صفحہ16)

ہمارا خدا وعدوں کا سچا خدا ہے۔ ہمارے قادر مطلق اور غیور خدا نے حفاظتِ قرآن کی بابت کیا ہوا وعدہ کس خوبصورتی سے پورا فرمایا کہ سینکڑوں سالوں سے مخالفین اسلام نے ایڑی چوٹی کا زور لگا لیا ہے مگر کتاب اللہ میں ایک معمولی سی تحریف یا غلطی بھی ثابت نہیں کر پائے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی حفاظت ایسے بے نظیر اور بے مثال طریق سے فرمائی ہے کہ بڑے سے بڑے دماغ اور محقق بھی ششدر رہ گئے ہیں۔ یقیناً یہ کسی انسانی ہاتھ یا انسانی دماغ کا کام نہیں۔ یہ محض اسی تمام طاقتوں کے مالک اور وعدوں کے سچے خدا کا کام ہے جودنیا کے ذرّے ذرّے کا مالک اور قادر ہے۔ پس ہمیں چاہیے کہ ہم کتاب اللہ کے انوار کو سمجھیں،اس پر عمل کریں اور اس کی خوبصورتیوں کو ساری دنیا کے سامنے پیش کریں تا دنیا جلد از جلد محمد مصطفیٰﷺ کے جھنڈے تلے جمع ہوجائے اور یہی قرآن کا وعدہ اور آخری تقدیر ہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button