متفرق مضامین

حاصل مطالعہ

’’ لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا‘‘

حوالہ دیکھ کر جرنیل کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا

٭…محترم مولانا بشیر احمد رفیق سابق امام مسجد فضل لندن اپنی کتاب ’’چند خوشگوار یادیں ‘‘ میں پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کی جنرل ضیاء الحق سے ایک ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ

’’ڈاکٹر صاحب کو احمدیت سے عشق کی حد تک پیار تھا۔ جماعت کے لئے بہت غیرت رکھتے تھے۔ 1974ء میں جب پاکستان کی قومی اسمبلی نے جماعت کو دائرہ اسلام سے خارج کرنے کی قرار داد پاس کی تو ان دنوں ڈاکٹرصاحب صدر پاکستان کے سائنسی مشیر تھے اور ان کا درجہ وزیر کے برابر تھا۔ جب اس فیصلہ کی خبر سنی تو مشن ہاؤس تشریف لائے۔ حضرت چوہدری سر محمد ظفراللہ خان صاحب ؓبھی موجود تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی جیب سے اپنا استعفیٰ نکال کر حضرت چوہدری صاحب ؓکو دکھایا اور فرمایا کہ میں اس حکومت کے ساتھ کیسے رہ سکتا ہوں جس نے سراسر ظلم اور زیادتی سے کام لیتے ہوئے ایک شرمناک فیصلہ کیا ہے۔

جنرل ضیاء نے جب اپنا رسوائے زمانہ آرڈیننس جاری کیا جس میں جماعت کو اسلامی شعائر کے استعمال سے روکا گیا تو ڈاکٹر صاحب کو بہت صدمہ پہنچا۔ کچھ عرصہ کے بعد ایک مرتبہ مَیں ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے ان سے دریافت کیا کہ کیا آرڈیننس کے اجراء کے بعد اُن کی ضیاء الحق سے ملاقات ہوئی ہے ؟ تو ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ ہاں ایک ملاقات ہوئی ہے اور اس ملاقات کی روداد یوں سنائی۔ ڈاکٹر صاحب فرمایا:

’’جنرل صاحب کے مجھے ٹریسٹ (Triest)میں کئی فون آئے کہ میں پاکستان آکر اُن سے ملوں۔ لیکن میں ٹالتا رہا۔ بالآخر مجھے پاکستان جانا پڑ گیا۔ جنرل صاحب کو اطلاع ہوئی تو ملاقات کے لئے بلایا۔ چنانچہ میں اُن کی ملاقات کے لیے پریذیڈنٹ ہائوس گیا جہاں بعض اور سائنسدان موجود تھے۔ جنرل صاحب نے خود باہر آکر میری کار کا دروازہ کھولا اور مجھ سے معانقہ کرنے کے بعد اپنے ساتھ بیٹھنے کے کمرہ میں لے گئے جہاں بعض اور لوگ بھی موجود تھے۔ دوران گفتگو میں نے آرڈیننس کا ذکر کرکے اُس پر افسوس کا اظہار کیا۔ جنرل صاحب نے فوراًمیرا ہاتھ پکڑا اور کہا آئیے دوسرے کمرے میں چل کر بات کرتے ہیں اور مجھے دوسرے کمرہ میں لے گئے۔ اُس وقت کے سائنسی امور کے وزیر بھی ہمارے ساتھ اُس کمرہ میں چلے آئے۔ جنرل نے کہا بات یہ ہے کہ میرے پاس علماء کا ایک وفد آیا تھا۔ انہوں نے مجھے یہ افسوسناک بات بتائی کہ احمدی قرآن کریم میں تحریف کرتے ہیں، اس لیے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ میں نے جنرل صاحب کو کہا کہ قرآن کی حفاظت کا وعدہ تو خود قرآن مجید میں موجود ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا ہے کہ قرآن مجید کی حفاظت مَیں خود کروں گا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ کے بعد احمدی کیسے قرآن کریم میں تحریف کرسکتے ہیں ! اس پر جنرل صاحب اُٹھ کر کتابوں کی الماری کی طرف گئے اور تفسیر صغیر اٹھا لائے۔ یہ قرآن کریم کا اردو ترجمہ ہے جو حضرت مصلح موعودؓ نے کیا ہے۔ جنرل صاحب نے کہا علماء نے اُن آیات کی نشاندہی کر دی ہے جن میں جماعت احمدیہ نے تحریف کی ہے، وہ میں آپ کو دکھاتا ہوں۔ انہوں نے تفسیر صغیر کو کھولا اور ایک نشان زدہ صفحہ کھول کر ایک نشان زدہ آیت پر انگلی رکھ کر کہا کہ دیکھئے اس آیت میں آپ لوگوں نے تحریف کی ہے۔ میں نے عرض کیا کہ جنرل صاحب یہ آیت تو مکمل طورپر درج ہے۔ تحریف کہاں ہوئی ہے۔ جنرل صاحب نے کہا کہ دیکھئے آپ نے اس آیت کے معنوں میں تحریف کی ہے اور خاتم النبیین کے معنے بجائے نبیوں کو ختم کرنے والے کے نبیوںکی مہر کے کئے ہیں اور یہ بات ہمارے لئے ناقابل برداشت ہے۔ میں نے جنرل صاحب سے عرض کیا کہ خاتَم کا لفظ جو یہاں استعمال ہوا ہے وہ پنجابی زبان کا ’’ختم‘‘ تو نہیں بلکہ عربی کا لفظ ہے اور اس کے معنی عربی زبان میں ’’ مہر‘‘ کے ہیں۔ لیکن میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا۔ کیا آپ کے پاس اور کسی عالم کا ترجمہ قرآن بھی ہے ؟ جنرل صاحب اُٹھے اور علامہ اسد کا ترجمہ قرآن اُٹھا لائے جو مکہ معظمہ سے شائع ہوا تھا۔ میں نے قرآن مجید کھولا۔ آیت خاتم النبیین نکالی تو وہاں بھی ترجمہ Seal of the Prophetsدرج تھا۔ جرنیل کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ میں نے عرض کیا !جرنیل صاحب علامہ اسد تو احمدی نہ تھے پھر یہ ترجمہ تو سعودی حکومت کا شائع کردہ ہے کیا آپ سعودی حکومت کو بھی تحریف کا مجرم قرار دیں گے ؟اس پر جرنیل صاحب کہنے لگے بھئی میں تو ایک اَن پڑھ جرنیل ہوں مجھے تو جو کچھ ان علماء نے بتایا میں نے اُسے سچ سمجھ کر تسلیم کر لیا۔

میں نے عرض کیا کہ آپ صرف ایک جرنیل ہی نہیں اس ملک کے صدر بھی ہیں اور بحیثیت صدر مملکت تمام رعایا کے حقوق کی حفاظت آپ کے فرائض میں شامل ہے۔ یہیں اسلام آبا دمیں جماعت احمدیہ کے مربی موجود ہیں۔ جماعت کے افراد موجود ہیں۔ آپ کو جو کچھ علماء نے بتایا تھا آپ کا فرض تھا کہ احمدی علماء کو بھی بلا کر اپنی تسلی کراتے اور پھر دونوں طرف کو سننے کے بعد فیصلہ کرتے۔ اس پر جرنیل صاحب نے زور سے کلمہ شہادت پڑھا اور مجھے بھی کلمہ شہادت پڑھنے کو کہا۔ میں نے اونچی آواز میں کلمہ شہادت پڑھا تو فرمانے لگے۔ سلام ! خدا کی قسم میں تمہیں اپنے سے اچھا مسلمان سمجھتا ہوں۔ لیکن کیا کروں میں علماء سے مجبور ہوگیا ہوں اور یہ کہہ کر بات کا رُخ کسی اور طرف موڑ لیا۔ ‘‘

(چندخوشگواریادیںصفحہ238-240۔شائع کردہUnitech Publications Qadian۔ 2009)

(مرسلہ:نذیر احمد خادم)

سرظفراللہ خان

قراردادِمقاصد اور اسلامی جمہوریہ

٭…5؍مئی2020ءکوایڈوُکیٹ یاسرلطیف ہمدانی صاحب کا تاریخی حقائق پر مبنی ایک تحقیقی کالم ’’نیا دور‘‘ کی ویب سائٹ پہ شائع ہوا ہے۔ آپ لکھتے ہیں (ترجمہ) :

’’ محترمہ عائشہ صدیقہ صاحبہ نے اپنی ایک حالیہ تحریرمیں پاکستان میں بڑھتی ہوئی بنیادپرستی کا ذمہ دار ریاست اور معاشرہ کو ٹھہراتے ہوئے سرظفراللہ خان کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

سرظفراللہ خان صف اول کے وکیل اور قانون دان ہونے کے علاوہ گہرے مذہبی احمدی تھے،جنہیں کم ازکم (قائداعظم محمدعلی)جناح برصغیرمیں اعلیٰ ترین مسلم ذہنیت کا حامل شخص گردانتے تھے۔

عائشہ صدیقہ نے لکھا :

’’ملک کے پہلے وزیرخارجہ سرظفراللہ خان نے، جن کی تقرّری نے محمدعلی جناح اور جماعت احرارکے درمیان نزاع پیدا کردیاتھا (جن کا اصرار تھا کہ کسی احمدی کو یہ عہدہ نہ دیا جائے)،12؍مارچ 1949ء کو قانون ساز اسمبلی میں بڑے زوروشور سے ملک کو اسلامی ریاست بنانے کے حق میں دلائل دیے۔ انہوں نے اپنی تقریرمیں عیسائی اور ہندو اراکین کودھتکاردیا جنہوں نے قراردادمقاصد1949ء کے منظورکیے جانے کے خلاف دلائل پیش کیے تھے‘‘…

یہ معاملہ صاف ہوجاناچاہیے۔ مجلس احرارکو،جوکہ نیشنلسٹ مسلم پارٹی تھی، کانگرس کی پشت پناہی حاصل تھی۔ ان کے رابطے گاندھی، نہرو اور آزاد سے تھے۔ جناح اور مجلسِ احرارکے درمیان تقسیم سے بہت پہلے نزاع پیداہو چکا تھا۔ احرار کا اصرار تھا کہ جناح مسلم لیگ میں سے احمدیوں کو نکال باہرکریں،لیکن جناح نے ایساکرنے سے انکارکردیا۔ پہلے تو وہ انہیں ٹالتے رہے لیکن پھر صاف صاف کہہ دیا کہ ’’میں کون ہوتا ہوں کہ اس کو غیرمسلم قراردوں جو خودکومسلمان کہتاہو۔ ‘‘

(23؍مئی 1944ءبمقام سرینگر)

اصولوں کے پکے جناح نے احمدیہ ایشو پر مسلم لیگ کے اندر اور باہر دونوں طرف سےڈالے جانے والے بے انتہادباؤ کا مقابلہ کیا۔

اسی طرح گِل مارٹن جو چاہیں لکھ سکتے ہیں اور عائشہ صدیقہ اس کا جو مطلب چاہیں اخذکر سکتی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ’’جناح پیپرز‘‘میں کوئی ایک خط یا بیان بھی ایسا موجودنہیں جس کے ذریعہ انہوں نے کسی پیر یا ملاں کے سامنے اسلامی ریاست کے قیام کی حامی بھری ہو۔ وہ اس قسم کے تھے ہی نہیں۔

پیرآف مانکی کو لکھا جانے والا نام نہاد خط بھی،جسے بہت سے لوگ اس دعویٰ کے ثبوت کے طورپر پیش کرتے ہیں کہ جناح نے پیرصاحب سے نفاذ شریعت کا وعدہ کیا تھا،کسی مجموعہ یا ریکارڈ میں موجود نہیں۔ یہ زبردست قسم کی جعل سازی ہے۔

اور یہ مفروضات کوئی نئے نہیں۔ عائشہ صدیقہ صاحبہ نے ایک اور مضمون میں کسی انٹیلیجنس آفیشل کے مبہم قسم کے چھوڑے ہوئے شوشہ کے حوالے سے بھی لکھا تھا کہ جناح نے حَسن البنّا اور اخوان کی خدمات حاصل کرنے کے غرض سے مبینہ طورپرعربی میں ایک خط لکھاتھا۔ یہ ایک اوربے بنیاد مفروضہ ہے۔

نہ صرف یہ کہ ایسے کسی خط کا ریکارڈموجود نہیں بلکہ یہ ایک معروف بات ہے کہ جناح اپنے جملہ خطوط ہمیشہ انگریزی میں لکھا کرتے تھے۔ انہوں نے تو اردو میں کوئی خط نہیں لکھا۔ نہ ہی کچّھی یا گجراتی میں،جسے وہ روانی سے بولتے تھے۔ یہ تصور کہ جناح نے عربی میں خط لکھا تھا،نہایت مضحکہ خیزبات ہے۔ لہٰذا یہ دونوں دعوے جھوٹے اورغلط ہیں۔

موضوع کی طرف واپس آتے ہیں۔ مجلس احرارمسلم لیگ اور نظریہ پاکستان کی بھی مکمل مخالف تھی۔ کانگرس کی حمایت یافتہ اس مجلس احرار نے کئی فرقہ وارانہ تحاریک شروع کی تھیں، نہ صرف احمدیوں بلکہ شیعوں کے خلاف بھی۔

یہ پارٹی مفتی محمود (جن کی وجہ شہرت پاکستان بنانےکو ’’گناہ‘‘ قراردیناتھی ) کے ساتھ مل کر دوسری ترمیم لانے کی اصل محرک بنی تھی۔

عجیب بات ہے کہ 1974ء میں اور دوسری ترمیم کے لیے شوروغوغا کرنے والے وہی لوگ تھے جو 1947ء سے قبل جزوی یا کلی طورپر کانگرس کے حمایتی تھے، چاہے مفتی محمود ہوں، ولی خان ہوں یامولا بخش سومرو۔

بھٹو نے خفت کی وجہ سے خوداس بحث میں حصہ لینے سے زیادہ تر گریزہی اختیار کیا۔

تاہم یہ باتیں کم اہمیت کی ہیں۔ اب آتے ہیں محترمہ عائشہ صدیقہ کے اس دعویٰ کی طرف کہ سرظفراللہ خان نے عیسائی اور ہندواراکین کودھتکاردیا تھا۔

بے شک ہندو اور شیڈول کاسٹ کے اراکین بھی موجود تھے اورمیں اس قضیہ میں نہیں پڑنا چاہتا کہ کوئی عیسائی ممبربھی وہاں موجودتھا یا نہیں۔ لیکن ظفراللہ خان نے انہیں بالکل نہیں دھتکارا۔ ان کی تقریر نیشنل اسمبلی کی ویب سائٹ پر دستیاب ہے۔

ظفراللہ خان صاحب نے جو کیا وہ یہ تھا کہ انہوں نے ان اراکین کوبتایا کہ اسلامی اصول آفاقی حیثیت کے حامل ہیں اورمسلم اور غیرمسلم کے درمیان تفریق روانہیں رکھتے۔

خواہ کسی کو اس سے اختلاف ہی کیوں نہ ہو لیکن یہ ایک نہایت باادب،پرمغزاورجامع بیان تھا،۔ ظفراللہ خان صدق دل سے اسلام کو انسانی حقوق کےعین مطابق قراردیتے تھے۔ انہوں نے اس موضوع پر ایک کتاب بھی لکھی اور اسی نکتۂ نظر سے انہوں نےاقوام متحدہ میں شامل مسلم ممالک کی اکثریت کو اقوام متحدہ کے چارٹربرائے انسانی حقوق کوتسلیم کرنے پر بھی قائل کیاتھا۔

واحد ظفراللہ خان پہ انگشت نمائی کرنا خلافِ انصاف بات ہے۔ آپ کے علاوہ لیاقت علی خان سمیت اور کئی لوگ بھی تھے جنہوں نے قراردادکے حق میں بات کی تھی۔ ‘‘

یاسر ہمدانی صاحب مزید لکھتے ہیں :

’’ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ جناح ہوتے تو اس (قرارداد) کو پیش ہی نہ ہونے دیتے کیونکہ انہوں نے تو سرکاری حلف ناموں میں لفظ ’’خدا‘‘ بھی کسی جگہ شامل نہیں کیا اور’’میں قسم کھاتا ہوں‘‘ کے الفاظ کو ’’میں اقرارکرتا ہوں‘‘ کے الفاظ میں بھی تبدیل کردیا تھا۔ مؤخرالذکر الفاظ مذہبی رنگ نہیں رکھتے۔

قرارداد کا،جوکہ12 مارچ کو منظورکرلی گئی تھی، ایک اور دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اس میں ’’اللہ تعالیٰ ‘‘ کی بجائے ’’خداتعالیٰ‘‘ کے الفاظ استعمال کیے گئے تھے۔

1973ءمیں ان الفاظ میں تبدیلی لائی گئی اور پھر 1984ءمیں ان الفاظ کو قرارداد کا باقاعدہ حصہ بنادیا گیا۔

پس… اس قرارداد کے ذریعہ کسی ’’اسلامی حکومت‘‘ کا قیام عمل میں نہیں لایا گیا تھا۔ اس کا مقصد مسلمانوں کے لیے قرآن وسنت کے مطابق زندگی گزارنے کو پسندیدہ قرار دینا ضرورتھا لیکن اسے ان پرٹھونسناہرگزمراد نہ تھا۔

اگلے حصہ میں یہ قرارداداقلیتوں کومکمل آزادی فراہم کرتی تھی کہ وہ جیسا چاہیں اپنے مذاہب پر عمل کریں اور اپنی اپنی تہذیب کو پروان چڑھائیں۔

سب سے اہم بات یہ کہ یہ محض ایک قراردادتھی جس کا مقصد خود کو بہترین طریق پر پیش کرنا تھا۔

لیاقت علی خان صاحب نے اس موقع پربڑے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ ’’ائینی حکومت میں ایک غیرمسلم بھی انتظامی سربراہ ہوسکتاہے۔ ‘‘ یہ ’’اسلامی جمہوریہ‘‘ نہ تھی۔

جس دن قراردادمقاصد منظورہوئی اسی دن ظفراللہ خان کی سربراہی میں اس کے بنیادی اصول وضع کرنے کی ایک کمیٹی بھی قائم کی گئی تھی جس نے 1950ء کے اوئل میں اپنی رپورٹ پیش کی۔

رپورٹ میں کسی ’’اسلامی جمہوریہ‘‘ کے قیام کی تجویزپیش نہیں کی گئی تھی۔ نیز کسی بھی پیچیدگی کو ایک طرف رکھتے ہوئے ملک کو ’’پاکستان‘‘ کے نام سے موسوم کیا گیاتھا جسے 2؍نومبر 1953ء کو تبدیل کرکے ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ کردیا گیا۔ یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ صدرجمہوریہ (وزیراعظم نہیں) مسلمان ہوا کرے گا تاہم ریاست کاکوئی مذہب مقرر نہیں کیاگیاتھا۔ ‘‘

(https://nayadaur.tv/2020/05/zafrullah-khan-objectives-resolution-and-the-islamic-republic/)

(مرسلہ: طارق احمدمرزا۔ آسٹریلیا)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button