حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

اسلام کی تعلیمات کا خاصہ

آٹھویں شرط بیعت

’’یہ کہ دین اور دین کی عزت اور ہمدردیٔ اسلام کو اپنی جان اور اپنے مال اور اپنی عزت اور اپنی اولاد اور اپنے ہریک عزیز سے زیادہ تر عزیز سمجھے گا‘‘

دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا عہد ایک ایسا عہد ہے کہ جماعت کا ہروہ فرد جس کا جماعت کے ساتھ باقاعدہ رابطہ ہے،اجلاسوں اور اجتماعوں وغیرہ میں شامل ہوتاہے وہ اس عہد کو بارہا دہراتاہے۔ہر اجتماع اور ہر جلسہ وغیرہ میں بھی بینرز لگائے جاتے ہیں اور اکثر ان میں یہ بھی ہوتاہے کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا۔کیوں اس بات کو اتنی اہمیت دی گئی ہے، اس لئے کہ اس کے بغیرایمان قائم ہی نہیں رہ سکتا۔اس پر عمل کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اس لئے اس کے حصول کے لئے ہر وقت، ہر لحظہ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے رہنا چاہئے۔اس کا فضل ہی ہوتو یہ اعلیٰ معیار قائم ہو سکتاہے۔ تو ہم جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے شامل ہیں۔ہمارے لئے تواللہ تعالیٰ اس طرح حکم فرماتاہے۔ قرآن شریف میں آیا ہے۔

وَمَااُمِرُوْآ اِلَّا لِیَعْبُدُوْا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ۔حُنَفَآءَ وَیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُواالزَّکٰوۃَ وَذٰلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَۃِ(سورۃ البیّنۃ: آیت6)۔

اور وہ کوئی حکم نہیں دیئے گئے سوائے اس کے کہ وہ اللہ کی عبادت کریں، دین کو اُس کے لئے خالص کرتے ہوئے، ہمیشہ اس کی طرف جھکتے ہوئے، اور نماز کو قائم کریں اور زکوٰۃ دیں۔ اور یہی قائم رہنے والی اور قائم رکھنے والی تعلیمات کا دین ہے۔

پس نمازوں کو قائم کرنے سے یعنی باجماعت اور وقت پر نماز پڑھنے سے، اس کی راہ میں خرچ کرنے سے،غریبوں کا خیال رکھنے سے بھی ہم صحیح دین پر قائم ہو سکتے ہیں۔ اور ان تعلیمات کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنا سکتے ہیں، اپنی زندگیوں پر لاگو کر سکتے ہیں جب ہم اللہ کی عبادت کریں گے،اس کی دی ہوئی تعلیم پر عمل کریں گے تو اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دیگا، ہمارے ایمانوں کو اس قدر مضبوط کردے گا کہ ہمیں اپنی ذات، اپنی خواہشات، اپنی اولادیں، دین کے مقابلے میں ہیچ نظر آنے لگیں گی۔ تو جب سب کچھ خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کیلئے ہو جائے گا اور ہمارا اپنا کچھ نہ رہے گا تو اللہ تعالیٰ پھر ایسے لوگوں کو ضائع نہیں کرتا۔وہ ان کی عزتوں کی بھی حفاظت کرتاہے، ان کی اولادوں کی بھی حفاظت کرتاہے، ان میں برکت ڈالتاہے، ان کے مال کو بھی بڑھاتاہے اور ان کو اپنی رحمت اور فضل کی چادر میں ہمیشہ لپیٹے رکھتاہے اوران کے ہر قسم کے خوف دُور کردیتاہے۔ جیساکہ فرمایا:

بَلٰی مَنْ اَسْلَمَ وَجْہَہٗ لِلّٰہِ وَھُوَ مُحْسِنٌ فَلَہٗ اَجْرُہٗ عِنْدَ رَبِّہٖ وَلَاخَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ(البقرۃ:آیت113)۔

نہیں نہیں، سچ یہ ہے کہ جو بھی اپنا آپ خدا کے سپرد کردے اور وہ احسان کرنے والا ہو تو اس کا اجر اسکے ربّ کے پاس ہے اور اُن (لوگوں) پر کوئی خوف نہیں اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔

اسلام کی تعلیمات کا خلاصہ

پھر فرمایا :

وَمَنْ اَحْسَنُ دِیْنًا مِّمَّنْ اَسْلَمَ وَجْھَہٗ لِلّٰہِ وَھُوَ مُحْسِنٌ وَّاتَّبَعَ مِلَّۃَ اِبْرَاہِیْمَ حَنِیْفًا۔ وَا تَّخَذَ اللّٰہُ اِبْرَاہِیْمَ خَلِیْلًا(النساء: آیت126)

اور دین میں اس سے بہتر کون ہو سکتا ہے جو اپنی تمام تر توجہ اللہ کی خاطر وقف کردے اور وہ احسان کرنے والا ہو اور اس نے ابراہیمِ حنیف کی ملّت کی پیروی کی ہو اور اللہ نے ابراہیم کو دوست بنا لیا تھا۔

اس آیت میں اسلام کی تعلیمات کا خلاصہ بیان کر دیا گیاہے۔یعنی مکمل فرمانبرداری اور اپنی تمام طاقتوں کے ساتھ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پیروی کرنے، اس کے دین کی خاطر اپنے آپ کو وقف کرنے اور احسان کرنے والاہو۔پس چونکہ وہ اللہ کی خاطر احسان کرنے والا ہوگا اس لئے کسی کو یہ خیال نہیں آنا چاہئے کہ اگر ہر وقت وہ دین کی طرف اور دین کی خدمت کی طرف رہا تو اس کا مال یا اولاد ضائع ہوجائے گی۔ نہیں،بلکہ اللہ تعالیٰ جو سب سے بڑھ کر بدلہ دینے والا ہے، اجردینے والاہے، اس کے اس فعل کا خود اجر دے گا۔ جیساکہ پہلے بھی بیان کیاگیاہے کہ خود اس کے جان،مال،آبروکی حفاظت کرے گا۔ایسے لوگوں کو، ان کی نسلوں کو بھی اللہ تعالیٰ ضائع نہیں کرتا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’بَلٰی مَنْ اَسْلَمَ وَجْہَہٗ لِلّٰہِ وَھُوَ مُحْسِنٌ فَلَہٗ اَجْرُہٗ عِنْدَ رَبِّہٖ وَلَاخَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ(البقرۃ: آیت113)۔

یعنی جو شخص اپنے وجودکوخدا کے آگے رکھ دے اور اپنی زندگی اس کی راہوں میں وقف کرے اور نیکی کرنے میں سرگرم ہو سو وہ سرچشمۂ قربِ الٰہی سے اپنا اجر پائے گا۔ اور اُن لوگوں پر نہ کچھ خوف ہے نہ کچھ غم۔ یعنی جو شخص اپنے تمام قویٰ کو خدا کی راہ میں لگادے اور خالص خدا کے لئے اس کا قول اور فعل اور حرکت اور سکون اور تمام زندگی ہو جائے اور حقیقی نیکی بجا لانے میں سرگرم رہے سو اس کو خدا اپنے پاس سے اجر دے گا اور خوف اور حُزن سے نجات بخشے گا۔‘‘

(سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب۔ روحانی خزائن۔ جلد 12 صفحہ344)

ایک حدیث میں آتاہے۔معاویہ بن حَیدہ قُشیری رضی اللہ عنہ اپنے اسلام لانے کا قصہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مَیں رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچا۔ مَیں نے پوچھا ’’آپؐ کو ہمارے ربّ نے کیا پیغام دے کر بھیجا ہے اور کیا دین لائے ہیں؟‘‘۔ آپؐ نے فرمایا: ’’خدا نے مجھے دین اسلام دے کر بھیجا ہے‘‘۔مَیں نے پوچھا ’’دین اسلا م کیا ہے‘‘۔ حضورﷺ نے جواب دیا: ’’اسلام یہ ہے کہ تم اپنی پوری ذات کو اللہ کے حوالے کردو اور دوسرے معبودوں سے دست کش ہو جائو۔ اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو۔‘‘

(1۔ کنزالعمّال لعلاء الدّین المتّقی الھندی۔ کتاب الایمان والاسلام من قسم الافعال۔ وفیہ اربعۃُ ابواب۔ الباب الاوّل۔ الفصل الثانی فی حقیقۃ الاسلام

2۔ شُعَب الایمان للبیھقی۔ السادس والسّتّون من شعب الایمان۔ وھو باب فی مُبَاعدۃِ الکفّار والمفسدین والغلظۃ علیھم)

پھر ایک روایت یہ ہے۔حضرت سفیان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ مَیں نے کہا کہ اے اللہ کے رسولؐ!مجھے اسلام کی کوئی ایسی بات بتائیے جس کے بعد کسی اور سے پوچھنے کی ضرورت نہ رہے یعنی میری پوری تسلی ہو جائے۔ حضورﷺ نے جواب دیا :تم یہ کہو کہ مَیں اللہ تعالیٰ پرایمان لایا، پھراس پر پکے ہو جائو اور استقلال کے ساتھ قائم رہو۔

(صحیح مسلم۔ کتاب الایمان۔ باب جامع اوصاف الاسلام)

صحابہ کا کیا فعل تھا۔ایک حدیث میں یہ واقعہ ہے۔ ابتداء میں جب شراب اسلام میں حرام نہیں تھی۔صحابہ بھی شراب پی لیا کرتے تھے اوراکثر نشہ بھی ہوجایا کرتا تھا۔ لیکن اس حالت میں بھی ان پردین اوردین کی عزت کا غلبہ رہتا تھا۔ یہ فکر تھی کہ سب چیزوں پر دین سب سے زیادہ مقدم ہے۔ چنانچہ جب شراب کی حرمت کا بھی حکم آیاہے تو جو لوگ مجلس میں بیٹھے شراب پی رہے تھے بعض ان میں سے نشہ میں بھی تھے۔ جب انہوں نے اس کی حرمت کا حکم سنا تو فوراً تعمیل کی۔ اس بارہ میں حدیث ہے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مَیں ابوطلحہ انصاری، ابوعبیدہ بن جراح اور ابی بن کعب کو کھجور کی شراب پلا رہا تھا۔ کسی آنے والے نے بتایا کہ شراب حرام ہوگئی ہے۔ یہ سُن کر ابوطلحہ نے کہا کہ انس اُٹھو اور شراب کے مٹکوں کو توڑ ڈالو۔ انس کہتے ہیں کہ مَیں اٹھا اور پتھر کی کونڈی کا نچلا حصہ مٹکوں پر دے مارا اور وہ ٹوٹ گئے۔

(صحیح بخاری۔ کتاب اخبارالاَحَادِ۔ باب ماجاء فی اجازۃ خَبَرِ الواحد الصُّدوق)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button