حضرت مصلح موعود ؓ

احمدیت زندہ ہے زندہ رہے گی اور دنیا کی کوئی طاقت اسے مٹا نہیں سکے گی

از: حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے یہ مختصر خطاب مورخہ 26؍دسمبر 1939ء کو جلسہ سالانہ قادیان کا افتتاح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا۔اِس روح پروراور ایمان افروز خطاب کے آغاز میں حضور انور نے غیر مبائعین میں سے بعض کے اِس قسم کے دعووں کا ذکر فرمایا جن میں احمدیت کے چند سال کے اندر اندر نیست ونابود ہو جانے اور عیسائیت کا غلبہ ہو جانے کی پیشگوئیاں کی گئی تھیں اور فرمایا کہ یہ دعوے کرنے والے خود بھی گزر گئے اور اُن کے ساتھی بھی گزر گئے مگر احمدیت خدا کے فضل سے دن دُگنی اور رات چوگنی ترقی کی طرف گامزن ہے۔ ۲۶ سال قبل یہاں چند سَو آدمی جمع ہوتے تھے مگر آج خدا کے فضل سے ہزاروں افراد جمع ہیں۔

اِس کے بعد حضور انور نے پوری دنیا میں احمدیت کی غیر معمولی ترقیات کا ذکر کرتے ہوئے سیرالیون میں دو رئیسوں کے پانچ صد افراد کے ہمراہ احمدیت میں داخل ہونے کی خوشخبری سنائی ۔ آخر پر حضور انور نے بعض دعاؤں کی تحریک فرمائی۔

تقریر فرمودہ 26؍ دسمبر 1939ء برموقع جلسہ سالانہ خلافت جوبلی قادیان

تشہد، تعوّذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:

میں سورہ فاتحہ کی تلاوت کر رہا تھا اور ابھی پہلی ہی آیت مَیں نے پڑھی تھی کہ میری نگاہ سامنے تعلیم الاسلام ہائی سکول پر پڑی اور مجھے وہ نظارہ یاد آ گیا جو آج سے 25سال پہلے اُس وقت رونما ہو ا تھا جب جماعت میں اختلاف پیدا ہو ا تھا اور عمائد کہلانے والے احمدی جن کے ہاتھوں میں سلسلہ کا نظم و نسق تھا، انہوں نے اپنے تعلقات ہم سے قطع کر لیے اور گویا اس طرح خفگی کا اظہار کیا کہ اگر تم ہمارے منشاء کے ماتحت نہیں چلتے تو لو کام کو خود سنبھال لو، ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

اس وقت ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے جو اَب فوت ہو چکے ہیں اس مدرسہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاتھا کہ ہم جاتے ہیں اور تم دیکھ لو گے کہ اس جگہ پر دس سال کے اندر اندر احمدیت نابود ہو کر عیسائیوں کا قبضہ ہو جائے گا اس کے بعد وہ دس سال گزرے، پھر ان کے اوپر دس سال اَور گزر گئے، پھر ان پر چھ سال اَور گزر گئے لیکن اگر اُس وقت چند سَو آدمی احمدیت کا نام لینے والے یہاں جمع ہوتے تھے تو آج یہاں ہزاروں جمع ہیں اور ان سے بھی زیادہ جمع ہیں جو اس وقت ہمارے رجسٹروں میں لکھے ہوئے تھے اور اس لیے جمع ہیں تاکہ خدائے واحد کی تسبیح و تمجید کریں اور اس کے نام کو بلند کریں (اَللّٰہُ اَکْبَرُ کے نعرے)
یہاں عیسائیت کا قبضہ بتانے والا مر گیا اور اس کے ساتھی بھی مر گئے، ان کا واسطہ خدا تعالیٰ سے جا پڑا مگر احمدیت زندہ رہی زندہ ہے اور زندہ رہے گی دنیا کی کوئی طاقت اسے مٹا نہ سکی اور نہ مٹا سکے گی۔ عیسائیت کی کیا طاقت ہے کہ یہاں قبضہ جمائے۔ عیسائیت تو ہمارا شکار ہے اور عیسائیت کے ممالک ہمارے شکار ہیں۔ عیسائیت ہمارے مقابلہ میں گرے گی اور ہم اِنْشَاءَ اللّٰہُ فتح پائیں گے (نعرہ ہائے تکبیر)
وہ دن گئے جب مریم کا بیٹا خدا کہلاتا تھا۔ مریم کے جسمانی بیٹے کو انیس سَو سال تک دنیا میں خدا کی توحید کے مقابلہ میں کھڑا کیا گیا اور بہتوں کو خدا تعالیٰ کی توحید سے پھرا دیا گیا مگر اب جو مریم کا روحانی بیٹا خداتعالیٰ نے کھڑا کیا ہے وہ خداتعالیٰ کی بادشاہت زمین میں اسی طرح قائم کرے گا جس طرح اس کی بادشاہت آسمان پر قائم ہے۔

آج ہم اس جگہ پھر جمع ہوئے ہیں اس لیے کہ اپنی عقیدت اور اپنا اخلاص اپنے رب سے ظاہر کریں اور دنیا کو بتا دیں کہ احمدیت خداتعالیٰ کے نام کو بلند کرنے کی خاطر متفقہ جدوجہد کرنے کے لیے کھڑی ہے اور خداتعالیٰ کے دین کے لیے ہر ممکن قربانی کرنے کے لیے آمادہ ہے۔ احمدی کہلانے والے پھر ایک دفعہ یہاں جمع ہوئے ہیں اس لیے کہ ان کا ایک دوسرے کے گھر جا کر ایک دوسرے کے متعلق یہ دیکھنا مشکل ہے کہ ان کا کیا حال ہے۔ لاہور کے کسی بازار میں اتفاقاً ایک احمدی دوسرے احمدی کو دو سال بعد دیکھتا تو اسے خیال پیدا ہوتا کہ وہ مرتد تو نہیں ہو گیا۔ اسی طرح چند سال کے بعد ایک احمدی دوسرے احمدی کو امرتسر کے بازار میں دیکھتا تو خیال کرتا نہ معلوم احمدیت سے اس کا تعلق ہے یا نہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ کی حکمت نے چاہا کہ احمدی ہر سال مرکز میں جمع ہوں، زیادہ سے زیادہ تعداد میں جمع ہوں اور مخالفین سے یہ کہتے ہوئے جمع ہوں کہ دیکھ لو خداتعالیٰ زیادہ سے زیادہ احمدیت کو ترقی دے رہا ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ ہم قادیان کے فاتح ہیں، ہم قادیان کو مٹا دیں گے مگر وہ آئیں اور دیکھیں کہ ان کے مٹانے سے کس طرح احمدیت بڑھ رہی ہے۔

بچپن میں ہم ایک قصہ سنا کرتے تھے اور اسے لغو سمجھتے تھے مگر روحانی دنیا میں وہ درست ثابت ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کوئی دیو تھا۔ اسے جب قتل کیا جاتا تو اس کے خون کے جتنے قطرے گرتے اتنے ہی اَور دیو پیدا ہو جاتے۔ معلوم ہوتا ہے انبیاء کی جماعتوں کا ہی یہ نقشہ کھینچا گیا ہے کیونکہ انہیں جتنا کُچلا جائے، جتنا دبایا جائے اتنی ہی بڑھتی ہیں اور جتنا گرایا جائے اتنی ہی زیادہ ترقی کرتی ہیں۔

پس اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہر ملک، ہر علاقہ اور ہر میدان میں احمدیت کی ترقی کے سامان کر دیے ہیں اور احمدیت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے اور نئے نئے ممالک میں احمدی جماعتیں قائم ہو رہی ہیں۔ سیرالیون سے جو مغربی افریقہ میں ہے حال ہی میں اطلاع موصول ہوئی ہے، اس کے متعلق کسی قدر تفصیلی حالات تو اگلے لیکچر میں بیان کروں گا اتنا بیان کر دینا اِس وقت مناسب ہے کہ اس جگہ سال بھر سے ایک مبلغ بھیج دیا گیا تھا۔ وہاں شروع میں حکومت نے بھی مخالفت کی اور غیرمبائعین کا اثر بھی ہمارے خلاف کام کر رہا تھا مگر پرسوں وہاں کے مبلغ کی طرف سے اطلاع موصول ہوئی ہے کہ وہاں کے دو رئیس پانچ سَو آدمیوں کے ساتھ احمدی ہو گئے ہیں تو خدا تعالیٰ اپنے فضل سے

یَدۡخُلُوۡنَ فِیۡ دِیۡنِ اللّٰہِ اَفۡوَاجًا (سورہ النصر:3)

کے نظارے دکھا رہا ہے اور ابھی یہ کیا ہے۔ پنجابی میں جسے وَنگی (مثل، نمونہ)کہا جاتا ہے۔ وہ یہ ہے یعنی ایک دُکاندار کے پاس جاؤ تو وہ نمونہ کے طور پر تھوڑی سی چیز دکھاتا ہے کہ دیکھو کیسی اچھی ہے۔ پس یہ تو وَنگی ہے جو اللہ تعالیٰ جماعت کو دکھا رہا ہے ورنہ جماعت کے لیے بہت بڑی بڑی فتوحات مقدر ہیں جو ضرور حاصل ہوں گی۔ پس آؤ! دین کی خدمت کرنے کا مخلصانہ وعدہ کرو اور پھر دیکھو کہ کس طرح خداتعالیٰ کے فضل کے خزانے تمہارے لیے کھولے جاتے ہیں۔

…… اِس وقت میں جلسہ کا افتتاح کرتا ہوا اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ اس نے اپنی رحمتیں اور افضال جو اس وقت تک کیے آئندہ ان سے بڑھ کر فرمائے تاکہ ہماری حقیر کوششیں بار آور ہوںاور ہم اس کے فضلوں کے پہلے سے زیادہ مَورد ہوں۔ وہ ہماری کوششوں میں برکت دے تاکہ دنیا کے کناروں تک اسلام اور احمدیت پھیل جائے اور احمدیت کو ہر جگہ غلبہ اور شوکت عطا فرمائے۔ پھر مَیں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق نہ دے کہ جب ہم میں طاقت اور غلبہ آئے تو ہم ظالم بن جائیں یا سُست اور عیش پرست ہو جائیں بلکہ پہلے سے زیادہ متواضع، پہلے سے زیادہ رحم دل اور پہلے سے زیادہ اپنی زندگیاں خداتعالیٰ کے لیے خرچ کرنے والے ہوں۔ مسیح کا یہ کہنا کہ اونٹ کا سوئی کے ناکہ میں سے گزر جانا آسان ہے لیکن دولت مند کا خدا کی بادشاہت میں داخل ہونا مشکل ہے غلط ہے۔ اسلام یہ کہتا ہے کہ عزت اور شوکت اور غلبہ اور طاقت چاہو اور خداتعالیٰ جو دُنیوی انعامات دے ان کو قبول کرو لیکن اس عزت،اس دولت اور اس طاقت کو خدا کے لیے اور اس کی مخلوق کی بھلائی اور بہتری کے لیے استعمال کرو۔ پس میں یہ نہیں کہتا کہ خداتعالیٰ ہمیں عزتیں،طاقتیں اور شوکتیں نہ دے جو اس نے پہلے نبیوں کی جماعتوں کو دیں کیونکہ یہ ناشکری ہے مگر یہ دعا کرو کہ جب وہ اپنے فضل و کرم سے ترقیاں عطا کرے اور انعامات نازل کرے تو احمدی ان احسانوں کی قدر کریں اور اللہ تعالیٰ کے لیے اس کے دین کی اشاعت کے لیے اور اس کی مخلوق کی بھلائی کے لیے خرچ کریں۔

پھر یہ دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو ہمیشہ فتنوں سے محفوظ رکھے اور جب کوئی فتنہ پیدا ہو تو اس پر غلبہ عطا کرے دشمنوں کی تدبیروں کوناکام اور خائب وخاسر رکھے۔ پھر یہ دعا کرو کہ خداتعالیٰ ہمارے اعمال میں اصلا ح اور برکت پیدا کرے کیونکہ جب تک نیک ارادہ کے ساتھ اعمال کی اصلاح نہیں ہوتی، کامیابی نہیں حاصل ہو سکتی۔ پھر ان مبلغین کے لیے دعاکرو جن کے دل چاہتے تھے کہ آج ہمارے ساتھ ہوتے اور خداتعالیٰ کے اس نشان کو دیکھتے جو احمدیت کی ترقی کا اس نے ظاہر کیا ہے مگر خداتعالیٰ کے کام میں مصروف ہونے کی وجہ سے نہیں آ سکے۔ وہ گو جسمانی طور پر ہم سے دور ہیں لیکن ان کے دل ہمارے ساتھ ہیں۔ کئی ہیں جو ہمارے قریب بیٹھے ہیں اور ان کے دل دور ہیں۔ مگر وہ جو دور بیٹھے ہیں، وہ ہمارے دل میں ہیں، ہمارے دماغ میں ہیں، ہماری محبت ان کے لیے ہے اور ہم ان کے لیے دعا گو ہیں۔

پھر اپنی اولادوں کے لیے دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ ان کو دین کا خادم بنائے ان میں

نَسْلاً بَعْدَ نَسْلٍ

احمدیت کو اس طرح قائم رکھے کہ وہ دین کے مخلص خدمتگار ہوں۔ خداتعالیٰ ان سے خوش ہو اور وہ خداتعالیٰ سے خوش ہوں اور اس کی برکتوں کے ابدی وارث بنیں۔آمین

(الفضل 3؍جنوری 1940ءصفحہ 3)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button