متفرق مضامین

1953ء کی تحقیقاتی عدالت میں عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب کی طرف منسوب بیان کی اصل حقیقت

(ڈاکٹر مرزا سلطان احمد)

ایک ویڈیو میں بیان کردہ افسانہ

بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ہم جماعت احمدیہ کے خلاف کوئی بیان سنتے ہیں یا کوئی تحریر پڑھتے ہیں۔ اور یہ واضح نظر آ رہا ہوتا ہے کہ اس میں مخالفین نے غلط بیانی سے کام لیا ہے۔ اکثر اوقات ہم فوراً کہتے ہیں کہ حوالہ غلط دیاگیا ہے یا یہ کہ نا مکمل عبارت پڑھی گئی یا غیر یقینی کی کیفیت میں کہتے ہیں کہ ان عقائد کا جماعت احمدیہ سے کوئی تعلق نہیں۔ یا اٹھ کر حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی کتاب سے حوالہ دیکھ کر تاسّف سے کہتے ہیں کہ یہ لوگ کتنا جھوٹ بول رہے ہیں۔ آخر میں کسی مضمون، کتاب یا کسی پروگرام میں ثبوت پیش کیے جاتے ہیں کہ یہ الزامات غلط تھے۔ اور ایسا کرنا ضروری ہے ورنہ ایک طبقہ غلط بیانی کرنے والوں کے جھوٹ کو ہی سچ سمجھنے لگتا ہے۔ خاص طور پر پاکستان میں ایک جملہ تو اب اکثر سننے کو ملتا ہے کہ تاریخ کا قتل کیا گیا ہے۔

تاریخ کے قاتل کا نفسیاتی تجزیہ ضروری ہے

لیکن ایک نکتہ ہم اکثر فراموش کر دیتے ہیں کہ تاریخ کا قاتل یہ قتل کیوں کر رہا ہے؟ ایک آسان جواب تو یہ دیا جا سکتا ہے کہ یہ غلط بیانی جماعت احمدیہ کی مخالفت میں کی جا رہی ہے۔ یہ تو ٹھیک ہے لیکن اس بات کی ضرورت ہے کہ ہر مخالفت کی رو کا نفسیاتی تجزیہ کیا جائے۔ جب ہم کسی مخالفت کی رو کا نفسیاتی تجزیہ کریں گے تو اس کے پیچھے کارفرما محرکات کو سمجھنے میں آسانی ہو گی۔ ہم یہ حقیقت فراموش نہیں کر سکتے کہ کسی بھی الٰہی جماعت کی دنیا میں وہی پوزیشن ہوتی ہے جو ایک ڈاکٹر کی ہسپتال میں ہوتی ہے۔ امریکہ میں ایک مرتبہ تحقیق کی گئی تو پتہ چلا کہ جو ڈاکٹر نفسیات میں اعلیٰ تعلیم کے لیے ٹریننگ لے رہے ہوں، ان میں سےچالیس فیصد کو اس ٹریننگ کے دوران کبھی نہ کبھی جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ جن کو گالی گلوچ کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان کی تعداد تو بہت زیادہ ہے۔ لیکن جب کوئی مریض ڈاکٹر کو گالیاں نکال رہا ہو تو جواب میں ڈاکٹر اسے گالی نہیں نکال سکتا۔ جب کوئی ایسا مریض ڈاکٹر کو مارنے کے لیے کوئی چیز اُٹھائے تو با وجود اختیار کے ڈاکٹر اپنی میز پر پڑا پیپر ویٹ اسے نہیں مار سکتا۔ اورنہ ہی وہ ایسے مریض کا علاج ترک کر سکتا ہے۔ لیکن ایسے مریضوں کا نفسیاتی تجزیہ کر کے ڈاکٹروں کی رہ نمائی کی جاتی ہے کہ کس مریض سے انہیں خطرہ ہو سکتا ہے اور اس حملے سے پہلےکی علامات کیا ہوتی ہیں؟ اور یہ کہ ایسی صورت حال سے کیسے نمٹنا ہے؟

حال ہی میں منظرِ عام پر آنے والی ویڈیو

یہ پاکستان کی بد قسمتی ہے کہ چند ماہ سے پاکستان میں جماعت احمدیہ کی مخالفت کی رَو میں تیزی آئی ہوئی ہے۔ اور سوشل میڈیا پر بہت سی ایسی ویڈیوز بھی گردش کر رہی ہیں جن میں جماعت احمدیہ کے خلاف نفرت انگیزی کی گئی ہے۔ ان میں سے ایک ویڈیو یوٹیوب کے چینل ‘الندا ’کی طرف سے جاری کی گئی ہے۔ چونکہ دس لاکھ سے زائد افراد اس ویڈیو کو دیکھ چکے ہیں اور دو ہزار سے زائد افراد اس پر تبصرے کر چکے ہیں، اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس ویڈیو کا تاریخی اور نفسیاتی تجزیہ پیش کیا جائے۔

پاکستان بننے کے چند سال بعد 1953ء میں لاہور اور پنجاب کے شہروں میں ایک تحریک نے زور پکڑا۔ اس تحریک کا بنیادی مطالبہ تھا کہ احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا جائے اور حضرت چودھری ظفراللہ خان صاحبؓ کو وزیر خارجہ کے عہدے سے برطرف کیا جائے۔ اس تحریک کو شروع کرنے میں سب سے نمایاں کردار مجلس احرار کا تھا۔ احمدیوں کی جانوں اور ان کی املاک کو نشانہ بنایا گیا۔ پہلے پنجاب حکومت نے اس تحریک پر دست شفقت رکھا ہوا تھا لیکن آخر کار حالات حکومت کے قابو سے باہر ہو گئے۔ 6؍ مارچ کو لاہور میں مارشل لاء لگایا گیا۔ اور جسٹس کیانی اور جسٹس منیر پر مشتمل ایک تحقیقاتی عدالت قائم کر دی گئی تاکہ یہ تعین کیا جائے کہ ان فسادات کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ 4؍ ستمبر 1953ء کو جماعت احمدیہ کے اشد مخالف اورمجلس احرار کے قائد عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب کو بھی گواہی کے لیے اس عدالت میں طلب کیا گیا۔ یہ ویڈیو تحقیقاتی عدالت میں اسی گواہی کے بارے میں ہے۔

ویڈیو کا سنسنی خیز آغاز

ویڈیو شروع ہوتے ہی سکرین پر اسلام آباد میں سپریم کورٹ آف پاکستان کی موجودہ عمارت نظر آتی ہے۔ حالانکہ اس تحقیقاتی عدالت کی ساری کارروائی لاہور میں ہوئی تھی۔ ابھی تو اسلام آباد کا سنگ بنیاد بھی نہیں رکھا گیا تھا۔ ویڈیو ان الفاظ سے شروع ہوتی ہے:

’’اسیر ختم نبوت، امیر شریعت پورے قلندرانہ جاہ و جلال اور ایمانی جرأت و وقار کے ساتھ کمرہ عدالت میں داخل ہوئے۔ سرفروشان احرار نے پورے ہائی کورٹ کو اپنے حصار میں لے رکھا تھا۔ عدالت کے دروازے پر ہزاروں فدائین ختم نبوت اور شمع رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے پروانے نعرہ زن تھے۔ نعرہ تکبیر! اللہ اکبر!تاج و تخت ختم نبوت! زندہ باد! مرزائیت! مردہ باد!‘‘

مطلب واضح ہے کہ یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ جب عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب کمرہ عدالت میں داخل ہوئے تو ’’جاہ و جلال‘‘ کی ایک خاص کیفیت ان پر طاری تھی۔ اور مجلس احرار کے لاکھوں کارکنان وہاں موجود تھے جنہوں نے کمرہ عدالت کو گھیرے میں لیا ہوا تھا اور وہ بہت جوش میں تھے۔ اُس زمانے میں ویڈیو بنانے کے کم رواج کے با وجود اس ویڈیو میں ان پرجوش کارکنان کی ایک سیاہ اور سفید تصویر دکھائی گئی۔ ظاہری بات ہے ہمیں اس تصویر میں دلچسپی پیدا ہوئی۔ جب اس تصویر کو بڑا کر کے دیکھا تو اس میں ایک جم غفیر نظر آ رہا ہے۔ اور اس کی وسط میں خواتین کی لائن نظر آ رہی ہے۔ یہ خواتین سفید ساڑھیوں میں ملبوس تھیں۔ جب انٹر نیٹ پر چیک کیا گیا تو یہ تصویر تحقیقاتی عدالت کے باہر کھڑے ہوئے کارکنان کی نہیں بلکہ کانگرس کے ایک جلوس کی ہے۔ خواتین کا یہ جلوس 1940ء کی دہائی میں ’’ہندوستان چھوڑ دو‘‘ تحریک کے دوران نکالا گیا تھا۔ اس کی تصویر نیشنل گاندھی میوزیم میں بھی محفوظ ہےاوردرج ذیل سائٹ پر اسے ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔

https://scroll.in/magazine/846927/in-photos-when-gandhis-message-was-a-mass-movement-from-champaran-to-bombay

ویڈیو میں عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب کی کیا گواہی بیان کی گئی ہے؟

ان تمہیدی جملوں کے بعد اس ویڈیو میں تحقیقاتی عدالت میں عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب کی گواہی کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ اس میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے نیچے درج کیا جاتا ہے۔ (مجلس احرار کے حلقوں میں عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب کو ’امیر شریعت‘ کے لقب سے پکارا جاتا ہے۔ )

’’خواتین و حضرات۔ جسٹس منیر متعصب قادیانی نواز تھا، وه علماء کو کمره ٔعدالت میں بلا بلا کر بے عزت کر رہا تھا۔ تحریک ختم نبوت کو احرار احمدی نزاع اور فسادات پنجاب کا نام دیتا تھا۔ اسلام کو موضوع بحث بنا کر علماء کا مذاق اڑا رہا تھا، اور اپنے قادیانی آقاؤں اور محسنوں کو خوش کر رہا تھا۔ لیکن ایک دن وه اپنی ہی عدالت میں پکڑا گیا۔ اس نے قائد تحریک تحفظ ختم نبوت امیر شریعت سید عطاء الله شاه بخاری کو عدالت میں طلب کر لیا۔ حکومت نے بیان داخل کرانے کے لیے امیر شریعت کو سکھر جیل سے لاہور سنڑل جیل منتقل کر دیا۔ محترم ناظرین پیشی کی تاریخ پر امیر شریعت اور ان کے قیدی رفقاء کو سخت پہره ٔعدالت میں لایا گیا۔ عدالتی ہرکارے نے آواز لگائی، ’’سرکار بنام عطاء الله شاه بخاری۔ ‘‘ محترم ناظرین۔ اب اسیر ختم نبوت امیر شریعت پورے قلندرانہ جاه و جلال اور ایمانی جرأت و وقار کے ساتھ کمره ٔعدالت میں داخل ہوئے، سرفروشان احرار نے پورے ہائی کورٹ کو اپنے حصار میں لے رکھا تھا۔ عدالت کے دروازے پر ہزاروں فدائیان ختم نبوت اور شمع ناموس رسالت ﷺکے پروانے نعره زن تھے، ’’نعره تکبیر! الله اکبر! تاج و تخت ختم نبوت! زنده باد! مرزائیت! مرده باد!‘‘امیر شریعت نےعدالت کے دروازے پر کھڑے ہوکر ہتھکڑیاں فضا میں لہرائیں اور ہاتھ سے اشاره کیا۔ حکم ہوا ’’خاموش‘‘۔ تمام مجمع ساکت و جامد ہوا، امیر شریعت عدالت میں داخل ہوگئے۔ محترم ناظرین۔ جسٹس منیر بغض و حسد سے بھرا ہوا، غصہ سے لال پیلا، گردن تنی ہوئی اور تکبر و غرور کا پیکر بنا کرسی پر بیٹھا تھا۔ مرد مومن کے چہره انور پر نگاه پڑی تو اس کی آنکھیں جھک گئیں۔ جسٹس منیر دوسری مرتبہ آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی ہمت نہ کر سکا۔ محترم ناظرین۔ عدالت کی کارروائی شروع ہوئی، امیر شریعت نے اپنا تحریری بیان عدالت میں پیش کیا۔ جسٹس منیر نے ایک نظر بیان کو دیکھا، جسے اس نے منیر انکوائری رپورٹ میں شامل نہیں کیا، اور پھر اپنے مخصوس چبھتے ہوئے انداز میں سوالات کا آغاز کر دیا۔

جسٹس منیر :ہندوستان میں اسوقت کتنے مسلمان ہیں؟

امیر شریعت : سوال غیر متعلق ہے مجھ سے پاکستان کے مسلمانوں کے باره میں پوچھیں۔

جسٹس منیر :[ تمسخر آمیز لہجے میں]: ہندوستان اور پاکستان میں جنگ چھڑ جائے تو ہندوستان کے مسلمانوں کو کیا کرنا چاہئے؟

امیر شریعت :ہندوستان میں علماء موجود ہیں وه بتائیں گے۔

جسٹس منیر[ طنز کرتے ہوئے]: آپ بتادیں؟

امیر شریعت: پاکستان کے باره میں پوچھیں، یہاں کے مسلمانوں کو کیا کرنا چاہئے۔

جسٹس منیر :مسلمان کی کیا تعریف ہے؟

امیر شریعت :اسلام میں داخل ہونے اور مسلمان کہلانے کے لیے صرف کلمہ ٔشہادت کا اقرار و اعلان ہی کافی ہے، لیکن اسلام سے خارج ہونے کی ہزاروں وجوہات ہیں، ضروریات دین میں کسی ایک کا انکار کفر کے ماسوا کچھ نہیں، الله کی صفات عالیہ میں سے کسی ایک کو بھی انسانوں میں مانا تو مشرک، قرآن کریم کی کسی ایک آیت یا جملہ کا انکار کیا تو کافر، اور نبی کریم ﷺ کے منصب ختم نبوت کے بعد کسی انسان کو کسی بھی حیثیت میں نبی مانا تو مرتد۔

جسٹس منیر[قادیانی وکیل کی طرف اشاره کرتے ہوئے]:ان کے باره میں کیا خیال ہے؟

امیر شریعت :خیال نہیں عقیده ہے، جو ان کے بڑوں کے باره میں ہے۔

مرزائی وکیل :نبی کی کیا تعریف ہے؟

امیر شریعت: میرے نزدیک اسے کم از کم ایک شریف آدمی ہونا چاہیے۔

جسٹس منیر:[ بدتمیزی کے انداز میں ] آپ نے مرزا قادیانی کو کافر کہا ہے؟

امیر شریعت : میں اس سوال کا آرزو مند تھا، کوئی بیس برس پہلے کی بات ہے، یہی عدالت تھی جہاں آپ بیٹھے ہیں۔ یہاں چیف جسٹس مسٹر جسٹس ڈگلس ینگ تھے، اور جہاں مسٹر کیانی بیٹھے ہیں، یہاں رائے بہادر جسٹس رام لال تھے۔ یہی سوال انہوں نے مجھ سے پوچھا تھا، وہی جواب آج دہراتا ہوں، میں نے ایک بار نہیں ہزاروں مرتبہ مرزا کو کافر کہا ہے، کافر کہتا ہوں، اور جب تک زنده رہوں گا کافر کہتا رہوں گا۔ یہ میرا ایمان اور عقیده ہے اور اسی پر مرنا چاہتا ہوں۔ مرزا قادیانی اور اس کی ذریت کافر و مرتد ہے، مسیلمہ کذاب اور ایسے ہی دیگر جھوٹوں کو دعوئ نبوت کے جرم میں قتل کیا گیا۔

جسٹس منیر:[غصے سے بے قابو ہوکر، دانت پیستے ہوئے] اگر غلام احمد قادیانی آپ کے سامنے یہ دعویٰ کرتا تو آپ اسے قتل کر دیتے؟

امیر شریعت :میرے سامنے اب کوئی دعویٰ کر کے دیکھ لے۔

محترم ناظرین۔ حاضرین عدالت نعره تکبیر الله اکبر، ختم نبوت زنده باد، مرزائیت مرده باد۔ کمره عدالت نعره ٔسے لرز گیا۔

جسٹس منیر نے بوکھلا کر کہا: توہین عدالت؟

امیر شریعت نے جلا ل میں آکر فرمایا: توہین رسالت۔

محترم ناظرین جسٹس منیر دم بخود، خاموش، مبہوت، حواس باختہ چہرہ زرد ہوش عنقا پسینہ پونچھنے لگا۔

عدالت امیر شریعت کی جرأت ایمانی اور جذبہ حب رسول ﷺ دیکھ کر سکتہ میں آچکی تھی۔ امیر شریعت نے گرجدار آواز میں پوچھا، ’’کچھ اور؟‘‘جسٹس منیر پریشانی میں بڑبڑاتے ہوئے، ’’میرا خیال ہے ہمیں مزید کچھ بھی نہیں پوچھنا چاہئے، عدالت برخاست ہوتی ہے۔ ‘‘

یہی تفصیلات مخالفین جماعت کی اس سائٹ پر بھی ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔

http://www.khatm-e-nubuwwat.org/LeafLet/text/10Mujahdeen-kn/10-20.htm

اصل گواہی کہاں پر پڑھی جا سکتی ہے؟

اس ویڈیو میں بیان کردہ روایت کے مطابق عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب کمرہ عدالت میں شیر کی طرح گرج رہے تھے۔ عدالت ان کے جوابوں سے بوکھلا گئی تھی۔ بلکہ جسٹس منیر کا رنگ زرد ہو گیا تھا اور یہ جوابات سن کر بالکل حواس باختہ ہو گیا تھا۔ حالانکہ کوئی واجبی تعلیم والا بھی ان جوابات کو پڑھ کر اسی نتیجہ پر پہنچے گا کہ ان جوابات میں کوئی ایسی خاص بات نہیں کہی گئی تھی۔ نہ کوئی علمی نکتہ بیان کیا گیا تھا۔ بلکہ اس گواہی کے بہت سے پہلو ایسے تھے جن پر بڑی آسانی سے گرفت ہو سکتی تھی اور تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ میں ان پر تبصرہ بھی کیا گیا ہے۔ اس ویڈیو بنانے والوں کو شاید اس بات کا علم نہیں کہ تحقیقاتی عدالت کی ساری کارروائی کی کاپیاں تمام فریقوں کو مہیا کی جاتی تھیں اور جماعت احمدیہ کو بھی مہیا کی گئی تھیں۔ اور یہ کاپیاں محفوظ ہیں۔ اور ان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس ویڈیو میں بیان کردہ اکثر حصہ خود ساختہ اور جعلی ہے۔ لیکن شاید جماعت احمدیہ کی پیش کردہ کاپیوں کے متعلق یہ کہہ دیا جاتا کہ ہم انہیں تسلیم نہیں کرتے۔ لیکن اس ویڈیو بنانے والوں کی قسمت بہت خراب تھی۔ اس ویڈیو کے اجراء کے دوماہ بعد پاکستان کی ایک مشہور یونیورسٹی نے اپنی سائٹ پراس تحقیقاتی عدالت کا سارا ریکارڈ مہیا کر دیا۔ اور اس ریکارڈ میں عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب کی گواہی بھی شامل ہے۔ ہر کوئی اس کو پڑھ کر یہ دیکھ سکتا ہے کہ اس ویڈیو کو بنانے والوں نے لاف و گزاف کا شوق پورا کرنے کے لیے صرف جھوٹ ہی نہیں بلکہ سفید جھوٹ کا سہارا لیا ہے۔ اسے اس سائٹ پر ملاحظہ کیا جا سکتا ہے

https://archive.lums.edu.pk/anti-ahmaddiyah-reports/

اس کے علاوہ اُس وقت تحقیقاتی عدالت کی کارروائی اور گواہیوں کی خبریں اخبارات میں بھی شائع ہو رہی تھیں۔ عطاءاللہ شاہ بخاری صاحب کی گواہی کی خبر روزنامہ امروز لاہور کی 7؍ستمبر 1953ء کی اشاعت میں اور روزنامہ آفاق کی 8؍ستمبر 1953ء کی اشاعت میں شائع ہوئی تھی۔ اور روزنامہ آفاق اس شورش کے دوران جماعت احمدیہ کے خلاف نفرت انگیز خبریں اور مضامین شائع کرتا رہا تھا۔ اور تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ کے مطابق جب پنجاب حکومت نے جماعت احمدیہ کی مخالفت کرنے والے اخبارات کو’’تعلیم بالغاں‘‘ کے فنڈ سے رقوم نکال کر عطا کیں تو ان میں سب سے بھاری رقوم روزنامہ آفاق کو ہی دی گئی تھیں۔

(ملاحظہ کریں رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب 1953ء صفحہ 84)

[روزنامہ امروز لاہور7؍ستمبر1953ء کی اشاعت کا عکس]

[روزنامہ آفاق8؍ستمبر1953ء کی اشاعت کا عکس]

اس گواہی کی تفصیلات ان اخبارات میں پڑھی جا سکتی ہیں۔ ان اخبارات میں کہیں ذکر نہیں کہ اُس وقت عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب کو دیکھنے کے لیے لاکھوں لوگوں کا مجمع جمع ہو گیا تھا اور نہ اس بات کا کوئی ذکر ہے کہ عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب کو زنجیریں باندھی ہوئی تھیں اور انہوں نے ہوا میں ان زنجیروں کو لہرا کر دکھایا۔ اور نہ اس بات کاکوئی ذکر ہے کہ بخاری صاحب نے شیر کی طرح گرجنا شروع کیا یا یہ کہ عدالت میں اتنے نعرے مارے گئے کہ عدالت کی مضبوط عمارت نعروں سے لرزنے لگی۔ یہ سب لاف و گزاف ’’مشت بعد از جنگ‘‘ کی طرح بعد میں گھڑی گئی تھی۔

اصل گواہی کیا تھی؟

عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب گواہ نمبر 21کی حیثیت سے پیش ہوئے تھے۔ ان کی گواہی پڑھنے سے ظاہر ہوجاتا ہے کہ اس ویڈیو میں بیان کردہ اکثرتفصیلات کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ لیکن چونکہ دس لاکھ سے زائد افراد یہ ویڈیوں دیکھ چکے ہیں اور دو ہزار سے زائد افراد اس پر واہ واہ کے تبصرے بھی کر چکے ہیں اور کئی کتب میں بھی یہی کہانی بیان کی گئی ہے اس لیے مناسب ہوگا کہ اس گواہی کا حرف بحرف اردو ترجمہ پیش کر دیا جائے تاکہ پڑھنے والے خود موازنہ کر سکیں۔ عدالتی کارروائی کا ریکارڈ انگریزی میں ہے۔ اس موقع پر یہ سوال و جواب ہوئے۔

سوال : پاکستان کے قیام کے بارے میں احرار کا نظریہ کیا تھا؟

بخاری: بحیثیت جماعت احرار پاکستان بننے کے حق میں تھے۔

سوال: کیا احرار کے کسی لیڈر نے قائد اعظم کے بارے میں ’’کافر اعظم‘‘ کے الفاظ استعمال کیے تھے؟

بخاری: میں نے سنا ہے کہ مولوی مظہر علی اظہر نے قائد اعظم کے بارے میں یہ الفاظ استعمال کیے تھے۔

سوال: پاکستان بننے کے بعد کیا کسی احراری لیڈر نے پاکستان کو’’پلیدستان‘‘ قرار دیا تھا؟

بخاری: نہیں

سوال: کیا کسی احراری لیڈر نے پاکستان بننے سے پہلے پاکستان کو’’پلیدستان‘‘ قرار دیا تھا؟

بخاری : مجھے علم نہیں

سوال : سرگودھا کے اخبار’’بیباک‘‘ کی یکم اپریل 1952ء کی اشاعت میں ایک احراری لیڈر کی یہ تقریر شائع ہوئی

’’یہ سچ ہے کہ چودھری افضل حق نے پاکستان کو پلیدستان قرار دیا تھا۔ میں اسے دہراتا ہوں کہ انہوں نے وہی کہا تھا جو سچ ہے۔ تم بھی اب یہی کہو گے کہ یہ پلیدستان ہے۔ مجھے بتاؤ جس ملک میں غریب بھوکے مرتے ہوں اور مزدوروں کا برا حال ہو۔ رشوت عام ہو۔ کسی کی شکایت نہ سنی جاتی ہو۔ یہ پاکستان ہے یا پلیدستان ہے۔ ‘‘

کیا آپ کو اس کا کوئی علم ہے؟

بخاری: نہیں۔ یہ بالکل غلط ہے کہ میں نے قائد اعظم کے بارے میں ’’کافر اعظم‘‘ کے الفاظ استعمال کیے تھے یا میں نے یہ کہا تھا کہ اگر پاکستان بن گیا تو میں پیشاب سے اپنی داڑھی مونچھ منڈوا دوں گا۔ حقیقت یہ ہے کہ میں نے جامع مسجد دہلی میں جمعہ کے بعد التجا کی تھی کہ میں قائد اعظم سے مل کر ان کے سامنے اپنا نقطہ نظر پیش کرنا چاہتا ہوں۔

سوال : کیا آپ پاکستان میں ایک اسلامی ریاست کے قیام کی حمایت کرتے ہیں؟

بخاری: ہاں

سوال: اس ریاست میں آپ کفار کو کیا حیثیت دیں گے؟

بخاری: اس سوال کا تعلق آئین سازی سے ہے اور اس کے بارے میں پاکستان کے 36 علماء نے ایک قرارداد منظور کی ہوئی ہے۔

سوال : کیا آپ کو علم ہے کہ اس قرارداد میں پاکستان میں غیر مسلموں کی حیثیت کے بارے میں کچھ کہا گیا ہے؟

بخاری: جہاں تک مجھے اس قرارداد کے الفاظ یاد ہیں، اس میں کہا گیا تھا کہ قانون ساز اسمبلی میں غیر مسلموں کی سیٹیں ہوں گی اور انہیں کچھ حقوق حاصل ہوں گے۔

سوال : آپ کی رائے میں کیا ایک مسلمان پابند ہے کہ ایک کافر حکومت کی فرمانبرداری کرے؟

بخاری: یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک مسلمان ایک غیر مسلم حکومت کا وفادار شہری بن سکے۔

سوال : پوری دنیا میں مسلمانوں کی کل کتنی آبادی ہے؟

بخاری: وہ ستّر کروڑ کے قریب ہیں۔

سوال: ان ستّر کروڑ میں سے کتنے اس اسلامی حکومت کے تحت ہوں گے؟

بخاری : چھ کروڑ کے قریب۔ یہ سارے پاکستان میں ہوں گے۔

سوال : باقی 64کروڑ کا کیا بنے گا؟

بخاری : وہ اپنی قسمت کے بارے میں خود سوچیں۔

سوال: کیا آپ کو علم ہے کہ صلیبی جنگوں کے بعد یورپ میں ایسے آئین موجود تھے جن میں اس قسم کے خیالات کی وجہ سے جن کا پرچار آپ کر رہے ہیں، یہ اعلان کیا گیا تھا کہ مسلمان قانون کی رو سے شہریت کے اہل نہیں ہیں۔

بخاری : مجھے پہلے اس کا علم نہیں تھا لیکن چونکہ عدالت ایسا کہہ رہی ہے تو ایسا ہی ہوگا۔ اگر دوسری غیر مسلم حکومتیں اپنی ریاست کی بنیاد اپنے مذہب پر رکھیں تو مجھے اس پر خوشی ہو گی۔

سوال : خواہ اس کا نتیجہ یہ ہو کہ مسلمان اپنے شہریت کے حقوق کھو بیٹھیں؟

بخاری: بالکل۔ اسلامی حکومت میں ذِمّی کے معین حقوق ہوتے ہیں۔ میں انہیں بغیر کتاب کے بیان نہیں کر سکتا۔ انہیں ریاست کی حفاظت میں قائم کیا جائے گا۔ یہ سربراہ حکومت یا مجلس شوریٰ کا اختیار ہوگا کہ وہ انہیں جو چاہے عہدہ دے۔

سوال : ہندوستان میں کتنے کروڑ مسلمان رہتے ہیں؟

بخاری: چار کروڑ۔

سوال : کیا آپ کو اس پر کوئی اعتراض ہوگا اگر ان پر منو کے قوانین کا اطلاق کیا جائے اور انہیں کوئی شہری حقوق حاصل نہ ہوں؟

بخاری : میں پاکستان میں ہوں انہیں مشورہ نہیں دے سکتا۔

سوال: کیا ان چار کروڑ مسلمانوں کے لیے ممکن ہو گا کہ وہ اپنی ریاست کے وفادار شہری بن سکیں۔

بخاری: نہیں

سوال : اگر پاکستان اور ہندوستان میں جنگ ہو تو ان کا کیا فرض ہوگا؟ کیا وہ پاکستان کی افواج سے لڑ سکتے ہیں؟

بخاری: انہیں خود فیصلہ کرنا چاہیے کہ ان کا کیا فرض ہے؟

سوال: آپ اس ملک کی مستقبل کی حکومت کے بارے میں کیا مشورہ دیتے ہیں؟

بخاری: میں اس کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار نہیں کرنا چاہتا۔ یہ علماء کا کام ہے کہ وہ اس کا جواب دیں۔ میں ایسی حکومت پسند کروں گا جس کی بنیاد اسلام کے اصولوں پر ہو۔ جب تک یہ حکومت اس اصول کے مطابق ہے۔ میں اس بات پر برا محسوس نہیں کروں گا کہ اس کی تفصیلات ایک خالص اسلامی ریاست کے مطابق ہیں کہ نہیں ہیں۔

سوال : کیا آپ کے نزدیک احمدی کافر ہیں۔

بخاری : یقینی طور پر۔

سوال: پاکستان میں ایک اسلامی حکومت قائم ہونے کے بعد ان کافروں سے کیا سلوک ہوگا۔

بخاری : غیر مسلم کی حیثیت سے قانون ساز اسمبلی میں ان کی اپنی نمائندگی ہو گی۔

سوال : کیا انہیں اپنے مذہب کی تبلیغ کرنے کی اجازت ہو گی؟

بخاری : میں اس پر کوئی رائے نہیں دیتا۔ یہ قانون ساز ادارے کا کام ہے۔

سوال : کیا آپ کے نزدیک سیاسی سرگرمیوں کے لیے مساجد کا استعمال جائز ہے؟

بخاری: میں مذہب کو سیاست سے علیحدہ نہیں کرتا۔

[تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ کا عکس ]

حقیقت اور افسانے میں کیا فرق ہے؟

دونوں بیانات کا سرسری مطالعہ ہی اس بات کو واضح کر دیتا ہے کہ اس ویڈیو میں ایک جعلی بیان بنا کر عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ اور اب اس طرح کا خود ساختہ بیان کئی کتب میں بھی شائع ہوا ہے۔

اب ہم اس بات کا جائزہ لیں گے کہ جماعت ِاحمدیہ کے مخالفین کوکس نفسیاتی دباؤ کے تحت یہ خلاف واقعہ بیان بنانے کی ضرورت پڑی ہے۔

1۔ اس ویڈیو کے شروع میں ہی یہ بات بہت زور دے کر کہی گئی ہے کہ جسٹس محمد منیر علماء کے دشمن اور قادیانی نواز تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ تحقیقاتی عدالت کی کارروائی کے دوران بار بار جماعت احمدیہ کے مخالف علماء کا باہمی اختلاف سامنے آیا تھا۔ ان میں سے کچھ کا ذکر تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ میں بھی کیا گیا ہے۔ جب عدالت نے ان علماء کو’’مسلمان‘‘ کی تعریف کرنے کو کہا تو ہر عالم نے دوسرے سے مختلف تعریف پیش کی۔ کچھ نے سزا کے خوف سے یہ بیان دے دیا کہ آخری دنوں میں جو’’راست اقدام‘‘ کا اعلان کیا گیا تھا، ہمارا اس قدم سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ خاکسار کے ایک گذشتہ مضمون میں یہ تفاصیل بیان کی گئی ہیں کہ مختلف فرقوں کے علماء جو جماعت احمدیہ کے خلاف اس تحریک میں شامل تھے، تحقیقاتی عدالت کی کارروائی کے دوران ایک دوسرے کو کافر قرار دے کر اپنا تماشا خود بنا دیا تھا۔ بلکہ جسٹس محمد منیر صاحب نے تو ان علماء پر یہ مہربانی کی تھی کہ ان فتووں کا ذکر اپنی رپورٹ میں نہیں کیا تھا۔ 1953ء سے لے کر اب تک یہ علماء، اپنی خامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے، جسٹس محمد منیر صاحب کو متعصب اور قادیانی نواز قرار دیتے رہے ہیں۔

2۔ عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب کی صحیح گواہی کے ابتدا میں انہوں نے یہ کہا تھا کہ مجلس احرار بحیثیت جماعت پاکستان کے قیام کے خلاف نہیں تھی۔ یہ واضح غلط بیانی تھی۔ تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ کے مطابق وہ ہمیشہ سے پاکستان کے خلاف رہے تھے۔ (ملاحظہ کریں رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب 1953ء صفحہ 10، 11، 272، 273)۔ مجلس احرار نے قرارداد منظور کی تھی کہ ہم نظریہ پاکستان سے کسی صورت اتفاق نہیں کر سکتے۔

(حیات امیر شریعت، مصنفہ جانباز مرزا صفحہ 353)

3۔ کیا آزادی سے پہلے یا آزادی کے بعد احراری لیڈروں نے پاکستان کو’’پلیدستان‘‘ قرار دیا تھا کہ نہیں؟ اس سوال کا جواب بھی غلط تھا۔ خود مجلس احرار کا لٹریچر اس بات کا گواہ ہےکہ مجلس احرار کے لیڈر پاکستان کو’’پلیدستان‘‘ قرار دیا کرتے تھے۔ (ملاحظہ کریں خطبات احرار جلد 1، مرتب شورش کاشمیری صفحہ 83) اور اس کا ایک ثبوت عدالت میں بھی پیش کیا گیا اور بخاری صاحب اس کی کوئی وضاحت پیش نہیں کر سکے۔

4۔ عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب نے عدالت میں کہا کہ کوئی مسلمان کسی غیر مسلم حکومت کا وفادار شہری بن کر نہیں رہ سکتا۔ ہر ذی ہوش یہ محسوس کر سکتا ہے کہ یہ خیالات کروڑوں مسلمانوں کے لیے جو ایسے ممالک میں آباد ہیں جن کی اکثریت مسلمان نہیں ہے زہر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور ان کا کہنا تھا کہ اگر دوسرے ممالک اپنے مذہب کی بنیاد پراپنے قوانین بنائیں تو انہیں خوشی ہو گی، خواہ اس کے نتیجے میں مسلمان شہری حقوق سے بھی محروم ہو جائیں۔ یہ موقف ان کی نفسیات کو ظاہر کرتا ہے۔ ان کے دل میں ان مسلمانوں کے لیے کوئی ہمدردی نہیں پائی جاتی تھی۔

5۔ اصل گواہی کے دوران نہ عدالت نے عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب کے رویہ کو’’ توہین عدالت‘‘ قرار دیا اور نہ بخاری صاحب نے عدالت کو’’توہین رسالت‘‘ کا مجرم قرار دیا۔ یہ حصہ محض زیبِ داستان کے لیے بڑھایا گیا ہے۔ اور غالباً اس کے پیچھے یہ نفسیات کارفرما ہے کہ یہ ثابت کیا جائے کہ احرار کے امیر شریعت دلیری کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ حالانکہ اصل کارنامہ تو تب ہوتا جب وہ عدالت کے سوالات کے کچھ معقول جوابات دیتے۔ اور کوئی علمی اور قانونی نکتہ بیان کرتے۔

6۔ اس ویڈیو میں بتایا گیا ہے کہ عدالت عطاءاللہ شاہ بخاری صاحب کے جوابات سے اتنا گھبرا گئی تھی کہ جسٹس منیر صاحب کو عدالت برخاست کرنی پڑی۔ یہ بھی غلط ہے۔ کیونکہ اس گواہی کے بعد غازی سراج الدین منیر صاحب کو گواہی کے لیے پھر بلا یا گیا تھا۔

7۔ اس گواہی کے دوران عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب نے اس بات کا اظہار نہیں کیا تھا کہ مدعی نبوت واجب القتل ہے۔ یہ حصہ ویڈیو میں منقول بیان میں خود سے بڑھایا گیا ہے۔ غالباً یہ تحریف بھی اپنی نام نہاد شجاعت کا سکہ جمانے کے لیے کی گئی ہے۔ ویسے تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ سے ظاہر ہے کہ جب شجاعت دکھانے کا وقت آیا تو اس شورش کے قائدین سے کسی قسم کی شجاعت کی علامات ظاہر نہیں ہو رہی تھیں۔

ان گذارشات کا خلاصہ یہ ہے کہ تحقیقاتی عدالت میں جماعت احمدیہ کے مخالفین کو بار بار خفّت اُٹھانی پڑی تھی۔ اس احساس ِ کمتری کے ہاتھوں مجبور ہو کر کچھ گروہ اس بات پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ اس قسم کی غلط بیانی کریں۔ جہاں یہ ضروری ہے کہ اس قسم کی مخالفانہ مہم میں بیان کردہ حقائق کا جائزہ لیا جائے، اس کے ساتھ اس بات کی بھی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ اس نوعیت کی غلط بیانیوں کے پیچھے جو نفسیاتی الجھنیں کارفرما ہوتی ہیں، ان کا تجزیہ بھی ضروری ہے۔

اصل حقیقت تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ جب تک پنجاب حکومت سرکاری فنڈز سے مدد کر کے ان فسادات کی سرپرستی کر رہی تھی، تب تک تو پنجاب کے چند شہروں میں یہ شورش پنپتی رہی۔ جونہی قانون حرکت میں آنا شروع ہوا اس شورش کے کچھ قائدین نے معافی ناموں پر دستخط کیے۔ کچھ نے یہ اعلان کیا کہ اس شورش کے آخری مرحلوں میں تو ہمارا کوئی کردار ہی نہیں تھا۔ پنجاب کے جن چند شہروں میں یہ شورش زوروں پر تھی، چند دنوں میں وہاں پر بھی ختم ہو گئی۔ جب تحقیقاتی عدالت میں گواہیاں شروع ہوئیں تو اس شورش کے کئی قائدین نے ایک دوسرے پر الزامات لگانے شروع کر دیے اور حلف اُٹھا کر یہ بیانات دیے کہ اخبارات میں ہمارے سے منسوب جو بیانات چھپے تھے وہ غلط تھے ہم نے تو ایسا کچھ کہا ہی نہیں تھا۔

نفسیات کے ماہرین بتاتے ہیں کہ کئی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ شیخی بگھارنے والا شخص اپنی خامی کو چھپانے کے لیے ایسا رویہ اختیار کر رہا ہوتا ہے۔ مثلاً ایک بزدل شخص اس خامی پر پردہ ڈالنے کے لیے اپنی بہادری کے غلط سلط قصے سنا کر متاثر کرنے کی کوشش کرے گا۔ اس ویڈیو کے پیچھے یہی نفسیات کار فرما نظر آتی ہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

ایک تبصرہ

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button