متفرق مضامین

خلافت کی مضبوط رسی

(امتیاز احمد راجیکی۔ امریکہ)

مسجد بیت الناصر فلاڈلفیا میں نماز جمعہ سے فارغ ہو کر باہر نکلے تو ایک بزرگ دوست نے ایک نوجوان کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بڑی محبت سے کہا: ’’بیٹا، کیا میں کچھ کہہ سکتا ہوں؟‘‘

’’نہیں نہیں انکل، پلیز مجھے کچھ نہ کہیں۔‘‘ نوجوان اپنے گیسوؤں کے بارے میں بزرگ کا ماورائے سخن بھانپتے ہوئے فوراً ہتھے سے اکھڑ گیا۔

’’اچھا اچھا، کوئی بات نہیں۔ پھر کبھی سہی۔‘‘ اس زیرک بزرگ نے مسکراتے ہوئے بات گول کر دی۔

یہ ایک معمولی سا واقعہ تھا جس کی بظاہر کوئی خاص اہمیت نہ تھی، مگر جس پس منظر میں وہ پیش آیا اُس نے مجھے گہری سوچ میں مبتلا کر دیا۔ یہ نوجوان ہماری جماعت کا بڑا ہونہار خادم ہے۔ جماعتی مشاغل اور خصوصیت سے وقارِ عمل کے کٹھن کاموں میں انتھک محنت کرنے والا بڑا سعادت مند نوجوان ہے۔ کچھ عرصے سے اس نے امریکہ کے جدید فیشن کے مطابق اپنے بال سنوارنے شروع کر دیےتھے۔ یہ بھی کوئی ایسی اہم بات نہ تھی، مگر یہ معمولی سی شے رفتہ رفتہ اس کے رویے پر کس طرح اثر انداز ہونے لگی اس نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اور بڑی شدت سے مجھے یہ احساس ہوا کہ ماحول کے اثرات کتنی خاموشی سے اور کیسے غیر محسوس انداز میں انسانی طبائع پر اپنا رنگ جمانا شروع کر دیتے ہیں۔ اور آہستہ آہستہ غالب آ کر اس کی فطرتِ ثانیہ اور کردار کا اٹوٹ انگ بن جاتے ہیں۔

خوش قسمتی سے اگر یہ اثرات مثبت قدروں کے حامل ہوں تو خود بخود اخلاقی تربیت کے سامان پیدا ہو جاتے ہیں اور شخصیت کی ایک حسین عمارت تعمیر ہونا شروع ہو جاتی ہےاور اگر بدقسمتی سے پالا مغرب کے آلودہ ماحول اور خصوصیت سے امریکہ کے بے لگام اور زہرناک معاشرے سے پڑ جائے تو مذہب سے لگاؤ، اخلاقی اور روحانی قدروں کی حفاظت اور تعلق باللہ کا سفر کتنا کٹھن اور پُر صعوبت ہو جاتا ہے اس کا اندازہ ہر اہلِ نظر اپنے اپنے ذوق کے مطابق کر سکتا ہے۔

پاکستان کے احمدی معاشرے اور بالخصوص ربوہ کے ماحول میں جس سکون، ٹھہراؤ اور حفاظت کا احساس ہے وہ یہاں مغرب میں مکمل طور پر عنقا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے وہاں ہر چیز بندھی ہوئی، جمی ہوئی اور تھمی ہوئی ہے۔ اور یہاں ہر شے ٹوٹی ہوئی، بکھری ہوئی اور تتر بتر ہے۔ ربوہ میں ایک پُر سکون، شفاف اور محفوظ تالاب میں پیراکی سے لطف اندوز ہونے کا احساس رہتا ہےایسا تالاب جس کے پانیوں میں مکمل سکوت اور ٹھہراؤ ہو۔ جس کے کنارے جانچے ہوئے اور گہرائیاں ناپی ہوئی ہوں۔ جس کے ہر موڑ اور کونے پر حفاظت کے لیے چابک دست اور مشاق غوطہ زن، لائف گارڈ کی ڈیوٹی پر مامور ہوں اور ہر لمحے اس تاک میں بیٹھے ہوں کہ کہیں کسی اناڑی پیراک کا پاؤں اکھڑ تو نہیں جاتا، کہیں کوئی غوطہ تو نہیں کھا جاتا ۔کس قدر پُر لطف اور محفوظ پیراکی ہے۔

مگر یہاں ظلمت کدۂ مغرب میں ایسے پُر سکون اور مامون تالاب کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ یہاں تو ایک تند و تیز طغیانی سے بپھرے ہوئے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے دریا کی پیراکی ہے جو سیلاب کے دنوں میں ہر بند توڑ کر اور ہر حد پھلانگ کر بلا سوچے سمجھے جدھر سینگ سمائے پھیلتا چلا جاتا ہے۔ کہیں اس میں مہیب لہریں اپنی جولانیاں دکھلا رہی ہیں اور خطرناک بھنور ہر شے کو نگلے جا رہے ہیں، تو کہیں یکدم سکوت طاری ہو جاتا ہے۔ کبھی تا حدِّ نظر پانی ہی پانی ہے کہ دوسرا کنارہ دکھائی نہیں دیتا تو کبھی چھوٹی چھوٹی نالیوں اور کھائیوں کی شکل میں گھروں اور کھیتوں تک اس کی رسائی ہے۔ کسی جگہ اس کے شور و شر کی زد میں بڑے بڑے تناور درخت تنکے کی طرح بہے جا رہے ہیں اور بڑی بڑی مضبوط کشتیاں گرداب میں دھنستی چلی جا رہی ہیں۔ کبھی گھٹنوں گھٹنوں پانی بڑا محفوظ دکھائی دیتا ہے تو اگلے ہی لمحے سینکڑوں فٹ کی گہرائی نگلنے کو بے تاب دکھائی دیتی ہے۔

غرض مغرب کا معاشرہ انتہا کے غیر یقینی اور اَن دیکھے پانیوں کی پیراکی کا دوسرا نام ہے۔اس پُر آشوب سیلاب نے مغربی معاشرے کے کسی حصے سے بھی صَرفِ نظر نہیں کیا۔ اس کی طغیانیاں اور سرکشیاں، طاغوتی طاقتوں کے جلو میں ایک ہی سمت میں رواں دواں ہیں۔ ان کا مبدا و منتہا ایک ہے اور رخ و منزل مشترک گویا سب بغاوتیں اور سرتابیاں ایک ہی شیطانی دہانے پر سجدہ ریز ہونے کے لیے محوِ سفر ہیں۔ ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ اب دنیا بھر میں کسی جگہ بھی اس طوفان کی زد میں آئے بغیر چارہ نہیں رہا۔ خصوصاً مغرب میں اس سیلاب میں غوطہ زنی اور پیراکی ناگزیر ہے۔ یہاں آنے والا ہر شخص اس ہولناک طغیانی میں مجبوراً دھکیل دیا جاتا ہے۔ لامحالہ یہ تند بہاؤ اس کے قدم اکھاڑنے کی کوشش کرے گا اور طوفانِ بلا اسے ہڑپ کرنے کو لپکے گا۔ تیز پانی میں پھسلنے کا نظارہ بھی کتنا عجیب ہے۔ جب قدم اکھڑتے ہیں تو انسان بڑی شدومد سے اپنے پاؤں جمانے کی کوشش کرتا ہے اور بہاؤ کا مقابلہ کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اب اس میں کتنی ہمت ہے، اس کے قدم کتنے مستحکم ہیں، اس کے اعصاب کس قدر مضبوط ہیں اور اس کی قوتِ برداشت کتنی اعلیٰ اور قوی ہے، اس کا بڑا کڑا امتحان یہ تند سیلاب ہے۔ اس میں گرتے ہی یا تو اس کے قدم اکھڑنے شروع ہو جائیں گے اور آہستہ آہستہ زمین اس کے پاؤں تلے سے کھسکتی چلی جائے گی۔ اور بالآخر وہ خس و خاشاک کی طرح اس طاغوتی بہاؤ میں بہ جائے گا۔ پھر یاقسمت! یا نصیب! اگر اس کے مقدر میں ہوا تو سرکش لہروں کے دوش پر بہتے بہتے کسی جھاڑ پھونس میں پھنس گیا، کسی درخت کی کوئی ٹہنی اچانک ہاتھ آ گئی یا کسی لہر نے اسے کنارے پر اچھال دیا تو ممکن ہے بچ نکلے،ورنہ راہ میں ڈوب جانا یا دہانے پر پہنچ کر شیطان کی آغوش میں گر جانا اس کا مقدر ٹھہرا۔

دوسری طرف وہ شخص بھی ہے جو اس سیلِ حرص و ہوا اور سیلابِ جرم و گناہ میں گرتے ہی اپنے قدم مضبوطی سے جمانے لگتا ہے۔ عام تالاب کی پیراکی کی نسبت زیادہ تیزی سے ہاتھ پاؤں مارتا ہے اور بہاؤ کو کاٹنے اور اس کے مخالف تیرنے کی کوشش کرتا ہے۔ رفتہ رفتہ اس کے اعصاب مضبوط ہوتے جاتے ہیں اور قوتِ برداشت بڑھتی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ بڑے بڑے طوفانوں سے گزر کر کنارے لگ جانے کا حوصلہ پا لیتا ہے،بلکہ اتنی طاقتوں کا مالک بھی ہو سکتا ہے کہ دوسرے ڈوبتوں کو بچانے میں بھی مدد گار ثابت ہو۔

اِس زمانے میں جب کفر و ضلالت اور شرک و مادہ پرستی کے مہیب طوفان اور سرکش لہریں انسانیت کی ساری اخلاقی اور روحانی قدروں کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے پر تلی ہوئی ہیں، خوش قسمتی سے ان قدروں کے مالک اور محافظ نے ایک جواں مرد کھیون ہارے کو اس ڈوبتی ناؤ کے پتوار سونپ دیےجس نے تنِ تنہا طوفانوں سے مڈ بھیڑ کی اور ان کے رخ موڑ دیے، چٹانوں سے ٹکر لی اور انہیں پاش پاش کر دیا۔ اب اسی جری اللہ کے تیار کردہ ملاح اور پیراک ہیں جو ہر سرکش سیلاب اور طغیانی کی راہ میں بند باندھنے کا عزم کیے ہوئے ہیں مگر ان جواں ہمت جیالے شناوروں کی مشاقی اور مہارت قابلِ رشک اور مسلّم سہی، پھر بھی وہ فی ذاتہٖ اس بات کی ضمانت نہیں کہ وہ خود انہیں بھی ان بھیانک سیلابوں کی نذر ہونے سے بچا سکے۔ صرف ایک ہی ذریعہ ہے جس سے یہ اولوالعزم غوطہ زن طوفانوں میں بے دھڑک کود کر نہ صرف خود غرق ہونے سے محفوظ رہ سکتے ہیں بلکہ دوسرے ڈوبتے ہوؤں کو بھی بچا سکتے ہیں اور وہ ذریعہ ہے اپنی کمروں کو حبل اللہ یعنی اللہ کی عطا کی ہوئی رسی خلافت سے باندھ لیں۔ پھر وہ جس آگ یا طوفان میں چھلانگ لگا دیں یہ رسی انہیں تھامے رکھے گی۔

وہ رسی، جس کا ایک سرا مالکِ دو جہاں نے اِس دور میں امامِ وقت کو تھما دیا ہے، کیونکر ڈوبتوں کو کنارا اور ساحل والوں کو سہارا دیے رکھتی ہے، یہ ایک خوبصورت منظر ہے جو اس پیوند سے بیگانوں کو دعوتِ فکر و نظارہ دیتا ہے۔ خلافت کی چھتری کس طرح کرب و بلا کی تیز دھوپ میں ٹھنڈی چھاؤں اور طوفانِ دجل و فریب میں امان مہیا کرتی ہے یہ حسین التفات، کور ضمیروں اور تقویٰ سے عاری دلوں کی سمجھ سے بالا تر ہے۔ امام ہی وہ ڈھال ہے جو ہر وار اپنے سینے پر سہنے کا حوصلہ اور ہر حرب و ضرب میں راہیں متعین کرنے کا ملکہ رکھتا ہے۔ امام ہی وہ کھویّا اور ناخدا ہے جو سیلِ بے بہا اور سیلابِ تند و تیز میں شناوری کے جوہر اور سلیقے سکھاتا ہے۔

یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ موجودہ دَور میں وہ ڈھال اور رہنما حضرت خلیفۃ المسیح کی صورت میں ہم میںموجود ہے۔ اسے مامور کرنے والے کا احسان ہے کہ وقت کے تقاضوں اور زمانے کی ضروریات کے مطابق وہ اس کے لیے سامان بھی مہیا کرتا ہےاور رہ نمائی سے بھی نوازتا ہے۔

دورِ جدید میں حیرت انگیز سائنسی ایجادات نے ذرائع ابلاغ کو جو بے پناہ ترقی عطا کی ہے اس کے پیچھے بھی قدرت کی ایک حسین منصوبہ بندی کار فرما دکھائی دیتی ہے، جسے پیغامِ حق کی تشہیر و تبلیغ کے لیے غیبی نصرتِ خداوندی کے سوا کیا کہا جاسکتا ہے؟ سیٹلائٹ ڈش کے ذریعے امام جماعت احمدیہ حضرت مرزامسروراحمد ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطبات اس کی ایک شاندار مثال ہیں جو زمانے کی ہر ضرورت اور وقت کے ہر تقاضے کے مطابق سراپا جود و سخا بنے ہمارے لیے تائیدِ ایزدی کی عطا اور حقیقی رہ نما کا روپ دھارے ہوئے ہیں۔

1992ءکے موسم سرما کی ایک سہ پہر ایسے ہی ایک خطاب کی لذتیں گوش و حواس میں سمیٹے، ہم لوگ مسجد سے نکلے تو اس بزرگ اور نوجوان کے مکالمے سے دوچار ہونا پڑا۔ اس مکالمے نے میری سوچوں کے سمندر میں گہرے تموج اور تلاطم پیدا کر دیے۔ حضرت صاحب کے خطاب کا موضوع بھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی تلقین اور نصیحت کرنے کے دلنشیں انداز سکھانے کے بارے میں تھا، جس کا فوری اثر اس بزرگ نے لیا اور نصیحت کے ایک موقع کو ہاتھ سے گنوانا گوارا نہ کیا۔ یہ اور بات ہے کہ ابتداءًاس کا وار کارگر ثابت نہ ہوا اور بظاہر وہ نوجوان بپھر گیا مگر یہ کیسے ممکن تھا کہ جس مربی اور محسن کی باتیں صوتی لہروں میں سمٹی ہوئی فضائے بسیط کے ذرّے ذرّے میں اپنی جگمگاہٹیں اور نور بکھیر رہی ہوں، وہ ایک سعید فطرت نوجوان کے دل پر اثر کرنے سے عاری رہتیں۔

دن ڈھلنے سے پہلے پہلے اس نوجوان نے نہ صرف اپنے بال شرافت سے ترشوائے بلکہ اپنے بزرگ انکل کے گھر جا کر معذرت بھی کی۔

’’سوری انکل، میں نے بال کٹوا لیے ہیں۔‘‘

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button