حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

آنحضرتﷺ کی نظر میں مسکینوں کا مقام

ساتویں شرط بیعت(حصہ سوم)

تکبر خدا تعالیٰ کی نگاہ میں سخت مکروہ ہے (حصہ دوم)

پھر دوسری بات جو اس شرط میں بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ فروتنی اور عاجزی اورخوش خلقی اورحلیمی اور مسکینی سے زندگی بسر کروں گا۔ جیساکہ مَیںنے پہلے بھی کہا ہے کہ جب آپ اپنے دل ودماغ کو تکبر سے خالی کرنے کی کوشش کریں گے ، خالی کریں گے تو پھر لازماً ایک اعلیٰ وصف ،ایک اعلیٰ صفت،ایک اعلیٰ خُلق اپنے اندرپیداکرنا ہوگا ورنہ پھر شیطان حملہ کرے گا کیونکہ وہ اسی کام کے لئے بیٹھا ہے کہ آپ کا پیچھا نہ چھوڑے۔ وہ خُلق ہے عاجزی اورمسکینی۔ اور یہ ہو نہیں سکتاکہ عاجز اورمتکبر اکٹھے رہ سکیں۔متکبر لوگ ہمیشہ ایسے عاجز لوگوں پر جو عبادالرحمٰن ہوں طعنہ زنیاں کرتے رہتے ہیں ، فقرے کستے رہتے ہیں تو ایسے لوگوں کے مقابل پر آپ نے ان جیسا رویہ نہیں اپنانا۔بلکہ خداتعالیٰ کے اس حکم پر عمل کرنا ہے فرمایا:

وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ھَوْنًا وَّاِذَا خَاطَبَھُمُ الْجَاھِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا(الفرقان: آیت64)

اور رحمان کے بندے وہ ہیں جو زمین پر فروتنی کے ساتھ چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو (جواباً) کہتے ہیں ’’سلام‘‘۔

حضرت ابو سعید خدریؓ روایت کرتے ہیں کہ آنحضورؐنے فرمایا: جس نے اللہ کی خاطر ایک درجہ تواضع اختیار کی اللہ تعالیٰ اس کا ایک درجہ رفع کرے گا یہاں تک کہ اسے علیّین میں جگہ دے گا، اور جس نے اللہ کے مقابل ایک درجہ تکبّر اختیار کیا تواللہ تعالیٰ اس کو ایک درجہ نیچے گرا دے گا یہاں تک کہ اسے اسفل السافلین میں داخل کردے گا۔

(مسند احمد بن حنبل۔ باقی مسند المکثرین من الصحابۃ۔ مسند ابی سعید الخدری)

ایسے لوگوں کی مجالس سے سلام کہہ کراٹھ جانے میں ہی آپ کی بقا، آپ کی بہتری ہے کیونکہ اسی سے آپ کے درجات بلند ہو رہے ہیں اورمخالفین اپنی انہی باتوں کی وجہ سے اسفل السافلین میں گرتے چلے جا رہے ہیں۔

حدیث میں آیا ہے اور اسے ہمیں آپس کے معاملات میں بھی پیش نظر رکھنا چاہئے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا: صدقہ دینے سے مال کم نہیں ہوتا اور اللہ تعالیٰ کا بندہ جتنا کسی کو معاف کرتا ہے اللہ تعالیٰ اتنا ہی زیادہ اسے عزت میں بڑھاتا ہے۔ جتنی زیادہ کوئی تواضع اور خاکساری اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اتنا ہی اسے بلند مرتبہ عطا کرتا ہے۔

(صحیح مسلم۔ کتاب البرو الصلۃ۔ باب استحباب العفو و التواضع)

عیاض بن حمار المجاشعی روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ ہمارے درمیان خطاب کرتے ہوئے کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے وحی کی ہے کہ تم اس قدر تواضع اختیار کرو کہ تم میں سے کوئی ایک دوسرے پر فخر نہ کرے ، اورکوئی ایک دوسرے پر ظلم نہ کرے۔

(صحیح مسلم۔ کتاب الجنّۃ و صفۃ نعیمھا و أھلھا۔ باب الصفات الّتی یُعرف بھا فی الدنیا اھل الجنّۃ و اھل النّار۔ حدیث نمبر 7210)

پھر ایک روایت ہے اسے ہمیں آپس کے معاملات میں بھی پیش نظر رکھنا چاہئے۔ حضرت ابوہریرہ ؓبیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے مال کم نہیں ہوتا اور اللہ تعالیٰ کا بندہ جتنا کسی کو معاف کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ اتنا ہی زیادہ اسے عزت میں بڑھاتا ہے۔ جتنی زیادہ کوئی تواضع اور خاکساری اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اتنا ہی اسے بلند مرتبہ عطا کرتا ہے۔

(صحیح مسلم۔ کتاب البر والصلۃ۔ باب استحباب العفو والتواضع)

پس ہر احمدی ایک دوسرے کو معاف کرنے کی عادت ڈالے۔اگلے جہان میں بھی درجات بلند ہو رہے ہوں گے اور اللہ تعالیٰ اس دنیا میں بھی آپکی عزتیں بڑھاتا چلا جائے گا۔اللہ تعالیٰ اپنی خاطر کئے گئے کسی فعل کو کبھی بغیر اجر کے جانے نہیںدیتا۔

آنحضرتﷺ کی نظر میں مسکینوں کا مقام

مسکینوں کا مقام آنحضرت ﷺکی نظر میں کتناتھا، اس کا اندازہ اس حدیث سے کریں۔حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ آنحضرت ﷺسے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مساکین سے محبت کیاکرو۔ یہ حضرت ابوسعید خدری ؓکہہ رہے ہیں کہ پس مَیں نے رسول اللہ ﷺکو یہ دعا کرتے ہوئے سناہے کہ

اَللّٰھُمَّ اَحْیِنِیْ مِسْکِیْنًا وَاَمِتْنِیْ مِسْکِیْنًا وَاحْشُرْنِیْ فِی زُمْرَۃِ الْمَسَاکِیْن۔

یعنی اے اللہ مجھے مسکینی کی حالت میں زندہ رکھ،مجھے مسکینی کی حالت میں موت دے اورمجھے مسکینوں کے گروہ ہی سے ا ٹھانا۔

(سنن ابن ماجہ۔ کتاب الزھد۔ باب مجالسۃ الفقراء)

پس ہر احمدی کو بھی وہی راہ اختیار کرنی چاہئے،ان راہوں پر قدم مارنا چاہئے جن پر ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰﷺ چل رہے ہیں۔ہر ا حمدی کو اپنے آپ کو مسکینوں کی صف میں ہی رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے کیونکہ یہی عہد بیعت ہے کہ مسکینی سے زندگی بسر کروںگا۔

ایک روایت میں آتاہے۔ حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ جعفرؓ بن ابی طالب مساکین سے بہت محبت کرتے تھے۔ان کی مجلسوں میں بیٹھتے تھے۔ وہ ان سے باتیں کرتے اور مساکین ان سے باتیں کرتے۔ چنانچہ رسول اللہﷺ حضرت جعفر کو ابوالمساکین کی کنیت سے پکارا کرتے تھے۔

(سنن ابن ماجہ۔ کتاب الزھد۔ باب مجالسۃ الفقراء)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:

’’اگر اللہ تعالیٰ کو تلاش کرنا ہے تو مسکینوںکے دل کے پاس تلاش کرو۔ اسی لیے پیغمبروں نے مسکینی کا جامہ ہی پہن لیا تھا۔ اسی طرح چاہیے کہ بڑی قوم کے لوگ چھوٹی قوم کو ہنسی نہ کریں اور نہ کوئی یہ کہے کہ میرا خاندان بڑا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم میرے پاس جو آئوگے تو یہ سوال نہ کروں گا کہ تمہاری قوم کیا ہے۔ بلکہ سوال یہ ہو گا کہ تمہارا عمل کیا ہے۔ اسی طرح پیغمبر خدا نے فرمایا ہے اپنی بیٹی سے کہ اے فاطمہؓ خداتعالیٰ ذات کو نہیں پوچھے گا۔ اگر تم کوئی برا کام کروگی تو خدا تعالیٰ تم سے اس واسطے درگزر نہ کرے گا کہ تم رسول کی بیٹی ہو۔ پس چاہیئے کہ تم ہر وقت اپنا کام دیکھ کر کیا کرو‘‘۔

(ملفوظات۔ جدید ایڈیشن۔ جلد سوم۔ صفحہ370)

پھر آپؑ فرماتے ہیں:’’اہل تقویٰ کے لیے یہ شرط تھی کہ وہ غربت اور مسکینی میں اپنی زندگی بسر کرے یہ ایک تقویٰ کی شاخ ہے جس کے ذریعہ ہمیں غضب ناجائز کا مقابلہ کرنا ہے۔ بڑے بڑے عارف اور صدیقوں کے لیے آخری اور کڑی منزل غضب سے ہی بچنا ہے۔ عجب و پندار غضب سے پیدا ہوتا ہے۔ اور ایسا ہی کبھی خود غضب عجب و پندار کا نتیجہ ہوتا ہے کیونکہ غضب اس وقت ہو گا جب انسان اپنے نفس کو دوسرے پر ترجیح دیتا ہے۔‘‘

(رپورٹ جلسہ سالانہ 1897ء۔ صفحہ49)

آپؑ فرماتے ہیں:’’ تم اگر چاہتے ہو کہ آسمان پر تم سے خدا راضی ہو تو تم باہم ایسے ایک ہو جائو جیسے ایک پیٹ میں سے دو بھائی۔ تم میں سے زیادہ بزرگ وہی ہے جو زیادہ اپنے بھائی کے گناہ بخشتا ہے اور بدبخت ہے وہ جو ضد کرتا ہے اور نہیں بخشتا سو اس کا مجھ میں حصہ نہیں۔‘‘

(کشتی نوح۔ روحانی خزائن۔ جلد19۔ صفحہ12۔13)

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button