متفرق مضامین

1857ء کی جنگ: جہاد یا غدر!…چند حقائق

(ڈاکٹر مرزا سلطان احمد)
Illustrated London News / Public domain

آج کل پاکستان میں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو گردش کر رہی ہے۔ اس میں پنجاب اور بلوچستان کے کئی معروف سیاسی خاندانوں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کا ذکر کے یہ الزام لگایا گیا ہے کہ یہ وہ خاندان ہیں جن کی مدد سے انگریز نے ہندوستان میں اپنا راج قائم کیا۔ اور ان خاندانوں نے 1857ء میں مسلمانوں کے جہاد کو ناکام بنایا۔ اس ویڈیو کا آغاز ان الفاظ سے ہوتا ہے کہ نعوذُ باللہ

’’… اور مرزا غلام احمد قادیانی کے خاندان کا انگریزوں کے ایجنڈے میں کردار کم و بیش ایک جیسا ہی ہے۔ ان دونوں خاندانوں نے برصغیرمیں انگریزوں کے خلاف مسلم مزاحمت کو کچلنے اور انگریزوں کا تسلط مضبوط کرنے میں ہر مدد فراہم کی۔ ‘‘

اس کے بعد اس ویڈیو میں پاکستان کے کئی معروف سیاسی گھرانوں پر یہ تفصیلی الزامات لگائے ہیں کہ ان کے بزرگوں نے 1857ء کی جنگ کے دوران انگریز حکومت کی مخبریاں کیں، اور1857ء کے دوران ان کے بزرگوں نے انگریزوں کا ساتھ دیا بلکہ ان کی فوج میں شامل ہوئے۔ اس کےعلاوہ پاکستان کے ان نمایاں سیاست دانوں کے بزرگوں نے اس جنگ کے دوران انگریزوں کی فوج میں شامل ہونے کے لیے دستے تیار کیے۔ اور اس وجہ سے 1857ء کی جنگ میں شامل بہت سے مجاہدین کو شہید کر دیا گیا۔ اور اس کے عوض انگریزوں نے ان کو خلعتوں، جاگیروں، عہدوں اور دیگر مراعات سے نوازا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات اقدس اور جماعت احمدیہ پر یہ الزام بار بار لگایا جاتا ہے۔ اور آج سے قبل بھی کئی مرتبہ یہی الزام لگایا گیا ہے۔ لیکن اس ویڈیو میں یہ الزام صرف جماعت احمدیہ پر نہیں بلکہ پاکستان کے کئی سیاسی گھرانوں پر بھی لگایا گیا ہے۔ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں سے کئی گھرانوں کے سیاست دان بہت زور و شور سے یہ الزام جماعت احمدیہ پر لگاتے رہے ہیں۔ اس مضمون میں ان کے نام اس لیے درج نہیں کیے جا رہے کیونکہ اس مضمون کا مقصد صرف کچھ تاریخی حقائق پیش کرنا ہے،کسی سیاسی بحث میں الجھنا یا کسی کو شرمندہ کرنا نہیں۔

کیا1857ءکی جنگ کی مخالفت کافر بنا دیتی ہے؟

جب 1974ء میں قومی اسمبلی کی سپیشل کمیٹی میں جماعت احمدیہ کے خلاف فیصلہ کرنے کے لیے کارروائی کی جا رہی تھی تو اس وقت بھی یہی الزام جماعت احمدیہ پر لگایا گیا تھا۔ اور اسی انداز میں لگایا گیا تھا۔ مولوی عبد الحکیم صاحب نے اس کارروائی کے دوران اپنی طویل تقریر میں کہا کہ نعوذُ باللہ

’’مرزا غلام احمد قادیانی مسیح ابن مریم تو کیا مسلمان ہی نہیں ہو سکتا مندرجہ ذیل امورملاحظہ فرمائیں :‘‘

اور پھر اپنے اس نظریہ تکفیر کی تائید میں 52 وجوہات بیان کیں۔ ان میں سے دو وجوہات یہ تھیں:

’’45۔ مرزا نے 1857ء کے جہاد میں اپنے باپ کی امداد اوروفاداری کوانگریز کے سامنے پیش کر کے فخر کیا اور اپنے خاندان کو انگریز کا وفادار ثابت کیا۔ (ستارہ قیصریہ صفحہ 3)

46۔ مرزا نے 1857ء کی جنگ آزادی کو ناجائز قراردیا اورحملہ آوروں کو چوروں اورڈاکوؤں سے تشبیہ دی۔ ‘‘

(کارروائی سپیشل کمیٹی 1974ء صفحہ 2423تا2429)

اس حوالے سے ظاہر ہے کہ مولوی عبد الحکیم صاحب کے نزدیک اگر کسی نے 1857ء کی جنگ کو ناجائز قراردیا یا اس میں شامل سپاہیوں کو چوروں اور قزاقوں سے تشبیہ دی یا اگر کسی کے والد نے اس جنگ میں انگریز وں کی مدد کی اور اس نے اس کا مثبت رنگ میں ذکر کیا تو یہ بات اسے غیر مسلم قرار دینے کے لیے کافی ہے۔ لیکن عجیب بات ہے کہ اس ویڈیو میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان کے بہت سے نمایاں سیاسی گھرانے بھی اس نام نہاد جرم میں ملوث تھے۔ اوران میں سے کئی گھرانوں کے ممبران اس یعنی 1974ء کی اسمبلی میں موجود تھے اور یہ الزام جماعت احمدیہ پر لگا رہے تھے بلکہ ان میں سے بعض اپوزیشن کے اراکین نے تو جماعت احمدیہ کے خلاف ایک نہایت زہریلی قرارداد بھی پیش کی تھی۔ خاکسار اپنی کتاب ’’مفتی محمود کی تقریر پر تبصرہ‘‘میں ثبوتوں کے ساتھ ان حقائق کی ہلکی سی جھلک پیش کر چکا ہے۔ اس مضمون میں ایک اَور زاویے سے جائزہ پیش کیا جائے گا۔

اس مضمون میں ہم 1857ء کی جنگ کا مختصر سا جائزہ لیں گے۔ اور چونکہ 1974ء میں سپیشل کمیٹی میں مولوی عبد الحکیم صاحب نے اس کے متعلق منفی رائے کو مسلمان نہ ہونے کی دلیل قراردیا تھا، اس لیے مناسب ہوگا اگر ہم تھوڑا سا جائزہ لے لیں کہ کون کون اس جرم کا مرتکب ہو کر ان کے نزدیک دائرۂ اسلام سے خارج ہو گیا۔

اس جنگ کو شروع کرنے والے کون تھے؟

سب سے پہلے کچھ حقائق پیش کیے جائیں گےکہ 1857ء کے مجاہدین کون تھے؟ یہ عرض کرتے چلیں کہ اس مضمون میں صرف ان مسلمانوں اور ہندوئوں کی گواہیاں پیش کی جائیں گی جواس موضوع پرسند سمجھے جاتے ہیں اور ان میں سے کئی اصحاب ان واقعات کے عینی شاہد اور گواہ تھے۔ یہ مجاہدین جنگ کے آغاز سے ایک دن پہلے تک انگریزوں کے تنخواہ دارملازم تھے۔ بہادرشاہ ظفرکے دربار سے منسلک ظہیر دہلوی جو ان واقعات کے عینی شاہد تھے ۔لکھتے ہیں کہ جب یہ سپاہی نام کے بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے حضور حاضر ہوئے تو انہوں نے اپنا تعارف ان الفاظ میں کرایا:

’’خلقت خدا کی، ملک بادشاہ کا، حکم کمپنی کا۔ انگریز لوگ آپ کی طرف سے مالک و مختار ہیں۔ ہم لوگ ملازم انگریزی ہیں۔ ہمیں لوگوں نے اپنی جانیں بیچ کراور سر کٹوا کر کلکتہ سے لے کر کابل کے ڈیرے تک فتح کرکے چودہ سو کوس میں عملداری انگریزی قائم کرادی اور ہمیں لوگوں کی استعانت وامداد سے تمام ہندوستان پر تسلط ہو گیا۔ یہ ولایت سے کوئی فوج ہمراہ لے کر نہیں آئے تھے۔ سب ہندوستانی فوج کی کارگذاری ہے۔ شہادت کے واسطے ہمارے پاس تمغے موجود ہیں۔ ‘‘

( داستان غدراز ظہیر دہلوی صفحہ 46)

تو یہ ’مجاہدین‘ وہ عظیم لوگ تھے جنہوں نے اپنے ہم وطنوں کاخون بہا کر ہندوستان میں برطانوی راج قائم کیا تھا۔ اس کے بعد انگریز ریذیڈنٹ جب باغی فوج کے سامنے آیا تو اس نے کہا

’’کیوں بابا لوگ!یہ کیا فتنہ و فساد تم نے برپا کر دیا۔ ہم لوگوں نے تم لوگوں کو رومال سے پونچھ کر تیار کیا ہے۔ ہم کو یہ دعویٰ تھا کہ اگر روس ہندوستان کی طرف پاؤں بڑھائے گا تو ہم سرحد پر اس کا سر توڑیں گے اور ایران پیش قدمی کرنے کا ارادہ کرے گا تو ہم اس کو وہیں پسپا کریں گے۔ اگر کوئی سلطنت ہندوستان کی طرف رخ کرے گی تو اس کو دنداں شکن جواب دیں گے۔ یہ خبرنہ تھی کہ ہماری فوج ہمارے ہی مقابلہ کو تیار ہو گی۔ کیوں بابا لوگ! شرط نمک خواری یہی تھی کہ آج تم ہمارے مقابلہ کو تیارہو۔ ہم نے تم کو اسی واسطے کروڑہا روپے صرف کر کے تیار کیا تھا‘‘

(داستان غدر صفحہ50)

اس کے جواب میں ان سپاہیوں نے کہا:

’’غریب پرور!حضور سچ فرماتے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں۔ سرکار نے ہم لوگوں کو اسی طرح پالا اور پرورش کیا۔ سرکار کے حقوق نمک ہم لوگ نہیں بھولیں گے مگر ہم لوگوں نے آج تک سرکار کی کوئی نمک حرامی نہیں کی۔ جہاں سرکار نے ہمیں جھونک دیا ہم آنکھیں بند کرکے آگ اور پانی میں کود پڑے۔ کچھ خوف جھونکوں کا نہ کیا۔ سر کٹوانے میں کہیں دریغ نہیں کیا۔ کابل پر ہمیں لوگ گئے۔ لاہورہمیں لوگوں نے فتح کیا۔ کلکتہ سے کابل تک ہمیں لڑے بھڑے۔ سر کٹوائے جانیں دیں حق نمک ادا کیا۔ ‘‘

(داستان غدر صفحہ50)

خلاصہ کلام یہ کہ جن سپاہیوں نے انگریز حکومت کے خلاف بغاوت کی وہ اس سے قبل تک اس حکومت کے سب سے زیادہ وفادار تھے۔ اور انہوں نے اپنے ہم وطنوں کا خون بہا کر ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا اقتدار قائم کیا تھا۔ اگر چہ ان میں کئی سپاہی مسلمان تھے مگر وہ افغانستان کے خلاف جنگ کرنے گئے تھے۔ اورحکمرانوں کو اعتماد تھا کہ وہ انہیں روس جیسی بڑی طاقت اور ایران جیسے مسلمان ملک کے خلاف بھی اعتماد سے استعمال کر سکتے ہیں۔ اگر اس جنگ کا مقصد ہندوستان کو انگریزوں کے قبضہ سے آزاد کرانا تھا تو ہندوستان کو انگریزوں کی حکومت کے تحت کرنے کا کارنامہ اسی فوج نے سرانجام دیا تھا۔ اس بغاوت کی سب سے بڑی وجہ یہ بنی کہ ان سپاہیوں کو یہ گمان ہوا تھا کہ جس کارتوس کو انہیں منہ سے کاٹنے کا حکم ہے اس کارتوس میں سوراور گائے کی چربی لگائی گئی ہے۔

ایک اَور بات کا ذکر ضروری ہے وہ یہ کہ انگریز حکومت کو اپنی فوج میں بھرتی کرنے کے لیے فوجیوں کو کسی کمی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تھا کیونکہ عام ہندوستانی شوق سے انگریزوں کی فوج میں شامل ہوتے تھے۔ کنہیا لال اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ جب بغاوت کا احساس ابھرنے لگا تو سر ہنری لارنس نے ہندوستانی افسروں سے ایک خطاب کیا۔ اس میں انہوں نے کہا:

’’ہندوستان کی کسی قوم یا ضلع میں سپاہیوں کی کمی نہیں۔ جہاں ہماری سرکار کو ایک سپاہی کی ضرورت ہو وہاں پچاس نوکری کے لئے حاضر ہوجاتے ہیں۔ صرف گذشتہ ہفتے میں اسی شہر لکھنؤ میں 300سپاہیوں کی ضرورت تھی اور3000خدمت کے لئے حاضر ہو گئے۔ ‘‘

( 1857ء تاریخ بغاوت ہند( مسمٰے بہ)محاربہ ٔعظیم۔ مصنفہ پنڈت کنہیا لال سنگ میل پبلیکیشنز 2007ء، صفحہ32)

ان سپاہیوں نے دہلی والوں سے کیا سلوک کیا؟

ظاہر ہے کہ یہ فوجی خود انگریز کے سب سے بڑے نمک خوار تھے۔ اب یہ دیکھتے ہیں کہ دہلی پر قبضہ کے بعد اس فوج نے کیا کارنامے کیے کہ خود گردو نواح کے مسلمان ان کے خلاف ہو گئے۔ خواجہ حسن نظامی صاحب اپنی کتاب ’’دہلی کی سزا‘‘میں لکھتے ہیں :

’’اس روز سے ان کم بختوں نے یہ ظلم اختیار کیا کہ جس کے گھر میں چاہتے گھس پڑتے تھے اور بہانہ یہ کرتے تھے کہ تمہارے گھرمیں انگریز چھپے ہوئے ہیں۔ اس بہانہ سے لوگوں کے گھروں میں گھس کر تمام مال و اسباب لوٹ لاتے تھے۔ ‘‘

(1857ء مجموعہ خواجہ حسن نظامی صفحہ 680)

یہ جنگ تو انگریز حکومت کے خلاف ہو رہی تھی لیکن ان سپاہیوں نے دہلی میں داخل ہوتے ہی اپنے ہم وطن دہلی کے رہنے والوں کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ ظہیر دہلوی لکھتے ہیں:

’’تمام بد پیشہ بد معاش چوٹے اٹھائی گیرے کرکی بانڈی باز مال مردم خور جو ایسے مواقعات کے منتظر رہتے تھے گھروں سے نکل نکل کر آن موجود ہوئے اور ایک جم غفیراور اژدہام کثیر فرقہ باغیہ میں شامل ہو گیا۔ اب ایک سوار ہے پچاس بد پیشہ اس کی اردلی میں دوڑے جا رہے ہیں۔ سوار کسی پر دست درازی کرتے ہیں، بد معاش لوٹ کھسوٹ کرنے لگ جاتے ہیں اورسامان توڑ پھوڑ کر برابر کر دیتے ہیں۔ جو شے آتی ہے اسے لے بھاگتے ہیں۔ ‘‘

( داستان غدر از ظہیر دہلوی، صفحہ53)

اور جب یہ فوج دہلی میں داخل ہوئی تو کیا منظر تھا؟ اس کے بارے میں ظہیر دہلوی لکھتے ہیں:

’’میں سیدھا کوتوالی ہوتا ہوا خونی دروازے کے آگے پہنچا تو دیکھا کہ انبوہ کثیر بدمعاشاں کا ہے اور صرافوں کی دوکانیں لٹ رہی ہیں۔ ‘‘

( داستان غدر از ظہیر دہلوی صفحہ58)

پھراس جنگ کے پہلے روز کی داستان بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’شہر کو بدمعاشان شہر لوٹ رہے ہیں کہ بہت سے سوار گھوڑے باندھ کر دیوان خاص میں محبوب علی خان اوراحسن اللہ خان کے پاس آئے اور کہا کہ رسد اور ہمارے کھانے پینے کا بندو بست کرو۔

ملازمان شاہی : ہم کیا بند و بست کریں، جن لوگوں سے شہر کا بندو بست تھا۔ ان کو تم نے مار ڈالا۔ شہر میں غدرمچا دیا۔ شہرلٹ رہا ہے۔ دوکانیں بند ہیں۔ اب کھانے پینے کا کیا بندو بست ہو۔ جہاں سے ممکن ہو کھاؤ پیو اورتمہارے سبب سے ہمارا کھانا پینا بھی بند ہوا۔ ‘‘

( داستان غدر از ظہیر دہلوی صفحہ60)

یہ سپاہی 10؍ مئی کو دہلی میں داخل ہوئے اور11 ؍مئی کے روزنامچے میں عبد اللطیف صاحب تحریر کرتے ہیں:

’’اشراق کے وقت جب خاطر والا دیوان کی جانب مائل ہوئی، چند جوہری، بقال اور حلوائی داد خواہی کے لئے آئے [اور کہا] کہ مفسدان سحرکار اوراوباش و بدمعاش لوگ حیلہ و فریب، لوٹ مار اور کمینہ پن سے داخل ہوگئے ہیں اور لوگ نہایت پریشانی اور بیچارگی میں مبتلا ہیں۔ ‘‘

(1857ء روزنامچے، معاصر تحریریں، یاداشتیں۔ مرتبہ محمد اکرام چغتائی۔ ناشر سنگ میل 2007، صفحہ 136)

سپاہیوں نے عورتوں سے کیا سلوک کیا؟

مرزا غالب نے ان واقعات کو خود یکھا تھا۔ ان سپاہیوں نےعورتوں پرجو ظلم کیا اس کے بارے میں وہ ‘دستنبو’ میں لکھتے ہیں:

’’ساری نازنینان شہر کا زیور بزدل اور سیاسہ کار رہزنوں کے قبضے میں ہے۔ (زیور و آرائش سے معریٰ ہونے کے بعد) ان نازنینوں میں جو ہلکا سا ندازباقی رہا تھا۔ اس کو ان نو دولت گدا زادوں نے چھین لیا۔ ‘‘

(1857ء مرتبہ محمد اکرم چغتائی صفحہ 53)

ان واقعات کے گواہ حکیم احسن اللہ خان نے دہلی پر قبضہ کرنے والی فوج کا یہ کارنامہ ان الفاظ میں بیان کیا:

’’ب یہ کارواں واپس ہوا تو پتہ چلا کہ مقامی افراد کو لوٹا اور مارا گیا۔ اور ان کی عورتوں نے عزت بچانے کی خاطر خود کشی کرنا پسند کی۔ ‘‘(1857ء مرتبہ اکرم چغتائی صفحہ201)

لوٹ مار جاری رہتی ہے

جب سپاہیوں نے کہا کہ دوکانیں کھلوائی جائیں اب لوٹ مار نہیں ہو گی توانہوں نے بینک لوٹنے کا فیصلہ کیا۔ ظہیر دہلوی لکھتے ہیں:

’’یہ کوٹھی کے عقب سے اس میں داخل ہوئے اور صندوق خزانہ کے قفل توڑ توڑ کر توڑے روپوں کے لوٹنے شروع کئے۔ ان غارت گروں میں وہ لوگ ہیں جو میرٹھ سے باغی ہو کر پلٹن اور سوار آتے ہیں۔ اور ان کے ساتھ والے جو بد معاش ہمراہ ہوئے ہیں… مردمان باغیہ سے جس قدر لوٹا گیا، خوب روپیہ لوٹا کہ اس کے اُٹھانے سے عاری ہو گئے‘‘۔

( داستان غدر از ظہیر دہلوی صفحہ64)

اس کے بعد بھی لوٹ مار کا سلسلہ جاری رہا اورخواص و عوام دونوں میں سے کوئی اس سے محفوظ نہیں تھا۔ حکیم احسن اللہ صاحب اس وقت دہلی میں تھے اور بہادر شاہ ظفر کے دربار سے وابستہ تھے۔ ان کی یاداشتوں سے چند اقتباسات ملاحظہ ہوں:

’’دوپہر میں یہ اطلاع دی گئی کہ پیتل ڈھالنے کے بازار(کسیرا) کو لوٹا جا رہا ہے۔ مرزامغل کو حکم دیا گیا کہ خود جائے اور فوج کے افسران پر یہ واضح کریں کہ لوگوں کے ساتھ یہ ظالمانہ برتاؤ صحیح نہیں۔ ‘‘(1857ء مرتبہ اکرم چغتائی صفحہ203)

’’بادشاہ کو مطلع کیا گیا کہ وہ کوارٹر جس میں داساس (بنیوں کی ایک ذات) رہتے ہیں، لوٹا جا رہا ہے اور ان میں سے بہت سوں کو سپاہیوں نے قتل بھی کر دیا ہے۔ مرزا عبداللہ کو حکم دیا گیا کہ فوراً روانہ ہو اور مرزا مغل کو با خبر کریں۔ ‘‘

(1857ءمرتبہ اکرم چغتائی صفحہ204)

’’پٹیالہ کے راجہ کے چچا راجہ اجیت سنگھ کے دو نوکر میرے پاس آئے اور کہا کہ سپاہیوں نے راجہ کے گھر پر حملہ کر دیا ہے اور لوٹ مار مچا رکھی ہے اور راجہ کو قید بھی کر لیا ہے۔ ‘‘

(1857ء مرتبہ اکرم چغتائی صفحہ205)

اوریہ لوٹ مار صرف عام سپاہی نہیں کررہے تھے بلکہ بخت خان جسے بہادرشاہ نے ان سپاہیوں کا سپہ سالار بلکہ گورنر جنرل بھی مقرر کر دیا تھا، وہ بھی لوگوں پر جبر کر کے ان سے روپیہ نکلوا رہا تھا۔ حکیم احسن اللہ خان صاحب بیان کرتے ہیں:

’’دو یا تین روز بعد ایک درخواست دی گئی کہ بخت محمد خان ساہوکاروں اور شہریوں کو حراست میں لئے ہوئے ہے اوران سے جبراً رقم وصول کی جا رہی ہے۔ اور ان سے رقم فراہم کرنے کے سلسلہ میں کسی وعدہ یا عذر پر توجہ نہیں دی جا رہی۔ ‘‘

(1857ء مرتبہ اکرم چغتائی صفحہ212)

نام نہاد جہاد میں مسلمانوں کی مذہبی آزادی

انگریزوں کی جس فوج نے اُن سے برگشتہ ہو کر دلّی پر قبضہ کیا، ان کی بڑی تعداد ہندو تھی۔ اور انہوں نے مسلمانوں کی مذہبی آزادی کے لیے کیا اقدامات اٹھائے؟ اس کے بارے میں عبداللطیف صاحب اپنے 31؍جولائی کے روزنامچے میں لکھتے ہیں:

’’اغیوں کے کمینہ پن کی وجہ سے تمام مسلمانوں نے ان کی سرکوبی کا قصد کیا اور ایک جماعت ان کی دشمنی پر مستعد ہوئی۔ امراء شاہی جو کچھ سنتے تھے اور دیکھتے تھے، سب کچھ بادشاہ کی خدمت میں آکر عرض کرتے تھے(انہوں نے اطلاع دی) کہ ایک فتنہ پرداز گروہ عرصہ سے مسلمانوں کے ساتھ کینہ رکھتا تھا۔ باغیوں کی آمد کو اس گروہ نے اپنی دشمنی نکالنے کے لئے غنیمت سمجھا اوریہ دلیل پیش کی کہ اپنے ہم مذہبوں کے آنے سے ہمیں بڑی بڑی مسرت ہوئی ہے اور دشمنی اور انتقام کے لئےایک نیا حیلہ مل گیا۔ پس ایک ہم مذہب نے دوسرے ہم مذہب کے ساتھ رسم اتحاد اختیار کی اور دوستی کے ذریعہ اپنا لیا۔ جب دونوں کے دل مل گئے تو ایک دوسرے نے اپنا مافی الضمیر ظاہر کیا۔ باطنی کینہ ظاہر ہوا۔ خصوصاً اس شہر کے مضافات کے رہنے والوں کی دلی دشمنی اور بڑھ گئی۔ ہوس تازہ ہوئی اور خود غرضی کے پیدا ہونے سے طرح طرح کی آرزوئیں ظاہر ہوئیں۔ اسلامی طریقہ کو بند کر نے کے لئے سرگرمی دکھائی گئی…یہ لوگ اپنے ہم مذہب مفسدوں کی راہنمائی میں شہر کے قصائیوں سے دست و گریبان ہوئے اور چارقصائیوں کا خون بہا دیا۔ جو مسجدیں سر بازار ہیں ان میں اذان کو منع کرتے ہیں۔ ‘‘(1857ء مرتبہ محمد اکرم چغتائی صفحہ 159)

جب یہ سب کچھ ہو رہا تھا تو کیا کسی کو سزا بھی ملتی تھی؟ یہ گواہی ملاحظہ کریں :

’’9؍ جولائی کو ڈھنڈورا پٹوایا گیا جو شخص گائے ذبح کرے گا وہ توپ کے منہ اڑایا جائے گا۔ اس کے بعد یہ حکم صادر ہوا کہ بقرعید کے موقع پر بھی کوئی شخص گائے کی قربانی نہ کرنے پائے۔ ‘‘

(1857ء مجموعہ خواجہ حسن نظامی صفحہ531)

ان حالات میں جب انسان قتل ہو رہے تھے اور دہلی کے باشندوں کو لوٹا جا رہا تھا، بہادر شاہ ظفر کی حکومت نے بیلوں کی حفاظت کے لیے یہ اہم قدم اُ ٹھایا۔ خواجہ حسن نظامی صاحب لکھتے ہیں:

’’اس کے بعد بادشاہ سے حکم جاری کرایا کہ شہر کا ڈلاؤ اور کوڑا جو بیلوں پر لاد کر کھیتوں میں ڈالنے کے لیے حلال خور لے کر جاتے ہیں، وہ آئندہ گدھوں پر لد کر جایا کرے۔ بیلوں کی گائے سے قرابت داری ہے اور ڈلاؤ لادنے میں بیلوں کی توہین ہوتی ہے۔ چنانچہ اس حکم پرعمل کیا گیا۔ مسلمانوں کو یہ احکام ناگوار گذرے اور انہوں نے کہا یہ اسلام کی بادشاہی نہیں، یہ تو ہندوئوں کا راج ہے۔ چنانچہ محمد سعید نامی شخص نے جامع مسجد دہلی میں جہاد کے لئے جھنڈا کھڑا کیا۔ اس کی خبربادشاہ کو ہوئی۔ انہوں نے مولوی صاحب کو بلا کر پوچھا کہ انگریز تو اب شہر میں باقی نہیں رہے۔ یہ جھنڈا کس کے واسطے لگایا ہے؟ مولوی صاحب نے جواب دیا ہندوؤں کے لئے۔ بادشاہ نے ان کو سمجھایا تمام باغی فوج ہندو ہے، مسلمان ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ ‘‘

(1857 مجموعہ خواجہ حسن نظامی، ناشر سنگ میل پبلیکیشنز 2007، صفحہ532)

جنگ میں سپاہیوں کو شکست کس طرح ہوئی

یہ تھی جنگ جسے ’جہاد‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس جنگ کو لڑنے والوں میں اکثریت ہندوؤں کی تھی۔ اب یہ جائزہ لیتے ہیں کہ اس جنگ میں ان سپاہیوں کو آخر شکست کیوں ہوئی؟ وہ اپنے ملک میں تھے اور ایک بار میرٹھ میں کامیابی حاصل کر چکے تھے۔ اور جنگ کرنے کا وسیع تجربہ بھی رکھتے تھے۔ اور کئی مرتبہ انہوں نے دلجمعی سے انگریزوں کی فوج کا مقابلہ بھی کیا۔

ایک وجہ تو ظاہر ہے اور وہ یہ کہ ان حرکات کی وجہ سے کم از کم مسلمانوں میں ان کی مخالفت شدید ہو گئی تھی۔ اور ان سپاہیوں کو اپنے ہم وطنوں کا اعتماد بھی حاصل نہیں تھا۔ اور جس طرح دہلی میں مسلمان ان کے مقابلے کے لیے کمر بستہ ہوئے تھے اسی طرح پنجاب اور سرحد میں مختلف مقامات پران کے مظالم کی وجہ سے مسلمان ان کے مخالف ہو گئے اور انہوں نے انگریزوں کی مدد شروع کر دی۔ لالچ کرنے والا گروہ کمزور ہوجاتا ہے۔ انگریزوں نے ان سپاہیوں کی اسی کمزوری کا فائدہ اُٹھایا۔ خواجہ حسن نظامی صاحب لکھتے ہیں:

’’انگریزی افسروں نے یہ چالاکی کی کہ اس جگہ بہت سے روپے چاندی وغیرہ کے برتن بکھیر دیئے۔ یہ لالچی ان چیزوں پر ایسے ٹوٹ کر گرے جس طرح بھوکا کبوتر دانے پر گرتا ہے۔ گھات میں لگے ہوئے تھے، جب انہوں نے ان کو غافل پایا فوراً بندوق کی بھاڑ ماری۔ سینکڑوں تو وہیں ڈھیر ہو گئے اور جو بچے زخمی ہو کر بھاگ گئے۔ ‘‘

(1857ءمجموعہ خواجہ حسن نظامی،ناشر سنگ میل پبلیکیشنز2007،صفحہ690تا 691)

اس کے علاوہ کم از کم شکست کی ایک اہم وجہ بھنگ پینا بھی تھی۔ خواجہ حسن نظامی لکھتے ہیں:

’’تینوں پلٹنیں چھاؤنی میرٹھ اور وزیر آباد کی کوٹھیوں کا سامان وغیرہ لوٹ کر خوب مالدار ہوگئی تھیں۔ اور پلٹن والے ہرموقع پر لڑائی سے بچتے رہتے تھے۔ ایک دن ان میں سے پانچ سوجوان اورسپاہی طعن وتشنیع سے شرما کر قدسیہ باغ کے مورچے پر گئے۔ وہاں جا کر کوئی تو ان میں سے بھنگ پینے میں مشغول ہوگیا، کوئی توشہ دان کا تکیہ بنا کر سو گیا۔ الغرض سب کے سب غافل پڑے ہوئے تھے کہ انگریزی لشکر اچانک ان غافلوں کے سروں پر پہنچ گیا اور سینکڑوں کو ذبح کر ڈالا۔ ‘‘

(1857ء مجموعہ خواجہ حسن نظامی، ناشر سنگ میل پبلیکیشنز 2007، صفحہ691)

مزید خواجہ حسن نظامی لکھتے ہیں کہ جب انگریزوں نے دلّی کا محاصرہ کیا اور مقابلہ سخت ہو گیا تو جو سپاہی دہلی پر قابض تھے ہمت ہار بیٹھے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’شہزادوں نے جو فوج کے افسر تھے فوج سے ہر چند کہا کہ ہمت کرو اور مرد بنو۔ لیکن نمک حرام تلنگوں نے بھوک اور رسد نہ ملنے کا بہانہ کر کے جو کچھ دوکانیں وغیرہ باقی رہ گئی تھیں۔ لوٹ کھسوٹ کر بھاگنا شروع کیا۔ سب سے پہلے تلنگوں کی تین پلٹنیں جو سلیم گڑھ اورجھروکہ قلعے میں متعین تھیں بھاگیں۔ پھرکیا تھا پھر تو ان کی دیکھا دیکھی بھاگڑ پڑ گئی اور جتنی باقی فوج تھی سب بھاگ گئی۔ ‘‘

(1857ء مرتبہ محمد اکرام چغتائی صفحہ 694)

ان ’’مجاہدین‘‘نے اپنے بادشاہ کو تنہا چھوڑا اور دلّی لوٹ کر بھاگ گئے۔ اس کے بعد بادشاہ ننگے سر ہمایوں کے مقبرے میں چھپ گیا۔ ہندوؤں نے سارا الزام مسلمانوں کے سر منڈھ کر انہیں انگریز کے خوفناک انتقام کا نشانہ بنایا۔ اس طرح اس جنگ کا انتقام مسلمانوں کی تباہی پر ہوا۔

سرسید احمد خان کا تجزیہ

یہ اس جنگ کا انجام تھا۔ اس کے بارے میں سر سید احمد خان اپنی کتاب اسباب بغاوت ہند میں لکھتے ہیں:

’’غور کرنا چاہیے کہ اس زمانے میں جن لوگوں نے جہاد کا جھنڈا بلند کیا ایسے خراب اور بد رویہ اور بداطوار آدمی تھے کہ بجز شراب خوری اور تماش بینی اور ناچ اور رنگ دیکھنے کے کچھ وظیفہ ان کا نہ تھا۔ بھلا یہ کیونکر پیشوا اور مقتداء جہاد کے گنے جا سکتے تھے۔ اس ہنگامہ میں کوئی بات بھی مذہب کے مطابق نہیں ہوئی سب جانتے ہیں کہ سرکاری خزانہ اور اسباب جو امانت تھا اس میں خیانت کرنا، ملازمین کو نمک حرامی کرنی مذہب کے رو سے درست نہ تھی۔ صریح ظاہر ہے کہ بے گناہوں کا قتل علی الخصوص عورتوں اور بچوں اور بوڑھوں کا مذہب کے بموجب گناہ عظیم تھا پھر کیونکر یہ ہنگامۂ غدر جہاد ہو سکتا تھا۔ ہاں البتہ چند بد ذاتوں نے دنیا کی طمع اور اپنی منفعت اوراپنے خیالات کوپورا کرنے اور جاہلوں کے بہکانے اور اپنے ساتھ جمعیت جمع کرنے کو جہاد کا نام لے دیا پھر یہ بات بھی مفسدوں کی حرمزدگیوں میں سے ایک حرمزدگی تھی نہ واقع میں جہاد۔ ‘‘

دلی میں جہاد کا فتویٰ جو باغیوں نے چھاپا وہ دراصل جھوٹا ہے

’’دلی میں جو فتویٰ چھپا وہ ایک عمدہ دلیل جہاد کی سمجھی جاتی ہے مگر میں نے تحقیق سنا ہے اور اس کے اثبات پر بہت دلیلیں ہیں کہ وہ محض بے اصل ہے۔ میں نے سنا ہے کہ جب فوج نمک حرام میرٹھ سے دلی میں گئی تو کسی شخص نے جہاد کے باب میں فتویٰ چاہا۔ سب نے فتویٰ دیا کہ جہاد نہیں ہو سکتا اگرچہ اس پہلے فتویٰ کی میں نے نقل دیکھی ہےمگر جبکہ وہ اصل فتویٰ معدوم ہے تو میں اس نقل کو نہیں کہہ سکتا کہ کہاں تک لائق اعتماد کے ہے۔ مگر جب بریلی کی فوج دلی میں پہنچی اور دوبارہ فتویٰ ہوا جو مشہور ہے اور جس میں جہاد کرنا واجب لکھا ہے بلا شبہ اصلی نہیں چھاپنے والا ،اس فتویٰ نے جو ایک مفسد اور نہایت قدیمی بد ذات آدمی تھا ،جاہلوں کے بہکانے اور ورغلانے کو لوگوں کے نام لکھ کر اور چھاپ کر اس کو رونق دی تھی بلکہ ایک آدھ مہرایسے شخص کی چھاپ دی تھی جو قبل غدر مر چکا تھا مگر مشہور ہے کہ چند آدمیوں نے فوج باغی بریلی اور اس کے مفسد ہمراہیوں کے جبر اور ظلم سے مہریں بھی کی تھیں۔ ‘‘(اسباب بغاوت ہند۔ مصنفہ سر سید احمد خان۔ ناشر سنگ میل پبلیکیشنز 2009، صفحہ 35تا36)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button