متفرق مضامین

عظیم الشان نشانِ آسمانی چاند اور سورج کا گرہن

(حیدر علی ظفر۔ مبلغ سلسلہ جرمنی)

(اولین تاریخ اشاعت: الفضل ۱۴؍جولائی ۲۰۲۰ء)

صداقتِ حضرت امام مہدی علیہ السلام پر ایک تحقیقی مضمون

یارو جو مرد آنے کو تھا وہ تو آ چکا

یہ راز تم کو شمس وقمر بھی بتا چکا

چند ہفتے قبل جب کورونا کی وجہ سےعمرہ کے لیےزائرین کو روک دیا گیا اور اس سال حج بیت اللہ کے نہ ہونے کے خدشہ کا اظہارکیا گیاتو سوشل میڈیا پر امام مہدی علیہ السلام کے جلد ظہور کے بارے میں گفتگو سننے کو ملی۔ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کی بہت سی نشانیاں اور علامات بیان ہوئیں۔ جن میں خاص طور پر خانہ کعبہ میں طواف کے رُک جا نے کا ذکر تھا۔ مگر اُس نشان کا کسی نے ذکر نہیں کیا جوآنحضرتﷺ نے امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کے لیے دو ٹوک بیان فرمایا تھا۔ اُس کو بھی کوئی کیسے بیان کرتا جبکہ حقیقی مہدیؑ کا ظہور ہوچکا ہے۔ اور اُس کی حیات میں اُس کا وہ نشان بھی ظاہر ہوچکاہے۔ آنے والا آگیااور اب کوئی نہیں جو آسمان سے آئے۔ اُ س مقدس وجود مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوٰۃوالسلام(1835ء۔ 1908ء) بانئ جماعت احمدیہ کو لاکھو ں سعید فطرت لوگوں نے شناخت کیا اور اُسے قبول کیا۔ اور آنحضرتﷺ کا پیغام پہنچانے اور آپؑ کی بیعت کرنے کا شرف حاصل کیا۔

آنحضرتﷺ کا مہدیؑ کی صداقت جانچنے کےلیے بیان فرمودہ نشان 1894ء کو رمضان میں وقوع پذیر ہوا۔ جسےآپؑ نے اپنی صداقت کے طورپر پیش بھی فرمایا۔

1994ءمیں اس نشان کوظاہر ہوئےجب 100سال پورے ہونے کو آئے تو جماعت احمدیہ میں اس نشان کی یاد میں جلسے منعقد کیے گئےجوایک لحاظ سے اس نشان کے ظہور کی جوبلی تھی۔ آج اس نشان کو ظاہر ہوئے 126سال ہوگئے ہیں۔ اور اب اس پیشگوئی کے مصداق امام مہدیؑ کا قائم کردہ سلسلہ چہاردانگِ عالم میں اُس کے جانشین اور خلیفہ حضرت مرزا مسرور احمد ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکی قیادت میں اسلام کی امن و سلامتی کا پرچارکر رہا ہے جبکہ دیگر مسلمان امام مہدی ؑکی آمد کے خودساختہ نشانات کے ظہور کو دیکھ کر اُس کی آمد کی اُمید لگائے بیٹھے ہیں۔ اس لیے خاکسار نے مناسب سمجھا کہ کسوف و خسوف کے عظیم الشان نشان کے بارے میں قارئین کے استفادے کےلیے ایک مضمون تحریر کرے تاکہ اپنے بھی اور غیر بھی اس کی اہمیت کو سمجھیں۔ اس مضمون میں پہلے خاکسار چاند سورج گرہن کے بارے میں چند حقائق اختصار کے ساتھ قارئین کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہے تاکہ اس عظیم نشان کی یاد سے ہمارے دل ایک بار پھر خداتعالیٰ کی حمد سے بھر جائیں اور زبانیں ذکر الٰہی سے تَر ہو جائیں اور ہم اخلاص، جوش و ولولے سے دعوت الیٰ اللہ کے کام کو آگے بڑھائیں۔ اور جہاں تک ممکن ہو سیدنا حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کے الفاظ میں یہ منادی کرتے پھریں:

آسماں میرے لئے تُو نے بنایا اک گواہ

چاند اور سورج ہوئے میرے لئے تاریک و تار

اسمعوا صوت السماء جاء المسیح جاء المسیح

نیز بشنو از زمیں آمد امام کامگار

آسماں بارد نشاں الوقت می گوید زمیں

ایں دو شاہد ازپئے من نعرہ زن چوں بیقرار

اب اسی گُلشن میں لوگو راحت و آرام ہے

وقت ہے جلد آؤ اے آوارگانِ دشتِ خار

ہے کوئی کاذب جہاں میں لاؤ لوگو کچھ نظیر

میرے جیسی جس کی تائیدیں ہوئی ہوں باربار

(درثمین)

پیشگوئی کے الفاظ

حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الأَصْطَخْرِىُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ نَوْفَلٍ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ يَعِيشَ حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ شَمِرٍ عَنْ جَابِرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِىٍّ قَالَ إِنَّ لِمَهْدِيّنَا آيَتَيْنِ لَمْ تَكُونَا مُنْذُ خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ تَنْكَسِفُ الْقَمَرُ لأَوَّلِ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ وَتَنْكَسِفُ الشَّمْسُ فِى النِّصْفِ مِنْهُ وَلَمْ تَكُونَا مُنْذُ خَلَقَ اللّٰهُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ۔

(سنن الدّار قطنی۔ کتاب العیدین، باب صفۃ صلوۃ الخسوف والکسوف وھیئتُہا، جز دوم مطبوعہ دارالمحاسن قاہرہ)

ترجمہ: ہمارے مہدی کے لیے دو نشان مقرر ہیں اور جب سے زمین و آسمان پیداہوئے ہیں یہ نشان کسی اور مامور کے لیے ظاہر نہیں ہوئے۔ وہ یہ ہیں کہ رمضان کے مہینے میں چاند (اپنے گرہن کی مقررہ راتوں میں سے )پہلی رات کو گہنایا جائے گا۔ اور سورج کو (اس کے گرہن کے مقررہ دنوں میں سے )درمیانے دن کو گرہن ہوگا۔ اور یہ ایسے نشان ہیں کہ جب سے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا یہ نشان کبھی کسی (مامور) کےلیے ظاہر نہیں ہوئے۔

سنن دارقطنی میں مذکوریہ حدیث جس میں چاند اور سورج گرہن کے رمضان المبارک میں ایک مخصوص اجتماع کی خبر دی گئی ہے۔ زبردست تائید اِس بات سے ہوتی ہے کہ قرآنِ کریم میں سورۃ القیا مۃ میں بھی گرہن کا ذکرہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتاہے:

وَ خَسَفَ الۡقَمَرُ۔ وَ جُمِعَ الشَّمۡسُ وَ الۡقَمَرُ (سورۃ القیامۃ:9تا10)

کہ چاند کو گرہن لگےگااور سورج اور چاند کو جمع کردیا جائے گا۔

مضمون کو آگے بڑھانے سے قبل ضرروی معلوم ہوتاہے کہ چاند اور سورج کے بارے میں بعض ضروری معلومات اور سائنسی حقائق کو بھی درج کردیا جائے تاکہ قارئین پر اِس پیشگوئی کی عظمت و برتری بھی ظاہر ہوجائے۔ کیونکہ یہ پیشگوئی کسی منجم یانجومی کی نہیں بلکہ سرور کونین فخر موجودات سید الانبیاء حضرت محمدﷺ کی ایک عظیم الشان پیشگوئی ہے۔ جو اپنے وقت پر پوری ہوئی۔ اور اپنی نظیر نہیں رکھتی۔ حضرت آدم سے لے کر آج تک کبھی کسی نے ایسی پیشگوئی نہیں کی۔ سب تعریفیں اُسی علیم و خبیر خُدا کےلیےہیں جس نے حضورﷺ کو اس خبر سے نوازا۔ ہزاروں درود اور سلام اُس نبی پاکﷺ پر جس نے نہ صرف ہمیں مہدی کے آنےکی بشارت دی بلکہ اُس کی صداقت کا ایک قطعی و یقینی معیار بھی بتادیا۔ اور لائق صد مبارک ہیں حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؑ جن کے حق میں یہ پیشگوئی ہوئی۔ فالحمد للہ علیٰ ذٰلک

چاند اور سورج گرہن کے متعلق معلومات و سائنسی حقائق

چاند گرہن: جب زمین چاند اور سورج کے درمیان اس طرح آ جاتی ہےکہ زمین کا سایہ چاند پر گرتا ہے تو چاند گرہن ہو جاتاہے۔

سورج گرہن: جب چاند زمین کے گرد گھومتے ہوئے سورج کے آگے اس طرح آجاتا ہے کہ سورج کی روشنی کو زمین پر پڑنےسے روک دیتاہے تو سورج گرہن ہو جاتاہے۔

علم ہیئت کی اصطلاح میں چاند گرہن full moon کے وقت ہوتاہے۔ اور سورج گرہن new moonکے وقت۔ نیز گرہن کے ہونے کےلیے ضروری ہے کہ سورج ،چاند اور زمین تینوں ایک لا ئن میں ہوں یا قریب قریب ایک لائن میں ہوں۔

ایک شمسی سال میں زیادہ سے زیادہ سات اور کم سے کم دو گرہن ہو سکتے ہیں۔ سات گرہن کی صورت میں چار یا پانچ سورج گرہن ہوتے ہیں اور تین یا دو چاند گرہن ہوتے ہیں۔ اور اگر سال بھر میں صرف دو گرہن ہی لگیں تو وہ سورج گرہن ہوںگے۔ جب سے کائنات معرض وجود میں آئی ہے نہ جانے کتنے سورج اور چاند گرہن ہو چکے ہیں۔ یقیناً ہزارہا گرہن ہو چکے ہوںگے۔ مہدی کی صداقت کے لیے مخصوص تاریخوںاور بعض شرائط کے تحت چاند سورج گرہن کی پیشگوئی پرآج چودہ صدیاں بِیت چکی ہیں۔ تو اِس عرصے میں بھی یقیناً ہزاروں چاند اور سورج گرہن ہوچکے ہیں۔ مگر آنحضرتﷺ کی پیشگوئی کا تعلق تو چاند اور سورج گرہن کے ایک ایسے Pairسے ہے جو اُس وقت ظاہر ہوگا جبکہ ایک مدعیٔ مہدویت موجود ہوگا۔ وہ مہدی جو آنحضرتﷺ کا سچا عاشق اور حقیقی متبع ہو۔ پھر یہ گرہن ایک ہی رمضان کے مہینے میں ہوںگے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اُس Pair کا پہلا گرہن چاند کی راتوں میں سے پہلی رات کو ہوگا۔ دوسرا گرہن سورج گرہن کے مقررہ دنوں میں سے درمیانے دِن کو ہوگا۔ گرہن تو معمول کے مطابق ہوتے رہتے ہیں مگر گرہنوں کا یہPair ایک مدّعی (مہدی) اور مامور کی صداقت کے طور پر آسمانی شہادت ہوگی اور جب سے دُنیا پیدا ہوئی ہے یہ گرہن بطور نشان صرف ایک مدعیِ مہدویت کے لیے ظاہر ہوں گے۔ ہیٔت دانوں کی اصطلاح میں چاند سورج گرہن کب ہوتے ہیں۔ اِس کا ذکر پہلے ہو چکا ہے۔ اگر قمری کیلنڈر استعمال کیا جائے تو چاند گرہن قمری مہینہ کی 14،13 اور 15کو جبکہ سورج گرہن27، 28 یا29تاریخوں میں کسی تاریخ کو ہی ممکن ہے۔ اس اعتبار سے مہدی کی صداقت کے لیے ظاہر ہونے والے چاند گرہن نے چاند کی 13ویں اور سورج گرہن نے 28رمضان کو ہونا تھا۔

اس لطیف اور منفرد گرہنوں کےجوڑے کی چھان بین کے لیے ماہرین فلکیات نے دن رات ایک کیے اور بیسیوں فلکیات، سائنس، جغرافیہ، تاریخ و مذہب کی کتابوں کا مطالعہ کیا اور اس نتیجہ پر پہنچے کہ آنحضرتﷺ کے وصال(12؍ربیع الاوّل 11؍ہجری 8؍جون 632عیسوی) کے بعد سے آج تک ماہِ رمضان کے مہینہ میں وقوع پذیر ہونے والے گرہنوں کے Pairکی تعداد 109ہے۔ ان میں سے پہلاساتویں صدی عیسوی میں 14 ہجری(635 عیسوی) میں اور آخری بیسویں صدی میں 1402 ہجری(1982 عیسوی) میں وقوع پذیر ہوا۔

(Review of Religions Vol: 89. No.9 Sep.1994)

مدّعیان مہدویت کا ذکر

اس مرحلہ پر مدّعیان مہدویت کا ذکر کرنا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے چونکہ جس مخصوص چاند سورج گرہن کی پیشگوئی کی گئی تھی وہ ایک مہدی کے لیے تھی۔ ایک ایسا مہدی جو آنحضرتﷺ کے الفاظ’’ ہمارے مہدی‘‘ کا مصداق ہو۔ آپؐ کا غلام ہو۔ آپؐ کا عاشقِ صادق ہو اور شریعت محمدی کا تابع ہو۔ اورجو اِس معیار پر پورا نہ اُترتا ہو وہ نہ تو مہدی معہود کہلانے کا مستحق ہوگا اور نہ ہی اُس کے حق میں سورج چاند گرہن کے نشان نے پورا ہونا تھا۔

چنانچہ جب تاریخ کے اوراق کی ورق گردانی کی گئی اور مختلف تحریکوں کے بانیوں کے حالات کا مطالعہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ گذشتہ چودہ صدیوں میں مختلف ممالک میں مختلف مقامات پر اور مختلف ادوار میں کئی مدّعیان ِمہدویّت ہوئے۔ یا کئی لوگ کسی نہ کسی رنگ میں مہدی کہلائے۔ اور بعض ایسے بھی ہوئے جن کی زندگیوں میں رمضان میں سورج چاند گرہن بھی ہوئے۔ البتہ اُن میں سے سوائے سیّدنا حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کے اور کوئی مدّعی مہدویّت ایسا نہیں ہوا جس کی تائید و نصرت کےلیے مقررہ شرائط کے مطابق سورج چاند گرہن ظاہر ہوئے ہوں اور اُس نے اُن کو اپنی صداقت کانشان قرار دیا ہو۔

خسوف و کسوف خواہ ہزاروں مرتبہ ہو اور ہزارہا مدّعی ہوں۔ ہمیں اس بات سے بحث نہیں۔ ہمارا مدّعا صرف اس قدر ہے کہ دارقطنی کی حدیث میں مذکور سورج چاند گرہن نشان کے طور پرصرف ایک مدّعی مہدویت کے وقت میں ہوئے ہیں اور وہ ہیں حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام۔ جنہوں نے ڈنکے کی چوٹ پریہ اعلان فرمایا:

’’اب دیکھو کہ یہ پیشگوئی کیسی صفائی سے پوری ہوگئی اور میرے دعویٰ کے وقت رمضان کے مہینہ میں اِسی صدی یعنی چودہویں صدی 1311ہجری میں خسوف و کسوف ہوگیا۔ فالحمدللہ علیٰ ذٰلک ‘‘

(تحفہ گولڑویہ روحانی خزائن جلد 17صفحہ 132)

پھر فرماتے ہیں:

’’اِن تیرہ برسوں میں بہتیرے لوگوں نے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا۔ مگر کسی کے لئے یہ آسمانی نشانی ظاہر نہ ہوا۔ بادشاہوں کا بھی جن کو مہدی بننے کا شوق تھا یہ طاقت نہ ہوئی کہ کسی حیلہ سے اپنے لئے رمضان کے مہینہ میں خسوف کسوف کرالیتے۔ بیشک وہ لوگ کروڑہا روپیہ دینے کو تیار تھے۔ اگر کسی کی طاقت میں بجزخدا تعالیٰ کے ہوتا کہ اُن کے دعوے کے ایّام میں رمضان میں خسوف کسوف کر دیتا۔ مجھے اُس خدا کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اُس نے میری تصدیق کے لئے آسمان پر یہ نشان ظاہر کیا ہے۔ ‘‘

( تحفہ گولڑویہ ،روحانی خزائن جلد 17صفحہ 142تا143)

بعض دلچسپ حقائق

محققین نے جب دیکھا کہ پوری امّت مسلمہ میں سوائے بانی جماعت احمدیہ کے اور کوئی مدّعی مہدویت نہیں جس نے کسوف وخسوف کے نشان کو اپنی صداقت کے لیے پیش کیا ہو۔ توپھر انہوں نے اپنی تحقیق کا رُخ قادیان کے اُفق پر ظاہر ہونے والے کسوف خسوف کی طرف کیا۔ سب سے پہلے یہ معلوم کیا گیا کہ مقامِ مدّعی(قادیان) سے گرہن نظر آ سکتے تھے یا نہیں۔ کیونکہ جب چاند کو گرہن لگتا ہے تو وہ زیادہ وسیع علاقے سےنظر آتا ہے اور سورج گرہن کم علاقے سے نظر آتا ہے۔ لہٰذا کسی معین جگہ سے چاند گرہن زیادہ نظرآتاہے بہ نسبت سورج گرہن کے۔ ماہرین فلکیات نےجن چاند سورج گرہنوں کا ذکر کیاہے۔ تو یہ دُنیا کے کسی نہ کسی حصّہ میں وقوع پذیر ہوئے ہیں۔ پورے کرّہ ارض پر کسی بھی گرہن کا دیکھا جانا ناممکن ہے۔ لہذا جب گذشتہ چودہ صدیوں میں رمضان کے مہینہ میں 109گرہنوں کےPairکا مطالعہ کیا گیا تو چاند گرہنوں میں سے 65 اور سورج گرہنوں میں سے 12قادیان کے اُفق سے نظر آسکتےتھے۔

( Review of Religions Vol: 89 No 9 Sep: 1994)

چونکہ گرہنوں کا ایسا Pair ہی مدّعی مہدویت کی صداقت کا نشان بن سکتاتھا جو اُس کے مقام سے نظر بھی آ سکتاہو۔ تبھی تو اُس کی وہاں پر تاریخ بھی متعیّن ہو سکتی تھی۔ یاد رہے کہ رمضان کی تاریخوں کا انحصار چاند کے نظر آنے پرہے۔ اور اِس کے لیے باریک حساب درکار ہوتے ہیں۔ نیز مقام کے بدلنے سے تاریخیں بھی بدل جاتی ہیں۔ چنانچہ جب یہ دیکھا گیا کہ کتنے ایسے چاند گرہن تھے جو قادیان کے اُفق سے دونوں نظر آسکتے تھے تو اُن کی تعداد صرف 7نکلی۔ اب گرہنوں کے ان سات Pairs میں سے آخری اور آنحضرتﷺ کے وصال کے بعد سے رمضان المبارک میں گرہن کے سیریل نمبر کے لحاظ سے ٹھیک سوویں نمبر پر 1894ء عیسوی بمطابق 1311ہجری میں گرہنوں کا ایک ا یسا Pairہے جو ہر لحاظ سے اُس پیشگوئی کے مطا بق ہے۔ جو آنحضرتﷺ نے ’’ اپنے مہدی‘‘ کی تائید و صداقت کے لیے کی تھی۔

سُبْحَانَ اللّٰہ وَ بِحِمدِ ہِ سُبحَانَ اللّٰہِ العَظِیم۔ اللّٰهُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ وَّالِ مُحَمَّدٍ

یہاں پر بے اختیار ہوکر انسان کہہ اُٹھتا ہے:

یَارَبِّ صَلِّ عَلٰی نَبِیِّکَ دَائمًا

فِیْ ھٰذِہٖ الدُّنْیَا وَ بَعْثٍ ثَانٖ

بھیج درود اُس محسن پر تو دن میں سو سو بار

پاک محمد مصطفٰے نبیوں کا سردار

آنحضرتﷺ کے وصال کے بعد رمضان المبارک میں 100 ویں گرہنوں کے Pairکی بعض خصوصیات

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اُس چاند سورج گرہن کی کچھ تفصیلات بیان کی جائیں جن کے وقوع پذیر ہونے سے ہستی باری تعالیٰ پر ایمان اور زیادہ پختہ ہوجاتا ہے۔ آنحضرتﷺ کے برحق ہونے کا ثبوت ملتاہے اورسیدنا حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کی صداقت روز روشن کی طرح ظاہرہو جاتی ہے۔

اوّل: چاند اور سورج گرہن کے یہ عظیم الشان نشان اِس وقت ظاہر ہوئے جب حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام بانی سلسلہ احمدیہ مسیح موعود و مہدی معہود کے طور پر مدّعی تھے۔ اور آنحضرتﷺ کے عاشق صادق اور حقیقی متبع بن کر ہمارے مہدی کہلانے کے مستحق تھے۔

دوم :جب یہ گرہن ہوئے تو اُس وقت روئے زمین پر مہدی معہود ہونے کا مدّعی بجز آپؑ کے اور کوئی نہیں تھا۔

سوئم: یہ دونوں گرہن ایک ہی رمضان میں ہوئے۔

چہارم:چاند گرہن 13؍رمضان المبارک 1311ہجری بمطابق 21؍مارچ 1894ء عیسوی بروز شنبہ ( بدھ) سرِ شام بوقت 7بجے سے لےکر 9بجے بعد مغرب ظاہر ہوا۔

پنجم: سورج گرہن 28؍رمضان المبارک 1311 ہجری بمطابق6؍ اپریل 1894ء عیسوی بروز جمعۃ المبارک نصف النہار کے قریب 9بجے سے 11بجے دن ظاہرہوا۔

ششم: ان گرہنوں کو ایک مدّعی مہدویت نے اپنی صداقت کے نشان کے طور پر پیش کیا۔

مذکورہ بالا اوصاف کے حامل گرہن جب سے دُنیا پیدا ہوئی ہے صرف ایک مدّعی مہدویت حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کے لیے ظاہر ہوئے ہیں۔ اِس طرح نہ صرف حدیث رسولﷺ کی سچائی ظاہر ہوگئی بلکہ جس کے زمانہ میں یہ گرہن ظاہر ہوئے اُس کی سچائی پر مُہرِ تصدیق ثبت کر گئے۔

یہ ایک عظیم چیلنج ہے۔ روئے زمین پر بسنے والا کوئی شخص آج تک اس چیلنج کو قبول نہیں کر سکا اور نہ قیامت تک قبول کر سکتا ہے۔ حضرت مسیح موعود و مہدی معہود بانی جماعت احمدیہ کا پُرشوکت اعلان سنیے اور اس بات کی گواہی دیجیے کہ آپؑ ہی مہدی آخر الزّمان ہیں۔ جن کے ساتھ اسلام کی نشأۃ ثانیہ وابستہ ہے۔ فرمایا:

’’اور ہمیں اس بات سے بحث نہیں کہ ان تاریخوں میں کسوف و خسوف رمضان کے مہینہ میں ابتدائے دنیا سے آج تک کتنی مرتبہ واقع ہوا ہے۔ ہمارا مدّعا صرف اس قدر ہے کہ جب سے نسل ِانسانی دُنیا میں آئی ہے نشان کے طور پر یہ کسوف و خسوف صرف میرے زمانہ میں صرف میرے لئے واقع ہوا ہے اور مجھ سے پہلے کسی کو یہ اتفاق نصیب نہیں ہوا کہ ایک طرف تواُس نے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ہو اور دوسری طرف اس کے دعویٰ کے بعد رمضان کے مہینہ میں مقررہ تاریخوں میں کسوف و خسوف بھی واقع ہو گیا ہو۔ اور اُس نے اِس کسوف خسوف کواپنے لئے ایک نشان ٹھہرایا ہو… پس جو شخص یہ خیال کرتا ہے کہ پہلے بھی کئی دفعہ کسوف و خسوف ہو چکا ہے۔ اس کے ذمّہ بار ثبوت ہے کہ وہ ایسے مدّعی مہدویت کا پتہ دے۔ جس نے اس کسوف و خسوف کو اپنے لئے نشان ٹھہرایا ہو۔ اور یہ ثبوت یقینی اور قطعی چاہیے اور صرف اسی صورت میں ہو گاکہ ایسے مدّعی کی کوئی کتاب پیش کی جائے جس نے مہدی معہود ہونے کا دعویٰ کیا ہو اور نیز یہ لکھا ہو کہ خسوف کسوف جو رمضان میں دارقطنی کی مقررہ کردہ تاریخوں کے موافق ہوا ہے وہ میری سچّائی کا نشان ہے۔ غرض صرف کسوف خسوف خواہ ہزاروں مرتبہ ہوا ہو اِس سے بحث نہیں۔ ‘‘

( چشمہ معرفت ،روحانی خزائن جلد 23حاشیہ صفحہ 329تا 330)

پھر آپ علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’کیا تم اس کی نظیر پہلے زمانوں میں سے کسی زمانےمیں پیش کر سکتے ہو؟ کیا تم کسی کتاب میں پڑھتے ہو کہ کسی شخص نے دعویٰ کیا کہ مَیں خدا کی طرف سے ہوں۔ اور پھر اس کے زمانے میں رمضان میں چاند اور سورج گرہن ہوا۔ جیسا کہ اب تم نے دیکھا۔ پس اگر پہچانتے ہو تو بیان کرو۔ اور تمہیں ایک ہزار روپے انعام ملے گا۔ اگر ایسا کر دیکھاؤ۔ پس ثابت کرو اور یہ انعام لے لو اور مَیں خداتعالیٰ کو اس عہد پر گواہ ٹھہراتا ہوں اور تم بھی گواہ رہو اور خدا سب گواہوں سے بہتر ہے۔ ‘‘

( نور الحق حصّہ دوم ، روحانی خزائن جلد 8صفحہ 212)

جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہےکہ چاند گرہن زیادہ وسیع علاقہ سے نظر آسکتاہے اور سورج گرہن کم علاقہ سے نظر آتاہے۔ اور پورے کرّہ ارض پر کسی بھی گرہن کا دیکھا جانا نا ممکن ہے۔ لہٰذا 1894ءکے رمضان المبارک میں ظاہر ہونے والا سورج اور چاندگرہن مدّعی مہدویّت کے مقام قادیان ملک بھارت سے نظر آ کر اُس کی صداقت پر مہر تصدیق ثبت کر گئے۔ ہیٔت دانوں نے 1894ءکے رمضان کے سورج گرہن کے مقامات کو نقشہ کے ذریعہ بھی دیکھاہے۔ چنانچہ واضح طور پر اس سورج گرہن کا راستہ ہندوستان میں سے گذرتاہے۔ بلکہ یہ سورج گرہن ایشیا کے کئی مقامات سے دیکھا جا سکتاہے۔ اب اللہ تعالیٰ کی قدرت دیکھیں کہ مشرقی کرّہ ارض پر ان گرہنوں کے ظہور کے بعد اگلے سال 1895ء میں بھی رمضان کے مہینے میں ان گرہنوں کا ظہور ہوتا ہے۔ گو کہ یہ گرہن قادیان سے نظر نہیں آئے۔ مگر زمین کے مغربی نصف کرّہ کے بعض علاقوں سے نظر آسکتے تھے۔ چاند گرہن 11؍مارچ 1895ءعیسوی کو ہوا اور سورج گرہن26؍ مارچ 1895ءکو ہوا۔ اتّفاق کی بات ہے کہ ان گرہنوں کے وقت بھی قادیان میں رمضان کی تاریخیں 13؍ اور 28؍تھیں۔ یہ گرہن جو کہ ایک لحاظ سے مغربی کرّہ ارض پر اتمام حجت کےلیے دوسری مرتبہ ظہور پذیر ہوئے۔ ان گرہنوں کے وقت بھی سوائے بانی سلسلہ جماعت احمدیہ کے اور کوئی مدّعی مہدویّت نہیں تھا۔ حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ حقیقۃ الوحی میں دار قطنی کے حوالے سے حدیث اور اس کا ترجمہ لکھنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں:

’’اب تمام انگریزی اور اُردو اخبار اور جملہ ماہرین ہئیت اِ س بات کے گواہ ہیں کہ میرے زمانے میں ہی جس کو عرصہ قریباً بارہ ۱۲سال کا گذر چکا ہے۔ اِسی صفت کا چاند اور سورج کا گرہن رمضان کے مہینہ میں وقوع میں آیا ہےاور جیسا کہ ایک اور حدیث میں بیان کیا گیاہے۔ یہ گرہن دو مرتبہ رمضان میں واقع ہو چکاہے۔ اوّل اِس ملک میں دوسرے امریکہ میں اور دونوں مرتبہ انہیں تاریخوں میں ہوا ہے جن کی طرف حدیث اشارہ کرتی ہےاور چونکہ اس گرہن کے وقت میں مہدی معہود ہونے کا مدعی کوئی زمین پر بجز میرے نہیں تھا اورنہ کسی نے میری طرح اس گرہن کو اپنی مہدویت کا نشان قرار دیکر صدہا اشتہار اور رسالے اُردو اور فارسی اور عربی میں دنیا میں شائع کئےاِس لئے یہ نشانِ آسمانی میرے لئے متعین ہوا۔ دوسری اس پر دلیل یہ ہے کہ بارہ ۱۲برس پہلے اِس نشان کے ظہور سےخداتعالیٰ نے اِس نشان کے بارے میں مجھے خبر دی تھی کہ ایسا نشان ظہور میں آئے گا۔ اور وہ خبر براہین احمدیہ میں درج ہو کر قبل اس کے جو یہ نشان ظاہر ہو لاکھوں آدمیوں میں مشتہر ہو چکی تھی۔ ‘‘

(حقیقۃ الوحی ،روحانی خزائن جلد 22صفحہ 202)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button