حضرت مصلح موعود ؓ

تربیتِ اولاد کے متعلق اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو (قسط دوم)

مستورات سے خطاب

از: سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانیؓ

(گذشتہ سے پیوستہ)پس اللہ تعالیٰ نے جہاں بعض باتوں میں مرد اور عورت میں اتفاق رکھا ہے وہاں دونوں کے مختلف کاموں کے مدنظر اختلافات بھی رکھے ہیں مگر افسوس کہ ہمارے مرد اور عورتیں اس فرق کو نہیں سمجھتے۔ مرد تو اختلافات پر زور دیتے ہیں مگر عورتیں اتحاد و اتفاق پر زور دیتی ہیں حالانکہ دونوں غلطی پر ہیں۔ مرد شادی کے بعد عورت کو ایک حقیر جانور خیال کرتا ہے جو اس کے پاس آنے کے بعد اپنے تمام پہلے تعلقات کو بھول جائے اور وہ یہ امید کرتا ہے کہ وہ بالکل میرے ہی اندر جذب ہو جائے اور میرے ہی رشتہ داروں میں مل جائے۔ اگر وہ اپنے رشتہ داروں کی خدمت یا ملاقات کرنا چاہے تو یہ بات مرد پر گراں گزرتی ہے اور بعض اوقات تو وہ دیدہ دلیری سے ایسی بات یا حرکت کا مرتکب ہوتا ہے جو اس عورت کے خاندان کے لیے ذِلت کا باعث ہوتی ہے۔ وہ نہیں سوچتا کہ اللہ تعالیٰ نے عورت کے اندر بھی ویسا ہی دل رکھا ہے جیسا کہ اس کے اپنے اندر۔ ان باتوں کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ عورت کی صحت خراب ہو جاتی ہے اور وہ بیچاری اپنے جذبات کو دبا دبا کر رکھتی ہے اور اس کے نتیجہ میں سِل اور دِق کا شکار ہو جاتی ہے اور میرے خیال میں آج کل ہسٹیریا وغیرہ کی جو بیماریاں ہیں ان کا یہی سبب ہے۔ پس مرد سمجھتا ہے کہ عورت میں حِس ہی نہیں حالانکہ اس کے پہلو میں بھی ویسا ہی دل ہے جیسا کہ اس کے اپنے پہلو میں۔ اگر وہ سمجھتا ہے کہ اس کی بیوی کے اندر ایک محبت کرنے والا دل ہے تو کیونکر ہو سکتا ہے کہ وہ ماں جس نے اپنی بیٹی کو ایسی حالت میں پالا تھا جبکہ اگر وہ مرد اس کو دیکھتا تو ہرگز دیکھنا بھی پسند نہ کرتا، اسے وہ چھوڑ دے؟ یہی حال آج کل کی ساسوں کا ہے وہ بھول جاتی ہیں اپنے زمانہ کو، وہ بھول جاتی ہیں اُس سلوک کو جو اُن کے خاوندوں نے یا اُن کی ساسوں نے ان سے کیا تھا۔ اسی طرح عورتیں اپنی بہوؤں کے جذبات اور طبعی تقاضوںکا خیال نہیں کرتیں اور بات بات پر لڑائی شروع کر دیتی ہیں حالانکہ یہ طریق غلط ہے۔ دنیا میں ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں جن سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مرد عورت کے جذبات کے متعلق اتنی بدخیالی کرتا ہے گویا عورت میں دل ہی نہیں یا عورت کے جذبات ہی نہیں۔ لیکن عورتوں میں یہ بات بہت ہی کم دیکھی گئی ہے۔ بعض عورتیں ہوتی ہیں جو زبردست ہوتی ہیں جو چاہتی ہیں کہ مرد سب کچھ بھول جائیں اور صرف انہی میں محو ہو جائیں مگر بہت کم۔

رسول کریم ﷺکو ہم دیکھتے ہیں کہ آپ کس قدر اپنے رشتہ داروں کے جذبات کا خیال رکھتے تھے۔ ایک دفعہ آپؐ گھر میں تشریف لائے دیکھا کہ آپؐ کی بیوی اُمِّ حبیبہؓ (جو ابوسفیان کی بیٹی تھی)کی ران پر اپنے بھائی کا سر ہے اور وہ ان کے بالوں سے کھیل رہی ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا۔ اُمِّ حبیبہ کیا آپ کو معاویہ بہت پیارا ہے؟ انہوں نے جواب دیا۔ ہاں۔ آپؐ نے فرمایا مجھے بھی بہت پیارا ہے۔

آج کل کی تعلیم یافتہ عورتیں یہ سمجھنے لگ گئی ہیں کہ ہم بھی وہ سب کام کر سکتی ہیں جو مرد کر سکتے ہیں۔ اگر مرد کُشتی کرتے ہیں تو عورتوں نے بھی کشتی لڑنی شروع کر دی ہے حالانکہ کُجا عورتوں کی شرم و حیا اور کُجا کُشتی۔ اس طرح عورتیں کہتی ہیں کہ ہم نوکریاں کریں گی حالانکہ اگر وہ نوکریاں کریں گی تو ان کی اولادیں تباہ ہو جائیں گی وہ بچوں کی تربیت کیونکر کر سکیں گی۔ یہ غلط قسم کی تعلیم ہی ہے جس نے عورتوں میں اس قسم کے خیالات پیدا کر دیے ہیں۔ ولایت میں عورتوں کے اس قسم کے طریق اختیار کرنے پر ایک شور برپا ہے چنانچہ جن ملکوں کے لوگوں میں اولادیں پیدا کرنے کی خواہش ہے وہ یہی چاہتے ہیں کہ عورتوں کے لیے تمام ملازمتوں کے دروازے بند کر دیے جائیں اور جس کام کے لیے عورتیں پیدا کی گئی ہیں وہی کام کریں حالانکہ گھر میں سب سے قیمتی امانت بچہ ہے اور بچہ کی تعلیم و تربیت ماں کا اولین فرض ہے۔ اگر عورتیں نوکری کریں گی تو بچوں کی تربیت ناممکن ہے۔

میری غرض اس تمہید سے یہ ہے کہ جہاں خداتعالیٰ نے عورت کو فکر اور دل و دماغ بخشا ہے تاکہ وہ عرفان حاصل کرے وہاں مردوں اور عورتوں میں اختلاف و اشتراک بھی رکھا ہے اور مردوں کو اپنے اختلاف دیکھتے ہوئے اپنے کام کرنے چاہئیں اور عورتوں کو اپنے۔ ہاں جن باتوں میں اشتراک ہے وہ مرد اور عورت دونوں پر فرض ہیں۔ مثلاً جہاں مرد کے لیے نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ فرض ہیں وہاں عورتوں پر بھی یہ فرض ہیں تا دونوں اپنے اپنے اعمال کی جزاء و سزا حاصل کریں۔ اور یہ قانون بھی خدا تعالیٰ کی حکمت کے ماتحت ہے لیکن جہاد کے متعلق رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جہاد عورتوں پر فرض نہیں مجھے صرف مردوں کے لیے جہاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ہاں جنگ میں عورتیں مرہم پٹی کر سکتی ہیں۔ (ابن ماجہ کتاب المناسک باب الحج جہاد النساء)
اصل ذمہ داری عورتوں پر بچوں کی تعلیم و تربیت کی ہے اور یہ ذمہ واری جہاد کی ذمہ واری سے کچھ کم نہیں۔ اگر بچوں کی تربیت اچھی ہو تو قوم کی بنیاد مضبوط ہوتی ہے اور قوم ترقی کرتی ہے اگر ان کی تربیت اچھی نہ ہو تو قوم ضرور ایک نہ ایک دن تباہ ہو جاتی ہے۔ پس کسی قوم کی ترقی اور تباہی کا دارومدار اس قوم کی عورتوں پر ہی ہے۔ اگر آج کل کی مائیں اپنی اولادوں کی تربیت اسی طرح کرتیں جس طرح صحابیات نے کی تو کیا یہ ممکن نہیں تھا کہ ان کے بچے بھی ویسے ہی قوم کے جاں نثار سپاہی ہوتے جیسے کہ صحابیات کی اولادیں تھیں۔ اگر آج بھی خدانخواستہ جماعتِ احمدیہ میں کوئی خرابی واقع ہوئی تو اس کی عورتیں ہی ذمہ وار ہوں گی۔

الغرض ماؤں کی یہ ذمہ واری اس قدر اہم ہے کہ اگر مخلص مرد چاہیں کہ وہ اپنی اولادوں کی تربیت کریں تو ان میں ایسا کرنے کی طاقت نہ ہو گی کیونکہ بچوں کی تربیت کرنے کی طاقت اور ملکہ عورت میں ہی ہے اس لیے تمہیں چاہیے کہ تم اپنی اس اہم ذمہ داری کو معمولی سمجھ کر نظر انداز نہ کر دو بلکہ پوری توجہ سے اس فریضہ کو ادا کرو۔ تم میں سے کتنی ہیں جو یہ چاہتی ہیں کہ تمہارا بچہ خوبصورت ہو، تندرست ہو۔ اگر وہ بدصورت ہوتا ہے یا کالا ہوتا ہے تو تم سارے جہان کے پوڈر لگا لگا کر اس کو خوبصورت بنا کر دیکھنے کی کوشش کرتی ہو لیکن اگر تم اس کو انسانوں والی شکل دے بھی دو مگر اس کی روح انسانوں والی نہ ہو تو کیا تم اس کو دیکھ کر خوش ہو گی؟ اگر تم اپنے بچوں کی روح کی خوبصورتی کی پروا نہ کرو گی تو تم اس کی سخت ترین دشمن ثابت ہو گی کیونکہ تم نے ظاہری شکل تو انسان کی دی مگر اصل میں سانپ اور بچھو سے بدتر بنا دیا۔ تم نے بے شک اس کی ظاہری زیبائش اور آرائش میں کوئی کمی نہ کی مگر اس کے اندر شیطان پیدا ہو گیا۔ پس اگر آج کی عورتیں اپنے بچوں کی تربیت کا خیال چھوڑ دیں گی تو آئندہ نسل انسان نہیں بلکہ سانپ اور بچھو پیدا ہوں گے۔ تو پھر کیا تم اس وقت جب سانپ اور بچھو انسانوں کی شکل میں آ جائیں ان کو دیکھ کر خوش ہو گی؟ اگر تمہارے ہی بچے تمہاری تربیت کے نتیجہ میں کسی دن نیک ہوں گے تو وہ تمہارے لیے اور تمہاری روحوں کے لیے دعائیں کریں گے ورنہ وہ تم پر لعنت کے سوا اور کیا بھیجیں گے۔ ایسی کئی مثالیں ہیں کہ مائیں اپنے بچوں کو چوری اور ڈاکے اور جھوٹ کی عادتیں ڈالتی ہیں۔ مثلاً ایک بچہ کو چوری کی عادت تھی وہ باہر سے یا سکول سے چیزیں چُرا چُرا کر گھر لاتا اور ماں اس سے وہ چیزیں لے لیتی۔ ایسی ہی باتوں کے نتیجہ میں وہ پکا چور اور قاتل بن گیا۔ اسے پھانسی کی سزا ملی جیسا کہ قاعدہ ہے اس لڑکے سے بھی پھانسی دیے جانے سے قبل پوچھا گیا کہ تمہاری آخری خواہش کیا ہے؟ اس نے کہا کہ مجھے میری ماں سے ملا دو۔ جب اس کی ماں آئی تو اس نے اس کے کان میں بات کہنے کے بہانے پر اس کے کان کو دانتوں سے کاٹ ڈالا۔ لڑکے نے اس فعل کی وجہ دریافت کیے جانے پر بتلایا کہ اگر یہ میری ماں نہ ہوتی تو آج میں پھانسی نہ چڑھتا۔ اس نے ہی مجھے انسان سے شیطان بنایا ہے۔

(جاری ہے )

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button