متفرق مضامین

آنحضرت ﷺ کے آباء کا تذکرہ (قسط اوّل)

(ڈاکٹر محمد داؤد مجوکہ۔جرمنی)

الدلائل القطعیۃ فی سیرۃ النبویۃﷺ

آباء کا تفصیلی تذکرہ پر دادا تک محدود رکھنا معقول ہوتا ہے۔ اس سے پہلے کے آباء کا تذکرہ بہت کچھ اندازوں اور سنے سنائے قصص پر مبنی ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اکثر لوگوں کو پانچ پیڑھیوں سے پہلے کے آباء کا نام بھی معلوم نہیں ہوتا۔ (Kennedy، From oral tradition to written ۔صفحہ ۵۳۸۔ ۵۳۹) کجا یہ کہ ان کے تفصیلی حالات بیان کر سکیں۔ اس لیے قدیمی آباء کے تفصیلی حالات کی صحت پر ، خصوصاً ایسے زمانہ میں جبکہ سوانح حیات لکھنے کا رواج نہ تھا، انحصار ممکن نہیں۔ اس اصول کے تحت ذیل میں زیادہ تر بحث پانچ پیڑھیوں تک ہی محدود رکھی گئی ہے۔

قریش کو ن تھا؟

آپؐ کے آباء کے تذکرہ سے پہلے اس سوال پر بحث مناسب معلوم ہوتی ہے کہ قریش کون تھا؟ یہ سوال دو وجوہ کی بنا پر اہم ہے۔ اول یہ کہ اہل مکہ قریشی کہلاتے تھے اس لیے یہ تعین ضروری ہے کہ ان میں کون سے قبائل شامل ہیں؟ دوئم اس لیے کہ بعض لوگ اَلْآئِمَّۃُ مِنْ قُرَیْشٍ (احمد، مسند ، مسند البصریین۔ ابو برزۃ اسلمی، حدیث نمبر ۲۰۳۰۸)سے استنباط کرتے ہوئے حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓکی خلافت پر اعتراض کرتے ہیں۔

(زمخشری، الکشاف، جلد ۶ ،صفحہ ۴۳۷، حاشیہ ۱)

حضرت ابو بکرؓ کا نسب ابی بکر [یعنی عبداللہ ] بن عثمان[یعنی ابی قحافہ] بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تیم بن مرہ ہے۔ اور یہ مرہ بیٹے تھا کعب بن لؤیّ بن غالب بن فہر کے۔ چنانچہ مرہ آنحضورؐ اور حضرت ابو بکرؓ کے مشترکہ جدّ ہیں۔

حضرت عمرؓ کا نسب یوں ہے: عمرؓ بن خطاب بن نفیل بن عبد العزیٰ بن ریاح بن عبداللہ بن قرط بن رزاح بن عدی۔ اور یہ عدی بیٹے تھے کعب بن لؤیّ بن غالب بن فہر کے۔ چنانچہ کعب آنحضورؐ اور حضرت عمرؓ کے مشترکہ جدّ ہیں۔(مصعب الزبیری، کتاب نسب قریش، جلد ۱، صفحہ ۲۷۵ اور ۳۴۶۔۳۴۷)یوں یہ تینوں شجرہ ہائے نسب کعب پر جا کر ایک دوسرے میں مدغم ہو جاتے ہیں۔ پس مذکورہ بالا حدیث کے ان معنی کے پیش نظر جو عوام میں مشہور ہیں قریش کا کعب یا اس سے اوپر ہونا ضروری ہے ورنہ شیخینؓ کی خلافت پر مذکورہ بالا حدیث کی رو سے اعتراض وارد ہوتا ہے۔ اسی لیے علماء نے قریش سے مراد نضر بن کنانہ یا اس کا پوتا فہر بن مالک بن نضر لی ہے۔(ابن ھشام، سیرۃ رسول اللہ، جلد ۱، صفحہ ۱۳۷۔۱۳۸۔ ابن کلبی، جمھرۃ النساب، صفحہ ۲۲۔ ابن حزم، انساب العرب، صفحہ ۱۲) نضر اور فہر دونوں ہی اس نسب نامہ میں کعب سے اوپر ہیں اس لیے دونوں قسم کی روایات سے وہ شیعہ علماء کا رد کر دیتے ہیں۔

تاہم اہل سنت کے لیے مسئلہ ان روایات سے شروع ہوتا ہے جس میں قصی کو قریش بتایا گیا ہے۔ ان روایات کے مطابق قصی نے اپنے خاندان کے مختلف قبائل کو اکٹھا کر کے مکہ پر قبضہ کر لیا تھا اور وہاں سے بنو خزاعہ کو ، جو کہ اس وقت مکہ پر قابض تھے، بے دخل کر دیا۔ چنانچہ ان قبائل کو جمع کرنے کی وجہ سے اس کو قریش کہا گیا جو کہ تقرش یعنی جمع کرنے سے نکلا ہے۔ یاپھر اس لیے کہ قصی نے مکہ پر قبضہ کے بعد بعض اچھے کام کیے تو اس کو یہ لقب دیا گیا۔ (الطبری، تاریخ الرسل و الملوک، جلد ۲، صفحہ ۲۶۳۔۲۶۵۔ دو روایات محمد بن جبیر بن مطعم اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ سے منسوب ہیں۔)چونکہ حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ دونوں قصی کی اولاد نہ تھے اس لیے ان روایات کی روشنی میں شیعہ علماء کا اعتراض قائم رہتا ہے۔اقوال میں تطبیق دینے کی عادت کے مطابق یہ بھی کہا گیا ہے کہ قبائل کو قریش تو قصی کے وقت سے ہی، جب یہ مکہ میں جمع ہوئے تھے، کہا جاتا تھا تاہم ان میں تمام بنو نضر شامل ہیں کیونکہ ان سب کو ہی قصی نے جمع کیا تھا۔ اس طرح شیعہ کا اعتراض بھی رفع ہو جاتا ہے اور قصی ہی قریش بھی رہتا ہے۔

ایک روایت میں آباء کی بجائے ایک شخص قریش بن بدر بن یخلد بن نضر سے قریش کا نام منسوب بتایا گیا ہے۔ (مصعب الزبیری، کتاب نسب قریش، صفحہ ۱۲)جبکہ ایک اَور روایت میں بیان کیا گیا ہے کہ قریش دراصل بنو نضر کے تجارتی قافلوں کے لیے رہنمائی کا کام کرنے والا تھا۔ جب ان کے تجارتی قافلے آتے تو کہا جاتا کہ قریش کا قافلہ آ گیا۔ یوں رفتہ رفتہ بنو نضر کو قریش کہا جانے گا۔ یہ تمام روایات ، جیسا کہ آگے آ رہا ہے، غلط ہیں۔

ایک مشہور روایت یہ بھی ہے کہ قریش اس سمندری جانور (مراد شارک یا وہیل مچھلی ہے)کو کہتے ہیں جو سب جانوروں کو کھا جاتا ہے اور اسے کوئی نہیں کھا سکتا۔ (زمخشری، کشاف، زیر آیت ۱ سورۃ القریش ۱۰۶ : ۱۔الاندلسی، نشوۃ الطرب فی التاریخ جاھلیۃ العرب، جلد ۱صفحہ ۳۲۲)یہ ایک فضول کی شیخی ہے۔ قریش کبھی بھی اس قابل نہیں رہے کہ دوسروں کو کھا سکیں۔ بلکہ اس کے برعکس مختلف وقتوں میں ان کو کھایا گیا۔ یہاں تک کہ ان کو مکہ سے ہی نکال دیا گیا تھا۔ عرب میں موجود دیگر سلطنتوں مثلاً نبط، حمیر، سبا، دیدان، حضرموت، کندہ ، حیرہ وغیرہ کے مقابل پر قریش نے کوئی وسیع اور پائیدار سلطنت قائم نہیں کی۔زمانہ جاہلیت میں آخری مرتبہ جب ان پر حملہ ہوا، یعنی عام الفیل میں، اس وقت ان میں اپنا بچاؤ کرنے کی بھی سکت نہ تھی اور مجبوراً مکہ کو خالی چھوڑ کر پہاڑوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے تھے۔

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:

’’میرا اپنا خیال ہے کہ قریش کا لفظ قَرَشَ سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں اِدھر اُدھر سے جمع کیا…انہیں اس لئے قریش نہیں کہتے تھے کہ وہ باقی تمام قبائل عرب پر غالب تھے اور قرش کی طرح اُن کو کھا جاتے تھے۔ قریش کو عربوں میں یہ شہرت اور عزت رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے قریب زمانہ میں حاصل ہوئی ہے ورنہ اس سے پہلے تو یہ لوگ مجاوروں کی طرح وہاں بیٹھے ہوئے تھے اور قبائل عرب پر ان کو کوئی غلبہ حاصل نہیں تھا۔پس قریش کے معنے ہیں وہ قبیلہ جو ارد گرد سے اکٹھا کر کے قصیّ بن کلاب بن نضر نے مکہ میں آ بٹھایا تھا ۔‘‘

(تفسیرکبیر، جلد ۱۰، صفحہ ۹۶۔ ۹۹)

قریش کی حقیقت

اتنے مختلف نظریات پیش کرنے کے باوجود حیرت ہے کہ علماء نے اس بات پر بحث نہیں کی کہ اہل مکہ کو بنو فہر یا بنو قصی کی بجائے قریش کیوں کہا جاتا ہے؟ نیز عام طریق کے برخلاف ان کو بنو قریش کی بجائے محض قریش کیوں کہا جاتا ہے؟

دراصل قریش ان متفرق خاندانوں کا مجموعہ تھا جو مکہ میں رہائش پذیر تھے۔ ان میں قصی کی اولاد کے سوا دیگر قبائل بھی شامل ہو گئے تھے مثلاً بنو قضاعہ کے کچھ حصے۔ یہ سب رشتہ داریوں اور معاہدوں کی بنا پر ایک معاشرتی، سیاسی اور معاشی اکائی بن چکے تھے۔ اس مجموعے کے لیے بنو قصی یا بنو فہر کی بجائے قریش کا لفظ استعمال کرنا ہی مناسب تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ علماء کے قریش کو ایک حقیقی شخص قرار دینے پر اصرار کے باوجود بنو قریش کا محاورہ کبھی بھی رائج نہ ہوا۔ جبکہ بنو فہر، بنو قضاعہ، بنو ھاشم، بنو عباس ، بنو امیہ وغیرہ اصطلاحات زبان زد ِعام ہیں۔ اس خیال کی تائید ان روایات سے بھی ہوتی ہے جن میں بالواسطہ تسلیم کیا گیا ہے کہ ان کی وجہ تسمیہ کسی شخص کی اولاد ہونا نہیں تھی بلکہ تجارت تھی۔ خود قریش کا لفظ بھی، یعنی مختلف جگہوں سے جمع کرنا ، اسی بات پر دلالت کرتا ہے کہ ان میں مختلف جگہوں سے آ کر مستقل طور پر مکہ میں آباد ہو جانے والے تمام لوگ شامل تھے۔ خواہ وہ بنو فہر ہوں یا نہ ہوں۔

(ابن منظور، لسان العرب، زیر لفظ قرش۔قرش قرشاً جمع و ضم من ھُنا و ھُنا…و تقرش القوم، تجمعوا)

قریش ظواہر اور قریش بطاح

قریش کے دو حصے بتائے گئے ہیں۔ ظواہر اور بطاح۔ کہا جاتا ہے کہ قصی نے جب خزاعہ کو مکہ سے نکال کر قریش کو واپس وہاں آباد کیا تو مکہ کے حصے کر کے ہر حصہ میں کچھ قبائل کو بسایا۔ جب تعداد بڑھ گئی تو کچھ کو مجبوراً مکہ سے نکل کر اس کے مضافات میں بسنا پڑا۔ چنانچہ یہ قریش ظواہر کہلائے۔ ان میں یہ قبائل شامل ہیں: بنو مصیص بن عامر، بنو تیم بن الادرم بن غالب، اسی طرح بنو محارب اور بنو حارث سوائے دو خاندانوں کے۔ یہ وادی مکہ سے باہر رہائش پذیر ہونے کی بنا پر حملوں کا زیادہ شکار بنتے اور جنگوں میں زیادہ ملوث رہتے تھے۔

(البلاذری، کتاب جمل میں انساب الاشراف، جلد ۱، صفحہ ۴۷ تا ۵۸۔ البغدادی، کتاب المحبر، صفحہ ۱۶۷۔۱۶۹)

تاہم اکثر قبائل مکہ کی وادی میں کعبہ کے پاس قیام پذیر رہے۔ چنانچہ بنو عبدمناف، بنو عبد الدار، بنو عبدالعزیٰ، بنو عبد بن قصی بن کلاب، بنو زھرۃ، بنو تیم بن مرۃ، بنو مخزوم، بنو سھم، بنو جمح، بنو عدی بن کعب، بنو حسل بن عامر، بنو ھلال بن اھیب اور بنو ھلال بن مالک کو قریش بطاح کہا جاتا تھا۔ان خاندانوں کے علاوہ چند دیگر قبائل ، جو کہ عمان، یمامہ، جزیرہ، غطفان میں رہائش پذیر تھے ، کو حضرت عثمانؓ نے اپنے زمانہ خلافت میں قریش میں شامل کر لیا تھا۔

حدیث: اَلْآئِمَّۃُ مِنْ قُرَیْشٍ

یہ ذکر ہو چکا ہے کہ ایک حدیث کے الفاظ

اَلْآئِمَّۃُ مِنْ قُرَیْشٍ(احمد، مسند ، مسند البصریین۔ ابو برزۃ اسلمی، حدیث نمبر ۲۰۳۰۸)

سے استنباط کرتے ہوئے یہ عمومی خیال پایا جاتا ہے کہ ائمہ صرف قریش سے ہی ہو سکتے ہیں۔

اسی بناپر حضرت امام ابن حزم نے یہ کہا کہ خلافت صرف فھر بن مالک کی اولاد میں ہو سکتی ہے :

و من الفرض فی علم النسب ان یعلم المرء ان الخلافۃ لا تجوز الا فی ولد فھر ابن مالک بن النضر بن کنانہ

(ابن حزم، انساب العرب، صفحہ ۲)

یعنی علم الانساب میں سے اتنا جاننا فرض ہے کہ خلافت فھر بن مالک بن نضر بن کنانہ کی اولاد سے باہر نہیں جا سکتی۔ یہ عقیدہ اس حد تک طاقتور تھا کہ حکومت کے لیے اہلیت ثابت کرنے کے شوق میں مختلف مسلمان خاندانوں نے اپنے شجرہ نسب میں اس وجہ سے تحریف بھی کی۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے کسی بھی مرتبہ یا کام کو کسی نسل کے ساتھ مخصوص نہیں کیا۔اس کے برعکس حکومت نے سب سے اہل اشخاص کی طرف لوٹانے کا حکم دیا :

اِنَّ اللّٰہَ یَاۡمُرُکُمۡ اَنۡ تُؤَدُّوا الۡاَمٰنٰتِ اِلٰۤی اَہۡلِہَا ۙوَ اِذَا حَکَمۡتُمۡ بَیۡنَ النَّاسِ اَنۡ تَحۡکُمُوۡا بِالۡعَدۡلِ

(سورۃ النساء :۴ : ۵۹)

یعنی اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے اہل لوگوں کے سپرد کرو۔ اور جب لوگوں میں حکومت کرو، تو عدل سے کام لو۔

یہ حکم دنیاوی اور دینی، دونوں طرح کے عہدوں کے لیے ہے۔ اسی طرح عزت و مرتبہ کو نسلی یا خاندانی نسبت کی بجائے محض تقویٰ اور نیکی سے مشروط فرمایا :

اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ اَتۡقٰکُمۡ

(الحجرات :۴۹آیت ۱۴)

یعنی تم میں سے خدا کے نزدیک سب سے معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔

پس اس حدیث کا وہ مفہوم، جو عام طور پر سمجھا گیا، درست نہیں۔ اسی لیے اس بارے میں آغاز سے ہی اختلاف پایا جاتا تھا۔ حضرت عثمانؓ کے آزاد کردہ غلام ،[نوٹ: ابن عساکر، تاریخ دمشق، جلد ۴۸، صفحہ ۱۸۶۔ جب ھشام خلیفہ ہوا تو اس نے تقدیر کے مسئلہ پر اختلاف کی وجہ سے ان کا ہاتھ اور پاؤں کاٹ دئے پھر صلیب دے دی۔ بعد میں ایسی احادیث گھڑی گئیں جن کے مطابق آنحضورؐ نے غیلان کا نام لے کر ان کے فتنہ کو شیطان یا ابلیس کے فتنہ سے زیادہ سخت قرار دیا تھا۔]غیلان بن مروان الدمشقی کی رائے میں ائمہ غیر قریش میں سے بھی ہو سکتے ہیں اور ہر ایک جو کتاب و سنت کو قائم کرے امام ہو سکتا ہے ، اگرامت اس پر متفق ہو۔(الشہرستانی، الملل و النحل، جلد ۱صفحہ ۱۴۲۔۱۴۳) لیکن بہت سے دیگر امور کی طرح یہاں بھی وقت کے ساتھ ساتھ ایک مخصوص رائے باقی سب آرا پر حاوی ہو گئی۔ اور بالآخر یہ عقیدہ پختہ ہو گیا کہ ائمہ صرف قریش ہی میں سے ہو سکتے ہیں۔ بالآخر جب ترک خلفاء برسراقتدار آئے اور عملاً قریش کی حکومت ختم ہو گئی تو چار و ناچار مسلمانوں کو یہ تسلیم کرنا پڑا کہ ائمہ کا قریش میں سے ہونا ضروری نہیں۔

خانہ کعبہ کی مجاوری اور حضرت اسماعیلؓ کی اولاد ہونے کی وجہ سے قریش کا عربوں میں ایک خاص مقام تھا۔ یہ مقام اصحاب الفیل کے معجزانہ واقعہ کے بعد اور بھی بڑھ گیا تھا۔ اسی لیے آنحضورؐ نے بیان فرمایا :

النَّاسُ تَبَعٌ لِقُرَیْشٍ فِیْ ھَذَا الشَّأْنِ۔ مُسْلِمُھُمْ تَبَعٌ لِمُسْلِمِھِمْ۔ وَ کَافِرُھُمْ تَبَعٌ لِکَافِرِھِمْ

(صحیح بخاری ، کتاب المناقب۔ حدیث ۳۴۹۵)

یعنی لوگ قریش کی اس طرح اتباع کرتے ہیں کہ ان کے مسلمان قریش کے مسلمانوں اور ان کے کافر قریش کے کفار کی پیروی کرتے ہیں۔

یہاں لوگ سے مراد عرب کے لوگ ہیں نہ کہ فارسی یا رومی یا چینی۔ اُس وقت جبکہ مسلمانوں کی اکثریت عربوں پر مشتمل تھی اولین ائمہ کا عرب ہونا ضروری تھا۔ عربوں میں اس وقت تک اسلام ابھی راسخ نہیں ہوا تھا اور ان میں زمانہ جاہلیت کا نسلی تفاخر اور خاندانوں کے ادنیٰ و اعلیٰ ہونے کا خیال باقی تھا۔ تاریخ میں بار بار ایسے واقعات کا ذکر ملتا ہے جہاں یہ مخفی اور دبے ہوئے خیالات اچھل کر سطح پر آ جاتے اور ظاہر کرتے ہیں کہ وہ اس وقت تک دلوں سے محو نہ ہوئے تھے۔ چنانچہ اُس وقت عرب قبائل کو صرف کسی قریش ہی کے ہاتھ پر متفق رکھا جا سکتا تھا خصوصاً اس لیے کہ وہ ایک قریشی، یعنی آنجنابؐ، کے ہاتھ پر بیعت کر چکے تھے۔

آپؐ کی وفات سے محض ۵ ماہ قبل آنحضورؐ کی دور بین نگاہ اس بات کو محسوس فرما رہی تھی کہ خلافت کے معاملہ پر مہاجرین و انصار میں بحث ہو گی۔ چنانچہ آپؐ نے یہ ہدایت دی جس کی طرف حضرت ابو بکرؓ نے ثقیفہ بنو سعدہ میں انصار کو متوجہ فرمایا۔

(ابن اسحاق، سیرۃ، صفحہ ۷۱۷۔ ابن ھشام، سیرۃ، جلد ۴، صفحہ ۳۶۷۔ ۳۶۸۔)

ھاشم

ھاشم کے والد کا نام عبد مناف جبکہ والدہ کا عاتکہ بنت مرۃ تھا۔ان کا اصل نام عمرو تھا جبکہ ھاشم مشہور ہوئے۔

(ابن کلبی، جمھرۃ النسب، صفحہ ۲۶۔ الطبری، تاریخ الرسل و الملوک، جلد ۲، صفحہ ۲۴۷۔ ۲۵۲۔ابن سعد، کتاب الطبقات الکبیر، جلد ۱، صفحہ ۵۷۔ زبیری، کتاب نسب قریش، صفحہ ۱۴۔ ابن حزم، انساب العرب، صفحہ ۱۴۔ ابن کثیر، البدایہ و النھایہ، جلد ۳، صفحہ ۱۹)

کہا جاتا ہے کہ اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک دفعہ مکہ میں قحط پڑا تو انہوں نے فلسطین سے خشک روٹی خریدی اور اسے مکہ میں توڑ کر شوربے میں ڈالا اور یوں کھانے کا انتظام کیا۔ یہ توام پیدا ہوئے تھے۔ ان کے توام بھائی کا نام عبد الشمس تھا۔ جبکہ ان کے ایک چھوٹے بھائی کا نام مطلب تھا۔ ان کی بہنیں ھالہ، تماضر، قلابہ، حیہ، ریطہ، ام الاخثم اور ام سفیان تھیں۔ ھاشم کے ایک بھائی نوفل کا ذکر بھی ملتا ہے، جس کی والدہ واقدہ تھیں۔ کہا گیا ہے کہ ھاشم اور عبد الشمس پیدائش کے وقت جڑے ہوئے تھے ایک کا ہاتھ دوسرے کی پیشانی پر تھا۔ چنانچہ ان کو کاٹ کر الگ کر دیا گیا جس سے خون بہا۔ یہ گویا بنوھاشم اور بنو امیہ بن عبدالشمس کے درمیان خونی لڑائیوں کا بد شگون تھا۔ چونکہ اس بات پر بعض لوگوں کی تسلی ہونا ممکن نہ تھا اس لئے حسب توقع یہ روایت بھی بیان کی گئی ہے کہ ھاشم کا پاؤں عبد الشمس کے سر پر تھا۔ یہ قصہ دیگر بہت سی خرافات کی طرح بعد کے زمانہ کی ایجاد لگتا ہے جبکہ بنو ھاشم اور بنو امیہ میں دشمنی ہو چکی تھی۔اکثر روایات کتابی شکل میں بنو عباس کے زمانہ میں جمع کی گئی ہیں۔

ھاشم کی مشہور ترین اہلیہ کا نام سلمیٰ بنت عمرو تھا جو کہ مدینہ کے قبیلہ بنو نجار سے تھیں۔ بتایا گیا ہے کہ ھاشم تجارت کی غرض سے شام کے سفر پر گئے۔ یثرب میں اپنے والد عبد مناف کے دوست عمرو بن زید کے ہاں ٹھہرے۔ وہاں عمرو کی بیٹی سلمیٰ سے متاثر ہو کر اس سے شادی کی خواہش ظاہر کی۔ سلمیٰ کے پہلے خاوند احیحۃ بن جلاح تھے جو کہ وفات پا چکے تھے۔ احیحۃ سے سلمیٰ کے دو بیٹے تھے، عمرو اور معبد ، جو کہ دونوں فوت ہو چکے تھے۔سلمیٰ نے اس شرط پر ھاشم سے شادی کی کہ وہ حاملہ ہوئیں تو اپنے والدین کے گھر آ جائیں گی(لیکن انصار کی روایت کے مطابق شرط یہ تھی کہ سلمیٰ ہمیشہ ہی اپنے خاندان میں رہیں گی)۔ شرط کے موافق جب سلمیٰ حاملہ ہوئیں تو ھاشم ان کو شام کے تجارتی سفر پر جاتے ہوئے راستہ میں ان کے والدین کے ہاں مدینہ چھوڑ گئے۔ لیکن اس سفر کے دوران ہی غزہ میں ھاشم کی وفات ہو گئی۔ (بلاذری، کتاب جمل میں انساب الاشراف، جلد ۱ صفحہ ۷۱)تاہم دیگر روایات کے مطابق انہوں نے سلمیٰ سے شادی شام جاتے ہوئے کی اور شام کے سفر میں ہی غزہ میں ان کی وفات ہو گئی۔یعنی شادی کے کچھ عرصہ بعد ہی چنانچہ سلمیٰ ان کے ساتھ مکہ نہیں رہیں۔ دوسری طرف بتایا جاتا ہے کہ سلمیٰ سے ھاشم کی ایک بیٹی بھی تھی جس کا نام رقیہ تھا۔ (ابن سعد، طبقات، جلد ۱، صفحہ ۶۰ تا ۶۱۔)پس یہ ممکن نہیں کہ ھاشم شادی کے چند دن بعد ہی وفات پا گئے ہوں۔ سوائے اس کے کہ یہ جڑواں بچے ہوں۔ زیادہ درست روایت وہی معلوم ہوتی ہے جس کے مطابق ھاشم سلمیٰ کو مکہ لے آئے تھے۔ شیبہ کی پیدائش کے وقت شرط کے موافق ان کو مدینہ ان کے والدین کے ہاں چھوڑ کر خود غزہ چلے گئے جہاں ان کی وفات ہو گئی۔ شادی کے چند روز بعد وفات والی بات حضرت عبد اللہ کے متعلق بھی بیان کی گئی ہے اور شاید اس معاملہ میں مختلف امور کو خلط ملط کیا گیا ہے۔

ھاشم کے بیٹے شیبہ ، نضلہ، ابو صیفی اور اسد تھے۔ جبکہ بیٹیاں شفاء ، خالدہ ، حیہ ، رقیہ اور ضعیفہ تھیں۔ ان کی چھ بیویاں تھیں: سلمیٰ ،امیمہ، قیلہ، ھند، واقدہ اور بنی خزاعہ کی ایک عورت۔ یہ بیویاں مختلف عرب قبائل سے تھیں جن میں خزرج، بنو مصطلق، بنی سعد، بنی مازن، ثقیف شامل ہیں۔ تاہم ھاشم نے قریشی ہونے اور متعدد شادیاں کرنے کے باوجود کسی قریشی عورت سے شادی نہیں کی۔ ان بیویوں میں سے واقدہ درحقیقت ھاشم کے والد عبد مناف کی بیوی ، یعنی ھاشم کی سوتیلی ماں تھی جس کے ساتھ اس زمانہ کے عرب رواج کے مطابق عبد مناف کی وفات کے بعد ھاشم نے شادی کر لی تھی، اسے نکاح المقت کہا جاتا تھا۔ (ابن حزم، انساب العرب، صفحہ ۱۴۔ زبیری، کتاب من نسب قریش، صفحہ ۱۰ تا ۱۷۔ ابن الکلبی ، کتاب مثالب العرب، صفحہ ۱۵۴۔ ابن ھشام، سیرۃ، جلد ۱، صفحہ ۱۵۳۔ حسین یونس، تاریخ قریش، صفحہ ۱۴۵)خالدہ اور ضعیفہ اسی واقدہ سے تھیں۔

سوتیلی ماؤں کے ساتھ شادی کا رواج زمانہ جاہلیت میں عربوں میں عام تھا۔ ابن قتیبہ اور ابن کلبی نے ایسی شادیوں پر پورے باب باندھے ہیں جن میں متعدد مثالیں دی ہیں۔ (ابن قتیبۃ، کتاب المعارف، صفحہ ۱۱۲۔ ابن الکلبی ، کتاب مثالب العرب، صفحہ ۱۵۳۔۱۵۶)اسی شجرہ نسب میں ھاشم سے پہلے کنانہ بھی اپنے باپ کی بیوی کے ساتھ شادی کر چکا تھا۔ (ابن کلبی، جمھرۃ النسب، صفحہ ۲۱۔الزبیری، کتاب نسب قریش، صفحہ ۱۰۔ البلاذری، جمل من انساب الاشراف، جلد ۱صفحہ ۴۴۔ابن الکلبی، کتاب مثالب العرب، صفحہ ۱۵۳)اس طریق کو ختم کرنے کے لیے ہی قرآن کریم کو یہ تعلیم دینی پڑی:

وَ لَا تَنۡکِحُوۡا مَا نَکَحَ اٰبَآؤُکُمۡ مِّنَ النِّسَآءِ

(النساء:۲۳)

یعنی اور ان عورتوں سے نکاح مت کرو جن سے تمہارے باپ نکاح کر چکے ۔

ھاشم کے پاس مکہ کے دو اہم مناصب رفادہ یعنی کھانا کھلانا اور سقایہ یعنی پانی پلانا تھے۔ (الطبری، تاریخ الرسل و الملوک، جلد ۲، صفحہ ۲۵۴)وفات کے وقت ھاشم کی عمر محض ۲۰ یا ۲۵ سال بتائی جاتی ہے۔(بلاذری، جمل میں انساب الاشراف، جلد ۱، صفحہ ۷۰)تاہم ان کی طرف منسوب کاموں سے یہ عمر لگا نہیں کھاتی۔ یا تو ان کی عمر کم بتائی گئی ہے یا زیادہ قرین قیاس یہ ہے کہ ان کی طرف منسوب کارنامے مبالغہ آرائی پر مبنی ہیں۔

ھاشم رفادہ اور سقایہ کے منتظم ہونے کے باعث حجاج کرام کی ضیافت کے لیے خود بھی مال نکالتے اور باقی قریش کو بھی اس کی ترغیب دلاتے تھے۔ چنانچہ اہل مکہ کا ہر گھر اپنی استطاعت کے موافق ان کو اس کام کے لیے مال دیتا جو یہ اپنے مال میں شامل کر کے حجاج کی ضیافت کا انتظام کرتے۔(البلاذری، جمل من انساب الاشراف، جلد ۱، صفحہ ۶۷۔۶۸۔) اسی کام کی بنا پر حاصل شدہ عزت اور معاشرتی رسوخ کو دیکھ کر ہی ان کے بھتیجے امیہ نے ان کے ساتھ مقابلہ شروع کیا جس کا انجام نہایت بھیانک ہوا۔

مطیبین اور احلاف

تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ ھاشم کے دادا قُصی نے مکہ کے پانچوں اہم ترین مناصب اپنے بڑے بیٹے عبد الدار کو سونپ دیے تھے۔(الطبری، تاریخ الرسل و الملوک، جلد ۲ صفحہ ۲۵۹۔۲۶۰) ان میں حجابۃیعنی کعبہ کی کنجیوں کی رکھوالی، لواء یعنی جنگ کے واسطے اہل مکہ کے جھنڈے کا باندھنا، رفادہ یعنی حاجیوں کو کھانا کھلانا ، سقایہیعنی حجاج کو پانی پلانا اوردار الندوہ یعنی پنچائیت کی سربراہی شامل تھے۔

[نوٹ: مختلف مصنفین نے ان عہدوں کی مختلف تفاصیل لکھی ہیں۔ بعض کے نزدیک یہ چھ عہدے تھے، سدانہ یعنی کعبہ کی چابیوں کی رکھوالی، رفادہ یعنی غریب حاجیوں کو کھانا کھلانا، سقایہ یعنی حجاج کو پانی پلانا، دار الندوہ یعنی پنچائیت کی سربراہی، لواء یعنی جھنڈا اور امارہ یعنی جنگ کے وقت فوج کی کمان اور سفارتی خطوط۔ (الاندلسی، نشوۃ الطرب، جلد ۱ صفحہ ۳۲۳) لیکن بعض سقایہ اور رفادہ کو ایک جبکہ لواء اور قیادہ ، یعنی افواج کی قیادت، کو الگ الگ مانتے ہیں۔ Stobart، Islam and ist founder، صفحہ ۳۸]

جب تک قصی کے بیٹے عبد مناف زندہ رہے اس وقت تک یہی تقسیم جاری رہی۔ البتہ عبد مناف کی وفات کے بعد بنو عبد الدار اور بنو عبد مناف میں ان مناصب کے متعلق جھگڑا شروع ہو گیا۔ چنانچہ ھاشم نے اپنے تایا کی اولاد سے یہ مناصب چھیننے کی کوشش شروع کر دی اور اس کے لیے اپنے بھائیوں اور بنو اسد، بنو زہرہ، بنو تیم بن مرہ اور بنو حارث بن فہر کو ساتھ ملا لیا۔ انہوں نے ایک دوسرے کی حمایت کا وعدہ کیا اور اس کی تصدیق کے لیے ان کی عورتوں نے ایک برتن میں خوشبو ڈال دی جس میں ہاتھ ڈال کر یہ لوگ کعبہ پر ملتے تھے۔ چنانچہ یہ حلف المطیبین یعنی خوشبو والے معاہدین کہلائے۔

(ابن سعد، کتاب الطبقات الکبیر، جلد ۱، صفحہ ۵۸۔ البغدادی، کتاب المحبر، صفحہ ۱۶۶)

ان کے مقابل پر عامر بن ھاشم بن عبد مناف بن عبد الدار نے بھی اپنی ایک حلیف جماعت بنائی۔ اس میں بنو مخزوم، سہم، جمح اور بنو عدی بن کعب شامل تھے۔ یہ لوگ اپنے معاہدہ کی توثیق کے لیے ایک برتن میں خون ڈال کر لائے جس میں ہاتھ ڈال کر کعبہ پر لگاتے تھے۔ چنانچہ یہ گروہ حلف الاحلاف یعنی حلف والے معاہدین کہلائے۔

جب دونوں طرف سے جنگ کی تیاری ہو چکی تو اکابرین نے معاملہ فہمی سے کام لیتے ہوئے افہام و تفہیم کے ذریعہ صلح کرنے کی کوشش کی۔ آخر طے پایا کہ سقایہ اور رفادہ کے مناصب تو بنو عبد مناف کو دے دیے جائیں جبکہ حجابہ، لواء اور ندوہ بدستور بنو عبد الدار کے پاس ہی رہیں۔

(ابن سعد، کتاب الطبقات الکبیر، جلد ۱، صفحہ ۵۸۔۵۹)

(باقی آئندہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button