متفرق مضامین

حکمت کے موتی

محترم صاحب زادہ مرزا مظفر احمد صاحب تحریر فرماتے ہیں:

یہ مختصر سا مضمون میرے ان مشاہدات اور تجربات پر مبنی ہے جو خوش قسمتی سے مجھے حضرت مصلح موعو د کو اپنے بچپن سے پختہ عمر تک بہت قریب سے دیکھنے نصیب ہوئے۔

میری سب سے پہلی یاد مجھے اس زمانہ میں لے جاتی ہے جب میں حضور کو حضرت اماں جان کے صحن سے نماز پڑھانے بیت الذکر جاتے ہوئے دیکھتا ہوں۔ نماز سے واپسی پر آپ اپنا کچھ وقت خاص طور پر مغرب کی نماز کے بعد حضرت اماں جان کی صحبت میں گذارتے اور ان عزیزوں سے بھی گفتگو فرماتے جو وہاں موجود ہوتے۔ کئی مرتبہ خاص طور پر سردیوں کے موسم میں آپ پہلے بیت الدعاء میں سنتیں ادا فرماتے۔ ان موقعوں پر آپ صحن یا اگر موسم زیادہ خشک ہو تو حضرت اماں جان کے کمرے میں ٹہلتے رہتے اور بعض مرتبہ حضرت اباجان یا پھر حضرت میر محمد اسماعیل صاحب جو اپنی ہمشیرہ حضرت اماں جان سے ملنے تشریف لائے ہوتے کے ساتھ جماعتی امور پر تبادلہ خیال فرماتے۔ آپ بچوں سے بھی گفتگو فرماتے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ آپ نے فرمایا کہ قرآن مجید حکمت و دانش کا سمندر ہے تم بچوں کو اس کے مطالعہ اور اس پر غور کرنے کی عادت ڈالنی چاہئے تاتم اس سے حکمت کے موتی نکال سکو۔ اگر تم ابھی بالغ نظری کی عمر تک نہیں بھی پہنچے تو کم از کم سیپیاں ہی نکالنے کی اہلیت پیدا کر لو۔

(الفضل 16 فروری 2000ء)

میرا گھر میری جنت

گھروں کو جنت نظیر بنانے کے حوالے سےحضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

’’آنحضرتﷺ نےفرمایا کہ دنیا سامانِ زیست ہے یعنی دنیا جو ہے اس زندگی کا سامان ہے اور نیک عورت سے بڑھ کر کوئی سامانِ زیست نہیں ہے۔ کوئی نیک عورت ہو تو اس سے بڑھ کر دنیا کاکوئی سامان بہترین نہیں ہے۔ پس اس میں جہاں مردوں کو توجہ دلائی کہ نیک عورت سے شادی کرو، وہاں عورت کے لئے بھی غور کا مقام ہے کہ اپنی زندگی کو اس طرح ڈھالنے کی کوشش کریں جس طرح خدا تعالیٰ اور اس کے رسول چاہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے رسولﷺ نے بہترین بیوی کی کیا تعریف فرمائی ہے، فرمایا جو خاوند کے کام کو خوشی سے بجا لائے اور جس سے روکے، اس سے رُک جائے۔ اگر خاوند میں تقویٰ نہ ہو تو یہ بہت مشکل بات ہے لیکن پھر بھی گھروں کو بچانے کے لئے رشتوں کو بچانے کے لئے جس حد تک ہوسکے کوشش کرتے رہنا چاہئے۔ حتّی الوسع جھگڑوں کو ختم کرنے کے لئے یہ کوشش کرنی چاہئے۔ تقویٰ پر چلنے والے جس گھر کی آنحضرتﷺ نے تعریف فرمائی ہے اور اُس کے لئے پھر رحم کی دعا مانگی ہے وہ وہ گھر ہے جس میں رات کوخاوند نوافل کی ادائیگی کے لئے اٹھے اور اپنی بیوی کو بھی جگائے، اگر گہری نیند میں ہے تو پانی کا ہلکا سا چھینٹا دے۔ اسی طرح اگر عورت پہلے جاگے تو یہی طریق خاوند کوجگانے کے لئے اختیار کرے اور جب ایسے گھروں میں خاوند بیوی کے نوافل کے ذریعے راتیں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے جاگیں گی تو وہ گھر حقیقتاً جنت نظیر ہوں گے۔

ایک جھگڑا میرے پاس آیا۔ مرد کے ظلم کی وجہ سے رشتہ ٹوٹنے لگا تھا۔ اُس عورت کے چار پانچ بچے بھی تھے۔ میں نے سمجھایا کچھ اصلاح ہوئی لیکن پھر مرد نے ظلم شروع کر دیا۔ پھر عورت نے خلع کی درخواست دے دی۔ آخر پھر دعا اور سمجھانے سے اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور ان دونوں کی صلح ہوگئی اور اب فجر کی نماز جب مسجد میں پڑھنے آتے ہیں اور جب میں اُن کو جاتے ہوئے دیکھتا ہوں تو بڑی خوشی محسوس ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اِن کو عقل دی اور انہوں نے اپنے بچوں کی خاطر دوبارہ اپنے رشتے جوڑ لئے۔ تو عورت کو اور مرد کو ہمیشہ یہ خیال رکھناچاہئے کہ صرف اپنے جذبات کو نہ دیکھیں بلکہ بچوں کے جذبات کو بھی دیکھیں۔ اُن کا بھی خیال رکھیں ۔‘‘

( مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 18؍دسمبر 2009ء)

شکر گزاری

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےلجنہ اماء اللہ جرمنی کے سالانہ اجتماع کے موقع پر لجنہ سے مخاطب ہو کر فرمایا:

’’پھر شکر کی عادت ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو وہ تمہیں اور دے گا۔ تمہارے پر نعمتوں کو بڑھاتا چلا جائے گا۔ پس اپنی گھریلو زندگی میں بھی اُس کا شکر ادا کریں۔ اپنے خاوندوں کی کمائی دیکھیں۔ اُن کے اندر خرچوں میں رہ کے گزارہ کریں، گھر چلائیں، اُس کا شکر ادا کریں۔ خاص طور پر بعض نئی شادی شدہ لڑکیوں کے بعض مسائل مجھے آ جاتے ہیں۔ کہاں تک یہ صحیح ہے یا غلط ہے لیکن لڑکا لڑکی پرالزام لگا رہا ہوتا ہے اور لڑکی لڑکے پر۔ لڑکے کا الزام یہ ہوتا ہے کہ اس کا مطالبہ بہت زیادہ ہے اور بعض دفعہ یہ صحیح ثابت ہوتا ہے کہ لڑکیاں کہتی ہیں کہ یہ ہماری ڈیمانڈ پوری نہیں کرتا۔ یہ ہر مہینے یا ہر ہفتے ہمیں بیوٹی پارلر نہیں لے کے جاتا۔ بیوٹی پارلر جانا تو ایک احمدی عورت کا یا احمدی لڑکی کا مقصد نہیں ہے۔ اگر کسی کے پاس توفیق نہیں ہے تو کس طرح لے جاسکتا ہے؟ اپنی حدوں کے اندر رہ کر گزارہ کریں تو تبھی رشتے قائم رہ سکتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم شکر کرو گے تو میں تمہیں بڑھاؤں گا۔ ہر نیا جوڑا جو اپنی نئی زندگی شروع کرتا ہے اُس کی ابتدا تھوڑے سے ہی ہوتی ہے اور پھر اللہ تعالیٰ فضل فرماتا ہے اور آہستہ آہستہ جوں جوں زندگی گزرتی ہے تجربہ حاصل ہوتا ہے مردوں کی آمدنیاں بھی بڑھتی رہتی ہیں اور وسائل بھی پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ پس یہ نوجوان لڑکیوں کو خاص طور پر میں کہتا ہوں کہ صبر اور حوصلے اور شکر کی عادت ڈالیں گی تو انشاء اللہ تعالیٰ آپ کے رشتے بھی قائم رہیں گے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بھی وارث بنتی چلی جائیں گی اور اُن لوگوں میں شمار ہوں گی جن کو پھر اللہ تعالیٰ پیار کی نظر سے دیکھتا ہے۔ اپنے عہد پورے کرنے والی ہوں گی۔ ‘‘

( مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 16؍نومبر 2012ء)

(مرتبہ :۔ سیدہ منورہ سلطانہ۔جرمنی)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button