خطاب حضور انور

جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ فرانس 2019ء کے موقع پر خواتین کے اجلاس سے حضور انور کا بصیرت افروز خطاب (05؍ اکتوبر 2019ء بروزہفتہ)، تغی شاتو (بیت العطاء) فرانس

حیا عورت کی نشانی ہے۔ …حیا کی حفاظت اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے حکموں پر چل کر ہی ہو سکتی ہے

یہ اولادیں، یہ بچے آپ کے پاس جماعت کی امانت ہیں

بچوں کی تربیت کی اصل ذمہ داری اسلام نے ماؤں پر ڈالی ہے اور آج اگر ہم نے اپنی احمدی نسل کو سنبھالنا ہے تو

ماؤں کو اس ذمہ داری کا احساس پہلے سے بڑھ کر کرنا ہو گا اس کے لیے کوشش بھی کرنی ہو گی اور دعا بھی کرنی ہو گی

اپنے بچوں کو دین کے ساتھ جوڑنا ہے تو باپوں کو بھی کوشش کرنی پڑے گی ماؤں کو بھی کوشش کرنی پڑے گی

قناعت پیدا کرنے کے لیے بھی خدا تعالیٰ سے دعا کی ضرورت ہے اللہ تعالیٰ فضل فرمائے تو تبھی اس کی بھی توفیق ملتی ہے۔

جو تقویٰ میں بڑھنے کی کوشش کرتا ہے ان میں اللہ تعالیٰ قناعت بھی پیدا فرما دیتا ہے۔

ہمیں ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جو اللہ تعالیٰ کے حکموں سے ہٹ کر چلے گا وہ اپنی اور اپنی نسلوں کی زندگیوں کو برباد کرے گا

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ- بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾ اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ ٪﴿۷﴾

جیسا کہ میں نے کل خطبے میں بھی ذکر کیا تھا کہ آج کل دنیا بڑی تیزی سے اپنے خدا سے دور جا رہی ہے۔ ایک بہت بڑی تعداد نہ صرف دین سے دور جا رہی ہے بلکہ خدا تعالیٰ کے وجود کی بھی انکاری ہے اور اس ماحول میں رہتے ہوئے جہاں دنیا کے سامانوں کو سب کچھ سمجھا جاتا ہے ہمارے میں سے بھی بعض اس ماحول کے زیر اثر آ جاتے ہیں۔ اس میں بڑے بھی شامل ہیں اور بچے بھی اور نوجوان بھی۔ ایسے حالات میں ہماری بہت بڑی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ اپنی حالتوں پر توجہ رکھیں اپنے آپ کو بھی اس ماحول کے اثر سے بچائیں اور اپنے بچوں کو بھی اس ماحول کے اثر سے بچائیں اور خود اپنے آپ کو بھی ایک کوشش سے خدا تعالیٰ کے قریب تر کرنے کی کوشش کریں اور اپنے بچوں کو بھی خدا تعالیٰ کے قریب تر لانے کی کوشش کریں۔ اپنے آپ کو بھی دنیا کی غلاظتوں سے بچائیں اور اپنی اولادوں کو بھی دنیا کی غلاظتوں سے بچائیں۔ بچوں کے سامنے اپنے ایسے نمونے قائم کریں کہ بچے بڑوں کے نمونوں پر چل کر ان راہوں پر چلیں جو دین کی طرف لے جانے والی راہیں ہیں، جو خدا تعالیٰ کا قرب دلانے والی راہیں ہیں، جو خدا تعالیٰ کے وجود پر ایمان اور یقین پیدا کرنے والی راہیں ہیں، جو اللہ تعالیٰ کا پیار سمیٹ کر دنیا اور آخرت سنوارنے والی راہیں ہیں۔ جہاں یہ مردوں کی ذمہ داری ہے کہ اپنے نمونے قائم کریں اور بہت محتاط ہو کر اس مادی دنیا کی چمک دمک میں زندگی بسر کریں وہاں یہ عورتوں کی بھی ذمہ داری ہے۔ بچوں کی تربیت کی ذمہ داری اللہ اور اس کے رسول نے عورتوں پر ڈالی ہے۔ اگر ہماری عورتیں خدا سے پیار کرنے والی ہیں، اگر خدا تعالیٰ کا خوف دل میں رکھنے والی ہیں تو ان کو اپنی نسلوں کو سنبھالنے کے لیے اس ماحول میں بڑی محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ وقفِ نَو میں بہت سی مائیں اپنے بچے پیش کر دیتی ہیں تو پھر ان کی تربیت بھی ان کی ذمہ داری ہے لیکن اگر ہر بچے کی تربیت کی طرف توجہ نہیں ا ور وقفِ نَو اور غیر وقفِ نَو ہر بچے پر نظر نہیں تو کسی ایک کی تربیت پر برا اثر پڑے گا یا وقفِ نَو کی تربیت صحیح نہیں ہو گی یا غیر واقفِ نَو کی تربیت صحیح نہیں ہو گی۔ اس لیے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ صرف وقفِ نَو کا خیال رکھنا ہے یا صرف لڑکوں کا خیال رکھنا ہے یا صرف لڑکیوں کو ہی روک ٹوک کرنی ہے۔ بعض مائیں لڑکوں کی طرف توجہ زیادہ دیتی ہیں یا بعض مائیں ایسی ہیں جو لڑکوں کو لاڈ میں رکھتی ہیں اور لڑکیوں کو روک ٹوک کرتی ہیں۔ ہر صورت میں کوئی نہ کوئی بچہ اگر یہ اختلاف ہے، تربیت میں اگر کوئی امتیاز رکھا جا رہا ہے تو کوئی نہ کوئی بچہ پھر بگڑ جاتا ہے۔ اس ماحول میں تربیت بڑا حساس معاملہ ہے۔ اس لیے بہت سوچ سمجھ کر تربیت کا ہر قدم اٹھانا ہو گا۔ مرد اگر اپنی ذمہ داری صحیح طرح نہیں سنبھال رہے اور ان کے عمل بچوں پر خاص طور پر لڑکوں پر غلط اثر ڈال رہے ہیں تو ان مردوں کو بھی سمجھائیں، اپنے خاوندوں کی طرف بھی توجہ کریں۔ عورت کو گھر کی نگران بننے کا ایک اعلیٰ نمونہ بننے کی ضرورت ہے۔ ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے صحابہ تمہارے لیے اسوۂ حسنہ ہیں۔

(مشکوٰۃ المصابیح جلد 2 صفحہ 414 کتاب المناقب باب مناقب الصحابۃ حدیث 6018 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)

اور مرد بھی اسوۂ حسنہ ہیں اور عورتیں بھی۔ یہ نہیں کہ صرف مرد ہی اسوۂ حسنہ ہیں بلکہ عورتیں بھی جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت میں آنے کا اعزاز پایا انہوں نے بھی اپنے نمونے قائم فرمائے وہ بھی پاک نمونہ بنیں۔ صحابیات بھی ایسی تھیں جنہوں نے اپنی عبادتوں کے قابل تقلید نمونے قائم کیے۔ا یسی مثالیں ملتی ہیں کہ انہوں نے راتیں عبادت میں گزاریں اور دن کو روزے رکھے اور پھر ان کے خاوندوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ان کی شکایت کرنی پڑی کہ میری بیوی وہ ہے جو ساری رات عبادت میں مشغول رہتی ہے اور اپنی ذمہ داریاں اور حقوق ادا نہیں کرتی۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو عورتوں کو سمجھانا پڑا کہ درمیانی راستہ اختیار کرو۔

(مسند احمد بن حنبل جلد 4 صفحہ 213 حدیث 11823 مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء)

نہ ہی زیادہ تر یہ کہ مستقل اتنا زیادہ عبادتوں میں مشغول ہو جاؤ کہ گھر کی ذمہ داریاں نہ نبھا سکو، نہ یہ کہ دنیا کی طرف ہی رغبت اتنی ہو جائے کہ دین کا پتا ہی کچھ نہ ہو۔ آپؐ نے فرمایا کہ درمیانی راستہ اختیار کرو۔ پس اگر شکایت ہوئی تو اس بات پر کہ ہماری عورتیں عبادت کرنے میں ہر وقت مصروف رہتی ہیں۔ وہ ماحول ایسا تھا جس نے ان لوگوں کی ایک کایا پلٹ دی تھی۔ عورتوں کو بھی شکوہ اگر مردوں سے ہوا تو یہ کہ وہ سارا دن روزے میں رہتے ہیں اور راتوں کو عبادت کرتے ہیں چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک دفعہ ایک صحابیہؓ کا حلیہ ایسا بنا ہوا تھا کہ بالکل اپنا خیال نہیں تھا۔ میلے کپڑے، نہ کپڑوں کا خیال، نہ بالوں میں کنگھی، نہ اس زمانے کے مطابق کوئی سنگھار۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بیوی نے پوچھا جب وہ ان کے پاس آئیں کہ تم نے اپنا یہ کیا حلیہ بنایا ہوا ہے؟ تو ان کا جواب تھا کہ تیار اگر میں ہوں، اپنا حلیہ ٹھیک کروں تو کس کے لیے؟ میرا خاوند تو راتوں کو عبادت کرتا ہے اور دن کو روزے رکھتا ہے۔ میری طرف تو اس کی کوئی توجہ ہی نہیں ہے، نظر ہی نہیں ہے۔ اس پر ان زوجہ محترمہ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حرم نے، زوجہ نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ فلاں شخص کی بیوی کا یہ حال ہے اور اس نے اپنے خاوند کے بارے میں یہ بتایا ہے کہ اس کی اس کی طرف کوئی توجہ نہیں۔ روزوں اور عبادت میں مشغول رہتا ہے۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو فرمایا کہ تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ میں تم سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے قریب ہوں۔ روزے بھی رکھتا ہوں، کھولتا ہوں۔ بچوں کے بھی حقوق ادا کرتا ہوں۔ بیویوں کے حقوق ادا کرتا ہوں۔ معاشرے کے حقوق ادا کرتا ہوں۔ پس اپنے بیوی بچوں کا بھی حق ادا کرو۔ چنانچہ کچھ عرصے بعد وہی صحابیہ جو پہلے جن کا حال برا تھا وہ دوبارہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کے پاس آئیں تو اس وقت وہ بڑی تیار ہوئی ہوئی تھیں اور بڑے اچھے کپڑے تھے، خوشبو لگائی ہوئی تھی۔ انہوں نے پوچھا کہ آج تم بڑی تیار ہوکر آئی ہو، بڑی بنی سنوری ہوئی ہو ،کیا وجہ ہے؟ تو ان صحابیہؓ نے جواب دیا اس لیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کہنے پر میرا خاوند میری طرف توجہ دیتا ہے۔

(مجمع الزوائد جلد 4 صفحہ 396 کتاب النکاح حدیث 7612 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2001ء)

تو یہ وہ لوگ تھے جن کے نمونے اپنانے کا ہمیں حکم ہے نہ کہ دنیا داری میں ڈوب کر اپنی اور اپنی نسلوں کی دنیا و آخرت بگاڑنی ہے۔ یہ صحابیہ کا نمونہ ہے کہ تیار ہوئی ہیں، سنگھار کیا ہے تو خاوند کے لیے۔ دنیا کو دکھانے کے لیے میک اپ نہیں کیا، دنیا کو دکھانے کے لیے فیشن نہیں کیا بلکہ تقویٰ پر چلتے ہوئے اپنے گھروں میں پاکیزگی کے نمونے قائم کرتے ہوئے وہ نمونے قائم کیے ہیں جن سے خدا تعالیٰ بھی خوش ہوا ہے اور اس کا رسولؐ بھی خوش ہے اور گھر کا ماحول بھی پُرسکون ہوا ہے اور بچوں کی تربیت بھی ہو رہی ہے۔ آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ بعض مائیں ایسی ہیں کہ بچوں کوگھروں پر چھوڑ کر تیار ہوتی ہیں اور سہیلیوں کے ساتھ سیر و تفریح کے لیے چلی جاتی ہیں۔ میک اپ کر کے پھر پردے کا بھی خیال نہیں رکھتیں۔ ایسی عورتوں کے متعلق کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ وہ بچوں کی تربیت کرنے والی ہیں یا گھروں کی نگران ہیں۔ ہاں یہ بھی صحیح ہے کہ بعض عورتیں یہ بھی کہتی ہیں کہ ہمارے خاوند ہمیں کہتے ہیں کہ پردے کے بغیر ہمارے ساتھ پھرو اور میک اپ وغیرہ بھی کیا ہو اور مکس پارٹیوں میں بھی جاؤ اور گھروں میں بھی ایسی جگہ مردوں کے ساتھ بیٹھو تو ایسے مردوں کو بھی سوچنا چاہیے کہ کیوں وہ انہیں اور اپنی نسلوں کی دنیا و عاقبت تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

پس ہمارے مردوں کو بھی اور ہماری عورتوں کو بھی اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کیا یہ نمونے جو ہمارے سامنے قائم ہوئے اور اس زمانے میں جس مسیح و مہدی کی جماعت سے ہم منسوب ہوتے ہیں انہوں نے خاص طور پر صحابہؓ کے نمونوں کو اپنانے کی تلقین فرمائی اور پاک تبدیلیوں کا ہم سے عہد لیا اس کے مطابق ہم اپنی زندگیاں گزارنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ کیا ان پاک نمونوں کا دسواں حصہ بھی ہمارے اندر تبدیلی پیدا ہوئی ہے؟ کیا ہماری عبادتوں میں ہلکی سی بھی جھلک ان معیاروں کی نظر آتی ہے؟ اگر نہیں تو ہمارے لیے بہت فکر کا مقام ہے۔ اس مادی دنیا میں اگر ہماری حالتوں میں تبدیلیاں پیدا نہ ہوئیں، ہماری عبادتیں اس معیار کی نہ ہوئیں جو خدا تعالیٰ ہم سے چاہتا ہے تو پھر اگلی نسل کے دین پر قائم رہنے کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔

پس اپنے مقصدِ پیدائش کو پورا کرنے کے لیے، اپنی نسلوں کو تباہ ہونے سے بچانے کے لیے، ان کو خدا تعالیٰ کے قریب کرنے کے لیے ہمیں اپنی عبادتوں کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے اخلاق کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے دوسرے پاک نمونے دکھانے کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا مَیں نے کل بھی خطبے میں اس طرف توجہ دلائی تھی مردوں کو تو مسجدوں میں جانے کا حکم ہے کہ پانچ وقت نمازیں باجماعت پڑھو لیکن عورتوں کے لیے تو گھروں میں ہی نماز پڑھنے کی اجازت ہے اور ثواب بھی مردوں کے برابر ہے جن کو مسجدوں میں جا کر نماز پڑھنے کا ثواب ملتا ہے۔ پس اس سہولت سے بھی اگر فائدہ نہ اٹھائیں تو پھر اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہو گی؟ ایک احمدی عورت جس نے زمانے کے امام کو اس لیے مانا ہے کہ اس وقت زمانے میں جو فتنہ و فساد کی حالت ہے میں نے اس سے بچ کر رہنا ہے تو پھر عابدہ بننا ہو گا، اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والا بننا ہو گا۔ اس کی بندگی کا حق ادا کرنے والا بننا ہو گا اور جب عابدہ بنیں گی، عبادت گزار بنیں گی تو تب ہی باقی نیکیاں کرنے کی بھی توفیق ملے گی۔ تب ہی اس بات کی طرف بھی توجہ پیدا ہو گی کہ میں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی کامل فرمانبردار بننا ہے ، تب ہی قانتات میں شمار ہو گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورت اپنے گھر کے،اپنے خاوند کے گھر کی نگران بنائی گئی ہے۔ وہ اس کی غیر حاضری میں اس کے گھر اور اولاد کی نگرانی اور حفاظت کی ذمہ دار ہے۔

(صحیح البخاری کتاب النکاح باب المرأۃ راعیۃ فی بیت زوجھا حدیث 5200)

پس اولاد کی تربیت کی ذمہ داری عورت پر سب سے زیادہ ڈالی گئی ہے کہ خاوند اگر باہر کے کاموں میں مصروف ہے، گھر میں نہیں ہے تو عورت نگران ہے۔ سکول میں بچے گئے ہیں، سکول سے بچے گھر واپس آئے ہیں تو عورت کی موجودگی گھر میں ضروری ہے تا کہ ان کی خوراک کا خیال رکھے اور ان سے پھر سکول کے حالات بھی پوچھے اور پھر باقی جو تربیت کے امور ہیں ان کے بارے میں انہیں بتائے۔

پس اولاد کی تربیت کی ذمہ داری عورت پر سب سے زیادہ ڈالی گئی ہے۔ اور ایک عمر کو پہنچنے تک بچے ماؤں سے زیادہ تعلق رکھتے ہیں اور جب تک احمدی مائیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو سمجھتے ہوئے اس ذمہ داری کو نبھائیں گی نیک نسل اللہ تعالیٰ کے فضل سے پیدا ہوتی رہے گی اور پروان چڑھتی رہے گی۔ انسان کمزور ہے بغیر اللہ تعالیٰ کی مدد اور اس کے فضل کے یہ حفاظت اور نگرانی کا کام نہیں کر سکتا اور پھر عورت تو ویسے بھی کمزور ذات ہے اس تربیت اور نگرانی کے کام کو کرنے کے لیے اپنے نمونے اور سمجھانے کے ساتھ بچوں کو سمجھانے کے ساتھ ساتھ اس کو تو بہت بڑھ کر دعائیں کرنے کی ضرورت ہے، اللہ تعالیٰ کی مدد مانگنے کی ضرورت ہے۔ جو مائیں دعاؤں سے کام لے کر پھر ساتھ تربیت بھی کرتی ہیں ان کی اولاد جو ہے وہ الا ماشاء اللہ نیکیوں پر قائم رہنے والی اولاد ہوتی ہے۔ وہ اولادیں دین سے بھی جڑی رہتی ہیں اور ماں باپ کے حقوق ادا کرنے والی بھی ہوتی ہیں۔ بے شک بچوں کی تربیت کے لیے ماؤں کے ساتھ باپوں کو بھی مددگار بننا پڑتا ہے اور بننا چاہیے اور اس کے بغیر ایک عمر کے بعد خاص طور پر لڑکے بغیر باپوں کی نگرانی کے صحیح رہ بھی نہیں سکتے۔ اسی طرح بچپن میں اگر مائیں بچوں کو سمجھانے کے لیے کچھ روک ٹوک کرتی ہیں تو اس وقت بھی باپوں کے تعاون کی ضرورت ہے اگر بظاہر غلط روک ٹوک بھی ہے۔بعض دفعہ عادتاً بعض مائیں بچوں کو روکتی ٹوکتی رہتی ہیں اور بچے پھر ضدی بھی ہو جاتے ہیں لیکن اگر غلط روک ٹوک بھی باپوں کے سامنے کی جا رہی ہے تو بچوں کے سامنے خاوندوں کو اپنی بیوی کو غلط نہیں کہنا چاہیے۔ کیونکہ مرد بھی اس وقت میری باتیں سن رہے ہیں اس لیے میں بتا رہا ہوں۔ بعد میں آرام سے اسے سمجھائیں لیکن بہرحال بچوں کی تربیت کی اصل ذمہ داری اسلام نے ماؤں پر ڈالی ہے اور آج اگر ہم نے اپنی احمدی نسل کو سنبھالنا ہے تو ماؤں کو اس ذمہ داری کا احساس پہلے سے بڑھ کر کرنا ہو گا اس کے لیے کوشش بھی کرنی ہو گی اور دعا بھی کرنی ہو گی۔

دنیاوی ریسرچ بھی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ پندرہ سولہ سال تک کی عمر تک تو لڑکے بھی اپنی ماؤں کے ساتھ زیادہ آسانی سے اپنے مسائل کی بات چیت کر لیتے ہیں بہ نسبت باپوں کے اور بچے پندرہ سولہ سال تک ماؤں کی بات کو اہمیت بھی زیادہ دیتے ہیں اور ہم نے بھی یہی دیکھا ہے۔ بہت ساری مائیں شکایت لے کے آتی ہیں یہی کہتی ہیں کہ چودہ پندرہ سال تک تو بچہ بڑا اچھا تھا اس کے بعد ایک دم باہر جانا شروع ہوا ہے اور بگڑ گیا ہے۔ بہرحال تو یہ دنیاوی ریسرچ بھی کہتی ہے کہ ماؤں سے ایک تعلق ہوتا ہے جبکہ باپوں سے تعلق اتنا زیادہ نہیں ہوتا اور پندرہ سولہ سال کی عمر کے بعد ہمارے معاشرے میں تو باپ اور بیٹے میں، ایشین معاشرہ جو ہے اس میں بالعموم ایک حجاب پیدا ہو جاتا ہے جو کہ غلط ہے یہ نہیں ہونا چاہیے۔ اس لیے اس طرف میں کئی دفعہ توجہ بھی دلا چکا ہوں کہ باپ بھی بچوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھیں۔ اگر اس نام نہاد ماحول میں اپنے بچوں کو دین کے ساتھ جوڑنا ہے تو باپوں کو بھی کوشش کرنی پڑے گی ماؤں کو بھی کوشش کرنی پڑے گی۔ مغربی معاشرے کی ریسرچ تو یہ بتاتی ہے کہ لڑکے پندرہ سولہ سال کی عمر کے بعد باپوں کے ساتھ اس لیے تعلق رکھتے ہیں کیونکہ ان کے باپ جو ہیں یہ دنیا دار باپ جو ہیں انہیں لغویات میں پڑنے سے روکتے ٹوکتے نہیں ہیں، جو حرکتیں لڑکے کر رہے ہیں کرنے دیتے ہیں لیکن احمدی باپوں کو یہ دوستیاں اس لیے کرنی چاہئیں کہ انہیں ان بچوں کو دین کے ساتھ جوڑنا ہے۔ بہرحال یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ ہمارے احمدی ماحول میں جن ماؤں نے بچوں کے ساتھ صحیح تعلق رکھا اور انہیں سنبھالا ہے ان کا تعلق بڑے ہو کر بھی باپوں کی نسبت ماؤں کے ساتھ زیادہ ہے۔

پس احمدی ماؤں کو اس وقت کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی نفسیات کو سمجھتے ہوئے یہاں کے ماحول کے اثرات کو دیکھتے ہوئے بچوں کو برے اور بھلے کی تمیز اور فرق بتاتے ہوئے تربیت کریں۔ آج کل یہاں آزادی کے نام پر بچوں کو بچپن سے ہی ایسی باتیں بتا دی جاتی ہیں جن کا بچوں سے تعلق ہی نہیں ہوتا اور بلوغت کی عمر کو پہنچنے سے پہلے اس کی سمجھ آ ہی نہیں سکتی، اس کا ادراک پیدا ہی نہیں ہو سکتا لیکن یہ بتاتے ہیں ،علم کی روشنی کے نام پر یہ بتایا جاتا ہے۔ علم کی روشنی کے نام پر بچوں کو یہ لوگ اخلاقی اندھیروں میں دھکیلنے کی کوشش کر رہے ہیں اور یہ باتیں سکھا رہے ہیں اور بچے اس وجہ سے اخلاقی اندھیروں میں ڈوب بھی رہے ہیں۔ ایسے حالات میں ماؤں کی پہلے سے بڑھ کر یہ ذمہ داری ہے کہ اپنے گھروں کی نگران بن کر ان لغویات اور بیہودہ باتوں کے ردّ کے لیے پہلے تو خود معلومات اکٹھی کریں، خود معلومات اپنے پاس رکھیں اور اگر بچہ سوال کرے، سکول سے سیکھ کے آتا ہے اس کے بارے میں سوال کرے تو بغیر شرمائے جو وہ سوال کرتا ہے اگر وہ بیہودہ قسم کے تعلقات کے بارے میں سوال ہیں تو ان کو بتائیں۔ بتائیں کہ یہ برائی ہے اور ابھی تمہاری اس کی عمر نہیں ہے۔ اس طرح ہم اپنے بچوں کی حفاظت اور نگرانی کر سکتے ہیں ،نہیں تو یہ دنیا دار ماحول ہماری نسلوں کی دنیا و عاقبت برباد کر دے گا۔ پس ہر احمدی کو بڑی فکر کے ساتھ اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہر احمدی عورت کو اپنے نمونوں کے ساتھ اور دعاؤں کے ساتھ ایسی عمدہ اور اعلیٰ معیار کی تربیت کی ضرورت ہے کہ کہا جا سکے کہ یہ مائیں تو ایک ایسا وجود ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹ کر اپنی اولاد کو ایک قیمتی سرمائے کی صورت میں جماعت کو دے رہی ہیں۔ یہ اولادیں، یہ بچے آپ کے پاس جماعت کی امانت ہیں اور ان کی تربیت کی وجہ سے یہ سب بچے خدا تعالیٰ کے پسندیدہ مال بن چکے ہیں۔ یہ لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظر ہر آن پڑتی رہتی ہے جو اپنے پاکیزہ ذہن کی وجہ سے دنیا کی گندگیوں کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے۔ انہیں ٹی وی اور انٹرنیٹ کے لغو اور بیہودہ اور ننگے اور غلیظ پروگراموں سے کوئی رغبت نہیں ہے۔ انہیں اگر دلچسپی ہے تو خدا تعالیٰ کے فضل کو تلاش کرنے کی دلچسپی ہے۔ یہ دنیا کہے کہ یہ وہ بچے ہیں کہ اگر دلچسپی ہے تو بیہودگیوں سے دلچسپی نہیں، لغویات سے دلچسپی نہیں، وقت ضائع کرنے سے دلچسپی نہیں، آوارہ گردی کرنے سے دلچسپی نہیں، باہر لڑکوں میں پھر کر نشہ آور چیزیں استعمال کرنے سے دلچسپی نہیں بلکہ اگر دلچسپی ہے تو خدا تعالیٰ کے فضل کو تلاش کرنے سے دلچسپی ہے۔ اگر فکر ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کا حصہ بننے کی کہ میرے ماننے والے علم و معرفت میں ترقی کرنے والے ہیں۔

(ماخوذ از تجلیاتِ الہٰیہ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 409)

یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے اور ترقی کرنے والے بن کر دنیا کی رہنمائی کرنے والے اور دنیا کو دجالی فتنوں سے بچانے والے بنیں گے۔ پس ایسے خزانے اور ایسے وجود پیدا کرنے والے بنیں۔ ایسی مؤمنہ بیویاں اور مائیں بنیں جن کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ بہترین مال میں سے ہیں، ایسی بیویاں کہ مومنہ بیوی جو ہے وہ بہترین مال ہے۔

(صحیح مسلم کتاب الرضاع باب خیر متاع الدنیا المرأۃ الصالحۃ حدیث (1469))

پس اپنی نسلوں میں ایمان اور ایقان پیدا کر کے انہیں بھی بہترین مال بنا دیں۔ دنیا کے مال کی طرف نظر نہ رکھیں۔ ہمارا خدا اپنے وعدوں کا سچا خدا ہے جو اس کی طرف آتا ہے، اس کے حکموں پر چلتا ہے وہ اس کی دنیاوی ضروریات بھی پوری کرتا ہے۔ اگر تقویٰ پر چلتے ہوئے، دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا عہد پوراکرتے ہوئے اپنے ایمان اور ایقان کی فکر کے ساتھ اپنی نسل کے ایمان و ایقان کی فکر کرتی رہیں گی تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسے لوگوں کو مَیں ایسے ذریعے سے رزق دوں گا کہ ان کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو گا۔ جیسے کہ فرماتا ہے کہ

وَمَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا۔ وَّيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ۔ (الطلاق: 3-4)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں یعنی جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے گا اس کو اللہ تعالیٰ ایسے طور سے رزق پہنچائے گا کہ جس طور سے اسے معلوم بھی نہ ہو گا۔ فرمایا رزق کا خاص طور پر اس بات سے ذکر کیا کہ بہت سے لوگ حرام مال جمع کرتے ہیں۔ اگر وہ خدا تعالیٰ کے حکموں پر عمل کریں اور تقویٰ سے کام لیویں تو خدا تعالیٰ خود ان کو رزق پہنچاوے۔ پھر فرمایا اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتاہے۔

وَهُوَ يَتَوَلَّى الصّٰلِحِيْنَ۔

فرمایا جس طرح پر ماں بچے کی متولی ہوتی ہے بچے کو پالتی ہے اسی طرح پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں صالحین کا متکفل ہو جاتا ہوں، میں صالحین کو پالتا ہوں، ان کا کفیل بن جاتا ہوں، ان کی ضروریات پوری کرتا ہوں۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد 6 صفحہ 60-61)

اللہ تعالیٰ اس کے مال میں طرح طرح کی برکتیں ڈال دیتا ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ ایسے لوگوں کو جب وہ اللہ تعالیٰ کی طرف جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کے مال میں بھی طرح طرح کی برکتیں ڈال دیتا ہے۔ یہ باتیں آپؑ نے ایک موقعے پر عورتوں کو نصیحت فرماتے ہوئے ایک مجلس میں فرمائی تھیں۔

پس ان ملکوں میں آ کر مال کی خواہش بھی بہت بڑھ جاتی ہے اور بعض عورتیں تو خاوندوں کے پیچھے پڑ کر ان سے مطالبے بھی کرتی ہیں، دوسروں کی مثالیں دے دے کر ان کو ابھارتی ہیں اور پھر ایسے بعض مردوں میں بھی عقل کی کمی ہوتی ہے وہ بھی اپنی عقل سے کام لینے کی بجائے زیادہ سے زیادہ مال کمانے کے طریقے سوچتے ہیں۔ یہ صرف عورتوں پر ہی الزام نہیں ہے کہ وہی مردوں کو بگاڑتی ہیں، بیویاں ہی صرف نہیں کرتیں۔ بعض مائیں اپنے لڑکوں کو مجبور کر رہی ہوتی ہیں۔ ہمیں پیسے بھیجو، ہمیں پیسے دو۔ بعض بہنیں اپنے بھائیوں کو مجبور کر رہی ہوتی ہیں۔ بہرحال مردوں کو بھی عقل سے کام لینا چاہیے۔ مردوں میں بہت سارے ایسے مرد بھی ہیں جو غلط طریقے سے مال کمانے کی کوشش کرتے ہیں، کوئی نہ بھی ابھار رہا ہو تب بھی ان کے اپنے جذبات ہی ایسے ہوتے ہیں۔ یہ نہیں کہ ہمارے مرد بہت نیک اور پارسا ہیں۔ ان کے بھی بہت برے حالات ہیں۔ اپنے ٹیکس بچاتے ہیں۔ اپنی کمائی سے حکومتی اداروں کو آگاہ نہیں کرتے۔ جن ملکوں میں حکومت کی طرف سے کام نہ کرنے کی وجہ سے سوشل ہیلپ ملتی ہے وہ بھی لے لیتے ہیں اور چوری چھپے کام بھی کرتے ہیں اور پھر ٹیکس نہیں دیتے۔ تو یہ ناجائز ذرائع سے کمایا ہوا مال ہے اور اس میں پھر برکت نہیں پڑتی۔ پس عورتیں بھی اپنے خاوندوں کو جو ایسی سوچ رکھنے والے خاوند ہیں اس بارے میں سمجھائیں کہ کیوں تم وہ ناجائز مال ہمیں اور ہمارے بچوں کو کھلاتے ہو جو ہماری تباہی کا باعث بن سکتا ہے؟ کیوں ہمیں بھی گناہگار بناتے ہو؟ ہم صرف پاک مال سے ہی اپنے بچوں کی پرورش کریں گی چاہے وہ تھوڑا ہی ہو۔ جب ایسی سوچ رکھنے والی مائیں ہوں گی، ایسی سوچ رکھنے والی بیویاں ہوں گی تو بہت سے خاوندوں کی خود بخود اصلاح ہو جائے گی اور جو ایسی سوچ رکھنے والی اور اس پر عمل کرنے والے ہوں گے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں انہیں اپنے فضل سے رزق دوں گا، ایسا رزق عطا کروں گا جہاں سے سوچ بھی نہیں سکتے۔ ہاں یہ بھی ضروری ہے کہ طبیعت میں قناعت بھی پیدا کریں۔ دنیاوی خواہشات کو اتنا نہ بڑھائیں کہ ان سے کبھی سیری ہی نہ ہو، کبھی انسان سیر ہی نہ ہو، کبھی خواہشات پوری ہی نہ ہوں، ایک خواہش کے بعد دوسری خواہش بڑھتی چلی جائے۔ دنیا کے لیے ایسی خواہش نہ بڑھے، دین کے مقابلے کے لیے ایسی خواہشیں ہونی چاہئیں۔ بہرحال قناعت پیدا کرنے کے لیے بھی خدا تعالیٰ سے دعا کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ فضل فرمائے تو تبھی اس کی بھی توفیق ملتی ہے۔ جو تقویٰ میں بڑھنے کی کوشش کرتا ہے ان میں اللہ تعالیٰ قناعت بھی پیدا فرما دیتا ہے۔

اسی طرح مائیں یہ بھی یاد رکھیں کہ لڑکیوں کی تربیت کے لیے ان کو اپنے بھی نمونے دکھانے ہوں گے۔ خاص طور پر اپنے لباس اور اپنے پردے کا بھی انہیں خیال رکھنا ہو گا۔ حیا عورت کی نشانی ہے۔ لڑکیوں کو بتائیں کہ یہ نام نہاد ترقی یافتہ معاشرہ تمہاری حیا کی حفاظت نہیں کرتا۔ بچپن سے ہی بتانا ہو گا، پانچ چھ سال کی عمر سے ہی بچیوں کو بتانا ہو گا کہ یہ معاشرہ تمہاری حیا کی حفاظت نہیں کرتا۔ حیا کی حفاظت اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے حکموں پر چل کر ہی ہو سکتی ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں پردے کا بھی حکم فرمایا ہے اور حیا کا بھی حکم دیا ہے۔ بچیوں کو ہمیشہ یہ بتائیں کہ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھو۔ اس بارے میں کسی احساس کمتری میں آنے کی ضرورت نہیں، کسی احساس کمتری کو پیدا کرنے کی، دل میں لانے کی ضرورت نہیں۔ اگر مائیں خود اپنے پردوں کی حفاظت کریں گی اور لڑکیوں کو اس کی اہمیت بتائیں گی تو یقیناً بچیوں پر بھی اس کا نیک اثر ہو گا۔ بعض پڑھی لکھی لڑکیاں سمجھتی ہیں کہ ہماری مائیں پرانے زمانے کی ہیں انہیں کیا پتا کہ اس زمانے کے ساتھ چلنے کے لیے پردہ اور حجاب کو نرم کرنے کی ضرورت ہے یا بعض جگہوں پر نہ بھی اگر پردہ کیا جائے، نہ بھی یہ حیا دار لباس پہنا جائے تو کوئی حرج نہیں۔ لیکن ہمیں ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جو اللہ تعالیٰ کے حکموں سے ہٹ کر چلے گا وہ اپنی اور اپنی نسلوں کی زندگیوں کو برباد کرے گا۔ اس لیے بغیر کسی احساس کمتری کے ایک احمدی لڑکی اور عورت کو اس لباس کو لعنت بھیجتے ہوئے ترک کر دینا چاہیے جس سے حیا میں کمی آتی ہو، جو لباس اللہ تعالیٰ کے حکموں کی نفی کرتا ہو۔ اگر کسی کو یہ بہانا ہے کہ کام کے لیے بعض قسم کے لباس پہننے پڑتے ہیں اور وہ لباس بلاؤز اور جینز کے علاوہ کچھ ہے ہی نہیں اور سکارف بھی نہیں لیا جا سکتا اور اوپر کچھ لمبا کوٹ نہیں پہنا جا سکتا تو پھر ایسے کام سے ہماری لڑکیوں کو بچنا چاہیے جو ننگے لباس کی طرف لے کر جانے والا کام ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کے متولی ہونے پر ایمان رکھیں گی اور صالحات میں سے بننے کی کوشش کریں گی تو پھر اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق صالحہ کا متولی بھی ہو گا۔ آج اگر پردے سے آزاد ہوئیں تو آئندہ نسلیں اَور زیادہ آزادی میں چلی جائیں گی اور پھر دین سے دور ہٹ جائیں گی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے اس ارشاد کو ہمیشہ سامنے رکھیں کہ

’’یورپ کی طرح بے پردگی پر بھی لوگ زور دے رہے ہیں لیکن یہ ہرگز مناسب نہیں۔‘‘ آپؑ نے فرمایا یہ ہرگز مناسب نہیں ’’یہی عورتوں کی آزادی فسق و فجور کی جڑ ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد 7 صفحہ134)

یہی ضرورت سے زیادہ آزادی ہے جو دین سے دور لے جانے والی اور دین کے حکموں سے دور کرنے والی ہے اور اس کی جڑ یہ آزادی ہے۔ اس لیے بہت سوچ سمجھ کر ہر قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ پس ہمیشہ یاد رکھیں کہ اگر اللہ تعالیٰ کی باتوں، اس کے رسول کی باتوں اور اس زمانے کے امام اور حکم اور عدل کی باتوں پر توجہ سے عمل نہیں کریں گی تو اپنا دین گنوا دیں گی۔ پھر یہ دعویٰ بھی غلط ہو گا کہ ہم نے مسیح موعود کی بیعت کی ہے۔ اس ماحول میں شرمانے کی بجائے ان لوگوں کو کھل کر بتائیں جو دنیا دار ہیں کہ پردہ ہمارا دینی معاملہ ہے اور تم ہمارے دین کے معاملے میں دخل نہ دو۔ یہاں کی پڑھی لکھی احمدی لڑکیاں اخباروں میں اس بارے میں خط لکھیں، مضمون لکھیں۔ ہمیشہ یاد رکھیں اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کریں گی تو دین و دنیا میں عزت پائیں گی۔ پس خود اپنے جائزے لیں۔ صرف مسجد آنے کے لیے اور جلسوں پرآنے کے لیے حیا دار لباس اور پردے نہ ہوں بلکہ یہ آپ کی ایک امتیازی خصوصیت ہو۔ جہاں بھی ہوں ایک حیا دار لباس آپ کا ہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی اس بات کو ہمیشہ یاد رکھیں کہ ’’تقویٰ اختیار کرو۔ دنیا سے اور اس کی زینت سے بہت دل مت لگاؤ …… کوشش کرو کہ تا تم معصوم اور پاک دامن ہونے کی حالت میں قبروں میں داخل ہو۔‘‘ فرماتے ہیں ’’خدا کے فرائض نماز زکوٰة وغیرہ میں سستی مت کرو۔‘‘ فرمایا کہ ’’…… اپنی اس ذمہ داری کو ایسی عمدگی سے ادا کرو کہ خدا کے نزدیک صالحات قانتات میں گنی جاؤ۔‘‘

(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 81)

اللہ تعالیٰ کرے کہ ہر احمدی عورت اور ہر احمدی بچی دین کو دنیا پر مقدم رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے حکموں اور ارشادات پر چلتے ہوئے اپنے اور اپنی نسلوں کے دین کی حفاظت کرنے والی اور انہیں خدا تعالیٰ کے ساتھ جوڑنے والی ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اس زمانے کے امام کو ماننے کا جو آپ کو اعزاز دیا ہے اس کی ہمیشہ آپ قدر کرنے والی ہوں اور دنیا میں ڈوب کر اس سے دور نہ ہٹ جائیں۔ آمین

اب دعا کر لیں۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button