احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

باغ میں ملّت کے ہے کوئی گلِ رعنا کھلا

حضرت مسیح موعودؑ کے آباواجداد

حضرت اقدس مسیح موعودؑ کا خاندان(سوم)

سادات خاندان

پھراسی جگہ فرماتے ہیں :

’’پھر علوخاندان کی نسبت دوسرا الہام یہ ہے۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِی جَعَلَ لَکُمُ الصِّھْرَوَالنَّسَبَ

ترجمہ۔اُس خدا کو تمام تعریفیں ہیں جس نے تیری دامادی کا رشتہ عالی نسب میں کیا اورخود تجھے عالی نسب اور شریف خاندان بنایا۔ یہ تو ہم ابھی بیان کرچکے ہیں کہ جن سادات کے خاندان میں دہلی میں میری شادی ہوئی تھی وہ تمام دہلی کے سادات میں سے سندی سید ہونے میں اوّل درجہ پر ہیں اور علاوہ اپنی آبائی بزرگی کے وہ خواجہ میر درد کے نبیرہ ہیں اور اب تک دہلی میں خواجہ میر درد کے وارث متصور ہوکر خواجہ ممدوح کی گدی انہی کو ملی ہوئی ہے کیونکہ خواجہ موصوف کا کوئی لڑکا نہ تھایہی وارث ہیں جو ان کی لڑکی کی اولاد ہیں اور ان کی سیادت ہندوستان میں ایک روشن ستارہ کی طرح چمکتی ہے بلکہ سوچنے سے معلوم ہوگا کہ ان کا خاندان خواجہ میر درد کے آبائی خاندان سے بڑھ کر ہے۔ کیونکہ خواجہ میردرد نے ان کی عظمت کو قبول کرکے ان کے بزرگ کو لڑکی دی اور اس زمانہ میں یہ خیال اب سے بھی زیادہ تھا کہ لڑکی دینے کے وقت عالی خاندان کو ڈھونڈتے تھے۔ اورخواجہ میر درد باخدا اور بزرگ ہونے کی وجہ سے سلطنت چغتائیہ سے ایک بڑی جاگیر پاتے تھے اور دُنیوی حیثیت کے رُو سے ایک نواب کا منصب رکھتے تھے۔ اور پھر ان کی وفات کے بعد وہ جاگیر کے دیہات انہی میں تقسیم ہوئے۔ اور اِس عظمت خاندانی کے علاوہ میرے الہامات میں جس قدر اِس بات کی تصریح کی گئی ہے کہ یہ خالص سیّد اور بنی فاطمہ ہیں یہ ایک خاص فخر کا مقام ان لوگوں کے لیے ہے۔ اور میں خیال نہیں کرسکتا کہ تمام پنجاب اور ہندوستان بلکہ تمام اسلامی دنیا میں کوئی اور خاندان سادات کا ایسا ہوکہ نہ صرف ان کی سیادت کو اسلامی سلطنت نے مان کر ان کی تعظیم کی ہو بلکہ خدا نے اپنی خاص کلام اور گواہی سے اِس کی تصدیق کردی ہو۔ یہ تو ان کے خاندان کا حال ہے۔ اور میں اپنے خاندان کی نسبت کئی دفعہ لکھ چکا ہوں کہ وہ ایک شاہی خاندان ہے اور بنی فارس اور بنی فاطمہؓ کے خون سے ایک معجون مرکب ہے یا شہرت عام کے لحاظ سے یوں کہو کہ وہ خاندان مغلیہ اور خاندان سیادت سے ایک ترکیب یافتہ خاندان ہے مگر میں اس پر ایمان لاتا اور اِسی پر یقین رکھتا ہوں کہ ہمارے خاندان کی ترکیب بنی فارس اور بنی فاطمہؓ سے ہے کیونکہ اِسی پر الہامِ الٰہی کے تواتر نے مجھے یقین دلایا ہے اور گواہی دی ہے۔‘‘

( تریاق القلوب ، روحانی خزائن جلد15صفحہ285-287)

آپؑ فارسی الاصل ہیں نہ کہ مغل

جیسا کہ ہم پڑھ چکے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے آنے والے مہدی اورامام الزمان کے بارہ میں جو کچھ پیشگوئیاں فرمائیں اوراحادیث وروایات میں جو کچھ تفصیلات ہمیں ملتی ہیں۔اس میں بخاری کی حدیث کے مطابق اسے فارسی الاصل ہونا چاہیے تھا۔جبکہ حضرت اقدسؑ بانی سلسلہ احمدیہ جس خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔وہ مغل خاندان سمجھا جاتاتھا۔ اور عام طور پر مشہور ومعروف بھی یہی تھا۔حضرت اقدسؑ خود فرماتے ہیں:

’’میرے سوانح اس طرح پر ہیں کہ میرانام غلام احمد میرے والد صاحب کا نام غلام مرتضیٰ اور دادا صاحب کا نام عطا محمد اور میرے پردادا صاحب کانام گل محمد تھا۔اورجیسا کہ بیان کیا گیا ہے ہماری قوم مغل برلاس ہے۔‘‘

(کتاب البریہ ،روحانی خزائن جلد13 صفحہ162حاشیہ)

جبکہ حضرت بانی سلسلہ احمدؐیہ کو خداتعالیٰ کی طرف سے آپ ؑ کے خاندان کے متعلق جو الہامات ہوئے یا ہورہے تھے وہ آپؑ کو فارسی الاصل ہونے کا یقین دلا رہے تھے۔لیکن غلطی سے معروف یہ تھا کہ یہ خاندان مغل ہے۔ حالانکہ ایسانہ تھا آپ کاخاندان مغل نہیں ہے بلکہ فارسی الاصل ہے۔ حضرت اقدس علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں :

’’یاد رہے کہ ظاہری بزرگی اور وجاہت کے لحاظ سے اس خاکسار کا خاندان بہت شہرت رکھتا تھا…جیسا کہ بظاہر سمجھا گیا ہے یہ خاندان مغلیہ خاندان کے نام سے شہرت رکھتا ہے۔ لیکن خدائے عالم الغیب نے جو دانائے حقیقتِ حال ہے بار بار اپنی وحی مقدّس میں ظاہر فرمایا ہے جو یہ فارسی خاندان ہے اور مجھ کو ابناءِ فارس کرکے پکارا ہے جیسا کہ وہ میری نسبت فرماتا ہے

اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَصَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ رَدَّ عَلَیْھِمْ رَجُلٌ مِّنْ فَارِس شَکَرَ اللّٰہُ سَعْیَہُ

یعنی جو لوگ کافر ہو کر خدا تعالیٰ کی راہ سے روکتے ہیں ایک فارسی الاصل نے انکا ردّ لکھا ہے خدا اسکی اس کوشش کا شکر گذار ہے۔ پھر وہ ایک اور وحی میں میری نسبت فرماتا ہے

لَوْکَانَ الْاِیْمَانُ مُعَلَّقًا بِالثُّرَیَّا لَنَالَہٗ رَجُلٌ مِّنْ فَارِسٍ۔

یعنی اگر ایمان ثریا کے ساتھ معلّق ہوتا تو ایک فارسی الاصل انسان وہاں بھی اس کو پا لیتا۔ پھر اپنی ایک اور وحی میں مجھ کو مخاطب کرکے فرماتا ہے

خُذُوْا التَّوْحِیْدَ التَّوْحِیْدَ یَااَبْنَآءَ الْفَارِس۔

یعنی توحید کو پکڑو توحید کو پکڑو اے فارس کے بیٹو۔ان تمام کلمات الہٰیہ سے ثابت ہے کہ اس عاجز کا خاندان دراصل فارسی ہے نہ مغلیہ۔ نہ معلوم کس غلطی سے مغلیہ خاندان کے ساتھ مشہور ہو گیا…معلوم ہوتا ہے کہ میرزا اور بیگ کا لفظ کسی زمانہ میں بطور خطاب کے انکو ملا تھا جس طرح خان کا نام بطور خطاب دیا جاتا ہے۔ بہرحال جو کچھ خدانے ظاہر فرمایا ہے وہی درست ہے انسان ایک ادنیٰ سی لغزش سے غلطی میں پڑ سکتا ہے مگر خدا سہو اور غلطی سے پاک ہے۔‘‘

( حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 79-81حاشیہ)

اب یہ تو طَے ہے کہ درست یہی ہے کہ حضرت اقدسؑ کاخاندان فارسی الاصل ہے نہ کہ مغل۔کیونکہ یہ خدانے بتایاہے جوعلیم بھی ہے اور خبیربھی اور اصدق الصادقین بھی۔ لہٰذا محقق کو،ایک مؤرخ کواور ڈھونڈنے والے کو اس خاندان کی بابت جب تحقیق کرناہوگی تواس کوان راہوں پرچلناہوگااوراگروہ فارسی الاصل خاندان کی تلاش میں نکلے گاتووہ منزل تک ضرورپہنچے گا۔ اوراللہ کے فضل سے ہمارے بزرگ علماء نے اس کے متعلق تحقیق کی اور ثابت ہواکہ حضورؑکاخاندان فارسی الاصل ہی ہے۔ لیکن تحقیق کایہ باب ابھی مزیدوسعت اور حقائق کے لیے کھلاہواہے۔جوں جوں یہ تحقیق بڑھتی چلی جاتی ہے حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت کاروشن نشان بنتی چلی جاتی ہے کہ واقعی خدا نے اپنے اس پیارے کے ساتھ جوکلام کیاتھا وہی سچ تھا اوردرست تھا۔ہرچندکہ جب اس نے کلام کیا تب حضرت اقدسؑ کے پاس کوئی ایک دلیل یاثبوت بھی نہ تھا کہ آپ مغل نہیں بلکہ فارسی الاصل ہیں۔حضرت اقدس ؑ ایک جگہ خود بیان فرماتے ہیں کہ بجزالہام الٰہی کے آپ کے پاس کوئی اوردلیل نہیں۔

فرمایا :’’منجملہ ان دلائل کے جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں جو آنے والا مسیح جس کا اِس اُمت کے لیے وعدہ دیا گیا ہے وہ اسی اُمت میں سے ایک شخص ہوگا بخاری اور مسلم کی وہ حدیث ہے جس میں امامکم منکم اور امّکم منکم لکھا ہے۔ جس کے یہ معنے ہیں کہ وہ تمہارا امام ہوگا اور تم ہی میں سے ہوگا۔ چونکہ یہ حدیث آنے والے عیسیٰ کی نسبت ہے اور اسی کی تعریف میں اِس حدیث میں حَکَم اور عدل کا لفظ بطور صفت موجود ہے جو اس فقرہ سے پہلے ہے اس لیے امام کا لفظ بھی اسی کے حق میں ہے اور اس میں کچھ شک نہیں کہ اس جگہ مِنْکُمْ کے لفظ سے صحابہ کو خطاب کیا گیا ہے اور وہی مخاطب تھے۔ لیکن ظاہر ہے کہ اُن میں سے تو کسی نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ نہیں کیا اس لیے مِنْکُمْ کے لفظ سے کوئی ایسا شخص مراد ہے جو خدا تعالیٰ کے علم میں قائم مقام صحابہ ہے اور وہ وہی ہے جس کو اِس آیت مفصّلہ ذیل میں قائم مقام صحابہ کیا گیا ہے یعنی یہ کہ

وَاٰخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِہِمْ

کیونکہ اس آیت نے ظاہر کیا ہے کہ وہ رسول کریم کی رُوحانیت سے تربیت یافتہ ہے اور اسی معنے کے رُو سے صحابہ میں داخل ہے اور اِس آیت کی تشریح میں یہ حدیث ہے

لَوْکَانَ الْاِیْمَانُ مُعَلَّقًا بِالثُّرَیَّا لَنَالَہُ رَجُلٌ مِّنْ فَارِس

اور چونکہ اس فارسی شخص کی طرف وہ صفت منسوب کی گئی ہے جو مسیح موعود اور مہدی سے مخصوص ہے یعنی زمین جو ایمان اور توحید سے خالی ہو کر ظلم سے بھر گئی ہے پھر اس کو عدل سے پُر کرنا۔ لہٰذا یہی شخص مہدی اور مسیح موعود ہے اور وہ میں ہوں اور جس طرح کسی دوسرے مدعی مہدویت کے وقت میں کسوف خسوف رمضان میں آسمان پر نہیں ہوا۔ ایسا ہی تیرہ سو برس کے عرصہ میں کسی نے خدا تعالیٰ کے الہام سے علم پاکر یہ دعویٰ نہیں کیا کہ اس پیشگوئی

لَنَالَہُ رَجُلٌ مِّنْ فَارِس

کا مصداق میں ہوں اور پیشگوئی اپنے الفاظ سے بتلا رہی ہے کہ یہ شخص آخری زمانہ میں ہوگا جبکہ لوگوں کے ایمانوں میں بہت ضعف آجائے گا اور فارسی الاصل ہوگا اور اس کے ذریعہ سے زمین پر دوبارہ ایمان قائم کیا جائے گا اور ظاہر ہے کہ صلیبی زمانہ سے زیادہ تر ایمان کو صدمہ پہنچانے والا اَور کوئی زمانہ نہیں۔ یہی زمانہ ہے جس میں کہہ سکتے ہیں کہ گویا ایمان زمین پر سے اُٹھ گیا جیسا کہ اِس وقت لوگوں کی عملی حالتیں اور انقلاب عظیم جو بدی کی طرف ہوا ہے اور قیامت کے علاماتِ صغریٰ جو مدت سے ظہور میں آچکی ہیں صاف بتلا رہی ہیں اور نیز آیت

وَاٰخَرِیْنَ مِنْہُمْ

میں اشارہ پایا جاتا ہے کہ جیسے صحابہ کے زمانہ میں زمین پر شرک پھیلا ہوا تھا ایسا ہی اُس زمانہ میں بھی ہوگا اور اس میں کچھ شک نہیں کہ اس حدیث اور اس آیت کو باہم ملانے سے یقینی طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ پیشگوئی مہدی آخر الزمان اور مسیح آخر الزمان کی نسبت ہے کیونکہ مہدی کی تعریف میں یہ لکھا ہے کہ وہ زمین کو عدل سے بھر دے گا جیسا کہ وہ ظلم اور جور سے بھری ہوئی تھی اور مسیح آخرالزمان کی نسبت لکھا ہے کہ وہ دوبارہ ایمان اور امن کو دنیا میں قائم کر دے گا اور شرک کو محو کر ے گا اور ملل باطلہ کو ہلاک کر دے گا۔ پس اِن حدیثوں کا مآل بھی یہی ہے کہ مہدی اور مسیح کے زمانہ میں وہ ایمان جو زمین پر سے اُٹھ گیا اور ثُریا تک پہنچ گیا تھا پھر دوبارہ قائم کیا جائے گا اور ضرور ہے کہ اوّل زمین ظلم سے پُر ہو جائے اور ایمان اُٹھ جائے کیونکہ جبکہ لکھا ہے کہ تمام زمین ظلم سے بھر جائے گی تو ظاہر ہے کہ ظلم اور ایمان ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے ناچار ایمان اپنے اصلی مقر ّ کی طرف جو آسمان ہے چلا جائے گا۔ غرض تمام زمین کا ظلم سے بھرنا اور ایمان کا زمین پر سے اُٹھ جانا اس قسم کی مصیبتوں کا زمانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے بعد ایک ہی زمانہ ہے جس کو مسیح کا زمانہ یا مہدی کا زمانہ کہتے ہیں اور احادیث نے اس زمانہ کو تین پیرایوں میں بیان کیا ہے رجل فارسی کا زمانہ۔ مہدی کا زمانہ۔ مسیح کا زمانہ۔ اور اکثر لوگوں نے قلتِ تدبر سے اِن تین ناموں کی وجہ سے تین علیحدہ علیحدہ شخص سمجھ لیے ہیں اور تین قومیں اُن کے لیے مقرر کی ہیں۔ ایک فارسیوں کی قوم۔ دوسری بنی اسرائیل کی قوم، تیسری بنی فاطمہ کی قوم۔ مگر یہ تمام غلطیاں ہیں۔ حقیقت میں یہ تینوں ایک ہی شخص ہے جو تھوڑے تھوڑے تعلق کی وجہ سے کسی قوم کی طرف منسوب کر دیا گیا ہے۔ مثلاً ایک حدیث سے جو کنز العمال میں موجود ہے سمجھا جاتا ہے کہ اہل فارس یعنی بنی فارس بنی اسحاق میں سے ہیں۔ پس اس طرح پر وہ آنے والا مسیح اسرائیلی ہوا اور بنی فاطمہ کے ساتھ امہاتی تعلق رکھنے کی وجہ سے جیسا کہ مجھے حاصل ہے فاطمی بھی ہوا پس گویا وہ نصف اسرائیلی ہوا اور نصف فاطمی ہوا جیسا کہ حدیثوں میں آیا ہے۔ ہاں میرے پاس فارسی ہونے کے لیے بجز الہام الٰہی کے اور کچھ ثبوت نہیں لیکن یہ الہام اس زمانہ کا ہے کہ جب اس دعویٰ کا نام و نشان بھی نہیں تھا یعنی آج سے بیس برس پہلے براہین احمدیہ میں لکھا گیا ہے اور وہ یہ ہے

خُذُوْا التَّوْحِیْدَ التَّوْحِیْدَ یَا اَبْنَآءَ الْفَارِس

یعنی توحید کو پکڑو توحید کو پکڑو اے فارس کے بیٹو! اور پھر دوسری جگہ یہ الہام ہے۔

اِنَّ الَّذِیْنَ صَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ رَدَّ عَلَیْھِمْ رَجُلٌ مِّنْ فَارِس شَکَرَ اللّٰہُ سَعْیَہ۔

یعنی جو لوگ خدا کی راہ سے روکتے تھے ایک شخص فارسی اصل نے اُن کا ردّ لکھا۔ خدا نے اُس کی کوشش کا شکریہ کیا۔ ایسا ہی ایک اور جگہ براہین احمدیہ میں یہ الہام ہے

لَوْکَانَ الْاِیْمَانُ مُعَلَّقًا بِالثُّرَیَّا لَنَالَہُ رَجُلٌ مِّنْ فَارِس

یعنی اگر ایمان ثریا پر اٹھایا جاتا اور زمین سراسر بے ایمانی سے بھر جاتی تب بھی یہ آدمی جو فارسی الاصل ہے اس کو آسمان پر سے لے آتا۔ اور بنی فاطمہ ہونے میں یہ الہام ہے۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الصِّھْرَ وَالنَّسَبَ۔ اُشْکُرْ نِعْمَتِیْ رَئَیْتَ خَدِیْجَتِیْ۔

یعنی تمام حمد اور تعریف اُس خدا کے لیے جس نے تمہیں فخردامادی سادات اور فخر علو نسب جو دونوں مماثل و مشابہ ہیں عطا فرمایا یعنی تمہیں سادات کا داماد ہونے کی فضیلت عطا کی اور نیز بنی فاطمہ اُمّہات میں سے پیدا کرکے تمہارے نسب کو عزت بخشی اور میری نعمت کا شکر کر کہ تونے میری خدیجہ کو پایا یعنی بنی اسحاق کی وجہ سے ایک تو آبائی عزت تھی اور دوسری بنی فاطمہ ہونے کی عزت اس کے ساتھ ملحق ہوئی اور سادات کی دامادی کی طرف اس عاجز کی بیوی کی طرف اشارہ ہے جو سیّدہ سندی سادات دہلی میں سے ہیں میردرد کے خاندان سے تعلق رکھنے والے۔ اسی فاطمی تعلق کی طرف اس کشف میں اشارہ ہے جو آج سے تیس برس پہلے براہین احمدیہ میں شائع کیا گیا جس میں دیکھا تھا کہ حضرات پنج تن سید الکونین حسنین فاطمۃ الزہراء اور علی رضی اللہ عنہ عین بیداری میں آئے اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کمال محبت اور مادرانہ عطوفت کے رنگ میں اس خاکسار کا سر اپنی ران پر رکھ لیا اور عالم خاموشی میں ایک غمگین صورت بنا کر بیٹھے رہے۔ اُسی روز سے مجھ کو اس خونی آمیزش کے تعلق پر یقین کلّی ہوا۔ فالحمد للّٰہ علٰی ذٰلک۔

غرض میرے وجود میں ایک حصہ اسرائیلی ہے اور ایک حصہ فاطمی۔ اور میں دونوں مبارک پیوندوں سے مرکب ہوں اور احادیث اور آثار کو دیکھنے والے خوب جانتے ہیں کہ آنے والے مہدی آخر الزمان کی نسبت یہی لکھا ہے کہ وہ مرکب الوجود ہوگا۔ ایک حصہ بدن کا اسرائیلی اور ایک حصہ محمدی۔ کیونکہ خدا تعالیٰ نے چاہا کہ جیسا کہ آنے والے مسیح کے منصبی کاموں میں بیرونی اور اندرونی اصلاح کی ترکیب ہے یعنی یہ کہ وہ کچھ مسیحی رنگ میں ہے اور کچھ محمدی رنگ میں کام کرے گا ایسا ہی اس کی سرشت میں بھی ترکیب ہے۔‘‘

( تحفہ گولڑویہ ، روحانی خزائن جلد 17صفحہ 114-118)

حضرت اقدس علیہ السلام اپنے خاندان کی نسبت ایک اورمقام پر فرماتے ہیں :

’’الہام اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الصِّھْرَ وَالنَّسَبَ

سے ایک لطیف استدلال میرے بنی فاطمہ ہونے پر پیدا ہوتا ہے کیونکہ صہر اور نسب اس الہام میں ایک ہی جعل کے نیچے رکھے گئے ہیں اور اِن دونوں کو قریباً ایک ہی درجہ کا امر قابلِ حمد ٹھیرایا گیا ہے۔ اور یہ صریح دلیل اس بات پر ہے کہ جس طرح صہر یعنی دامادی کو بنی فاطمہ سے تعلق ہے اسی طرح نسب میں بھی فاطمیت کی آمیزش والدات کی طرف سے ہے اور صہر کو نسب پر مقدم رکھنا اسی فرق کے دکھلانے کے لیے ہے کہ صہر میں خالص فاطمیت ہے اور نسب میں اس کی آمیزش۔‘‘

( تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد17صفحہ 117حاشیہ)

حضرت اقدس علیہ السلام فرماتےہیں :

’’یاد رہے کہ اس خاکسار کا خاندان بظاہر مغلیہ خاندان ہے کوئی تذکرہ ہمارے خاندان کی تاریخ میں یہ نہیں دیکھا گیا کہ وہ بنی فارس کا خاندان تھا ہاں بعض کاغذات میں یہ دیکھا گیا ہے کہ ہماری بعض دادیاں شریف اور مشہور سادات میں سے تھیں۔ اب خدا کے کلام سے معلوم ہوا کہ دراصل ہمارا خاندان فارسی خاندان ہے۔ سو اس پر ہم پورے یقین سے ایمان لاتے ہیں کیونکہ خاندانوں کی حقیقت جیسا کہ خدا تعالیٰ کو معلوم ہے کسی دوسرے کو ہرگز معلوم نہیں اسی کا علم صحیح اور یقینی ہے اور دوسروں کا شکی اور ظنّی۔‘‘

(اربعین نمبر2، روحانی خزائن جلد 17صفحہ 365حاشیہ)

فارسی الاصل اورچینی ہونے کے متعلق آپؑ فرماتے ہیں :

’’میرے بارے میں شیخ محی الدین ابن العربی نے ایک پیشگوئی کی تھی جو میرے پر پوری ہوگئی اوروہ یہ کہ خاتم الخلفا ء جس کا دوسرانام مسیح موعود ہے صینی الاصل ہوگا۔ یعنی اس کے خاندان کی اصل جڑھ چین ہوگی اور نیز وہ توام پیداہوگا ایک لڑکی اُس کے ساتھ ہوگی اور یہ وضع حمل کے وقت پہلے پیدا ہوگی اوروہ بعد میں پیدا ہوگا۔ پس اسی طرح میری پیدائش ہوئی اور میں توام کے طور پر جمعہ کے دن صبح کے وقت پیدا ہوا تھا۔ ممکن ہے کہ یہ پیشگوئی شیخ محی الدین ابن العربی کا اپنا کشف ہو یا کوئی حدیث اس کوپہنچی ہو۔ بہرحال وہ پیشگوئی میرے پیدا ہونے کے ساتھ پوری ہوگئی اور اب تک اسلام میں میرے سوا کوئی ایسا پیدا نہیں ہوا کہ وہ صینی الاصل بھی ہوا اور توام بھی پیدا ہوا ہو اور پھر اُس نے خاتم الخلفاء ہونے کا دعویٰ بھی کیا ہو۔‘‘

(چشمہٴ معرفت، روحانی خزائن جلد 23صفحہ 331-330)

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button