حضرت مصلح موعود ؓ

جماعتِ احمدیہ سے قربانی کا مطالبہ (تحریر فرمودہ مئی 1938ء) (قسط دوم۔ آخری)

از: حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ

(گزشتہ سے پیوستہ )اس تمہید کے بعد مَیں دوستوں سے دریافت کرتا ہوں کہ کیا انہوں نے غور بھی کیا ہے کہ احمدیت کس قسم کی قربانیوں کا ان سے مطالبہ کرتی ہے۔ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ جب احمدیت ان سے جان کا مطالبہ کرتی ہے تو اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہوتا کہ جائو اور جا کر کسی سے جنگ کرو اور نہ یہ مطلب ہوتا ہے کہ کسی کو مار کر پھانسی چڑھ جائو کیونکہ یہ دونوں باتیں احمدیت کی تعلیم کے خلاف ہیں۔ امرِ اوّل اس لیے جائز نہیں کہ یہ امر حکومت سے تعلق رکھتا ہے اور حکومت اس وقت احمدیوں کے ہاتھ میں نہیں اور امرِ دوم اس لیے جائز نہیں کہ اسلام ہمیں قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دیتا۔ پس جب یہ دونوں صورتیں ناجائز ہیں تو یقیناً احمدیت کا جانی قربانی کا مطالبہ کسی دوسری صورت ہی میں ہو سکتا ہے اور اسی صورت میں جان کو پیش کرنا سچے طور پر امام کی آواز پر لَبَّیْکَ کہنا کہلا سکتا ہے۔

پس جو دوست میری آواز پر لَبَّیْکَ کہہ رہے ہیں یا لبیک کہنے کا دل میں ارادہ کر رہے ہیں، انہیں خوب سمجھ لینا چاہیے کہ اس وقت کی جانی قربانیاں گزشتہ زمانے کی جانی قربانیوں سے مختلف ہیں اور اگر میں اس وقت کی مشکلات کو سمجھنے میں غلطی نہیں کرتا تو میں کہہ سکتا ہوں کہ موجودہ زمانہ کی نفسی کیفیات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ قربانیاں اگر پہلی قربانیوں سے زیادہ مشکل نہیں تو کم بھی نہیں ہیں۔ ہم ایک ایسے زمانہ میں پیدا ہوئے ہیں جس میں جھوٹ اور فریب کو تمدّنی اور سیاسی تقدس حاصل ہے۔ یعنی تمدن اور سیاست نے اس زمانہ میں جھوٹ کو اپنی حفاظت میں لے لیا ہے۔ پہلے زمانہ میں لوگ جھوٹ تو بولتے تھے مگر کہتے یہی تھے کہ جھوٹ بُری شَے ہے لیکن آج اسے سیاست اور تمدن کا ایک جزو قرار دیا گیا ہے اور اس زمانہ کے لوگوں کا عقیدہ یہ ہے کہ جھوٹ وہی گناہ ہے جو پکڑا جائے اور ناکام رہے۔ جو جھوٹ پکڑا نہیں جاتا اور ناکام نہیں رہتا وہ گناہ نہیں۔ یہ بات لوگوں کے ذہنوں میں اس قدر راسخ ہو چکی ہے کہ شاید بہت سے لوگ دنیا کی ذہنیت میں اس تبدیلی کے وقوع کو محسوس بھی نہیں کرتے بلکہ یہ جھوٹ اب اس قدر پھیل گیا ہے کہ بہت سے لوگ جھوٹ بولتے ہوئے خود بھی محسوس نہیں کرتے کہ وہ جھوٹ بول رہے ہیں۔ تمدنی تعلقات، سیاسی معاملات، مذہبی مباحثات ،معاشرتی اُمور سب کے سب جھوٹ پر مبنی کر دیئے گئے ہیں۔ کیا یہ عجیب متناقض دعوے نہیں ہیں؟کہ آجکل سچا دوست اسے سمجھا جاتا ہے جو دوست کی خاطر جھوٹ بولے، ملک کا سچا خیر خواہ وہ ہے جو مخالف حکومت کو سب سے زیادہ جُل دے سکے، سچ اور جھوٹ کی یہ آمیزش پہلے کسی زمانہ میں نہیں ملتی۔ اس پُر آشوب زمانہ میں رہتے ہوئے ہم لوگ بحیثیت جماعت کب اس گندگی سے بچ سکتے ہیں؟ میں ذاتی طور پر اپنے قضاء کے تجربہ کی بنا پر کہہ سکتا ہوں کہ کئی عام حالتوں میں سچ بولنے والے احمدی جب ایک دوست کو مصیبت میں دیکھتے ہیں تو اس کے بچانے کے لیے اپنے بیان میں ایسی تبدیلی کر دیتے ہیں جو اِن کے دوست کے فائدہ کے لیے ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ احمدیوں کا سچائی کا معیار دوسروں سے بہت بالا ہے مگر ایک دودھ کے پیالے میں پیشاب کا ایک قطرہ بھی تو اسے گندہ کر دیتا ہے اور جسمِ انسانی کے ایک حصہ میں جو مرض پیدا ہو بقیہ حصہ بھی تو اس کے اثرات سے محفوظ نہیں کہلا سکتا۔ کیا تم خیال کرتے ہو کہ اس مرض کو دُور کرنے کے بغیر ہم کامیاب ہو سکتے ہیں؟ یا اپنے دشمنوں کو زیر کر سکتے ہیں؟ دشمن ہم پر جھوٹ باندھتا ہے اور بعض حکام کو بھی وہ اپنے ساتھ شامل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے لیکن ایسے ظلموں کو تم کُلّی طور پر کس طرح دُور کر سکتے ہو۔ اسلام کے ابتدائی زمانہ میں اس پر ظلم ہوئے اور بہت ہوئے مگر اس کی ترقی کا زمانہ بھی تو ایسی مثالوں سے خالی نہیں۔ ایک جابر بادشاہ پر بھی تو بعض دفعہ لوگ ظلم کر سکتے ہیں۔ ایک فاتح جرنیل بھی تو کبھی کبھار مشکلات کا شکار ہو سکتا ہے۔ پس ہمیں اس امر کے خلاف شکوہ نہیں ہے اور ہو بھی نہیں سکتا ہمیں تو اس ماحول کے خلاف شکوہ ہے جو ہماری تبلیغ کے راستہ میں روک بن گیا ہے۔ اس شُہرت کے خلاف شکوہ ہے جو غلط پراپیگنڈا(PROPAGANDA)کے ذریعہ سے جماعت کے خلاف لوگوں میں پیدا کر دی گئی ہے اور اس میں کیا شک ہے کہ اس شہرت کو دُور کرنے کا صرف ایک ہی ذریعہ ہو سکتا ہے کہ جماعت کے لوگ احمدیت کے اردگرد ایک ایسی مضبوط دیوار بنا دیں کہ دُشمن کا پراپیگنڈا اس کو توڑ کر آگے نہ جا سکے اور یہ دیوار سچائی اور دیانت کی دیوار کے سوا اور کونسی ہو سکتی ہے؟ جو شخص اپنے تجربہ سے احمدیت کے اخلاق کا قائل ہو جائے وہ دوسرے کی بات کو کب تسلیم کرے گا؟ مجھے ایک دوست نے سنایا کہ ان سے ایک بڑے افسر نے کہا کہ میرے ساتھ جس قدر احمدیوں نے کام کیاہے ان کو دیکھتے ہوئے میں کہہ سکتا ہوں کہ احمدی نہایت دیانت دار ہوتے ہیں۔ وہ دوست کہتے ہیں کہ اس افسر پر آپ کے متعلق بُرا اثر ڈالا گیا تھا اس لیے میں نے جواب دیا کہ کیا آپ سمجھ سکتے ہیں کہ جس شخص نے ہمیں دیانت اور سچائی سکھائی ہے وہ خود بددیانت ہوگا؟ اور اس کا اس افسر پر گہرا اثر پڑا۔

یہ مثال ہر شہر، ہر ضلع، ہر گائوں اور ہر قصبہ بلکہ ہر محلہ میں دُہرائی جا سکتی ہے بشرطیکہ احمدی اپنے اندر سچائی اور دیانت پیدا کریں۔ بے شک دُنیا میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو آنکھوں دیکھی خوبی کو کھوٹے پیسے کی طرح پھینک دیتے ہیں لیکن کانوں سُنے عیب کو سچے موتی کی طرح دامن میں باندھ لیتے ہیں مگر یہ لوگ کم ہیں۔ زیادہ تر دنیا تجربہ سے فائدہ اُٹھاتی ہے۔ کم سے کم اس تجربہ سے جو اُن کے ذاتی فائدہ کے خلاف نہ پڑتا ہو۔ ان لوگوں کو متأثر کرنا ہر احمدی کے قبضہ میں ہے بشرطیکہ وہ اپنی جان ،اپنے جذبات اور مال کی قربانی کرے۔ آخر لوگ سچ کو کیوں چھوڑتے ہیں؟ اپنے جسم کو تکلیف سے بچانے کے لیے یا اپنے مال کو بچانے یا بڑھانے کے لیے۔ اگر احمدی یہ ارادہ کر لیں کہ خواہ ہمارے جسم کو کس قدر ہی تکلیف کیوں نہ ہو، ہم سچ بولیں گے اور ہمارے جذبات کو کس قدر ہی ٹھیس کیوں نہ لگے، ہم راستی کو نہ چھوڑیں گے اور ہمارے مال کو کتنا ہی نقصان کیوں نہ پہنچے، ہم حق بات ہی کہیں گے۔ تو یہ جانی قربانی بھی ہوگی اور جذبات کی قربانی بھی ہوگی اور مال کی قربانی بھی ہوگی۔ مگر باوجود اس کے نہ اس میں لڑائی کرنی پڑے گی نہ حکومت سے جھگڑا ہوگا نہ کسی اَور قوم سے بکھیڑا۔ جو لوگ اسے بڑی قربانی سمجھتے ہوں میں انہیں کہتا ہوں اس بڑی قربانی کو خدا کے لیے پیش کرو اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ کونسی جانی قربانی ہے یا مالی قربانی ہے میں انہیں کہتا ہوں تم سرِدست اس چھوٹی قربانی کو خدا کے لیے پیش کرو پھر دیکھو اس سے کیسے شاندار نتائج نکلتے ہیں اور کس طرح احمدیت کے دشمن خواہ عام افراد ہوں خواہ حکومت کے بعض افسر، جماعت احمدیہ کو بدنام کرنے والی کوششوں میں ناکام رہتے ہیں۔ یقیناً اس طرح تم احمدیت کے گرد اخلاقی نیک نامی کی ایک ایسی فصیل تیار کردو گے جس کو توڑنا کسی دشمن کی طاقت میں نہ ہوگا۔ کیونکہ اخلاقی قلعے وہ قلعے ہیں جنہیں حکومت کی توپیں بھی توڑنے سے قاصر رہا کرتی ہیں۔ پھر میں کہتا ہوں کہ ان مصائب کے زمانہ میں کیا یہ قربانی نہیں کہ آپ میں سے ہر ایک اپنے اخراجات کو کم کر کے سلسلہ کی امداد کرے تا کہ سلسلہ کے بار کو بھی کم کیا جائے اور مخالفوں کے پروپیگنڈا کو بھی بے اثر بنایا جائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

فَذَکِّرۡ اِنۡ نَّفَعَتِ الذِّکۡرٰی (الاعلیٰ:10)

وعظ و نصیحت کرتا رہ کیونکہ وعظ و نصیحت پہلے بھی فائدہ دے چکی ہیں۔ بظاہر یہ قربانی چھوٹی معلوم ہوتی ہے لیکن درحقیقت یہ قربانی چھوٹی نہیں کیونکہ جماعت کا ایک معتدبہ حصہ مالی قربانیوں میں یا پیچھے ہے یا مستقل مزاج نہیں اور ان کی کمزوریوں کے لمحات سلسلہ کے بار کو اس قدر زیادہ کر دیتے ہیں کہ باقی روپیہ کے خرچ کا بھی وہ فائدہ نہیں پہنچتا جو پہنچنا چاہیے۔ وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ ہم سب کچھ قربان کرنا چاہتے ہیں میں انہیں کہتا ہوں آئو سلسلہ کے لیے مستقل اور کبھی نہ رکنے والی مالی قربانی کرو اس سے بھی دشمن کے حملے کمزور پڑ جائیں گے کیونکہ سلسلہ کی مالی پریشانیاں بہت سی تبلیغی جدوجہد کو روک دیتی ہیں۔ یہ مالی قربانی بھی درحقیقت جانی قربانی ہی ہے کیونکہ جس حد تک سلسلہ اب ان کا مطالبہ کر رہا ہے وہ احمدیوں کے کھانے پینے پر بھی اثر انداز ہوتا ہے اس لیے یہ مالی قربانی بھی اب جسمانی قربانی بن گئی ہے۔مگر صرف اس حد تک جانی قربانی کافی نہیں ہو سکتی۔ سلسلہ کی بڑھتی ہوئی ضروریات بعض لوگوں سے اس قربانی کا بھی مطالبہ کرتی ہیں کہ وہ پورا وقت دین کی خدمت کے لیے لگائیں تا کہ جو کام پوری توجہ چاہتے ہیں وہ ادھورے نہ رہ جائیں۔ ہمارا سلسلہ الٰہی سلسلہ ہے اسے ہر قسم کی لیاقت رکھنے والے لوگوں کی ضرورت ہے اور سلسلہ کے کام اس قدر وسیع ہو چکے ہیں کہ ان کے سنبھالنے کے لیے ایک بڑی جماعت ہمیں درکار ہے۔ میں نے اس بارہ میں وقفِ زندگی کا دو دفعہ اعلان کیا ہے اور نوجوانوں نے بڑھ بڑھ کر اس آواز کا جواب بھی دیا ہے لیکن ابھی مجھے اس سلسلہ میں اور آدمیوں کی ضرورت ہے۔ یہ لوگ گریجوایٹ ہونے چاہئیں کچھ انگریزی کے اور کچھ عربی کے یعنی اپنے آپ کو پیش کرنے والے نوجوان یا بی اے ہوں یا مولوی فاضل ہوں تا کہ ان کی ابتدائی تعلیم پر روپیہ اور وقت خرچ نہ ہو۔ میں امید کرتا ہوں کہ سلسلہ کے نوجوان اس معاملہ میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں گے اور اپنی قربانی سے آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک اچھا نمونہ قائم کریں گے۔دینی کاموں کے لیے عربی کی تعلیم نہایت ضروری ہے لیکن میں نے انگریزی کے گریجوایٹ بھی طلب کئے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ بیرونی ممالک میں تبلیغ بغیر انگریزی کے نہیں ہو سکتی۔ اس طرح بہت سے کام ہندوستان میں بھی انگریزی دان طبقہ ہی کر سکتا ہے۔ اگر بعض فنون کے ماہر بھی اپنے آپ کو پیش کریں تو وہ مفید ہو سکتے ہیں جیسے ڈاکٹر یا وکیل۔ یہ وقف کرنے والے لوگ وہی ہوں جن کو یا گھر سے امداد کی امید ہو سکے یا پھر قلیل گزاروں پر کام کرنے کے لیے تیار ہوں۔میں متواتر کہہ چکا ہوں کہ تحریک جدید کے کام کی بنیاد روپیہ پر نہیں رکھی گئی۔ اس میں شامل ہونے والے دوست ایک مجاہد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر کچھ مل گیا تو انہیں دے دیا جائے گا نہ ملا تو نہ دیا جائے گا۔ اس کی تفصیلات اختصاراً اس سال کی شوریٰ کے ایجنڈے میں شائع ہو چکی ہیں۔ جو دوست دیکھنا چاہیں اپنی جماعت کے سیکرٹری کے پاس دیکھ سکتے ہیں یا دفتر تحریک جدید سے منگوا سکتے ہیں۔

میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے نوجوان جو ہمیشہ ایسے مواقع پر اپنے ایمان کا ثبوت دیتے چلے آئے ہیں، آج بھی پیچھے نہیں رہیں گے۔ اس وقت پانچ انگریزی کے اور دس بارہ عربی کے گریجوایٹ اس صیغے میں کام کر رہے ہیں اور یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ یہ قربانی نوجوانوں کے لیے ناممکن نہیں۔ میرا منشاء یہ ہے کہ تحریک جدید کے ماتحت وقف کرنے والے نوجوانوں کو دینی و دُنیوی علوم میںپوری مہارت پیدا کرائی جائے تا کہ وہ حسبِ ضرورت سلسلہ کے ہر کام کو سنبھالنے کے قابل ہوں اور اگر مالی طور پر انہیں دوسروں سے زیادہ قربانیاں کرنی پڑیں تو عملی طور پر انہیں بدلہ بھی دوسروں سے زیادہ مل جائے۔

یہ پہلی قسط ہے جماعت سے قربانی کے مطالبہ کی جو میں جماعت کے سامنے پیش کرتا ہوں اور پھر خلاصۃً اسے دُہرا دیتا ہوں۔

۱۔ سچائی اور دیانت کا اقرار اور اپنے تمام کاموں میں عملاً اس کا اظہار حتیٰ کہ غیرلوگ بھی اقرار کریں کہ احمدی راستباز اور دیانت دار ہوتے ہیں اور ہمارے مخالفوں کے پراپیگنڈا کو قبول کرنے سے انکار کر دیں۔

۲۔تبلیغ اس طرح نہیں کہ فُرصت کا وقت نکال کر کی جائے بلکہ کام کا حرج کر کے بھی (سوائے اس کے کہ انسان دوسرے کا ملازم ہو۔ اس صورت میں اپنے آقا کے مفاد کا خیال رکھنا اس کے لیے ضروری ہے) تبلیغ کی جائے۔ مگر یاد رہے کہ یہ تبلیغ صرف زبانی نہیں ہونی چاہیے۔ احمدیت کی فوقیت ثابت کرنے کے لیے ضروری ہے کہ دوست خدمتِ خلق کے کام بھی کیا کریں کیونکہ عملی تبلیغ زبانی تبلیغ سے زیادہ مؤثر ہوتی ہے اسی لیے میں نے خدام الاحمدیہ کو قائم کیا ہے جو بعض جگہ اس بارہ میں نہایت اچھے کام کر رہے ہیں۔

۳۔ چندوں میں باقاعدگی اور باقاعدگی کے بعد مسابقت کی روح کا پیدا کرنا۔ میرا مطلب اس سے یہ ہے کہ ہر احمدی مالی قربانی میں دوسروں سے آگے بڑھنے کی کوشش کرے حتیٰ کہ سلسلہ کی مالی پریشانیاں دور ہو جائیں اور اس کی اشاعت کا دامن وسیع ہو جائے۔

۴۔ بی۔ اے، ایم۔ اے، مولوی فاضل، ڈاکٹر ،وکیل نوجوان اپنی زندگیاں دین کی خدمت کے لیے وقف کریں تا انہیں سلسلہ کے کاموں اور تبلیغ کے لیے تیار کیا جائے اور وہ سلسلہ کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچانے کا کام کریں اور اس کے علاوہ سلسلہ کے جن اور کاموں میں ان کی خدمات کی ضرورت ہو ان کے لیے وہ اپنے آپ کو پیش کریں۔ اگر کوئی نوجوان ان اغراض کے لیے طالب علمی کی زندگی بسر کر رہے ہوں اور وہ ایک دو سال میں فارغ ہونے والے ہوں تو وہ بھی اپنے نام پیش کر سکتے ہیں۔

۵۔ ہر حکومت اورہر نظام کے قانون کی پابندی کرتے ہوئے دین کی ترقی کے لیے کوشش کرنا کہ اس پر عمل کرنے کے بغیر ہم احمدیت کی تعلیم کی برتری ثابت نہیں کر سکتے۔

۶۔ چھٹی بات جو درحقیقت تبلیغ کا ہی ایک حصہ ہے میں اس جگہ اس کا بھی ذکر کر دینا چاہتا ہوں۔ اور وہ یہ ہے کہ چونکہ مخالف ہر جگہ حکام اور دیگر با اثر لوگوں کے کان بھرتا رہتا ہے اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بہت سے بارسوخ لوگ اور افسر متواتر غلط باتیں سن کر احمدیوں کے خلاف متأثر ہو جاتے ہیں اس لیے ہر ضلع میں پراپیگنڈا کمیٹیاں بنائی جائیں جو اپنی اپنی جگہ مختلف اقوام کے چیدہ لوگوں سے اورحُکّام سے ملتی رہیں اور احمدیت کے خلاف جو پراپیگنڈا کیا جا رہا ہے اس کی حقیقت سے انہیں آگاہ کرتی رہیں۔ وہ افراد بھی جن کو اللہ تعالیٰ نے کوئی پوزیشن دی ہے اپنے تعلقات کو بڑھائیں اور ہر قسم کے حُکّام کو یا ہر شعبۂ زندگی میں اثر رکھنے والے دوسرے افراد کو اس شرارت سے آگاہ کرتے رہیں جو سلسلہ کے دشمن اس کے خلاف کر رہے ہیں اور ان حُکّام کے رویہ سے بھی واقف کریں جو محض تعصّب یا دشمنوں کی جھوٹی باتوں سے متأثر ہو کر جماعت کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ان افراد اور کمیٹیوں کو چاہیے کہ اپنے کام سے مرکز کو اطلاع دیتے رہا کریں اور جو مشکلات پیش آئیں ان کے متعلق مرکز سے مشورہ لیتے رہا کریں۔ اس کے لیے ہر جماعت کو ایک سیکرٹری امورِ عامہ مقرر کرنا چاہیے جس کی غرض زیادہ تر اس کام کو منظم صورت میں کرنا اور کرانا ہو۔ میں سمجھتا ہوں اگر دوست میری اس تجویز پر علاوہ دوسری تجاویز کے عمل کرنا شروع کریں تو بہت جلد اس فتنہ کی سختی کم ہو جائے گی۔ اگر ایک طرف سچائی اور قربانی خدا تعالیٰ کے فضل کو کھینچے گی تو دوسری طرف تبلیغ اور پراپیگنڈا لوگوں کو حقیقتِ حال سے واقف کر کے دشمن کے ضرر کو محدود کر دیں گے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ تمام جماعت کو اس وقت کی ضرورت کو سمجھنے کی توفیق دے اور جوش اور اظہارِ غضب کے بجائے سچی قربانی کے پیش کرنے اور اس پرمستقل رہنے کی توفیق دے کیونکہ قربانی وہ نہیں جو ہم پیش کرتے ہیں قربانی وہی ہے جس کا زمانہ کی ضرورت کے مطابق ہمارا رب ہم سے مطالبہ کرتا ہے۔ ہمارے دشمنوں کو ہم نے نہیں بلکہ ہمارے خدا نے شکست دینی ہے۔ سچی قربانیاں کرو اور دعائیں کرو اور کبر اور خود پسندی کو چھوڑ دو اور بڑے ہو کر منکسر مزاج بنو اور طاقت کے ہوتے ہوئے عفو کو اختیار کرو تا اللہ تعالیٰ تمہارا مددگار ہو۔

یاد رکھو کہ جن قربانیوں کا مَیں پہلی قسط کے طور پر مطالبہ کر رہا ہوں معمولی قربانیاں نہیں ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ نفس کو مارنا دشمن کو مارنے سے بہت زیادہ مشکل کام ہے۔ اگر جماعت صداقت کے اس معیار کو قائم کر دے جسے سلسلہ احمدیہ پیش کرتا ہے تو یقینا ًاسے کوئی دشمن نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ کمزوری ہماری ہی طرف سے ہوتی ہے ورنہ ہمارا خدا وفادار ہے۔ وہ خود ہمیں نہیں چھوڑتا۔

وَاٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔

والسلام

خاکسار

مرزا محمود احمد‘‘

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button