کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم میں تمام نبیوں کے کمالات یکجا جمع تھے

سیّد المعصومین صلی اﷲ علیہ وسلم

معصوم ہونے کے اسباب اور معصوم بنانے کے اسباب جس قدر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو میسّر آئے تھے وہ کسی دوسرے نبی کو کبھی نہیں ملے۔ اسی لیے عصمت کے مسئلہ میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم جس مقام اور درجہ پر ہیں وہاں اَور کوئی نہیں ہے۔ خود کوئی کبھی معصوم نہیں بن سکتا بلکہ معصوم بنانا خدا تعالیٰ کا کام ہے۔ جس شخص کو کثیر التعداد مال مل گیا ہے اس کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ چوری کرتا پھرے؟ لیکن جس پر خدا کی مار ہے اور گویا روٹیوں کامحتاج ہے اس سے تو ممکن بلکہ قرینِ قیاس ہے کہ اگر پاخانہ میں کوڑی پڑی ہوئی ہو تو وہ اس کے اٹھانے میں بھی کوئی مضائقہ اور دریغ نہ کرے گا۔ سورسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم پر خدا کا بہت بڑا فضل تھا جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے

وَكَانَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكَ عَظِيْمًا (النِّسآء : 114)

اور اصل یہ ہے کہ انسان بچتا بھی فضل سے ہی ہے۔ پس جس شخص پر خدا تعالیٰ کا فضل عظیم ہو اور جس کو کُل دنیا کے لیے مبعوث کیا گیا ہو۔ اور جو

رَحْـمَۃٌ لِّلْعَالَمِیْن ( الانبیاء : 108)

ہو کر آیا ہو۔ اُس کی عصمت کا اندازہ اسی سے ہو سکتا ہے۔ عظیم الشّان بلندی پر جو شخص کھڑا ہے ایک نیچے کھڑا ہوا اس سے مقابلہ کیا کرسکتا ہے؟ مسیح کی ہمت اور دعوت صرف بنی اسرائیل کی گم شدہ بھیڑوں تک محدود ہے۔ پھر اس کی عصمت کا درجہ بھی اس حدتک ہونا چاہیے۔ لیکن جو شخص کُل عالَم کی نجات اور رستگاری کے واسطے آیا ہے۔ ایک دانشمند خود سوچ سکتا ہے کہ اس کی تعلیم کیسی عالمگیر صداقتوں پر مشتمل ہو گی اور اسی لیے وہ اپنی تعلیم اور تبلیغ میں کس درجہ کا معصوم ہوگا۔

حضرت مسیح ایک بار چھوڑ ہزار بار کہیں کہ میں خدا ہوں لیکن کون ان کی خدائی کا اعتراف کر سکتا ہے جبکہ انسانیت کا اقبال بھی اس کے وجود میں نظر نہیں آتا۔ دشمنوں کے نرغہ میں آپ پھنس جاتے ہیں اور اُن سے طمانچے کھاتے ہوئے صلیب پر لٹکائے جاتے ہیں۔ باوجود یکہ وہ طعن کرتے ہیں کہ اگر تو خدا کا بیٹا ہے تو صلیب سے اُتر آ مگر آپؑ خاموش ہیں اور کوئی خدائی کرشمہ نہیں دکھاتے۔ برخلاف اس کے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف خسروپرویز نے منصوبہ کیا اور آپؐ کو گرفتار کر کے قتل کرنا چاہا۔ مگر اس رات خود ہی ہلاک ہو گیا۔ اور ادھر حضرت مسیح کو ایک معمولی چپراسی پکڑ کر لے جاتا ہے۔ تائید الٰہی کا کوئی پتہ نہیں ملا۔

غرض جس قدر ان امور کی تنقیح کی جاوے گی اسی قدر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مدارجِ عالیہ معلوم ہوں گے اور آپؐ ایک بلند مینار پر کھڑے دکھائی دیں گے اور مسیح آپؐ سے مقابلہ کرنے میں بہت ہی نیچے کھڑے ہوں گے۔ اس سے بڑھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور فضیلت کیا ہو گی کہ تیرہ سو برس بعد اپنے انفاسِ قدسیہ سے وہ ایک انسان کو تیار کرتے ہیں جو مسیح ابنِ مریم پر فضیلت پاتا ہے۔ بلحاظ اپنے کام اور کامیابی کے یعنی مسیح موعود سے مقابلہ کرنے میں بھی مسیح اپنی کامیابی اور بعثت کے لحاظ سے کم ہے۔ کیونکہ محمدی مسیح محمدی کمالات کا جامع ہے۔ جیسے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم میں تمام نبیوں کے کمالات یکجا جمع تھے۔ اس لیے مسیح موعود جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بروزی ظہور ہے۔ اُن کمالات کو اپنے اندر رکھتا ہے اور اپنی دعوت کی وجہ سے مسیح ابنِ مریم سے بڑھ کر ہے۔ شعر

ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو

اس سے بہتر غلام احمد ہے

مسیح ناصری کا آسمان پر جانا

مسیح کو جو آسمان پر چڑھایا جاتا ہے تو سوال ہو سکتا ہے کہ وہ آسمان پر کیوں چڑھے؟ کیا ضرورت پیش آئی تھی؟عقل اس کے لیے تین شقیں تجویز کرتی ہے۔ اور ان تینوں صورتوں میں مسیح کا صعودثابت نہیں ہوسکتا۔

شق اوّل صلیب کی لعنت سے بچنے کے لیے۔ کیونکہ تورات میں لکھا ہوا تھا کہ جو صلیب پر لٹکایا جاوے وہ ملعون ہوتا ہے۔ اب اگر مسیح کے صعودالی السماء سے یہ غرض تھی کہ وہ لعنت سے بچے رہیں تو اس رفع کے لیے ضروری ہے کہ پہلے موت ہو۔ کیونکہ یہ رفع وہ ہے جو قربِ الٰہی کامفہوم ہے اور بعد موت ملتا ہے۔ اسی لیے

اِنِّيْ مُتَوَفِّيْكَ وَ رَافِعُكَ اِلَيَّ (اٰل عـمران: 56)

کہا گیا۔ اور یہ وہی رفع ہے جو

اِرْجِعِيْٓ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً ( الفجر : 29)

میں خدا نے بیان فرمایا ہے اور

مُفَتَّحَةً لَّهُمُ الْاَبْوَابُ(صٓ : 51)

سے پایا جاتا ہے۔ غرض اس رفع کے لیے جو لعنت سے بچنے کے لیے ہو اور جو قربِ الٰہی کے معنوں میں ہو، کیونکہ لعنت کی ضد رفع تو وہی ہے جس سے قربِ الٰہی ہو۔ یہ تو بجز موت کے حاصل نہیں ہوتا۔ پھر جو لوگ ہمارے مخالف ہیں وہ چونکہ موت کے قائل نہیں۔ اس لیے ان کے اعتقاد کے موافق مسیح کو ابھی رفع نہیں ہوا۔ کیونکہ یہ رفع انسان کی آخری زندگی کا نتیجہ ہے اور یہ ان کو حاصل نہیں ہوا۔ پس اس شق کے لحاظ سے تو ان کا آسمان پر چڑھنا باطل ہوا۔

دوسری غرض رفع سے یہ ہو سکتی ہے کہ حضرت مسیح کوئی نشان دکھانا چاہتے تھے،مگر یہودی جن کو نشان دکھانا مقصود تھا وہ اب تک منکر ہی چلے آتے ہیں۔ اُنہوں نے عین صلیب کے وقت نشان مانگا تو ان کو کوئی نشان دکھایا نہ گیا۔ پھر ایک نشان جو اُن کو دکھانا مقصود تھا وہ بجز شاگردوں کے کسی اَور کو نہ دکھایا گیا۔ کیا یہ تعجب کی بات نہیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ صلیب پر جب ان سے نشان مانگا گیا تھا توا س وقت نشان دکھاتے یا کہہ دیتے کہ میںآسمان پر اُڑجانے کا نشان تم کو دکھائوں گا۔ اور صعود کے دن سب کو پکار کر کہہ دیتے کہ آئو اب دیکھ لو میں آسمان پر جاتا ہوں۔ پھر جب اس قسم کا کوئی واقعہ یہودیوں نے نہیں دیکھا اور وہ اب تک ہنسی اُڑاتے ہیں اور خطر ناک اعتراض کرتے ہیں تو یہ غرض بھی ثابت نہ ہوئی۔

مسیح علیہ السلام کے مقابلہ میں ہمارے نشانوں کو دیکھو کہ کیسے واضح اور صاف ہیں اور لاکھوں انسان اُن میں سے بعض کے گواہ ہیں۔ براہین احمدیہ میں یہ الہام 22برس سے زیادہ عرصہ ہوا ہے درج ہے

یَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ

اور

یَاْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ۔

اب اس کی بابت محمد حسین ہی سے پوچھو کہ جب اس نے براہین احمدیہ پر ریویو لکھا تھا۔ کس قدر لوگ یہاں آتے تھے اور کہاں سے آتے تھے۔ اور اب تو آنے والے لوگوں کی بابت ہم سے دریافت کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ پولیس کا ایک کانسٹیبل یہاں رہتا ہے جو آنے والے مہمانوں کی ایک فہرست تیار کر کے اپنے افسروں کے پاس بھیجا کرتا ہے۔ ان کے کاغذات کو جاکر کوئی دیکھ لے تو اُسے معلوم ہو جاوے گا کہ یہ پیشگوئی کس شان اور عظمت سے پوری ہو رہی ہے یہاں تک کہ ہر شخص آنے والا اس پیشگوئی کو پورا کرتا ہے۔ اسی طرح اس کا دوسرا حصہ

یَاْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ۔

دیکھ لو کہاں کہاں سے تحفے تحائف چلے آتے ہیں اور روپیہ آتا ہے اس کے لیے بھی ڈاک خانہ کے کاغذات اور محکمہ ریلوے کے رجسٹر شہادت کے لیے کافی ہو سکتے ہیں۔ اب ان نشانوں کا ذرا مسیح کے نشانوں سے مقابلہ تو کر کے دکھائو۔ وہاں تو یہودی دُہائی دیتے ہیں کہ ہم نے کچھ بھی نہیں دیکھا۔ اگر یہودی دیکھتے تو کیوں انکار کرتے اور یہاں مخالف تک اس بات کے گواہ ہیں اور صدہانشان اس قسم کے ہیں جن کو اگر تفصیل کے ساتھ بیان کیا جاوے تو کئی کتابوں کی ضرورت پڑے۔

تیسرا شِق مسیح کے صعود کے متعلق یہ ہو سکتا ہے کہ ان کی غرض فرار کی تھی۔ یہ بالبداہت باطل ہے ۔کیا زمین پر کوئی جگہ نہ تھی۔ اور

ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَ الْمَسْكَنَةُ (البقرۃ : 62)

کے مصداق یہودیوں سے پھر اتنا خوف ہوا کہ پہلے آسمان پر بھی نہ ٹھہر سکے۔ غرض جس پہلو سے اس مسئلہ کو دیکھا جاوے یہ بالکل غلط ہے۔ ایک ہی صورت ہے کہ انہوں نے اپنی طبعی موت سے جان دی اور پھر دوسرے مقربوں کی طرح خدا نے ان کا رفع کر دیا۔ بغیر اس کے اور کوئی صورت ایسی نہیں جو اعتراض سے خالی ہو۔

(ملفوظات جلد3صفحہ364تا368۔ایڈیشن 1984ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button